28/12/20

ناول ’ہمسایہ ہا‘ - مضمون نگار: نگار

 



احمد محمود،کا شمار ممتاز ایرانی داستان نویسوں اور ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے ناولوں میںداستان یک شہر، زمین سوختہ، مدارصفر درجہ، آدم زندہ، درخت انجیر معابد کے علاوہ ہمسایہ ہا کافی مقبول و معروف ہیں۔

احمد محمود کے دوسرے ناول:

داستان یک شہر: یہ ناول سب سے پہلے مطبع امیر کبیر سے شائع ہوا اور پھر انتشارات معین سے  شائع ہوا۔ یہ ناول ’ہمسایہ ہا‘ کا تکملہ ہے۔ خالدایک ایسا کردار ہے جو احمد محمود کے دوسرے داستان ہمسایہ ہا میں بھی راوی داستان کی شکل میں نظر آتا ہے اس داستان میں بھی اس کا کردار بعینہ وہی ہے۔ خالد بھی تحریک میں شامل ہونے کی وجہ سے قیدو بندسے دوچار ہوتا ہے۔ رہائی کے بعد چند لوگوں کے ساتھ اسے بندر لنگہ کی طرف جلاوطن کر دیا جاتا ہے ان واقعات کی کڑیاں ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ناول اصلاً احمد محمود کی اپنی سرگذشت ہے۔ اس لیے کہ احمد محمود نے بھی جلاوطنی کے ایام بندر لنگہ میں ہی گذارے تھے۔

زمین سوختہ: یہ ناول  پہلے پہل مطبع ’نشرنو‘ سے پھر اسی سال تقریبا 22 ہزار کی تعداد میں از سر نو انتشارات ’معین‘ سے شائع ہوا۔ موضوع کے اعتبار سے یہ ناول ایران و عراق کے مابین جنگ کے آغاز میں رونما ہونے والے حادثات و واقعات پر مشتمل ہے جو جنوبی ایران یعنی خوزستان شہر میںوقوع پذیر ہوا۔اس ناول میں مرکزی کردار خالد کے بھائی کا ہے۔راوی کا خاندان اہواز میں زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔ ابھی موسم گرما اپنے آخری مرحلے میں ہے۔لوگ موسم بہار کے آغاز اور مدارس و اسکول کے کھلنے کے منتظر ہیں کہ اسی دوران عراقی افواج کے حملے کی خبر گردش کرنے لگتی ہے اور جنگ کا آغاز ہوجاتا ہے۔ لوگ شہر چھوڑ کر دوسرے شہروں میں پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ لوگ زیر زمیں بنکروں میں پناہ لیتے ہیں۔ راوی اپنے دو بھائیوں کے ساتھ شہر میں ہی رہ جاتا ہے۔ ایک بھائی خالد عراقی بمباری میں ہلاک ہوجاتا ہے۔ اس صدمے کے اثر سے دوسرا بھائی شاہد دماغی توازن کھو بیٹھتا ہے۔ احمد محمود نے اس ناول میںایران پر عراق کے حملے سے پیدا ہونے والی تباہی و ویرانی اور سماج پر اس کے اثرات کا منظر پیش کیا ہے۔ خود احمد محمود نے بھی اپنے بھائی کو اسی جنگ میں کھویا تھا۔

مدار صفر درجہ: یہ ناول تین جلد اور 1782 صفحات پر مشتمل ہے جو انتشارات ’معین‘ سے شائع ہوا۔ یہ ناول 1971 سے 1978 کے درمیان رونما ہونے والے واقعات پر محیط ہے۔ اس داستان کامرکزی کردارجو ’باران‘کے نام سے موسوم ہے،حالات سے مجبور ہوکر سیاست میں شامل ہوجاتا ہے۔ یہ ناول گوناگوں مسائل اور موضوعات کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے، جیسے شاہ کے مخالف قوتوں کا اکٹھا ہونا، اصلاح اراضی، اقتصادی رابطے اور اس کے اثرات، دانشمند اور روشن فکرافراد کا ٹکر اؤ، ساواک کی سازشیںاور کوششیں وغیرہ۔ احمد محمودنے اس کے ذریعے ایران کے جنوبی خطے کے لوگوں کے مسائل سے قاری کو واقفیت بہم پہنچانے کی کوشش کی ہے۔

آدم زندہ: یہ ناول انتشارات ’معین‘ تہران سے شائع ہوا۔اصلا اس کا مصنف ممدوح بن عاطل ابو نزال ایک عرب ہے اسی لیے اس ناول میں مذکور واقعات تیسری دنیایعنی عرب سے تعلق رکھتے ہیں اور احمد محمود نے اسے عربی سے فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔

درخت انجیر معابدـ:  یہ احمد محمود کا آخری ناول ہے جو دو جلدوں میں انتشارات ’معین‘ سے 2000 میں شائع ہوا۔ اس ناول کو سال کا بہترین ناول قرار دیا گیااور’ہوشنگ گلشیری‘ انعام سے نوازا گیا۔ یہ ناول شرفا کے ایک خانوادہ کی گویا مختصر تاریخ ہے۔ اس ناول میں احمد محمود نے لوگوں میں رائج خرافات و معتقدات کی بھی نشاندہی کی ہے۔ اس کے علاوہ احمد محمود کا ایک اہم ناول ’ہم سایہ ہا‘ ہے۔

جدید فارسی ادب میں ان کے ناولوں میں ایک ناول ہمسائے بیحد مقبول ہے۔ یہ ناول 1974 میں شائع ہوا۔ اس ناول کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ احمد محمود کی جلاوطنی کے زمانے میں بندر لنگہ میںمعرض تحریر میں آیا۔  احمد محمود نے اس ناول میں گوناگوں شخصیات اور مختلف طبقات کو جمع کرکے ایک ایسے سماج کو تخلیق کرنے کوشش کی ہے جس کی تعمیر میں سبھی کا حصہ ہے۔ احمد محمود خود بھی اس داستان کا ایک حصہ ہیں لیکن انھوں نے خود کو اس داستان کے مرکزی کردار خالد کی شخصیت میں خود کو مخفی رکھا ہواہے۔

اس ناول کے اکثر کردار سماجی، سیاسی اور معاشی مسائل سے دوچار نظر آتے ہیں یعنی احمد محمود نے ان کرداروں کی زبان حال سے اس زمانے کے سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل اور مشکلات کو اجاگر کرنے کی سعی کی ہے۔ اس میں وقوع پذیر حوادث و واقعات کا تعلق اہواز کے ایک محلہ فقیرنشین میںکرایہ پر زندگی بسر کررہے سات خاندان سے ہے۔تقریباًسبھی خاندان ایک یا دو روم میں زندگی بسر کرتے ہیں۔شہر کے بڑے میدان، میدان مجسمہ، میدان زندان، محلے اور خطہ جنوب کے مخصوص بازار، ایندھن فروش، کتاب فروش مجاہد،  پمپ ہاؤس،  اینٹ بھٹے کی دوکان، پٹرول پلانٹ اور امان آقا کی دو قہوہ کی دوکان وغیرہ۔ اس کے علاوہ بچوں کا کھیلنا کودنا، لوگوں کے گھروں کا شیشہ توڑدینا، گھروں میں جھانکنا، دکانداروں کی چوری اور کبوتر بازی وغیرہ کا ذکر تفصیل کے ساتھ اس ناول میں ملتا ہے جس سے اس علاقے میں بسنے والے لوگوں کے احوال، عادات، رہن،سہن وغیرہ سے اچھی طرح واقفیت ہوتی ہے۔  نوجوان دریا میں تیرتے ہیں اور مچھلیاں پکڑتے ہیں،  بڑے بوڑھے چائے خانے پر بیٹھ کر سیاسی موضوعات جیسے پلیس یا تیل کی صنعت کے قومی ہونے کے بارے میںگفتگو کرتے ہیں۔ شہر کا حال یہ ہے کہ ہر ایک دوسرے سے آشنا ہے کوئی کسی کے لیے اجنبی نہیں ہے۔

کرایہ داروں کے گھروں میں الگ سے مطبخ اور حمام موجود نہیں ہے۔ لوگ اسی ایک روم میں کھانا پکاتے ہیں، شام میں اسی گھر میں جھاڑو لگاتے ہیں، صفائی کرتے ہیں اور چٹائی بچھا کر اسی پر کھانا کھاتے ہیں۔ رات میں چند لوگ  مچھردانی لگاکر احاطے میں سوجاتے ہیں۔مکان کے قریب قریب بنے ہونے کی وجہ سے ہر آدمی اپنے پڑوسی کے گھر بنی ہوئی غذا کو خوشبو سے ہی پہچان لیتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں آسانی سے آتے جاتے ہیں۔ ملا احمد جو بچوں کو پڑھاتے ہیں ان کے آنے سے پہلے بہت سے لوگ گھر وں کی صفائی کرتے ہیں۔

اس ناول میں دو قسم کے قہوہ خانے کا ذکر ہے جو ایک دوسرے سے متفاوت ہیں۔ ایک امان آقااور مرشد کا قہوہ خانہ جہاں تیل کے کارخانے میں کام کرنے والے مزدور، ڈرائیوراور عام لوگ آتے ہیں۔ دوسرا قہوہ خانہ شکوفہ ہے جہاں تعلیم یافتہ، اساتذہ اور اچھے لوگ جمع ہوتے ہیں۔

اس ناول میں لوگوں کے مختلف پیشوں کا بھی ذکر ملتا ہے جس میں کچھ تو سرکاری ہیںجیسے دندان ساز، سارجنٹ، انسپکٹر، پولیس، وکیل۔ استاد، تیل کارخانے میں کام کرنے والے وغیرہ یہ لوگ عام لوگوں کے زمرے میں نہیں آتے ہیں اور کچھ پرائیوٹ ہیںجیسے، لوہار، قہوہ خانے کا مالک،  باورچی، ڈرائیور، گیرج دلال، حجام، ملااور کمہاروغیرہ۔ یہ سات گھرانے سماج کے پسماندہ خاندان میں شمار ہوتے ہیں۔ کبھی ان میں اختلافات بھی واقع ہوتے ہیں لیکن اکثر اوقات یہ لوگ آپس میں مل جل کر رہتے ہیں یہاں تک کہ اکثر مواقع پر ایک دوسرے کے کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑے رہتے ہیں اور مدد کرتے ہیں۔

اس ناول کا مرکزی کردار خالد نام کا ایک نوجوان ہے جو اپنے والدین اور اپنی بہن کے ساتھ ایک بڑے سے پرانی چہاردیواری میں زندگی بسر کرتا ہے۔ان گھروں میں عام لوگوں کے ساتھ سیاسی اور حکومتی افراد جیسے پولیس افسران اور جاسوس وغیرہ بھی زندگی بسر کرتے ہیں۔خالد پندرہ سال کاایک نوجوان ہے اور بالغ ہونے کے قریب ہے۔ اس کی زندگی بچپن سے فقر و بیکاری میں گزرتی ہے۔ اسی درمیان اس کی آشنائی آمان آقا اور اس کی بیوی بلور خانم سے ہوجاتی ہے اور وہ امان آقا کی قہوہ کی دوکان سے وابستہ ہوجاتا ہے، جہاں وہ سیاسی مسائل اور پٹرولیم کی صنعت سے متعلق ہنگاموں سے آگاہ ہوتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ سیاست میں داخل ہوجاتا ہے۔ اسی درمیان اس کی آشنائی سیہ چشم نامی ایک لڑکی سے ہوتی ہے اور رفتہ رفتہ دونوں ایک دوسرے کے عشق میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اس دوران سیاسی سرگرمیاں بھی جاری رہتی ہیں جس کی وجہ سے اسے گرفتار ہونا پڑتا ہے۔قید سے آزادی کے بعدوہ مزید جوش اور سرگرمی کے ساتھ پٹرولیم کی صنعت کو قومی کرنے کی تحریک میں شامل ہوجاتا ہے اور سیاست دانوں کے شانہ بشانہ جنگ لڑتا ہے لیکن حکومت کا ماننا ہے کہ یہ تحریک ناسمجھی پر مبنی ہے اور ملک کو نقصان پہنچانے والی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے چونکہ ابھی ہمارے اندر یہ استعداد نہیں ہے کہ تیل نکالنے کے لیے ضروری آلات اور مشین وغیرہ بنا سکیں۔ہمارے پاس انجینئر نہیں ہیں۔ ہمارا تو حال یہ ہے کہ اگر ایک مٹی کی صراحی یا گھڑابناتے ہیں تو اس میں کئی جگہ سے پانی رسنے لگتا ہے۔ چونکہ ہمارا اقتصادی ڈھانچہ تیل کی صنعت پرہی ٹکا ہوا ہے اس لیے اگر اس کو قومی کردیا گیا توہم برباد ہوجائیں گے۔چنانچہ انگریزوں کو باہر نکالنے کا خیال دل سے نکال دینا چاہیے۔ انگریزوں کو نکالنے سے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ ہم سے تیل خریدیں ہی نا تو پھر ہم کیا کریں گے وغیرہ۔

داستان ’ہمسایہ ہا‘ایک ایسے شخص کی زبان سے بیان ہوتا ہے جو پندرہ سال کا ایک نوجوان ہے جو ان سات کرایہ پر زندگی بسر کرنے والے خاندان کا ایک فرد ہے۔ ناول کا موضوع سماجی و اقتصادی مشکلات، افسروں اور عہدہ داروں کا سلوک، نوجوانو ں کے اندر پھیلی جنسی بے راہ روی اور نشہ آور اشیا کا عادی ہونا ہے۔

جنوبی ایران میں غیرملکی افراد کی موجودگی اور افسروں کی من مانی نے ماحول اتنا زیادہ خراب کر دیاتھا کہ ہر ایک شخص ایک انجانے خوف میں زندگی بسر کر رہا تھا۔ بغاوت کے الزام میں سیاسی افراد کے علاوہ عوام بھی جیلوں کی نذر کیے جارہے تھے۔احمد محمود نے بھی قید و بند کی صعوبتیں اوراذیتیں سہیں۔ اسی لیے اس ناول میں ان حالات کی عکاسی اور جلوگری نظر آتی ہے۔ اس ناول میں خالد خود احمد محمود کی ذات ہے جو اپنے حالات خالد کی زبان سے بیان کر رہا ہے۔

اس جنگ میںشامل ناول کے دوسرے کردارجیسے شفق، پندار، ناصرابدی، منوچ سیاہ، قاضی اور رستم آفندی بھی ہیں جو اس جنگ میں متحد ہوکر بہادری سے لڑ رہے ہیں یہاں تک کہ قیدخانے میں بھوک ہڑتال کر رہے ہیں تا کہ تیل کی صنعت قومی ہوجائے۔

اس کے علاوہ ناول کا پلاٹ، جذباتیت اور کشش سے پر ہے، گرمی کے زمانے میں ان گھروں کے سارے افراد احاطے میں جمع ہوجاتے ہیں تاکہ گرمی کی شدت سے نجات پائیں۔ اس ناول میں خواج توفیق کے افیون کی شدید بو اور پھر ان کی عذر خواہی ہر جگہ محسوس ہوتی ہے۔ اسی طرح عمو بندر کی فجر کی اذان کی آواز،اور ایک اہم آواز جو اس ناول میں بار بار سنائی دیتی ہے وہ بلور خانم کے چیخ و پکار کی آواز ہے جس سے ناول کا آغاز ہوتاہے۔

گرچہ اس ناول کے اکثر کردار سیاسی ہیں لیکن یہ احمد محمود کاہنر ہے کہ ان کے ساتھ ساتھ معاشرے کے دوسرے دبے کچلے افراد جیسے عورتیںکہ معاشرے کے ایک اہم فرد ہونے کے باوجود ان کے حالات بد سے بدتر ہیںجو مقام ان کو ملناچاہیے وہ نہیںدیا جارہا ہے۔غربت اور ظلم و ستم کا اثر سب سے زیادہ ان پر ہی پڑتا ہے۔ ان سب مسائل ومشکلات کی بھی اس ناول میں نشان دہی کی ہے۔  یہ ناول ایک سیاسی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے اس لیے کہ اس میں انیسویں صدی کی تیسری دہائی میںوقوع پذیر ہونے والے سیاسی حادثات اور واقعات کا ذکر بہت ہی تفصیل سے ملتا  ہے۔

اس ناول میں حکومت کے فیصلے اور ان سے پیدا ہونے والے اثرات کو ہدف تنقید بنایا گیا ہے اس لیے حکومت نے شائع ہونے کی اجازت نہیں دی لہٰذا احمد محمود نے لوگوں کو بیدار کرنے کے لیے اخبار کا سہارا لیا۔خود احمد محمود کے ناول کا مرکزی کردار’خالد‘ اور اس کے ساتھی ’شفق‘ اور’پندار‘ جو سیاسی مخالفین میں تھے ایک گروہ تشکیل دیتے ہیں اورروزنامہ ’نہج البلاغہ‘ کے ذریعے  لوگوں کی بھلائی و بیداری کا کام انجام دیتے ہیں۔ احمد محمودنے سماج کے اندر موجود خوبیوں اور بدیوں کی نشاندہی کی ہے اور اپنی آپ بیتی کو اس ناول میں سمونے کے کوشش کی ہے۔احمد محمود نے اس ناول میں ایران کے جنوبی خطے کے لوگوں کے خواہ دیہات کے رہنے والے ہوں یا شہرکے سب کے درد و رنج، فقر و تنگی اور مختلف مصائب و پریشانیوں کوبیان کرنے کے ساتھ لوگوں کے اندر پھیلی ہوئی خرافات، غلط اعتقادات، جہالت، بیماری اورلوگوں کی زندگی کے مختلف جہات سے بھی آشنائی بہم پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ صرف خالد کی زندگی کی داستان نہیں ہے بلکہ اس دور کے لوگوں کی ایک حقیقی تصویر ہے۔ احمد محمود ایک بڑے رائٹر ہیں کئی سارے ناول لکھے ہیں لیکن ان کو شہرت اسی ناول کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔ ناول ہمسایہ ہا ایرانی داستانوں کی فہرست میں ایک بے بہا کارنامہ شمار ہوتا ہے۔

منابع:

.1        دستغیب، عبدالعلی، نقد آثار احمد محمود، چاپ اول، تہران: معین، 1999 ش.

.2         محمود، احمد، ہمسایہ ہا

.3         ترکمانی وجیہہ وکبیری پوران، بررسی شخصیت زنان در 5 رمان احمد محمود، بہارستان سخن،  2011

.4         اسحاقیان، جواد، داستان شناخت ایران نقد و بررسی آثار احمد محمود،، تہران2012

.5         زینالی، پروین، رئالیسم سوسیالیستی در دو رمان ہمسایہ ہا و داستان یک شہر، احمد محمود، فصلنامہ علمی پژوہشی

             زبان و ادب فارسی2017

.6         جلالی، فیروز نوری، باران بر زمین سوختہ، نقد رمانہای احمد محمود،چاپ اول، تہران2007


Nigar

Turkaman Gate

New Delhi - 110006

Mob.: 9999875687

Email.: Nigar.du@yahoo.com

 

  


 

 

 

 

 

 

 


24/12/20

غالب تاریخ کے دوراہے پر: ایک جائزہ - مضمون نگار: ثاقب عمران

 


تحقیق و تنقید کی دنیا میں جن ادیبوں اور دانشوروں نے کارہاے نمایاں انجام دیے اور اپنے علم اور محنت کے ذریعے اس میدان میں بیش بہا اضافے کیے، ان ادیبوں اور دانشوروں میں ایک اہم نام نثاراحمد فاروقی کا بھی ہے۔ وہ میدانِ تحقیق و تنقید میں حوالے کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کے نام کو اردو دنیا جانتی، ان کے کام کو پہچانتی اور ان کی قابلیت کا اعتراف بھی کرتی ہے۔ انھوں نے ادیب، محقق، ناقد، شاعر اور مترجم کی حیثیت سے دامنِ علم و ادب کو بجا طور پر وسعت دی ہے۔

نثار احمد فاروقی کا اسلوبِ تنقید ایک منفرد انداز کا حامل ہے۔ وہ اپنی ترجیحات کو پیش کرنے کے لیے سیدھے سادے اور سپاٹ انداز سے گریز کرتے ہوئے مدلل گفتگو کرتے ہیں اور ساتھ ہی اس کا معقول جواز بھی پیش بھی کرتے ہیں۔ ان کی تصنیفات، تالیفات اور مضامین کی فہرست خاصی طویل ہے کہ میر، غالب، مصحفی، اقبال، آزاد اور ابوالکلام آزاد کے ساتھ سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنے احاطے میں لیے ہوئے ہے۔

نثار احمد فاروقی کی ایک اہم کتاب ’تلاش غالب‘ ہے، جس میں غالب سے متعلق تحقیقی و تنقیدی مضامین شامل ہیں۔ ان مضا مین میں نثار احمد فاروقی  نے غالب کی زندگی اور فن کے بعض نئے پہلوؤں سے بحث کی ہے۔ غالب شناسی کے ضمن میں یہ کتاب اس لیے بہت اہم ہے کہ اس میں غالب پر بعض ایسے مضامین شامل ہیں جن سے مطالعۂ غالب کے نئے زاویے سامنے آتے ہیں۔ ’تلاش غالب ‘ غالب کی تفہیم و تحقیق میں اپنی منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ بطور خاص اس کتاب میں غالب کے دیوان نسخۂ امروہہ کی بحث بہت اہم ہے۔ نثار احمد فاروقی غالبیات سے متعلق تحقیقی اور تنقیدی کاموں سے مطمئن نہیں تھے یوں بھی ان کے جیسا اعلیٰ تحقیقی ذہن اور تنقیدی شعور رکھنے والا، کسی بھی تحقیقی منزل پر مطمئن نہیں ہو سکتا۔ وہ تو ہمیشہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتا ہے اور نئے تحقیقی انکشافات اور تنقیدی نکات کی جستجو کرتا رہتا ہے۔ ’تلاش غالب‘ میں شامل مضامین ان کے اسی تحقیقی ذہن اور تنقیدی شعور کے غماز ہیں۔ ان مضامین میں انھوں نے سہل نگاری اور قناعت پسندی سے دامن بچاتے ہوئے ’غالب تحقیق‘ کے نئے دروازے کھولنے اور  غالب کی شخصیت اور ان کے کلام کو ان کے تاریخی اور تہذیبی سیاق میں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ اسی کتاب میں ایک اہم مضمون  ’غالب تاریخ کے دوراہے پر‘ ہے۔ میں نے اپنے مضمون کی عمارت اسی مضمون پر قائم کی ہے۔

نثار احمد فاروقی نے ’غالب تاریخ کے دوراہے پر‘ میں مرزا غالب کو تاریخی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے اور ساتھ ہی اس امر کا بھی خاص خیال رکھا ہے کہ غالب کے سیاسی اور سماجی پس منظر کا ذکر کرتے ہوئے سلطنت مغلیہ کے زوال کی وہ کہانی نہ دہرائی جائے جسے بیشتر ادیب مغل حاکموں اور ان کے نا اہل جانشینوں سے شروع کرتے ہیں اور اس کا اختتام 1857میں ہونے والی ہندوستان کی آزادی کی کوشش پر کرتے ہیں۔ اس مضمون کی بنیادی بات یہ ہے کہ ہمیں کسی فن کار کا سیاسی اور سماجی پس منظر جاننے اور اسے بیان کرنے کی ضرورت کیوں پڑتی ہے۔ کیا کسی بھی ادب پارے یا فن پارے کو سمجھنے کے لیے اس ادیب کی زندگی، اس کے احوال، اس کے معاشی حالات، اس عہد کا ماحول، اس وقت کا سیاسی اور سماجی ماحول جاننا ضروری ہے؟ کیا ان باتوں کو جانے بغیر کسی بھی ادب کو سمجھنا یا اس کی صحیح پرکھ کرنا ممکن نہیں؟ ان تمام سوالات کو خود نثاراحمد فاروقی نے اپنے اس مضمون میں اٹھایا ہے اور ان کے جواب غالب اور اس کے عہد کو بنیاد بنا کر تفصیل سے دینے کی کوشش کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’ اس دنیا کی عمر آپ تھوڑی دیر کے لیے چند ہزار سال سمجھ لیجیے۔ انسان کی جبلت ہزاروں سال سے وہی ہے، بقائے نسل کی خواہش، فنائے ذات کی کشش، خوف، تحفظ کا احساس۔ اسی طرح انسانی نفسیات اور جذبات بھی وہی ہیں۔‘‘  1

جس طرح زمانہ ما قبل میں کسی حسین صورت یا دلفریب منظر کو دیکھ کر لوگوں کو مسرت ہوتی رہی ہوگی، آج بھی لوگوں کی کیفیت اس سے مختلف نہیں ہے۔ آج جس طرح کسی باغیچے میں چہل قدمی کرتے وقت لوگ خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اس کے مناظر، رنگ برنگے پھول اور ہریالی سے فرحت محسوس کرتے ہیں، پہلے زمانے کے لوگوں کے جذبات بھی اس سے مختلف نہیں رہے ہوں گے۔ چڑیوں کی چہچہاہٹ، بارش کا ہونا، پھولوں کا کھلنا اور اس کی خوشبو، نیز قدرت کے جتنے بھی خوش نما مناظر ہیں ان تمام چیزوں کا اثر لوگوں کے ذہنوں پر پڑتا ہے۔ لیکن ان چیزوں کا اثر قبول کرتے ہوئے شاعر یا ادیب ان تمام چیزوں کو ادب میں جگہ دینے کی کوشش کریں، ضروری نہیں۔ذہنوں پر ان تمام مناظر کے اثرات پڑتے تو ہیںلیکن کسی بھی معاشرے میں اگر کوئی تغیر رونما ہوتا ہے، چاہے اس میں سیاسی عوامل کار فرما ہوں یا تہذیبی، کوئی تحریک منظر عام پر آئی ہو یا کسی انقلاب کا پرچم بلند کیا گیا ہو۔ اس کا اثر اس معاشرے میں رہنے والے تمام لوگوں پر یکساں پڑتا ہے اور دیر پا ہو تا ہے۔ انسان اپنے اطراف میں، اپنے معاشرے میں ہونے والی اتھل پتھل کا اثر زیادہ قبول کرتا ہے۔ چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو۔ حکومت بدل جائے یا باہری طاقتیں حملہ آور ہو جائیں۔ شہر میں خوش حالی کا ماحول ہو، ہر طرف چراغاں ہو اور لوگ عیش و عشرت سے زندگی بسر کر رہے ہوں یا لوٹ مار اور تباہی کی وارداتیں عام ہوں، قتل و غارت گری کا بازار گرم ہو۔ ان تمام حالات کا انسان کے ذہنوں پر اثر پڑنا لازمی ہے۔ادیب یا شاعر عام انسانوں سے زیادہ حسّاس ہوتے ہیںاور یہ تمام چیزیں سوچنے کے انداز اور اظہار کے طریقے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اس لیے کسی بھی ادیب یا فن کار کے ادب پارے یا فن پارے کو سمجھنے میں اس ادیب کے عہد کو سمجھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اگر اس عہد کو سمجھ لیا جائے تو تخلیق کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ نثار احمد فاروقی لکھتے ہیں:

’’خارجی مظاہر کی یہ سب کیفیات سوچنے کے انداز اور اظہار کے اسلوب پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اس لیے فن کار جس تاریخی اور سیاسی سیاق و سباق میں زندہ رہا ہے، اسے گہری نظر سے جانچے بغیر اس کے فن کو بھی اچھی طرح پرکھا نہیں جا سکتا۔‘‘  2

اس مضمون کی ابتدا میں نثاراحمد فاروقی نے غالب کے عہد یعنی 1797سے1869تک پھیلی ہوئی 72سالہ مُدّت پر سرسری لیکن پر مغز گفتگو کی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جس نے نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کی تاریخ کو بدل دیا۔ اس عہد کو اگر قدیم تہذیب و تمدن اور جدید تہذیب کے درمیان کی کڑی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس عہد میں لوگوں کا ذہن کافی حد تک بیدار ہو چکا تھا۔ یوروپ میں رونما ہونے والے صنعتی انقلاب کی تکمیل ہو رہی تھی۔اب ایسے ادب کی بات کی جا رہی تھی جو صرف عوام کے لیے ہو۔ جس کا بنیادی مرکز عام لوگ ہوں اور جس سے عام لوگوں کو فائدہ پہنچے۔یہ نظریہ پیش کرنے والا کارل مارکس اسی عہد کا تھا۔اس سے پہلے تک ادب بھی زمینداروں کی جاگیر سمجھا جاتا رہا ہے۔ اسی عہد میں فریڈرک اینگلز پیدا ہوا جس کی فکر سے نئے اشتراکی نظام کی بنیاد پڑی۔گوئٹے اور فرائڈ جیسی نامور شخصیات اسی عہد کی پیداوار ہیں۔غرض یہ کہ اس عہد میں ایسے بلند مرتبہ مفکرین پیدا ہوئے جن کا اثر آج بھی ہماری زندگیوں پر بہت گہرا ہے۔ جن شخصیات کا اوپر ذکر کیا گیا ہے یہ سب مغرب کے رہنے والے تھے۔ مغربی ادب تیزی سے ترقی کرتا جا رہا تھا جس کے مقابلے میں مشرقی ادب کافی کمزور تھا۔ عالم اسلام میں بھی کئی تحریکیں رونما ہوئیں۔ لیکن ان میں زیادہ تر وحدت اسلام کی دعوت دے رہی تھیں۔ اسلام کے مرکز میں عبدالوہاب نجدی نے تحریک احیا کا کام شروع کر دیا تھا، جس کا خاتمہ مولانا اسمٰعیل شہید کی شہادت پر ہوا۔ بعد میں اس تحریک احیا نے دوسری شکل اختیار کر لی اور آج ہندوستان کے ہر شہر اور قصبے میں مدارس کی شکل میں چل رہی ہے، جن کا بنیادی مقصد دینی تعلیم کا احیا ہے۔ مذہب نے ہمیشہ اپنے اقتدار اعلی کو باقی رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے متعلق نثار احمد فاروقی لکھتے ہیں:

’’...عقلیت اور سماجی انقلاب کی جو تحریکیں انیسویں صدی میں اٹھیں وہ سب مغرب کی مادہ پرست اقوام کی طرف سے اٹھیں۔ عالم اسلام نے اگر کوئی انقلابی آواز بلند کی تو وہ دین کے احیا کی آواز تھی۔ اگر افغانی اور سر سید کی طرح تعلیمی یا فکری انقلاب کی کوئی دعوت آئی تو وہ بھی مذہب کی ظلّ حمایت میں آئی۔ شاید اسی لیے مولانا شبلی نے ایک خط میں مولانا آزاد کو لکھا تھا کہ اگر اپنی دعوت کو مقبول و موثر بنانا ہو تو مذہب کا لبادہ اُوڑھ کر آؤ۔‘‘  3

مولانا شبلی کا یہ جملہ اپنی جگہ درست ہے۔ ما قبل زمانے میں بھی اور دور حاضر میں بھی یہ قول صادق آتا ہے۔ اگر کسی بھی دعوت کو مذہب کا لبادہ اُڑھا دیا جائے تو اس کا خاطر خواہ اثر ظہور پذیر ہوتا ہے۔ اس کے باوجود گذشتہ زمانوں کے مقابلے دور حاضر میں لوگوں کی سوچ میں بھی وقت کے ساتھ بہت تبدیلی آئی ہے۔ اس تبدیلی کے اسباب بھی مختلف ہیں۔ ایک تو یہ کہ اسلامی حکومت کا کمزور پڑنا یا اس کا ختم ہو جانا۔ دوسرے یہ کہ مغرب پرستی ہماری تہذیب، ہمارے سماج اور ہمارے معاشرے میں در آئی ہے۔ جس کی وجہ سے بھی ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں فیصلہ کرنے اور ان سے احکامات لینے کے بجائے، حالات کے مطابق فیصلہ کرنا بہتر سمجھنے لگے ہیں۔ غالب بھی ایسے ہی دور میں پیدا ہوئے تھے۔ جو معاشرہ یا حکومت نام کو تو مسلمانوں کی تھی لیکن ایک اسلامی حکومت اور مغلوں کی طرز حکومت، معاشرت اور تہذیب و تمدن میں بہت فرق تھا۔نثار احمد فاروقی لکھتے ہیں:

’’انھوں (غالب)نے قدیم و جدید کی کشمکش میں کبھی قدامت کی سرپرستی نہیں کی۔ ان کا مذہب بھی واجبی اور روایتی تھا۔ اہل تقلید نے ایک تو ان کی ذہانت کے سبب معاف رکھا۔ دوسرے اس لیے کہ انھیں غالب کے دور میں سیاسی اقتدار نصیب نہیں تھا۔ ورنہ جو طبقہ ابن المقفع جیسے نابغہ کو 26سال کی عمر میںیہ شعر کہنے اور زندیقوں کی کتابیں عربی میں ترجمہ کرنے کی پاداش میں:

یا بیت عاتکتہ الذی التعزل

حذر العدی و بک الفواد موکل

انی  لأمنحک الصدود و انّنی

قسماً الیک من اصدود لأمیل

زندہ جلا کر ہلاک کر سکتا تھا، وہ غالب کو ’دین بزرگاں خوش نہ کرد‘ کہنے پر داد نہیں دے سکتا تھا۔‘‘  4

نثاراحمد فاروقی نے غالب کی زندگی میں ہندوستان میں رونما ہونے والے اہم سیاسی اور تاریخی حوادث پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ جس میں انگریزوں کا دہلی فتح کرنا ہو یا مہاراجہ رنجیت سنگھ کا مضبوط سکھ ریاست قائم کرنا وغیرہ۔ انگریزوں نے اپنی حکمت عملی سے نہ صرف ہندوستانیوں پر حکومت کی بلکہ انھوں نے ہندوستانیوں میں پھوٹ ڈالنا بھی شروع کر دی۔ لیکن ہندوستان کی آزادی ایک ایسا مُدّعا تھا جس نے تمام ہندوستانیوں کو آپس میں باندھ رکھا تھااور اسی اتحاد کے نتیجے میں1857کی پہلی جنگ آزادی سامنے آئی۔ اس جنگ آزادی نے انگریزوں کی بھی آنکھیں کھول دیں اور ان کو احساس ہو گیا کہ ہندوستانیوں کے اتحاد کو ختم کیے بغیر ان پر حکومت نہیں کی جا سکتی۔ انگریزوں کی پالیسی کے متعلق نثار احمد فاروقی لکھتے ہیں:

’’...اس جنگ آزادی نے انگریزوں کی آنکھیں کھول دیں اور انھوں نے یہ محسوس کرلیا کہ ہندوستانیوں کے قومی اتحاد کو پارہ پارہ کر کے ہی وہ اپنے استعمار کو باقی رکھ سکتے ہیں۔ چنانچہ ورناکیولر ایجوکیشن کا وہ نظام شروع کیا گیا جس نے اردو اور ہندی کو قطبین میں بدلنا شروع کر دیا۔‘‘  5

ورناکیولر ایجوکیشن کے تحت انگریزوں نے ہندوستان میں تعلیم کے فروغ کے لیے جو بھی رپورٹ پیش کی ہو اور ہندوستان میں تعلیم کی ترقی کے لیے جو بھی تدابیر پیش کی یا اختیار کی ہوں لیکن اس پروگرام کا جو سب سے بڑا نقصان سامنے آیا وہ یہ تھا کہ ہندوستانی، زبان کے نام پر تقسیم ہو گئے۔ پہلے مدرسوں اور پاٹھ شالاؤں میں ہندی اور اردو دونوں کی تعلیم دی جاتی تھی۔ مدرسوںمیں ہندو بچّے بھی پڑھتے تھے اور پاٹھ شالاؤں میں مسلمان طالب علم۔ لیکن سید احمد شہید کی تحریک جہاد جو احیائے دین کے لیے شروع ہوئی تھی، اسے بنیاد بنا کر انگریزوں نے اردو اور عربی کی تعلیم کو صرف مدرسوں تک مخصوص کر دیا اور ہندی پاٹھ شالاؤں کے ذمّے آ گئی۔ مسلمان اردو اور عربی کو اپنی مادری زبان سمجھنے لگے اور ہندوؤں نے ہندی کی طرف رجوع کرنا شروع کیا۔ سنسکرت کبھی مندروں سے اتری ہی نہیں۔ وہ کبھی عوام کی زبان نہ بن سکی۔ مغل دربار کے زوال کے ساتھ ساتھ فارسی کا بھی زوال ہوتا گیا۔ انگریزوں نے اس میدان میں بھی حکومت کرنے کے لیے جگہ جگہ مشنری اسکول قائم کردیے۔ جس میں انگریزی کی تعلیم دی جاتی تھی۔ انگریز مغربی علم و ادب کی اتنی کتابیں ہندوستان لے آئے کہ ہندوستانی اس کی چکا چوندھ میں کھو کر رہ گئے۔ میکالے نے بھی اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ہمارے یہاں ایک شیلف کا ادب ہندوستان کے تمام ادب پر بھاری ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ ہم ہندوستانیوں کو خون سے تو انگریز نہیں بنا سکتے لیکن ذہنی طور پر اتنا انگریز ضرور بنا دیں گے کہ صبح اُٹھنے کے ساتھ چائے کا پیالہ اور اخبار اس کے ہاتھ میںہوگا۔ ہندوستان کے نظام تعلیم کے متعلق نثار احمد فاروقی رقمطراز ہیں:

’’...ترکی حکومت محمد شاہ پر ختم ہو گئی تھی۔ وہ آخری مغل بادشاہ تھا جس کی مادری زبان ترکی تھی۔ فارسی کچی پکی باقی تھی، اسے ایرانیوں کی لن ترانیوں نے قدم جمانے سے روکا۔عربی مذہبی مدارس میں معتکف ہو گئی۔ سنسکرت کبھی عوامی چلن کی زبان نہیں تھی۔ ہندی ابھی انگھڑ تھی، اردو کچہری کے مقدمے لڑنے اور رپٹ لکھوانے کے کام آسکتی تھی۔ دفتری انتظام اور علمی تصانیف کے لیے انگریزی کو صاف میدان مل گیا۔ مشنریوں کو سرکاری سرپرستی میں جگہ جگہ اسکول کھولنے کی سہولتیں دی گئیں۔ ایک نیا نظام تعلیم اور اس کے ساتھ مغرب سے مختلف علوم پر کتابوں کا ایسا سیلاب آ گیا کہ ساری مقامی زبانیں منقار زیر پر ہو کر بیٹھ گئیں۔ چنانچہ انگریزی آج بھی راج کر رہی ہے اور اسے اپنی جگہ سے ہلائیے تو ہمیں عالمی برادری سے اپنا رشتہ ٹوٹتا ہوا نظر آتا ہے۔‘‘ 6

مغرب کے علم و ادب کا ہمارے یہاں بہت گہرا اثر پڑا۔ اس کی وجہ سے ہندی اور اردو کی تقسیم توہوئی ہی ساتھ ہی ساتھ مغربی تعلیم کا اثر زندگی کے مختلف پہلوؤں اور ہماری تہذیب پر بھی پڑا۔ ہندوستان میں پہلا، سال پتہ کرنے کے لیے بکرمی اور ہجری کلینڈر کی طرف رجوع کیا جا تا تھا لیکن اب عیسوی سنہ نے ان کے جگہ لے لی۔ دن جو آٹھ پہروں میں تقسیم تھا اس کی جگہ 24 گھنٹوں نے لے لی۔اس کے علاوہ ہمارے ادب کو جو بہت بڑا نقصان ہوا وہ یہ تھا کہ ہماری زبان یعنی اردو کی لغت کو ترتیب دینے کا کام انگریز کرنے لگے تھے۔ اردو کی ایک لغت اور اس کے اصول و قواعد کی ایک کتاب گلکرسٹ نے بھی تیار کی۔ہم غفلت میں مبتلا رہے۔ ہم صرف اپنی دل طبعی میں لگے رہے۔ اردو ادب میں ہمارا رول صرف اتنا تھا کہ ہم غزلیں کہہ کر ہی خوش ہو لیا کرتے تھے اور دوسری طرف انگریز ہماری تہذیب اور ہمارے مذہب کی تاریخ لکھ رہے تھے۔ انھوں نے یہ چیزیں لکھنے میں نہ جانے کتنی چیزیں حذف اور کتنی چیزیں اپنی طرف سے شامل کر دی ہوں گی۔ انگریز ملک کی دولت کو تو برطانیہ بھیج ہی رہے تھے، ساتھ ہی ساتھ وہ ہندوستان کے ادب کو بھی برطانیہ کی لائبریریوں کی طرف روانہ کر رہے تھے۔ چنانچہ آج بھی بڑی مقدار میں ہمارا قدیم ادبی سرمایہ برطانیہ کی لائبریریوں میں محفوظ ہے۔

نثار احمد فاروقی نے ’غالب تاریخ کے دوراہے پر‘ میں غالب کو ایک نئے اور اچھوتے پہلو سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ غالب کی پیدائش آگرہ میں ہوئی۔ آگرہ کے قریب فتح پور سیکری پر اس وقت تک انگریز قابض ہو چکے تھے اور دھیرے دھیرے پورے ہندوستان پر اپنی گرفت مضبوط کرتے جا رہے تھے۔انگریزوں نے ڈیوائڈ اینڈ رول کی پالیسی اپنائی تھی۔ وہ ہندوستانیوں کو دولت، جاگیر اور حکومت میں اعلی مرتبوں کا لالچ دے کر اپنے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بناتے جا رہے تھے۔ ہندوستان میں ہر طرف ابتری چھائی ہوئی تھی۔ ان حالات میں جب کہ اقتدار ہندوستانیوں کے ہاتھوں سے نکلتا جا رہا تھا، لوگ ظاہری مرتبے اور القاب و آداب کو اپنی شان سمجھنے اور اس پر قناعت کرنے لگے تھے۔حکومت سے وابستہ رہنا اپنے لیے فخر سمجھتے تھے۔ بھلے ہی وہ حکومت انگریزوں کی ہی کیوں نہ ہو۔ غالب بھی امیر زادے تھے۔ ان کا سلسلۂ نسب سلجوقی خاندان اور افراسیاب تک پہنچتا ہے۔غالب کی بدقسمتی کہ انھوں نے جب آنکھ کھولی تو ان کے خاندان کی بادشاہت تو نہ تھی لیکن ان کے والد اور چچا حکومت میں اچھے مرتبے پر فائز تھے۔لیکن بچپن میں ہی ان دونوں کا سایہ سر سے اُٹھ گیااور ان کی زندگی میں پریشانیوں کی وہ لہر آ گئی، جس نے مرتے دم تک ان کا ساتھ نہ چھوڑا۔ غالب چونکہ امیر زادے تھے، اس لیے ان کی نظروں میں بھی حکومت کی طرف سے ملنے والی مراعات اور القاب وغیرہ بہت اہمیت رکھتے تھے تاکہ جو عظمت ان کے آبا و اجداد کو میسر تھی اس کی شناخت قائم رہے۔ اپنے آبا و اجداد کی، اپنے خاندان کی اور خود اپنی شناخت قائم رکھنا بہت اہمیت رکھتا ہے۔ نثار احمد فاروقی لکھتے ہیں:

’’جب کسی عقیدے یا نصب العین کی روح مر جاتی ہے تو اس کے رسوم و ظواہر کی لکیر پیٹنے میںمبالغہ کیا جاتا ہے، اسی طرح جب سچی طاقت حقیقی سطوت اور واقعی دولت ہاتھوں سے نکل جاتی ہے تو ظاہری القاب و آداب ہی عظمت رفتہ کا نشان رہ جاتے ہیں اور انہیں دانتوں سے پکڑا جاتا ہے۔ یہی سب کچھ غالب کے عہد میں بھی تھا۔ انہیں دربار مغلیہ سے کھوکھلے خطابات پا کر جو طمانیت ہوتی ہے، اپنے قلیل وظیفے کو آثار امارت کے طور پر باقی رکھنے کے لیے جو تگا پو کرتے ہیں، انگریز کے دربار میں کرسی کے لمبر کو جن للچائی نظروں سے دیکھتے ہیںاور الور، حیدرآباد، اودھ، انگریز ریذیڈنٹ یا ملکہ معظمہ کے دربار سے براہ نام وابستگی کو جو اہمیت دیتے ہیں وہ سب دراصل غالب کی اپنی تہذیبی شناخت کا مسئلہ ہے، اس لیے ان کی نگاہ میں سارے مسئلوں سے زیادہ اہم ہے۔‘‘  7

ایک جگہ اور نثار احمد فاروقی لکھتے ہیں:

’’...غالب نے تین مغل بادشاہوں کا زمانہ پایا۔ جب انھوں نے آنکھ کھولی تھی تو کور چشم شاہ عالم ایک شامیانے کے نیچے فاعتبروا یا اولی الابصار بنے بیٹھے تھے۔ اور انگریزوں کی عطا کردہ ایک لاکھ ماہانہ پنشن میں مگن تھے۔ پھر اکبر شاہ ثانی کا دور آیا تو یہ پنشن اور بھی کم ہو گئی اور مراعات میں تخفیف کر دی گئی۔ لیکن وظیفہ کے گھٹنے سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ تھی کہ انگریزوں کی طرف سے آنے والی چٹھیوں میں القاب و آداب گھٹتے جا رہے تھے... بہادر شاہ ظفر کو انگریزوں نے بالکل ہی شاہ شطرنج بنا دیا تھا۔ اور یہ بات کھل کر سامنے آ گئی تھی کہ ان کے بعد کوئی بادشاہ کا لقب اختیار کر کے نہیں بیٹھے گا۔‘‘  8

مغل بادشاہوں کی ایسی حالت کے باوجود غالب نے بہادر شاہ ظفر کے دربار سے اپنا تعلق قائم کیا اور تاریخ نویسی کے فرائض بھی انجام دیے۔ جس کے لیے ان کی پچاس روپیے تنخواہ مقرر تھی لیکن کئی کئی مہینے تنخواہ نہیں ملتی پھر بھی غالب دربار سے اپنا تعلق استوار رکھے ہوئے تھے اور بادشاہ کے مصاحب بن کر اتراتے پھرتے تھے۔لیکن غالب کو اس بات کا بھی بخوبی احساس ہو چکا تھا کہ اب مغرب کی حکمرانی مشرق پر بھی ہو گی اور یہ کسی کے روکنے سے رکنے والے نہیں۔نثار احمد فاروقی لکھتے ہیں کہ ’شاید اسی لیے جب سر سید ان سے آئین اکبری پر تقریظ لکھوانا چاہتے ہیں تو وہ مغربی تہذیب کا ایک قصیدہ نظم کر کے بھیج دیتے ہیں۔ جس کے بین السطور میں یہ ہے کہ اب گڑے مردے اکھاڑنے سے کیا ہوتا ہے۔ اکبر اعظم کا زمانہ واپس آنے والا نہیں‘۔9  شاید یہی وجہ تھی کہ جب مغل حکومت کا سورج غروب ہو گیا اور انگریز قابض ہو گئے تو غالب نے اپنے دامن میں لگے دربار مغلیہ کی وفاداری کا داغ دھونا شروع کردیا۔ جب کہ 1857کی جنگ آزادی میں غالب کا بھی ناقابل تلافی نقصان ہوا تھا۔ ان کا مال و اسباب، خلعت و مراعات سب لُٹ گیا۔ ان کی تنخواہ بند ہو گئی تھی۔ جس کو پھر سے شروع کرانے کے لیے غالب کو بہت مشقت کرنی پڑی۔ غالب نے یہ بات بہت اچھی طرح سے محسوس کر لی تھی کہ مغل حکومت کا عہد واپس لوٹ کر آنے والا نہیں ہے اور اب ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت رہے گی۔ اس لیے ساری تباہی کے باوجود بھی وہ ہندوستانیوں کو ہی اس کا مجرم ٹھہراتے رہے۔ غالب کے اس رویے کے بارے میں نثار احمد فاروقی لکھتے ہیں:

’’میں سمجھتا ہوں کہ اس رویّے کا تعلق غالب کی خود غرضی سے نہیں ہے بلکہ یہ بھی ان کا تاریخی شعور ہے۔ جسے 1857 سے ایک نئی مہمیز ملی تھی، یا اسے تاریخی وجدان کہہ لیجیے جو انہیں یہ بتا رہا ہے کہ محض ہندوستانی باغیوں کی وکالت کرنا یا ان کی مظلومیت کا مرثیہ پڑھنا تاریخی اور تہذیبی قوتوں کے اس تصادم میں پیش آنے والے فیصلے کو بدل نہیں سکتا۔‘‘  10

اس میں کوئی کلام نہیں کہ مرزا اسد اللہ خاں غالب ایک عظیم شاعر ہیں اور اس سے بھی چشم پوشی نہیں کی جاسکتی کہ غالب نے مسجع اور مقفیٰ جملوں سے گراں بار اردو نثر کو عام فہم بنایا۔ اگر کوئی ادیب یا شاعر فن کی بلندیوں پر فائز ہے تو کیا وہ بحیثیت انسان بھی عظیم ہو سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی اختلاف نہیں کہ فن اور شخصیت دو الگ الگ چیزیں ہیں اور ادبی دنیا میں Legend بننے کے لیے شخصیت کا روشن و تابناک ہونا ضروری نہیں۔ مندرجہ بالا اقتباس سے محسوس ہوتا ہے کہ نثاراحمد فاروقی غالب کی شخصیت سے اس قدر مرعوب نظر آتے ہیں کہ غالب کی انگریز نوازی بھی انہیں تاریخی شعور نظر آتی ہے۔ اسی لیے انھوں نے 1857کی جنگ آزادی کے ذیل میں غالب کے رویے کو دوسرے نظریہ سے دیکھنے اور دکھانے کی کوشش کی ہے۔ غالب نے 1857 کی جنگ آزادی کا ذمے دار ہندوستانیوں کو ٹھہرایا اور ہندوستانیوں کو باغی، حکومت برطانیہ کا غدار اور نہ جانے کون کون سے القاب سے نوازا۔ تاریخ کا طالب علم ہو یا ادب کا، غالب کے اس رویے کو انسانیت سے تعبیر نہیں کر سکتا۔ محض حکومت برطانیہ کی نوازشوں کے حصول کے لیے ان کے تمام مظالم کو نظر انداز کر کے ان کا قصیدہ پڑھنے اور ہم وطنوں کی تحقیر کرنے کو دور اندیشی اور تاریخی شعور کا نام نہیں دیا جا سکتا۔

نثار احمد فاروقی اپنے مضمون ’غالب تاریخ کے دو راہے پر‘ کا اختتام ان الفاظ میں کرتے ہیں:

’’اس طرح غالب نے تاریخ کے دوراہے پر پہنچ کو وہ راستہ اختیار کیا جس پر وہ اگر اور زندہ رہتے تو چلتے، لیکن سر سید اسی راہ پر چلے اور ہمیں بھی یہی ایک گلی دور تک جاتی نظر آتی ہے۔‘‘  11

چاہے غالب نے انگریزوں کو درست قرار دیا ہو یا سر سید نے انگریزی تعلیم کی طرف زور دیا ہو اور انگریزوں کی حمایت کرتے رہے ہوںلیکن سر سید اور غالب کا موازنہ درست نہیں۔ دونوں کو ایک دوسرے سے کوئی علاقہ نہیں۔ ایک ہی تاریخی حادثے پر کتابیں لکھنے کا دونوں کا مقصد بھی الگ الگ ہے۔ ’اسباب بغاوت ہند‘ اور ’دستنبو‘ میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ان لوگوں کا مقصد خواہ کچھ بھی رہا ہو۔ لیکن اگر ہم آج کے تناظر میں بات کریں تو ہمیں نثار احمد فاروقی کا یہ جملہ ’’ہمیں بھی یہی ایک گلی دور تک جاتی نظر آتی ہے‘‘ بہت معنی خیز اور حقیقت کے بہت قریب نظر آتا ہے۔اسے ہماری مجبوری کہیے یا ہماری ضرورت، چاہے تہذیب کا معاملہ ہو یا علم و ادب کا، ہم آج بھی مغرب پرستی میں پیچھے نہیں ہیں۔

حوالہ جات:

.1        نثار احمد فاروقی، غالب تاریخ کے دوراہے پر، تلاش غالب 1999،غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی، ص 343

.2        ایضاً،  ص 343

.3        ایضاً،ص342

.4        ایضاً، ص342

.5        ایضاً،ص 345

.6        ایضاً، ص345

.7        ایضاً، ص 344   

.8        ایضاً، ص 347   

.9        ایضاً،ص348

.10     ایضاً،ص 349

.11       ایضاً،ص 349

Dr. Saquib Imran

Dept of Urdu, Jamia Millia Islamia

New Delhi - 110025




غالب کی عظمت- مضمون نگار: نسرین بیگم

 



ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت  اچھے

کہتے ہیں کی غالب کا ہے انداز بیاں اور

ہندوستان کے عظیم سخنور ،جن کا نام مرزا اسد اللہ بیگ خاں ہے۔غالب تخلص۔ جائے پیدائش اکبر آباد ( آگرہ ) ہے۔

اور اب اس شہر کو آگرہ کے نام سے ہی جانا جاتا ہے۔ غالب کی ولادت27 دسمبر 1797 کو اکبرآباد (آگرہ) میں ہوئی۔ بچپن آگرہ میں گزرا۔ مرزا نوشہ لقب اور نجم الدولہ دبیرالملک نظام جنگ خطاب تھا۔ والد کا نام مرزا عبداللہ بیگ خاںتھا۔جب غالب کی ولادت ہوئی اس وقت آگرہ مرہٹوں کے قبضے میں تھا اور سلطنت مغلیہ کا آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر مرہٹوں کا قیدی بنا ہوا تھا۔ اس وقت انگریزوں کا ستارہ عروج پر تھا ۔مرہٹوں کو شکست دے کر انگریزوں نے اپنا پرچم دلی  و آگرہ اور اس کے اطراف و جوانب پر لہرایا ۔1

غالب کے والد مرزا عبداللہ بیگ خاں عرف مرزا دولہا کی شادی کمیدان (Commandant)خواجہ غلام حسین رئیس آگرہ کی بیٹی سے ہوئی تھی۔   (الف) غالب  نے ابتدائی تعلیم آگرہ کے مشہور اساتذہ سے پائی ۔شیخ معظم جو اس وقت آگرے کے نامی معلموں میں سے تھے، غالب  ان سے تعلیم حاصل کر رہے تھے۔غالب مع اپنے چھوٹے بھائی مرزا یوسف خاں کے سن شعور تک آگرہ ہی میں رہے۔ہرمزد نامی ایک پارسی شخص جو غالباآگرے میں بحیثیت سیاّح آیا اور اسلام قبول کرلینے کے بعد اس کا نام عبدالصمد ہو گیا۔عبدالصمد دو برس تک مرزا کے پاس آگرے میں رہے اور غالب نے دو برس تک عبدالصمد سے فارسی پڑھی ۔ 2

آگرہ میں غالب کا ننھیالی مکان جس میں وہ پیدا ہوئے تھے اس کے بارے میں غالب لکھتے ہیں :

’’ہماری بڑی حویلی وہ ہے جو اب سیٹھ لکھی چند نے مول لی ہے ۔اس کے دروازے کی سنگین بارہ دری میں میری نشست تھی ‘‘ 

آگرے کی اس حویلی میں اب اندر بھان گرلس انٹر کالج قائم ہے۔خواجہ الطاف حسین حالی کی لکھی ہوئی غالب کی سوانح عمری ’یادگار غالب‘ میں کلاں محل کا ذکر ہے، وہ کلاں محل جو اب کالا محل کے نام سے مشہور ہے۔ یہ کالج وہیں ہے۔ غالب کے نانا کی جاگیر میں بہت سارے دیہات بھی شامل تھے اور شہر آگرہ میں بھی ان کی بڑی جاگیر تھی۔ 10 ستمبر 1833 کو منشی شیو نرائن آرام اکبر آبادی آگرہ میں پیدا ہوئے۔مفید عام نام سے کالج قائم کیا۔یہ کالج موتی لال نہرو روڈ پر آج بھی موجود ہے مگر وہاں  جانے کے بعد مایوسی ہاتھ آئی۔

 وہاں منشی شیو نرائن آرام اکبرآبادی کی ایک فریم کی ہوئی تصویر  جو  بوسیدہ حالت میں تھی  اور ایک ہال جہاں وہ تصویر زمین پر ایک کونے میں رکھی ہوئی ملی۔ وہاں کی انتظامیہ نے دوبارہ لگانے کی ضرورت نہ سمجھی۔ باقی جو نشانی وہاں ملی وہ کھنڈر کے سوا کچھ نہیں         ؎

اسی کھنڈر میں کہیں کچھ دیے ہیں ٹوٹے ہوئے

 انھیں سے کام چلائو  بڑی اداس ہے رات

مفید عام کالج کے حالات دیکھ کر اور وہاں کے ایک استاد کی زبانی کچھ باتیں سن کر آنکھوں میں آنسو آگئے        ؎

ایک  اہل  درد  نے سنسان   جو  دیکھا    قفس

 یوں کہا  آتی نہیں  اب کیوں  صدائے عندلیب

مفید الخلائق پریس بھی منشی شیو نرائن آرام اکبرآبادی کا تھا۔ عالمی شہرت یافتہ  فارسی اور اردو کے عظیم شاعر مرزا غالب کا پہلا دیوان فارسی اور دیوان اردو 1863 میں یہیں سے شائع ہوا تھا ۔دستنبو فارسی پہلی بار نومبر 1858 میں مطبع مفید الخلائق آگرہ سے چھپی تھی۔ اس مطبع سے کتاب کی اشاعت معیار و شہرت کی ضمانت تھی ۔منشی شیو نرائن آرام اکبرآبادی غالب  کے شاگرد تھے۔ غالب کے ہم عصر اساتذہ جو اس وقت آگرے میں تھے ان میں خلیفہ اسیر، مرزا اعظم بیگ اعظم، افہام اللہ افہام و ساحر، شیخ نیاز علی پریشاں، سید مدد علی تپش، مولوی نبی بخش حقیر، مہاراجہ بلوان سنگھ، مرزا خانی رنج، سید بلاقی زر، قطب الدین خاں باطن، احمد خاں شیفتہ،منشی جواہر لال جواہر، میر سعادت علی سعید، مولوی اصغر علی اصغر کے نام قابل ذکر ہیں ۔

بابو گووند سہائے نشاط اکبرآبادی جنھوں نے 1862  میں وکالت کا امتحان پاس کیا اور آگرہ دیوانی میں وکیل ہوئے ،یہ بھی مرزا غالب کے شاگرد تھے ۔

غالب کی شادی نواب الہی بخش خاں معروف کی صاحبزادی اور نواب احمد بخش خاں والی فیروز پور جھرکہ و جاگیر دار لوہارو کی بھتیجی امرائو بیگم سے ہوئی تھی ۔اس وقت مرزا کی عمر تیرہ برس اور امرائو بیگم کی عمر گیارہ برس تھی ۔

غالب کے سات اولادیں ہویں مگر ان میں سے کوئی نہ جیا۔ تب امرائو بیگم کے بھانجے زین العابدین عارف کو گود لیا تھا۔ غالب عارف سے بہت محبت کرتے تھے مگر افسوس کہ زین العابدین عارف کا انتقال جوانی میں ہی ہو گیا ۔ان کے انتقال کے بعد غالب نے ایک غزل بطور نوحے کے لکھی            ؎

لازم  تھا کہ  دیکھو  میرا رستا کوئی دن اور

تنہا   گئے کیوں، اب رہو تنہا کوئی دن اور

 آئے ہو کل، اور آج ہی کہتے  ہو کہ جاؤں

  مانا  کہ  ہمیشہ  نہیں اچھا ،  کوئی  دن  اور

   جاتے  ہوئے کہتے ہو   قیامت کو ملیں گے

 کیا خوب،  قیامت کا ہے گویا کوئی  دن اور   4

خدائے سخن اور فن غزل گوئی کے استاد میر تقی میر کی ولادت 1723کو اکبرآباد ( آگرہ ) میں ہوئی۔ وہ آگرے کے ایک شریف خاندان کے چشم وچراغ تھے۔ محلہ ہینگ کی منڈی میں ان کا موروثی مکان تھا۔ (اب ہینگ کی منڈی، آگرہ جوتوں کے کاروبار کے لیے مشہور ہے) میر تقی میر کا انتقال 1810 میں لکھنؤ میں ہوا ۔

 میر تقی میر،غالب  کے ہم وطن یعنی آگرے کے ہی تھے ۔مرزا غالب کے اشعار نواب حسام الدین حیدر خاں نے میر تقی میر کودکھائے ۔غالب کے لڑکپن کے اشعار سن کر میر نے یہ کہا کہ ’’ اگر اس لڑکے کو کوئی استاد کامل مل گیا اور اس نے اس کو سیدھے رستے پر ڈال دیا تو لاجواب شاعر ہوگا ورنہ مہمل بکنے لگے گا ۔‘‘5

میر تقی میر کی یہ بات بالکل درست ثابت ہوئی اور رفتہ رفتہ مرزا کے کلام کو شہرت حاصل ہونے لگی اور وہ لاجواب شاعر بن گئے ۔

غالب کے نانا خواجہ غلام حسین خاں جس محلے میں رہتے تھے اس محلے کا نام گلاب خانہ ہے۔ اس وقت گلاب خانہ فارسی زبان کا مرکز تھا۔ یہیں ملاولی محمد شارح مثنوی مولانا روم ،مولوی شمس الضحی، مولوی بد الدجی،منشی اعظم علی اعظم، مولوی محمد کامل، مولوی محمد معظم، خواجہ غلام غوث بیخبر رہا کرتے تھے۔جن سے غالب کو فیض حاصل ہوا۔ ان کے علاوہ جو حضرات فارسی میں شعر کہا کرتے تھے اور اکبرآباد میں تھے ان میں گلرخ، پنڈت ڈونکر مل سنسکرت کے ساتھ فارسی کے بھی ماہر تھے،سلیمہ جن کی  شادی 965ھ میں بیرم خاں سے ہوئی تھی، شاعرہ تھیں، اشکی، فازغی، شیخ ابوواجدؤ شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر،شیخ ابوالفیض فیضی، علامہ شیخ ابوالفضل، بیاض خاں اکبرآبادی بیاضی، میر حشمی اکبرآبادی، خنجر بیگ چغتائی، طالعی یزدی، ملا صبوحی اکبرآبادی، سیرابی اکبرآبادی، ملا شیدا، طفلی، ماہر، برہمن، لالہ ٹیک چند اکبرآبادی بہار، اعجاز، آنتم، خان آرزو اکبرآبادی، میر تقی میر، مولوی سید امجد علی شاہ اصغر، شاہ محمدی بیدار اکبرآبادی، ذرہ، محمد امین ذوقی اکبرآبادی، سحری اکبرآبادی، مولوی نبی بخش حقیر الٰہی بخش شوق اکبرآبادی،  حکیم نظام علی خاں افضل، اللٰہی، انعام، بیخبر، سید کاظم علی اکبرآبادی، حافظ عبدالغفور وفائی اکبرآبادی، مولوی سید اصغر علی شاہ اکبرآبادی، مولانا عاشق حسین سیماب اکبرآبادی، مولوی سید محمد علی شاہ میکش اکبرآبادی کے نام قابل ذکرہیں۔6

محلہ گلاب خانہ آج بھی اسی نام سے مشہور ہے۔ غالب کا بچپن یہیں گزرا۔یہ محلہ اس زمانے میں فاضلان فارسی کا محلہ تھا۔ اس وقت فارسی اور اردو میں طرحی مشاعرہ ہوا کرتا تھا۔’’ پنچ آہنگ ‘ میں ایک خط میر اعظم علی کے نام ہے جو فارسی میں ہے جس کا ترجمہ اردو میں کچھ اس طرح ہے ۔میر اعظم علی غالب کے بچپن کے  دوست تھے ۔ان کو لکھتے ہیں :

...آپ کے خط نے میری مردہ آرزوئوں میں زندگی کی رو دوڑاکر دنیائے دل کو محشرستان بنا دیا... دیرینہ آرزوئوں کے جو کانٹے دل میں چبھے ہوئے تھے وہ دل سے باہر نکل رہے ہیں ۔ آہ،مجھے وہ زمانہ یاد آتاہے جب یہ پوری کائنات (یعنی اکبرآباد )میرا وطن تھی اور ہمدرد دوستوں کی انجمن ہر وقت آراستہ رہا کرتی تھی ۔‘‘7

      غالب کو فارسی سے خاص رغبت تھی اور شعر گوئی سے فکری مناسبت ۔گیارہ برس کی عمر سے ہی شعر کہنے لگے تھے اور خاص طور پر آگرے کے علمی ماحول نے غالب کی شاعری پر اثر ڈالا ۔ان کی شاعری دل کی گہرائیوں کو چھوتی ہے اور ہمیں یہ قبول کرنا ہی پڑتا ہے کہ غالبّ کا انداز بیان ہی انہیں اوروں سے الگ کرتا ہے ۔سننے والا بجائے رنج وغم کے ایک خاص قسم کی مسرت حا صل کرتا ہے ۔غالب کو اپنی انفرادیت کا خود احساس تھا        ؎

کوئی ایسا بھی، کہ غالب کو نہ جانے؟

شاعر  تو  وہ  اچھا ہے ، پہ بدنام  بہت ہے

 غالب  عالمی شہرت یافتہ شاعر ہیں ۔کلام میں روانی ہے۔ ان کے کلام میں یہ خوبی  موجود ہے کہ جب پڑھیے نیا لطف آتا ہے           ؎

 قسمت کہ آپ  اپنے پہ رشک آجائے ہے

 میں اسے دیکھوں ، بھلا کب مجھ سے دیکھا جائے ہے

ظلمت کدے  میں میرے  شب  غم کا  جوش  ہے

اک شمع ہے دلیل سحر سو خموش ہے

مرزا غالب  کے شاگرد عزیز خواجہ الطاف حسین حالی تھے۔ حالی نے انیسویں صدی کے آخر میں ’ یادگار غالب‘ جو استاد مرزا غالب کی سوانح عمری ہے ،لکھ کر غالب کی قدر ومنزلت اور ان کی زندگی سے وابستہ عام معلومات کو ہمیشہ کے لیے محفوظ و لافانی کر دیا۔ ان کی زندگی کے ہر پہلو پر خوب لکھا ۔جو رہتی دنیا کے لیے سند ہے۔غالب کو سمجھنے، پہچاننے کے لیے یاد گار غالب کا مطالعہ بیحد ضروری ہے۔

غالب  اردو غزل میں ایک نیا خیال،نیا فلسفہ، ایک نیا گوشۂ فکر اور ایک نیا شعور لے کر آئے تھے ۔ان سے پہلے ایسی بے باکی اور کہیں نہیں ملتی ۔

 اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا

جام جم سے یہ میرا جام سفال اچھا ہے

غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج

شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

مرزا غالب کی شاعری جتنی حسین اور دلکش ہے اتنی ہی دلچسپ اور پر کشش ان کی شخصیت بھی ہے۔ وہ ایک عظیم شاعر ہونے کے ساتھ ہی ایک عظیم نثر نگار بھی ہیں۔ ان کے خطوط ہمارے لیے بیش قیمتی سرمایہ ہیں۔ غالب کے خطوط کا پہلا مجموعہ ’عود ہندی اکتوبر 1868 میں شائع ہوا۔ دوسرا مجموعہ اردوئے معلی مارچ 1869 میں، اس کے علاوہ خطوط غالب، قاطع برہان اور غد رکے احوال پر ان کی تصنیف دستنبو۔  غالب کے خط لکھنے کا انداز با لکل الگ تھا۔ غالب پنچ آہنگ میں لکھتے ہیں کہ ’’ خطوط نویسی کا میرا یہ طریقہ کہ جب لکھنے کو قلم اٹھاتا ہوں تو مکتوب الیہ کو ایسے الفاظ سے پکارتا ہوں جو اس کی حالت کے موافق ہوتا ہے اور اس کے بعد ہی مطلب شروع کر دیتا ہوں ۔القاب و آداب کا پرانا طریقہ ،شادی وغم کا قدیم رویہ میں نے بالکل ترک کر دیا ہے ۔

  غالب میر مہدی مجروح کو لکھتے ہیں:            

’’ہا  ہا  ہا  !میرا پیارا مہدی آیا۔ آئو بھائی  مزاج تو اچھاہے۔ بیٹھو، یہ رام پور ہے، دارالسرور ہے،جو لطف یہاں ہے اور کہاں ہے۔سبحان اللہ ! آئو میاں سید زادہ، دلی کے عاشق دلدادہ ،ڈھئے ہوئے اردو بازار کے رہنے، حسد سے لکھنؤ کو برا کہنے والے ‘‘ 8

غالب نے 1857 کی پہلی جنگ آزادی کی تباہی و بربادی کو آنکھوں سے دیکھا تھا۔پینشن کے لیے کلکتے تک کا سفر تنگ دستی ،قرض خواہوںکی مصیبت اور پریشانیوں نے غالب کو ایک ایسا فنکار بنا دیا جسے دنیا کبھی فراموش کر ہی نہیں سکتی۔ ان کے خطوط اردو نثر کا شاہکار بن گئے ۔وہ اپنے حوصلے سے زندگی کے ہر غم اور ہر مصیبت کا مقابلہ کرتے رہے اور اپنے عزیزوں، دوستوں، شاگردوں کو خط لکھ کر اپنے دل کی بات بتا کر تسلی کرتے رہے ۔

وہ ایک خط میں منشی ہر گوپال تفتہ کو لکھتے ہیں        ؎

رکھیو غالب  مجھے  اس تلخ  نوائی میں معاف

 آج  کچھ  درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے

  بندہ پرور ! تم کو پہلے یہ لکھا جاتا ہے کہ میرے دوست قدیم میر مکرم حسین صاحب کی خدمت میں میرا سلام کہنا اور یہ کہنا کہ اب تک جیتا ہوں اور اس سے زیادہ میرا حال مجھ کو بھی معلوم نہیں۔مرزا حاتم علی صاحب مہر کی جناب میں میرا سلام کہنا..... پھر جب سخت گھبراتا  ہوں اور تنگ آتا ہوں تو یہ مصرعہ  پڑھ کر چپ ہو جاتا ہوں           ؎

اے  مرگ  نا گہاں  تجھے کیا  انتظار  ہے

 یہ کوئی نہ سمجھے کہ میں ا پنی بے رونقی اور تباہی کے غم میں مرتا ہوں جو دکھ مجھ کو ہے اس کا بیان تو معلوم مگر اس بیان کی طرف اشارہ کرتا ہوں ۔انگریز کی قوم میں سے جو ان روسیاہ کالوں کے ہاتھ سے قتل ہوئے کوئی اس میں میرا امید گاہ تھا اور کوئی میرا شفیق تھا اور کوئی میرا دوست اور کوئی  میرا یار اور کوئی میرا شاگرد ،ہندوستانیوں میں کچھ عزیز، کچھ دوست، کچھ شاگرد کچھ معشوق سو وہ سب خاک میں مل گئے ۔ایک عزیز کا ماتم کتنا سخت ہوتا ہے جو اتنے عزیزوں کا ماتم دار ہو۔ اس کو زیست کیونکر نہ دشوار ہو، ہائے اتنے یار مرے کہ جو اب میں مرونگا تو میرا رونے  والا بھی نہ ہوگا۔انااللہ و انا الیہ راجعون    9

 دل  نہیں ورنہ  دکھاتا  تجھ کو  داغوں کی  بہار

  اس  چراغاں کا کیا کروں کیا  کار فرماں جل گیا

غالب کے خطوط کا یہی کمال تھا ۔منشی ہر گوپال تفتہ جو غالب کے عزیز شاگرد اور میر مہدی مجروح مرزا کے شاگرد خاص تھے ۔ میر سر فراز حسین خواجہ غلام غوث کا نام غالب کے خطوط کی وجہ سے ہی زندہ جاوید ہو گیا ۔اور وہ خطوط ہمیشہ پڑھے جاتے رہیں گے ۔غالب  نے اپنے خطوط کے ذریعے انسانوں کے درمیان پھیلی نفرتوں کو ختم کرنے کے لیے اپنے دل سے نکلی بات لوگوں تک پہنچانے میں کامیاب رہے  اور جہاں انھوں نے سنجیدہ موضوع پر لکھا وہیں طنز و مزاح کو اپنے خطوط اور شاعری میں جگہ بھی دیا           ؎

سنبھلنے دے  ذرا  اے نا امیدی  کیا  قیامت ہے

کہ  دامان خیال یار  چھوٹا  جائے  ہے مجھ  سے

 غالب کے خط میں طنز و مزاح کا نمونہ ملاحظہ ہو        ؎

امرائو سنگھ دوسری  بیوی کے انتقال کے بعد تیسری شادی کا ارادہ کر رہے تھے اس بات کو مرزا تفتہ کو وہ کچھ اس طرح لکھتے ہیں :

’’ امرائو سنگھ کے حال پر اس کے واسطے مجھ کو رحم اور اپنے واسطے رشک آتاہے ۔ اللہ اللہ ایک وہ ہیں کہ دو بار ان کی بیڑیاں کٹ چکی ہیں ۔ایک ہم ہیں کہ اوپر پچاس برس سے جو پھانسی کا پھندہ گلے پڑا ہے نہ تو پھندا ہی ٹوٹتا ہے نہ دم ہی نکلتا ہے ۔اس کو سمجھائو کہ میں تیرے بچوں کو پال لوں گا تو کیوں بلا میں پھنستا ہے ؟

بے باکی اور حاضرجوابی غالب کے خطوط میں موجود ہے خطوط نویسی کے ساتھ شاعری بھی غالب کی زندگی تھی۔ انھوں نے شاعری کو ایک خوبصورت زندگی کی طرح جیا ہے اور آخر وہ عظیم شاعر 15 فروری  1869 کو اس دار فانی سے کوچ کر گئے اور درگاہ حضرت نظام الدین اولیا کے نزدیک دفن ہوئے ۔

مرزا غالب کا دائرہ تخیل کائنات کی طرح وسیع ہے۔ وہ ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیائے سخن کے عظیم اور محبوب شاعر ہیں ۔وہ اپنے الگ انداز بیان کی وجہ سے ہمیشہ یاد کیے جاتے رہیں گے       ؎

ہیں اور  بھی  دنیا  میں سخنور   بہت  اچھے

کہتے  ہیں کہ  غالب کا ہے انداز بیاں اور

غالب کی عظمت کا راز بھی ان کا  اپنا  الگ انداز بیان ہی ہے۔اور وہ ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے محبوب شاعرہیں ۔

حواشی

.1        غالب ایک مطالعہ: ممتاز حسین، انجمن ترقی اردو روڈ، کراچی 1969

            الف ماہنامہ آجکل، نئی دہلی، فروری 2001، کالی داس گپتا رضا، ص 2

.2         یادگارِ غالب، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، دہلی، ص 25-26

.3         ہما ڈائجسٹ غالب نمبر، مدیر عبدالوحید صدیقی، جلد 5، شمارہ 33

.4         دیوان غالب: مرزا اسداللہ خاں غالب، ص 81، یہ زین العابدین خاں عارف کا مرثیہ ہے

.5         ماہنامہ شاعر، آگرہ نمبر، مدیر مسئول، سید اعجاز حسین اعجاز صدیقی اکبرآبادی، جون- جولائی 1936، ص 19

.6         ماہنامہ شاعر، آگرہ نمبر جون- جولائی 1936، ص 69-73

.7         آجکل فروری 2001، غالب اور اکبرآباد ، کالی داس گپتا رضا، ص 40

            یہ خط اواخر 1834 یا اوائل 1835 کا ہے۔ گویا غالب نے منتقلاً آگرہ 1814 یا 1815 میں چھوڑا۔ وہ اس وقت اٹھارہویں سال میں ہوں گے۔ ’کالی داس گپتا رضا

.8         ہما اردو ڈائجسٹ مارچ 1969، نئی دہلی، غالب نمبر مدیر عبدالوحید صدیقی، ص 145

.9         عود ہندی، نجم الدولہ دبیرالملک مرزا اسداللہ خاں غالب، دہلوی 1858، ص 143          

.10      ہما اردو ڈائجسٹ، مدیر عبدالوحید صدیقی، غالب نمبر 1969، ص 144-45


Dr. Nasreen Begum (Alig)

Associate Profe & Head Dept of Urdu

Baikanthi, Devi Girls PJ College

Agra (UP)

 

 



تازہ اشاعت

جگدیش سرن سکسینہ راز کرہلوی اور ان کی غزلیہ شاعری، مضمون نگار: فیضان حیدر

اردو دنیا، اپریل 2025 جہان رنگ و بو میں کچھ ہستیاں ایسی بھی عالم وجود میں آئیں جو اپنی بصیرت، تخلیقی فکر اور ادبی خدمات سے نہ صرف معاشرے ...