1/10/19

اردو مثنوی: تعارف اور تفہیم مضمون نگار ۔ خان محمد رضوان



اردو مثنوی: تعارف اور تفہیم



خان محمد رضوان

ارد وشاعری میں مثنوی نگاری کا فن فارسی سے آیا ہے۔ لفظ ’مثنوی‘ گرچہ عربی زبان سے ماخوذ ہے مگر عربی ادب میں اس صنف پر کوئی خاص کام نہیں ہوا۔ فن مثنوی میں ہیئت اور موضوع کے اعتبار سے دیگر فنون لطیفہ کے مقابلے میں بہت زیادہ وسعت ہے۔ بلکہ غزل کے بعد شعرا نے مثنوی میں سب سے زیادہ طبع آزمائی کی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس میں داستان حیات بیان کرنے کے ہزار امکانات موجود ہیں۔ اور شاعرانسانی سماج و معاشرہ کے تمام کیف و کم کی عکاسی اس فن میں بہ آسانی کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میدان شاعری میں اسے بے پناہ مقبولیت حاصل رہی ہے۔اس ضمن میں ڈاکٹر گیان چند جین لکھتے ہیں:
قصیدہ، غزل اور مرثیہ کے برخلاف اس کا موضوع ہمہ گیر اور لا محدود ہے۔ ایک مثنوی میں جنگ و جدل کی کڑک،حسن وعشق کے گیت، پیری کا پند نامہ اورماوراکےاسراربیان کیے جاسکتے ہیں۔
(ردو مثنوی شمالی ہند میں جلد اول،ص68، ڈاکٹر گیان چند جین، انجمن ترقی اردو ہند دہلی،1986)
یہ حقیقت ہے کہ مثنوی بیانیہ شاعری کی معراج ہے، اس میں شاعر اپنے عہد، سماج، سیاسی، معاشی اور معاشرتی زندگی کو زبانی اور خوش کلامی سے ظاہر کرتا ہے۔ ظاہراً دیومالائی قصوں کی داستان ہوتی ہے، مگر اس کا تار و پود اس عہد کی سماجی زندگی کے خام مواد سے وجود میں آتا ہے۔ اس میں صرف واقعات کا بیان یا خارجی مناظر کی ہی عکاسی نہیں ہوتی ہے بلکہ انسانی جذبات وکیفیات اور احساسات کا بھی عکس نمایاں ہوتا ہے۔ اگر مثنوی کی شہرت بام عروج کوپہنچی اور خوب پھلی پھولی اورادب میں اس کا ایک اہم مقام طے پایا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ صنف سہل ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ یہ صنف کار آمد ہے اور اس میں شاعر ہر قسم کے جذبات وواقعات اور مناظر کو بہ آسانی پیش کرسکتا ہے۔ شاعرانسانی زندگی اور اس کی تہذیب و ثقافت کی داستان کو جس خوبی سے اس میں پیش کرسکتا ہے کسی اور صنف میں نہیں کرسکتا۔ اس تعلق سے
الطاف حسین حالی لکھتے ہیں:

مثنوی، اصناف سخن میں سب سے زیادہ مفید اوربہ کار آمد صنف ہے۔کیونکہ غزل یا قصیدے میں اس وجہ سے کہ اول سے آخر تک ایک قافیے کی پابندی ہوتی ہے، ہر قسم کے مسلسل مضامین کی گنجائش نہیں ہوسکتی۔
.....
جتنی صنفیں فارسی اوراردو شاعری میں متداول ہیں، ان میںکوئی صنف، مسلسل مضامین بیان کرنے کے قابل، مثنوی سے بہتر نہیں ہے۔ یہی وہ صنف ہے جس کی وجہ سے فارسی شاعری کو عرب کی شاعری پرترجیح دی جاسکتی ہے۔ عربی کی شاعری میں مثنوی کا رواج نہ ہونے یا نہ ہوسکنے کے سبب تاریخ یاقصہ یا اخلاق یا تصوف میں بظاہر ایک کتاب بھی ایسی نہیں لکھی جاسکتی جیسی فارسی میں سیکڑوں بلکہ ہزاروں لکھی گئی ہیں۔اسی لیے عرب، شاہ نامے کو قرآن العجم کہتے ہیں۔ اوراسی لیے مثنوی معنوی کی نسبت ”ہست قرآن دربیان پہلوی“ کہاگیا ہے۔
(مقدمہ شعر و شاعری، ص202،203، خواجہ الطاف حسین حالی، مکتبہ جامعہ دہلی،2013)
اس صنف کی مقبولیت، افادیت اہمیت ا ور وسعت موضوع اوربیان کی وجہ سے اردو کے تقریباً بیشتر کلاسیکی غزل گو شعرا نے مثنوی کہی ہے، جب کہ دکن کے زیادہ تر شعرا اپنی شناخت مثنویوں کی وجہ سے ہی رکھتے ہیں۔ جیسے نظامی کی ’کدم راﺅ پدم راﺅ، سے لے کر سراج اورنگ آبادی کی ’بوستان خیال‘ تک کئی مثنویاں مثال کے طور پر پیش کی جا سکتی ہیں۔ وجہی کے علاوہ غواصی، مقیمی، ملک، خوشنود، نصرتی، ابن نشاطی،طبعی، جنیدی، فائز اورہاشمی وغیرہ کی شناخت مثنویوں ہی کی وجہ سے ہے۔ اسی طرح شمالی ہند میں افضل کی ’بکٹ کہانی‘ سے مثنوی کی تاریخ کی ابتدا ہوتی ہے۔ مگر جب اٹھارہویں صدی میں اردو شاعری کاباقاعدہ آغاز ہوتا ہے توبیشتر شعرا مثنوی لکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فائز، حاتم اور آبرو کے بعد سودا، میر اور میرحسن صنف مثنوی کی تاریخ نورقم کرتے ہیں۔ اگرہم اٹھارہویں اورانیسویں صدی پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ شعرا کی ایک بڑی تعداد نے اس صنف میں طبع آزمائی کی ہے ان میں مصحفی، انشا، جرا ¿ت، میراثر، رنگین، نسیم، مومن اور مرزا شوق اہم ہیں۔ اس کی خاص وجہ یہی رہی ہے کہ صنف مثنوی میں اظہار کی بے پناہ گنجائش ہے۔ اس تعلق سے مولانا شبلی لکھتے ہیں:
انواع شاعری میں یہ صنف تمام انواع شاعری کی بہ نسبت زیادہ وسیع،زیادہ ہمہ گیر ہے۔ شاعری کے جس قدر انواع ہیں سب اس میں نہایت خوبی سے ادا ہوسکتے ہیں۔جذبات انسانی، مناظر قدرت، واقعہ نگاری، تخیل ان تمام چیزوں کے لیے مثنوی سے زیادہ کوئی میدان ہاتھ نہیں آسکتا۔ مثنوی میں اکثر کوئی تاریخی واقعہ یاقصہ بیان کیا جاتا ہے۔ اس بنا پر زندگی اورمعاشرت کے جس قدر پہلو ہیں سب اس میں آجاتے ہیں۔
(مولانا شبلی کا مرتبہ اردو ادب میں، عبداللطیف اعظمی، شبلی اکادمی، قرول باغ، دہلی، مئی 1945، ص 303)
مولانا حالی نے صنف مثنوی کوکارآمد اورمفید اسی لیے کہا ہے کہ مثنوی کاحقیقی یاغیرحقیقی بیان اس عہد کی تاریخی اورتہذیبی قدروں کی خوبصورت جھلک پیش کرتا ہے۔ داستان خواہ منظوم ہو یا منثور اپنے عہد کی تہذیبی تاریخ پیش کرتی ہے۔ اگر ہم اٹھارہویں اورانیسویں صدی کی مثنویوں کا بغورمطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ان مثنویوں میں لکھنوی اوردہلوی تہذیب و معاشرت کی عکاسی کی گئی ہے۔ باغ وبہار ہوکہ فسانہ عجائب، انہی کی طرح سحرالبیان اور گلزارنسیم میں بھی ہندوستانی تہذیب وثقافت اورتمدن کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔ میر ہوں یاکہ مصحفی کی مثنویاں یامرزا شوق کی زہرعشق ان تمام مثنویوں میں ہندوستانی تہذیب وثقافت اور اقدارکاگہرا عکس نمودار ہوتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ صنف شاعری میں مثنوی ہی ایک ایسی صنف ہے جس میں مضامین اورموضوعات کاتنوع، مربوط بیانیہ اور خیالات کے مفصل بیان کی گنجائش ہوتی ہے۔ امداد امام اثر نے لکھا ہے:
 ”
مضامین کے اعتبار سے جووسعت اس صنف شاعری کوحاصل ہے کسی اور صنف کو نہیں ہے، ہر طرح کے داخلی اورخارجی مضامین اس میں گنجائش پاتے ہیں....یہ وہ صنف شاعری ہے جس میں شاعر شاعری کاکمال حسب مراد دکھلاسکتا ہے۔
(مومن خاں مومن (مونوگراف)، ص 19، مصنف، ڈاکٹر توقیر احمد خاں، ناشر:اردواکادمی دہلی، 2007-2011)
بہر طور ہماری مثنویاں تہذیب وثقافت اور کلچر کی عکاس ہوتی ہیں۔ مثنوی کے لیے جذبات نگاری، واقعہ نگاری اورمحاکات جزولازم ہیں۔جس کے سہارے شاعر تہذیب کی دل پذیر مرقع کشی کرتا ہے۔
اردو شعروادب میں انیسویں صدی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ کیونکہ انیسویں صدی کے بیچ کا حصہ اردو شاعری کا نقطہ عروج تھا۔ یہ دور اردو شعر و شاعری کا وہ سنہرا دور ہے جس میں ذوق، مومن اور غالب جیسے صاحب فن شعرا جمع ہوگئے تھے اور یہ سچ ہے کہ اسی عہد میں اردو شاعری کو نیا رنگ و آہنگ ملا۔
ان کے علاوہ مظہرجا ن جاناں، درد، نظیر، میر، سودا، ذوق، آتش، ناسخ، انیس، دبیر، میرحسن، شوق، مصحفی، انشا، جرأت خاص تھے۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ مغلیہ عہد میں ایک سے ایک انمول رتن پیدا ہوئے۔ یہ بات دہلی اور دہلی والوں کے لیے باعث فخر ہے کہ گوہر نایاب ان کے دامن میں پناہ گزیں تھے۔
شیخ ابراہیم ذوق (1788-1854)
 
ذوق نے شاعری میں وہ شہرت کمائی کہ آسمان بھی رشک کرے۔ آپ کی زبان صاف، شستہ اورسبک تھی اسی لیے سب محسوس کرتے ہیں کہ ذوق کی شاعری رائے عامہ کی شاعری ہے۔ ان کی شاعری صناعی کی لاجواب مثال ہے۔ ذوق کی شعری عظمت اور شہرت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ ان کی کلیات میں غزلیں، قصائد اور رباعیات موجود ہیں اور دیگر کتب میں بھی ان اصناف کے حوالے سے خوب گفتگو کی گئی ہے۔ تعریفیں بھی کی گئی ہیں اور نقائص کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ اچھی بات تو یہ ہے کہ ادبا نے ایک ایک چیز کی جانب نشاندہی کی ہے اوربتایا ہے کہ ان کی شاعری میں کیا خوبیاں ہیں اوریہ بھی بتایا کہ خامیاں کیا ہیں، مگرادبا نے اپنی تحریروں میں یہ ذکر نہیں کیا ہے کہ ذوق کا مثنوی کے تعلق سے کیا رجحان تھا۔ آیا انھوں نے مثنوی کہی یا نہیں کہی اوراگر نہیں کہی تو اسباب کیا تھے۔ اوراگرکہی ہے توکس حد تک کہی ہے ایسا کسی نے ذکر نہیں کیا ہے۔ کلیات ذوق (اردو) مرتبہ ڈاکٹرتنویر احمد علوی نے اپنے مقدمہ صفحہ 39 میں ذوق کی مثنوی کے صرف 30 تیس اشعار کا ذکر کیا ہے۔ اوران تیس اشعار کو ’اشعار مثنوی‘ کے عنوان سے اسی کلیات کے صفحہ 271 اور 272 میں شامل کردیا ہے۔ باقی پوری کلیات میں مثنوی کے اشعار کا ذکر نہیں ہے۔ اس سے یہی معلوم ہوتاہے کہ ذوق نے مثنوی کے صرف تیس اشعار کہے ہیں۔ ان اشعار کو پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی خاص زبان کا استعمال ان اشعار میں بھی کیا ہے چوں کہ وہ اہل زبان تھے لہٰذا زبان دانی کا جادو اس میں بھی انھوں نے دکھایاہے۔ اس مثنوی کے اشعارسے کئی رنگوں کا عکس نمایاں ہوتا ہے آغاز کے چند اشعار سے ایسا لگتاہے کہ حمد اورنعت کے اشعار میں چند اشعار میں رنگ غزل ابھرتا ہے اور آخر کے باقی اشعار میں محرومی اور محبوب کی بے وفائی کا اظہار معلوم ہوتا ہے۔
ہم ان اشعار کو کسی بھی رنگ میں دیکھیں یااس کا جو عکس بھی ہم محسوس کریں ان تمام عکسوں میں ہماری ہندوستانی تہذیب اور ثقافت کا عکس ہی جھلکتا ہے۔
مومن خاں مومن(1800-1852)
 
مومن طبعاً ذہین واقع ہوئے۔وہ بیک وقت طبیب، شاعر، عاشق، نجوم اور رمل کے جان کا راور موسیقی کے دل دادہ تھے۔ اورشطرنج تو ان کے ذوق جمال کا خاص حصہ تھا۔ وہ باذوق انسان تھے۔ وہ ہر فن مولیٰ تھے۔ کسی شاعر یا ادیب میں بیک وقت اتنی خوبیوں کا پیداہونا بہت مشکل ہے۔ مگر مومن ان تمام فنون پر کمال حاصل کرنے کے ساتھ عشق وعاشقی میں بھی کمال رکھتے تھے اور کئی عشق بھی کیے۔ مومن کے عقیدے کے تعلق سے شکوک وشبہات ظاہرکیے جاتے ہیں جب کہ وہ راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ اسی طرح مومن اردو شاعری میں اپنے کمال فن سے جانے جاتے ہیں۔ مومن کویہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پہلے ایسے شاعر ہیں جنھوں نے صداقت پسندی کو فروغ دیا اور فرسودہ روایات کو توڑا۔ انھوں نے غزل کو حسن و صداقت سے بہر مند کیا اور واردات قلبی کو سچائی اور جرأت کے ساتھ پیش کیا۔ اس بات کا تذکرہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ادبا نے مومن کی شاعری کی تعریف میں آسمان و زمین کے قلابے ملادیے ہیں مگر کسی نے ان کی شاعری کے حالات درج نہیں کیے ہیں کہ انھوں نے شاعری کب کیسے اور کس طرح شروع کی اور ابتدا میں کیسی شاعری کی کیونکہ ان کے اجداداطبا تھے اور وہ بھی نسخہ بنایا کرتے تھے تو آخر شاعر کب بنے یہ ضرور لکھنا چاہیے تھا کیونکہ محمد حسین آزاد کو جو حالی نے مومن کے تعلق سے کوائف دیے ہیں اس میں اس بات کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی گلشن بے خار میں نواب مصطفی خاں شیفتہ نے اس تعلق سے کچھ لکھا ہے۔ ایسی صورت میں یہ مان لینا چاہیے کہ ان کے پاس شاعری کا فن صرف محنت وریاضت سے نہیں یعنی کسی طور پر نہیں آیا تھا بلکہ وہی تھا، فطرت میں خدا نے شاعری شامل کررکھی تھی تو مومن نے غزل، قصیدہ اور مثنوی جیسی صنف میں کمال پیدا کیا، تمکین کاظمی نے اس تعلق سے لکھا ہے کہ:
یہ ماننے کے بعد کہ وہ وہبی شاعر تھے، یہ بھی ماننا پڑے گا کہ انھوں نے بچپن ہی سے شاعری شروع کی ہوگی کیوںکہ جو شخص آٹھ نو سال کی عمر میں عاشقی کرسکتا ہے وہ شاعری بھی کرسکتاہے۔
(حکیم مومن خاں مومن دہلوی کے حالات اور کلام کا تعارف، ص 34، مصنف؛ تمکین کاظمی، ناشر: آندھرا پردیش،ساہتیہ اکیڈمی، حیدرآباد، سنہ ندارد)
دراصل غزل میں عشق کا جو معیار ہے یہیں سے مثنوی میں بھی آیا ہے۔ بہت کم ہی مثنویاں ایسی ہوں گی جن میں عشق کے معاملات کا ذکرنہ ہو۔ جب کہ فراق صاحب کے اس بیان سے حیرت ہونا فطری ہے کہ ”مومن کی کوئی مثنوی یا ان کا قصیدہ عشقیہ نہیں۔“ جب کہ مومن مولوی سید احمد بریلویؒ سے بیعت تھے باوجود اس کے انھوں نے کئی عشق کیے اور جس طرح سے مومن سے اپنی شاعری میں واردات قلبی اور واقعات عشق و محبت کو برتا ہے شاید ہی کسی نے برتا ہو، اور ان کی مثنویوں میں عشق کی روداد طلب کی متقاضی ہے۔ کلیاب مومن میں چھوٹی، بڑی، بارہ مثنویاں ہیں۔ ان مثنویوں میں سات مثنویاں تو ایسی ہیں جن میں صرف عشقیہ آب بیتی بیان کی گئی ہے۔ ان مثنویوں کی تفصیل اس طرح ہے۔
(1)
شکایت ستم، 1231ھ (2)قصہ غم، 1235ھ (3) قول غم، 1236ھ (4) تف آتشیں، 1241ھ (5) حنین مغموم1244ھ، (6) آہ و زاری مظلوم، 1246ھ، یہ چھ مثنویاں وہ ہیں جوبے حد مقبول ہیں، ساتویں مثنوی کے دو جز ہیں۔ جز واول دردحمد، جزو دوم نعت اور مناجاب عاشقانہ کل 308 شعر، مگر نول کشور پریس لکھنؤ کے کلیات مومن میں آخرالذکر کو دو مثنویاں تصور کیا ہے۔جزو اول کا عنوان مثنوی ناتمام ہے اور جزو دوم کو علاحدہ مثنوی مانا ہے۔ جب عبادت بریلوی نے جو کلیات مومن ترتیب دی ہے اس میں انھوں نے اسے ایک مکمل مثنوی مان کر ’بقیہ مثنوی‘ کے عنوان سے درج کیا ہے۔ مومن کی مثنوی کے تعلق سے ڈاکٹر گیان چند نے اپنے ایک مضمون ’مثنویات مومن‘ میں لکھا ہے:
اردو مثنوی نگاری کی تاریخ میں مومن کی اہمیت ان چھہ مثنویوں کی وجہ سے ہے جس میں انھوں نے معاملات عشق کی عمدہ شرح کی ہے۔
(یادگار مومن، صفحہ 138، شائع کردہ اردو مجلس حیدرآباد، مطبوعہ: انتخاب پریس جواہر لال نہرو روڈ، سنہ ندار)
یہ سچ ہے کہ مومن کی مثنوی کی سب سے زیادہ اہم اور قابل لحاظ خصوصیت ان کی حقیقت نگاری ہے۔ انھوں نے واقعات عشق کابیان نہ صرف جرأت مندی سے کیا ہے بلکہ خوبی اور خوبصورتی بھی غضب کی ہے۔ اگر ان کی مثنویوں کی شہرت اتنی نہیں ہے جتنی ہونی چاہیے تو اس میں قصور صرف اور صرف ان کی بوجھل زبان کا ہے۔ کہیں کہیں تو واقعہ عشق کے بیان کو اس قدر طول دیتے ہیں کہ اصل قصہ ہی گم ہوجاتا ہے۔ ویسے جذبات نگاری میں انھوںنے جس خوبی کا مظاہرہ کیا ہے شاید ہی کسی مثنوی نگار نے کیا ہو۔ مومن کی مثنویوں کے مختلف پہلوکا جائزہ لیتے ہوئے ان کی خوبیوں کو آشکار کرتے ہوئے ڈاکٹر سید رفیع الدین نے اپنے مضمون ’مومن کی شاعری میں مذہبی عناصر‘ میں لکھتے ہیں:
مومن نے مثنویاں مختصر اور عشقیہ لکھی ہیں۔ ان میں واردات قلبی کابیان زیادہ ہے جو حقیقت حال کی ترجمانی کرتاہے۔ اس میں شک نہیں کہ صحیح جذبات کی ترجمانی اور محاکات کی نادر مثالیں جو مومن کی مثنوی میں ملتی ہیں وہ نہایت بدیع ہیں اور مومن کی مثنوی نگاری کا یہ پہلو نمایاں اور روشن ہے۔
(یادگار مومن، ص162، شائع کردہ اردو مجلس حیدرآباد، مطبوعہ: انتخاب پریس جواہر لال نہرو روڈ، سنہ ندارد)
یہ سچ ہے کہ مومن کی مثنویاں ادبی اور زمانی دونوں اعتبار سے اہمیت کی حامل ہیں ان میں ہر جگہ اس عہد کا منظرنامہ عشق کی داستان اور تہذیبی ولسانی عکس دیکھنے کو نظر آتا ہے۔ مثلاً ’شکایت ستم‘ یہ مثنوی 1231ھ میں لکھی گئی۔ اس مثنوی کو مومن خاں مومن نے محض سترہ سال کی عمر میں تصنیف کیا جس میں 594اشعار ہیں۔ اس عمر میں ایسی پختہ مثنوی لکھنا صرف کمال فن ہی نہیں بلکہ اعجازفن بھی ہے۔ اس میں وہ کسی نازنین کے گیسو کے اسیر ہوگئے تھے اس کا مفصل بیان ہے۔ اس مثنوی میں عشق کا خوبصورت انداز پیش کیاگیا ہے۔ چوں کہ اس میں انھوں نے شادی کے موقع سے آئی محبوبہ سے چھپ چھپا کرملنے کی عجیب و غریب داستان کو نظم کیا ہے۔ اگر اس کے بیان میں مومن، آسان، سادہ زبان استعمال کرتے اور ثقالت سے گریز کرتے تو ان کا کلام اورزیادہ موثر ہوتاجاتا، باوجود اس کے اس میں جذبات نگاری کمال کی ہے۔ ہجرکی سینہ کا وی، مستورات کے اندیشے، رسوائی کا کھٹکا، طرح طرح کے معاملے اور پھر گھر والوں کا ڈر ان باتوں کوتودلکش اوراچھے انداز میں پیش کیاگیا ہے۔
داغ دہلوی(1803-1908)
داغ دہلوی کا شمار تیرہویں صدی کے نصف اول کے ان اہم شعرا میں ہوتا ہے جس میں مومن، ذوق، غالب اور شیفتہ پیدا ہوئے۔ یہی وہ زمانہ تھا جس میں اردو شاعر ی کو دوبارہ فروغ حاصل ہوا۔ داغ جنھیں مثنوی سے فطری ربط تھا اس جانب خاطر خواہ توجہ نہ دے سکے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے صرف ایک مثنوی ’ فریا د داغ‘ کے نام سے54برس کی عمر میں 1882 میں تخلیق کی جو نہایت دلچسپ اور حسن وعشق کی واردات کاخوبصورت بیانیہ ہے۔
مثنوی فریاد داغ میں اپنے عشق کا حال جو کلکتہ کی ایک مشہور طوائف منی بائی حجاب کے ساتھ ان کوتھا اور رام پور کا بے نظیر کا میلہ دیکھنے کی غرض سے آئی تھی ایک شاعرانہ رنگ میں بیان کیا ہے۔ اس مثنوی کے بہت سے اشعار اعلیٰ درجے کے ہیں اور سادگی اور روانی وعمدگی ان کی قابل داد ہے۔ علی الخصوص عاشق کا معشوق کی تصویر سے تخاطب نہایت دلکش انداز میں بیان کیاگیا ہے۔ مگر بعض جگہ تعیش اور خراب جذبات کی تصویریں متانت اور تہذیب سے گری ہوئی ہیں۔
(تاریخ ادب اردو، ص 370، مصنف:رام بابو سکسینہ، مترجمہ، مرزا محمد عسکری، مطبع منشی نول کشور، واقع لکھنؤ، 1929)
داستان عشق کا بیان داغ کی مثنوی میں کوئی پہلا بیان نہیں ہے، یا یہ پہلی مثنوی نہیں ہے، جس میں عشق واقعات،عشق اورداستان عشق کے علاوہ وہ انجام عشق کا احاطہ کرتی ہو، بلکہ اس سے قبل درجنوں مثنویاں لکھی گئی ہیں، جن میں اس موضوع پر اپنے اپنے طور پر گفتگو کی گئی ہے۔ مثلاً صفیربلگرامی کی فتنہ عشق کو لے لیجیے، تسلیم سہسوانی کی سعدین کو دیکھیے، جنوں رامپوری کی مثنوی مرقعہ ناز کو پڑھیے، مظہر لکھنوی کی ریاض عشق، عروج کی عروج الفت، سید محمد خان حسرتی کی مثنوی نیرنگ الفت اور جعفر کی ولولہ عشق، احسن لکھنوی کی جذبات عشق، ازل لکھنوی کی سحر عشق، مرزا فدا علی خنجر لکھنوی کی مثنوی انجام عشق قابل ذکر ہیں۔ ان مثنویوں کا اگر بغور اور تاریخی مطالعہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ کسی نے کسی کا قصہ لیاتو کسی نے اپنی ذہانت وذکاوت کو بروئے کار لاکر کام یاب تقلید کی۔ یہ تمام مثنویاں فرد واحد کے عشق کا داستانی بیانیہ ہیں۔ اور ان سب کا امتیاز اور وصف شستہ اور بامحاورہ زبان ہے۔ مگر داغ کی مثنوی عشق کی ذاتی داستان تو ضروری ہے مگر اس عشق کا علاقہ ہماری تہذیبی روایت سے جا ملتا ہے۔ ساتھ ہی یہ مثنوی زبان کے اعتبار سے بھی ہماری تہذیب کا آئینہ ہے۔ اس بات پر تقریباً مصنفوں کا اتفاق ہے کہ داغ کی یہ مثنوی ان کی اپنی داستان ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی کا سچا واقعہ قلم بند کیا ہے۔ دراصل یہ واقعہ اس عہد مغلیہ کا ہے جس میں وہ ایک طوائف پر عاشق ہوئے۔ اس طوائف کا نام منی بائی اور تخلص حجاب تھا۔ داغ نے اس میں اپنی واردات قلبی اور عشق کے سچے واقعے کو اس خوبصورتی سے پیش کیا ہے کہ اس عہد کی مکمل تہذیب اور رﺅسا کا وطیرہ اس طور پر بغیر کسی تعجب کے ذہن میں آجاتا ہے کہ ایک عجیب قسم کی طلسماتی دنیا معلوم ہوتی ہے۔ داغ کے بیان نے اس واقعہ میں عجیب و غریب لطف پیدا کردیا ہے۔ جس سے اس عہد بالخصوص دلی اور رامپور کی زبان دانی کا تہذیبی مرقع بھی سامنے آجاتا ہے۔
مثنوی گلزارِ نسیم (1811-1843)
 
پنڈت دیا شنکر نسیم کی مثنوی، گلزار نسیم اردو کی چند اہم مثنویوں میں سے ایک ہے۔ اردو میں جو داستانی مثنویاں لکھی گئی ہیں ان میں قبول عام کا شرف صرف دو مثنویوں میر حسن کی ’سحر البیان‘ اور دیا شنکر نسیم کی ’گلزار نسیم‘ کو حاصل ہے۔ اس مثنوی کی داستان اور قصے کے تعلق سے مختلف باتیں بیان کی جاتی ہیں۔ یہ نہ ایرانی داستان ہے اورنہ ہندوستانی بلکہ اس میں بیان کیے گئے قصے کا تعلق ہند ایرانی روایتوں سے ہے۔
اس قصے کا تعلق دراصل ہندوؤں اور مسلمانوں کے آپسی میل جول کے اثرات سے وجود میں آنے والے قصوں اور داستانوں سے ہے۔ مثنوی گلزار نسیم کا قصہ ’گل بکاولی‘ کے نام سے معروف ہے۔ یہ قصہ نسیم کا طبع زاد نہیں بلکہ قدیم داستانوں کو اردو میں نظم کیا گیا ہے۔ دیا شنکر نسیم نے 1254ھ (1838-39) میں اس داستان کو اردو میں منتقل کیا ہے۔ نسیم اردو میں جب اس قصے کو نظم کررہے تھے تو اپنے سامنے ’مذہب عشق‘ از نہال چند لاہوری 1217ھ کو پیش نظر رکھا یہ عزت اللہ بنگالی کے فارسی نسخے سے ترجمہ ہے۔ 1260ھ میں مطبع میر حسن رضوی سے پہلی دفعہ یہ مثنوی ترمیم و تصحیح کے بعد بمطابق 1844 میں شائع ہوئی۔
بال مکند بے صبر(1820-1890)
بال مکند بے صبر قادرالکلام اور پرگو شاعر تھے۔ ان کے یہاں وسعت بیان بھی ہے اور قدرت زبان بھی،وہ غالب کے شاگرد تو ضرور تھے اور غالب نے ان کی مثنوی پر اصلاح بھی دی مگر اس میں خیالات کی بلندی نہیں پائی جاتی ہے۔ تہہ داری اور احوال بھی اس طرح کے نہیں بیان کیے گئے ہیں جو اعلیٰ شاعری کی پہچان ہوتی ہے۔ باوجود اس کے علامہ عبدالماجد دریابادی لکھتے ہیں :
محاورات پر یہ عبور، روز مرہ پر یہ قدرت، بیان کی یہ سلاست، کیا ہر شاعر کے نصیب میں ہوتی ہے؟
(تلامذہ غالب: مالک رام، طبع دوم، مکتبہ جامعہ دہلی،1984)
ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ اگر کسی تخلیق میں تمام خامیوں کے باوجود کم خوبیاں ایسی ہیں جس کی بنیاد پر وہ تخلیق، تخلیق کے زمرے میں آرہی ہے اور یہ خوبی اس کو زندہ رکھنے اور ہمارے عہد کے لیے لائق اعتنا ہے تو اسے قبول کرلینا چاہیے۔
اسی طرح بے صبر کی ”مثنوی لخت جگر “ بہت ساری خامیوں کے باوجود اہمیت کی حامل ہے۔ اور ایک کامیاب مثنوی ہے اور تقریباً تمام ادباء و محققین نے اس کی ادبی اور زمانی اہمیت کو تسلیم بھی کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس مثنوی کے زندہ رہنے اور اسے یاد رکھنے کے لیے یہی کافی ہے۔
مثنوی لخت جگر‘ منشی بال مکند بے صبر کی واحد یادگار تخلیق ہے، بے صبر 1810 میں پیدا ہوئے اور 1885 میں ان کی وفات ہوئی۔ بال مکند بے صبر بدیع البدائع، نام سے ایک رسالہ نکالتے تھے۔ ان کے بیٹے برہما سروپ نے اس رسالے کے آغاز میں سوانح عمری مصنف کے عنوان سے بے صبر کی ولادت، وفات اور تعلیم وغیرہ کے تعلق سے یہ عبارت لکھی ہے۔
جناب منشی بال مکند صاحب بے صبر، ساکن سکندر آباد ضلع بلند شہر، 1810 میں بمقام سکندرآباد پیدا ہوئے اور پچہتر برس کی عمر میں13 فروری 1885 شیوراتری کو بمقام میرٹھ رحلت فرمائی۔ سولہ برس کی عمر میں فارسی، عربی میں لیاقت کامل حاصل کی اور علوم ریاضی ونجوم وہیئت، منطق اور ویدانت، صوفیہ مت میں بھی دستکاہ بہم پہنچائی۔ بوجہ موزونیت طبیعت خداداد اور بہ صحبت مرزا منشی ہر گوپال تفتہ، کہ ماموں بہ جناب موصوف کے تھے۔ شوق شعر و سخن دامن گیر ہوا۔ آخر کو زانوے ادب بہ خدمت نواب اسداللہ خاں صاحب مرزا نوشہ غالب دہلوی کے تہ کیا۔
( ہندوستانی قصوں سے ماخوذ، اردو مثنویاں، گوپی چند نارنگ، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی، دسمبر2001)
جب کہ مالک رام کے تلامذہ غالب میں اور کالی داس گپتا رضا نے ”غالب کا ایک مشاق شاگرد: بالمکند بے صبر میں 1869 بکرمی کو 1812-13 کے مطابق لکھا ہے اور تقویم کے مطابق یہ درست بھی ہے۔ اب یہ کنفیوژن برقرار ہے کہ آیا برہماسے لکھنے میں غلطی ہوئی یا کاتب سے خطا ہوئی۔ ویسے بے صبر کی تاریخ ولادت اور وفات مختلف محققین نے مختلف لکھی ہے۔
یہ مثنوی 1837 میں لکھی گئی تھی۔ اس کا اول ایڈیشن 1871میں سہارنپور کے مطبع خورشید جہاں تاب نے شائع کیا تھا، اس کے بعد یہ مثنوی نایاب ہے۔
بال مکند بے صبر اپنے ماموں ہرگوپال تفتہ کے توسط سے مرزا غالب کے شاگرد تھے۔ بے صبرکو اس بات پر نہ صرف فخر تھا بلکہ غرور بھی تھا کہ وہ غالب کے بلاواسطہ نہیں بلکہ بالواسطہ ہرگوپال تفتہ کی معرفت سے شاگر دہیں جس کا انھوں نے اپنی شاعری میں اعلانیہ ذکر بھی کیا ہے۔ اور رسالہ ”بدیع البدائع“ میں غالب کے تلمذ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:
بندۂ  نیاز مند بال مکند، المتخلص بہ بے صبر، قوم کائستھ، رہنے والا قصبہ سکندرآباد علاقہ ضلع بلندشہر کا عرض کرتا ہے کہ بعد تحصیل علم درسی ورسمی کے مجھ کو شوق، انشا پردازی اور سخن طرازی کا دامن گیر ہوا اور زانوے تلمذ خدمت حضرت استاذی مولانا مرزا اسد اللہ خاں صاحب غالب دہلوی تہہ کر کے مدتوں خون جگر کھایا۔
(مثنویات شوق، مرتب رشید حسن خان، طباعت، انجمن ترقی اردو ہند، سنہ اشاعت1998)
بے صبر نے ”درشان مجمع کمالات صوری ومعنوی حضرت استاذی جناب مولانا اسد اللہ خاں صاحب غالب دہلوی “ کے عنوان سے نوشہ غالب کی تعریف میں چند اشعار نقل کیے ہیں۔ اس میں بھی بے صبر نے غالب سے شاگردی کا تذکرہ کیا ہے۔ ساتھ ہی اس بات کا بھی تذکرہ ہے کہ میں تفتہ کے سبب سے صاحب رتبہ ہوا ہوں۔ وہ لکھتے ہیں  ۔
میں بھی ہوں فن شعر ے گرد
شاگردوں کا اس کے ہوں میں شاگرد
آپ اس نے ہی، ہوں میں جس کا مداح
دیوان کو میرے دی ہے اصلاح
تفتہ کے سبب بہ خواہش دل
رتبہ یہ ہوا ہے مجھ کو حاصل
غالب کا ہی وہ بھی خوشہ چیں ہے
میں ہوں، کہیں اور وہ یہیں ہے
 
کمال یہ ہے کہ بے صبرنے مستعار اجزا اور قصوں کواس طور پر خوبصورتی سے بیان کیا ہے کہ بیانیہ کا نیا انداز قائم ہوگیا ہے۔ اور قصے کا پرانا پن ظاہر نہیں ہوتا۔ اس طور پر یہ پورا قصہ ہندوستانی قصوں اورکہانیوں کے ضمن میں ایک اہم اضافہ ہے۔ یا اس سلسلے کی اہم کڑی ضرور کہا جاسکتا ہے۔ اس مثنوی کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ غالب نے اس پر اصلاح دی ہے، اس طور پر یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ غالب کی نظر سے مثنوی کے گزر جانے کے بعد اب کسی طرح کی کمی کا احساس نہیں ہونا چاہیے یا زبان و بیان کی خامیوں کا شائبہ بھی مناسب نہیں ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ غالب کی شاگردی اور مرزا تفتہ کی صحبت میں بے صبر کی زبان بھی فارسی زدہ ہوگئی تھی۔
خاص بات یہ تھی کہ بے صبر کاتعلق اس معاشرے سے تھا جو تہذیبی قدروں کا امین تھا۔ ان کا خاندان اور خاندان کے بیشتر لوگ اسی قدیم تہذیب کے پیروکار تھے۔                                
علامہ شبلی نعمانی(1857-1914)
شبلی نعمانی ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ وہ بیک وقت ادیب ونقاد، مترجم ومورخ اور سوانح نگار تھے۔ ماہر تعلیم اورمصلح تعلیم تھے،مستند سیرت نگار اور شاعر بھی تھے۔ شبلی نے مثنوی، ’مثنوی صبح امید‘ مسدس، تماشائے عبرت یعنی قومی مسدس، قصائد، قصیدہ اردو، تہنیت شادی جسٹس محمود مرحوم، قصیدہ اردو اور قصیدہ مدح سلطان عبدالحمید خاں کہے ہیں۔ اسی طرح جدید مذہبی اور اخلاقی نظمیں کہی ہیں۔ اسی کے ساتھ سیاسی نظمیں،شذراتی نظم اور مرثیہ بربادی خانمان شبلی، کہی ہیں۔ شبلی کا یہ شعری سرمایہ گوکہ کمیت کے لحاظ کم ہے مگر کیفیت اور زمانی و مکانی قدر وقیمت کے اعتبار سے بے حد اہم اور غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں۔ شبلی کی دیگر تخلیقات کا غائرمطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ شبلی نے کم و بیش ادب کے ہر میدان میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔خواہ ادب اور دینیات کا میدان ہوکہ تاریخ و سوانح کا میدان یا کہ تنقیدات، انھوں نے ان میں بیش بہااضافے کیے ہیں۔ بلکہ جدید طرز تصنیف سے اردو کو آشنا بھی کرایا۔ اس تعلق سے مہدی افادی لکھتے ہیں:
آج کل کے مصنّفین میں علامہ شبلی کو ایک خاص امتیاز اور فوقیت حاصل ہے، جو ان کے ہم عصروں کے حصے میں نہیں آیا۔ ان کے سخت سے سخت حریف مقابل بھی ان کی تحقیقات کی گرد کو نہیں پہنچتے۔ بعضوں نے موضوع سخن ایسا اختیار کیا کہ اگر زمانہ کی رفتار یہی رہی تو زیادہ جیتے معلوم ہوتے، نذیر احمد اپنی لائق رشک عربیت کے ساتھ بھی کچھ یونہی سے رہے....حالی نے مسدس کے ساتھ مقدمہ شعر وشاعری اور حیات جاوید لکھ کر اپنا ٹھکانہ کرلیا۔ شبلی قطعا غیر فانی ہیں۔ آج ہزار صفحے متعدد جلدوں میں ان کے قلم سے نکل چکے ہیں اور جس پر جو کچھ لکھاگیا ہے کسی زبان میں اس سے بہتر مجموعہ خیال موجود نہیں۔
(مولاناشبلی کا مرتبہ اردو ادب میں، عبداللطیف اعظمی، شبلی اکادمی، قرول باغ، دہلی، مئی 1945)
یہ سچ ہے کہ مونالا شبلی نے کبھی اپنے شاعر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ مگر یہ غلط ہوگا اگر یہ کہا جائے کہ وہ شاعر نہ تھے یا صرف تفریح طبع کے لیے شاعری کرتے تھے۔ مولانا نے یہ ثبوت عملی طور پر دیا کہ وہ نہ صرف شاعر ہیں بلکہ ان کی طبع موزوں ہے اور وہ فطری شاعر ہیں۔ جس کی شہادت کلیات شبلی ہے۔ اگر وہ صرف دل بہلانے کے لیے شاعری کرتے تو ان کے مجموعے میں شامل مثنوی، قصیدہ، نظمیں اور وہ خوبصورت غزلیں نہ ہوتیں جو کہ ہےں۔ ایک آدھ غزل کہہ لیتے یا زیادہ سے زیادہ ایک دو نظم کہہ کر مطمئن ہوجاتے۔ مگر نہیں۔ انھوں نے جو بھی کہا، جتنا کچھ بھی کہا، بہت عمدہ، معیاری اور قابل فخر سرمایہ ہے۔ مولانا شبلی نے جو کچھ بھی شعری سرمایہ چھوڑ ا ہے وہ گراں قدر تحفہ ہے گو کہ وہ کمیت میں کم ہے۔چوں کہ ان کی جولانی طبع میں کوئی کمی نہیں تھی ان کی فکر اور ان کا خیال کسی اچھے شاعر سے کمتر نہ تھا۔فنی پختگی بھی فنکاروں سے کم نہ تھی۔ یہ اور بات ہے کہ وہ فطری شاعر تھے اور کم وبیش شاعری کی ہے اور ان کا پورا شعری سرمایہ کلیات شبلی بہ اہتمام مولوی مسعود علی صاحب ندوی میں محفوظ ہے ان کی مثنوی ’ صبح امید‘ کے اشعار کو اگر ہم بغور دیکھیں گے تو اندازہ ہوگا کہ واقعی شبلی فطری اور پیدائشی شاعر تھے۔
Md. Rizwan Khan
Research Scholar, Dept of Urdu
Delhi University
Delhi - 110007
Mob.: 9810862283


 ماہنامہ اردو دنیا،اکتوبر 2019



 قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے


27/9/19

کیفی اعظمی کی معنویت، مضمون نگار: آفاق عالم صدیقی




کیفی اعظمی کی معنویت
آفاق عالم صدیقی

کیفی اعظمی ترقی پسند تحریک کے اکابرین شعرا میں سے ایک تھے۔ ان کی شاعری پربات شروع کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ترقی پسند تحریک کے پس منظر پر تھوڑی سی روشنی ڈالی جائے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا تبدیلی کے نئے امکانات سے روشناس ہوئی اور دنیا کی کئی حکومتوں نے اشتراکی نظام کو قبول کرلیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سائنس و ٹکنالوجی کی برکت سے انسانوں کے سارے خواب سچ ہوتے نظر آنے لگے تھے۔ اس وقت ایشیا میں بھی بیداری کی لہر پیدا ہوچکی تھی۔ لیکن ہندوستان غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ گوکہ آزادی کی جدوجہد شروع ہوچکی تھی۔ لیکن اب تک کوئی واضح لائحہ عمل مرتب نہیں ہوا تھا۔ یوروپی قربت کی بدولت ہندوستان کے نوجوان دنیا میں برسر پیکار انقلابی تحریکات سے نہ صرف یہ کہ واقف ہوچکے تھے ، بلکہ ذہنی طور پر ان تحریکات سے قربت بھی محسوس کررہے تھے۔ لیکن عملی اقدام کا طریقہ کار ابھی تک متعین نہیں ہواتھا۔ اس لیے کوئی راستہ بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ ایسی صورت حال میں گاندھی جی اپنے بے پناہ قائدانہ صلاحیت کے ساتھ ہندوستان کے افق پر نمودار ہوئے اور انہوں نے اہل وطن کو قومیت کانعرہ دے کر اپنا آندولن شروع کردیا۔ گاندھی جی اور ا ن کے رفقا کار کی کوشش سے دھیرے دھیرے ہندوستان میں آزادی کی تحریک ایک مثبت سمت میں پیش رفت کرنے لگی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں عام بیداری کی لہر پیدا ہوگئی۔ ادھر 30 19 کے بعد ایک بار پھر فسطائی قوتوں نے زور پکڑ لیا اور قہرناکی کاوہ منظر پیش کیا کہ انسانیت درد سے کراہ اٹھی۔ اس وقت دنیا کے گوشے گوشے میں جہاں کہیں بھی امن، مساوات اور آزادی کے متوالے تھے ، وہ صف آرا ہوگئے اور ثقافت بچاﺅ کی مہم شروع ہوگئی۔ یہی وہ مہم تھی جس کی برکت سے دنیا کی تمام زبانوں میں ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا۔
جب ہندوستان میں ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا تو اس وقت ہندوستان آزادی کی جدوجہد میں لگاہوا تھا اور اس کی ساری قوتیں آزادی کے حصول کی کوشش میں صرف ہورہی تھی۔ ایسے حالات میں ادب وفن کا ان اثرات سے بچنا ناممکن تھا، چنانچہ اس عہد کا سارا ادب آزادی کی جدوجہد کا آئینہ بردار بن گیا۔ اس عہد کے زیادہ تر فنکار جاگیر دارانہ نظام کے پروردہ تھے ۔ اس لےے ان کی شخصیت اور مزاج میں بھی زندگی کی کیف آور رنگینی اور رومانیت رچی بسی ہوئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی پسندی کے ابتدا ئی اعہد کے سارے فنکاروں کے یہاں رومانیت کا غلبہ پایاجاتا ہے۔ اگر ہندوستان میں ترقی پسندی کے اس جوش وخروش اور شوق واخلاص سے پروان نہیں چڑھایاجاتا تو بہت ممکن تھا کہ اس عہد کے بیشتر فنکار رومانیت کے شکار ہوکر رہ جاتے اور فکری وعملی فراریت کا ایسا نمونہ پیش کرتے کہ خوش آئند زندگی کا خواب ہی رہ جاتا۔ یہ ترقی پسند تحریک کا بہت بڑا کارنامہ ہے کہ اس نے جاگیر دارانہ نظام کے پروردہ رومانی فنکاروں کو زندگی کے حقیقی دھارے سے جوڑا اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو ارضی صداقت سے ہم آہنگ کرکے ملک اور عوام کے مسائل کا ترجمان بنایا۔
یہی رومانی فنکار جو اپنی تخلیقیت خیزی کی ساری قوتیں رومانی جذبات کی عکاسی میں صرف کررہے تھے۔ جب پلٹ کر حب الوطنی کے ساز پر انقلاب وبغاوت کے رجز گانے پر آمادہ ہوئے تو جوش عمل کا ایسا ولولہ پیدا کردیا گیا کہ انگریزی سامراجیت کے ایوان لرز اٹھے اور آخر کا ر انہیں ہندوستان چھوڑنا پڑا۔
کیفی اعظمی جدوجہد آزادی کے نغمہ سراﺅں کے آخری سرتاج تھے۔ مخدوم اور سردار جعفری کی طرح کیفی اعظمی بھی ایسے فعال، نڈر، اور باحوصلہ شاعر تھے، جنھوں نے غریب ومحنت کش انسانوں کی کسمپرسی اور جدوجہد میں نہ صرف یہ کہ عملی حصہ لیا بلکہ کئی محاذوں پر قائدانہ رول بھی ادا کیا۔ یہ اسی عملی اقدام کی حوصلہ مندی تھی جس نے انہیں تاحیات استقلال سے اپنے موقف پر جمے رہنے کی قوت عطا کی۔
کیفی اعظمی کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ کلی طور پر ایک عوام دوست شاعر تھے۔ وہ عوام سے اٹھے اور تاعمر عوام ہی کی خدمت گزاریوں میں لگے رہے۔ ان کا اپنا ایک واضح نظریہ تھا۔ وہ تخلیق شعر کے لیے اپنا ایک معیار وضع کرچکے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ خود اپنی وضع کردہ کسوٹی پر’ آوارہ سجدے‘ تک پہنچنے کے بعد ہی کھرے اترے۔ ان کی تخلیقی سوچ کے سارے سوتے مادیت اور رومانیت کے چشمے سے پھوٹے ہیں۔ لیکن ہم رومانیت کو ان کی تخلیق سے الگ کرنے کے بعد بھی (جسے انھوں نے خود بھی بعد میں الگ کردیا تھا) یہ کہہ سکتے ہیں کہ تصوراتی اور رومانی افکار وخیالات سے مادی افکار وخیالات زیادہ مستحسن ہوتے ہیں۔ کیونکہ رومانیت خود تعیشی وخود فریبی اور ناآسودہ احساسات کی جھوٹی تسکین کا سبب بنتی ہے۔ وہ بھی آسودگی کی صورت میں۔ جبکہ مادی افکار سے قوم وسماج کے تمام تر سروکار کو تقویت ملتی ہے اور اس کی برکت سے سماج ومعاشرے میں اصلاح وفلاح اور خوشحالی کی نئی راہیں نکلتی ہیں اور تہذیب وثقافت کی ترقی کے نئے باب کھلتے ہیں۔ ساتھ ہی زندگی خوب سے ہے خوب تر کہاں کی جستجو میں شاد کام ہوتی ہے۔معین احسن جذبی کا ایک شعر ہے:
جب جیب میں پیسے بجتے ہیں جب پیٹ میں روٹی ہوتی ہے
اس وقت یہ ذرہ ہیرا ہے اس وقت یہ شبنم موتی ہے
اور سچ بھی یہی ہے کہ جہاں افلاس کی ستم کاری ہو،بھوک بیماری اور ماراماری ہو اور بے روزگاری ہو، فرقہ وارانہ منافرت کی آتش باری ہو، استحصالی نظام کی شاطرانہ ریاکاری ہو۔ مفاد پرستوں کی زر خرید سیاست کی کینہ پرور مکاری ہو۔ ہر سو ظلم کی چکی میں پستی عوام کی آہ وزاری ہو، یعنی موت آسان اور زندگی بھاری ہو وہاں ہم ایک صحت مند، آسودہ، پرامن اور مہذب زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ یہی وہ صورت حال تھی جس کی وجہ سے امن، مساوات اور آزادی کے متوالے ترقی پسند فنکاروں نے داخلیت کی سطحی پکاروں پرکان دھرنے سے انکار کردیا اور اپنی ساری تخلیقی توانائی عوام اور ادب کے رشتے کو اٹوٹ بنانے میں صرف کردی۔ ادب اور عوام کا یہی وہ فطری رشتہ تھا، جس نے عوام کو حوصلہ مندی کی زمین پر لا کھڑا کردیا، جس پرچل کر ہم آج زندگی کے بہترین خواب سنجونے کے قابل ہوئے ہیں۔
کیفی اعظمی ایک زمیندار گھرانہ کے چشم وچراغ تھے۔ زمیندارانہ نظام کے پروردہ ہونے کی وجہ سے ان کے مزاج میں بھی رومانیت رچ بس گئی تھی۔ وہ اپنے ماحول اور عہد کے تناظر میں انیس ودبیر کی مرثیہ گوئی سے متاثر ہوکر جب شاعری کے میدان میں سرگرم عمل ہوئے تو ان ہی کے انداز میں خطیبانہ طنطنہ دکھانے لگے۔ اور پھر بہت جلد وہ رومانی شاعری کی نرم وگرم آغوش میں سما گئے۔ ا ن کی رومانی شاعری بڑی پرتاثیر اور دلکش ہے۔ اس میں بلاکی شعریت اور نغمگی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے حسن وعشق کے لوازمات کو اس خوبی اور دلکشی سے شعر میں ڈھالا ہے کہ اس کی اثر انگیزی دوبالا ہوگئی ہے۔ اب تک ان کی شاعری کے تین مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ ’جھنکار‘، ’آخر شب‘اور ’آوارہ سجدے‘۔ ’جھنکار‘ میں جوش کا ساخطیبانہ لہجہ پایاجاتا ہے۔ جو شاعری کی نزاکت اور لطیف احساسات کی نفاست کو دباکر شوریدگی، شعلگی اور جذبات کی برانگیختگی کی عکاسی کرتی ہے۔ جبکہ ’آخر شب‘ کی شاعری روایت، رومانیت اور شعریت کا ایسا دل پذیر اور شیریں آمیزہ ہے کہ پینے والا مدہوش ہوجاتا ہے۔ اس پر ایک خاص قسم کی سرمستی وسرشاری چھاجاتی ہے۔ اس شاعری میں اتنی دلکشی، رعنائی اور غنائیت ہے کہ یہ قاری کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ اگر ایک لمحہ کے لئے ہم ترقی پسند تحریک کے مقاصد کو بھلادیں اور یہ بات ذہن سے نکال دیں کہ کیفی اعظمی کس قبیل اور کس رجحان کے شاعر ہیں تو بلا تکلف ہم ’آخر شب ‘ کی شاعری کو ان کی تخلیقی زندگی کابے بہا سرمایہ مان لیں گے اور میں سمجھتاہوں کہ اگر ترقی پسندی والی شاعری امتداد زمانہ کے سبب مٹ گئی یا ازکار رفتہ ہوگئی تو یہی شاعری کیفی اعظمی کو زندہ جاوید رکھنے کے لےے کافی ہوگی۔ کیونکہ اس قبیل کی شاعری میں ان کے یہاں بعض ایسی خوبصورت نظمیں پائی جاتی ہیںکہ ان کی مثال بھی مشکل ہی سے ملتی ہے۔ نقش ونگار، تصور، مجبوری، احتیاط ، پشیمان، بوسہ، اندیشے،ملاقات،نرسوں کی محافظ،تم،اور اسی طرح کی بعض دوسری نظمیں ان کی رومانی شاعری کی بہترین مثالیں ہیں۔ ان نظموں میں جو دلکشی، رعنائی، غنائیت، کیفیت، سراپانگاری، تازگی اور خوابناکی پائی جاتی ہے۔ وہ انہیں بہترین رومانی نظموں کے انتخاب میں شامل ہونے کا استحقاق فراہم کرتی ہے۔ کچھ نظموں کی جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں:
اے بنت مریم گنگنا اے روح نغمہ گائے جا
جیسے شگوفوں میں سماکر گنگناتی ہے ہوا
جیسے خلا میں رات کو گھونگھرو بجاتی ہے ہوا
نغمگی
حلاوتوں کی تمنا، ملاحتوں کی مراد
غرور کلیوں کا، پھولوں کا انکسار ہو تم
جسے ترنگ میں فطرت نے گنگنایا ہے
وہ بھیر ویں ہو وہ دیپک ہووہ ملہار ہو تم
تم
کلی کا روپ پھول کا نکھار لے کر آئی تھی
وہ آج کُلخزانۂ بہار لے کر آئی تھی
جبینِ تابناک میں کھلی ہوئی تھی چاندنی
چاندنی میں عکس لالہ زار لے کے آئی تھی
تمام رات جاگنے کے بعد چشم مست میں
یقیں کارس امید کا خمار لے کے آئی تھی 
گلابی انکھڑیوں کی سحر کاریوں میں خندہ زن
غرور فتح ورنگِ اعتبار لے کے آئی تھی 
وہ سادہ سادہ عارضوں کی شکریں ملاحتیں
ملاحتوں میں سرخیِ انار لے کے آئی تھی
ملاقات 
یہ کس طرح یاد آرہی ہو 
یہ خواب کیسا دکھا رہی ہو
کہ جیسے سچ مچ نگاہ کے سامنے کھڑی مسکرا رہی ہو
یہ جسم نازک، یہ نرم بانہیں، حسین گردن، سڈول بازو
شگفتہ چہرہ، سلونی رنگت، گھنیرا جوڑا، دراز پلکیں
نشیلی آنکھیں، رسیلی چتون، دراز پلکیں، مہین ابرو
تمام شوخی، تمام بجلی، تمام مستی، تمام جادو
ہزاروں جادو جگارہی ہو
یہ خواب کیسا دکھار ہی ہو
تصور
بند کمرے میں جو خط میرے جلائے ہوں گے
ایک اک حرف جبیں پہ ابھر آیا ہوگا
میز سے جب مری تصویر ہٹائی ہوگی
ہر طرف مجھ کو تڑپتاہوا پایا ہوگا
اندیشے
یہ تتلیاں جنہیں مٹھی میں بھینچ رکھا ہے
جواڑنے پائیں تو الجھیں کبھی نہ خاروں سے
تری طرح کہیں یہ بھی نہ بجھ کے رہ جائیں
تپش نچوڑ نہ اڑتے ہوئے شراروں سے
  نرسوں کی محافظ
کیفی اعظمی کی رومانی شاعری سے یہ مثالیں صرف اسی لےے پیش کرنی ضروری نہیں تھی کہ ان کی شاعری کے لحن کی تبدیلی کا انداز لگایاجاسکے، بلکہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ وہ حضرات جو انہیں محض کمیٹڈ شاعر کہہ کر نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں بھی اس طرف متوجہ کیا جاسکے۔ بعض ناقدان ادب بڑی بے رحمی سے یہ فرمان سنا دیتے ہیں کہ کیفی اعظمی اور اس قبیل کے دوسرے ترقی پسند شاعروں کی شاعری اسی عہد اور ماحول کے لئے موزوں تھی، جس میں وہ تخلیق ہوئی تھی۔ اب وہ فضا بکسر بدل چکی ہے۔ اس لئے ان کی شاعری کا جواز بھی ختم ہوگیا۔
میں اس قسم کی فکر رکھنے والوں سے یہ کہنا چاہوں گا کہ اگر آپ ادب کو روایتی جمالیاتی حسیات کی عینک کے بغیر دیکھنے کے روادار نہیں ہیں تب بھی آپ کیفی اعظمی کی شاعری کو ادب نکالا نہیں دے سکیں گے۔ کیونکہ وہ اپنی ابتدائی زندگی میں خاصی مقدار میں اس قسم کی شاعری کرچکے ہیں۔ ان کی متذکرہ بالانظموں کے ٹکڑوں کے مطالعہ سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ان کی شاعری میں صنف شاعری کی تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں، جن کی برکت سے شاعری کے رخسار پرجمالیات کا غازہ دمکنے لگتا ہے تو اس کے ہونٹوں پر لطف وانبساط اور دلربائی کی یاقوتی سرخی لہریں لینے لگتی ہے۔ نظموں کے ان ٹکڑوں پر توجہ کیجئے اور ان کی لفظیاتی وصوتی حسن وآہنگ کو محسوس کرنے کی کوشش کیجیے تو معلوم ہوگا کہ ان میں شاعرانہ الفاظ کی وہ بہتات ہے کہ اکثر شاعر اس پر رشک کرسکتے ہیں۔
روحِ نغمہ کا گائے جانا، ہواکا شگوفوں میں سماکر گنگنانا، گھٹاکا خلا میں رات کو گھونگھروں بجانا۔ حلاوتوں کی تمنا میں ملاحتوں کی مراد کا پالنا، کلیوں کے غرور کا پھولوں کے انکسار میں ظہور پانا، فطرت کا ترنگ میں آکر اس طرح نغمہ ریز ہونا کہ بھیرویں، ملہار اور دیپک کا سلگ اٹھنا، کلی کاروپ اور پھول کا نکھار لے کر کل خزانۂ بہار بن کر آنا، جبینِ تابناک میں چاندنی کا کھلنا اورپھر اس چاندنی میں عکس لالہ زار کا مسکرانا، تمام رات جاگنے کے بعد بھی چشمِ مست میں یقین کے رس اور امید کے خمار کا لہریں لینا، گلابی انکھڑیوں کی سحر کاریوں میں محبوب کا خندہ زن ہونا ، سادہ سادہ عارضوں کی ملاحتوں میں شکر کی حلاوتوں کا پایاجانا، ملاحتوں میں سرخیِ انار کا نمایاں ہونا اور پھر ایک قیامت سراپا محشر خیز حسن وانداز کی تصویر کا اس طرح مجسم ہونا کہ ایک ایک عضوکا حسن نمایاں ہوجائے اور جزیات نگاری اس طرح ابلاغ پائے کہ طبیعت شوقِ دےد میں تخیل کے جہان آباد کرلے۔ مثلاً جسم نازک، نرم باہیں، حسین گردن، سڈول بازو، شگفتہ چہرہ، سلونی رنگت، گھنیرا جوڑا، دراز گیسو، نشیلی آنکھیں، رسیلی چتون، دراز پلکیں، مہین ابرو اور ان تمام صفات وخوبی کا یکجاہوکر محبوب کی صورت میں جلوہ گر ہوکر اپنی شوخی ومستی سے جادو جگانا اور پھر انجام کار عشق ناکام کی صورت میں بند کمرے میں خط کا جلایاجانا، اک اک حرف کا جبین ناز پر ابھر آنا، میز سے محبوب کی تصویر کا ہٹایاجانا اور پھر ہر طرف کمرے میں عاشق کے تڑپنے کا منظر اور اڑتے شراروں سے تپش نچوڑنے کا عمل، یہ سب کے سب الفاظ اور ان سے تخلیق ہونے والے امیجز کسی بھی شاعر کے کلام کو معتبر بناسکتے ہیں۔
 یہ تو ہوا کیفی اعظمی کی شاعری کا وہ پہلو جو انہیں ایک کامیاب شاعر بناتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کس طرح ان کی شاعری بتدریج ارتقائی مراحل طے کرتی ہوئی ترقی پسندی کی معراج تک پہنچی۔ کیفی اعظمی جب رومانیت اورشعریت کی دنیا سے نکل کر اشتراکیت اور ارضیت کی پکاروں کی حقیقی دنیا میں داخل ہوئے تو ان کا لہجہ بالکل بدل گیا:
مرے مطرب نہ دے ﷲ مجھ کو دعوت نغمہ 
کہیں ساز غلامی پر غزل بھی گائی جاتی ہے
فکری اور نظریاتی قبولیت کا یہی وہ بدلتا ہوا زاویہ تھا جس نے کیفی کی تخلیقی حسیات سے محبوب کے جمال کی رعنائی کو رخصت کیا اور ان کی تخلیقی روح کو ملک وقوم کی حالت زار کی عکاسی کادرس دیا۔ اور پھر کیفی اعظمی پوری زندگی عوامی بیداری، اشتراکیت کی بحالی، سوشلسٹ سماج کے قیام کے لئے عوامی ذہن کی آبیاری کرنے میں اس طرح جٹ گئے کہ خود کو بھی فراموش کردیا۔ حدتو یہ ہے کہ وہ افلاس وغلامی کے خلاف بغاوت کی علم برداری کرتے ہوئے ایک شاعر سے ایک جانباز سپاہی بن گئے۔ انہوں نے ’آوارہ سجدے‘کے دبیاچے میں خود ہی لکھا ہے : 
”میری شاعری نے جو فاصلہ طے کیا ہے، اس میں وہ مسلسل بدلتی اور نئی ہوتی رہی ہے (بہت آہستہ ہی سہی) آج وہ جس موڑ پر ہے۔ اس کانیاپن بہت واضح ہے۔ یہ رومانیت سے حقیقت پسندی کی طرف کوچ کاموڑ ہے۔“ 
یہ حقیقت ہے کہ ان کی شاعری میں تبدیلی رفتہ رفتہ آئی ہے۔ ان کے شروع کے حقیقت پسندانہ کلام پر بھی رومانیت کے سائے منڈلاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جس سے وہ رفتہ رفتہ چھٹکارا پانے میں کامیاب ہوئے ہیں:
اٹھ مری جان مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے
گوشے گوشے میں سلگتی ہے چتا تیرے لیے
فرض کا بھیس بدل لیتی ہے فضا تیرے لیے
قہر ہے تیری ہر اک نرم ادا تیرے لیے
ہاں اٹھا جلد اٹھاپائے مقدر سے جبیں
میں بھی رکنے کا نہیں میںکبھی رکنے کا نہیں
اٹھ مری جان مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے
عوامی بیداری اور عورت کی زبوں حالی کے پس منظر میں لکھی گئی کیفی اعظمی کی یہ نظم جس میں عورت کو بغاوت پر اکسایاجارہا ہے، اتنی ٹھوس نہیں ہے جتنی عموماً ترقی پسند نظمیں ہوتی ہیں۔ اس نظم کے لہجہ میں شاعرانہ پن پایاجاتا ہے۔ اس نظم میں شعریت، لطافت اوربہت حد تک نزاکت بھی پائی جاتی ہے۔ مگر ان کا یہ شاعرانہ لہجہ ہر جگہ قائم نہیں رہتا ہے۔ وقت، حالات اور واقعات وحادثات کے تحت ان کے لہجے میں کرختگی، سختی اور کسی حد تک برہنہ گفتاری پیدا ہوجاتی ہے اور وہ غزلوں کے اشعار میں بھی اپنے جذبات کو نہیں روک پاتے ہیں:
بیلچے لاﺅ کھودو زمیں کی تہیں
میں کہاں دفن ہوں کچھ پتہ تو چلے
کیفی اعظمی ایک سچے اور ایماندار اشتراکی تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے اشتراکی ہونے پر تمام عمر فخر کرتے رہے۔ یہ اشتراکیت اور مارکسیت سے محبت ہی کانتیجہ تھا کہ وہ کبھی روس کی عظمت کا گیت گانے لگتے تھے تو کبھی اسٹالن کو ہیرو بنادیتے تھے۔ وہ مارکسیت واشتراکیت کے متوالوں کو اپنا آئیڈیل سمجھتے تھے اور روس وچین کو اشتراکی حکومت کو مثالی طاقت سمجھتے تھے۔ اسی زمانہ میں چین نے ہندوستان پر حملہ کردیا۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا، جس سے اشتراکیت کے متوالے ہندوستانیوں کو سخت صدمہ پہنچا۔ اس زمانہ میں کیفی فلم سے منسلک تھے۔ ان کا گیت
کرچلے ہم فدا جان وتن ساتھیو
اب تمہارے حوالے وطن ساتھیو
اسی زمانہ کی یادگار ہے۔ جب کمیونسٹ اکائی دودھروں میں بٹ گئی تو کیفی اعظمی بھی ٹوٹ گئے اور ان کے سجدے آوارہ ہوگئے۔ اسی زمانہ میں انہوں نے ’آوارہ سجدے‘ جیسی نظم لکھی :
راہ میں ٹوٹ گئے پاﺅں تو معلوم ہوا
جز مرے اور مرا راہ نماکوئی نہیں
کیفی اعظمی کمیونسٹ اور اشتراکی نظام کے حامی ایک مخلص، عوام دوست اور محب وطن انسان وشاعر تھے۔ فرقہ پرستی، تعصب زدگی، مذہبی انتہا پسندی اور منافقت کی کمینگی وکم بدبختی انہیں سخت ناپسند تھی، وہ بڑے یقین اور اعتماد سے کہا کرتے تھے کہ :
”غلام ہندوستان میں پیدا ہوا، آزاد ہندوستان میں بوڑھا ہوا اور سوشلسٹ ہندوستان میں مرجاﺅں گا۔ “
ان کو پختہ یقین تھا کہ ہندوستان میں اشتراکیت کی شجرکاری جوں جوں بڑھتی جائے گی، ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی خوشبو پھیلتی جائے گی اور ایک دن تمام اہل وطن اس خوشبو کی سرشاری سے ایسے مست ہوجائیں گے کہ اشتراکیت اور مساوات کی پربہار فضا پیدا ہوجائے گی۔
لیکن ان کا یہ خوبصورت خواب ان کی زندگی ہی میں ریزہ ریزہ ہوکر بکھر گیا۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے مفاد پرست سیاست دانوں کو اشتراکیت پر مذہبیت کوفوقیت دیتے ہوئے دیکھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اشتراکیت کا نوخیز پودا سوکھ گیا۔ اور امن وامان کے خواب سنجونے والی زمین پر فسادات کے شعلے بھڑک اٹھے۔ ان واقعات وحادثات نے انہیں بہت گہرا صدمہ پہنچایا۔ اور وہ آوارہ سجدے، بہروپنی اور موت جیسی نظمیں لکھنے پر مجبورہوئے۔ ان کی طویل نظم ’خانہ جنگی‘47 19کے فساد کی منہ بولتی تصویر ہے جو کیفی کے جذبات و احساسات کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ یہ نظم آج کے فرقہ وارانہ ماحول کو بھی خوب درشاتی ہے:
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
سوکھتی ہے پڑوسیوں سے جان
دوستوں پر ہے قاتلوں کا گمان
شہرویراں ہیں بند ہیں بازار
رینگتا ہے سڑک پہ گر م غبار
رہزنی داخلِ جہاد نہیں
فطرت ِشرع میں فساد نہیں
کہہ کے تکبیر باندھ کے نیت
ماﺅں بہنوں کی لوٹ لی عزت
گیت گاکے مہاتماجی کے
پیٹ ماﺅں کے چاک کر ڈالے
لاش علم وادب کی حکمت کی
لاش کلچر کی آدمیت کی
اے وطن اس قدر اداس نہ ہو
اس قدر غرق رنج ویاس نہ ہو
کیفی اعظمی کے یہاں قنوطیت نہیں رجائیت پائی جاتی ہے۔یہی وہ خوبی ہے جو انہیں منفعل ہونے سے بچاتی ہے۔ تخلیقی سطح پر کیفی اعظمی کا ادب میں یہ المیہ رہا ہے کہ انہیں کسی رجحان کے ناقد نے دل سے قبول نہیں کیا۔ حد تو یہ ہے کہ بعض اوقات ترقی پسندوں نے بھی ان سے عدم دلچسپی کا اظہار کیا۔ خود تنقیدی برادری کے بہت سے نقادوں نے اپنی تن آسانی کے لیے ان کی بعض ہنگامی نظموں کا سرسری جائزہ لے کر انھیں کمیٹڈکا سرٹیفکیٹ پکڑاکر جان چھڑانے کی عاجلانہ کوشش کی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ ادبی رویہ تنقید کے کس خانے میں فٹ بیٹھتا ہے۔ ہم جان چکے ہیں کہ اگر وہ چاہتے تو اپنی ’آخر شب‘کی شاعری کے ساتھ جی لیتے اور ادب میں وہ مقام پالیتے جو کسی بھی شاعر کے لئے معیاری اور منفرد ہوتا ہے۔ لیکن انہوں نے ملک وقوم کی حالت زار کے پیش نظر اپنے تمام تر رومانی رویے کو یکسر مسترد کردیا۔ تو کیا ہمیں عوامی ہمدردی اور وقت کی پکاروں کے حامل اس رویہ کی تکذیب پوری طرح ذہن نشین ہوجانی چاہئے کہ جمالیاتی اور رومانی احساسات سے کہیں زیادہ مشکل اور مفید سماجی ذمہ داریوں کا احساس ہوتا ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ انہوں نے سماجی شعور کو تخلیقی احساسات کی تہذیب میں حل کرکے وقت کے تقاضوں کی تکمیل کا حوصلہ مندانہ ثبوت فراہم کیا ہے جو سب کے بس کی بات نہیں تھی۔یہ درست ہے کہ ان کی شاعری میں جب مقصد یت اپنی پوری شوریدگی کے ساتھ شامل ہوگئی تو ان کے یہاں سے شعریت، لطافت اور نزاکت رخصت ہوگئی۔
شاعری خطاب اور منشور بن گئی۔ اور ان کی بعض نظمیں سیاسی تھیم کا منظوم ترجمہ محسوس ہونے لگی۔ لیکن قومی دردمندی بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے۔ اگر قومی دردمندی کی کوئی اہمیت ہے تو یقینا ان کی اس قبیل کی شاعری کی بھی اہمیت ہے۔ 
لٹنے ہی والا ہے دم بھر میں حکومت کا سہاگ
لگنے ہی والی ہے جیلوںدفتروںتھانوں میں آگ
مٹنے ہی والا ہے خوں آشام دیوزر کا راج
آنے ہی والا ہے ٹھوکر میں الٹ کر سر سے تاج
چھٹنے ہی والی ہے ظلمت پھنکنے ہی والا ہے صور
رفتہ رفتہ کیفی اعظمی نے تخلیقی سطح پر سنگلاخ زمینوں پر چلنے کی عادت ڈالی، وہ رومان پرور فضا سے باہر آگئے۔ اب انہیں ہوا کا خلا میں گھونگھرو بجانا اتنا متوجہ نہیں کرتا ہے، جتنا زمین پر بسنے والے عوام کی درد انگیز کراہ متوجہ کرتی ہے۔ اب ان کی ساری توجہ اپنے آس پاس کی جیتی جاگتی دنیا اور اس میں آباد انسانوں پر مرکوز ہوگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ان کی شاعری میں عام لوگوں کا ہجوم ہمیں دور ہی سے نظر آتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ہجوم کیفی کا دیوانہ ہے۔ جواُن کی معیت میں بڑھتا ہی چلاجاتا ہے:
الٹ کر ایک ٹھوکر میں ستم کاراج رکھ دیں گے 
اٹھاکر اپنی پستی کو سرمعراج رکھ دیں گے
وہ اک گل کی حکومت تھی کہ گلشن لٹ گیا سارا
ہم اب کے غنچے غنچے کی جبیں پر تاج رکھ دیں گے
چلو وادیو، ساحلو، دلدلو
چلو معدنو، کھیتیو، زلزلو
بغاوت کا پرچم اڑاتے چلو
نشانات ستم تھرا رہے ہیں
حکومت کے علم تھرا رہے ہیں
غلامی کے قدم تھرا رہے ہیں
غلامی اب وطن سے جارہی ہے
اٹھو دیکھو وہ آندھی آرہی ہے
آج کی رات بہت گرم ہوا چلتی ہے
آج کی رات نہ فٹ پاتھ پہ نیند آئے گی
سب اٹھیں میں بھی اٹھوں تم بھی اٹھو تم بھی اٹھو
کوئی کھڑکی اسی دیوار میں کھُل جائے گی
سماجی شعور کی یہی بالیدگی اور آزادی کے لیے بغاوت کے لحن میں گایا گیا انقلاب کا یہی رجز اور حب الوطنی کی یہی سرشاری کیفی کی شاعری کا لہو اور ان کی زندگی کا مقصود ومنہاج تھا۔ ان کی طبیعت میں چونکہ شعریت رچ بس گئی تھی۔ اس لیے یہ استثنائے چند جب وہ پارٹی لائن کے لئے خالص مقصدی شاعری کرتے ہیں تب بھی ان کے یہاں شعریت پیدا ہوہی جاتی ہے۔ دوسری اہم اور خاص بات یہ ہے کہ دوسرے فنکاروں کی طرح اشتراکیت کیفی کے لئے محض ایک نظریہ نہیں تھا۔ اشتراکیت تو ان کی زندگی کا ماحصل بن گیا تھا۔ اشتراکی نظریہ کا یہی وہ فطری انجذاب تھا جس نے ان کی شاعری کو شعری تہذیب کے دائرہ سے خارج نہیں ہونے دیا۔
کیفی اعظمی نے جس اشتراکی ہندوستان کا خواب دیکھا تھا وہ پورا نہیں ہوا۔ اس پر سے ستم یہ ہوا کہ جس فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے انہوں نے اپنا خون جگر جلایاتھا، وہ بھی بیکار ہوگیا اور اپنی زندگی کے آخری ایام میں بابری مسجد کے انہدام کی شکل میں فرقہ پرستی کا ننگاناچ بھی دیکھناپڑا۔ انہوں نے بابری مسجد کی شہادت پر جو نظم لکھی ہے وہ بھی ان کی موضوعاتی نظموں میں ایک امتیازی پہچان رکھتی ہے۔
رقص دیوانگی آنگن میں جو دیکھا ہوگا
6 دسمبر کو شری رام نے سوچا ہوگا
اتنے دیوانے کہاں سے مرے گھر میں آئے
تم نے بابر کی طرف پھینکے تھے سارے پتھر
ہے مرے سر کی خطا زخم جو سر میں آئے
رام یہ کہتے ہوئے دوار سے اٹھے ہوں گے
راجدھانی کی فضا آئی نہیں راس مجھے
6 دسمبر کو ملا دوسرا بن باس مجھے
کیفی اعظمی ایک باعمل، باکردار اور سچے فنکار وشاعر تھے۔ وہ اپنی شاعری میں جن باتوں کا اعادہ کرتے تھے، ان پر خود بھی عمل پیرا ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری اور ان کی زندگی میں گہرا ربط پایاجاتا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں حتی المقدور اپنے عہد کی روداد کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ کیفی کے بعض ہم عصروں نے کیفی پر الزام لگایا ہے کہ کیفی بہت ہی موقع پرست اور بہت حریص انسان تھے۔ان کا کہنا ہے کہ کیفی اتنے چالاک اور ہوشیار تھے کہ انہوں نے شہرت اور اعزاز واکرام کے ساتھ ساتھ پیسے کمانے کے کسی موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ اگر ہم اس قسم کی باتوں کوسچ مان لیں تب بھی ان کی شخصیت پر کوئی حرف نہیں آتا ہے۔ کیونکہ انہوں نے جو اعزازو اکرام اور شہرت حاصل کی ہے اس سے عوام ہی کو فائدہ پہنچایا۔ اگر وہ شہرت نہیں حاصل کرپاتے تو ان کا آبائی گاﺅں مجوادھول اور تاریکی سے باہر نکل کر ترقی وخوشحالی کی راہ پر نہیں آتا۔ اگر ہمارے تمام فنکار وشاعر کیفی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک ایک گاﺅںکو گود لے لیتے تو آج ہندوستان کا ماحول بہت کچھ بدل گیا ہوتا۔ یہ کیفی کی شہرت وعظمت ہی کی برکت ہے کہ اس نے مجواگاﺅں میں سڑکیں بنوادیں، بجلی لگوادی، اسپتال اور اسکول کی تعمیر کروادی۔
رہی دولت کی بات تو کیفی شاید دنیا کے دوسرے اور ہندوستان کے پہلے شاعر ہیں، جنہوں نے ٹالسٹائی کی طرح اپنی تمام موروثی زمین غریب کسانوں میں تقسیم کردی۔ اگر واقعی کیفی ایک حریص انسان ہوتے تو وہ ممبئی کی جگمگاتی دنیا کو چھوڑ کر مجواجیسے پچھڑے گاﺅں میں نہیں آتے اور نہ اس گاﺅں کی ترقی کے لئے تکلیفیں اٹھاتے اور نہ اپنی زمین غریب کسانوں میں تقسیم کرتے۔ کیفی کا عملی اور تخلیقی کردار کم سے کم اتنا مضبوط تو ہے کہ وہ اس قسم کے اوچھے واروں کو مسترد کرکے اپنی انفرادیت کو قائم ودائم رکھ سکے۔ 

Afaque Alam Siddiqui, ....


 ماہنامہ اردو دنیا، جنوری 2014


 قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

تازہ اشاعت

جگدیش سرن سکسینہ راز کرہلوی اور ان کی غزلیہ شاعری، مضمون نگار: فیضان حیدر

اردو دنیا، اپریل 2025 جہان رنگ و بو میں کچھ ہستیاں ایسی بھی عالم وجود میں آئیں جو اپنی بصیرت، تخلیقی فکر اور ادبی خدمات سے نہ صرف معاشرے ...