28/12/18

’مثنوی معنوی‘ مولانا رومی کے چند اہم اردو تراجم کا جائزہ مضمون نگار:۔ مغیث احمد




مثنوی معنوی

مولانا رومی کے چند اہم اردو تراجم کا جائزہ



مغیث احمد



ساتویں صدی ہجری اسلامی تاریخ میں کئی لحاظ سے اہم ہے، اس عہدمیں اہل اسلام کو گوناگوں آزمائشوں کا سامنا رہا،مثلا؛ صلیبی جنگیں، منگولوں کے حملے اور مسلم حکمرانوں کی آپسی ناچاقی وغیرہ۔ یہ وہ اسباب تھے جو مسلم اقوام کے لیے طوفان نوح ثابت ہورہے تھے۔ علاوہ ازیں علماکے آپسی اختلافات سے متاثر قوم جہاں پژمردگی کے عمیق غار میں غرق ہورہی تھی وہیں بے راہ روی کا شکار ہوکر عمل سے عاری ہوتی جارہی تھی۔ ایسے پرآشوب عہد میں مولانا رومی کی آمد ہوتی ہے، جوایک پژمردہ اورحالات و حوادث کی ستائی ہوئی لاچارقوم کے دلوں میں نئی امنگ، نیا جوش اور امید کی ایک نئی قندیل روشن کرنے کا کام کرتے ہیں۔
مولانا جلال الدین رومی جو ’خداوندگار‘ کے خطاب سے سرفراز تھے،’مولاناے روم‘،’مولانا رومی‘ یا ’مولوی رومی ‘جیسے کئی ناموں سے یاد کیے جاتے ہیں۔ تقریبا تمام تذکرہ نگاروں نے آپ کوحضرت ابوبکرصدیقؓ کی اولاد سے بتایا ہے۔وہ ایک جید عالم دین، محدث، فقیہ اور مفسر قرآن ہونے کے ساتھ ایک عظیم مفکر اوربلندپایہ صوفی شاعر بھی تھے جن کے آثار کا بیشتر ذخیر نظمیہ پیرائے میں آج بھی مقبول عام ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ عام روش کے خلاف مولانا نے ضرورت شعری کے مطابق اپنا تخلص ’خاموش‘، ’خموش‘یا ’خمش‘ استعمال کیا ہے۔آپ کے آثار میں ’کلیات شمس یا دیوان کبیر‘ جو فارسی، عربی اور ترکی میں کہی گئیں مولانا کی 3500 غزلیات اور 2000 رباعیات کے علاوہ رزمیہ نظموں، قصیدوں، قطعات و ملمعات پر مشتمل ہے۔’فیہ ما فیہ‘ مولانا کے ملفوظات پر مشتمل ہے جبکہ’مجالس سبعہ‘ ان کے خطبات اور ’مکتوبات‘مولاناکے خطوط کا مجموعہ ہے۔
مولانا کا سب سے اہم شاہکار ان کی شہرۂ آفاق’مثنوی معنوی‘ہے جو 6بسیط دفاتر پر مشتمل تقریبا 26ہزار اشعار کو محیط ہے،جس میں اخلاق و عقائد کی باتیں نہایت پرکشش اور دلچسپ پیرائے میں بیان کی گئی ہیں۔’ مثنوی معنوی‘دراصل عملی حرارت پیداکرنے والی ایک ایسی چنگاری ہے جواپنی ابتدائے تخلیق سے تاہنوز پیہم سلگ رہی ہے اور ہرشخص اپنی فہم و فراست کے مطابق اس سے حرارت حاصل کررہا ہے۔یہ جہاں عمل سے عاری مردہ قوموں کے لیے صورعمل ہے وہیں پریشان حال قلوب کے لیے متاع مسکّن بھی ہے۔اس کااصل امتیازاس کی یہی روحانی فکر ہے، جو اپنے اندر معانی کا ایک ایساسمندرسمیٹے ہوئے ہے جس کی گہرائی کا اندازہ لگاناممکن نہیں۔’مثنوی معنوی‘ درحقیقت جوش و جذبہ، ہمت و حوصلہ، جدو جہد اور متواترمحنت کی جیتی جاگتی مثال ہے،یہ کسی خاص خطہ، قوم یا مذہب تک محدود نہیں بلکہ ابدی و آفاقی ہے اور زمان و مکان کے حصار سے صدہا صدی اور ہزارہا ہزار فرسنگ کے فاصلہ پر ہے۔
’مثنوی معنوی‘ اپنی سادگی، صفائی، سلاست و روانی، منقولات و معقولات، نصیحت آمیز جملوں، تلمیحات و استعارات اور دلچسپ واقعات و تمثیلات کی وجہ سے عوام و خواص میں ہمیشہ سے مقبول رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ آغاز تصنیف سے آج تک کے دانشوران نے مختلف زبانوں میں اس کے تراجم و شروحات لکھ کر اس میں موجود معانی کے سمندر سے چشمے بہائے ہیں۔اس تعلق سے ’مثنوی معنوی‘ کی کچھ اہم شروحات کا ذکر ’کشف الظنون‘ میں آیاہے جسے علامہ شبلی نے اپنی کتاب ’سوانح مولانا روم‘ میں شامل کیا ہے۔نیکولسن نے اپنے نسخہ کے مقدمہ میں ہندو ایران سے شائع ہونے والی اردو و دیگر شروحات و تراجم کا ذکر کیا ہے۔ آربری نے بھی اپنی کیٹلاگ کی جلد2 اور جلد 6 کے صفحہ 301-4پر اردو اور’مثنوی معنوی‘ کی دوسری قدیم ترین ایشیائی مطبوعات کا ذکر کیا ہے۔
ویسے تو’مثنوی معنوی‘ کے تراجم و شروحات کی تعداد متعدد زبانوں عربی، انگریزی، ترکی،روسی، اطالوی، جرمن، فرانسیسی، اسپینی، سندھی، بنگالی، کشمیری، فارسی اور اردو وغیرہ میں سیکڑوں ہیں، جن کی اگرصرف فہرست تیار کریں تب بھی یہ مضمون ناکافی ثابت ہو،چہ جائیکہ سبھی تراجم کا جائزہ لیا جائے۔ اس لیے سردست ’مثنوی معنوی‘ کے چند معروف اردو تراجم و شروحات کا ذکر کیا جارہے، بعد میں موقع کی مناسبت سے پھر کبھی کسی دوسری زبان کے تراجم پر بحث کی جائے گی۔
تذکروں کے مطابق مولانا کے انتقال کے بعد ایک طویل عرصہ تک ان کی ’مثنوی معنوی‘ کی تشریح و توضیح پر تشفی بخش توجہ نہیں دی گئی اور ایک طویل عرصہ تک یہ کتاب اہل علم و معرفت کی بے توجہی کاشکار رہی،مگر اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ’مثنوی معنوی‘ کی تشریح وتوضیح سے متعلق سب سے پہلی کاوش خود مولانا کے فرزند ارجمند سلطان ولد اور مولانا کے ایک شاگرد خاص احمدرومی کی شکل میں دکھائی دیتی ہے۔گاہے بہ گاہے اس ’مثنوی معنوی‘ کا ذکر فارسی کے معروف شعراو مصنّفین مثلا علاء الدولہ کی ’رسالہ اقبالیہ‘، خواجو کرمانی، حافظ اور شاہ نعمت اللہ وغیرہ کے ذریعہ آتا رہا، مگر تعطل کی اس دبیز پرت کو نویں صدی ہجری اور اس کے بعد کے معروف مفکرین ملاحسین واعظ کاشفی کی ’لب لباب مثنوی‘، کمال الدین حسین خوارزمی کی ’جواھرالاسرار‘ اور’ کنوزالحقایق فی الرموز و الدقائق‘، ملایعقوب چرخی، مولانا عبدالرحمن جامی، مصطفی بن شعبان سروری، ابراہیم ددہ قونوی، شاہدی ددہ بیانگر اور گیارہویں صدی ہجری کے شیخ اسماعیل انقروی (جنھیں اسماعیل ددہ بھی کہا جاتا ہے)کی ’فاتح الابیات‘، عبداللطیف عباسی گجراتی کی ’لطایف معنوی‘، خواجہ ایوب لاہوری کی ’اسرار الغیوب‘، ولی محمد اکبرآبادی کی ’شرح مثنوی‘ اور عبدالعلی لکھنوی کی ’بحرالعلوم‘کے ذریعہ بتائی گئی اس بات سے انکار نہیں کہ ’مثنوی معنوی‘ کے اولین شارحین دیار غیرسے تعلق رکھتے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ’مثنوی معنوی‘ پر سب سے زیادہ کام برصغیر اور ایران میں ہی ہوا ہے جس کی روش پر چل کر دیگر مقامات پر مختلف محلی زبانوں مثلا سندھی، ہندی، پنجابی، بنگالی اور کشمیری وغیرہ میں کام ہوا۔عبدالحسین زرین کوب لکھتے ہیں:
’’ در خارج از حوزۂ یاران قونیہ ۔۔۔ تا مدت ھا بعد از وفات وی مجال انتشار چندانی نیافت۔ بدون شک فرصت و مھلتی لازم بود تا خلفای مولانا بہ نشر مثنوی در خارج از حوزۂ مجالس یاران وی راضی و مصصم گردند۔‘‘1؂
شروحات و تراجم کی اس طویل فہرست میں کچھ تراجم تو ایسے ہیں جو مثنوی کے کچھ حصوں یا کچھ دفاتر تک محدود ہیں،کچھ ایسے بھی ہیں جنھیں مثنوی کی شرح نہیں بلکہ معاون شرح کہہ سکتے ہیں،کچھ شرحوں میں مثنوی کے مختلف الجہات موضوعات میں سے کسی ایک موضوع پر ہی بحث ہے، کچھ کتابیں صرف حواشی یا حل لغات پر جاکر ختم ہوجاتی ہیں اور کچھ تراجم ایسے ہیں جو اپنے آپ میں مکمل توہیں لیکن اتنے مفصل ہیں کہ ان کا پڑھنا کافی وقت طلب ہے پھر دشواری یہ بھی ہے کہ اس کے سبھی اجزا آسانی سے دستیاب نہیں ایسے ہی کچھ ترجمے مکمل ہیں مگراتنے مختصر ہیں کہ اس سے مفہوم کی تشنگی برقرار رہتی ہے، کچھ ترجموں پر قدامت کا رنگ غالب ہے اور کچھ ترجمے بدقسمتی سے دست برد زمانہ کی نذر ہوچکے ہیں یا ہورہے ہیں، کچھ ترجمے ایسے بھی ہیں جو صرف تراجم کی فہرست میں شامل ہیں مگر ابھی تک ان کا سراغ نہیں لگ سکا ہے۔اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں یاتو ان کے چاہنے والے نہیں رہے یا جن ہاتھوں میں رہے وہ انھیں شائع کرنے سے قاصر رہے یا اس میں انھیں دلچسپی کی کوئی چیزنہیں دکھائی دی۔ زیر نظر مضمون میں ان تمام خوبیوں، خامیوں اور وجوہات کو مدنظررکھ کرکچھ تراجم کا مطالعہ کیا جارہا ہے۔
’مثنوی معنوی‘ کے مترجمین کی فہرست بہت طویل ہے، جومختلف زبانوں میں منظوم و منثور شکل میں جزئی یا کلی طور پرلکھی گئی ہیں،اس میں سے کچھ تراجم دستیاب ہیں تو کچھ کمیاب و نایاب، کچھ تراجم بہت مقبول ہیں تو کچھ مطالعہ سے کافی دور۔آنے والے صفحات میں ان تراجم کا ذکر کیا جارہاہے جو کبھی اپنے یا بعد کے زمانے میں مقامی، قومی یا بین الاقوامی سطح پر مشہور و مقبول رہی ہیں، سبھی کا تفصیل سے جائزہ لینا وقت طلب امر ہے، البتہ ان کا سرسری طور پر نام لکھنے کے بعد جن تراجم کے بارے میں کچھ اہم معلومات فراہم ہوسکی ہیں ان پر مختصر تبصرہ کیا جارہا ہے، تاکہ ’’مثنوی معنوی‘‘ کے کچھ اہم تراجم کا تعارف ہوجائے اور مستقبل میں مولانا اور ’’مثنوی معنوی‘‘ فہمی کے لیے چراغ راہ ثابت ہوسکے۔
1۔پیراہن یوسفی
’پیراہن یوسفی‘ اردو زبان میں ’مثنوی معنوی‘ کامکمل ترجمہ ہے جس کے مولف محمد یوسف علی شاہ بن محمد جلال الدین خان ملقب بہ بانکی میاں چشتی نظامی زنبیل شاہی گلشن آبادی ہیں، مترجم نے 1193 ہجری مطابق 1779 میں اپنے پیرومرشدعبدالرحیم شاہ درویش شاہجہان آبادی کی ایما پر پایۂ تکمیل کو پہنچایا،ممکن ہے یہ ترجمہ1947 سے قبل بھی شائع ہواہو مگر دستیاب نسخہ کے سرورق پرسال اشاعت 1366ہجری مطابق 1947 رقم ہے۔
’پیراہن یوسفی‘ منظوم ترجمہ ہے جودراصل شاہ عبدالرحیم شاہ درویش شاہجہانپوریؒ کے لفظی ترجمہ سے استفادہ کے بعدلکھا گیاہے، جیساکہ خود پیراہن یوسفی کے مصنف رقمطراز ہیں:
’’واضح ہو کہ اس فقیر پر تقصیر کمترین بندگان درگاہ محمد یوسف علی شاہ ولد محمد جلال الدین خان ملقب بانکے میاں چشتی نظامی زنبیل شاہی گلشن آبادی واقع ملک مالوہ نے بہ رہبری عنایت ایزدی و بہ دعائے مرشدی و مولای و عاشق پاکباز معشوق بے نیاز مست الست قلندر زبردست رحیم ہرگدا و شاہ جناب عبدالرحیم درویش شاہجہانپوری مدظلہم اللہ تعالیٰ کے ترجمہ لفظی مثنوی مولانا جلال الدین رومی معنوی قدس سرہ میں کوشش کی، نام اس کا پیراہن یوسفی ترجمہ مثنوی معنوی رکھا۔‘‘2؂
ترجمے کا آغاز کچھ اس اندازسے ہوتا ہے ؂
بشنو از نے چون حکایت میکند
وزجدائیہا شکایت می کند
سن لو نے سے کیا حکایت کرتی ہے
اور جدائی سے شکایت کرتی ہے
کز نیستان تا مرا بہ بریدہ اند
از نفیرم مردو زن نالیدہ اند
جب سے کاٹا ہے نیستان سے مجھے
مردوزن روئے ہیں نالے سے مرے
سینہ خواہم شرحہ شرحہ از فراق
تابگویم شرح درد اشتیاق
پارہ پارہ کردے سینے کو فراق
تاکہوں میں شرح درد اشتیاق
ہرکسی کو دور ماند از اصل خویش
باز جوید روزگار وصل خویش
جو رہا ہے دور اپنی اصل سے
ڈھونڈتا ہے پھر زمانہ وصل سے3؂
’ پیراہن یوسفی‘ چھ جلدوں میں ہے جو متن کے ساتھ شائع ہوئی ہے،اس میں متن اور منظوم ترجمہ ایک ساتھ چلتا ہے۔ ترجمہ پر قدامت کا رنگ غالب ہے اس کے باوجودسلیس، رواں اور قابل فہم ہے۔یہ کتاب انتہائی خستہ اور بوسیدہ حالت میں دہلی یونیورسٹی کی سینٹرل لائبریری میں موجود ہے، جس کے سرورق پر گردوغبار کا انبار ہے اور ابتدائی صفحات کرم خوردہ ہوتے جارہے ہیں، ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ بوسیدہ کتابوں کے ساتھ وہاں کے لائبریری انتظامیہ کا رویہ دانستہ یا نادانستہ طورپر افسوسناک ہے۔ اگربروقت اس کی حفاظت کا خاطرخواہ انتظام نہیں ہوا توممکن ہے کچھ برسوں بعد یہ نسخے نایاب یا ندارد کی فہرست میں شامل کردیے جائیں۔
2۔شجرۂ معرفت
یہ اردو زبان میں ’مثنوی معنوی‘ کا منظوم ترجمہ ہے جسے غلام حیدرکوپا مؤی متخلص بہ حیدرنے کیا ہے،یہ ترجمہ پہلی بار 1298ہجری میں شائع ہواتھا اور اس کا ساتواں ایڈیشن 1343ہجری میں مطبع نولکشورلکھنؤ سے شائع ہوا، جس سے اس کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
’شجرۂ معرفت‘ دراصل مکمل ترجمہ نہیں بلکہ ’مثنوی معنوی‘ کے منتخب اشعار کا ترجمہ ہے،علاوہ ازیں اس کے اندر متن کی نقل کا التزام بھی نہیں کیا گیا ہے بلکہ صرف ’مثنوی معنوی‘ کے کچھ منتخب اشعار کا اردو منظوم ترجمہ ہے،دوران ترجمہ کہیں کہیں متن کے مافیہ کی بہتر ترجمانی کے لیے حاشیہ نویسی سے بھی کام لیا گیا ہے۔دفتر اول کا پہلا عنوان ’نے نامہ‘ کا آغاز کچھ اس طرح ہوتا ہے ؂
بشنو از نے چون حکایت می کند
وز جدائیہا شکایت می کند
سن کہ کیا کرتی حکایت ہے یہ نے
ہجر سے کرتی شکایت ہے یہ نے
کز نیستان تا مرا ببریدہ اند
از نفیرم مرد و زن نالیدہ اند
جب سے کاٹا ہے نیستاں سے مجھے
ہے جہاں نالیدہ میرے درد سے
سینہ خواہم شرحہ شرحہ از فراق
تا بگویم شرح درد اشتیاق
پارہ پارہ سینہ ہو اندر فراق
تا کہوں میں اس سے درد اشتیاق4؂
’شجرۂ معرفت‘ میں کل 616صفحات ہیں، مگر ابتدائی صفحات گردش زمانہ کی نذر ہوچکے ہیں،راقم کا یہ تبصرہ ساتویں اشاعت کے نسخہ کو پیش نظر رکھ کر کیا جارہا ہے جس پر قیمت مذکور نہیں، غالبا وہ صفحات غائب ہوچکے ہیں۔یہ نسخہ بہت قدیم اور بوسیدہ حالت میں دہلی یونیورسٹی کی سینٹرل لائبریری میں موجود ہے۔ جو قارئین کو فائدہ پہنچانے کی بجائے اس بات کا حقدار ہے کہ اسے نظرثانی کرکے زیورطباعت سے گزارا جائے تاکہ اسے نئی زندگی ملے اور آنے والی نسلیں اس سے محروم نہ ہونے پائیں،ساتھ ہی شارح مرحوم کی وہ منشاجو انہوں نے اپنے مقدمہ میں بیان کیا ہے کہ ؂
جو کرے اس نظم پہ میری نگاہ
دے دعا وہ مجھ کو ہر شام و پگاہ5؂
کو بروئے کار لاسکیں اورتاکہ ان کی محنت و اخلاص کاعمل تادیر قائم رہ سکے۔
3۔کشف العلوم
مولانا محمد ہدایت علی لکھنوی نے 1300ہجری میں اردو نثر میں یہ ترجمہ لکھا، جسے 1308ہجری میں مولانا محمدابراہیم شاہجہانپوری نے اس کی تصحیح کے بعد مطبع گلزار ابراہیم مرادآباد سے 1308ہجری میں شائع کرایا۔
’’کشف العلوم‘‘ صرف ترجمہ نہیں بلکہ ایک مکمل شرح ہے جو چھ جلدوں میں ہے۔یہ شرح بہت جامع ہے اور اپنی قدامت کے باوجود بھی بہت اہمیت کی حامل ہے۔اس کا ترجمہ بہت مختصر مگر جامع اور متن کے مافیہ کا مکمل ترجمان نظر آتا ہے۔
بطور مثال ’نے نامہ‘ کے چند ابتدائی اشعارمع ترجمہ یہاں پیش کیے جارہے ہیں ؂
بشنو از نَے چون حکایت میکند
وزجدائیہا شکایت می کند
بانسری سے سن کہ جو حکایت کرتی ہے اور جدائیوں سے شکایت کرتی ہے۔
کز نیستان تا مرا ببریدہ اند
از نفیرم مردو زن نالیدہ اند
جب سے نیستان سے مجھے کاٹا ہے، میری درد انگیز آواز سے مردوزن نالاں ہیں۔
سینہ خواہم شرحہ شرحہ از فراق
تابگویم شرحِ دردِ اشتیاق
میں اپنے سینہ کو چاہتاہوں کہ درد فراق سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے جب میں درد اشتیاق کی شرح کروں۔
من بہر جمعیتی نالان شدم
جفت خوشحالان و بدحالان شدم
میں ہرجماعت کے ساتھ نالاں ہوا، ہمراہ خوش حالوں اور بدحالوں کے رہامیں۔
ہرکسی از ظنِّ خود شد یار من
از درون من نَجُست اسرارِ من
جو کوئی اپنے گمان سے میرا یار ہوا، مگر اس نے میرے دل کی بات نہ ڈھونڈی۔
سِرِّمن از نالۂ من دور نیست
لیک چشم و گوش را آن نور نیست
میرا بھید میرے نالہ سے الگ نہیں ہے، مگر آنکھ اور کان کو ادراک نہیں ہے۔
تن زجان و جان زتن مستور نیست
لیکن کس را دیدِ جان دستور نیست
تن جان سے اور جان تن سے پوشیدہ نہیں، مگر کسی کو اس کا دیکھنا دستور نہیں ہے۔ 
آتش ست این بانگ نای و نیست باد
ہرکہ این آتش ندارد نیست باد
آگ ہے یہ آواز بجانے والے کی ہوا نہیں ہے، جو کوئی یہ آگ نہ رکھے اس کا نہ ہونا اچھا ہے۔ 
آتش عشق ست کاندر نَیْ فتاد
جوشش عشق ست کاندر مَیْ فتاد
عشق کی آگ ہے جو نے میں رکھی گئی ہے، جوش عشق کا ہے جو شراب میں رکھا گیا ہے۔ 
نَے حریفِ ہرکہ از یاری بُرید
پردہایش پردہایی ما درید
نے اس شخص کی غمخوار ہے جو یار سے جدا ہو، اس کے پردے نے ہمارا پردہ پھاڑا۔‘‘6؂
’کشف العلوم‘بہت بسیط شرح ہے، اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’مثنوی معنوی‘ کی اردو شرح ’بوستان معرفت‘ کے مصنف مولوی عبدالمجید خان بن عبدالرحیم خان نے بھی اس سے خاطرخواہ استفادہ کیاہے اور نہ صرف اپنے مقدمہ میں بلکہ اپنی پوری شرح میں اس کے قصیدہ خواں نظرآتے ہیں۔یہ کتاب ایوان غالب کے فخرالدین علی احمد ریسرچ اسکالر لائبریری میں نہایت ہی نازک اور بوسیدہ حالت میں ہے کہ’اس کو چھوتے ہوئے ڈرلگتاہے‘۔ مگر اس شرح کی سبھی جلدیں دستیاب نہیں، ممکن ہے دوسری لائبریریوں میں موجود ہو۔
4۔بوستان معرفت
یہ اردو ترجمہ ہے جسے مولوی عبدالمجید خان بن عبدالرحیم خان حافظ آبادعرف پیلی بھیت نے کیا ہے، یہ ترجمہ 1332-34ھ کے درمیان مطبع منشی نولکشورلکھنؤ سے شائع ہوا تھا۔ مترجم مرحوم اس ترجمہ کے آغاز و اختتام کے سال کے بارے میں بیان کرتے ہوءْے لکھتے ہیں ؂
’بوستان معرفت‘ ہے نام اور تاریخ بھی
ابتدا تحریر کی اس کے بلاشک و گمان
ختم کی تاریخ جانو ’چشمۂ نہربہشت‘ 
مختصر مرغوب از بس دلپذیرد داستان7؂
مترجم مرحوم نے ’بوستان معرفت‘ سے 1309ہجری اور ’چشمۂ نہر بہشت‘ سے 1310ہجری کی تاریخ نکالی ہے۔موصوف نے اپنے مقدمہ میں ان دو شروحات کا ذکرکیا ہے جن سے خوشہ چینی کرکے اپنے اس ترجمہ کے کام کو انجام دیا ہے، لیکن چونکہ انھیں ان دونوں تراجم سے حسب توقع فائدہ حاصل نہیں ہوسکا، اس لیے مایوسی کے عالم میں ان دونوں شارحین کا گلہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’’امابعد فراغت نشان عبدالمجید خان ولد عبدالرحیم خان ساکن حافظ آباد عرف پیلی بھیت گزارش گرہے کہ درینولا اس خاکسار کو شوق مطالعہ مثنوی شریف کا پیدا ہوا جو کہ یہ کتاب مشکل ہے۔ حاجت شرح کی معلوم ہوئی چنانچہ بعد تلاش ایک شرح فارسی کی مصنف المشہور فی المشارق والمغارب جناب مولوی عبدالعلی صاحب مرحوم المقلب بہ بحرالعلوم دستیاب ہوئی اور کچھ اجزا شرح اردو موسوم ’کشف العلوم‘ کے جو مرادآباد میں (اس کے بعد کی عبارت غالبا ’شائع ہوئی‘ ہے جو محوہوچکی ہے)کیا کہوں جیسی عید مجھ کو ہوگئی اگر عید رمضان کہوں تو بجا ہے اور اگر عید قرباں تو روا لیکن وائے قسمت بعد معائنہ وہ کیفیت ہوئی جیسے سعدی نے گلستان میں حکایت ایک بھوکے پیاسے مسافر گم شدہ کی لکھی ہے، جس نے ایک تھیلی پائی اور گندم بریاں سمجھ کے خوش ہوا۔ جب کھولی تو مروارید دیکھ کے کیسا مایوس ہوا۔ اب اگرچہ شرح بحرالعلوم مروارید پر آب سے مملو و مشحون ہے مگر کس کام کی، وہ آب تو نہیں جس سے میری خاطر عطشان ریان ہو، نہ ایسی جس سے میری طبیعت جوعان شبعان ہو یا اور کسی کی خارجی تقریریں طول طویل تو ہیں مگر نفس مطلب شعر کی کوئی سبیل نہیں، شرح کیا متن سے بڑھ کے ہیں۔‘‘
جب نظر ان کے سویدائے رقم پر کیجیے
کہتے ہیں بس بس ذرا چپکے ہی سے رکھ دیجیے8؂
اس مختصر تبصرہ سے ’ شرح بحرالعلوم ‘اور ’کشف العلوم‘ کی حقیقت و حیثیت پر خاطرخواہ روشنی پڑجاتی ہے لیکن ’بوستان معرفت‘ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتاہے کہ مترجم مرحوم نے مذکورہ بالا دونوں شارحین کے تعلق سے قدرے ضیق نظری اور خودسرائی سے کام لیا ہے جیسے مثنوی کے ابتدائی اشعار پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ؂
بشنو از نے چون حکایت می کند
از جدائیھا شکایت می کند
کزنیستان تا مرا ببریدہ اند
از نفیرم مردوزن نالیدہ اند
اس کا ترجمہ لکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ؂
’’مولاناؒ ہر کسی کو مخاطب فرماکے تحریص و تحریض تلاش و جستجو اصل و مبدا کی جو بموجب ’نفخت فیہ من روح‘ کے ذات پاک حضرت باری عز اسمہ کی ہے فرماتے ہیں اور بایراد لفظ ’نے‘ اس معنی کو اس ایما سے جتاتے ہیں کہ ذرا نے کی طرف تو متوجہ ہو اور اس کی صورت و صدا پر کان لگا کیسی حکایت و شکایت کررہی ہے کہ جب سے مجکو نیستان سے جو مرا منبت و ماوا ہے اور اصل و نژاد جدا کیا ہے اس کی یاد میں ایسے درد و سوز صادق کے ساتھ نالاں ہوں جس کے اثر سے تمام مرد و زن موثر ہوکے زار و گریان ہوتے ہیں، بس اے مخاطب خبردار ہو بڑے حیف کی بات ہے کہ نے جو ایک چوب خشک بیجان ہے اپنی اصل کی مہاجرت سے ایسے نالے سوزناک کرے کہ آپ بھی روئے اور ان کو بھی رولائے تو انسان اشرف المخلوقات ہوکے ایسا غافل و عاطل رہے اور اپنی اصل کی طرف رجوع نہ کرے۔حالانکہ فرمایا خداوند عزوجل نے ’منہ المبدأ و الیہ المآب‘ جو کہ اہل اللہ اور کاملین ہرچیز سے عبرت و خبرت حاصل کرتے ہیں اور راز و اسرار نکالتے ہیں مولانا نے ’نے‘ سے یہ بات پیدا کی۔‘‘9؂
اس کے بعد’ الخلاف‘ کے عنوان سے ’کشف العلوم‘ اور’شرح بحرالعلوم‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’واضح ہوکہ شرح فارسی جو حضرت بحرالعلوم کی ہے اور اردو مرادآبادی جس کا نام کشف العلوم ہے دونوں میں وزجدائیہا مع واو عطف بلکہ شرح اردو میں ’وزنفیرم‘ بھی بالعطف لکھا ہے اور میں نے دونوں جگہ بعض کتب میں واو نہیں پایا نہ مجکو واو پسند ہے، اول میں تو مجکو عطف سے تفسیر زیادہ پسند تھی یعنی وہ حکایت کیا ہے جدائیوں کی شکایت ہے اور دوسرے میں عطف کرنے سے دونوں مصرعے شرط ہوکے متعلق رہ جائیں گے اور جزا نہیں ہے نہیں پھر کیسے صحیح ہوگا۔فارسی کی شرح میں ’نے‘ سے مراد مرد کامل اور قلم اور خود نے اور ذات مولاناؒ سے لے کر طول طویل تقریریں لکھی ہیں اور شارح اردو(کشف العلوم کے مولف) تو ان کے خوشہ چین ہی ہیں مگر میں اتنے ہی معنی لکھنا چاہتا ہوں جو ذات شعر سے پیدا ہوں اور طالب معنی سمجھ لے کہ یہ کیا تھوڑا ہے، نہ یہ کہ شرح کو تلاش معنی میں اٹھائے اور دیکھے اور فورا رکھ دے کہ مشکل ہے اور پھر دیکھنے کا قصد بھی نہ کرے نہیں، بڑوں کی بڑی باتیں ہوتی ہیں، کہاں تک اپنی طبیعت گھٹائیں اور اس کا زور نہ دکھائیں۔‘‘10؂
دوسرے شعر کے ترجمہ اور تشریح کے ذیل میں فرماتے ہیں ؂
سینہ خواھم شرحہ شرحہ از فراق
تابگویم شرح شوق و اشتیاق
اس کا ترجمہ لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
’’یہ بھی قول ’نے‘ کا ہے، کہتی ہے جیسا کہ میرا سینہ شوق و اشتیاق وطن و ماوا سے سوراخ سوراخ ہورہا ہے ایساہی کوئی سینہ پارہ پارہ درد فراق سے چاہتی ہوں تا مناسب اپنے سمجھ کے اس سے شرح شوق و اشتیاق کی بیان کروں،ورنہ جیساکہ کہا ہے،‘‘11؂شعر ؂
گفتن از زنبور بی حاصل بود
با یکی در عمر خود ناخوردہ نیش
اس کے بعد’ الخلاف‘ کے عنوان سے شرح بحرالعلوم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’شارح فارسی لکھتے ہیں یا یہ مقولہ ’نے‘ کا ہے جوانسان کامل مراد ہے یا مقولہ مولوی کا ہے اور معنی دونوں کی طرف سے یہ ہے کہ اپنے سنیے کو پارہ پارہ فراق و ہجر سے چاہتا ہوں کہ درد طلب سے کسی وقت خالی نہ ہو تا طالبوں کے سامنے شرح درد اشتیاق کی کروں اور اسی کے مقلد شارح اردو کے ہیں انتہی اول تو یہ کہ احتمالات مجکو خوش نہیں آتے جس میں کہنے والا کہہ سکتا ہے‘‘
او خویستن گم ست کرا رھبری کند
’’جب ایک بات کو مستقل ہوکے جان لیا، بھرپایاکیا،اپناشک ظاہر کرنا دوسرے کو شک میں ڈالنا ’نے‘ کا لفظ کیا کم ہے جو مرادی معنی ڈھونڈھتے پھریں، میں نے تو خاص اسی لفظ ’نے‘ کو بموجب یک درگیر محکم گیر کے اختیار کیاہے اور امید ہے کہ اخیر تک مع ربط سیاق کلام کے نباہ دوں گا، نہ مثل ’گاہے چنین گاہے چنان‘ کے کبھی کچھ کہہ دیا کبھی کچھ کہہ دیا اور معنی بھی ذرا غور کے قابل ہیں کہ سیاق و سباق کلام سے مربوط ہیںیا نہیں،اس واسطے کہ ہمیشہ قاعدہ یہ ہے کہ دکھیا اپنا دکھ کہنے کے واسطے دکھیا کو ڈھونڈھتا ہے نہ از خود دکھیا بنتاہے کہ دکھ سننے والوں کو سنائے، چنانچہ میری فہم میں یہی بات شرح کے معنی سے مترشح ہے اور جو خود ہی ایک اعتراض لکھا ہے مجھے کیا غرض، کیا خوب حضرت سعدی نے فرمایاہے ؂
مرا از آنچہ کہ پروانہ خویشتن بکشد12؂
غرض پوری شرح اسی طرح کے غیرضروری مباحث پر مبنی ہے، ہرشعر کے بعد اس حل لغت بیان کرتے ہیں اور پھر مذکورہ بالا دونوں شارحین کو ہدف تنقیص بناتے ہیں اور خودسرائی کرتے ہیں، لیکن ان سب باتوں سے قطع نظر ’’بوستان معرفت‘‘ کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
’بوستان معرفت‘ نہ صرف ایک ترجمہ ہے بلکہ مکمل شرح بھی ہے جس کا مطالعہ ’مثنوی معنوی‘ کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔مترجم موصوف سب سے پہلے حل لغات کرتے ہیں، پھر المعنی کے ذیل میں شعر کا ترجمہ وتشریح کرتے ہیں اور پھر الخلاف کے ذیل میں مذکورہ بالا دونوں شرحوں سے اپنے ترجمہ تشریح کا تقابل کرتے ہیں۔
10۔الہام منظوم
یہ اردو زبان میں منظوم ترجمہ ہے، جسے عاشق حسین سیماب صدیقی اکبرآبادی اور مولوی فیروزالدین نے باہمی تعاون سے تین سال کی انتھک کوششوں کے بعدپایۂ اتمام کو پہنچایا اور بعد میں مولوی فیروزالدین نے نظرثانی کرکے 1347ھ سے 1350 ھ کے درمیان میں لاہور سے شائع کروایا۔ترجمہ کو لکھنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے خود مترجم مولوی فیروزالدین مرحوم رقمطراز ہیں:
’’مثنوی مولیٰنا رومؒ کے اردو منظوم و منثور ترجمے گو پہلے سے موجود تھے۔ مگر اول تو اکثر ناتمام اور پھر منظوم ترجمہ تو باعتبار فن غالبا شمار کے بھی قابل نہ تھا۔ لہذا میری دیرینہ آرزو تھی کہ کوئی باکمال صاحب حال اس کام کو انجام دے۔ چنانچہ سب سے پہلے میں نے جناب امیرمینائی مرحوم کی خدمت میں یہ تحریک پیش کی تو ضرورت اور خیال کو انھوں نے پسند کیا مگر اپنی ضعیفی کو کام کی گرانباری کا متحمل نہ پایا۔ آخر رفتہ رفتہ میری نگاہ انتخاب جناب شیخ عاشق حسین سیماب صدیقی الوارثی اکبرآبادی پر پڑی۔ جو شعرائے عصر میں ایک استادانہ درجہ و رتبہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ معقول معاوضہ پر انھوں نے ترجمہ شروع کیا۔ مگر کام ہمت شکن اور صبر آزما ہونے کے علاوہ تنہا حضرت سیماب کے بس کا نہ تھا۔اگر خدا مجھے استقلال و استطاعت عطا نہ فرماتا تو یہ لٹیا مدت کی ڈوب چکی ہوتی۔ آخرکار یہ ترکیب کی گئی کہ وہ ترجمہ کرتے اور میں اسے لفظا لفظا قال سے حال میں لانے کی زہرہ گداز کوشش کرتا۔ جب کہیں تین سال کی متواتر و مسلسل دیدہ ریزی اور دماغ سوزی کے بعد یہ چیز تیار ہوئی۔ جو آپ کے سامنے ہے۔‘‘13؂
’الہام منظوم‘ مکمل ترجمہ ہے جو چھ جلدوں میں ہے۔اس کی زبان نہایت ہی سادہ، سلیس اور رواں ہے، اس ترجمہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اپنے عہد کی دوعبقری شخصیات نے مل کربڑی عرق ریزی کے بعد اس کام کو انجام دیا ہے۔ اس کتاب کا آغاز منظوم مقدمہ سے اس طرح شروع ہوتا ہے ؂
اللہ اللہ ہے عجب یہ مثنوی
حال و قال مولوئ معنوی
مثنوی یہ اہل دل کی جان ہے
سربسر عرفان ہی عرفان ہے
اس کے ہرنقطے میں سو اسرار ہیں
ایک مرکز میں ہزار انوار ہیں
اس کا ہرہر لفظ معنی خیز ہے
ہرجھلک آئینۂ تبریز ہے
ہے شریعت اور طریقت کا وصال
قال کم ہے اور زیادہ تر ہے حال14؂
مقدمہ کے بعد’توفیق ترجمہ کی مناجات‘، ’ترجمہ اشعار حضرت وقار فرزند دوم مولانا روم‘ اور ’سب تصنیف مثنوی مرقومۂ حضرت وقار‘ کے عنوان سے منظوم تمہیدات ہیں، پھر اس کے بعد دفتر اول کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے۔ یہ منظوم ترجمہ متن کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ ترجمہ بھی کچھ اس مہارت سے کیا گیا ہے کہ ہر شعر اپنے آپ میں تشریح بھی ہے۔ شعر کا منظوم ترجمہ پڑھتے چلے جائیں، شعر کا مطلب مفہوم ذہن میں متصورہوتا چلا جاتا ہے جواپنے آپ میں ایک غیرمعمولی امرہے اور مترجمین کی فنکارانہ مہارت کی غمازی کرتی ہے، بطور مثال مثنوی معنوی کے چندابتدائی اشعار کے ترجمے پیش کیے جارہے ہیں ؂
بشنو از نے چون حکایت می کند
وز جدائیہا شکایت می کند
سن تو کیا کرتی ہے باتیں بانسری
بس شکایت کررہی ہے ہجر کی
کز نیستان تا مرا ببریدہ اند
از نفیرم مرد و زن نالیدہ اند
جب سے کاٹاہے نیستاں سے مجھے
مردو و زن روتے ہیں میرے شور سے
سینہ خواہم شرحہ شرحہ از فراق
تا بگویم شرح درد اشتیاق
پارہ پارہ کردے سینہ جب فراق
تب کہیں ہو شرح درد اشتیاق15؂
ترجمہ کے بعد کچھ مشکل الفاظ کی ضروری توضیح بھی بیان کی گئی ہے۔ کسی بھی دفترکو دیکھیں پورے ترجمہ میں یہی انداز ہے جو اپنے آپ میں اہم ہے۔مثال کے طور پر دفترسوم میں قوم سبا میں تیرہ پیغمبروں کے آنے کا واقعہ اس طرح بیان کیاگیا ہے ؂
سیزدہ پیغمبر آنجا آمدند
گمرہان را جملہ رہبر می شدند
تیرہ پیغمبر وہاں نازل ہوئے
گمرہوں کی رہبری کے واسطے
کہ ہلا نغمت فزوں شد شکر گو
مرکب شکر ار بخسبد حرِّکو
شکر افزونی نعمت کا کرو
شکر کا گھوڑا جو سوئے ایڑدو
شکر منعم واجب آمد در خرد
ورنہ بکشاید درخشم ابد
شکر حق از راہ دانش ہے روا
ورنہ پھر غصے کا در کھل جائے گا
ہین کرم بینید و این خود کس کند
کز چنین نعمت بشکری بس کند
دیکھے یہ انعام اور ایسا کرے
شکر کم کون ایسی نعمت کا کرے
سر بہ بخشد شکر خوابد سجدۂ
پا بہ بخشد شکر خواہد قعدۂ
سرملاہے، شکر کا سجدہ کرو
پاؤں بخشے، شکر میں قعدہ کرو16؂
’الہام منظوم‘ ابھی تک کے منظوم اردو تراجم میں سب سے زیادہ قابل قدر ہے۔اس کے نسخے ہندوستان کے کئی لائبریریوں میں موجود ہیں لیکن دور حاضر میں اس کی اشاعت نہ ہونے کے سبب کمیاب ہوگیا ہے۔یہ ترجمہ جہاں فارسی ادب کا بیش بہا سرمایہ ہے وہیں اردو ادب سے وابستہ طلبا و اساتذہ کے لیے بھی غیرمعمولی ادبی سرمایہ ہے۔
5۔کلید مثنوی
’کلید مثنوی‘ مولانا اشرف علی تھانوی(1280-1362ہجری)کی تحریر و تقریر پر مبنی اردو زبان میں سب سے مبسوط اور ضخیم شرح ہے جو 1325ھ سے 1334ھ کے درمیانی برسوں میں مکمل ہوکر کانپور سے شائع ہوئی تھی، مگر شومیِ قسمت سے بعد میں اس کے نسخے تتربتر ہوگئے، جسے بعد میں سعودعلی نے ڈاکٹر عبدالحی عارفی کی ایما پرسبھی منتشر جلدوں کو یکجا کرکے دوبارہ شائع کروایا۔عہدحاضر میںیہ شرح دستیاب ہے، جو ہندوپاک کے کچھ مطابع سے شائع ہورہی ہیں۔شرح ’کلیدمثنوی‘پر راقم کا مفصل مضمون زیر اشاعت ہے،اس لیے یہاں رقم کرنے سے احتراز کیا جارہاہے۔
7۔مراۃ المثنوی
قاضی تلمذ حسین کی تالیف ہے جو اعظم پریس حیدرآباد، دکن سے 1352ہجری مطابق 1933میں شائع ہوئی تھی۔یہ کتاب جیساکہ اپنے نام سے ظاہر ہے ’مثنوی معنوی‘ کومتعارف کرانے کے لیے واقعتاآئینہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسے پڑھ کرقاری کے ذہن میں خود بخود ’ مثنوی معنوی‘ کے پڑھنے کا رجحان پروان چڑھنے لگتا ہے۔
’مرأۃ المثنوی‘ چار جلدوں میں ہے، ہرجلد کا نام اس کے موادکی رعایت کرتے ہوئے رکھا گیا ہے،پہلی جلد کا نام ’یواقیت القصص‘ ہے جو ’ مثنوی معنوی‘ میں مذکور حکایات پر مشتمل ہے، دوسری جلد ’دررالحکم‘ ہے جس میں ’مثنوی معنوی‘ کے حقائق و معارف کا بیان ہے۔ تیسری جلد ’جواہر القرآن‘ ہے، جس میں ’مثنوی معنوی‘ میں مذکور قرآنی آیات کے مفاہیم بیان کیے گئے ہیں اور چوتھی جلد ’لآلی السنن‘ ہے، جس میں کلام نبوی ؐ کی مفاہیم پر مبنی اشعار کی نشاندہی کی گئی ہے۔
’مرأۃ المثنوی‘ دراصل ’ مثنوی معنوی‘ کے اشعار کا انتخاب ہے جیسے ’ مثنوی معنوی‘ میں اگر کسی بات کی تمثیل میں کئی اشعار آئے ہیں تو ان میں سے صرف ایسے اشعار کو لیا گیاہے جن سے اصل حکایت کی کماحقہ ترجمانی ہوجاتی ہے۔ باقی مماثل مثالوں کو حذف کردیاگیاہے جیسے مثنوی شریف کی پہلی حکایت میں ہے ؂
چون خرید او را و برخوردار شد
آن کنیزک از قضا بیمار شد
’’جب اس نے اس کو خرید لیا اور کامیاب ہوگیا، وہ لونڈی تقدیر سے بیمار ہوگئی‘‘17؂
مندرجہ بالا اشعار سے متعلق دو مثالیں مزید پیش کی گئی ہیں لیکن چونکہ نفس حکایت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے اس لیے انھیں اس مجموعے میں شامل نہیں کیا گیا ہے اور وہ اشعار یہ ہیں ؂
آن یکی خرداشت پالانش نبود
یافت پالان، گرگ خررا در ربود
کوزہ بودش، آب می نامد بدست
آب را چون یافت، خود کوزہ شکست
’’ایک شخص کے پاس گدھا تھا، اس کا پالان نہ تھا، اس نے پالان پالیا تو، گدھے کو بھیڑیا لے گیا؛ اس کے پاس پیالہ تھا، پانی ہاتھ نہ آیا، جب پانی پایا خود پیالہ ٹوٹ گیا۔‘‘18؂
کچھ ایسے اشعار جو دراصل واقعہ کے اجمال کی تفصیل ہیں، ایسے اشعار کو بھی ترک کردیا گیا ہے۔ اسی طرح بعض تفصیلات کو اختصار سے بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور کہیں کہیں ان جملہ تفصیلات کو ہی حذف کردیا گیا ہے لیکن جو اشعار حذف کیے گئے ہیں ان میں سے زیادہ تر اشعار اس مجموعہ کے دوسرے حصہ ’دررالحکم‘ میں شامل کرلیے گئے ہیں۔اسی طرح مثنوی شریف میں مذکور کئی ایسی حکایتیں جو مختلف مقامات میں ٹکڑوں میں بکھری ہوئی ہیں انھیں ایک جگہ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
مولف کی دوسری کتاب ’صاحب المثنوی‘ ہے، جو معارف پریس، اعظم گڑھ، یوپی سے متعدد مرتبہ شائع ہوچکی ہے۔ ’صاحب المثنوی‘کو ’سوانح عمری مولانا جلال الدین رومی‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے لیکن اس کتاب کا اصل نام ’ صاحب المثنوی‘ ہی ہے۔ویسے تو مولانا رومی کی سوانح پر درجنوں کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں،علامہ شبلی نعمانی نے سب سے پہلے اردو زبان میں مولانا روم کی سوانح لکھی لیکن علامہ شبلی کی ’سوانح مولاناروم‘ میں سوانح پر کم ’مثنوی معنوی‘ کی خصوصیات پر زیادہ زور دیا گیاہے، علامہ شبلی کے اسی گوشے کو پورا کرنے کے لیے قاضی تلمذ حسین نے ’صاحب المثنوی‘ کو رقم کیاجس میں انھوں نے مولانا کی سوانح پر خاطر خواہ بحث کی ہے۔ یہ کتاب کافی پہلے لکھی گئی مگر بدقسمتی سے شائع نہ ہوسکی بعد میں مولف مرحوم کے وارثین سے دستیا ب ہوئی اور مولانا علی میاں ندوی مرحوم کے توسط سے دارالمصنفین نے اسے خریدا اور زیورطباعت سے آراستہ کیا۔
’صاحب المثنوی‘آٹھ فصول پر مشتمل ہے، فصل اول میں مولانا کے آبا و اجداد، مولانا کا نسب، شجرہ، وطن وغیرہ کا ذکر ہے، فصل دوم : اتمام الکمال، مولانا کا حلب کے مدرسہ حلاویہ میں قیام، حلب سے دمشق کو روانگی، قونیہ میں مستقل قیام، مشاغل وغیرہ۔فصل سوم: قران النیرین، حضرت شمس تبریز، قونیہ میں آمد وغیرہ کا ذکر ہے۔ فصل چہارم میں مولانا کی جانشینی، حضرت حسام الدین چلپی وغیرہ کا ذکر ہے۔ فصل پنجم میں ازواج و اولاد کا بیان ہے، فصل ششم میں شمائل و خصائل، رنگ، لباس وغیرہ بیان ہے۔ فصل ہفتم میں محاسن و اخلاق، صلح جوئی و صلح پسندی، حلم و تواضع، عفوودرگزر وغیرہ کا بیان ہے جبکہ فصل ہشتم میں کمالات باطنی،پابندی شریعت،نماز، روزہ، شب بیداری،استغراق، آزمائش، فقروفاقہ، تقویٰ، اشاعت اسلام، کرامات، امداد اہل اسلام، سماع، رباب، مولاناکا سلسلہ بیعت، انضباط کاملہ و حوالہ جات کا ذکر ہے۔ ’’صاحب المثنوی‘‘ کوبجا طور پر مولانا کی سوانح پرجامع کتاب کہی جاسکتی ہے جومولانا رومی کے حالات زندگی کے تقریباً سبھی گوشوں پر خاطرخواہ مواد فراہم کراتی ہے۔
11۔ جواہرالعلوم اردو ترجمہ و مختصر شرح مثنوی مولانا روم
مولانا ابومحمد مخدوم زادہ نے مولانا نذیر احمد عرشی اور قاضی سجاد حسین کے تراجم سے استفادہ کرکے اس شرح کو مکمل کیا ہے اور اس شرح کے شروع میں پیش لفظ کے بعد مولانا قاضی سجاد کے مقدمہ کو جو مولانا روم کے حالات و کوائف پر مشتمل ہے، شامل کیا ہے۔ 888صفحات پر مشتمل یہ شرح ایک ہی جلد میں مکمل ہے اور بہت مختصر بھی ہے،اس میں مثنوی شریف کی فارسی ابیات نہیں ہیں، صرف شروع میں چند ابیات شامل ہیں۔ پہلی نظر میں یہ شرح کوئی اردو کی کتاب معلوم ہوتی ہے جس میں مثنوی شریف کے عنوانات میں کسی اردو کتاب کے عنوان کی طرح ہی اردو میں رقم کیے گئے ہیں، جیسے: بانسری کی آواز کی حقیقت، دوست کی جدائی انسان کو بے سہارا کردیتی ہے، ایک بادشاہ اور لونڈی کا قصہ، بادشاہ کا لونڈی پر عاشق ہوکر اسے خریدنا، لونڈی کی شدید بیماری اور علاج میں طبیبوں کی ناکامی وغیرہ.شارح موصوف نے اس شرح کے مقدمہ میں اس کی وجہ تالیف بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: 
’’جواہر العلوم کی وجہ تالیف مثنوی مولانا رومؒ کے جواہر کو عام کرنے کے علاوہ ’مفتاح العلوم‘ اور ’کلید مثنوی‘ جیسی بھاری بھرکم شروحات سے اپنی کم قوت خرید کے سبب مستفید نہ ہوسکنے والے احباب کو بہرہ مند کرنا ہے۔‘‘19؂
موصوف آگے لکھتے ہیں:
’’امید ہے ہماری یہ کاوش اہل علم اور صوفیا کرام کے حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی۔‘‘20؂
یہ کتاب مشتاق بک کارنر، الکریم مارکیٹ، اردو بازار، لاہور، پاکستان سے شائع ہوئی جس کا سال اشاعت کا ذکر نہیں ہے۔ 
12۔اظہار المنظوم ترجمہ منظوم و شرح مثنوی مولانا روم
سید شاہ محمد اظہار اشرف اشرفی جیلانی کامنظوم اردوترجمہ اور منثور تشریح ہے،یہ صرف دفتر اول کا ترجمہ و تشریح ہے جو چار جلدوں پر مشتمل ہے۔اس شرح کے مقدمہ میں سیدمحمد محمود اشرف اشرفی لکھتے ہیں:
’’حضور شیخ اعظمؒ نے ایک دفتر کے چاروں حصوں کے ترجمہ و شرح کا کام اپنی علالت و ضعف کے دوران اپنی تمام مصروفیات کے باوجود دس مہینے سے بھی کم مدت میں مکمل کرلیا۔‘‘21؂
موصوف آگے لکھتے ہیں :
’’ دوسرے دفتر کاکام شروع ہواتھا کہ مرض نے شدت اختیار کرلیا جس کے سبب ترجمہ و شرح کا کام پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔‘‘ 22؂
اس ترجمہ کی تکمیل میں کئی افراد کی کاوشیں رہی ہیں جن میں پروفیسر طلحہ رضوی برق اور پروفیسر محمد حسین احمد صاحبان نے اس مسودہ پر نظرثانی کرکے اس کی لفظی و ادبی نزاکتوں کو درست کیاہے اور مفتی شہاب الدین اشرفی نے اس کے معنوی مفاہیم کونظر ثانی کیاہے، جب کہ مترجم موصوف کے مریدمولانا غلام محبوب سبحانی اشرفی نے اسے شائع کرایاہے۔ یہ ترجمہ ایک علمی کاوش کہے جانے کاحقدارہے۔یہ شرح ’الاشرف اکیڈمی، اے۔63، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔25 سے شائع ہوئی ہے۔ 
مذکورہ بالا تراجم و شروحات اور تلخیصات کے علاوہ مختلف زمانوں میں متعدد حضرات نے اپنی اپنی وسعت مطالعہ، فراغت اوقات اوررغبت کی بنیاد پر ’مثنوی معنوی‘ کے ترجمے کیے، جن میں سے کسی نے صرف دفتر اول کا ترجمہ کیا تو کسی نے فقط دفتر پنجم یا ششم کا، کسی نے منظوم ترجمہ کیا تو کسی نے منثور۔ ایسے مترجمین کی تعداد بھی درجنوں میں ہے جن میں سے کچھ مترجمین یا ان کے شاہکارکے نام اختصار کے ساتھ یہاں پیش کیے جارہے ہیں مثلا’قصیدۂ معجزہ‘، عبداللہ دہلوی کا ’ترجمہ مثنوی‘، منشی مستعان علی کا ’باغ ارم‘، الٰہی بخش کاندھلوی(1245ھ) کا ’فیض العلوم‘، شاہ مشتاق کا ’ترجمہ مثنوی‘، عباداللہ اختر (م1883) کا ’ ترجمہ مثنوی مولانا روم‘، محمد حسین فقیر دہلوی (م1315ہجری)کا ’کتاب مرقوم‘، پیرزادہ محمد حسین عارف مہی کا ’عقد گوہر‘ (موسوم بہ موتیوں کا ہار)، مولانا اشرف علی تھانوی کا ’رونمائے مثنوی‘، مظفر نبی کا ’نالۂ مضطر‘ یا ’تحفۂ مضطر‘، مولوی محمد بشیر صدیقی فاضل علی پوری کا ’کشف المفہوم‘، محمد دین شاہ قادری سروری سیالکوٹی کا ’ترجمہ منظوم مثنوی‘، عبداللہ خان عسکر رئیس لدھیانوی کا ’شرح حقیقی: ترجمہ مثنوی معنوی‘، عبداللہ عسکری کا ’مشرح؍شرح و منظوم ترجمہ مثنوی مولانا روم‘، رازی کا ’بحرالعلوم‘، مفتی جلال الدین احمد امجدی کی ’گلدستہ مثنوی یا گلزار مثنوی‘، مولانا غلام دستگیر(1882-1961)کا’حکایات مثنوی مولانا روم: ترجمہ‘، میرولی اللہ ایبٹ آبادی بن مولوی سلطان میر (م 1964)کا ’شرح مثنوی‘، خورشید انور جیلانی (م1383ھ) کا ’ترجمہ مثنوی‘، علامہ ابوصالح محمد فیض احمد اویسی رضوی کا ’صدائے نوی‘، بیداربخت آغا (م 1983)کا ’مفتاح العلوم‘، مولانا برکت علی کا ’خلاصۂ مثنوی‘، عبدالواحد،شاعر اہل چیتا گانگ کا ’ترجمہ مثنوی معنوی‘، عبدالحمید خان حمید ملیح آبادی اخترراہی کا ’ترجمہ مثنوی معنوی‘، شفیعی عہدیپوری کا ’ریاض العلوم‘، ’گلزار مثنوی‘، سید امام علی شاہ کا ’ترجمہ منظوم مثنوی‘، چودھری محمد افضل خان کا ’ترجمہ مثنوی مولانا روم‘، سید مظاہرحسین امروہوی کا ’ترجمہ اردو مثنوی‘، مقبول جہانگیرکی ’شرح مثنوی شریف‘، مولوی محمدکا ’بوستان معرفت‘، عبدالحمید خان حمید ملیح آبادی کا ’ترجمہ مثنوی شریف‘ ، مولانا احمد حسن کانپوری کا ’حاشیہ مثنوی‘،عبداللہ دہلوی کا ’ترجمہ مثنوی مولانا روم‘، شاہ غلام غوث معروف بہ غوثی شاہ اکبرآبادی کا ’کنزمکتوم‘، عارف خان برنی کا ’ترجمہ مثنوی‘، شرکت نثار کا ’رموز معرفت‘ وغیرہ ہیں۔یہ وہ تراجم ہیں جو عام نہیں ہیں مگر ملک و بیرون ملک کی متفرق لائبریریوں میں محفوظ ہیں۔24؂
مذکورہ بارہ تراجم و شروحات اردو زبان میں ہیں، ان کے علاوہ عربی، ترکی، انگریزی، سندھی، بنگالی اورکشمیری میں بھی ترجمے ہوئے جن کی تعداد کافی ہے۔ فارسی زبان میں بھی ’’مثنوی معنوی‘‘ پر بہت کام ہواہے۔ اس طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ’’مثنوی معنوی‘‘ کی شروحات کا جو سلسلہ مولانا کے فرزند سلطان ولد اور احمد رومی نے شروع کیا تھا، اسے علاء الدولہ، خواجو اور شاہ نعمت اللہ نے آگے بڑھایا اور کاشفی، خوارزمی، ملایعقوب، جامی،انقروی اور بحرالعلوم جیسے محققین نے اسے اوج ثریا پر پہنچایا اور اس وقت سے تاحال مولانا رومی کے شیدائی مسلسل ’’مثنوی معنوی‘‘ کی شرح و بسط میں مصروف ہیں اور امید ہے کہ مستقبل میں بھی یہ عمل جاری رہے گا۔
حوالہ جات
1۔ پلہ پلہ تا ملاقات خدا، عبدالحسین زرین کوب، انتشارات علمی، تہران، 1384خورشیدی، ص۔225
2۔ پیراہن یوسفی، محمد یوسف علی شاہ گلشن آبادی، مطبع منشی نولکشور، 1947 ، ص۔2
3۔ ایضا،ص۔5
4۔ شجرۂ معرفت، غلام حیدرکوپامؤی، مطبع منشی نولکشور، 1343ہجری، ص۔6
5۔ ایضا
6۔ کشف العلوم، دفتر اول، مولانا محمد ہدایت علی لکھنوی بہ تصحیح محمد ابراہیم شاہجہانپوری، مطبع گلزار ابراہیم، مرادآباد، 1308ہجری
7۔ بوستان معرفت، مولوی عبدالمجید خان بن عبدالرحیم خان،مطبع نولکشورلکھنؤ، 1310ہجری، دیباچہ، ص۔3
8۔ ایضا، ص۔2-3 9۔ ایضا، ص۔4 10۔ ایضا، ص۔5
11۔ ایضا 12۔ ایضا
13۔ الہام منظوم، دفتراول، سیماب اکبرآبادی؍مولوی فیروز الدین دہلوی،لاہور، 1928،ص۔التماس ناشراز مولوی فیروز الدین 
14۔ ایضا،ص۔الف 15۔ ایضا،ص۔1 16۔ ایضا، دفترسوم،ص۔282
17۔ ترجمہ مثنوی معنوی، قاضی سجاد حسین، الفیصل ناشران و تاجران کتب، لاہور، 2006، دفتر اول، ص۔36
18۔ ایضا
19۔ جواہرالعلوم اردو ترجمہ و مختصر شرح مثنوی مولانا روم، مولانا ابومحمد مخدوم زادہ، مشتاق بک کارنر، الکریم مارکیٹ، اردو بازار، لاہور، پاکستان، (سال اشاعت ندارد)، مقدمہ 
20۔ ایضا
21۔ اظہارالمنظوم، مقدمہ، شیخ اعظم حضرت علامہ سید شاہ محمد اظہار اشرف اشرفی جیلانی، (سال اشاعت ندارد)، مقدمہ
22۔ ایضا 23۔ مقدمہ ترجمہ تاثیر صاحب
24۔ شرح مثنوی معنوی، شاہ داعی شیرازی، مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان، 1985،ص3-20



Moghees Ahmad
Guest Faculty, Dept of Persian
Jamia Millia Islamia
New Delhi - 110025
Mob: 9891567738







قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں