12/9/25

اردو اور بھوجپوری کا رشتہ، مضمون نگار: پرواز احمد

 اردو دنیا، اپریل 2025

زبان کی وسعت اور ترقی میں لوگوں کی ہجرت بھی خاص اہمیت رکھتی ہے جس کی ایک باقاعدہ تاریخ بھی موجود ہے۔ چودھویں صدی میں محمد بن تغلق نے دیوگری کو دولت آباد کا نام دے کر اپنا دارالسلطنت دہلی سے دولت آباد منتقل کر دیا۔ جس کے سبب بڑی تعداد میں دہلی کی رعایا کو دہلی سے ہجرت کرکے دولت آباد جانا پڑا۔ اس طرح ان کے ساتھ ان کی زبان اور تہذیب و ثقافت بھی دہلی سے دولت آباد منتقل ہوتی ہے۔

 برطانوی حکومت میں بھوجپوری خطّے (جنوبی اتر پردیش اور مغربی بہار) کی عوام کو تلاش معاش کے لیے بندھوا مزدور (گرمٹیا) کے شکل میں مختلف ممالک نیپال، فیجی، ماریشس، ٹرینیڈاڈ، سورینام، گیانا، تھائلینڈ، جنوبی افریقہ، یوگانہ وغیرہ جانا پڑا تھا۔ یہ گرمیٹیا لوگ جہاں بھی گئے اپنی زبان اور تہذیب و ثقافت کے ساتھ گئے اور ایک مدت کے بعد وہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔

ہندوستان میں اردو زبان بڑے پیمانے پر بولی اور سمجھی جانے والی زبانوں میں اپنا ایک الگ مقام رکھتی ہے۔ عموماً ہندستان کے لوگ اپنی علاقائی زبان کے ساتھ کسی نہ کسی قومی سطح کی زبان کا بھی علم رکھتے ہیں۔ ہندوستان کے جس بھی حصے یا خطے میں اردو بولی اور پڑھی جاتی ہے وہاں کی کوئی نہ کوئی علاقائی زبان ضرور ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس علاقائی زبان پر اردو زبان کا کچھ نہ کچھ اثرپڑا ہوگا۔ اردوزبان کو اپنی روزانہ زندگی میں استعمال کرنے والے لوگ یا اپنی علاقائی زبان میں اردو کے الفاظ کا استعمال کرنے والے لوگ اردو کو اپنے علاقائی زبان کے صوتی نظام کے حساب سے ہی استعمال کرتے ہیں۔

 بعض ماہرین لسانیات بیرون ممالک میں بھوجپوری کے پہنچنے اور بولے جانے کی بڑی وجہ گرمٹیا لوگوں کو قرار دیتے ہیں۔ لیکن اس ضمن میں ایک بات جو توجہ طلب ہے وہ یہ ہے کہ بیرون ممالک میں بولی جانے والی بھوجپوری اور ہندوستان کے الگ الگ خطوں میں بولی جانے والی بھوجپوری میں خاصہ فرق ہوتا ہے۔یہ فرق صوتی اور لفظی دونوں سطح پر دیکھا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ماریشس اور بنگال کی بھوجپوری کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ماریشس میں بولی جانے والی بھوجپوری اور بنگال میں بولی جانے والی بھوجپوری میں بڑا فرق ہے۔ اس فرق کی ایک بڑی وجہ وہاں کے مقامی ماحول ومعاشرت اور دیگرعلاقائی زبانوں کا اثر بھی ہے۔

اردو زبان کا بھوجپوری پر اثر تلاش کرنے کے لیے دونوں زبانوں کے فنکاروں کے متعلقہ  ان خطوں میں دونوں زبانوںکا اثر تلاش کرنا ہوگا جہاں اردو اور بھوجپوری دونوں زبانیں پڑھی یا بولی جاتی ہیں۔ بھوجپوری کی پیدائش کوجس علاقے سے منسوب کیا جاتا ہے وہ علاقہ بہار کا بھوجپور ہے۔ اسی بہار میں اردو کا ایک مرکز دبستان عظیم آبادکے نام سے اردو ادب کی تاریخ میںاپنی ایک الگ پہچان اور اہمیت رکھتا ہے۔ اردو زبان میں فارسی اور عربی زبانوں کے الفاظ زیادہ استعمال ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اردو جس دور میں پیدا ہوئی اس دور میںہندوستان میں فارسی زبان کا غلبہ تھااور فارسی کوسرکاری زبان ہونے کا درجہ حاصل تھا۔ اس وقت کے ہندوستان کا اعلیٰ طبقہ اور ادبا و شعرا بھی فارسی زبان میں تصنیف و تالیف کرتے تھے۔ لیکن اردو ادب میں فنکاروں کے اُس فن اور زبان کو مقبولیت حاصل ہوئی جس میں زبان اردو کی علاقائی زبانوں اور بولیوں کا بھی استعمال کیا گیا تھا۔

اردو،ہندی اوردیگر زبانوں کی طرح بھوجپوری کی قواعدبھی موجود ہے۔ بھوجپوری صرف و نحو اور قواعد کافی حد تک اردو اور ہندی کے قواعد سے مماثلت رکھتے ہیں۔ اسی طرح لوک ادب، اردو ادب اور بھوجپوری ادب کے مختلف اصناف کئی معنوں میں ملتے جلتے نظر آتے ہیں بس ان کے نام ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ داخلی اور خارجی سطح پر لوک گیت اوراردو ادب کی مختلف اصناف کے بیچ مماثلت کو ڈاکٹر قیصر جہاں اپنی کتاب’ اردو گیت‘ میں اس طرح دیکھتی ہیں:

’’خارجی شاعری کے نمونے ہمیں مثنوی، مرثیہ، نظم جدید، قصیدہ اور رباعی کے ایک حصے میں مل جائیں گے۔ داخلی شاعری کے ذیل میں غزل، گیت، اور رباعی کا بڑا حصہ شامل ہے۔‘‘

(اردو گیت از ڈاکٹر قیصر جہاں، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ نئی دہلی، 1977، ص 14)

مختلف موضوعات پر لوک گیت کے مختلف اشعار ذیل میںپیش کیے جا رہے ہیںجس میں اردو زبان کے اثر کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔

 جوڑا-جامہ

’’انگ تورے ریشم کا جوڑا

جھالر میں لاگے ہیرا لال رے‘‘

چند مصرعے اور ملاحظہ ہوں         ؎

’’ اونچے دالان بندا جوڑا سنوارے

امّا توری بندے سوروج مناوے،

دولہا کے جانی کوئی نجری لگاوے‘‘

(بھوجپوری لوک گیتوں کے ویودھ آیام از ڈاکٹر جیوتی سنہا،اومیگا پبلی کیشن، 2013،ص 195)

’’الاہ الاہ لوریاں

دودھ بھری کٹوریاں

کٹوری گئی پھوٹ 

چندا ماما گئے روٹھ‘‘

)اتر پردیش کے لوک گیت ازاظہر علی فاروقی،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،1981،ص 38)

 بھوجپوری زبان میں تعزیہ کو’داہا میاں‘ یا ’داہا بابا‘ بھی کہا جاتا ہے۔ بھوجپوری میںمحرم کے مہینے میںکربلا کے المیہ سے متعلق جو اشعار گائے یا پڑھے جاتے ہیں ان کو ’داہا ‘کے نام سے ہی منسوب کیا جاتا ہے۔داہا کا  ایک شعرملاحظہ ہو        ؎

’’حجرت چوڑن مدینہ و مکہ چلن کربَلوا کی اور

نانا کا رؤجوا اور مائی کی کبُریا سے دور

ارے پہنچیںُ اوجاڑی جنگلوا، جہاں جُلُم کی بدریا گھنگھور

اور کہلِن آپن کھونواں بہائے کے جُلم کی تیار میں اَجُور‘‘

(بھوجپوری ادب کا تعارف از ڈاکٹر فضل امام، مطبع اسرار کریمی پریس، الہ آباد، 1947، ص 79)

مختلف زبان و ادب میں بارہ ماسہ کی روایت قدیم زمانے سے ہی چلی آ رہی ہے۔ مختلف زبانوں کے علاوہ ہندستان کی مختلف بولیوں میں بھی بارہ ماسے کا رواج دیکھنے کو ملتا ہے۔بارہ ماسا وہ صنف ادب ہے جس میں عورت کی زبانی اس کے شوہر کی بِرہ (جدائی) کے اوقات کو سال کے بارہ الگ الگ مہینوںکے اعتبار سے پیش کیا جاتا ہے۔ بارہ ماسا میں مختلف موسم،بہار، رُت، میلہ،خزاں وغیرہ کی مناسبت سے شوہر کی جدائی میں ہونے والے غم اور احساسات و جذبات کو موضوع بنایا جاتا ہے۔ اردو اور بھوجپوری میں گیت کی روایت میں بارہ ماسے کا ذکرقدیم زمانے سے ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ بھوجپوری علاقے کے لوگ ایک زمانے سے گرمٹیہ کی شکل میں روزی روٹی کی تلاش میں بیرون ممالک جاتے رہے ہیں۔ شوہر سے جدائی اور اس جدائی میں سال کے مختلف مہینوں اور موسموں میں شوہر کو یاد کرنے کے عمل کو عورتوں نے اپنے گیتوں میں بھی جگہ دی۔بھوجپوری برہ یا ہجرکے چند مصرعے ملاحظہ ہوں        ؎

’’میرے ساجن! تم کو پردیس ہی جانا تھا

تو اے ساجن!میرا گونا کیوں لائے

کس کے ہاتھ چٹھی لکھ کر بھیجوں اور کس سے سندیس کہلاؤں

کوے سے چٹھی بھیجوں اور پنچھی سے سندیس کہلاؤں ‘‘

چند سطریں اور ملاحظہ ہوں جس سے پردیس جا رہے شوہر کے لیے بیوی کے جذبات کی عکاسی ہوتی ہے         ؎

’’کیسے کٹیں گے دن جتن بتائے جاؤ.........

جو تم سیاں میرے جاؤ چکریا اپنی صورت میری بہیاں لکھائے جاؤ

(چاکری)     جتن بتائے .........جاؤ‘‘

(لوک گیت از اظہر علی فاروقی،ادارۂ انیس اردو، الہ آباد، ص14)

بھوجپوری علاقے کے ادبا نے اپنے افسانوں اور ناولوں میں وہاں کے علاقائی اور روایتی موضوعات کو خاص طور پر اہمیت دی ہے جس میں حب الوطنی، مشترکہ تہذیب، تیج تیوہار، غریبی، کسانی، پیدائش اور وفات، ذات پات، خواتین کے حقوق، جاگیدارانہ نظام وغیرہ اہم ہیں۔ان موضوعات کی پیشکش میںمتعلقہ سماج کے ضرب المثل اور کہاوتوں وغیرہ کا بھی بخوبی استعمال کیا گیاہے۔ ناول گؤدان کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

’’جسم ڈھل گیا تھا۔ خوبصورت گندمی رنگ سانولا پڑ گیا تھا اور آنکھوں سے بھی کم دکھائی دیتا تھا۔ یہ سب کچھ پیٹ کے فکر ہی کے سبب تو تھا۔ کبھی تو جینے کا سکھ نہ ملا۔ اس دائمی خستہ حالی نے اس کی خودداری کو بے دلی میں تبدیل کر دیا تھا۔ جس گرہستی میں پیٹ کو روٹیاں بھی نا مل سکیں اس کے لیے اتنی خوشامد کیوں؟ ان حالات سے اس کا دل برابر بھڑکتا رہتا تھا اور دو چار جھڑکیاں سن لینے ہی پر اسے اصلیت کا پتہ چلتا تھا۔ اس نے ہار کر ہوری کی لاٹھی، مرزئی، پگڑی، جوتے، تمباکو کا بٹوا، سب لا کر اس کے سامنے پٹک دیے۔‘‘

(گئودان از منشی پریم چند، مکتبہ جامعہ دہلی، جنوری 1966، ص 6)

یہ اقتباس سماج کے اس ماحول و معاشرت کی حقیقت ہے جس سے ایک غریب کسان نبردآزما ہوتا ہے اور ان پریشانیوں سے خود کو کبھی بھی علیحدہ نہیں کر پاتا ہے۔

اردو زبان کے جو الفاظ بھوجپوری زبان و ادب میں صوتی تبدیلی کے ساتھ استعمال ہوتے رہے ہیں وہ آج بھی رائج ہیں۔ بعض ادیب انھیں اردو کی بگڑی ہوئی شکل قرار دیتے ہیں۔اردو زبان کے جو الفاظ بھوجپوری میں تبدیلی کے ساتھ مستعمل ہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اردو الفاظ کا ایک بڑا ذخیرہ بھوجپوری میں شامل تو ہواہے لیکن اس کو بھوجپوری کے رنگ و آہنگ میں ڈھال کر شامل کیا گیا ہے۔اس طرح وہ اردو الفاظ بھی بھوجپوری کے الفاظ معلوم ہوتے ہیں۔اسی طرح لوک گیتوں کی زبان بھی علاقائی اور مقامی ہوتی ہے اس وجہ سے الفاظ کے تلفّظ پر مقامی اثر دیکھنے کو ملتا ہے۔ بھوجپوری میں اردو کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی کے الفاظ بھی رائج ہیں۔اس بابت ڈاکٹر افضل امام کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

’’ یہ زیادہ تر اردو اور ہندی ہی سے آئے ہیں۔ یوں تو عربی اور فارسی کے الفاظ تُلسی داس کی رامائن رام چرت مانس میں بھی ملتے ہیں۔ سورداس، کبیر داس، ملک محمد جائسی اور بہاری وغیرہ کے یہاں بھی استعمال ہوئے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ بھوجپوری میں کچھ الفاظ براہ راست فارسی سے آئے ہیں کیونکہ جون پور، ایک عرصہ تک مشرقی سلطنت کا پایۂ تخت تھا۔ جون پور کے مشرق اور جنوب میں بھوجپوری علاقہ ہے اور جون پور کی شاہ گنج تحصیل بھوجپوری علاقہ میں آتی ہے۔‘‘

(بھوجپوری ادب کا تعارف از ڈاکٹر فضل امام،مطبع اسرار کریمی پریس، الہ آباد،1947،صفحہ نمبر 22-23)

بھوجپوری میں ترکی اور عربی زبان کے الفاظ کے استعمال کی وجہ بھوجپوری پر زبان فارسی اور اردو کا اثر ہے اور یہی وجہ ہے کہ بھوجپوری زبان میں اردو، عربی، فارسی اور ہندی کے الفاظ کی بہتات ملتی ہے۔

اردو، عربی،فارسی و ترکی زبان کے چند الفاظ ذیل میں پیش کیے جا رہے ہیں جو کچھ تبدیلی کے ساتھ بھوجپوری میںرائج ہیں۔ اُجیر (وزیر)، لاس (لاش)، کھاندانی (خاندانی)، دماگ(دماغ)، نباب (نواب)، ترپھ (طرف) ، کابو (قابو)، دسمن (دشمن)، ترکی (ترقی)،  دروگہ (داروغہ)، متلب (مطلب)، گلتی (غلطی)، موں کدمہ (مقدمہ)، مسہور (مشہور)، جاگیر،  بہادر، ارمان وغیرہ۔

بنارس بھوجپوری کا وہ علاقہ ہے جہاں  بولی جاتی ہے۔ اتر پردیش کے اس شہر بنارس میں  بھوجپوری زبان کے ساتھ اردو الفاظ کا خاصہ استعمال ہوتا ہے۔ بنارس کے مشہور و معروف شعرا میں نذیر بنارسی ایک بڑا نام ہے۔ نذیر بنارسی اپنے کلام میں ان الفاظ کا بخوبی استعمال کرتے ہیں جو اودھ اوراتر پردیش کے جنوبی علاقوں میں عام بول چال میں استعمال ہوتے ہیں۔ نذیر بنارسی کی نظم’ پیارا ہندوستان‘کا ایک بند ملاحظہ ہو            ؎

کالی بلائیں سر پر پالے

شام اودھ کی ڈیرا ڈالے

ایسے میں کون اپنے کو سنبھالے

میرا نواس استھان یہی ہے

پیارا ہندوستان یہی ہے

(کلیات نذیر بنارسی از مرتب ناظر حسین خان، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی 2014، ص 22)

نظم’پہلی جنگ آزادی‘(1857 کے شہیدوں کی یاد میں)کا ایک بند ملاحظہ ہو        ؎

’’موت آئی گلے جو تم سے ملنے

تم نے اسے دیش پیار سمجھا

جب آ کے اجل نے تھپکیاں دیں

ماتا کا اسے دلار سمجھا‘‘

(کلیات نذیر بنارسی از مرتب ناظر حسین خان، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی 2014،ص30)

نظم ’پیارا ہندوستان‘کے بند کے دوسرے مصرے میں ’ڈیرا ‘ لفظ کا استعمال ہوا ہے۔ اس لفظ کا استعمال عام طور سے ٹھہرنے والی جگہ یا مسکن کے معنی میں ہوتا ہے۔ لفظ ڈیرا فارسی سے اردو میں اور پھراردو سے بھوجپوری زبان اور عام بول چال کی زبان میں استعمال ہوا ہے۔

وہیں دوسرا بند جو’ پہلی جنگ آزادی‘نظم سے اخذ کیا گیاہے اس کے آخری مصرعے میں لفظ ’دلار‘کا استعمال ہوا ہے۔یہ لفظ بھی بھوجپوری، ہندی اور اردو زبانوں میں خوب استعمال ہوتا ہے۔

درج بالا نظموں کے بند وں میں جس اردو زبان کا استعمال ہوا ہے وہ تہذیب و ثقافت اور لوک زبان سے متعلق عوام کے جذبات سے کافی قریب تر ہے۔اس سے ان علاقے کے لوگو ں کا آزادی اور ثقافت کے متعلق رجحان اور ان کی محبت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ اردو ادب میں بہار اور مشرقی اترپردیش کے علاقوں کے شعرا جیسے شاد عظیم آبادی، اصغر گونڈوی، یگانہ چنگیزی، فراق گورکھپوری، اشرف علی فغاں،جمیل مظہری، کلیم عاجز، نذیر بنارسی وغیرہ کے یہاں علاقائی روایتوں کے اثر کے ساتھ ساتھ عوامی زبان کا خاص اثر بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں کے لوگوں میں بولی کا اثر بھی اسی شدت کے ساتھ نظر آتا ہے جس شدت کے ساتھ زبان کا۔

 بہار اور مشرقی اتر پردیش کے اردو اور بھوجپوری شعرا کے یہاں ان کی غزلوں اور نظموں میں حب الوطنی، تہذیب و ثقافت، تیج تہوار، مختلف قسم کے پہناوے، مختلف بولیاں، مختلف زبانیں، لوک تہوار، مصوّری، روزی روٹی، کسان، خواتین کے حقوق، ماں باپ کی خدمت، اُمید جیسے ادبی و لسانی موضوعات کو خاص اہمیت دی جاتی ہے یا یوں کہا جائے کہ یہ شعرا  عوام کی سادہ زندگی سے قریب تر ہوتے ہیں اوران کے احساسات و جذبات اور روزانہ کی زندگی کے عوامل کو اپنی شاعری کا موضوع بناتے ہیں          ؎

کر دیں گے ہم ایک ان کے لیے خون پسینا

ہم کام کیے جائیں گے مارے ہوئے پتا

آثار بتاتے ہیں پلٹنے کو ہے پانسا

گھورے کے بھی دن کہتے ہیں اک روز پھریں گے

ہم زندہ تھے ہم زندہ ہیں ہم زندہ رہیں گے

(نظم ’داستان آدم‘گل نغمہ از فراق گورکھپوری،مطبع الف آفسیٹ پرنٹرس،ص 157)

میرا خیال ہے کہ اردو کا بھوجپوری پر اثر دبستان لکھنؤ اوردبستان عظیم آباد کی بڑی دین ہے۔ اردو اور بھوجپوری کے رشتے کے ذیل میں صرف یہ کہہ دینا کہ اردو کا ہی اثر بھوجپوری پر رہا ہے تو یہ درست نہیں ہوگا۔ کسی بھی ادب میں مؤثر طریقے سے اپنی بات اور احساسات و جذبات کو پیش کرنے کے لیے ادیب متعلقہ علاقے کی بولی اور زبانوں کا استعمال کرتا رہا ہے۔اردو زبان میں بھی شعرا نے اپنے فن پاروں کو مؤثر بنانے کے لیے مختلف بولیوں اور ان کے الفاظ کو اپنے اپنے فن پاروں میں بہت خوبی لے ساتھ برتا ہے۔مثال کے طور پر فراق کی نظم کا ایک بند ملاحظہ ہو         ؎

’’پرجا ہی ہے دیش کا راجہ

گھر کی چٹائی راج سنگھاسن

سب کی ٹوپی راج مکُٹ ہے

پھوس کا گھر بھی راج محل ہے‘‘

(نظم ’دھرتی کی کروٹ‘ گل نغمۂ از فراق گورکھپوری،مطبع الف آفسیٹ پرنٹرس، ص 162)

نظم کے اس بند میں لفظ پرجا،چٹائی، مکُٹ وغیرہ الفاظ کا استعمال ہوا ہے جو عام بول چال یا لوک ادب میں استعمال ہوتے ہیں۔

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح ایک زبان کسی بولی کو متاثر کرتی ہے اور اپنے ذخیرۂ الفاظ اور صرف و نحو و قواعد کے ذریعے اس کووسعت و گیرائی عطا کرتی ہے۔ اسی طرح بولیاں بھی کسی بھی زبان و ادب کے ارتقا، ان کی جامعیت اور ان کے ذخیرۂ الفاظ کی وسعت، ان میں اثر پیدا کرنے اوران کو عوام سے قریب تر لانے اور مقبول عام بنانے میں مددگار ہوتی ہیں۔

 

Parwaz Ahmed

Research Scholar, Department of Urdu

Banaras Hindu University

Varanasi- 221005 (UP)

Mob:7753027349

Email:ahmedvns111@gmail.com

 

11/9/25

پروفیسر انور ظہیر انصاری، مضمون نگار: عبد الرحمن فیصل

 اردو دنیا، اپریل 2025

پروفیسر انور ظہیر انصاری کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ اردو کے اچھے استاد،ادب کے ایک سنجیدہ قاری اور ناقد کی حیثیت سے اردو ادب میں جانے جاتے ہیں۔ اب تک ان کی کل 12 کتابیں اور تقریباً 70 سے زائد مضامین ہندوستان کے مؤقر رسالوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ 90 سے زیادہ سمیناروں میں آپ نے شرکت کی اور مقالے پیش کیے ہیں۔ ادبی سرگرمیوں کے علاوہ تقریباً 40 ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالوں کے ممتحن اور 5 ؍پی ایچ ڈی کے مقالوں کے نگراں رہ چکے ہیں۔ تقریباً 41 توسیعی خطبے ہندوستان کی متعدد یونیورسٹیوں میں آپ نے پیش کیے ہیں۔ اس کے علاوہ ہندوستان کی مختلف یونیورسٹیوں میں بورڈ آف اسٹڈیز کے ممبر بھی رہے ہیں۔ ساتھ ہی گجرات میں اردو زبان و ادب کے لیے جو خدمت انھوں نے کی ہے وہ قابلِ تعریف ہے۔

پروفیسر انور ظہیر انصاری یکم اکتوبر 1953 کو اترپردیش کے ضلع مئوناتھ بھنجن میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مئو میں ہی حاصل کی بعد ازاں بی اے کی تعلیم گورکھپور یونیورسٹی سے مکمل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے آپ نے جواہر لال یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ جہاں سے ایم اے(1983)، ڈپلو ما ان ماس کمیونیکیشن (1985) اور1988 میں ایم۔فل کی سند حاصل کی۔ اردو کے نامور اساتذہ پروفیسر محمدحسن، پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی، پروفیسر نصیر احمد خان، ڈاکٹر اشفاق محمد خان ان کے استاد تھے۔ جنھوں نے ان کے علمی و ادبی ذوق کو نکھارا ۔ اس کے علاوہ جن اساتذہ سے انھوں نے استفادہ کیا ان میں پروفیسر نورالحسن انصاری(فارسی)، پروفیسر عبدالودود اظہر (فارسی)، پروفیسر قمر رئیس، تنویر احمد علوی، عنوان چشتی، شمیم حنفی وغیرہ کے نام اہم ہیں۔ کورونا کی وبا کے بعد ہی انور ظہیر صاحب کی طبیعت خراب رہنے لگی تھی۔ آخر کار31اکتوبر 2024 کوانھوں نے اس دیارِ فانی کو خیرباد کہہ دیا۔

 طالبِ علمی کے زمانے سے ہی آپ نے ملازمت شروع کردی تھی۔ 1984 تا 1985 تک دوردرشن کے رفرنس سیکشن میں آپ نے جزوی ملازمت کی۔ جنوری 1985 سے جون 1985 تک آل انڈیا پرشین ٹیچرس ایسوسی ایشن کے زیرِ نگرانی یو جی سی پروجکٹ میں بحیثیتِ ریسرچ اسسٹنٹ وابستگی رہی۔ فروری 1986 میں ایم ایس یونیورسٹی بڑودہ کے شعبۂ فارسی عربی اور اردو میں بحیثیتِ اردو لکچرر آپ کا تقرر ہوا اور ترقی کرتے ہوئے اکتوبر 2015 میں پروفیسر کے عہدے سے سبک دوش ہوئے۔

پروفیسر انورظہیر انصاری کی تنقیدی تحریروں کا سلسلہ تو 1980 سے پہلے ہی شروع ہو چکا تھا۔ لیکن ان کا پہلا مضمون’دہلی اور فورٹ ولیم کالج کا تقابلی مطالعہ‘ کے عنوان سے نومبر1983 میںماہنامہ’ ادب نکھار‘ مئوناتھ بھنجن سے شائع ہوا۔ 2004 میں ان کی پہلی کتاب ’ساحر لدھیانوی: حیات و کارنامے‘ کے عنوان سے ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ سے شائع ہوئی۔ یہ مقالہ انھوں نے پی ایچ ڈی کی سند کے لیے تحریر کیا تھا۔

جیسا کہ ذکر آیا ہے کہ اب تک ان کی متعدد کتابیں زیورِ طبع سے آراستہ ہوچکی ہیں۔ ان کتابوں میں ترجمہ، ترتیب اور مضامین کے مجموعے شامل ہیں ان کی فہرست اس طرح ہے۔ شعورِ ادب (مضامین کا مجموعہ) 2007، ورق ورق آئینہ(ترتیب) 2009، اردو کا شعری اثاثہ اور نئے وارث(تنقیدی مضامین) 2013، سرسید سے شہریار تک(تنقیدی مضامین) 2018، ترقی پسند شعر و ادب (تنقیدی مضامین) 2019، قصہ غمگین (ترجمہ اردو سے دیوناگری)۔

پروفیسر انصاری کی ساحر لدھیانوی کی ادبی خدمات پر شائع ہونے والی کتاب کی ادبی حلقے میں خوب پذیرائی ہوئی اور ادب کے ایک سنجیدہ قاری کے طور پر قارئین ِ ادب و ناقدینِ ادب میں انھیں قدرکی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔ یہ کتاب ساحرکی زندگی اور تخلیقی کارناموں پر مشتمل ایک مبسوط اور حوالہ جاتی مقالے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس سے پہلے ساحر پر جو کچھ بھی مواد موجود تھا وہ مضامین کی شکل میں رسالوں میں تھا اور اس کے علاوہ ناز صدیقی کی کتاب ساحر لدھیانوی: شخص اور شاعر بھی ملتی ہے لیکن اس کتاب میں ساحر کے کارناموں کا صرف اجمالی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ اس طرح ڈاکٹر انصاری کے مقالے کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ ساحر کی زندگی، شخصیت، شاعری اور فلمی نغموں پر شائع شدہ یہ پہلی کتاب ہے۔ اس کے علاوہ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ مقالہ نگار نے یہ مقالہ خود اپنی نگرانی میںہی مکمل کیا۔ مقالے کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مقالہ نگار نے خود کو صرف موضوعاتی تجزیہ تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ ساحر کی فنی خوبیوں کو بھی اجاگر کیا ہے اور تقابلی مطالعے کے ذریعے ہم عصرشاعری میں ان کے مقام کا تعین کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔

یہ کتاب کل پانچ ابواب پر مشتمل ہے جس میں پہلا باب ساحر کی حیات اور تخلیقی ارتقا سے متعلق ہے جس میں ساحر کی پیدائش، ابتدائی تعلیم و تربیت، ماحول ،جس میں ان کی پرورش و پرداخت ہوئی اور جس کا اثر ان کے کلام میں بھی جا بہ جا نظر آتا ہے، کا ذکر کیا گیا ہے۔ آگے چل کر اسی باب میں پروفیسر انصاری نے یہ بھی بتایا ہے کہ ساحر کی شاعری کا سلسلہ کالج کے ہی زمانے سے شروع ہو گیا تھااور ساحر اپنی جذباتی تقریروں اور انقلابی نظموں کے ذریعے عوام کے دلوں میں جوش و ولولہ پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اسی حصے میں مصنف نے ساحر کی زندگی کے اتار چڑھاؤ، معاشقوں کا ذکر بھی کیا ہے جن کا اثر کسی نہ کسی طرح ان کی شاعری پر پڑا اور بعض نظموں مثلاً نظم ’گریز‘کے ذریعے مقالہ نگار نے ان کی جانب اشارہ بھی کیا ہے۔اسی باب میں ساحر کا بمبئی آنا ، پھرباضابطہ طور پر کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہونا اور فلمی دنیا سے ان کی وابستگی کا بھی ذکر کیا گیاہے۔

اس کے بعد کتاب کے چار ابواب مکمل طور پر ساحر کی شاعری کے حوالے سے قلم بند کیے گئے ہیں جس میں نظمیں، غزلیں، مرثیے اور ان کی فلمی شاعری شامل ہے۔

ان ابواب کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پروفیسر انورظہیر انصاری نے ساحر کے کلام کی تفہیم میں تجزیاتی طریقۂ کار اختیار کیا ہے۔ انھوں نے شاعر کے عہد اور اس کے ماحول کی روشنی میں بھی کلام کو دیکھنے کی کوشش کی ہے مثلاً یہ اقتباس ملاحظہ کریں:

’’ساحر کی شاعری میں ایک ایسی فضا اور ایسا احساس نظر آئے گاجو ان کے نجی حالات اور ماحول اور اسی عہد کی سماجی و سیاسی اور فکری و تہذیبی تبدیلیوں سے اثر پذیر ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ساحر کی شاعری کا مطالعہ ہمیں اجتماعی زندگی کے ان تمام عوامل و عناصر سے ہم کنار کرتا ہے جس پر فرسودہ تہذیبی روایات و اقدارِ حیات اور استعماری قوّتوں کے جبر و استحصال کی مہر ثبت ہے۔‘‘  1

ساحر کی شعری زندگی کا آغاز تقریباً ترقی پسند تحریک کے قیام کے ساتھ ہی ہوا یہ زمانہ ہندوستان میں جہدِ آزادی کا دورِ عروج تھا۔ ساحر نے حالات کے شکار آزادی سے محروم، مظلوم انسانوں کے تئیں ہمدردی کا رویہ اختیار کیا اور تذلیلِ انسانی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ ساحر کے یہاں اجتماعی زندگی کا پختہ شعور، قوّتِ ارادی اور سیاسی و سماجی انقلاب کے واضح نقوش جابہ جا نظر آئے ہیں۔ اقتباس ملاحظہ کریں:

’’ساحر کے سامنے چوں کہ غلام ہندوستان کی غلام انسانیت تھی۔ سیاسی اور فکری آزادی سے محروم اور طبقاتی درجہ بندی کے سبب استحصال کا شکار۔ لہٰذا ایک ترقی پسند شاعر ہونے کے ناتے انھوں نے نہ صرف معاشی بدحالی، سماجی ناانصافی، سیاسی غلامی اور معصوم عوام کو مذہب اور تہذیب کے نام پر تقسیم کرنے کے رجحان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی بلکہ ایک ایسے سماجی نظام کے قیام کا احساس بھی بیدار کیا جس میں اخوت اور مساوات کو فروغ ہو اور انسان کو انسان کی طرح جینے کا حق و اختیار حاصل ہو‘‘  2

مذکورہ اقتباس میں مستعمل لفظیات مثلاً طبقاتی درجہ بندی، استحصال و جبر کے خلاف صدائے احتجاج، معاشی بدحالی، سماجی ناانصافی، سیاسی غلامی وغیرہ، ترقی پسند تنقید نگاری کے کلیدی الفاظ ہیں۔ چونکہ ساحر ایک ترقی پسند شاعر تھے اس لیے ضروری بھی ہے کہ ان کی شاعری کا مطالعہ اس عہد کی روشنی میں کیا جائے جس سے ان کے کلام کی معنویت کا صحیح اندازہ لگایا جا سکے۔ اس لحاظ سے اگر دیکھیں توپروفیسر انصاری ساحر کے کلام کی تفہیم و تجزیے میں پوری طرح کامیاب نظر آتے ہیں۔

ساحر کی شاعری کے موضوعاتی تجزیے کے ساتھ ساتھ پروفیسر انصاری ان پس پردہ عوامل مثلاً سماجی، فکری و زندگی کی حقیقتوں ، کا بیان بھی کرتے ہیں جن کے سبب ان کی شاعری میں تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔

کلامِ ساحر کے موضوعی و فکری تجزیے کے بعد انھوں نے تقریباً ہر باب کے آخر میں ان کے فن سے بھی بحث کی ہے، جس میں ہیئتی نظام کو پیشِ نظر رکھّا ہے، خصوصاً علمِ  بیان و بدیع کے حوالے سے شاعری کی مثالیں پیش کرکے پروفیسر انصاری نے جمالیاتی خوبیوں کی وضاحت بھی کی ہے۔ ساحر کی فنی خوبیوں میںانھوں نے نظموں میں مستعمل محاکات نگاری کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے جس کے ذریعے ساحر نے اپنی نظموں کو ڈرامائی شکل عطا کی ہے۔ اس حوالے سے ان کا یہ اقتباس دیکھیں:

’’پرچھائیاں محاکات نگاری کا بہترین نمونہ ہے جس میں فلمی مون تاژ کی تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے پیکر سازی کی اس نئی صورت نے غیر مرئی اور ساکت و جامد چیزوں کو بھی زندہ اور متحرک کر دیا ہے۔ پرچھائیاں درحقیقت ایک تصویری سلسلہ ہے جو تصورات کی پرچھائیوں کے ساتھ ابھرتا اور ڈوبتا رہتا ہے اور یہ عمل پوری نظم میں اپنے ڈرامائی عنصر کے ساتھ جاری و ساری ہے‘‘3

اس اقتباس کے بعدپروفیسر انصاری نے نظم کا مکمل متن پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ نظم کا بنیادی حسن صرف اس کا موضوع نہیں جو عالمی امن کے قیام کی آرزوؤں سے اثر پذیر ہوا ہے بلکہ وہ فنی رچاؤ اور فنکارانہ حسن ہے جو زبان کی سادگی اور بیان کی دلکشی کے سبب دو چند ہوا ہے۔ مزید برآں یہ اس لحاظ سے بھی تنہا نظم ہے کہ یہ مختلف بحروں میں لکھی گئی ہے اور تمام بحروں میں مضمون کی رعایت سے الفاظ کا استعمال بھی اس کے فن کو نکھارتا ہے۔‘‘4

مذکورہ بیانات کو اگر ذہن میں رکھیں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ پروفیسر انور ظہیر انصاری کا شعری شعورپختہ ہے۔ لیکن اس تجزیے میں اگر وہ متن کی  close reading کے ذریعے یہ بھی دکھاتے کہ کس طرح مضمون کی رعایت سے مناسب لفظوں کا استعمال اور محاکات نگاری نظم کو ڈرامائی حیثیت عطا کرتی ہیں اور وہ کون سے عناصر ہیں جو نظم میں مستعمل غیر مرئی اشیا کو زندہ اور متحرک کر دیتے ہیں تو ان کا تجزیہ زیادہ منطقی اور معروضی ہوتا۔ لیکن اس کے باوجودپروفیسر انصاری نے حتیٰ الامکان اپنی بات دلائل و شواہد کی روشنی میں پیش کی ہے اور نظم کی معنویت کو فکری و فنی دونوں حوالوں سے روشن کیا ہے۔

غزل اور فلمی شاعری کے باب میں مصنف نے موضوعی اور فنی تجزیے کے ساتھ ساتھ ہم عصرشعرا اور نغمہ نگاروں کے تقابل کے ذریعے ساحر کی شاعری پر ان کے اثرات کا بھی جائزہ لیا ہے اور ان کی بلند قامتی کا ثبوت بھی فراہم کیا ہے۔

ساحر کی فلمی شاعری کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ ’’ ساحر نے ابتداً لفظیات اور اسلوب کی انفرادیت کے باوصف اپنے ماقبل شعرا مثلاً مجروح، جانثار اختر وغیرہ کی روایت سے ہی استفادہ کیا ہے لیکن اس منزل میں بھی ان کے نظریات رہنما بنے رہے‘‘ 5

مجروح اور ساحر کے اولین نغموں کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ مجروح نے وارداتِ عشق کے بیان میں غزل کی رمزیت اور ایمائیت سے کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور ساحر کا شعری رویہ نظمیاتی خصوصیات سے مستحکم ہوا ہے اور قنوطیت کے بجائے کرب آمیز نشاط کا احساس غالب آیا ہے۔

 اسی باب میں آگے چل کرپروفیسر انورظہیر انصاری نے ساحر کے نغموں کی ادبیت کا بھی مطالعہ شاعری کے تنقیدی Tools( نغموں میں مستعمل بیان و بدیع کی روشنی) کے حوالے سے کیا ہے اور ماقبل تنقید نگاروں کا حوالہ بھی پیش کیا ہے جنھوں نے ساحر کے نغموں کی ادبیت کو تسلیم کیا ہے۔

مذکورہ مباحث کی روشنی میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ یہ کتاب ترقی پسند تحریک اور نظریے کی باز آفرینی میں معاون بھی ہے اور مطالعۂ ساحر کے باب میں نئے در وا کرتی ہے۔

پروفیسر انور ظہیرانصاری کی ایک اور کتاب ’ترقی پسند شعر و ادب‘ کے نام سے 2019 میں شائع ہوئی۔ جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ یہ کتاب ایک مخصوص نقطۂ نظر کے حوالے سے لکھی گئی ہے۔

یہ کتاب 12 مضامین پر مشتمل ایک تنقیدی مجموعہ ہے، جو ترقی پسند نظریے اور اس تحریک کے معروف تخلیق کاروں کے مطالعے پرمشتمل ہے۔اس کتاب کا پہلا مضمون ’ترقی پسند شعر و ادب‘ کے عنوان سے تحریر کیا گیا ہے جس میں مصنف نے ترقی پسندی کے اس بنیادی نظریہ ’’ ادب زندگی اور سماج کا آئینہ ہونا چاہیے‘‘کی وضاحت پیش کی ہے۔ ترقی پسند ادبی تحریک کا جائزہ لیتے ہوئے پروفیسر انصاری نے اس زمانے کے تمام موضوعات کو شعرا و اُدبا کے تخلیقی و تنقیدی کارناموں کی روشنی میں پیش کرکے ترقی پسند شعر و ادب کی اہمیت کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس طرح اگر دیکھیں تو اس مضمون کو مجموعے کے مقدمے کے طور پر تسلیم کیا جاسکتا ہے۔

اس کے بعد تین مضمون علی سردار جعفری کی شخصیت اور ان کے ادبی کارناموں کے حوالے سے تحریر کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی سردار جعفری کے ایک مضمون لمحوں کے چراغ ( موت و زندگی کے آئینے میں) کے ذریعے پروفیسر انصاری نے سردار جعفری کے یہاں تصورِ زمان کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ موت اور زندگی کے حوالے سے سردار جعفری نے وقت کو سمجھنے کے لیے اپنے پیش روؤں مثلاً مولانا روم، علامہ اقبال، ٹیگور اور کبیر وغیرہ، کے تصورات کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے نقطۂ نظر کا بیان کیا ہے۔ مصنف ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ انھوں نے اس حوالے سے کئی نظمیں بھی تخلیق کی ہیں جن میں میرا سفر، زندگی اور موت، نئی دنیا کو سلام وغیرہ اہم ہیں۔ پروفیسر انصاری مضمون کا تجزیہ کرتے ہوئے آخر میں تصورِ وقت کے حوالے سے سردار کے نقطۂ نظر کی وضاحت کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک ’’زندگی اور موت کا ازلی رشتہ ارتقا پذیر ہے جو وقت کے دھارے پر بہتا چلا جاتا ہے ، زندگی ختم ہوتی ہے اور ایک نئی زندگی وجود پذیر ہوتی ہے۔‘‘6

 سردار جعفری پر آخری مضمون ان کی غزلوں کے حوالے سے تحریر کیا گیا ہے، جس میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ سردار نے اردو غزل کو نہ صرف ترقی پسند موضوعات سے بہرہ ور کیا بلکہ لفظی اور معنوی دونوں لحاظ سے تہدار بھی بنایا ہے اور نظموں کی لفظیات کو غزل کے پیکر میں پیش کرکے اسے غزل کے لب و لہجے سے ہم آہنگ بھی کیا ہے۔

ایک مضمون عزیزاحمد کی کتاب ’ترقی پسند ادب‘ کے مطالعے پر بھی مبنی ہے۔ اس مضمون میں پروفیسر انصاری نے ان کے نظریۂ نقد کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔کتاب کی روشنی میں عزیز احمد کے ترقی پسند نظریے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عزیزاحمد نے مارکسی نظریات کو من و عن قبول نہیں کیا بلکہ مشرق و مغرب کے فلسفوں کے تناظر میں خصوصاً علامہ اقبال کے حوالے سے اس سے اختلاف بھی کیا ہے۔

فیض کی شاعری کے متعلق پروفیسر انور ظہیرانصاری لکھتے ہیں کہ فیض کی شاعری میں جذبے کی شدّت کے باوجود نعرہ بازی نظر نہیں آتی۔ بلکہ وہ انھیں احتجاج و التفات کا شاعر کہتے ہیں اور اس ضمن میں انھوں نے ان کی شاعری سے مثالیں بھی پیش کی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ’’ فیض کی شاعری ملکی حالات و ماحول سے ہی اثر پذیر نہیں ہوئی ہے بلکہ اس میں عالمی مسائل سے پیدا شدہ خطرات کا احساس بھی شدید ہے۔ فیض کی شعری کائنات اسی لیے ہر دور کا احاطہ کر لیتی ہے، خواہ وہ مجاہدینِ فلسطین کے ترانے کی شکل میں ہو یا کربلائے بیروت کے نغمے کی صورت یا پھر تارکینِ وطن کے لیے نغمے کے ذریعے احتجاج اور التفات، فیض کا مقصدِ حیات تھا اور وہ تاحیات اس پر عمل پیرا بھی رہے۔‘‘7

اسرار الحق مجاز ترقی پسند شعرا کی ابتدائی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ جعفر علی خان اثرنے انھیںاردو شاعری کا کیٹس کہا ہے۔ پروفیسر انصاری نے مجاز کو ارمانوں اور مسرتوں کا شاعر قرار دیا ہے اور ان کی شاعری کو ترقی پسند نظریے سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مجاز کی شاعری ارمانوں ، مسرتوں اور زندگی کی توانائیوں کا جذبہ بیدار کرتی ہے اور انسانوں کے دکھ درد کا مداوا بھی تلاش کرتی ہے اس لیے مجاز کی شاعری ایک جینوئن ترقی پسند فنکار کی تخلیق ہے جو انسانوں میں امید اور آرزوؤں کا احساس جگاتاہے۔

معین احسن جذبی کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے انہوں نے جذبی کو نشاطِ درد کا شاعر قرار دیا ہے۔ انور ظہیر انصاری نے جذبی کی غزلوں اور نظموں دونوں کا مطالعہ اس مضمون میں پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جذبی کی شاعری میں روایت سے حقیقت تک کا ارتقائی سفر نظر آتا ہے۔ اگر ہم دیکھیں تو جذبی کی شاعری ان کی زندگی و حالات کی مکمل داستان بن گئی ہے۔ جذبی کے فن کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ جذبی نے کلاسیکی غزل کی لفظیات کو اپنی فن کاری کے ذریعے نئے معنی و مفاہیم عطا کیے ہیں جس کے سبب ان کے کلام میں چیخ و پکار کم اور خوش آہنگ طرزِ اظہار زیادہ ہے۔

جاں نثار اختر نے کافی عرصے تک ساحر لدھیانوی کے معاون کے طور پر فلم نگری میں جدو جہد کی اور زندگی کے تلخ و ترش برداشت کیے۔ اسی لیے ان کی شاعری میں بھی طبقاتی آویزش، سماجی ناہمواری اور استحصالی رویوں کے خلاف احتجاج کا ایک دھیما لہجہ پایا جاتا ہے۔ پروفیسر انصاری نے اس مضمون میں جاں نثار اختر کی زندگی، شخصیت، شاعری اور فلمی نغمہ نگاری کے ذریعے ترقی پسند شاعر کی حیثیت سے ان کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جاں نثار کا شعری کینوس بہت وسیع ہے ۔۔۔۔۔ایک ترقی پسند شاعر کی حیثیت سے انھوں نے انسانوں کی قدر کرنے اور انسان کو انسان سمجھنے کا جذبہ بھی جگایا ہے۔ ایک صالح اور صحت مند معاشرے کی تشکیل کی خاطر اس احساس کو بیدار بھی کیا ہے اور اپنی تخلیقات کے ذریعے ان کے حوصلوں کو مہمیز بھی کیا ہے۔۔۔۔۔شہری زندگی کی گہما گہمی اور چکا چوند سے دور ایک ایسی زندگی کا احساس جو زندگی کے حسن سے معمور تو ہو اور حسن و جمال کی کیفیت سے بھر پور اور رومانیت سے لبریز بھی ہو، جاں نثار اختر کے یہاں جلوہ گر ہو گیا ہے۔‘‘8

کیفی اعظمی کو پروفیسر انصاری نے ایک بے باک کمیونسٹ شاعر کہا ہے۔ سردار جعفری انھیں اپنے ساتھ بمبئی لے کر آئے جہاں کیفی باقاعدہ کمیونسٹ پارٹی کے کارڈ ہولڈر بن گئے۔ کیفی کی نظموں کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ کیفی کی زیادہ تر نظمیں ان کے ذاتی تجربوں و مشاہدوںپر مبنی ہے فٹ پاتھ، زندگی، مکان، دوپہر، آوارہ سجدے یا بہروپنی جیسی نظمیں بغیر تجربے و مشاہدے کے شاید ہی لکھی جا سکیں۔

اس کے علاوہ ایک مضمون مجروح کی فلمی نغمہ نگاری کے حوالے سے شامل ہے۔پروفیسر انصاری لکھتے ہیں کہ مجروح نے اپنی غزلوں کی طرح فلموں میں بھی ترقی پسند خیالات کی ترجمانی کی ہے اس کا حوالہ دیتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ ’’1956 کی کامیاب ترین میوزیکل جاسوسی فلم ’سی آئی ڈی‘ کے نغمے منظرِ عام پر آئے تو ایسے اٹھے کہ سب کی زبان پر چڑھ گئے اس کا جادو آج بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اس فلم کا مشہور زمانہ گیت، جو بہ ظاہر جانی واکر پر فلمایا گیا مزاحیہ نغمہ ہے لیکن مجروح نے اس گیت میں بھی اپنے ترقی پسند نظریات کی پیش کش کی راہ ضرور تلاش کر لی۔‘‘9

پروفیسر انصاری کی اس کتاب کے مطالعے سے یہ تو صاف ظاہر ہے کہ انھوں نے تمام شعرا کا مطالعہ ترقی پسندادب کی روشنی میں کیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے ہر شاعر کے حالات زندگی کو بھی اپنے پیشِ نظر رکھا ہے اور اس سے شعرا کے کلام میں آنے والی تبدیلیوں کی نشاندہی بھی کی ہے۔

مذکورہ تمام مباحث کی روشنی میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ پروفیسر انورظہیر انصاری کا طریقۂ نقد تجزیاتی ہے وہ متن کا مطالعہ موضوعاتی اور فنی دونوں حوالوں سے کرتے ہیں۔ ان کی زبان سادہ اور سلیس ہے۔ دلائل و شواہد کو وہ اپنی تحریروں میں وثوق اور قطعیت کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔پروفیسر انصاری کی یہ کتابیں ترقی پسندی کی اس روایت کی باز آفرینی میں معاون ہیں جس کی مستحکم بنیاد پروفیسر احتشام حسین، پروفیسر محمد حسن، پروفیسر قمر رئیس وغیرہ نے رکھی تھی۔

حواشی:

1             ساحرلدھیانوی: حیات اور کارنامے، ص43

2             ایضاً، ص69

3             ایضاً، ص94

4             ایضاً، ص95

5             ایضاً، ص176

6             ترقی پسند شعر و ادب، ایم آر پبلیکیشنز، 2019، ص77

7             ایضاً، ص135

8             ایضاً، ص202-03

9             ایضاً، ص231

 

Abdur Rahman

Assistant Professor, Dept of Urdu

ADC University of Allahabad-  211003 (UP)

Mob.: 8218467664

abdurrahmankhann@gmail.com

غلام حیدر سے خصوصی گفتگو، ساجد جلال پوری

 اردو دنیا، اپریل 2025


ساجد جلال پوری:آپ کی پیدائش کب اور کہاں  ہوئی؟

غلام حیدر: میری پیدائش یکم جنوری 1937،  امروہہ (اس وقت ضلع مرادآباد کی تحصیل) میں ہوئی ۔

س ج : آپ کا خاندانی پس منظر کیا ہے ؟

غ ح: تیرھویں صدی عیسوی سے امروہہ میں حضرت سید شرف الدین شاہ ولایت کا نقوی خاندان امروہہ میں آباد ہے۔والد سید غلام احمد گوکہ جدید اسکولی تعلیمی نظام میں کبھی نہیں پڑھے مگر نظم و نثر دونوں کی کافی مہارت تھی۔چار کتابیں سماجی موضوعات (خواتین) اور ایک دینی اصلاحی کتاب ’پنجتنی پھول‘ 1939  سے برابر شائع ہو رہی ہے۔

س ج :آپ کی تعلیم و تربیت کن کن شہروں میں ہوئی؟

غ ح: والد کی زیرِ نگرانی اسماعیل میرٹھی کی پانچوں ریڈرس کی تعلیم۔ منصبیہ کالج (میرٹھ) کی کسی ابتدائی جماعت میں ایک ڈیڑھ سال اردو فارسی کی تعلیم کی ابتدا 1943-44 چوتھی سے دسویں جماعت (میٹریکولیشن) جامعہ ملیہ اسلامیہ (1944-51)بی اے، ایم اے (معاشیات) علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ (1951-57)۔

س ج : آپ کے ادبی سفر کی ابتدا کیسے ہوئی ؟

غ ح: جامعہ میں بچوں کے ادب کی تخلیقی صلاحیت کی آبیاری لگ بھگ ابتدائی جماعتوں سے ہی ہو جاتی تھی۔پہلی کاوش ایک نظم 1944-45 میں ’پیام تعلیم‘ میں چھپی تھی۔اسی رسالے میں 1970 تک میری کئی کاوشیں شائع ہوتی رہیں۔پیامِ تعلیم کے مدیر (جو بچوں کے مانے جانے ہوئے ادیب ہوتے تھے) ان کا میں انتہائی مرہونِ احسان ہوں کہ انھوںنے تربیت و اصلاح کے قابلِ قدر فرائض انجام دیے۔

س ج : کیا نثر نگاری کے علاوہ آپ کو شاعری سے بھی ربط رہا ہے؟

غ ح: گو کہ بزعم خود میرا خیال ہے کہ میری پوری زندگی میں شعر و شاعری کے اثرات غیر معمولی طور پر حاوی ہیں۔ جتنے اردو فارسی اشعار اب بھی مجھے یاد ہیں ان کا شمار کئی ہزار میں آتا ہے۔مروجہ دیوانِ غالب اب بھی آدھے سے زیادہ یاد ہ ہے وغیرہ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اسٹوڈنٹ یونین کے الیکشن کے سلسلے کی 267 اشعار پر مشتمل مثنوی  جسے کلاسک میں شمار کرکے انگریزی ریویو کے ضمیمے کے طور پر شائع کیا گیا۔بہرطور بقولِ غالب ’نا کردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد‘ میں نے شاعری کے سلسلے میں اپنی ذہنی اور قلبی کیفیت کو اپنے شعر میں ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے      ؎

شعر خوانی سے نہیں کسبِ ہنر کی خواہش

سانس آ جائے ہے رک رک کے کچھ اشعار کے ساتھ

بہر طور اپنے خیال میں کچھ زیادہ مفید یا کار آمد کام کرنے کی خواہش کے تحت طے کر کے اسے خیر آباد کہہ دیا تھا۔اگر میرا یہ بیان کسی رخ سے آپ کے ناگوارِ خاطر ہوا ہو تو غالب کے اس شعر میں حسبِ ضرورت ترمیم کر کے اس طرح پڑھ لیجیے         ؎

بک رہا ہے جنوں میں کیا کیا کچھ

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

س ج : آپ کی پہلی تخلیق کب اور کہاں شائع ہوئی ؟

غ ح: ایک نظم’ ایک دن کا قصہ میں سنائوں ‘پیامِ تعلیم میں1944میں شائع ہوئی تھی۔میرا تخلص احسن تھا۔مقطع اس طرح تھا          ؎

 احسن اب ایسا نہیں کرنا

مل تو گیا اس دن ہی بدلا

س ج :آپ کی تصانیف کی تعداد کیا ہے، ان کے نام بتائیں؟

غ ح:(ادبِ اطفال پر مطبوعہ کتابیں)

(1) پیسے کی کہانی (2)خط کی کہانی (3) بینک کی کہانی  (4)اخبار کی کہانی (5) غار سے جھونپڑی تک (6) آزادی کی کہانی انگریزوں اور اخباروں کی زبانی (7) مولانا ابوالکلام آزاد (8) شیطانی مشین (9) پگڈنڈی جنگل سے کھیت تک (10) چار سہیلیوں کی کیاری (11) وقت کا مسافر (12) ایس۔اے بریلوی (13) آخری چوری (ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ) (14) میرے استاد (15) پیڑ پیڑ میرا دانا دے (16) امید کی کرن (17) متفرق کہانیاں (18) مضامیں،مقالے اور متفرق تحریریں

(ادب عالیہ پر مطبوعہ کتابیں)

(1) ہندوستان میں بیوپاری کارپوریشن کا فروغ (2) اماوس سے پورن ماسی تک (3) کتاب نما خصوصی شمارہ۔ انیس نمبر،ایڈیٹر) (4) نقوشِ جامعہ(5) کشکولِ حیدری (6) یوروپی ادب کی نادر کہانیاں (7) رَو میں ہے رخشِ عمر(8) میری دو  درس گاہیں، جامعہ ملیہ اسلامیہ (9) میری دو درس گاہیں،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (10) اپنی دنیا آپ پیدا کر ( خود نوشت) (11) قرآن حکیم اور اسلامی معاشرے کے بنیادی نقوش ۔

س ج : بچوں کے ادب میں دلچسپی کیسے ہوئی۔ اس کا آغاز کیسے ہوا؟

غ ح : جامعہ قدیم اردو میں بچوں کے جدید ادب میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی تھی۔بلکہ حقیقت میں بچوں کے ادب کو ایک اہم صنفِ ادب کا تصور جامعہ نے ہی بخشا ہے۔ڈاکٹر ذاکر حسین اور جامعہ کے کارکنوں کی ایک پوری ٹیم،مکتبہ جامعہ،پیام تعلیم وغیرہ جامعہ کے دورِ فقیری میں کبھی اس کام میں پورے انہماک سے لگے رہے اور نتیجے میں 1926 سے 1947 تک 300 سے زیادہ بچوں کی کتابیں مکتبہ جامعہ شائع کر چکا تھا۔جن میں آدھے سے زیادہ جدید ترین سائنسی، تکنیکی اور سماجی موضوعات سے تعلق رکھتی تھیں۔یہی بچوں کے ادب کے سلسلے میں میری نرسری تھی۔خدا معلوم میں کتنا حق ادا کر پایا اپنی مادری درس گاہ کی توقع اور تربیت و تعلیم کا۔ممکن ہے۔حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔مزید تفصیل کے لیے میری تازہ نثری کلیات ’’بچوں کا گلدستہ،ملاحظہ کر سکتے ہیں ۔

س ج : ادب اطفال کے ماضی حال اور مستقبل پر تبصرہ فرمائیں۔

غ ح : بچوں کے اردو ادب کے سرمائے میں حصہ نظم بھرپور بلکہ آج کے تناظر اور میرے طرزِ فکر میں ادب کے تعمیری رخ کے اعتبار سے تناسب سے کچھ زیادہ ہے۔

اسماعیل میرٹھی،افسر میرٹھی، شفیع الدین نیّر جیسے کل وقتی اور متاثر کن شعرا بھی اب کم ہی ہیں۔دوسرے نظم بہ مقابلہ نثر (بہ استثناء اسماعیل میرٹھی) بچوں کے لیے بہر طور محدود اظہارِ بیان کی صلاحیت رکھتی ہے۔ماضی کا نثری ادب (بہ استثناء مکتبہ جامعہ) میری رائے میں بڑی حد تک پرانی کہانیوں اور غیر منقول تصورات پر مبنی ہے اور جدید دور میں شامل ہونے والے بچوں کے لیے آج کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا۔

2             کچھ ادیب حسبِ ضرورت محنت کرکے صحیح معلومات کی فراہمی کے ساتھ بچوں کی مناسبت سے زبان و بیان وغیرہ کی پابندیوں کے ساتھ کوشش ضرور کر رہے ہیں، مگر میرے خیال میں وہ موجودہ طوفانی رفتار سے بدلتی ہوئی دنیا کے قارئین کی ذہن سازی کے لیے ناکافی ہے۔ زیادہ تر اشاعتی ادارے تجارتی مجبوریوں کے تحت اور اردو کے مجموعی زوال کے تحت قوتِ خرید میں شدید کمی کی وجہ سے بھی مجبور و معذور ہیں۔

3             ایک بنیادی اہمیت کا نکتہ یہ بھی ہے بچوں کا اردو ادب ہندوستان میں ایک غیر معمولی دور سے گزر رہا ہے۔ اس کے قارئین خود اپنے ہی ملک میں ہی مختلف تعلیمی اور معاشی طبقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں میں تعلیم یافتہ خصوصاً اقتصادی آسودگی والا طبقہ ا پنے بچوں کو بہتر سے بہتر انگلش میڈیم اسکولوں میں بھیجتا ہے۔ مذکورہ اس طبقے کے لیے وجود و عدم کوئی معنی نہیں رکھتا۔اس سے  نچلا یا اوسط طبقہ، جو بچوں کو ان اسکولوں میں نہیں بھیج سکتا وہ مجبوراً انہیں سرکاری اسکولوں میں بھیجتا ہے جہاں زیادہ تر ہندی یا علاقائی زبانوں میں تعلیم دی جاتی ہے۔(اور علاقائی زبانوں سے ان کا بچوں کا ادب نہ صرف ان کے ذہنی تقاضوں کو پورا کرتا ہے،دیدہ زیب اور سستا بھی ہوتا ہے چونکہ اسے علاقے کی حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔جن ریاستوں میں قانونی طور پر اردو کو دوسری زبان کا درجہ حاصل ہے،وہاں (میری معلومات کے مطابق) کشمیر اور مہاراشٹر کے اردو میڈیم اسکولوں کے بچے ضرور موجودہ ادبِ اطفال کی طرف متوجہ ہو سکتے ہیں۔

گو کہ باقاعدہ اور مصدقہ اعداد و شمار تو موجود نہیں ہیں، مگر واضح اور بہت حد تک ناقابلِ تردید حقیقت یہ ہے کہ اپنے گھروں پر یا غیر منظور شدہ دیہی اور دیہی مدرسوں میں پڑھنے والے خصوصاً معاشی اور تعلیم میں پچھڑے طبقوں کے بچے یا وہ بچے جومنظور شدہ مدارس سے کسی اور باقاعدہ اسکول میں داخلہ لے لیں، انھیں اردو تو تھوڑی بہت آتی ہے مگر جدید، تیزی سے بدلتی دنیا کی معلومات ان کے پاس نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔

ہمارے بچوں کے ادب پر بنیادی طور پر اب ایسے گروپ کے تعلیمی اور معلوماتی تقاضوں کو پورا کرنے کا فرض عائد ہونا چاہیے۔ مختصراً انھیں بادشاہوں، پیر فقیروں کی بعید ا ز قیاس کرامتوں یہاں تک کہ خالص دینی داستانوں کی بھی اتنی فرصت نہیں،(جو انھیں دینی مدارس میں مل جاتی ہے) انھیں حقیقت میں آج کی دنیا کے سائنسی، تکنیکی،سماجی،معاشی،موسمیاتی وغیرہ وغیرہ جیسے مسائل پر بنیادی معلومات والے دلچسپ اور دیدہ زیب ادب کی ضرورت ہے، جو بالکل ابتدائی۔ تصویری کہانیوں سے شروع ہو کر لگ بھگ دسویں جماعت کے طالب علموں کی ذہنی تربیت کر سکیں اور انھیں موجودہ دنیا میں اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل بنا سکیں۔

س ج : کیا آپ کی کوئی کتاب نصاب میں بھی شامل ہے؟

غ ح:جتنا وثوق سے مجھے معلوم ہے،وہ یہ ہے کہ مہاراشٹر میں ’مہاراشٹرا راجیہ پاٹھیہ پستک نرمتی وابھیاس کرم‘ ادارے نے پانچویں جماعت کی نصابی کتاب ’بال بھارتی‘ میں میری ایک کہانی بعنوان ’ہڈ کی پلیٹ‘ 2006 میں اور اس سے پہلے ایک اور نصابی کتاب میں میری کتاب ’خط کی کہانی‘ کا ایک ٹکڑا خطوں کا قبرستان شامل کیا تھا۔

میری چار کتابیں’پیسے‘، ’خط‘، ’بینک‘ اور’اخبار کی کہانی‘ (بالترتیب 1973,1974,1978 اور 2000) میں پہلی بار شائع ہوئی تھیں۔جو مرکزی ادارے NCPULسے ابھی تک چوتھی اور پانچویں اشاعت میں چھپ رہی ہیں۔

س ج :آپ کو کون کون سرکاری اور غیر سرکاری اعزازات سے نوازا گیا ہے؟

غ ح:مجھے بہت سے اعزازات ملے جن میں ( بین الاقوامی ادارہ،چلڈرن بک ٹرسٹ، نئی دہلی کے انعامات سے نوازا گیا تھا۔ ان میں سے اہم ایوارڈ اور میرے لیے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ کے ساتھ اعلیٰ اور عزیز ترین اعزاز میں ٹرسٹ کی ذیلی بین الاقوامی تنظیم،ایسوسی ا یشن  آف چلڈرین رائٹرس اینڈ السٹرٹیرس ((AWICکا لائف اچیو منٹ ایوارڈ (2012) تھا۔

س ج : ادب اطفال لکھنے والوں کو بچوں کی نفسیات پر گرفت مضبوط ہونی چاہیے۔ آپ نئے قلم کاروں کو کیا مشورہ دینا چاہیں گے۔

غ ح:میرا خیال، مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ بچوں کے لیے لکھتے وقت ان کی نفسیات سے زیادہ خود اپنی نفسیات کو سمجھنا اور خود پر قابو رکھنا ضروری ہے۔اس کی وضاحت سے پہلے اتنا ضرور کہوں گا کہ بچوں کی عمر کے مختلف درجات پر ان کا رویہ اور مختلف کیفیات مین ان کا ردِّ عمل، ان کاگہرا مشاہدہ اور اسے ذہن میں رکھنا بچوں کے ادیب کے لیے بنیادی نکتہ ہے۔( عام طور پرزمرۂ عمر کو3 تا 6، 4تا 9، 9 تا 12 اور 12 تا 16 پر محدود کیا جاتا ہے) فی الوقت اس نکتے کی وضاحت نہ کرتے ہوئے صرف اتنا ضرور کہوں گا کہ 3 تا6 کا نارمل بچہ، 9 تا 12 زمرے سے بہت مختلف رویہ فہم و تجربہ رکھتا ہے۔

دوسرا نکتہ، جو حقیقت میں زیادہ اہم اور عملاً بے حد مشکل ہے۔وہ ہے،معمر ادیب کی خود گرفت۔اس سلسلے میں میں صرف دو بزرگوں کی مثالیں پیش کرنے پر اکتفا کروں گا۔کے شنکر پلائی ( چلڈرن بک ٹرسٹ اور اس سے ملحق پانچ بین الاقوامی درجے کی تنظیموں کے بانی اور منتظم اعلیٰ، بچوں کے ملیالی ادیب ( جنھیںمیں انتہائی متاثر کن، نرم قلم، ادیب مانتا ہوں) انھوںنے مختلف زبانوں کے ادیبوں کی ایک ورکشاپ میں انگریزی میں خطاب کرتے ہوئے جو جملے کہے تھے انھیں میں بے حد اختصار سے اپنے الفاظ میں دوہرا رہا ہوں۔

عام طور پر بچوں کے لیے لکھنے والے کہتے ہیں کہ معمّر لوگوں کو بچوں کے لیے لکھتے وقت بچوں کے لیول تک نیچے اترنا پڑتا ہے، جو یقینا مشکل ہوتا ہے،مگر میں اس سے بھی بالکل متضاذ تصور رکھتا ہوں۔حقیقت یہ ہے کہ بچوں کے لیے لکھتے وقت ہمیں ان کے معصوم اور بے لوث رویے کے اعلیٰ ترین معیار تک اٹھنا ہوتا ہے، جو ہماری زندگی بھر کے تجربات، مصلحتوں اور ذہنی کج رویوں، پس منظر کے ساتھ پہلے سے کہیں زیادہ مشکل کام ہوتا ہے۔

ہم بچوں کے لیے لکھتے وقت خود اپنے سے عہدو پیمان کرتے ہیں کہ ہم انہی کی عمر کے مطابق لکھیں گے۔ مگر پانچ سطریں لکھنے کے  بعد اپنی عمر طبعی پر واپس آجاتے ہیں۔بچوں کے لیے لکھتے وقت بنیادی تصور یا منتخب موضوع، پلاٹ یا فارمیٹ، زبان، طرز بیان، مثالیں، کہانی یا مضمون کی طوالت کرداروں کا عمل اور ردِّ عمل  اور کتنی ہی چیز وں کا خیال رکھنا بچوں کے ادیب کا فرضِ عین ہے۔

س ج : اردو دنیا اور بچوں کی دنیا( رسالے) کے متعلق آپ کے کیا خیالات ہیں؟

غ ح:یہ دونوں رسالے سرکاری اداروں سے شائع ہوتے ہیں کچھ خوبیوں اور پابندیوں کے ساتھ مجموعی طور پر بچوں کے لیے معیاری، مصور، رنگین طباعت وغیرہ کے ساتھ اچھا ادب پیش کرتے ہیں، چونکہ ان کی اشاعت میں بظاہر کوئی پریشانی نہیں ہے، اس لیے بچوں کو دیدہ زیب مواد ہر مہینے آسانی سے مل جاتے ہیں۔

س ج :ہم عصر ادیبوں کے بارے میں کیا رائے اور خیالات ہیں؟

غ ح: ممکن ہے میری یہ رائے کسی کے ناگوار خاطر بھی ہو،بہر طور، معذرت کے ساتھ عام طور پر آج کل بچوں کے لیے لکھنے والے اسے  فرض کے جذبے کے تحت نہیں اپناتے اور یہ نتیجہ ہے ادب عالیہ کے ادیبوں اور عوام کے طرزِ فکر کا جو اس صنف کو غیر اہم، ناقابلِ اعتماد اور دوسرے درجے کا ادب سمجھ کر پڑھنے تک کی صورت گوارا نہیں کرتے۔خود ادیب بھی عام طور پر وقت گزاری (کچھ اور نہیں ہے تو لائو بچوں کے لیے کچھ لکھ دیں) کا رویہ اختیار کرتے ہیں اور آپ بیتی کا کوئی قصہ، پرانی داستانیں، جن کا آج کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے، دوہرا کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ فرض ادا ہو گیا۔کسی طے شدہ منصوبے کے تحت لگ کر کام کرنے والے بہت کم ہیں۔ میرے مشاہدے میںمہاراشٹر میں جہاں بچوں کے ادب پرکچھ خصوصی توجہ نظر آتی ہے، محترمہ بانو سرتاج، عطاالرحمن طارق، فاروق سید کے علاوہ اور کچھ لوگ ادھر دہلی میں ڈاکٹر شمس الاسلام فاروقی  (سائنس پر بچوں کی بنیادی کتابیں)،ڈاکٹر اسلم پرویز رسالہ ماہنامہ سائنس کے مدیر اعزازی وغیرہ کے نام گنے جا سکتے ہیں۔

 

Azadar Husain Sajid Jalalpuri

Mohalla Jafara Bad

Post: Jalalpur

Distt.:  Jalalpur

Distt.: Ambedkar Nagar- 224149 (UP)

Mob.: 7571867186

azadarhusainsajid@gmail.com

تازہ اشاعت

اردو اور بھوجپوری کا رشتہ، مضمون نگار: پرواز احمد

  اردو دنیا، اپریل 2025 زبان کی وسعت اور ترقی میں لوگوں کی ہجرت بھی خاص اہمیت رکھتی ہے جس کی ایک باقاعدہ تاریخ بھی موجود ہے۔ چودھویں صدی میں...