26/12/18

اُردورباعی کا سفر (عہدِرفتہ سے عہدِموجودہ تک). مضمون نگار:۔ یوسف رام پوری






اُردورباعی کا سفر

(عہدِرفتہ سے عہدِموجودہ تک)

یوسف رامپوری
’رباعی ‘اردو شاعری کی وہ صنف ہے جسے غزل، قصیدہ ، مرثیہ اور مثنوی کے ہم پلّہ توقرارنہیں دیاجاسکتا مگراسے نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔اس کا ٹھوس ثبوت یہ ہے کہ ہر دورمیں اردو کے اہم شعرانے ’رباعی‘ کے میدان میں زورآزمائی کی اورُ اس سے صرف نظرنہ کرسکے۔اُردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ اور ان کے بعد سراج اور نگ آبادی اورولی بھی رباعی کی طرف متوجہ ہوئے۔ شمالی ہندوستان میں سودا،میرسوز، مظہرجانِ جاناں،غالب،مومن جیسے شعرا نے بھی رباعیاں کہیں۔لکھنؤ میں انیس ودبیر رباعی کے افق پرستاروں کے مثل چمکے۔نئے دورمیں حالی، اکبر، اسمٰعیل میرٹھی جیسے ممتاز شعرا نے عمدہ رباعیاں کہہ کر رباعی کے سلسلے کو آگے بڑھایا۔چنانچہ شاد عظیم آبادی، مہدی، مجروح، امیر مینائی، داغ ،نظم طباطبائی، ریاض، عزیز لکھنوی ، شوق قدوائی نے رباعی کے میدان میں بھرپور جوہر دکھائے۔ بیسویں صدی کے وسط میں رباعی کومزید مقبولیت حاصل ہوئی اور جوش، یگانہ، امجد ، فراق، جگر، فانی،اصغر اور حسرت جیسے شعرانے رباعی کو تقویت بخشی۔دورحاضر میں کندن،جامی، فراغ روہوی، حافظ کرناٹکی جیسے متعدد اہم نام ہیں جن کے شعری اثاثے میں رباعیات کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ گویاکہ ’رباعی‘ کا سفراردو شاعری کے مختلف ادوار میں جاری رہااور جاری ہے۔
اُردو رباعی کے گزشتہ اورحالیہ منظرنامہ پر نظرڈالنے سے قبل ضروری ہے کہ رباعی کے آغاز وارتقا اور اس کے فن پر تھوڑی سی بحث کرلی جائے تاکہ عہدِ حاضرمیں اردوکی صورتِ حال صحیح طورپر ابھر کر سامنے آسکے۔ اردو میں رباعی فارسی سے آئی ہے ،لیکن فارسی میں رباعی نے کب جنم لیا؟اس بابت محققین کے درمیان شدید اختلاف واقع ہوا ہے ۔عام طورپر رباعی کے وجود میں آنے کے پیچھے یہ واقعہ بیان کیاجاتاہے کہ یعقوب بن لیث صفار کے کمسن بیٹے کی زبان سے خوشی میں کچھ ایسے الفاظ نکل گئے جو ایک مصرعہ کی شکل اختیار کرگئے اور جب ان الفاظ کو بحر کے ترازومیں تولا گیا تو وہ بحرِ ہزج میں پائے گئے۔اس پر رودکی نے چوبیس وزن ایجاد کیے۔اگر اس واقعے کو درست مان لیاجائے تو رباعی کو وجودمیںآئے ہوئے ایک ہزار سال سے زیادہ کاطویل وقت گزرچکاہے۔کیونکہ یہ واقعہ تیسری صدی ہجری کا ہے۔سید سلیمان ندوی نے رباعی کا موجد رودکی کو تسلیم کرنے کی بجائے ابودلف اور زینت الکعب کو قرار دیاہے۔لیکن حافظ محمود شیرانی نے اِس خیال کو بھی مستردکردیا۔1؂ اس لیے کہ اگر ابودلف اور زینت الکعب کو رباعی کا موجد ماناجاتا ہے تو یہ بھی مانناپڑے گا کہ صنف رباعی عربی میں بھی موجود ہے ،اور ممکن ہے کہ رباعی کی ابتدا عربی سے ہوئی ہوکیونکہ یہ دونوں عربی کے شاعر تھے ۔ جب کہ تقریباً سبھی محققین رباعی کو عربی شاعری سے الگ کرکے دیکھتے ہیں۔بعض محققین کا خیال ہے کہ اس نکتے پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ آیا صنف رباعی کا عربی شاعری سے کچھ علاقہ ہے یا نہیں۔لیکن اس کی تحقیق کے لیے عربی دانی کے ساتھ عربی شاعری وادب سے گہری واقفیت ناگزیر ہے ۔ بہرکیف اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ فارسی میں رباعی کے آغاز کا نہ سال متعین کیاجاسکتاہے اور نہ زمانہ۔
اردو میں رباعی کے پہلے نمونے محمد قلی قطب کے کلیات میں ملتے ہیں۔1940میں مکتبہ ابراہیمیہ مشن پریس حیدرآباد سے شائع محمد قلی قطب شاہ کے کلیات میں 39رباعیاں موجود ہیں۔ان سے پہلے کے کسی شاعر کی رباعیاں دستیاب نہیں ہیں، اس لیے محمد قلی قطب کو اردو کا پہلا رباعی گو شاعر کہا جاسکتا ہے۔ البتہ محی الدین قادری زور نے ملاوجہی کی دو رباعیاں نقل کی ہیں ۔یہ تسلیم کرنے کے باوجود بھی کہ ملاوجہی نے اردو رباعیاں کہیں، محمد قلی قطب شاہ کی اولیت سے انکار نہیں کیاجاسکتاکیونکہ تحقیق کے مطابق ملاوجہی محمد قلی قطب شاہ کے ہمعصر ضرور ہیں مگر ملا وجہی کی شاعری کا زمانہ محمد قلی قطب شاہ کے بعد کا ہے۔ملاوجہی محمد قلی قطب شاہ کے پچاس سال بعد فوت ہوئے۔محی الدین قادری زور نے لکھاہے: 
’’محمد قلی قطب کا اردو کلام پچا س ہزار اشعار پرمشتمل ہے۔کوئی صنف ایسی نہیں ہے جس میں اس نے کمال نہ دکھایا ہو۔قصیدے، مثنویاں، مرثیے، رباعیاں، غزلیں اور قطعات، غرض ہر صنف کے وافر نمونے محمد قلی قطب کے کلیات میں موجود ہیں۔‘‘2؂
محمد قلی قطب شاہ کی ایک رباعی ملاحظہ فرمائیں:

تجھ حسن سے تازہ ہے سدا حسن و جمال
تجھ یار کی بستی سے ہے عشق کوں جمال
تو ایک ہے تجھ سا نہیں دوجا کوئی 
کیوں پاوے جگت صفحہ میں کوئی تیری مثال

اس رباعی سے انداز ہ لگایاجاسکتاہے کہ رباعی میں محمد قلی قطب شاہ کوکتنی مہارت حاصل تھی۔ان کی رباعیوں کے موضوعات کادائرہ خاصا وسیع نظرآتا ہے ۔انھوں نے تصوف، اخلاق، حمد، نعت اور دنیا کی بے ثباتی کے علاوہ حسن وعشق کے موضوعا ت پر بھی رباعیاں کہی ہیں ۔ ان کی رباعیوں میں ہندوستانی رنگ نمایاں دکھائی دیتاہے۔اس سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ اردومیں رباعی کا آغاز قطب شاہی دور میں دکن کی سرزمین پر ہوا۔
’رباعی‘ کا مادہ ’ر ب ع‘ ہے۔اس کے لغوی معنی ’چار‘ ہوتے ہیں۔لیکن اصطلاح میں رباعی اس صنف کو کہاجاتاہے جس میں مخصوص وزن کے چار مصرعوں میں کسی خیال یا مضمون کو بیان کیا جائے۔ عروضی ہےئت کی سطح پر رباعی وہ صنف کہلائے گی جس میں چار مصرعے ہوں ۔پہلا ،دوسرا اور چوتھا مصرعہ، ہم قافیہ یا ہم ردیف یا ہم قافیہ وہم ردیف ہو۔رباعی کے تیسرے مصرعے کا ہم قافیہ یا ہم ردیف یا ہم قافیہ وہم ردیف ہونا ضروری نہیں ،لیکن اگر تیسرا مصرعہ بھی پہلے ، دوسرے اور چوتھے مصرعے کی طرح ہم قافیہ، ہم ردیف یا ہم قافیہ وہم ردیف ہوتو کوئی نقصان نہیں ہے۔یعنی چاروں مصرعے بھی ہم قافیہ وہم ردیف ہوسکتے ہیں۔رباعی مردّف بھی ہوسکتی ہے اور غیر مردّف بھی۔غیر مردّف اس وقت جب رباعی میں صرف قافیہ ہو ، ردیف نہ ہو اور ردیف ہو تو مردّف ہوگی۔رباعی مستزاد بھی ہوتی ہے۔ اس میں رباعی کے مصرعوں کے ساتھ رباعی کے وزن کا ایک فقرہ بعد میں جوڑ دیاجاتاہے۔ جیسے \
آتاہے نظر حسن میں جلووہ کیاکیا ۔ اللہ اللہ
رباعی کو متعدد ناموں سے موسوم کیا گیاہے۔جیسے ترانہ، دوبیتی، چہارمصرعی ، چہار بیتی اور رباعی ۔ ترانہ رباعی کا ابتدائی نام ہے۔ ترانہ موسیقی کی اصطلاح ہے جس کا اطلاق موسیقی کی بعض مخصوص آوازوں پر ہوتاہے۔رباعی کودوبیتی کہنے کی وجہ ظاہر ہے کہ اس میں دو بیت ہوتے ہیں، لیکن چہار بیتی کہنے کی بات سمجھ میں نہیں آتی۔جن لوگوں نے چارمصرعوں کو چار بیت شمارکیا ، ان کے نزدیک چہاربیتی نام پڑگیا۔بعض حضرات نے رباعی کو سنسکرت کے ’چارچرن‘ہندی کی ’چوپائی‘اور پشتو کی ’چار بیتیہ‘ کے جیسا بھی کہاہے ۔
بظاہر قطعہ کی ہےئت وشکل بھی رباعی جیسی نظرآتی ہے، اس لیے رباعی اور قطعہ کے درمیان فرق کرپانا کچھ لوگوں کے لیے مشکل ہوتا ہے۔متعدد شعراوادبا بھی اس نوع کے مغالطے کے شکارہوئے ہیں۔ رباعی اور قطعہ کے درمیان پہلا فرق یہ ہے کہ رباعی کی مخصوص بحر اور اوزان ہیں، جب کہ قطعہ میں ایسی کوئی شرط نہیں ہے۔ اگر رباعی کے وزن سے الگ چار مصرعے کہے گئے تو وہ قطعہ ہوگا ،رباعی نہیں۔ایک فرق یہ بھی ہے کہ قطعہ میں غزل کی طرح پہلے دونوں مصرعے ہم قافیہ اور ہم ردیف ہونے ضروری ہیں۔یعنی ان مصرعوں میں قافیہ بھی ہو اور ردیف بھی ،لیکن رباعی میں یہ ضروری نہیں ہے ۔ رباعی بلاقافیہ صرف ردیف پر مبنی بھی ہوسکتی ہے اور صرف قافیہ پر مشتمل بھی۔ چنانچہ چارمصرعوں میں صرف قافیہ پایاجائے یا صرف ردیف پائی جائے تو یہ باور کرلیاجائے کہ وہ قطعہ نہیں ہے ،رباعی ہے بشرطیکہ وہ رباعی کی بحر میں بھی ہو۔رباعی اور قطعہ کے درمیان اچھے اچھوں کو مغالطہ ہوا ہے۔ مثال کے لیے ولی کا یہ شعر دیکھیں ؂

فلک دل کو کب تک جلاتا رہے گا
عجب رنگ یاں کے دکھاتا رہے گا
اگر جانتے ہم تجھے دل نہ دیتے
کہ دل لے کے تو یوں ستاتا رہے گا

مولوی عبدالحق نے مذکورہ ان چار مصرعوں کو دیوانِ اثر کے مقدمے میں رباعی کے طورپر درج کیا ہے۔حالانکہ یہ مصرعے رباعی کی مخصوص بحرواوزان میں نہیں ہیں۔
جہاں تک رباعی کی بحر اور اوزان کا معاملہ ہے تو یہ بڑا پیچیدہ مسئلہ ہے۔ بنیادی طورپر رباعی کی ایک بحر ’ بحرِ ہزج سالم‘ بتائی جاتی ہے۔یعنی : 
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
اس بحر سے پہلے دس ارکان نکلتے ہیں اور انہی سے چوبیس اوزان تیار ہوتے ہیں۔فرمان فتح پوری لکھتے ہیں:
’’رباعی کے ہر مصرعے میں انہی دس ارکان میں سے کوئی چار ضرور آئیں گے۔ علمائے عروض وقواعد اس امر پر متفق ہیں کہ رباعی کا ہر مصرعہ چار رکنی ہوتا ہے اور بحرہزج مثمن اخرب واخرم کے چوبیس اوزان کے سوا رباعی میں کوئی اور وزن نہیں آتا۔‘‘3؂
رباعی کے چوبیس اوزان کے علاوہ اوربھی وزن بیان کیے گئے ہیں لیکن ان اوزان کے بارے میں یہ کہاجاتاہے کہ چوبیس کے علاوہ جو وزن رباعی کے بیان کیے جاتے ہیں وہ رباعی کے ا نہی چوبیس اوزان میں سے ہیں یا انہی سے نکلے ہیں۔نظم طباطبائی اوزان کی تقسیم کے حامی نہیں ہیں۔وہ لکھتے ہیں:
’’ عروضیوں نے یہ بے کار چوبیس وزن گنوائے ہیں اور ا یک شجرہ مفعولن اور ایک شجرہ مفعول کا فضول بنایاہے۔کسی بزرگ نے یہ نہ بتایاکہ ان اوزان کی حقیقت کیا ہے۔‘‘4 ؂
عارف حسن خاں نے رباعی کے اوزان کی تعداد36بتائی ہے۔ملاحظہ فرمائیں ؂

اوزان رباعی کے ہیں چھتیس جناب 
دشوار نہیں رکھنا کچھ ان کا حساب
رکھیں بس اک بات فقط ذہن نشین
تخلیق سے ہی کھلتا ہے ان کا باب

دورحاضر کے ایک اہم رباعی نگار کندن لال کندن کی رباعیات کو دیکھاجائے تو رباعی کے اوزان کی تعداد کا دائرہ اورزیادہ وسیع دکھائی دیتاہے۔انھوں نے 24 نہیں، 54 آہنگوں میں رباعیاں کہی ہیں۔5؂
بعض حضرات’لاحول ولا قوۃ الاباللہ ‘کو ہی رباعی کاوزن مانتے ہیں، لیکن اس خیال سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا۔جیسا کہ اوپر تفصیل گزری ، ہاںیہ ضرورکہاجاسکتاہے کہ’ لاحول ولاقوۃ الاباللہ‘ بھی رباعی کے اوزان میں شامل ہے۔ اس لیے اگر اس وزن پر رباعی کہی جاتی ہے تو وہ رباعی ہی ہوگی۔
رباعی کی بحر اور اوزان کے حوالے سے مذکورہ بحث سے یہ اندازہ لگالینا کچھ مشکل نہیں کہ عروضی اعتبار سے رباعی مشکل صنف ہے۔ بحرہزج اور اس کے اوزان پر اشعار کہنا آسان نظرنہیں آتا۔یہ مشکل پسندی صرف عروضی اعتبار سے ہی نہیں ہے بلکہ معنوی اعتبار سے بھی رباعی کو مشکل صنف خیال کیا گیا ہے۔ رباعی کے چار مصرعوں میں پورے مضمون یا خیال کو بیان کرنا پڑتاہے۔رباعی اس بات کی بھی متقاضی ہوتی ہے کہ اس میں کثیراور عمدہ معانی پر مبنی مضامین کو رقم کیاجائے ، اسلوب بیان بھی اچھا ہو، زبان درست اور رواں ہو،تشبیہات، استعارات ، لطافت ، تراکیب وغیرہ کا بھی خیال رکھا گیا ہو۔ صرف چار مصرعوں میں اگر ان سب باتوں کا دھیان رکھا جاتا ہے تو رباعی کوعمدہ کہاجائے گا اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو رباعی کو معیاری خیال نہ کیا جائے گا۔فرمان فتح پوری کے الفاظ میں:
’’رباعی کے چاروں مصرعے زنجیر کی کڑیوں کی طرح باہم مربوط ہوں۔الفاظ و تراکیب کا انتخاب موضوع کی مطابقت سے ایسا برمحل ہو کہ اس سے بہتر کا تصور ہی نہ ہوسکے۔ پہلے مصرعے میں مناسب الفاظ کے ساتھ خیال کو روشن کرایا جائے۔ دوسرے اور تیسرے مصرعے میں اس کے خط وخال کچھ اور نمایاں کیے جائیں اور چوتھے مصرعے میں مکمل خیال کو ایسی برجستگی اور شدت کے ساتھ سامنے لایاجائے کہ سننے والا مسحور ومتحیر ہوکر رہ جائے۔‘‘ 6؂
رباعی کے بارے میں جوش کے مندرجہ ذیل خیال سے بھی رباعی کی مشکل پسندی کا پتہ چلتاہے:
’’رباعی چالیس پچاس برس کی مشاقی کے بعد قابومیں آتی ہے۔‘‘7؂
ڈاکٹر مظفرحنفی رباعی کی نزاکت اور دشواری کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
’’رباعی کا فن کوزے میں سمندر کوسمونے کا فن ہے اور رباعی کے لیے ایک اور صرف ایک ہی بحر کی پابندی فنکار کے لیے پل صراط کی سی حیثیت رکھتی ہے۔معمولی استعداد رکھنے والے شاعر کے لیے ایک بحر کے چار مصرعوں میں عمیق تجربات اور گہرے خیالات میں اپنے متنوع تجربات پیش کردینا انتہائی دشوار ہے۔‘‘8؂
مذکورہ خیالات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ مخصوص بحر میں عمدہ مضامین کوبرتنابہت مشکل ہے۔ لہٰذااچھا رباعی گو ہونے کے لیے انتہائی مشق ومحنت ، لیاقت وتجربہ اور وقت کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ رباعی کے حوالے سے اوپر تفصیل بیان کی گئی ہے اگر اس کی پاسداری لازمی ہوتو واقعی یہ صنف بڑی مشکل نظر آتی ہے اور بڑی ریاضت اور وقت چاہتی ہے۔ایسے ہی رباعی کا شاعر ہونے کے لیے عمرسیدہ ہونا لازمی قرار پائے گا ۔جوش کے مذکورہ خیال کو سامنے رکھا جائے تو یہ نتیجہ نکلے گا کہ رباعی کہنے کے لیے ساٹھ ستر سال کی عمر ہونی چاہیے کیونکہ ان کے نزدیک کم سے کم چالیس پچاس سال تو مشاقی کے لیے چاہئیں، اس طرح اگر کوئی پندرہ یا بیس سال کی عمر میں کوئی شاعری شروع کرے گا تو رباعی میں پختہ ہونے تک اس کی عمر ساٹھ ستر سال کے قریب ہوجائے گی ۔ جوش کا یہ خیال محل نظر ہے اور اس سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا۔کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ پچاس برس کے بعد ہی کوئی اچھی رباعی کہنے کے لائق ہوسکے گا۔ یا بہت بڑاشاعر ہونے کے بعد ہی اچھی رباعی کہنے میں کامیاب ہوگا۔ ایسی متعدد مثالیں مووجود ہیں کہ بعض شعرا نے کم عمری میں اچھی رباعیاں کہیں اور ایسے شعرا نے بھی صنف رباعی میں اپنی شناخت بنائی جوبہت مشہور شاعر نہیں تھے۔ دراصل یہ معاملہ ذوق پر منحصر ہے۔اگر کسی کا ذہن رباعی کی طرف چل پڑتا ہے تو وہ اچھی رباعی کہہ سکتا ہے۔اور اگر کسی کا ذہن رباعی کی طرف متوجہ نہیں ہوتا تودوسری اصناف کابہترین اور عمدہ شاعر ہونے کے باوجود عمدہ رباعی کہنے میں وہ کامیاب نہ ہوسکے گا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اردوکے کئی بڑے شعرا جنھیں زبردست مقبولیت حاصل ہوئی اور ان کی شاعری کو عوام وخواص میں بہت زیادہ پسند کیا گیا، رباعی کے میدان میں اپنا کوئی اثر نہ چھوڑ سکے۔آج بھی ہم ایسے بہت سے غزل کے شاعر دیکھتے ہیں جنھوں نے اچھی اچھی غزلیں ا ور نظمیں کہیں مگر رباعی کہنے کی زحمت اٹھانا انھوں نے گوارانہ کی، یا پھر رسمی طور دس بیس رباعیاں کہہ کر وہ آگے بڑھ گئے ۔ اس پر مزید یہ ان کی معدودے چند رباعیاں بھی اعلیٰ نہیں ہیں۔صنف رباعی میں بہت سے شعرا کے دلچسپی نہ لینے کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ان کا مزاج رباعی سے ہم آہنگ نہ ہو ، اور اس بات کا اندازہ انھیں بھی ہو، اس لیے وہ اس بات کی زحمت ہی نہیں کرتے کہ وہ رباعی کی گتھی سلجھانے میں سرکھپائیں اور اپنے فطری ذوق کے خلاف رباعیاں کہنے کی کوشش کریں۔جن شعرا کے پاس ایک دودرجن رباعیاں ہیں، ان میں سے کتنے ایسے ہیں جنھوں نے اردو شاعری کی اس صنف میں ہلکا پھلکا زور لگاکر صنف رباعی کے شاعر کے طور پر بھی اپنے آپ کو متعارف کرالیااور رباعی کہنے سے ان کا مقصد صرف اتنا ہی تھا۔
موضوعاتی اعتبار سے رباعی ایک اہم صنف ہے۔اس لیے کہ اس میں مختلف النوع مضامین وخیالات کو بیان کیا جاسکتاہے۔ اگرچہ ابتداء اً حکمت واصلاح اور پندوموعظت کے مضامین کو رباعی کے قالب میں ڈھالا جاتا تھا ، مگر وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ اس کے موضوعات کا دائرہ پھیلتا گیا اورحسن وعشق سے لے کر حالاتِ حاضرہ کے موضوعات تک پر رباعیاں کہی جانی لگیں۔ مندرجہ ذیل رباعیوں سے اس کا بخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے ؂

ہم نے کبھی جام و سبو دیکھا تھا
جو کچھ کہ نہیں ہے رو برو دیکھا تھا
ان باتوں کو جو غور کرکے اے درد
کچھ خواب سا تھا کہ وہ کبھو دیکھا تھا

(میر درد)

جاناں نے کبھی ہمیں نہ جانا افسوس
جو ہم نے کہا سو وہ نہ مانا افسوس
تب آنے میں دیر کی قیامت اب تو
آیا نزدیک جس کا جانا افسوس

(میر تقی میر)
ہر آن میں آپ کو دکھا جاتے تھے
مشتاق کو تسکین دلا جاتے تھے
کیوں دیر لگی ہے کس نے روکا تم کو
اب تک تو کئی بار تم آجاتے تھے

(میر حسن)
حسن وعشق کے موضوع پر جو رباعیاں کہی گئی ہیں ، چاہے وہ متقدمین نے کہی ہوں یا متاخرین نے ، ان کو پڑھ کر ایسا لگتاہے کہ حسن وعشق کے مضامین کو موثرطورپر بیان کرنے کے لیے رباعی ایک اہم ذریعہ ہے۔ رباعی میں عشق وعاشقی کے مضامین ومسائل کو موثر کن انداز میں بیان کرنے کے لیے بھرپور گنجائش موجود ہے ۔جیسا کہ مذکورہ رباعیاں اس کا ثبوت ہیں، لیکن رباعی صرف یہیں تک محدود نہیں رہی ،بلکہ دوسرے موضوعات کا بھی اس نے احاطہ کیا۔ اردو کے متعدد رباعی گوشعرا نے موضوع کی سطح پرآگے بڑھتے ہوئے انسانی زندگی سے وابستہ بہت سے مسائل کورباعی میں اٹھایااور رباعی کے دائرے کو وسعت دینے کا کام کیا۔اس کا یہ مطلب ہر گزنہیں کہ حسن وعشق کے علاوہ دوسرے موضوعات پررباعیاں ابتدائی دورمیں نہیں کہی گئیں۔حقیقت یہ ہے کہ شروع سے ہی رباعی میں مختلف موضوعات کو برتنے کا عمل جاری ہے ۔ محمد قلی قطب کی رباعیات میں کئی موضوعات آئے ہیں،لیکن ابتدائی دور میں زیادہ تر رباعی میں حسن وعشق یا اس سے متعلقہ مضامین کو بیان کیا جاتا تھا۔
رباعی چاہے تصوف پر کہی جائے یا فکروفلسفہ پر۔رباعی میں پندونصیحت کے مضامین بیان کیے جائیں، ہر مضمون اور موضوع رباعی کے سانچے میں فٹ نظرآتاہے۔ذیل میں مختلف موضوعات کا احاطہ کرنے والی کچھ رباعیاں ملاحظہ فرمائیں ؂

کچھ عشق میں تو مزہ نہ پایا ہم نے
اس دل ہی کو مفت میں گنوایا ہم نے
اور جس کے لیے گنوایا دل کو جرأت
اس کو اپنا کبھی نہ پایا ہم نے 

(جرأت)
کیسے دیے پیچ و تاب دل نے مجھ کو
دکھلائے یہ سب عذاب دل نے مجھ کو
وحشت زدہ کوٗ بکوٗ پڑا پھرتا ہوں
کیا کیا نہ کیا خراب دل نے مجھ کو

(مومن خاں مومن)
مذہبی، فکری ، اصلاحی اور تجرباتی نوعیت کی رباعیوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ اردورباعی کے دامن میں موجود ہے۔اگر صرف مذہب پر رباعی کے ذخیرے کو جمع کیا جائے تو وہ بہت زیادہ ہے ، اسی طرح کی صورت حال اصلاحی وفکری رباعیوں کی بھی ہے ۔ان موضوعات پر رباعیاں کس قدر کامیاب ہیں۔اس کا اندازہ مندرجہ ذیل رباعیوں سے لگایاجاسکتاہے: 

اسلام ہی کو آپ اپنی ملت سمجھو
بیگانہ روش میں اپنی دولت سمجھو
جو اس کے خلاف رائے رکھے اکبر
خاموش رہو سمجھ کی قلت سمجھو

(اکبر)
پانی میں ہے آگ لگانا دشوار
بہتے ہوئے دریا کو پھیر لانا دشوار
دشوار ہے مگر نہ اتنا دشوار
بگڑی ہوئی قوم کو بنانا دشوار

(اسماعیل میرٹھی)
گلشن کی روش پہ مسکراتا ہوا چل
بدمست گھٹا ہے لڑکھڑاتا ہوا چل
کل خاک میں مل جائے گا یہ زورِ شباب
جوش تو آج بانکپن دکھاتا ہوا چل

(جوش)
نیکی ہی رہ جاتی ہے یار یہاں
ہر گز نہ کرو غیبت کا کار یہاں
نیکی غیبت جائیں گے ساتھ ترے
ان پر ہی رہے گا فیصل یار وہاں

(کندن لال کندن)
یہ رباعیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ رباعیوں میں مختلف مضامین وخیالات کو کامیابی کے ساتھ بیان کیاجاسکتا ہے ۔بعض ناقدین نے رباعی کو مخصوص موضوعات تک محدود رکھنے کی تلقین کی ہے جو کہ مناسب نہیں ہے ۔ جیساکہ امدادامام اثر نے رباعی کے لیے حکیمانہ مضامین کو لازم قرار دے کر رباعی کے میدان کو تنگ کرنے کی کوشش کی ۔وہ لکھتے ہیں:
’’شاعر کو لازم ہے کہ مسائل اخلاق وتمدن ومعاشرت ومذہب ودیگر مضامین جلیلہ سے اپنے کو زینت دے۔‘‘9؂
امداداامام اثر کے یہ الفاظ کہیں نہ کہیں رباعی کے شاعر کو اس بات کے لیے پابند کرتے ہیں کہ وہ رباعی کہتے ہوئے مذکورہ مضامین و موضوعات کا خیال رکھے، مضامین جلیلہ کو نظم کرنے کی کوشش کرے۔ یہ ٹھیک ہے کہ رباعی میں مضامین جلیلہ کو بیان کیا جائے تو اچھی بات ہے ،لیکن مضامینِ جلیلہ کی تخصیص رباعی ہی کے ساتھ کیا ،ہر صنف میں عمدہ مضامین کو شاعر نظم کرے تو اس سے عمدہ اور بات کیا ہوسکتی ہے۔سطحی مضامین تو دوسری اصناف کے لیے بھی زیادہ موزوں نظرنہیں آتے۔ مگر چونکہ ہر شاعر کی اپنی صلاحیت وقابلیت ہوتی ہے، اپنا مطالعہ ہوتا ہے، اپنی فکر وبصیرت ہوتی ہے ،اپنا مشاہدہ وتجربہ ہوتاہے اور اپنا مزاج ومذاق ہوتا ہے۔اسی کے مطابق وہ شعر کہتاہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ وہ کس صنف میں اشعار کہہ رہا ہے۔اگر شاعر بلند خیالات وافکار کاحامل ہے، اس کا مطالعہ وسیع ہے، تجربات ومشاہدات گہرے ہیں اور بصارت وبصیرت بھی رکھتا ہے ، اس پر مستزاد یہ کہ جس صنف میں شاعری کرتا ہے ، اس کا ماہر بھی ہے تو ظاہر ہے کہ اس کے اشعار عمدہ ہوں گے اور ان میں مضامین جلیلہ ہوں گے۔ وہ صنف غزل ہو، یا قصیدہ، یا پھر رباعی۔ لیکن ہر شاعر کی ذہنی پرواز اتنی بلند ہو ،یہ توضروری نہیں۔پھر کئی مرتبہ شعرا کے تخیلات کے میدان الگ ہوتے ہیں، کسی کا مشاہدہ زیادہ عمیق ہوتا ہے،تو کسی کا سطحی، کسی کے تخیل میں زیادہ وسعت وبلندی ہوتی ہے ،توکسی کے خیالات میں تنگی ہوتی ہے۔ کوئی زیادہ حساس ہوتا ہے اور کوئی کم۔ کوئی مذہبی ذہن رکھتا ہے تو کوئی اس طرف زیادہ رغبت نہیں دکھاتا، کوئی عشق حقیقی میں ڈوبا ہواہوتاہے اور کوئی عشق مجازی میں غرق۔ کسی کا مزاج عشقیہ شاعری سے ہم آہنگ نہیں ہوتا اور کوئی زمینی سچائیوں کوشعر کے قالب میں ڈھالنا چاہتاہے۔ کوئی روزمرہ کے معمولی واقعات اورانسانی زندگی کی عام جزئیات کو بھی قلم بند کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کوئی خاص فکر وفلسفے پر ہی نگاہ جماتاہے۔ ظاہرہے کہ ایسی صورت میں شاعروں کی شاعری کا رنگ الگ الگ ہوگا، ان کے موضوعات مختلف ہوں گے۔ اب وہ شاعری غزل کے قالب میں ہویا رباعی کے۔ معمولی مضامین اور معمولی خیالات و مشاہدات کو شاعری میں بیان کرنے کو معمولی کہہ کر نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ بعض مرتبہ معمولی واقعات ومشاہدات سے بڑے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ اس لیے امداد امام اثر کے اس خیال سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا کہ شاعر لازمی طورپر اخلاق وتمدن، معاشرت ومذہب اور مضامین جلیلہ رباعی میں نظم کرے۔
مشکل پسند ی کے باوجود رباعی کی طرف اردو شعرا نے خاصی توجہ دی ہے۔ جس کے سبب مختلف ادوار میں اردو کے رباعی گوشعرا کی خاصی بڑی تعداد ملتی ہے۔اس کا اندازہ مندرجہ ذیل اِن چند ناموں سے کیا جاسکتاہے۔ جیسے محمدقلی قطب شاہ، ملاوجہی، میردرد، محمد رفیع سودا، میرتقی میر، غالب، مومن، میرحسن، نظیراکبرآبادی، میرانیس، مرزاسلامت دبیر، اقبال، اسماعیل میرٹھی،جوش ملیح آبادی، فراق گورکھپوری، فانی بدایونی، رشیدلکھنوی، باقر مہدی، وحشی کانپوری، جگت موہن لال رواں، منیر شکوہ آبادی، یگانہ چنگیزی، ثناگورکھپوری،پنڈت جواہر ناتھ ساقی،جمال اویسی، عبیدالرحمن،علقمہ شبلی،شاد عظیم آبادی، نریش کمارشاد، عبدالرحمن احسان دہلوی، شوکت پردیسی، درد سعید، نامی انصاری، تلوک چند محروم، سرور جہاں آبادی، صادقین، آرزولکھنوی، امیر چند بہار، سید محمود الغفار، غلام مولی قلق، بیان میرٹھی، فرحت کانپوری، منظور حسین شور، شمس الرحمن فاروقی، فرید پربتی، عبدالعزیز خالد، اکبر حیدر آبادی، نذیر بنارسی، ناوک حمزہ پوری،اختر انصاری،قتیل شفائی،وحشت رضا علی کلکتوی، اختر شیرانی، میر مہدی مجروح، قاسمی علی خان آفریدی، شیدا انبالوی، قاسم علی خان آفریدی،پرویز شاہدی، ف س اعجاز، کندن لال کندن، حافظ کرناٹکی،صابرسنبھلی وغیرہ۔ 
ان ناموں سے اندازہ ہوتاہے کہ رباعی کی طرف ہردورمیں بہت سے شعرا نے توجہ دی۔بعض نے سیکڑوں رباعیاں کہیں ، بعض نے درجنوں اور بعض کے کئی کئی رباعی کے مجموعے منظر عام پر آئے۔ مجموعی طورپر اردو رباعی کا ایک بہت بڑا ذخیرہ جمع ہوگیا۔امتدادِ زمانہ کے باعث بہت سا ذخیرہ خرد برد ہوچکا ہے ، لیکن اگر محفوظ ذخیرے کی بات کی جائے تو وہ بھی کم نہیں ہے۔رباعی کا یہ ذخیرہ اس بات کا متقاضی ہے کہ اس کاتحقیقی اور تنقیدی جائزہ لیاجائے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ رباعی اپنی اہمیت اور ذخیرے کے اعتبارسے مالامال ہونے کے باوجود ناقدین ومحققین کی توجہِ خاص سے محروم رہی ہے۔ رباعی پرہونے والا تحقیقی وتنقیدی کام بہت محدود ہے ۔جن ناقدین یا محققین نے رباعی پر کام کیا ہے ان کے نام انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ایسے ہی رباعی کے حوالے سے لکھی گئی تنقیدی وتحقیقی کتابیں و مضامین بھی معدودے چند ہی دکھائی دیتے ہیں۔
اردو رباعی کے سفر کو مختلف ادوار میں تقسیم کیا جاسکتاہے۔ ایک قطب شاہی اور عادل شاہی دور ہے جس میں اردو شاعری عروج پر رہی ۔اس دورمیں مثنویاں بھی کہی گئیں ، قصیدے بھی ، مرثیے بھی اور رباعیاں بھی۔لیکن رباعی کے حوالے سے اس دور کا احاطہ کرنے والی کتب ومضامین کمیاب ونایاب ہیں ۔دوسرا دور شمالی ہندوستان میں ولی سے لے کر خواجہ میردرد، سودا، میرتقی میرکا ہے جس میں مذکورہ شعرا کے علاوہ اور بھی کئی اہم شاعروں نے رباعیاں کہیں۔ان کے بعد غالب ، ذوق ، مومن کا عہد ہے ۔دبستان لکھنؤ کا رباعی کے نقطۂ نظرسے جائزہ لینا بھی اہمیت وافادیت سے خالی نہ ہوگا۔ کیونکہ اس دبستان سے وابستہ بہت سے شاعروں نے رباعیاں کہیں ،انیس و دبیرجیسے رباعی کے شاعر پیدا ہوئے۔ نئے زمانے میں حالی،اسماعیل میرٹھی،امیرمینائی، نظم طباطبائی، شوق، عزیز جیسے شعرا کی رباعیوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔اگر بیسویں صدی کے وسط کے زمانے کی بات کی جائے تو اسے رباعی کا عہدِ زریں کہاجاسکتاہے۔اس عہد میں جوش، فراق، یگانہ، محروم ،امجد ، اصغرنے رباعی کا گراں قدر سرمایہ اپنے پیچھے چھوڑا ہے۔یہ تمام ادوار اس بات کے متقاضی ہیں کہ ان کا رباعی کی روشنی میں تنقیدی وتحقیقی جائزہ لیاجائے۔اس دور کی چند رباعیاں ملاحظہ فرمائیں ؂

اے فتنۂ روزگار آہستہ گزر
آشوبِ دل فگار آہستہ گزر
نازک ہے بہت دماغِ اربابِ جنوں
اے نکہتِ زلفِ یار آہستہ گزر

(فانی)
سانچے میں گھٹا کے ڈھل رہا ہے کوئی
پانی کے دھویں میں جل رہا ہے کوئی
گردوں پہ اِدھر جھوم رہے ہیں بادل
سینہ میں اُدھر مچل رہا ہے کوئی

(جوش)
سوتا ہوں تو چپکے سے جگا دیتا ہے
جب جاگ اٹھتا ہوں پھر سلا دیتا ہے
ہنستے کو رلادیتا ہے چٹکی لے کر
روتا ہوں تو پھر ہنس کے ہنسا دیتا ہے

(امجد)
مکھڑا دیکھیں تو ماہ پارے چھپ جائیں
خورشید کی آنکھ کے شرارے چھپ جائیں
رہ جانا وہ مسکرا کے تیرا کل رات
جیسے کچھ جھلملاکے تارے چھپ جائیں

(فراق)
بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے اوائل یعنی عہدِ حاضر میں اردو رباعی کی کیا صورت حال ہے۔اس دورمیں رباعی کی طرف کتنے شعرا متوجہ ہیں، اس دور کی رباعیوں کا معیار کیا ہے، کس طرح کے موضوعات ومضامین رباعیات میں نظم کیے جاتے ہیں، ان تمام پہلوؤں پر محیط وقیع مطالعے کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی ہے۔
یہ خوش آئند بات ہے کہ عہدِ حاضر میں جب کہ کئی اصناف دم توڑ چکی ہیں یا دم توڑرہی ہیں، صنف’رباعی ‘ ہنوز زندہ ہے۔ فی زمانہ متعدد ایسے شعرا ہیں جوترجیحی طورپر رباعیاں کہہ رہے ہیں۔اور بہت سے ایسے ہیں جو دوسری اصناف کے ساتھ صنف رباعی کو بھی اپنی شاعری کا میدان بنائے ہوئے ہیں۔جیساکہ گزشتہ مختلف ادوار میں اردو کے ان گنت شعرا نے دوسری اصناف کے ساتھ رباعی پر بھی طبع آزمائی کی ۔ یعنی انھوں نے ضمنی طورپر رباعیاں کہیں۔ یہ روایت مختلف ادوار سے گزرتی ہوئی اس دورمیں بھی آگئی ہے ۔ کئی شعرا جہاں غزلیں ، نظمیں ، مرثیے اور قطعے کہتے ہیں ، اسی طرح وہ رباعیاں بھی لکھتے ہیں۔اس اعتبار سے دیکھاجائے تو رباعی سدا بہار صنف نظرآتی ہے جو پہلے بھی شعرا کی توجہ کو اپنی طرف کھینچتی تھی اور آج بھی کھینچتی ہے۔
دوسری طرف اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بیسویں صدی کے اواخر میں رباعی کہنے کا چلن اردو شعرا کے یہاں کم یا ختم ہوگیا تھا۔ اچھے اچھے شعرا بھی رباعی کہنے سے گریز کرتے تھے۔ اس پوری صورت حال پر روشنی ڈالتے ہوئے ناوک حمزہ پوری لکھتے ہیں:
’’ ابھی پچیس تیس برس پہلے تک کا حال یہ تھا کہ رباعی گوئی سے جاتی ہوئی نسل کے باقیاتِ صالحات کے زمرے میں شمار کیے جانے و الے شعراہی کو شغف تھا۔نئی نسل کے شعرا جو نظموں میں اختصار کی خصوصیت اور اہمیت کے قائل تھے وہ بھی دوسری زبانوں کی بعض مختصر اصنافِ سخن کے عاشقِ جاں نثار ہوگئے اور رباعی کو دور ازکار سمجھ کر اس کی ناؤڈبوگئے۔ .... بعض وہ نامور شعرا جو بحیثیت استاد شاعر بھی مشہورتھے، کی جھولیاں رباعی سے خالی ہیں۔ بعض لوگوں نے قابل تعریف راست بازی سے کام لیا اور لکھاکہ رباعیاں تومیں نے کہی ہی نہیں، بعض نے پانچ سات رباعی ، بعض نے دس بارہ رباعی اور بیشتر نے بیس پچیس رباعی کہہ رکھنے کے جرم کا اقرار کیا۔‘‘10؂ 
یہ اقتباس عہدِ حاضر میں رباعی کی صورت حال کی قلعی کھول کر رکھ دیتاہے کہ شعرا نے کس حد تک رباعی سے بے اعتنائی برتی اور اگر بعض نے رباعیاں کہیں تومعدودے چند یعنی صرف نام کے لیے تاکہ ان کی شاعری کی اصناف میں ایک صنف کا اضافہ ہوجائے۔دس بیس رباعی کہنے سے صاف سمجھ میں آتاہے کہ شاعر رباعی کہنے سے گریز کررہاہے اوررسم نبھارہاہے۔ لیکن یہ صورت حال بیسویں صدی کے اواخر کی ہے ۔اکیسویں صدی اور رواں دہائی کی صورت حال قدرے مختلف ہے۔خود ناوک حمزہ پوری ہی کے الفاظ میں :
’’ہمارے ناقدین نے رباعی کی فنی مشکلات کا ذکر کچھ اس انداز سے کیا ہے اور اس تواتر سے کیا ہے کہ نئے شاعروں نے غالباً رباعی کو آسیب سمجھ کر اس کے نزدیک جانا ہی چھوڑ دیا تھا۔پھر یہ کہ رباعی کے تعلق سے بے سروپا کچھ باتیں بھی مشہور کردی گئی تھیں۔یوں میں نے مذکورہ نمبر میں اس آسیب کو بھگانے کے خیال سے طویل مقدماتی مضمون بھی لکھ ڈالا تھا۔یہ دیکھ کر یک گونہ اطمینان ہوا کہ کوشش رائیگاں نہ گئی۔ نہ صرف یہ کہ بزرگ شعرا کو بھی احساس ہوا کہ رباعی بھی کہنا چاہیے بلکہ نئی نسل کے بہت سارے شعرا رباعی گوئی کی طرف متوجہ ہوئے۔ہرسال رباعی کے دوتین مجموعے شائع ہونے لگے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔‘‘11؂
اس اقتباس سے جو باتیں واضح ہوتی ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ نئے زمانے کے شعرا نے رباعی کی صنف کو بہت مشکل خیال کرتے ہوئے اس کی طرف رخ کرنے کی جرأت نہیں کی جب کہ یہ صنف اتنی مشکل بھی نہیں کہ اس میں طبع آزمائی نہ کی جاسکے۔ رباعی کی بحر میں اچھی شاعری کے لیے بھرپور گنجائش موجود ہے۔ اور اگر ذہن کو اس بحر سے ہم آہنگ کرلیاجائے تو پھر یکے بعد دیگرے رباعیاں کہنا اور آسان ہے۔
شمس الرحمن فاروقی نے موجودہ عہد میں کہی جانے والی رباعیوں اور رباعی گویوں کے بارے میں جو کہا ہے ، اس سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس عہد میں رباعی زوال پذیر نہیں بلکہ ترقی پذیر ہے۔ وہ کہتے ہیں:
’’ ان دنوں شہر شہر بلکہ قریہ قریہ رباعی گویوں کا ہجوم ہے۔اس بات سے قطع نظر کہ جو رباعیاں کہی جارہی ہیں وہ کیسی ہیں، رباعی کی یہ غیر معمولی مقبولیت کم سے کم دو باتیں ثابت کردیتی ہیں۔اول تو یہ کہ عقیدۂ عام کے برخلاف رباعی کچھ ایسی مشکل صنف سخن نہیں اور نہ ہی اس کے اوزان اتنے اجنبی ہیں جتنے کہے جاتے ہیں۔دوسری بات یہ ثابت ہوتی ہے کہ یہ بھی محض افسانہ ہے کہ رباعی پختہ عمر (اور بقول جوش ملیح آبادی چالیس سال سے زیادہ کی عمر ) کا شاعر مانگتی ہے ۔رباعی کی اس فتح مندی کو میں اردو شاعری کے لیے فالِ نیک سمجھتا ہوں۔‘‘12 ؂
اس وقت متعدد ایسے شعرا موجود ہیں جن کی رباعیوں کے مجموعے یکے بعد دیگرے منظر عام پر آچکے ہیں یا آرہے ہیں۔مثلاًدورحاضر کے اہم رباعی گوشعرا میں ایک اہم نام اکرم نقاش کاہے۔ فضیل جعفری نے اکرم نقاش کے بارے میں لکھا ہے کہ:
’’میں ادبی نجومی نہیں کہ کسی شاعر کے روشن مستقبل کی پیش گوئی کروں لیکن کئی دوسرے لوگوں کی طرح مجھے بھی اکرم نقاش سے بہت سی امیدیں ہیں۔‘‘13؂
اکرم نقاش کی رباعیوں کے مجموعے ’حشرسی یہ برسات ‘ کو ادبی حلقوں میں کافی سراہا گیا اور اسے بہ نظرِ استحسان دیکھا گیا۔اس مجموعے پر شمس الرحمن فاروقی نے پیش گوئی کرتے ہوئے کہا تھا:
’’ یقین ہے کہ بہت جلد اس کتاب کا خالق ہمارے عہد کا منفرد رباعی گو کہلائے گا۔‘‘14؂
اکرم نقاش کی رباعیوں میں بہت سے موضوعات کو بخوبی برتا گیا ہے، البتہ حسن وعشق کے معاملات سے انھوں نے بڑی حد تک پرہیز کیا ہے لیکن اس کے باوجود اس نوع کی جو رباعیاں بھی انھوں نے کہیں، وہ بڑی لاجواب ہیں۔اس قبیل کی ایک رباعی دیکھیں ؂

اک سحر چھلکتا ہے نگاہوں سے تری
بڑھتا ہے طلسم اور جو گویا ہو کبھی
جادو ہے تو سر تا بہ قدم یا کوئی خواب
مسحور ہوئی جاتی ہے ہر سانس مری

عہدِحاضر کے رباعی گویوں میں ایک اوراہم نام متین جامی کا ہے جن کی رباعیوں کے دومجموعے ’بساط سخن‘ اور ’مونس سخن ‘منظر عام پر آچکے ہیں۔ مونس سخن میں 465رباعیاں ہیں۔ اس دورکے ایک اور اہم رباعی گو شاعر حافظ کرناٹکی ہیں جن کی رباعیوں کے کئی مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ ’موج تسنیم‘ میں بچوں کے حوالے سے رباعیاں کہی گئی ہیں۔ ان کی رباعیات کا دوسرا مجموعہ ’رباعیات حافظ ‘ ہے جو اول، دوم اور سوم حصوں پر مشتمل ہے۔وقت کے ساتھ ان کی رباعیوں کے ذخیرے میں اضافہ ہوتا جارہاہے۔
جب اس دور کے رباعی گویوں کا تذکرہ ہوگا توظفرکمالی کانام بھی قدرواحترام کے ساتھ لیا جائے گا۔ انھوں نے عمدہ رباعیاں کہی ہیں ۔ان کی رباعیوں کاایک مجموعہ ’رباعیات ظفر‘ کے نام سے افقِ اشاعت پر جلوہ گر ہوچکا ہے۔ ظفرکمالی اور ان کے مجموعے کے بارے میں صفدرامام قادری لکھتے ہیں:
’’یہ مجموعۂ رباعیات، ظفر کمالی کا بہ حیثیتِ شاعر ایک مستقل پڑاؤ ہے۔انھیں صرف محقق یا ظرافت نگار سمجھ کر چھوڑدینا اب کسی سنجیدہ قاری کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔وہ ہم عصر رباعی گویوں کے درمیان بہت خاموشی سے لیکن مکمل استادانہ رکھ رکھاؤ کے ساتھ باوقار انداز میں جلوہ افروز ہیں۔ان کے ذہن اور فکر ، ادبی مزاج ، علمی گہرائی اور طبیعت کے ٹھہراؤ کے نہایت خوش آئندنتائج برآمد ہوں گے۔رباعی کی عارفانہ ، عالمانہ ، کاملانہ اورظریفانہ چوٹیاں تو انھوں نے سرکرلیں، آنے والے وقت میں وہ کون سا شعری مدارڈھونڈتے ہیں جس کے دائرے میں رہ کر وہ بالکل نئے شاعر کے طورپر ہمارے سامنے آئیں گے۔‘‘15 ؂
اس دورکے اہم رباعی گو شعرا کی فہرست میں ایک نام عارف حسن خاں کا بھی شامل کیا جانا چاہیے جن کی رباعیوں کا مجموعہ ’دیوان رباعیات عارف ‘حال ہی میں منظر عام پر آیا ہے۔ عارف حسن خاں عروض کے ماہر ہیں۔ ان کے نزدیک رباعی کے اوزان چوبیس نہیں چھتیس ہیں اور ان اوزان میں انھوں نے رباعیاں کہی ہیں۔ ان کی رباعیاں فن و معنی دونوں اعتبار سے پختہ ہیں ۔ ان کی رباعیوں کے مطالعے کے دوران ایسا لگتا ہے کہ انھیں رباعی کہنے میں تکلف نہیں ہوتا۔ بے ساختہ رباعی کہتے ہیں اور عمدہ کہتے ہیں۔ رباعی کا یہ انداز دوسروں سے جدا بھی ہے اور تاثیر سے پُر بھی ۔ ملاحظہ فرمائیں ؂

خوشبو کا اک جھونکا ہے اس کی یاد
کوئی میٹھا سپنا ہے اس کی یاد
اس کی یادوں میں کھو کر یہ جانا
حاصل اس دنیا کا ہے اس کی یاد

حال ہی میں عادل حیات کی رباعیوں کا مجموعہ ’شہر رباعی‘ منظرعام پر آیا جسے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی نے 2016 میں چھاپا ہے۔ اس مجموعے کے ہر صفحے پر تین رباعیاں ہیں اور اس مجموعے میں 160 صفحات ہیں۔ گویا کہ مجموعی طور پر اس مجموعے میں سیکڑوں رباعیا ں ہیں۔ عادل حیات کی رباعیاں بڑی نیچرل محسوس ہوتی ہیں اور یہ بھی لگتا ہے کہ رباعی کہنے پر انھیں دسترس حاصل ہے۔ اس سے امید کی جاسکتی ہے کہ ان کے رباعی کہنے کا سلسلہ رکے گا نہیں اور مزید رباعی کے مجموعے ان کے قلم سے نکلیں گے۔ بطور نمونہ یہ رباعی ملاحظہ فرمائیں ؂

بہتی ہوئی لہروں سی روانی توبہ
بل کھاتی ہوئی ایسی جوانی توبہ
سنتے ہیں کبھی ہم بھی جواں تھے لیکن
اس یُگ کے نئے قصے، کہانی توبہ

دورحاضر کے اہم رباعی گوشعرا میں فراغ روہوی کو کسی بھی صورت نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔ان کی رباعیوں کا ایک مجموعہ’ جنوں خواب‘گراں قدر فن پارہ ہے۔اس مجموعے اور فراغ روہوی کے بارے میں مراق مرزا لکھتے ہیں:
’’ جنوں خواب انھیں ان عالمی شہرت یافتہ رباعی گویوں کے متبعین کی صف میں جگہ دیتاہے جس میں حضرت ابوالحسن خرقانی ، ابوشکو ربلخی، رودکی، ابوالخیر اور عمرخیام کے علاوہ مرزا محمد رفیع سودا، انیس ودبیر، مومن ، امجد حیدر آبادی، میرحسن ، مولانا حالی، غالب،اقبال ، شاد عظیم آبادی ، جوش ملیح آبادی، فراق گورکھوپوی، تلوک چند محروم جیسے جید سخن ساز شامل ہیں۔‘‘ 16؂
مذکورہ تبصرہ اس بات کی طرف اشارہ کررہاہے کہ موجودہ دورمیں رباعی کے بڑے بڑے شاعر موجود ہیں۔ فارسی کے جن شاعروں کے ناموں کو مذکور کیا گیا ہے ، وہ سب فارسی رباعی میں اولین مقام رکھتے ہیں۔ ذکرکردہ اردو کے رباعی گوشعرا کو بھی رباعی کے شعبے میں نمایاں درجہ حاصل ہوا ہے۔ آج بھی اگر اس پایہ کا رباعی کاکوئی شاعر موجود ہے تو اس سے یہ انداز ہ لگالینا کچھ مشکل نہیں کہ رواں صدی میں اردورباعی کاجلوہ برقرار ہے۔فراغ روہوی کی رباعیوں کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں بھرپور نغمگیت ہوتی ہے اور ان کو پڑھتے ہوئے مشکل پسندی کااحساس نہیں ہوتا۔ایک حمدیہ رباعی ملاحظہ فرمائیں ؂

یہ جان و بدن میرے نہیں ، تیرے ہیں
یہ نطق و دہن میرے نہیں ، تیرے ہیں
میں فخر کروں بھی تو کروں ، کس بل پر
الفاظ و سخن میرے نہیں ، تیرے ہیں

’رباعی ‘کی جوبحر متعین ہے اور جو اوزان بیان کیے گئے ہیں، فی زمانہ اُسی بحر اور اوزان میں رباعیاں کہی جارہی ہیں۔ ہاں بعض شعرا ان اوزان سے آگے بڑھنے کی بھی کوشش کرتے نظرآتے ہیں۔جیساکہ کندن لال کندن نے 54 آہنگوں میں رباعیاں کہی ہیں۔ڈاکٹر شریف احمد رقمطراز ہیں:
’’اسی طرح ایک زمانے میں یہ خیال عام تھا کہ رباعی چوبیس اوزان اور بحور میں کہی جاسکتی ہے لیکن انتہائی مقبول ایک ہی وزن رہاہے ۔لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔کم رباعی گو اس وزن سے باہر جاسکے ہیں لیکن ....کندن صاحب نے چوبیس نہیں چوّن آہنگوں میں رباعیاں کہہ کردکھائیں۔‘‘17 ؂
2016میں ایم ایم خان کی رباعیات کا مجموعہ’اے کاش‘ منظر عام پر آیا ہے ۔اس میں 130 رباعیاں ہیں، لیکن یہ رباعیاں رباعی کی مخصوص بحر میں نہیں ہیں اور نہ ہی ان میں ان اوزان کی رعایت کی گئی ہے جو رباعی کے لیے مخصوص ہیں۔اس سے یہ پتہ چلتاہے کہ عہدِ حاضر میں کچھ شعرا رباعی کے عروضی دائرے کو وسیع کرنے یا رباعی کے مخصوص دائرے کو توڑنے کی بھی کوششیں کررہے ہیں، لیکن اس نوع کی کوششیں اکّا دکاہی ہیں، ورنہ آج بھی رباعی کی متعینہ بحرووزن کا خیال رکھا جاتاہے۔اوپر دورحاضر کے جن رباعی گوشعرا کا تذکرہ کیا گیا وہ بطور نمونہ ہیں ، ورنہ عصرِ حاضر کے تمام رباعی گویوں پرسیر حاصل گفتگو ایک مضمون میں نہیں کی جاسکتی ، اس کے لیے ایک ضخیم کتاب کی ضرورت ہے۔
موضوعات اور مضامین کے اعتبار سے اگرچہ ’رباعی ‘اپنے ابتدائی ادوارمیں حکمت وموعظت ، مذہب واخلاق اور بعض مخصوص موضوعات سے عبارت تھی، لیکن آہستہ آہستہ اس کے موضوعات میں تنوع ہوتا چلا گیا۔موضوعات میں وسعت کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ آج کی رباعیوں میں مذہب وملت کی باتیں بھی ہیں ، تہذیب ومعاشرت اور سیاست وسیادت کی باتیں بھی ہیں۔اسی طرح عشقیہ مضامین بھی نظم کیے جاتے ہیں اور رواں صدی کے معاملات وواقعات کو بھی رباعیات میں بیان کیا جاتاہے۔ گویا کہ عہدِ حاضر کی رباعیات کے موضوعات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔
کندن لال کندن کی مندرجہ ذیل رباعیوں میں عہدِ حاضر اور اس کی سیاسی زبوں حالی کی داستان اس طرح رقم کی گئی ہے ؂

لے شامِ اودھ کا کوئی اب نہ سرور
اب صبحِ بنارس پہ کرے کون غرور
فرصت ہے کسے لطف اٹھائے ان کے
دو وقت کی روزی کو ہے انساں مجبور


ایم پی بننے کا حق تم اس کو دو
بے مثال چور، نامور ڈاکو ہو
کنبہ پروری کی جس کو ہو بس فکر
قوم، دیش کی نہ کبھی سوچے جو

یہ مادی دور ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی نے اپنے پاؤں ہر طرف پھیلادیے ہیں، احساسات وجذبات ،اخلاق واقدار اور مذہب و روحانیت سے انحراف کرکے لوگ مشینی بنتے جارہے ہیں، لیکن اس کے باوجود آج کے رباعی گونہ صرف اپنے ماضی کے ورثے کے امین ثابت ہورہے ہیں بلکہ اس کو آگے بڑھاتے ہوئے مذہب وروحانیت اوراخلاق وانسانیت کورباعیوں میں پیش کررہے ہیں۔اسی تناظرمیںآج حمدیہ اور نعتیہ رباعیاں بھی کہی جارہی ہیں ۔حافظ کرناٹکی کی رباعیوں سے حمدیہ اور نعتیہ رباعی کی ایک ایک مثال ملاحظہ فرمائیں ؂

ہر ایک طرف جلوہ گری ہے رب کی
پوری جو کیا کرتی ہے مانگیں سب کی
خالی نہیں جاتا کبھی کوئی سائل
تخصیص نہیں اس کے یہاں مذہب کی


عیسیٰ کی تگ و تاز جہاں ختم ہوئی 
جبریل کی پرواز جہاں ختم ہوئی
کی آپ نے اس حد سے شروعاتِ سفر
خود نگہہِ نگہہ ساز جہاں ختم ہوئی

اخلاق وتہذیب کے مضمون کو کندن لال کندن نے اپنی ایک رباعی میں اس طرح بیان کیا ہے ؂

تہذیب و تمدن کا اڑاؤ نہ مذاق
داؤ پہ لگاؤ نہ کبھی تم اخلاق
ہے ہند کی تہذیب جہاں بے مثل
تہذیب وِدیشی کے نہ ہو تم مشتاق

عہدِ حاضر کے شعرانے رباعیوں کے ذریعہ جدید معاشرے، جدید تہذیب اور اُس انسان پر گہرا طنز بھی کیا ہے جو انسانی خطوط و اقدار کے خلاف نبرد آزما ہے اور انسانی تقاضوں ومطالبوں کو پیچھے چھوڑ رہاہے۔اس نوع کی یہ رباعی دیکھیے ؂

تہذیب پہ بحران نظر آتا ہے
اخلاص کا فقدان نظر آتا ہے
آیا ہے زمانے میں تغیر ایسا 
انسان بھی حیوان نظر آتا ہے 

تقویٰ اور پرہیزگاری ایک ایسا وصف ہے جو انسان کو نہ صرف گناہوں اور خطروں کی دلدل سے بچاتاہے بلکہ اس کو ابدی کامیابی سے ہمکنار کرکے اس کے درجات کو بھی بلند کرتا ہے ۔یہی تقوی انسان کو صراطِ مستقیم پر قائم رکھتاہے اور منزل تک پہنچنے کے لیے روشنی عطا کرتا ہے۔اس پس منظر میں حافظ کرناٹکی کی یہ رباعی دیکھیں ؂

تقویٰ سے جو معذور ہوا کرتا ہے
وہ دین سے بھی دور ہوا کرتا ہے
اک مہر سی لگ جاتی ہے دل پر اس کے 
اور چہرہ بھی بے نور ہوا کرتا ہے

رباعی کا ایک اہم موضوع ’اصلاح‘ رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ تقریباً ہر دور کے رباعی گو شعرا نے اصلاحی رباعیاں کہی ہیں۔ پہلے صوفیا ، علما اور مذہبی شخصیات نے رباعی کواصلاح کا ذریعہ بنایا ،پھر یہ روایت اتنی مستحکم ہوگئی کہ آج تک قائم ہے۔غالباً گزشتہ ادوار کے شعرا کو اس بات کاپختہ یقین تھاکہ رباعی کے توسط سے سماجی ، تہذیبی اور ملی سطح پر اصلاح کا کام موثرکن انداز میں لیا جاسکتاہے ۔خوش آئند بات یہ ہے کہ جس طرح اصلاح کی گہری چھاپ ادوارِ رفتہ کی رباعیوں پر چھائی ہوئی ہے ، اسی طرح عہدِ حاضر کی رباعیو ں میں بھی اصلاح کا رنگ کافی گہرا ہے۔نمونے کے طورپریہ رباعی دیکھیں ؂

ہمدردی سے جو رشتہ بنا لیتا ہے
دشمن کو بھی وہ اپنا بنا لیتا ہے
پانی کی طرح ہوتا ہے اس کا کردار
بہتا ہے جہاں رستہ بنالیتا ہے

بہرکیف عہدِحاضر میں اردو رباعی کے مختلف پہلوؤں کا گہرائی سے تنقیدی اور تحقیقی جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ سامنے آتاہے کہ عصرِ حاضر میں رباعی نہ صرف ا یک زندہ صنف کی حیثیت رکھتی ہے بلکہ نئے زمانے کے شعرااس کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ جس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ مستقبل میں بھی ’رباعی‘ کا سفر جارے رہے گا۔

حواشی
-1 تنقید شعرالعجم ، 582
-2 مقدمہ، کلیات محمد قلی قطب شاہ، اشاعت 1940
-3 اردو رباعی: فنی و تاریخی ارتقاء، از فرمان فتح پوری، ص48
-4 تلخیص عروض قافیہ، ص 21-22، مطبع چھتہ بازار لاہور
-5 ارمغان رباعیات، از کندن لال کندن، ص 11،اشاعت 2007
-6 اردو رباعی، فنی وتاریخی ارتقاء، ص 20
-7 رباعیات انیس، ص 38، علی جواد زیدی، ناشر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ،اشاعت 1985
-8 امیر چند بہار ،چار سو رباعیات کا مجموعہ ، ص 11
-9 کاشف الحقائق ، جلد دوم ، ص 274
-10 جنوں ، خواب ، از :فراغ روہوی، ص11
-11 جنوں خواب، فراغ روہوی، ص 13
-12 حشرسی یہ برسات، مصنف اکرم نقاش، ص 8، اشاعت 2009
-13 حشر سی یہ برسات ، ص 19، مصنف اکرم نقاش
-14 حشر سی یہ برسات، ص11، از اکرم نقاش
-15 رباعیات ظفر، ص 51، از ظفر کمالی، اشاعت 2013
-16 جنوں خواب ، فراغ روہوی، صفحہ27
-17 ارمغان رباعیات، از کندن، ص 11،2007

Yusuf Rampuri
Mohallah Tandola
Tanda, Rampur - 244925 (UP)
Mob.: 9310068594





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

3 تبصرے:

  1. داستان کی تعریف اجزائے ترکیبی

    جواب دیںحذف کریں
  2. فورٹ ولیم کالج کی ادبی خدمات

    جواب دیںحذف کریں
  3. اردو رباعی کے ارتقائی سفر پر یہ ایک بہترین تجزیاتی و تحقیقی مضمون ہے۔۔۔ اس عہد میں محمد نصیر زندہ، جن کا تعلق ضلع راولپنڈی کی تحصیل کلر سیسداں سے ہے، وہ بھی رباعی کے بہت پختہ کار شاعر ہیں۔ اور ان کی چار کتب رباعی پر اساتذہ فن سے داد و تحسین کی حاصل کر چکی ہیں۔ محمد نصیر زندہ جدید رباعی کا ایک ہم ترین نام ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں

تازہ اشاعت

سماجی شعور: تعارف اور اہمیت، مضمون نگار: عرفان احمد گنائی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 انسان طبعاًمعاشرت پسند اور سماجی واقع ہوا ہے۔ گرہوں اور ٹولیوں میں رہنے کی یہ خصلت ازل سے ہی اس کی گھٹی میں پڑی ہ...