23/12/25

مولانا رومی کی جمالیات اور شکیل الرحمن،مضمون نگار: امانت اللہ

 اردو دنیا،جون 2025

اردو ادب کی دنیا میں کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو اپنے علم، فن اور فہم کی بنیاد پر ایک عہد کی حیثیت رکھتی ہیں۔ پروفیسر شکیل الرحمن ایسی ہی ایک نابغۂ روزگار شخصیت کا نام ہے، جنھوں نے ادب، تنقید، فلسفہ اور جمالیات کے میدان میں اپنی انفرادی شناخت قائم کی۔ ان کی تحریریں نہ صرف علمی وقار کی حامل ہیں بلکہ فکری بالیدگی اور جمالیاتی نزاکت کا حسین امتزاج بھی پیش کرتی ہیں۔

اردو تنقید کی تاریخ میں پروفیسر شکیل الرحمن کا مقام غیر معمولی ہے۔ ان کی تنقیدی بصیرت، علمی ژرف نگاہی اور فکری گہرائی نے اردو تنقید کو ایک نیا اسلوب، نیا زاویہ اور نئی سمت عطا کی ہے۔ انھوں نے نہ صرف اردو ادب کے بڑے فنکاروں پر گہرے مطالعے کے بعد اہم کام کیا بلکہ فارسی ادب کی عظیم شخصیات کو بھی اپنی فکری کاوشوں کا مرکز بنایا۔ مولانا رومی کی جمالیات پر ان کی گراں قدر تصنیف اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو نہ صرف جمالیاتی تنقید کا شاہکار ہے بلکہ مولانا رومی کے روحانی اور فکری نظام کو ایک وجد آفریں انداز میں قاری کے سامنے پیش کرتی ہے۔ شکیل الرحمن کا اندازِ تنقید روایت سے جڑا ہوا ہونے کے باوجود جدت، تخلیقی شعور اور فکری عمق سے لبریز ہے۔

پروفیسر شکیل الرحمن نے’مولانا رومی کی جمالیات ‘ لکھ کر دنیائے تنقید کو ایک نئی بلندی عطا کی اور اس سے بجاطور پر دنیا بھر کے ناقدین کو استفادہ کا موقع تو ہاتھ آیا ہی، ساتھ ہی کچھ ایسے نکات بھی سامنے آئے جو اس سے پہلے سامنے نہیں آئے تھے اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ مولانا رومی کو جو جمالیاتی آسودگی حاصل تھی اس کو اجاگر کر کے شکیل الرحمن نے قارئین اور ناقدین کی تشنگی میں اضافہ کر دیا۔

مثنوی کے حوالے سے شکیل الرحمن نے مولانا رومی کی جمالیات کا جس عمق اور گہرائی سے تجزیاتی مطالعہ پیش کیا وہ زریں حروف میں تحریر کیے جانے کے قابل ہے۔

شکیل الرحمن نے مولانا رومی کی جمالیاتی وحدت اور انسانی رشتوں کی معنویت کو بہت احتیاط کے ساتھ اور حسین و جمیل پیرائے میں سجا کر قاری کے سامنے پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔

مولانا رومی کی جمالیات‘ کا مطالعہ کرنے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوتا کہ پروفیسر شکیل الرحمن نے اس میں یہ بات کس خوش اسلوبی کے ساتھ واضح کر دی ہے کہ مولانا رومی کے کلام میں جمالیاتی تجربے آفتاب، روشنی، نور اور حرکت کے ان گنت پیکروں کے ساتھ ابھارے گئے ہیں۔

مولانا رومی کی جمالیات کو انھوں نے جدا گانہ زاویہ نگاہ سے دیکھا ہے، ساتھ ہی انھوں نے مولانا رومی کے تبحر علمی اور ان کی آفاقی شخصیت پر بھی سیر حاصل بحث کی ہے اور مولانا کے فلسفہ آدمیت، فلسفہ مذہب، فلسفہ حسن و عشق اور فلسفہ علم و حکمت پر انتہائی عرق ریزی سے روشنی ڈالی ہے۔ شکیل صاحب لکھتے ہیں:

’’مولانا رومی نے مادی زندگی کی حقیقتوں اور وجود کے روحانی پہلوؤں کو سمجھنے کے لیے علم کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ علم کے بغیر زندگی کا عرفان حاصل نہیں ہو سکتا،ذہنی اور روحانی سکون حاصل نہیں ہوسکتا، بصیرت پیدا نہیں ہو سکتی، حقائق کو دیکھنے اور پہچاننے کے لیے وژن میں کشادگی نہیں آسکتی۔ زندگی کے تعلق سے نئی دریافتوں کی لذت نہیں مل سکتی۔ وہ ذہنی اور قلبی سکون حاصل نہ ہوگا جس سے روحانی انبساط حاصل ہو۔1

مولانا رومی نے صوفیانہ نقطۂ نظر سے تو کام لیا ہے، مگر ان کے نزدیک بے رنگی اور بے رسی کبھی نہیں آئی۔ وہ جمالیات کے مختلف پہلوؤں پر اپنی نظر مرکوز رکھتے ہیں۔ بے رنگی اور بے نوری مولانا رومی کے یہاں کبھی جگہ نہیں پاسکیں، شکیل الرحمن نے مولانا رومی کی ان خصوصیات کو بہت باریکی سے جانچا پرکھا اور ان کے نظریات کو سمجھنے میں انتہائی دقت نظر سے کام لیا۔ مثنوی مولانا روم اور ان کی غزلیات کو جمالیات کی کسوٹی پر پرکھا اور باریک بینی سے ان کا جائزہ لیا۔ مثنوی مولانا روم کا کبیر، را بندر ناتھ ٹیگور، مولانا شبلی نعمانی، علامہ اقبال، فیاض احمد اویسی، محمد ناظر عرشی اور عبد الماجد یزدانی و غیرہم نے بھی باریک بینی سے جائزہ لیا ہے، ان کی تشریحیں کی ہیں۔ خلیفہ عبدالحکیم نے مثنوی مولانا روم کی انگریزی تشریح کی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مولانا شبلی اور علامہ ا قبال کے بعد شکیل الرحمن نے مولانا رومی کے متعلق جو نظریہ پیش کیا ہے اور مولانا رومی کی جمالیات کا جس گہرائی میں ڈوب کر تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے وہ سنہرے الفاظ میں تحریر کیے جانے کے قابل ہے۔ شکیل الرحمن نے مولانا رومی کی مثنوی میں پوشیدہ خزینے نکالنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ انھوں نے مثنوی کے یوسف علیہ السلام اور زلیخا  والے حصے پر نہایت دلفریب اور دلکش انداز میں تبصرہ کیا ہے وہ لکھتے ہیں:

’’یہ حصہ مثنوی مولانا روم کے بہترین حصوں میں ایک ہے۔ شاعری کا خوبصورت نمونہ تو ہے ہی اس سے عورت کی نفسیات کا ایک پر اسرار پہلو بھی نمایاں ہوتا ہے۔‘‘

پروفیسر شکیل الرحمن نے مولانا رومی کے اشعار کی تشریحات ایسے اچھوتے انداز میں کی ہے کہ انھیں پڑھتے ہی قاری کے دل و ذہن کے دریچے بے اختیار کھلنے لگتے ہیں۔ مولانا رومی کے ایک شعر کا ترجمہ کچھ اس انداز میں کیا ہے:

قسم ہے اللہ کی میں عبادت کرتے ہوئے یہ نہیں جانتا کہ میرا کوئی امام آگے کھڑا ہے یا نہیں اور رکوع کا اختتام ہو گیا۔ اور شعر کی تشریح ملاحظہ کیجیے:

’’اے اللہ تو اپنی ذات میں تو نہ یہ ہے اور نہ وہ ہے۔ تیری ذات وہموں سے بھی آگے ہے۔‘‘2

مولانا رومی کے اس طرح کے اشعار کے بارے میں شکیل الرحمن کا یہ کہنا حقیقت سے کس قدر ہمکنار ہے کہ مولانا رومی کی روحانی تعلیم سے انسان کے ذہن کا کوئی نہ کوئی دریچہ کھلتا ہے اور جو ٹھنڈی اور لطیف ہوائیں ملتی ہیں ان سے بڑی جمالیاتی آسودگی ملتی ہے۔ شکیل الرحمن نے مولانا رومی کی جمالیات پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کی غزلیات سے بھی استفادہ کیا ہے۔ مولانا رومی کی غزلیں نہ صرف فارسی شاعری بلکہ عالمی شاعری کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ پروفیسر شکیل الرحمن نے مولانا رومی کی غزلیات پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کی غزلوں کی بھی تشریح کی ہے۔ مولانا رومی کی غزلیات کے بارے میں ان کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیے:

’’وہ غزل کے ایسے منفر د شاعر ہیں جو اپنے حسی اور جمالیاتی تجربوں سے قاری کے احساس جمال کو متاثر کرتے ہیں۔ قاری کے جمالیاتی وژن میں ایسی کشادگی پیدا کرنا چاہتے ہیں جس سے وہ اوپر اٹھے اور شاعر کے ان تجربوں کو چھولے جو تصوف کی جمالیات کے رسوں سے لبریز ہیں۔‘‘3

مولانا رومی کی شاعری میں رنگ و نور کا ایسا حسین امتزاج ہے جس کو سمجھنا اور اسے خوبصورتی کے ساتھ قاری کے سامنے پیش کرنا انتہائی دشوار کام تھا مگر شکیل الرحمن نے اس چیلنج کو نہ صرف قبول کیا بلکہ مولانا رومی کی شاعری سے ایسے عطر کشید کئے جو کسی اور کے یہاں دور دور تک نظر نہیں آتے۔ جمالیات کا موضوع اتنا جامع اور حسین ہے کہ وہ اپنے اندر ایک کا ئنات کو سمیٹے ہوئے ہے اور شکیل الرحمن جو کچھ تخلیق کرتے ہیں اس کا معیار اتنا اعلیٰ اور وقیع ہے کہ اسے سمجھنے اور غور کرنے پر یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ شکیل الرحمن نے مولانا رومی کی روح کو اپنے اندر جذب کر لیا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مولانا رومی کے تصوف کی روح ان کے اندر حلول کر گئی ہے۔ تصوف کے اسرار اور اس کے جمالیاتی پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:

’’تصوف میں تلاش و جستجو کا سلسلہ قائم رہتا ہے، حسی تجربوں کو پانے یا نئے تجربوں کو حاصل کرنے یا دھندلکوں میں ڈھونڈنے کا عمل جاری رہتا ہے، باطن میں نغمہ موجود رہتا ہے تغزل یا شعریت کا رس موجود ہوتا ہے۔ آہنگ پیدا ہوتا رہتا ہے اس کی جمالیات اور اس کی رومانیت اپنی تمام تر شدت کے ساتھ ہر دم اور ہر لمحہ موجود رہتی ہے جس کی وجہ سے سرمستی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، تصوف نغمہ بن جاتا ہے۔ شاعری بن جاتا ہے۔ پورے وجود کو نئے نئے سروں اور نئے نئے آہنگ سے آشنا کرتا رہتا ہے، باطنی سطح یا معصومیت Innocence  کی سطح پر صوفی عشق کی کیفیت کو خوب جاننے اور بوجھنے لگتا ہے اس لیے کہ یہ اس کے اپنے عشق کی کیفیت ہوتی ہے عشق کی کیفیت سے سرشار ہوتے ہی وہ معصومیت کی اس خوب صورت و لکش اور نازک سطح پر جشن منانے لگتا ہے۔ اللہ اور اس کے درمیان کوئی شے حائل نہیں ہوتی خود کلامی یا مونولوگ اپنے بہترین سروں کو لیے ہوتا ہے۔ تصوف وجود اور زندگی کے حسن میں پگھل جانے کا نام ہے۔‘‘4

شکیل الرحمن فارسی شعرا میں مولانا رومی سے جس قدر متأثر ہیں  اس کا واضح ثبوت انھوں نے پنی  تصنیف ’مولانا رومی کی جمالیات‘‘ میں پیش کیا ہے۔ مولانا رومی کو ان کی مثنوی معنوی اور دیوان شمس تبریزی کی وجہ سے بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے، یہی وجہ ہے کہ مغربی فنکاروں نے بھی انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے اور ان مثنوی کے تراجم بھی مغربی زبانوں میں کئے ہیں۔ شکیل الرحمن نے مولانا رومی کے افکار و خیالات کی تشریح بہت ہی اچھوتے انداز میں کی ہے اس کے لیے انہوں نے مختلف عنوانات کا سہارا لیا ہے اور وہ  اس طرح ہیں: تصوف کی جمالیات اور اس کی رومانیت- دو امتیازی جہتیں، مولانا رومی- فنکار معلم، عشق کا جمال -عشق کی رومانیت، نور اور تحرک کا جمال، تصوف کی جمالیات دو بڑے سرچشمے، حضرت موسی۔ ایک معنی خیز تہہ دار آرچ ٹائپ، جمالیات رومی میں حضرت یوسف ایک جمالیاتی پیکر اور آرچ ٹائپ، مولانا رومی کا داستانی مزاج  وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

شکیل الرحمان نے مولانا رومی کے فکری جہات پر جس خوش اسلوبی سے روشنی ڈالی ہے وہ انہی کا خاصہ ہے۔ ان کی تمثیل کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’مولانا رومی کی تمثیلوں میں فکشن اور شاعرانہ دروں بینی (Poetic Vision) کی وجہ سے تخلیق کی جمالیاتی سطح بلند ہوگئی ہے۔ انھوں نے کہانیاں مختلف ذرائع سے حاصل کی ہیں۔ بعض کہانیاں بہت پرانی ہیں۔ ہندوستان کی بھی بعض کہانیاں ملتی ہیں (کلیلہ و دمنہ)۔ قرآن حکیم اور احادیث اور پیغمبروں کے واقعات بھی بہت بڑا ذریعہ ہیں... بنیادی مقصد Known کے تئیں بیداری پیدا کرتے ہوئے مولانا رومی آرٹ کو تخلیقی اسرار (Creative Mystry)  بنا دیتے ہیں.... مولانا رومی کے کلام میںخشک فلسفیانہ نکات نہیں ملتے۔ مولانا نے تصوف کی جمالیات میں اپنی فکر و نظر سے بڑی کشادگی پیدا کی ہے اور اس کی رومانیت کونئی جہتیں بخشی ہیں۔‘‘5

مولانا کی غزلوں کے حوالے سے شکیل الرحمن نے لکھا ہے کہ ان کے یہاں پیکر اور استعارے جانے پہچانے ہوتے ہیں لیکن ان میں روحانی ارتفاع کا وصف ہوتا ہے۔ ان کی غزلوں میں لفظوں کے تکرار سے ایک عجیب سی تحرک آمیز مسرت حاصل ہوتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’لفظوں کے دہرائے جانے سے وجد طاری ہونے لگتا ہے اس عمل کے تحرک کا تعلق روحانی کیف سے ہے۔ لفظوں کے تکرار سے جو آہنگ پیدا ہوتا ہے اس سے ایک لذت آمیز فضا بن جاتی ہے۔‘‘6

اس ضمن میں غزلوں کے کچھ مصرعے بھی بطور مثال دیکھنے کو ملتے ہیں۔

اییار ما، دلدار ما رونق بازار ماباغ مست و راغ غنچہ مست و خار مست

کعبہ اسرا منم جبہ و دستار منم اے جان من اے جان من، سلطان من سلطان من

شام منم روز منم عشق جگر سوز منم من این نقاش جادو را نمیدانم نمیدانم

یہاں ظاہری طور پر غزل کے ان اشعار میں لفظوں کے تکرار سے ایک خاص قسم کا آہنگ پیدا ہو رہا ہے اور ایک پر کیف فضا قائم ہو جاتی ہے۔

شکیل الرحمن نے مولانا رومی کی عبقری شخصیت اور ان کی شاعری میں پوشیدہ جمالیاتی پہلوؤں کا جائزہ ہی نہیں لیا بلکہ مولانا رومی کی شخصیت میں مضمر صوفیانہ و جمالیاتی اسرار و رموز کو پوری طرح سمجھا ہے اور ان کی عقدہ کشائی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے۔ اس لیے کوئی قاری شکیل الرحمن کے ذہن رسا کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا اور سچی بات یہ ہے کہ انھوں نے مولانا رومی کی مثنوی کی تشریح اس طرح کی ہے الفاظ گوہر نایاب اور قطرے دریا بن گئے ہیں۔ انھوں نے مولانا روم کے کلام بلاغت نظام سے تصوف کی مختلف جہتوں کا انکشاف بڑی خوبصورتی سے کیا ہے۔

دور جدید میں مولانا روم کی مثنوی کی تفہیم اور ان کی شخصیت کے ساتھ ان کے صوفیانہ افکار و تصورات کی گیرائی اور ان کی جمالیاتی جہتوں سے کما حقہ آگاہی حاصل کرنے کے لیے شکیل الرحمن کی تشریحات و تعبیرات سے استفادہ ضروری ہے۔

حواشی

.1       مولانا رومی کی جمالیات، 2002،نرالی دنیا پبلی کیشنز نئی دہلی، ص،19-20

.2       ایضا،ص،110

     .3       ایضا،ص،164

.4       ایضا،ص،127-28

.5       ایضا،ص،26-27

.6       ایضا،ص،165

Amanatullah Arfi

Research Scholar, Dept of Urdu

Delhi University

Delhi- 110007

Mob.: 7982609375

mdamanat71@gmail.com


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

مولانا رومی کی جمالیات اور شکیل الرحمن،مضمون نگار: امانت اللہ

  اردو دنیا،جون 2025 اردو ادب کی دنیا میں کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو اپنے علم، فن اور فہم کی بنیاد پر ایک عہد کی حیثیت رکھتی ہیں۔ پروفیسر ش...