اردو کی ادیبائیں : منظر پس منظر
ترنم ریاض
قدرت کی طرف سے عطا کیا گیا ممتا کا جذبہ رشتوں کی سب سے عظیم شکل ہے۔ عورت ماں بنے یا نہیں ، ممتا ا س کی شخصیت کا ایک اہم حصہ ہے۔خواتین فطرتاً قصہ گواورشاعرات ہوتی ہیں۔ اپنے بچوں کواصلی یافرضی قصے کہانیاں سنانا، شعروں کولوریوں کی مدھم دھنوں میں سموئے دھیمے دھیمے بچوں کوسناکرسلانا، دنیاکی ہرعورت کا، خواہ وہ کسی بھی خطے سے تعلق رکھتی ہو، محبوب مشغلہ ہے۔ اس لحاظ سے ہرعورت کوایک فطری کہانی کاریاشاعرہ تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی لیے غالباً عورت کو’ام القصص‘ بتایاگیاہے۔
ہندوستان ایک کثیراللسان اورمتنوع ثقافتوں کاملک ہے۔ ہرلسانی اورثقافتی گروہ میں ایسی شاعرات پیداہوئی ہیں، جن کاکلام دیومالائی اور اساطیری شکل اختیارکرکے ا س کی مخصوص ثقافت کاایک حصہ بن چکا ہے۔ میرا بائی کے بھجن اورگیت جوکرشن مراری کے تئیں ان کے والہانہ عشق کانذرانہ ہیں نہ صرف شمالی ہند، بلکہ تقریباً پورے ہی برّ صغیرکی ثقافت کاایک حصہ ہیں۔ یہ بھجن اورگیت آج بھی بڑے ذوق وشوق کے ساتھ گائے جاتے ہیں۔ ہندوسان کی دوسری زبانوں میں بھی ایسی شاعرات گزری ہیں جن کاکلام سماج کے مختلف طبقوں میں مقبولِ عام ہوکر، اس مخصوص تہذیبی اورثقافتی ماحول کاایک حصہ بن چکاہے۔ اس سلسلے میں کشمیری زبان کی مقبول اورمشہورصوفی (کشمیری اصطلاح میں ریشی) شاعرہ لل ایشوری (جولل دیدیالل عارفہ کے نام سے بھی مشہورہیں ) کاکلام آج بھی مقبول ہے۔ اسی طرح حبّہ خاتون کی رومانی شاعری بھی کشمیری ادب اورثقافت کاایک اہم حصہ ہے۔
اردوزبان وادب میں ادیباؤں کے کارنامے ایک پوری صدی پرمحیط ہیں۔ اردوادب کے ان سارے منظرنامے پرایک طائرانہ نظرڈال کریہ بھی اندازہ ہوتاہے کہ ادیباؤں نے اس منظرنامے کواوربھی دلکش اورجانداربنانے میں خاصا رول اداکیاہے۔ گزشتہ ایک صدی میں خاتون ناول و افسانہ نگار، شاعرات، انشائیہ نگار، مزاح نگار، حتیٰ کہ خاتون تنقیدنگاروں نے اردو ادب کی بقامیں ایک اہم کردار اداکیاہے۔ اردوادیباؤں کی خدمات کے پیشِ نظر اوران تحریروں کے موضوعات، زبان وبیان، مزاج اورایک منفرد حسّیت (sensiblility)کی بناپرتسلیم کرنے میں اعتراض نہیں ہوناچاہیے کہ یہ ادب ایک جداگانہ صورت اختیارکرچکاہے۔ اس سارے سرمائے کومعقول دلائل کی بناپرخواتین اردوادب یاتانیثی اردوادب کے زمرے میں بھی شمارکیاجاتاہے۔ اردوزبان کی مختلف اصناف میں اردو ادیباؤں کی گراں قدرخدمات کا جائزہ گوکہ وقت کی اہم ضرورت ہے، تاہم اس مضمون میں صرف فکشن نگارخواتین ہی کوشامل کیاگیاہے۔
یوں توادیبائیں اردوادب کے افق پرانیسویں صدی کے آخری ایام میں ہی نظرآنے لگی تھیں، تاہم باقاعدہ طورپروہ بیسویں صدی کے آغازسے ہی سرگرم ہوئیں۔ یہ دورخواتین اردو ادب کاپہلادورگرداناجاسکتاہے۔ اس دورکی شروعات میں خواتین اردوادب کے دودلچسپ پہلو سامنے آتے ہیں۔ اول یہ کہ مخصوص سماجی اورثقافتی صورتِ حال کے پیشِ نظرکچھ ادیبائیں اپنے اصلی ناموں کے تحت شائع ہونے سے کتراتی ہیں۔ ان کی تخلیقات فرضی ناموں سے شائع ہوتی تھیں۔ اس لیے اس دور میں بیگم شاہنواز، مسزعبدالقادر، ز۔خ۔ش (زہراخاتون شیروانی ) والدہ افضل علی، مسز الف ظ حسن وغیرہ کے نام نظرآتے ہیں۔ بیگم صالحہ عابدحسین توہمشیرہ غلام السیدین کے نام سے اپنے مضامین کافی عرصے سے شائع کراتی رہیں۔
اس دورکے خواتین اردوادب کادوسرادلچسپ پہلویہ ہے کہ بیشتر ادیبائیں،ڈپٹی نذیر احمد کی تحریروں سے نہ صرف متاثرنظرآتی ہیں، بلکہ ان سے تحریک (inspiraltion) بھی حاصل کرتی ہیں، ڈپٹی نذیراحمد کی دوتصنیفات ’مراۃ العروس ‘ اور’بنات النعش‘ بالترتیب 1869 اور 1888 میں شائع ہوکرمتوسط اردوداں مسلم خواتین میں خاصی مقبول ہوگئی تھیں، مصنف نے ’مراۃ العروس‘جس کامدعابقولِ مصنف یہ تھا کہ انھیں عورتوں کی ’تعلیم، اخلاقِ وخانہ داری مقصودتھی‘ کامسودہ پہلے ’ ممالک مغربی ومشرقی کو 1868 میں پیش کرکے پانچ سو روپے انعام ‘بھی پائے تھے۔ ’بنات النعش ‘ جو کومصنف مراۃ العروس کادوسرا حصہ قراردیتے ہیں، کی تصنیف بقولِ مصنف ’عورتوں کی اصلاح، حالت اورتمدن میں ان کوزیادہ کارآمدبنانامقصودہے‘ ۔ڈپٹی نذیراحمد نے ’مراۃ العروس ‘ میں اصغری کے کردار کوایک رول ماڈل (role model) کے طورپرپیش کیا تھی جو تعلیم کے زیورسے آراستہ توتھی ہی،خانہ داری میں بھی ماہرتھی۔ یہ کرداراس دورکی بیشتر ادیباؤں کے لیے اہم موضوع بن گیاتھا۔ ڈپٹی صاحب نے اصغری کی ضد(opposite)کواکبری کے کردارکے ذریعے پیش کیاتھاتاکہ رول سمجھنے اورموازنہ کرنے میںآسانی ہو۔
اردوادب کے اس دورکی ادیباؤں میں رشیدۃ النسا، اکبری بیگم، مسزعباس طیب جی، صغریٰ ہمایوں مرزا، بیگم شاہنواز، مسزعبدالقادر، نذرسجاد حیدر اورحجاب امتیاز علی چنداہم نام ہیں۔ ان ادیباؤں کی بیشتر تحریریں اب تقریباً نایاب ہیں، لیکن جتناکچھ بھی دستیاب ہے، ان سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے موضوعات اکثروبیشترتعلیم نسواں، لڑکیوں کی کم سنی میں شادی کے مضراثرات اورمشرقی عورت کی روایتی وفاداری پرمبنی ہیں۔ یہ ادیبائیں اصغری کے کردارکی طرز (pattern)پراپنی تحریروں کوایک مثالی عورت (ideal woman) کے طورپرپیش کرتی ہیں۔ یہ عورت ایک فرماں بردار بیٹی، وفاداربیوی اورمثالی ماں کے روپ میں سامنے آتی ہے۔ ان تحریروں میں خواتین کو تعلیم حاصل کرنے اوربچوں کی اچھی طرح نگہداشت وپرورش کرنے کی بھی ترغیب دی جاتی ہے۔ یہ تحریریں دراصل ڈپٹی نذیراحمد کے اصلاحِ نساء (women's reformation) ایجنڈا کی ایک توسیع (expansion) ہیں۔ رشیدۃ النسا کاناول ’اصلاحِ نساء ‘جوانیسویں صدی کے اختتام پرشائع ہواتھا، (آخری ایڈیشن 1968 میں پاکستان میں شائع ہواتھا) اس موضوع پریہ پہلی کوشش قراردی جاسکتی ہے۔
صغریٰ ہمایوں مرزاکی بیشتر تحریریں اب تقریباً نایاب ہیں۔ ان کے کچھ افسانوں کاانگریزی میں ترجمہ ہواہے۔ کچھ عرصہ پہلے’آجکل ‘نئی دہلی (ستمبر 1998) میں ڈاکٹر نازقادری کاایک تحقیقی مقالہ صغریٰ ہمایوں مرزاسے متعلق شائع ہواہے۔ ا س مضمون کے مطابق (صغریٰ ہمایوں مرزا کا پہلا ناول ’مشیرنسواں ‘1906 )میں شائع ہوااوراس کے دوسرے ایڈیشن1911 اور 1931 میں شائع ہوئے۔ بقول نازقادری ’مشیرنسواں‘ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس میں طبقۂ نسواں کے لیے مفید وکارآمد پندونصائح کاذخیرہ ہے جوخواتین کی معاشرتی زندگی میں مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتاہے۔ صغریٰ ہمایوں مرزا نے کئی سفر نامے اورپانچ ناول تحریرکیے۔ ان کے افسانے’بی بی طوریٰ کاخواب‘ کاترجمہ دوسری زبانوں میں بھی ہواہے۔
نذرسجادحیدرنے جوسماجی اوراصلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیتی تھیں اپنے ناول ’آہِ مظلوماں‘ میں کثیرالازدواجی (polygamy) سے پیداشدہ مسائل کونہایت بے باکی سے ابھارا ہے۔
اس دورکے خواتین ادب میں مشرقی اورمغربی اقدارکی کشمکش کی جھلکیاں بھی نظرآتی ہیں۔ دراصل مسلمانوں کے اعلیٰ متوسط طبقوں کے وہ خاندان جونوکریوں کی وساطت سے انگریز حکمراں طبقے کے ساتھ جڑے ہوئے تھے، اس کشمکش کے بنیادی شکارتھے۔ ایک طرف وہ انگریزی اقدار (values) اورطریقۂ کار(behaviour) کی نقالی کرناچاہتے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ذہنی طور پر بالخصوص خواتین کے حوالے سے اپنی مشرقی روایات کے ساتھ بھی جڑے رہناچاہتے تھے۔ کچھ ادیبائیں مغرب کے سنسنی خیزادب (sensational literature) سے بھی خاصی متاثر نظرآتی ہیں۔ ان کے پلاٹ، موضوعات حتیٰ کہ زبان بھی کسی دوسری سرزمین کی نظرآتی ہے۔ اس سلسلے میں حجاب امتیازعلی کے افسانے سرفہرست ہیں۔ مثلاً:
’’کیابات ہے بوڑھی گائے‘‘ میں حیران ہوکرکہنے لگی۔ ’’تم چائے کیوں نہیں لے آتیں؟ سہمی ہوئی کیوں ہو؟‘‘
’’ہم دونوں باورچی خانے کے زینے پرسے بھاگتے ہوئے ڈاکٹرگارکے کمرۂ خواب میں پہنچے۔ ڈاکٹرگاراپنے شب خوابی کے دھاری دارنیلے لباس میں بیٹھا اپنی بسترکی چائے پی رہاتھا۔۔۔‘‘ (افسانہ کونٹ الیاس کی موت)
حجاب علی کاافسانہ ’صنوبرکے سائے‘ جس میں ایک جذباتی عاشق خاوند اپنی محبوب بیوی کومحض شک کی بنیادپرقتل کرڈالتاہے، شیکسپیئر کے اوتھیلو (Othello) کی یاددلاتاہے۔ مغربی ڈرامائیت اورسنسنی سے بھرپورحجاب علی کے افسانے خاصے دلچسپ ہیں۔ کہیں کہیں وہ عورت اور مردکے جداجدانفسیاتی ردِ عمل کوبھی نہایت خوبی سے ابھارتی ہیں۔ اپنے افسانے’مرد اورعورت‘ میں ایک مرداورعورت بچھڑنے کے چھ سال بعد ملتے ہیں۔ اس دوران مردبیسیوں باربے وفائی کر چکا ہوتا ہے اورعورت صرف ایک بارایک مرد کی طرف دیکھ کرمسکرادیتی ہے، کیوں کہ اس میں اسے اپنے محبوب کا پر تو دکھائی دیتاہے۔ صرف اس ایک بات پرمرداس عورت کواپنے لیے ناقابل قرار دیتا ہے۔ حجاب علی کی کہانی ’کونٹ الیاس کی موت‘ کایہ مختصر اقتباس بھی نہایت ہی معنی خیزہے:
’’ہم مشرقی سیاہ چشم اورصندلی رنگت والی لڑکیاں بچپن سے ہی جادو اورگرم ملکوں کے سحر کے قصے سن سن کرپلتی ہیں۔ ہماری زندگی مشرقی ملکوں میں بجائے خودایک افسانہ ہوتی ہے۔‘‘
خواتین اردوادب کایہ پہلادوربیسویں صدی کے آغازسے تقریباً بیسویں صدی کی تیسری دہائی پرمحیط ہے۔ اس دورمیں خواتین اردوادب کی خصوصیات بھی نمایاں طورپرنظرآتی ہیں۔ ان کی تخلیقات میں نسوانی شعورکی اولین بیداری اوران کے خانگی، سماجی اورسیاسی مسائل سے ان کی آگہی کے نقوش نظرآتے ہیں۔ اس زمانے میں کچھ اردوادیبائیں ملک کی سیاسی اورسماجی تحریکوں کے ساتھ بھی وابستہ ہوگئی تھیں۔ ان میں نذر سجادحیدرپیش پیش تھیں۔
خواتین اردوادب کادوسرااوراہم دورتقریباً بیسویں صدی کی تیسری دہائی سے شروع ہوتاہے۔ ڈاکٹر رشیدجہاں اس دورکاایک اہم نام ہے۔ انھوں نے 1930 کے آس پاس لکھنا شروع کیاتھا۔ لکھنؤ سے 1932 میں شائع ہونے والی انتھالوجی ’انگارے‘ میں شامل ان کی دو کہانیوں ’دلی کی سیر‘ ’اورپردے کے پیچھے ‘ کولے کرکافی گرماگرمی ہوئی تھی ۔ بقول رشید جہاں ان کوگمنام اوردھمکی آمیز خطوط بھی ملے تھے۔ ایسالگتاہے کہ ’دلی کی سیر‘ میںیہ تفصیل کسی مردتوانگر کوایک چیلنج سالگی ہوگی۔ ملاحظہ ہو:
’’مجھے اسباب پاس چھوڑیہ رفوچکر ہوئے اورمیں اسباب پہ چڑھی برقعہ میں لپٹی بیٹھی رہی۔ ایک توکم بخت برقع، دوسرے مردوے۔ مردتوویسے ہی خراب ہوتے ہیں۔ اوراگرکسی عورت کواس طرح بیٹھے دیکھ لیں تو اور چکر لگاتے ہیں۔ پان کھانے تک کی نوبت نہ آئی۔ کوئی کمبخت کھانسے، کوئی آوازے کسے اورمیرا ڈرکے مارے دم نکلاجائے۔۔۔‘‘ (افسانہ ’دلی کی سیر‘)
رشیدجہاں اشتراکی تھیں اورکمیونسٹ تحریک سے باقاعدہ وابستہ تھیں۔ لیکن ان کی کہانیوں میں سماجی، بالخصوص مسلم خواتین کے مسائل اور انگریز حکمرانوں کے الگ الگ معیاروں کو موضوع بنایاگیاہے۔ ان کی کہانی ’مجرم کون؟‘ (1941) میں ایک انگریز جج مسڑرابنسن، ایک گڈریے کو کسی دوسرے مزدورکی بیوی کوبھگانے (جواپنی مرضی سے خوداس کے ساتھ بھاگی ہوتی ہے) کے جرم میں تین سال کی قیدکی سزادیتاہے۔ لیکن خودایک کرنل کی بیوی کوپہلے بھگاکر، پھراس کے شوہرسے زبردستی طلاق دلواکر اس سے خودشادی کرلیتاہے۔ سماج میں مروّجہ دوہرے قانونی معیاروں پر یہ کہانی ایک بھرپورطنز ہے۔ رشیدجہاں کااندازِ بیاں ٹکسالی ہے، جس کی چھاپ بعد میں عصمت چغتائی کی تحریروں میں نظرآتی ہے۔
صالحہ عابدحسین بیسویں صدی کی تیسری دہائی کے اختتامیے پرتقریباً 1939میں اردوکے ادبی افق پرظاہرہوئیں۔ وہ پہلے صالحہ مصداق فاطمہ اورکبھی صالحہ خاتون یاہمشیرہ غلام السیدین کے نام سے لکھتی تھیں۔ انھوں نے لگ بھگ بیالیس کتابیں تصنیف کی ہیں۔ ان میں افسانوں کے مجموعے، مولانا الطاف حسین حالی کی سوانح حیات اوربچوں کے لیے کئی کتب شامل ہیں۔ صالحہ عابد حسین کی تحریریں عموماً اصلاحی ہیں۔ لیکن انھوں نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی، تقسیمِ ملک سے پیداشدہ سماجی صورتِ حال اورفرقہ وارانہ فسادات سے نڈھال اور زخمی انسانیت کے موضوعات کوبھی افسانوں میں جگہ دی ہے۔ انھوں نے مسلم سماج کے مسائل پربے باکی سے قلم اٹھایاہے۔ ان کی تحریروں میں مسلم سماج میں مروجہ سماجی اورثقافتی اقدارکے نقوش نظرآتے ہیں۔ ان نقوش کی دلچسپ جھلکیاں، ان کی خودنوشت سوانح’ سلسلۂ روزوشب‘ میں واضح طورپرنظرآتی ہیں۔ اپنی باجی کی شادی کے سلسلے میں لکھتی ہیں:
’’ان کی شادی کی بات دوجگہ چل رہی تھی۔ بالآخر استخارہ کے ذریعے رقعہ ڈال کرشادی طے کی گئی۔ 1919 کازمانہ تھا۔ پڑھے لکھے عالم فاضل گھروں میںیہ سب ہوتاتھا۔‘‘
اسی طرح شیری جس کووہ منہ بولی بہن کہتی تھیں، جو بقول ان کے’’نیچ ذات‘‘ کی تھیں اورجنھیں پانی پت کی زبان میں’کمینی‘ کہاجاتاتھا، کے بارے میں لکھتی ہیں: ’’ان کی صفات ایسی تھیں جن پراعلیٰ سے اعلیٰ گھرانے کی عورتیں اوراونچی سے اونچی تعلیم یافتہ خواتین رشک کرسکتی تھیں۔۔۔ ان کی شادی میں ہم بچے ہی جاسکے۔ یہ بھی طبقاتی بندش تھی کہ اماں بھی اپنی اس پروردہ بیٹی کی شادی میں شرکت نہ کرسکیں۔‘‘ واضح رہے کہ مسلم سماج میںیہ طبقاتی تضادآج بھی موجودہے۔ ’اشراف‘ اور’اجلاف‘ کی تمیزآج بھی برقرارہے، گوکہ بدلتے وقت نے اس تضادکی دھار کو کند کر دیا ہے، لیکن یہ صورتِ حال آج بھی مسلم سماج کی ایک حقیقت ہے۔ یہ اوربات ہے کہ یہ صورتِ حال اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔
صالحہ عابد حسین نے مسلم مصلحین (reformists) کے رول کوبھی بڑی غیر جانبداری سے جانچاہے اوراس پربڑے بے لاگ تبصرے بھی کیے ہیں۔ مثال کے طورپر، سیداحمدخاں کے بارے میں مضمون میں ’جوان کے مجموعے ادبی جھلکیاں، (1959) میں شائع ہواہے، اپناتجزیہ یوں پیش کرتی ہیں:
’’یہ توصحیح نہیں کہ سرسیدعورتوں کی تعلیم کے خلاف تھے۔ لیکن یہ واقعہ ہے کہ جہاں تک عمل کاتعلق ہے، انھوں نے عورتوں کی تعلیم یاحقوق کے لیے کچھ نہیں کیااورقوم کے آدھے حصے کومفلوج رہنے دیناگواراکیا۔‘‘
صالحہ عابدحسین نے اپنی تحریروں میں دلچسپ انکشاف بھی کیے ہیں جوبڑے معنی خیزہیں۔ ’سلسلۂ روزوشب‘ میں رضیہ سجادظہیر کے بارے میں اپنے تاثرات یوں بیان کرتی ہیں:
’’رضیہ کمیونسٹ خیالات رکھنے کے باوجود اپنی تہذیبی وراثت پرفخر کرتی تھی اورمذہبی جذبہ بھی اس میں موجودتھا، مثلاً شیعہ مذہب پرعقیدہ مجالس سے دلچسپی وغیرہ۔‘‘
معلوم نہیں رضیہ سجادظہیر نے اس پرکوئی ردعمل ظاہرکیاہے یانہیں۔ اسی طرح صالحہ عابدحسین مسزالف، ظ، حسن کے ناول’روشنک بیگم‘ جو 1922 کے آس پاس کہیں چھپاتھا، کے بارے میں لکھتی ہیں کہ یہ ناول’فسانۂ آزاد‘ سے چوری کیاگیاہے۔
رضیہ سجادظہیر نے بھی لگ بھگ صالحہ عابدحسین کے ساتھ ساتھ لکھناشروع کیا۔ ان کے چاروں ناول ’سرشام‘ ، ’کانٹے ‘ ، ’سمن‘ ، ’اللہ میگھ دے‘ ، اورایک افسانوی مجموعہ ’زردگلاب‘ ، شائع ہوئے ہیں۔ وہ ترقی پسند تھیں اوران کی اشتراکی سوچ کاعکس ان کی تحریروں میں صاف دکھائی دیتاہے۔ ان کی تحریروں میں ایک اشتراکی خواب، یعنی ایک غیرطبقاتی اورسماجی انصاف پرمبنی معاشرے کی جھلکیاں نظرآتی ہیں۔ رضیہ سجادظہیرکااندازبیان اور استعارات دلچسپ ہیں۔ اپنے افسانے ’زردگلاب‘ میں پھولوں کے استعارے کااستعمال نہایت خوبی سے کیاگیاہے۔ ایک بڑی سی پینٹنگ (painting) میں کچھ پژمردہ گلاب کے پھول، جوکہ پوری پھولوں والی پینٹنگ کاحصہ ہوتے ہیں، ایک خاتون کو بے حدپریشان کرتے ہیں۔وہ انھیںیاتوباقی پھولوں کے ساتھ ملاکرزندہ جاوید دیکھناچاہتی ہیں یا پھر پینٹنگ سے قطعی الگ کرناچاہتی ہیں۔ افسانے کااختتامی اقتباس یوں ہے:
’’زرینہ بیٹی۔ تم نے ایک دفعہ بھی مجھ سے پوچھاتھاکہ یہ زردگلاب گچھے سے الگ کیسے ہوگیا۔ اس وقت تم بہت ننھی سی تھیں، میں تم سے کیابتاتی۔ اور پھر بہت سی باتیں انسان کبھی اپنی زبان پرنہیں لاسکتا۔ اپنی اولادسے بھی نہیں کہہ سکتا۔ پروقت آج تمہیںیہ سمجھائے گاکہ کوئی کس مجبوری اوربے بسی کے ساتھ اپنے پیاروں سے الگ ہوتاہے۔
کوئی بھی پھول گچھے کوچھوڑنانہیں چاہتا، مگراسے چھوڑناپڑتاہے۔ یہ تصویر مجھے اپنی سب چیزوں سے زیادہ پیاری ہے۔ اس لیے یہ تمہارے واسطے ہے۔ میراتواب کوئی گھرنہیں ہوگا۔ مگر خدا تمہارے گھرکوسلامت رکھے۔ اسے اپنے کھانے کے کمرے میںآتش دان پرلگانااوراسے سدا پیار کرنا۔‘‘
خواتین اردوادب میں ایک نئی اورچونکادینے والی آوازعصمت چغتائی کی ہے۔ انھوں نے 1940 کے آس پاس اپنے ادبی سفرکاآغاز کیا۔ ان کی تخلیقات پربہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ ان کی تحریریں بلاشبہ موضوعات، اسلوب، کرداروں اورلب ولہجہ کے اعتبارسے تانیثی حیثیت (feminist sensibility)اورتانیثی شعور (feminist conciousness)کے اظہار کاپہلامعتبرتجربہ ہیں۔ اس لحاظ سے ان کی تحریریں تانیثیت کی پہلی اورمستنددستاویزات ہیں۔
عصمت کے موضوعات منفرد ہیں۔سماجی حالات پر ان کا ایک الگ ہی رد عمل ہے۔اس عمل سے گزرتے ہوئے وہ مروجہ عقائد ،سماجی وثقافتی اقدار،حتی کہ مذہبی اصولوں تک کی دھجیاں اڑاکر رکھ دیتی ہیں ۔ان کے افسانوں میں عورت کے جذبات ،ذہنی کیفیات ،روزمرہ کی وارداتوں پر ان کے نفسیاتی ردّعمل اورا ن کے مخصوص سماجی حالت کی عکس بندی فنکارانہ مہارت سے کی گئی ہے۔
عصمت چغتائی کا ’دل کی دنیا‘(ناولٹ)موضوع کے اعتبار سے جتنا حساس (sensitive ) اور خطرناک ) (dangerousآج سے ساٹھ برس پیشتر تھا ،اتنا ہی حسّاس اور خطر ناک آج بھی ہے۔قدسیہ خالہ،جن کے شوہر ایک میم کے چکر میں نہ تو انھیں بساتے ہیں اورنہ ہی طلاق دیتے ہیں،آخر کار اپنے خاموش عاشق شبیر میاں کے ساتھ غائب ہو کر انگلینڈ میں رہنے لگتی ہیں ۔یہ مسئلہ آج بھی ہزاروں مسلم جواتین کے لیے کسی حل کا متلاشی ہے۔ان کے خاوندنہ توان کے ساتھ معمول کی زندگی گزار تے ہیں اور نہ ہی انھیں طلاق دے کر آزاد کرتے ہیں۔اس مسئلے کے اوپر قدسیہ خالہ اور شبیر میاں کی اولاد کے توسط سے مصنفہ کار دِعمل ملا حظہ ہو:
امّی اور ابّو کی محبت دیکھ کر شادی بیاہ اور طلاق کی اہمیت پرہنسی آنے لگتی ہے۔‘‘
ناولٹ کے اختتام پر مصنفہ ایک نئے طرزِ عمل کی نشاندہی کرتے ہوئے یوں مشورہ دیتی ہے:
’’ جاؤ رفیعہ حسن ،تم بے دھڑک جہاں چاہو ،جاسکتی ہو۔زندگی کی قدروں کونا پنے تو لنے کے لیے تمھارا پنا فیتہ ہے۔اپنے باٹ ہیں۔ اپنی ترازو ہے۔ تمھاری زندگی میں کوئی ڈنڈی نہ مار سکے گا۔تمھارے خواب کبھی چکنا چور نہیں ہوں گے۔‘‘ (ناولٹ ’دل کی دنیا)
عصمت چغتائی ہندوستانی دیومالاسے کردار لے کر انھیں بڑی مہارت سے استعاروں میں تبدیل کر کے انھیں برتنے کے فن سے صرف واقف ہی نہیں،بلکہ اس میں کمال بھی رکھتی ہیں۔ ملاحظہ ہو:
’ ’رادھا نام کی سب ہی لڑکیاں بڑی ضدی ہوتی ہیں۔ ببانگِ دہل وہ اپنے عشق کا اعلان کرتی ہیں ۔ساری ذلتیں اور بدنامیاں ہنس کر جھیلتی ہیں ۔تن من دھن کی بازی لگا دیتی ہیں اور پانسہ ان کے ہی حق میں پڑتا ہے۔مخالف ہوائیں ان کے جذبۂ عشق کے آگے سر جھکادیتی ہیں۔پھر لوگ ان کے جذبے کی پوجا کرتے ہیں ۔ان کی شان میں گیت گاتے ہیں اور انھیں دیوی کا استھان بخشتے ہیں۔ (ناولٹ ’دل کی دنیا‘)
ایک اور دلچسپ نمونہ ملاحظہ ہو:
’’وہ خیالی محبوب بالکل چوں چوں کا مر بّہ تھا ۔کچھ جیمس بونڈاور کر شن مراری کا مجموعہ سمجھ لیجیے۔جیمس بونڈ تو زمانے میں ہیر ورہ چکا ہے،وہ چاہے داستان امیر حمزہ کا ہیر وہو ،حاتم طائی ہویاآلہا کی صورت میں ظاہر ہو۔اور کرشن مر اری کی جھلک شایداس لیے تھی کہ زیادہ تر لوگ گیت انھیں کی شان میں ہوتے تھے ۔‘‘ (ناولٹ ’دل کی دنیا‘)
عصمت چغتائی کی زبان خالص ٹکسالی ہے۔ان کی تخلیقات قاری کو فورااپنی گرفت میں لے لیتی ہیں،اور اسے ایک بار شروع کر کے ختم کیے بغیر چین نہیں آتا۔ان کی زبان نے ایک مشکل یہ پیدا کی ہے کہ ان کی تخلیقات کا ترجمہ دنیا کی دوسری زبانو ں میں بہت کم ہواہے۔وہ ٹکسالی محاوروں اور عوام میں مقبول تشبیہات کا اس حدتک استعمال کرتی ہیں کہ ان کے تر اجم میں خاصی دشوری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اردو خواتین ادب میں عصمت چغتائی کا ایک منفر دمقام ہے۔افسانہ ’لحاف‘اگران کی انفرادی سوچ او ربے باکی کا آئینہ ہے تو افسانہ ’پنکچر‘جس میں ایک عورت ایک مرد ،عورت سے اظہارمحبت میں پہل کرنے سے ہچکچاتا ہے،عصمت کے نسائی جذبات کا مظہر ہے۔
عصمت چغتائی نے تقریبا آٹھ ناول لکھے جن میں ’ضدی ‘ٹیڑھی لکیر ‘،معصومہ‘، ودائی‘، عجیب آدمی ‘، کبوتر‘،’دل کی دنیا ‘اورقطرہ خون‘شامل میں۔
ممتاز شیریں، جن کی کہانی، انگڑائی (عصمت ،چغتائی کے ’لحاف‘ کی طرح )مشہور ہوئی تھی۔ تقسیم ملک کے بعد پاکستان چلی گئیں۔ یہی حال ہاجرہ مسرور اور خدیجہ مستور کا تھا۔ سرلادیوی نے تقسیم ملک اور فرقہ وارانہ فسادات کے پس منظر میں کئی لاجواب کہانیاں تحریر کیں۔ افسوس کہ موت نے انھیں زیادہ مہلت نہیں دی۔
قرۃالعین حیدرنے اپنے ادبی سفر کا آغازتقریباعصمت چغتائی کے ساتھ ہی کیا۔ قرۃالعین کے ادبی کار نا مے تقریباََ ساتھ دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے کو محیط ہیں ۔ان کے موضوعات وسیع ہیں۔ اُنکا’کینوس‘اس سے بھی وسیع ترہے۔ ان کے ناول اور افسانے فلسفہ، تاریخ، سماجیات، سیاسیات، تہذیب، ثقافت اور سماجی و انفرادی نفسیات (Social and individual psychology) پر ان کی گہری نظر کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کے ناول ’میرے بھی صنم خانے‘، ’آگ کا دریا‘، ’کارِ جہاں دراز ہے اور ’آخرِ شب کے ہم سفر، اردو ادب میں موضوع، زبان و بیان اور ایک نئی دانشورانہ سوچ اور سماجی حِسّیت کے لحاظ سے ایک سنگِ میل کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ’پت جھڑ کی آواز‘ اور چار ناولٹوں کا مجموعہ ’اگلے جنم موہے بٹیانہ کیجیو‘ ا س نئی حِسّیت کی نشاندہی کرتے ہیں۔
قرۃ العین حیدر کی تحریریں بر صغیرہند میں سیاسی تبدیلیوں، بالخصوص جغرافیائی تقسیم سے پیدا شدہ صورتِ حال اور اس تقسیم کے سیاسی، سماجی اور تہذیبی اثرات کو نہایت سنجیدگی سے اجاگر کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں ان کے شہرۂ آفاق ناول ’آگ کا دریا‘ میں عہدِ پارینہ سے لے کر تقسیمِ ہند تک سماجی اور ثقافتی ادوار کا احاطہ عالمانہ اور دانشورانہ انداز میں کیا گیا ہے۔ یہ ضخیم ناول پلاٹ، زبان و بیان، علامتوں اور استعاروں کے لحاظ سے بلا شبہ اردو ادب میں ایک علیحدہ اپروچ اور ایک منفرد سچ کا آئینہ دارہے۔ لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ اردو ادب کے بیشتر ناقدین قرۃا لعین حیدر کے وسیع اور گراں قدر ادبی سرمائے کا تجزیہ اکثر و بیشتر محض اسی ناول کی بنیاد پر کرتے آئے ہیں۔ حقیقت میں ان کے ادبی سرمائے کے کماحقہ جائزے کی اشد ضرورت ہے۔
قرۃ العین حیدر نے ملک کی تقسیم اور اس سے پیدہ شدہ انسانی، سماجی اور سیاسی مسائل سے متاثر ہوکر کئی ناول اور افسانے تخلیق کیے ۔ ان کے دو مشہور ناول ’میرے بھی صنم خانے‘ اور ’آگ کا دریا‘ براہِ راست اسی موضوع سے متعلق ہیں۔ اصل میں ملک کی تقسیم نے ان کے ذہن کو خاصا متاثر کیا تھا۔ انھوں نے خود بھی اس بات کا ذکر کیا ہے کہ:
’’اگر کسی حادثے نے میرے لیے محرّک کا کام کیا ہے، تو وہ پہلا حادثہ 1943 میں میرے والد کی موت تھا اور دوسرا تقسیمِ ہند۔ تقسیم ہند نے میرے لکھنے پر گہرا اثر ڈالا ہے۔‘‘
ان کے ایک اور ناول ’آخرِ شب کے ہم سفر ‘ میں بھی تقسیم ملک اور اس کے دور رس اثرات ان کا موضوع ہے، اس میں ایک اضافہ قیامِ بنگلہ دیش ہے۔ ان کی تحریروں کی خوبصورتی یہ ہے کہ ان میں انسانی مسائل کا حل زمینوں کی تقسیم میں نظر نہیں آتا ہے۔ ان کی تحریروں سے یہ اخذ ہوتا ہے کہ اس طرح کی تقسیم سے مسائل کے حل تو درکنار، بہت سے دوسرے اور پیچیدہ مسائل ہوتے ہیں۔ ’آخرِ شب کے ہم سفر‘ میں ناول کا ایک بنیادی کردار، دیپالی تاریخ کے مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی کلکتہ (آج کل کی اصطلاح میں کولکتہ) پہنچ جاتی ہیں۔ شانتی نکیتن سے وہ گیسٹ ہاؤس کے لیے ایک رکشا لیتی ہیں۔ رکشا والے کے ساتھ ان کا یہ مکالمہ ملاحظہ ہو:
’’کہاں چلوں دیدی ؟‘‘ لڑکے نے پوچھا۔
’’تمھارا نام کیا ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’آمارنام علی حسین‘‘۔
’’علی حسین۔ اس نے دہرایا۔ یہ مدقوق رکشا والا علی حسین انڈیا میں بھی موجود تھا، بنگلہ دیش میں بھی،پاکستان میں بھی۔ اس کے لیے کچھ نہیں بدلا تھا۔‘‘
تقسیم ہند اور اس تقسیم سے پیدا شدہ صورتِ حال قرۃ العین حیدر کا ایک مستقل موضوع ہے۔ ان کا مشہور افسانہ ’ہاؤسنگ سوسائٹی‘ نومولود اسلامی مملکت پاکستان کے ابتدائی سیاسی اور سماجی حالات کی گہری تصویر کشی کرتا ہے پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد پاکستانی سماج میں جو نئے طبقات ابھر کر سامنے آتے ہیں، اُن کی سوچ، نفسیات اور طرزِ عمل کو اس افسانے میں نہایت فنکاری کے ساتھ اجاگر کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ سیاسی اندازِ فکر جو اس ملک کے مفادِ خصوصی (vested interest) کے لیے خطرہ تصور کیے جاتے ہیں، ان کے تئیں مملکت کی جانب جو قہر نازل ہوتا ہے، اس کی رونگٹے کھڑی کرنے والی عکس بندی بھی اس افسانے میں نظر آتی ہے۔
قرۃ العین حیدر اپنی تخلیقات میں زندگی اور کائنات کے مختلف رنگوں کو سموکر ایک خوشگوار منظر پیش کرتی ہیں۔ مختلف رنگوں کی یہ متضاد دھنک ان کی تحریروں کو خوبصورت بناتی ہے۔ بقول ان کے :
’’شاعرہ! پروں جیسا، بادل جیسا سفید، کسی مرنے والے کا کفن بُنتے ہیں ہم۔ دلہن کی سرخ ساری اور موت کا سفید کفن۔ تانابانا، زندگی اور موت، سکھ اور دکھ، نیکی اور بدی، امن اور تشدد، ریحان اور جہاں آرا۔‘‘ (آخرِ شب کے ہم سفر)
قرۃ العین حیدر کا مکانی کینوس کافی وسیع ہے۔ اس سلسلے میں ان کا افسانہ ’حاجی گل بابا بیکتاشی کے ملفوظات‘ یوگوسلاویہ(آج کل کے بوسنیا، ہرزہ گووینا) کے صوفی ازم کے پس منظر میں تحریر کیا گیا ایک نہایت ہی دلچسپ اور علامتی افسانہ ہے۔ یہ افسانہ اس دورکی یادگار ہے، جب یوگوسلاویہ ایک مکمل سیاسی اکائی تھا اور کمیونزم (اشتراکیت) کے ساتھ ساتھ مقامی صوفی ازم وہاں کے مسلمانوں کا ایک قابلِ فخر قیمتی سرمایہ تھا۔
خواتین کے خصوصی مسائل بھی قرۃ العین حیدر کی تخلیقات کا ایک حصہ ہیں۔ ان کا ناولٹ ’اگلے جنم کی مو ہے بٹیا نہ کیجو‘ میں خواتین کو درپیش ذاتی اور سماجی مسائل کا تجزیہ نہایت ہی فنکاری کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اس ناولٹ میں حالات و واقعات کا تسلسل خود بخود ا س سماجی جبر کو اجاگر کرتا ہے جس میں اکثر و بیشتر ہمارے سماج کی خواتین اپنے آپ کو محصور پاتی ہیں۔
جیلانی بانو نے1955 سے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز کیا۔ ان کے کئی قابلِ ذکر ناول، ناولٹ اور افسانوی مجموعی شائع ہوئے ہیں۔ ان میں ’بارشِ سنگ‘ (ناول) ایوانِ غزل (ناول) اور افسانوی مجموعے ’روشنی کے مینار، ‘ ’یہ کون ہنسا؟‘ اورناولٹ ’نغمے کاسفر‘ شامل ہیں۔ انھیں متعدد انعامات سے نوازا گیا ہے۔
جیلانی بانو کا شمار ترقی پسندوں میں ہوتا ہے۔ ان کا ذہن اشتراکی سوچ کا حامل ہے۔ ان کی تخلیقات میں مسلم سماج پر تقسیم ہند کے اثرات اور مسلمانوں کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی مسائل شامل ہیں۔ ان مسائل کی منظر کشی اور ان کا تجزیہ ان کی تخلیقات میں خوب نظر آتا ہے۔
نئی اور پرانی اقدار کی کشمکش جیلانی بانو کے افسانوں کا خاص موضوع ہے۔ ان کے افسانوں میں متوسط مسلم سماج میں رہنے والے افراد کی نفسیاتی کشمکش، جس میں ان کے اذہان پر پرانی روایات اور اقدار حاوی ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں نئی حقیقتوں اورنئی اقدار سے بھی نبرد آزما ہونا پڑتا ہے، ان سب کی دلچسپ عکاسی نظر آتی ہے۔
جو مسلمان ترکِ وطن کے بعد نئی مملکت پاکستان میں آبادہوئے، ان کو بالخصوص متوسط طبقے کے افراد کو ، جس ثقافتی بحران سے دوچارہونا پڑا، اس کی دلچسپ تصویرکشی جیلانی بانو کے افسانوں میں نظر آتی ہے۔ سرزمین پاکستان پر اردو بولنے والے ہندوستانی مہاجرین کے لیے ثقافتی مسئلہ ایک اچھے بحران(crisis) کی صورت اختیار کر گیا تھا۔ بقول مصنفّہ:
’’ادھر پاکستان سے جس کا خط آئے ، دوچار نئی شادیوں کا ذکر سن لیجیے۔ وہ بھی یوں ہی بے جوڑ۔ کسی نے سندھی سے بیاہ کرلیا تو کسی نے پنجابی لڑکے کو بیٹی دے دی۔ لوگ انگلیاں اٹھاتے اٹھاتے تھک گئے۔ جب سارے محمود ایاز ایک ہی صف میں کھڑے نظر آئیں، تو کس پر ہنسا جائے.....‘‘ (افسانہ : روشنی کامینار)
آمنہ ابو الحسن پچھلی آدھی صدی سے برابر لکھ ہی رہیں۔ ان کے ادبی سفر کا آغاز 1951 میں ان کی پہلی کہانی سے ہوا جو ’ساقی‘ میں شائع ہوئی تھی۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’کہانی‘ 1965 میں منظر عام پر آیا، اس کے بعد ان کے کئی ناول اور افسانوں کے مجموعے شایع ہو چکے ہیں۔ ان کاناول ’سیاہ، سرخ، سفید‘ خاصا مقبول ہوچکاہے۔
آمنہ ابوالحسن کی تحریروں میں ایسی نسائیت ہے جو بہت خوشگوار لگتی ہے۔
ان کی کہانی ’بر جو ‘ایک ایسے دلچسپ آدمی کی کہانی جس کو جنگل کے ماحول سے بے پناہ عشق ہوتا ہے ۔یہ مفلس آدمی ایک اچھی آرام دہ نوکری کو جنگلوں میں مزدوری کی خاطر تیاگ دیتا ہے۔ آج کے جدید دور میں جب کہ انسان نے مادّی ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے جنگلوں کا صفایا کرنا شروع کردیا ہے، ایسے لوگ بھی موجود ہیں، جو اس ماحول کے ساتھ جنون کی حد تک پیار کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ کہانی ایک نیا تجربہ ہے۔
ان کی تحریروں میں انسانی نفسیات تک رسائی کی کوشش کا اندازہ ہوتا ہے۔ کہیں کہیں انگریزی الفاظ کا استعمال نامناسب معلوم ہونے کے بعد تسلسل قائم رہتا ہے ۔ آمنہ ابو الحسن کی تحریریں ایک آہستہ بہتی ہوئی ندی کا احساس دلاتی ہیں جو بغیر شور مچائے اپنی اہمیت اور شخصیت کومنواتی ہے۔ خود ایک عورت کو وہ غالباً عورت کی شخصیت کو یوں دیکھتی ہیں:
’’میں ایک ایسی کتا ب ہوں، جس کا زیادہ حصہ کھلا ہوا، عیاں ہے، سب پر ظاہر۔ لیکن اس کتاب کا مخفی حصہ ایسا بھی ہے جو صرف اس کی ذات، اس کی آگہی تک محدود و مخصوص ہے۔ جس کی بابت دوسرا کوئی کچھ نہیں جانتا۔کھلے عیاں حصے میں اس کی ہنسی،مسکراہٹیں، اس کے ارادے اور عزائم ہیں۔ مگر مخفی حصے میں درد و کرب ہے وہ آنسو جو پوشیدہ ہیں، جن کا کوئی حصے دار نہیں ہے اور آنسو بہانا اسے پسند نہیں کہ اگر ایک بار آنسوؤں نے راستہ پا لیا تو اسے رہ رہ کر تھکاتے نڈھال کرتے رہیں گے۔انھیں باہر آنے کی عادت ہوجائے گی۔ مگر بسورتے چہرے کتنے برے لگتے ہیں......‘‘
(افسانہ: کاش)
صغریٰ مہدی خواتین اردو ادب کی ایک ایسی ہمہ جہت شخصیت ہیں، جنھوں نے ادب کی مختلف اصناف، جن میں ناول، افسانے، تنقید ، تراجم اور سفرنامے شامل ہیں، تحریر کیے ہیں۔ انھوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز پانچویں دہائی کے اختتامیہ سے کیا اور جب سے برابر لکھ رہی ہیں۔ ان کے ناول’پابہ جولاں‘، ’دھند‘، ’ پُروائی’، ’ راگ بھوپالی‘ اور جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو’ اردو زبان وادب میں گراں قدراضافہ ہے۔ ان کے افسانوی مجموعے ’ پتھر کا شہزادہ‘ اور ’جو میرا وہ راجہ کا نہیں‘ خاصے مقبول ہو چکے ہیں۔ اکبر الہٰ آبادی کی شاعری پر ان کا تجزیہ ’ اکبر کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ ‘اردو تنقید میں ایک اہم اضافہ ہے۔
صغریٰ مہدی کے ناول اور افسانے سماجی اوراصلاحی ہیں۔ ان کی تحریروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صالحہ عابد حسین سے خاصی متاثر رہی ہیں۔صغریٰ مہدی کی تعلیم و تربیت اور علمی مصروفیات کا محور جامعہ ملیہ اسلامیہ رہا ہے ۔ اس ادارے کے ماحول اور اقدار کا عکس صغریٰ مہدی کی تحریروں میں نظر آتا ہے۔
صغریٰ مہدی کی تحریریں ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی آئینہ دار ہیں۔ انھیں ہندوستان کی مشترکہ تہذیب پر فخر ہے وہ اپنے آپ کو اس تہذیب کا وارث گردانتی ہیں۔ ہندوستان دیومالا سے استعارات لے کر وہ انھیں اپنی تخلیقات میں فن کاری سے برتتی ہیں۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ماں کے الفاظ اس کے کان میں گونج رہے تھے..... رام چندرجی نے اپنے ملک میں رہ کر دکھ اٹھائے، تکلیفیں سہی، اس کی خدمت کی۔ ایسا راج جو ’رام راجیہ‘ کہلایا، جو آج بھی ترقی یافتہ زمانے میں حکومتوں کا آئیڈیل ہے اور تم عباس ماجد یہاں پڑے ہو۔ زندگی کی آسائشیں حاصل کرنے کو ، پیسہ بٹورنے کو، اپنے بچوں کا مستقبل بنانے کو __اس نے گھبراکرچاروں طرف نظریں دوڑائی۔ سب کھڑکیاں دروازے بند تھے۔ کمرے میں زیروبلب کی مدھم، زردروشنی پھیلی ہوئی تھی۔
دن بھر کی شدید محنت سے چُور ا س کی بیوی بے خبر پڑی سو رہی تھی۔ اور بچے؟ اسے لگا کہ جیسے بچّے اس کے پاس کھڑے اس سے سوال کر رہے ہوں کہ رام کو بن باس کیکئی نے دیا ، اور ہمیں ___ ؟‘‘ (افسانہ : بن باس)
خواتین اردو ادب کا تیسرا دور بیسویں صدی کی چھٹی دہائی سے شروع ہوا۔ اس دور میں اردو ادیباؤں نے ان موضوعات پر بلا جھجک لکھنا شروع کیا، جو ان کے لیے شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ وہ معاملات، واقعات و حادثات، جن پر لکھنا ایک ٹیبو(taboo) سمجھا جاتا تھا، اب اردو ادیباؤں کی بے باک تحریروں کے دائرے میں آگئے۔ اس میں شبہ نہیں کہ عصمت چغتائی نے خاتون تخلیق کاروں کے گرد باندھے گئے ایک حصار پر پہلے ہی دھاوا بول دیاتھا اور شجر ممنوعہ کو صرف ہاتھ ہی نہیں لگایا بلکہ پوری طرح سے اسے اپنے قبضے میں کرنے کا رجحان بھی شروع کیا تھا۔لیکن خواتین اردو ادب میں یہ ایک رجحان کی شکل اختیار نہیں کرپایاتھا اب یہ طرزِ تحریر ایک باقاعدہ رجحان (trend)کی شکل اختیار کرکے سامنے آتا ہے۔ اس دور میں جو اب بھی جاری ہے، خواتین افسانہ نگار اور ناول نگاروں کے ساتھ ساتھ شاعرات بھی بڑے شدومد کے ساتھ اردو ادب کو نئی جہتوں کے ساتھ ہم کنار کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔
واجدہ تبسم کے ناول اور افسانے گو ایک مخصوص تہذیبی اور معاشرتی پس منظر میں لکھے گئے ہیں تاہم موضوعات اور زبان و بیان کے اعتبار سے خواتین اردو ادب میں ایک منفرد اور بے باک رجحان کا اعلان کرتے ہوئے منظرِ عام پر آئے ہیں۔ ان کی تحریروں میں سماجی اور معاشی دباؤمیں کچلی، پسی عورتوں کی نفسیات، ذہنی رجحانات اور ذاتی ردِ عمل(individual response) کی مکمل عکاسی نظر آتی ہے۔
ان کے مشہورافسانے ’اترن‘ میں تاریخی، سماجی اور معاشی جبر کی شکا ر ایک الّھڑ، نازک لڑکی کی نفسیات او رجبر کے خلاف اس کا ردِ عمل پوری طرح سامنے آتا ہے۔ یہ افسانہ تاریخی، ثقافتی اور نفسیاتی اعتبار سے نہایت اہم ہے۔ یہ افسانہ نوابین کی نجی زندگیوں، ان کی اپنی پروردہ قدروں اور سماج کے مجبور طبقوں پر ان کے استبداد کی تصویر کشی کرتا ہے۔ یہ تصویر کشی واجدہ تبسم کی تحریروں کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ افسانہ ’اترن‘ کے یہ مختصر اقتباسات ملاحظہ ہوں:
’’چمکی کا روتا ہوا حسن نارنجی جوڑے میں اور کھل اٹھا تھا۔ یہ جوڑا وہ جوڑا تھا ، جو اسے احساسِ کمتری کے پاتال سے اٹھاکر عرش کی بلندیوں پر بٹھا دیتا تھا۔ یہ جوڑا کسی کی اترن نہیں تھا۔ نئے کپڑوں سے سلا ہوا جوڑا، جو اسے زندگی بھر میں ایک ہی بار نصیب ہوا تھا ورنہ ساری عمر تو شہزادی پاشا کی اترن پہنتے ہی گزری تھی اور اب چونکہ جہیز بھی تمام تران کی اترن ہی پر مشتمل تھا، اس لیے باقی کی ساری عمر بھی اُسے اترن ہی استعمال کرنی ہوگی۔‘‘
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ نواب زادی کی خادمہ ’چمکی‘ جو ساری عمر نواب زادی کی اترن پر بظاہر اتراتی پھرتی ہے ، خود ایک سیّد زادی ہے۔ اس کاردِّ عمل ملاحظہ ہو:
’’لیکن بی پاشا۔ ایک سیّد زادی کہاں تک پہنچ سکتی ہے۔ یہ تم بھی دیکھ لینا۔ تم نے ایک سے ایک پرانی چیز مجھے استعمال کرنے کو دیے نا اب تم دیکھنا ......‘‘
اس کے بعد خادمہ ، سید زادی چمکی، تمام حشر سامانیوں کے ساتھ، ملیدے کا تھال اٹھائے، بی پاشا کے ہونے والے دولھا میاں کے ہاں پہنچ جاتی ہے۔ دولہا میاں کا طرزِ عمل اور چمکی کا رد عمل ملاحظہ ہو:
’’انھوں نے ڈرتے ڈرتے اپنا ہاتھ اس کے شانے پر رکھا خالص مردوں والے لہجے میں، جو کسی لڑکی کو پٹانے سے پہلے خواہ مخواہ ادھر ادھر کی ہانکتے ہیں۔ لرزتے ہوئے اپنا ہاتھ شانے سے ہٹاکر اس کے ہاتھ کو پکڑتے ہوئے بولے: ’یہ تھال میں کیا ہے؟ ‘ چمکی نے قصداً اُن کی ہمت بڑھائی:’’آپ کے واسطے ملیدہ لائی ہوں۔ رَت جگا تھانہ رات کو !‘‘ اور اس نے تلوار کے بغیر انھیں گھائل کردیا۔ ’’مونہہ میٹھا کرنے کو۔‘‘ وہ مسکرائی۔
’’ہم ملیدے ولیدے سے مونہہ میٹھا کرنے کے خائل (قائل) نہیں ہیں ..... ہم تو .... ہاں ......‘‘ اور انھوں نے ہونٹوں کے شہد سے اپنا منہ میٹھا کرنے کو اپنے ہونٹ بڑھادیے اور چمکی ان کی بانہوں میں ڈھیرہوگئی۔ ان کی پاکیزگی لوٹنے__ خود لٹنے__ اور انہیں لوٹنے کے لیے۔‘‘
اس طرح سماج کی کچلی ہوئی سّید زادی خادمہ چمکی، بی پاشا سے انتقام لیتی ہے۔
واجدہ تبسم نے مسلم سماج کے اس نوابی ،اور استحصال کرنے والے طبقے کے نظام کو بے نقاب کرکے خاصی شہرت حاصل کی ۔انھوں نے 1960 کے آس پاس لکھنا شروع کیا۔ان کے افسانوں کے مجموعے ’شہر ممنوعہ ‘آیا بسنت سکھی ،نتھ اترائی،نتھ کا بوجھ‘اور ناول’نتھ کا غررو‘خاصے مقبول ہوچکے ہیں۔استحصال کرنے وا لے طقبوں کے وضع کرد ہ اصو ل اورروایتیں،جن کا تعلق اور براہِ راست اثرخواتین پر ہے،واجدہ تبسم کے تیروں کانشانہ ہیں۔
ذکیہ مشہدی تقریباً چار دہائیوں سے افسانے لکھ رہی ہیں۔ان کے پانچ ا فسانوی مجمو عے ’پرائے چہرے ، ’تاریک راہوں کے مسافر‘، صدائے بازگشت ،نقشِ ناتمام اور یہ جہانِ رنگ و بو، شائع ہو چکے ہیں۔وہ نا صرف نفسیاتی بلکہ سماجی اور سیاسی موضوعات پر بھی بڑی بے باکی سے لکھ رہی ہیں۔ان کے افسانے’افعی ‘میں بابری مسجد کے المناک انہدا م،ملک میں فرقہ پرست سیاسی فرقوں کے احیا اور بالادستی اور ملک پر اِن واقعات کے مہلک اور دور رس اثرات کا ایک غیر جانبدار انہ جائزہ لیا گیا ہے۔
ذکیہ مشہدی ’شجر ممنوعہ ‘پر یقین نہیں رکھتی ہیں۔وہ پدری سماج اور ادب میں اس نقطۂ نگاہ سے وضع کردہ موضوعات کی پابندیوں سے آزاد ہیں۔پد ری سماج میں عورتوں کی بے وفائی کو تو مردحضرات نے لکھ لکھ کر اور کہہ کہہ کر ایک ضرب المثل کی حیثیت دی ہے لیکن جومرد حضرات کی بے وفائیوں کو ایک تسلیم شدہ سماجی قدر(social value)کادرجہ دیا گیا ہے جس کو جھیلنا عورت کے فرائض میں شامل کیا گیاہے۔اپنے ایک بے باک افسانے ’چرایا ہوا سکھ ‘میں ایک شادی شدہ مرد ایک شادی شدہ عورت کی طرف تھوڑی دیر کے لیے ملتفت ہو جاتا ہے ۔کہانی بالآخر مرد اور عورت کے جسمانی اختلاط پر ختم ہو جاتی ہے ۔کہانی کا اختتامیہ مصنفہ کی زبان سے ملاحظہ ہو:
’’بڑی حیرت سے آنکھیں پَٹپَٹا کر اجیت نے سوچا کہ یہ عورت اسے اس قدر انوکھی ،اچھوتی ،آسمان سے اتری ہوئی مخلوق کیوں معلوم ہو رہی تھی ۔یہ عورت جو کسی بھی عام عورت سے الگ نہیں ہے۔____کیا یہ چرایا ہوا سکھ امیتا سے ملنے والے سکھ سے کچھ الگ تھا ؟حساب لگایا تو ساری جمع ،ضرب،تقسیم کا جواب ایک ہی آیا اورپھر بھلا چھ مہینوں سے اس نے اپنی نیندیں کیوں حرام کر رکھی تھیں؟محض بند لفافے کو کھولنے کے لیے؟ایک بیمار سے تجسس کی تسکین کے لیے؟یااس لیے کہ وہ ایک نا قابلِ حصول شے معلوم ہوتی تھی اوراجیت کے لیے ایک چیلنج۔‘‘ (افسانہ :چرایا ہوا سکھ)
موضوع اور زبان وبیان کے اعتبار سے ،مرد کے احساسات اور نفسیات کامندرجہ بالا تجزیہ بے باک تو ہے ہی ،مگر مصنفہ کی گہری نظر اور سنجیدہ سوچ کا سراغ بھی فرا ہم کرتا ہے ۔ذکیہ مشہدی بھی برابر لکھ رہی ہیں۔
پچھلی دودہائیوں سے زائد عرصے میں کئی اور اردو ادیباؤں کی تحر یر یں منظر عام پر آئی ہیں۔یہ تحریر یں پڑھ کرایک نئی تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ان تحر یروں سے تاریخ اور سماج پر خواتین کے ایک نئے تجزیے کا اندازہ ہوتا ہے۔یہ تحر یر یں خود عورت کی ازسر نودریا فت کی طرف ایک واضح اشارہ ہیں۔نگار عظیم نئی نسل سے متاثر نظر آتی ہیں۔اپنے بیشتر افسانوں میں وہ نچلے متوسط طبقے کے مسائل کا جائزہ لینے کی کو شش کرتی ہیں۔
غزال ضیغم کا شماران نئی خواتین افسانہ نگاروں میں کیا جا سکتا ہے،جو اپنی تاریخ،تہذیب، سماجی وثقافتی وراثت اور اقدار کا ازسر نو جائزہ لے کر انھیں اپنے تجزیوں کی روشنی میں جانچنے کی کوشش کرتی ہیں۔ان کے افسانوں کا مجموعہ ’ایک ٹکڑا دھوپ کا ‘شائع ہو چکا ہے۔اس مجموعے میں شامل افسانوں میں’بھولے بسرے لوگ‘’سوریہ ونشی چندرونشی ‘ان کے مخصوص سوچ اور فکر کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کا انداز بیان سادہ اور دلچسپ ہوتا ہے۔
آشاپر بھا ت کا ناول’دھند میں اگا پیڑ‘ شائع ہو چکا ہے۔وہ افسانے برابر لکھ رہی ہیں۔ ان کی کہانیا ں سماجی نوعیت کی ہیں۔ وہ اپنی تحریر میں خواتین کے استحصال کی ،ان کا تعلق خواہ کسی بھی سمت سے ہو،دلچسپ انداز میں برابر نقاب کشائی کرتی ہیں۔
قمر جمالی ،ڈاکٹر شمیم نکہت ،شہناز کنول،فرحت جہا ں، کوثر پروین، کہکشا ں پروین،قمر جہاں، ذکیہ ظفر ، شائستہ فاخری، رخشندہ روحی اور ثروت خان وغیرہ اپنی تخلیقات سے خواتین اردو ادب میں اضافہ کر رہی ہیں۔
Tarannum Riyaz
C-11, Jangpura Extn. New Delhi - 110014
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں