7/3/19

1970 کے بعد افسانے میں عورت (ایک مختصر جائزہ) مضموڹ نگار نگار عظیم



1970 کے بعد افسانے میں عورت
(ایک مختصر جائزہ)
نگار عظیم
عورت قدرت کی ایک ایسی شاہکار تخلیق ہے جو خود ایک خالق کی حیثیت رکھتی ہے۔ اپنی بے لوث محبت ایثار خدمت اور رنگارنگ شخصیت کے سبب اس دنیا کے چمن کو سیراب بھی کررہی ہے اور فروغ بھی دے رہی ہے۔
زمانۂ قدیم میں عورت کو بے انتہا ذلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ مختلف ملکوں اور مختلف مذاہب میں اس کی نوعیت مختلف تھی لیکن اس کی بے حرمتی اور بے جا ظلم و زیادتیاں ہر ملک اور ہر قوم میں روا تھے۔ یونان، روم، چین، عرب، ایران اور مغربی ممالک کے ہر مذہب میں عورت مظلوم، محکوم، لونڈی اور گنہگار ہی تھی۔
آہستہ آہستہ وقت بدلا، حالات بدلے، سماجی تقاضے بدلے تو عورت کی زندگی میں بھی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ رِشیوں، منیوں، مذہبی پیشواؤں، دانشوروں نے اپنی موجودگی، یا پھر یوں کہیے کہ مصلح قوم و ملک کے روپ میں اپنی شمولیت درج کرائی۔ منفی اور مثبت اثرات بھی سامنے آئے۔
ایڈمنڈ برک کی ایک تصنیف "A Vindication of The Right of The Men" 1790 میں سامنے آئی۔ ایڈمنڈ برک نے اپنی اس کتاب میں عورت پر مرد کی بالادستی کو درست قرار دیا یعنی عورت کے وجود اس کے حقوق اور تحفظ کی پامالی کا کھلا اعلان۔ لہٰذا 1792 میں پہلی تانیثی کتاب "A Vindication of The Right of The Women" منظرعام پر آئی جس کی مصنفہ میری دال سٹون کرافٹ تھیں۔ یہ تصنیف ایڈمنڈ براک کی تصنیف کے جواب میں تھی۔ مصنفہ نے عورت، اس کی اہمیت، افادیت، اس کے تحفظ اور حقوق پر کھل کر بات کی اور پھر یہ آواز ایک تنظیم اور تحریک کی شکل اختیار کرتی گئی اور یہ سلسلہ آگے بڑھتا گیا۔
جی ڈبلوکرٹس نے کہا ہے کہ ’’تہذیب کا مطالعہ ہی اصل میں عورت کا مطالعہ ہے‘‘ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ہم اپنی تہذیب کے اوراق پلٹیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ انیسویں صدی کے نصف اوّل تک ہندوستانی عوام کی زندگی قدامت پسندی اور دقیانوسیت میں بری طرح پھنسی ہوئی تھی جس کا شکار طبقۂ نسواں زیادہ تھا۔
ہمارے افسانوی ادب میں عورت کا کردار ہماری تہذیب اور سماجی رویو ں کے عین مطابق ہے۔ کہیں ظالم، کہیں مظلوم، کہیں ماں، کہیں محبوبہ، کہیں جسم، تو کہیں احتجاج، کہیں مریم تو کہیں گنہگار اس کے وہ تمام روپ جو سماج نے اسے عطا کیے، قلمکاروں نے انھیں زندگی عطا کردی۔
ابتدائی رومانوی ادب سے لے کر آج تک عورت کا کردار ادب کے منظرنامے پر مختلف اور منفرد صورت میں سامنے آیا۔ افسانہ نگاروں نے عورت پر عورت کے ذریعے ہوئے ظلم و ناانصافی اور اس کے بکھراؤ کی وجہیں بھی نمایاں کرنے کی کوشش کی جس میں پریم چند کا نام سرفہرست ہے۔ انھوں نے عورت پر لکھا تو بہت کچھ، عورت کے تئیں ان کا رویہ بھی ہمدردانہ تھا لیکن حقیقت تب بھی یہی تھی کہ ہر ایک نے جیسے عورت کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا ہوا تھا۔ فرماں بردار بیوی، وفا کی دیوی، ستی ساوتری جیسے کردار ہی افسانوی ادب میں تخلیق کیے گئے۔ پریم چند کے یہاں بھی ’نئی بیوی‘ اور ’کفن‘ سے عورت کا اصل اور حقیقی چہرہ نظر آیا۔ اس کے بعد ’انگارے‘ نے اس خاموش سمندر میں ارتعاش پیدا کیا۔ رشید جہاں، عصمت چغتائی اور سعادت حسن منٹو نے جس حقیقت نگاری کی ابتداکی تھی بعد کے قلمکاروں نے اس روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے افسانوی ادب کا ایک طویل سفر طے کیا ہے۔
عالمی سطح پر بدامنی، بے چینی، انتشار، جارحیت، کھلی دہشت گردی، غداری، الیکٹرانک میڈیا کا رول، گلوبلائزیشن ،ذرا تصور تو کیجیے افسانہ نگار کو فکر و شعور کی کتنی پیچیدگیوں سے گزرنا ہوگا۔ زندگی کی تفہیم کا یہ نیا منظرنامہ ماضی کے درد و کرب کسک اور تڑپ کا حساب مانگے گا تو حال کی حقیقتوں سے آنکھیں چار کرنے کا حوصلہ بھی اور مستقبل کو محفوظ کرنے کی ضمانت بھی۔ پچھلی تین چار دہائیوں سے افسانوی افق پر مسلسل روشن رہنے والے افسانہ نگاروں نے تمام چیلنجز کو قبول کرتے ہوئے اپنی ذمے داریوں کو نبھایا ہے جن میں جوگندرپال، رتن سنگھ، حسین الحق، شوکت حیات، سلام بن رزاق، جیلانی بانو، ذکیہ مشہدی، مقدر حمید، نورالحسنین، محمد بشیر، صغریٰ مہدی، اقبال انصاری، ساجد رشید، نعیم کوثر، شموئل احمد، ناصرہ شرما، انورقمر، دیپک بدکی، انجم عثمانی، ابن کنول، خورشیداکرم، معین الدین جینابڑے، بیگ احساس، اقبال مہدی، احمد صغیر، ترنم ریاض، خورشید اکبر، انور نزہت، اقبال مجید، اقبال متین، غزال ضیغم، شائستہ فاخری، مشرف عالم ذوقی، غضنفر، اسلم جمشیدپوری، اختر آزاد، محسن خاں، ثروت خان وغیرہ (یہ فہرست نامکمل ہے) افسانہ نگاروں نے سماجی سیاسی اور جغرافیائی معنویت کے ساتھ اپنے عہد کی سچی کھردری تلخ حقیقتوں کو افسانے کے موضوعات میں برتا۔ فسادات، غربت، ہجرت، اقلیت، رنگ، نسل، نسب اور طبقاتی مسائل میں ٹوٹتے رشتے اور سسکتے بڑھاپے میں، رنڈیوں، ٹکھیائیوں اور طوائفوں کے بدلتے روپ میں، پیار محبت رومانیت اور حسن میں، عورت کہاں ہے اور کیسی ہے۔ آئیے تلاش کریں۔
جوگندرپال کی کہانی ’مہابھارت‘ چھوٹے یعنی مختصر آٹھ ادھیائے میں تحریر کی گئی ایسی بے مثال کہانی ہے جس میں یہ پوری دنیا ایک کروکشیتر ہے اور151 عورت ایک دروپدی151 لیکن اس درویدی کو برہنگی سے بچانے کے لیے کوئی کرشن آسمان سے نہیں اتراا ور عورت لٹتی رہی... ’’ساری دنیا گویا کوروؤں کی طرح اس کا چیر اتارتی رہی اور وہ سر جھکائے کروکشیتر کی لال لال دھرتی پر اپنے جگنو کا خون سونگھتی رہی۔‘‘ اس کے لاتعداد شوہروں میں سے کوئی ایک بھی اس کی ذمے داری سنبھالنے کے لیے آگے نہیں بڑھا۔ عورت کی بے بسی ، بے کسی اور حالات میں جکڑی اس کی معصومیت کو داغ دار کرتی ہماری سوسائٹی یعنی ہمارا معاشرہ کسی حد تک بے حس ہوگیا۔
مذہبی رسم و رواج پر لکھی گئی عبدلصمد کی کہانی ’دیوی‘ عورت کا الگ ہی روپ پیش کرتی ہے۔ روپ کنول ایک پڑھی لکھی لڑکی ہے۔ اعلیٰ گھرانے سے تعلق رکھتی ہے اور خود ہی شوہر کے ساتھ ستی ہونے کا اعلان کردیتی ہے اور تمام رشتے دار اس کو ستی ماتا کے روپ میں قبول کر کے دیوی کا درجہ دیتے ہیں اور اس کی پوجا کرتے ہیں۔ تمام زندگی اپنی ساس اور سسرسے جہیز کے لیے ستائے جانے اور حقارت آمیزبرتاؤ کے درد نے اس کو اندر سے نرمی اور معصومیت کو چھین لیا تھا اس کا یہ فیصلہ دیوی بن کر اپنی پوجا کروانے میں اس لیے مضمر تھا کہ یہ درجہ تو اس کو کبھی حاصل ہی نہیں کرنا تھا اس میں اس کا انتقام، اس کے دکھوں کا خاتمہ اور سماج کے منہ پر احتجاج بھرا طمانچہ مارنے کا موقع وہ ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتی تھی۔ ظالم ساس کو ہاتھ جوڑ کر پوجتے دیکھ کر اپنے دل میں سکون میسر ہوا ہوگا۔
اقبال مجید کا افسانہ ’حکایت ایک نیزے کی‘ اور طارق چھتاری کا افسانہ ’باغ کا دروازہ‘ اس کی بہترین اور خوبصورت مثال ہیں۔ ’حکایت ایک نیزے کی‘ میں نادر شاہی نیزہ غریب درزی کو ملتاہے لیکن پوری حکایت ایک درزن کے ذریعے مکمل ہوتی ہے۔ درزن پے در پے چار قتل کرتی ہے اور پھر اختتام پر اسی نیزے سے خود کو بھی ختم کرلیتی ہے۔
ایک عالم بزرگ اس سے دریافت کرتے ہیں۔
’’اب تک کتنے خون کرچکی ہے اس نیزے سے؟‘‘
’’چار‘‘ ’’اور مار‘‘ بزرگ دھیرے سے بولا۔
’’نہیں، میں نے اس کے پیچھے اپناگھر برباد کیا شوہر کو مارا، دغاباز عاشق کی جان لی، قزاق کی موت آئی، طغرل خاں کا خون کیا کتنی جانیں جاچکی ہیں ان چند دنوں میں۔‘‘
’’اور جانیں لے، جو نیزہ ایک دن میں چار سو جانیں چاٹ لے وہ تیرے ہاتھوں بھوکا مررہا ہے۔‘‘
’’لیکن میں سلطان نہیں ہوں جو ایسا کرسکوں۔‘‘
’’تو پھر بادشاہوں کے کھلونوں سے کیوں کھیل رہی ہے؟‘‘
’’مجھے یہ لعل درکار ہے۔‘‘
تو پھر اس نیزے کو چالیس ہزار جانوں کا خون چٹا، یہ لعل تجھے مل جائے گا۔‘‘
درزن تڑپ کر بولی ’اے پیرو مرشد میں ایک سیدھی سادی عورت ہوں یہ مجھ سے ممکن نہیں ہے۔‘‘
تب بزرگ پیر و مرشد فرماتے ہیں:
’’تاریخ میں سب کچھ ہر ایک سے ممکن نہیں ہوتا۔ تاریخ جب چالیس ہزار نیزہ کھانے والے پیدا کرچکتی ہے تب ایک نیزہ مارنے والا پیدا کرتی ہے۔‘‘
اس افسانے کی تفصیل بتانے کا مقصد عورت کا کردار ہے جو پوری حکایت کو بیان کرنے اور اختتام کوپہنچانے کا ذریعہ بنی ایک بے مثل کردار۔
اسی طرح طارق چھتاری کا افسانہ ’باغ کا دروازہ‘ افسانہ یوں تو مختصر ہے لیکن اس ایک افسانے میں کئی افسانے موجود ہیں۔ اصل کہانی دادی سنا رہی ہے۔ داستانی فضا ہے، شہزادہ ہے، شہزادی ہے، بادشاہ ہے، پورے افسانے میں مافوق الفطری عناصر موجود ہیں۔ لیکن دادی جو ہمارے اسلاف کی نشانی سے ہماری خاندانی وراثت ہے۔ دادی سے قصہ سننے والا پوتا نوروز ہی کیوں ہے؟ دراصل یہ افسانہ پرانے باغ کے اجڑنے سے نئے باغ کے آباد ہونے تک کا تسلسل ہے۔ جسے دادی نے بہت حسن و خوبی سے رک رک کر ’ہزار برس‘ کی اس داستان کو اپنے لفظوں میں بیان کیا ہے تاکہ یہ باغ پھر سے آباد ہوسکے ہماری پرانی تہذیبی تاریخی وراثت کا باغ۔
غرض یہ عورت وہ دادی ہو یا نانی وہ ہمارے قصے اور کہانیوں کا ایسا کردار ہے جس کے بغیر تمام داستانیں تمام کہانیاں ادھوری ہیں۔ نامکمل ہیں۔ یہ ہمارا باغ ہمارا شہر ہماری دنیااستعارہ ہے ہماری پرانی تہذیب کا جو دادی کی زبانی نئی نسل میں منتقل ہورہا ہے اور اس کے ذریعے دوبارہ آباد ہوگا۔ پھول کھلیں گے اور گلشن مہکیں گے۔
تقسیم ملک کے واقعات پر بہت کچھ لکھا گیا۔ بہت خوب لکھا گیا۔ جوگندرپال، ہرچرن چاؤلہ، ستیش بترا، حیات اللہ انصاری، رتن سنگھ، بیدی اور منٹو قرۃ العین حیدر اور بہت سے اس وقت کے وہ قلم کار جنھوں نے جاگتی زندہ آنکھوں سے سب کچھ دیکھا اس ظلم و بربریت اور سیاسی بدلاؤ کو برداشت نہیں کرسکے اور خون کے آنسو روتے رہے اور اپنے دل کی اس آگ کو پانیوں میں بھی لگاتے رہے۔ ’پانی کو لگی آگ ‘اسی درد کی آگ ہے ۔ ’جب پنجاب کے دونوں طرف کے لوگ آزاد ہونے کے جوش میں مذہبی جنون کا شکار ہوگئے تو انھوں نے دیکھتے ہی دیکھتے اس لڑکی کے ماں باپ تاؤ چاچے بہن بھائی، دادا دادی، کل ملا کر اٹھارہ کو قتل کردیا۔ کسی کی تلوار اس کی گردن پر چلنے ہی والی تھی کہ کسی کی نظر اس کی سونے کی طرح دمکتی جوانی پر چلی گئی۔ اس نے لوٹ کے مال کی طرح اسے اپنے کندھے پر اٹھایا اور گھر لے آیا او رپھر اسے اپنے مذہب میں شامل کرکے اس کا نام بدل دیا۔‘‘ اس واقعہ کو اتنا وقت گزر گیا کہ انیس برس کی یہ لڑکی آج چوراسی برس کی ہوگئی۔ اس نے اس مذہب اس نام اور اس ملک کو قبول کرلیا اور واپس جانے سے انکار کردیا۔ اتنے برس بعد سارا خاندان اس عورت کے پردادی بننے کا جشن منانے کے لیے جمع ہوا۔ بہو بیٹیاں لڑکیوں کی ٹولیاں گِدھا گارہی ہیں خوشیاں منا رہی ہیں۔ نوعمر لڑکے لڑکیاں دادا دادی کو بھی بولیاں گانے کے لیے گھسیٹ لیتے ہیں لیکن اس کا ختتام اتنا دردناک ہوگا کہ رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے کسی نے نہیں سوچا ہوگا... اتنے برس بعد اس آگ کے شعلوں نے سب کچھ ختم کردیا۔ اس پڑدادی کے اندر کی آگ اس وقت بھڑک اٹھتی ہے جب گدھے کی بولیاں گائی جارہی ہیں دادی کے پیار میں دادے ہاتھ اٹھا کر دادی کی طرف لہراتے ہوئے بولتاہے:
’’تینوں چک کے اساں نے آونا...نی روپ دیتے بند بولتے‘‘
’’یعنی تو روپ کی بند بوتل ہے۔ تمھیں اٹھا کر ہم لے آئیں گے۔‘‘
دادا کے منہ سے یہ بولی سن کر مردوں کی ٹولی میں قہقہے بلند ہوگئے۔ لیکن دادی کا چہرہ مرجھا گیا۔ دادی تو خاموش ہی رہی لیکن اس بولی کا جواب لڑکیوں کی ٹولی سے ایک لڑکی نے یوں دیا۔
’’میرے روپ نہ ہتھ نہ لاویں...وے پانیاں نوں آگ لگ جاؤ۔‘‘
’’یعنی میرے روپ کو ہاتھ نہ لگانا۔ ایسا کیا تو پانی کو آگ لگ جائے گی۔‘‘ دادی کے دل کو لگی آگ بھڑک بھڑک کر شعلے دینے لگی اور وہ سو چنے لگی سنہ سینتالیس میں ہزاروں لاکھوں لڑکیوں کی آبرو لوٹی گئی تھی، تب تو پنجاب کے سارے پانیوں کو آگ لگ گئی ہوگی دادی سوچوں میں ڈوب گئی۔ اس کی آنکھوں میں قتل کا سارا منظر گھوم گیا۔ دادی بڑے پیار سے سوئیاں بناتی ہے اور کھانے کے بعد کٹوریاں بھر بھر سب کو کھلاتی ہے۔ تھوڑی دیر بعد آنگن میں اٹھارہ لاشیں بچھی پڑی ہیں اور دادی انھیں ایک ٹک دیکھ رہی ہے۔ عورت کے ایسے کردار کو رتن سنگھ ہی تخلیق کرسکتے ہیں۔ درد بے آواز ہوتاہے۔
عورت جس کو اپنا سمجھتی ہے جس سے پیار کرتی ہے اس پر اپنا سب کچھ نچھاور کردیتی ہے۔ وہ قدرتی طور پر اتنی معصوم ہوتی ہے کہ جو اسے بھا جائے زندگی قربان کردے گی۔ لیکن جو زبردستی اس کی عزت کو روندے اس کے جذبات اس کے کنوارپن اس کی غربت کے ساتھ کھلواڑ کرے وہ اسے کبھی معاف نہیں کرتی۔
’سلگتے لمحوں کا حساب‘ محمود بشیر مالیرکوٹلوی کا ایک ایسا ہی افسانہ ہے۔ پندرہ برس کی معصوم الھڑ نیلما جو گاؤں کے زمیندار کے شرابی بیٹے کی ہوس کا نشانہ بن جاتی ہے اور پھر اسے گاؤں سے شہر اور پھر بازار تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ آخر کار اپنا انتقام لیتی ہے:
’’میں نے اپنے جسم میں روزبروز پھیلتی ہوئی اس بیماری کا زہر تمھارے جسم میں بھی داخل کردیا ہے۔ اب تم بھی میری طرح ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مروگے۔ افسوس صرف اتنا ہے کہ تمھارے مرنے کا تماشا میں نہ دیکھو سکوں گی کیونکہ مجھے تم سے پہلے ہی زندگی سے نجات مل جائے گی۔‘‘
دوسری طرف قاضی مشتاق احمد کا افسانہ ’سب جائز ہے‘ کی عورت منی ٹھاکر شہرت عزت اور مرتبہ پانے کے لیے ’’جنگ محبت اور سیاست میں سب جائز ہے‘‘ کے اصول کو اپناتی ہے۔لیکن سیاست میں اپنا سکہ چلانے کے لیے اس نے نریندر سے شادی کر لی۔ دونوں ہی الیکشن کے امیدوار تھے دونوں ہی ایک دوسرے کے لیے اپنا نام واپس لینا چاہتے ہیں۔ نریندر کو جب منی ٹھاکر کے نام واپس لینے کا علم ہوا تو نریندر نے سوچااس کا خیال غلط نکلا یہ تو پوری بھارتیہ ناری نکلی۔ دوسری طرف منی اپنے ورکروں کو سمجھا رہی تھی ’’میں نے اسے اسمبلی میں بھیج کر اپنے لیے پارلیمنٹ کا راستہ صاف کرلیا ہے۔‘‘
ہمارے ملک اور سماج میں اس طرح کے سیاسی کھیل کوئی نئی بات نہیں۔ قلمکار تو انھیں صرف ایک کہانی کی شکل دیتا ہے۔ یہ تو عورت کے دماغ کا کھیل رہا... جو کم ازکم جائز رہا۔ لوگ سیاست میں بڑی بڑی گھناؤنی اور ناجائز راہیں بھی اختیار کرلیتے ہیں۔ قاضی مشتاق کا یہ افسانہ بہرحال عورت کو محفوظ رکھتا ہے۔ ورنہ زندگی کی بازی جیتنے کے کھیل میں لوگ سب کچھ ہار جاتے ہیں۔
ساجد رشید کا افسانہ ’بادشاہ بیگم اور غلام‘ اسی ہار جیت کی بازی ہے۔ بیگم اس کااہم کردار ہے۔ اس طرح کی بیگمات ہمارے سماج میں،گناہ کی دنیا میں بھیس بدل بدل کر زندہ ہیں۔
سعادت حسن منٹو کی ’شکاری عورتیں‘ بھی عورت کے ایسے ہی کردار کو پیش کرتی ہے جو مرد کی تلاش میں رہتی ہیں جن میں کچھ جنسی ناآسودگی میں مبتلا ہیں کچھ مالی ضروریات کی وجہ سے کچھ اس کو پیشے کی طرح اختیار کیے ہوئے ہیں۔
افسانہ نگار سماج خاندان فرد اور تمام دنیا میں پھیلے جرم نقص اور عالمی منظرنامے پر نظر رکھتا ہے لیکن اکثر ہوتا یہ ہے کہ جو حادثات واقعات گہرے نقش چھوڑتے ہیں ان پر وہ بار بار لکھتا ہے۔ تقسیم ملک، زمیندارانہ نظام، فسادات، ہجرت، ان سب موضوعات پر بہت لکھا گیا ہے۔ یہاں چونکہ افسانے میں عورت کا ذکر، عورت کے کردار کا ذکر، عورت کی کجروی کا ذکر ہورہا ہے۔ تو واجدہ تبسم کے افسانے کی عورت کا ذکر بھی کرتے چلیں۔ واجدہ تبسم نے ایک خاص طبقے کو اپنے افسانوں کے موضوعات میں برتا۔ نوابوں کے شب و روز، عیش پرستیاں، عیاشیاں، جنسی کجروی، جنسی بے راہ روی، عورت کا استحصال، عورت کے ذریعے عورت کا استحصال وغیرہ بلاشبہ انھوں نے افسانہ نگاری میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا اور اس روایت کو ہمارے دوسرے قلمکاروں نے بھی آگے بڑھایا۔ ’اترن‘ عورت کے ذریعے عورت کے استحصال کا افسانہ ہے۔ اور غور سے دیکھیں تو ایسا انتقام ہے جو پوری زندگی اذیت پہنچاتا رہے گا۔
ایک عورت کا ایک عورت سے انتقام... جو صرف زمیندارانہ نظام اور شہزادی پاشا کے اس تکبر کے سبب ہوا جو ان کے خون میں رچا بسا تھا انھیں شاید ان کی دی ہوئی اترن کو پہننے والے کی تِل تِل مجروح ہوئی روح کے کرب کا اندازہ ہی نہیں تھا۔
زمیندارانہ نظام میں عورت کے ہی استحصال پر لکھا گیا افسانہ قمر جمالی کا ’فولاد‘ ہے۔ افسانے کا اہم کردار گلابو ہے۔جو زمینداروں کے ظلم و بربریت کے بعد وہ کوٹھی چھوڑ دیتی ہے۔ کوٹھی میں اس کا جسمانی استحصال ہوتا ہے وہ کوٹھی چھوڑتے ہوئے کہتی ہے :
’’چل بابا... اب اس حویلی کی اونچی دیواروں کے سایہ میں میرا دم گھٹتا ہے۔ میرے اندر جو جان جنم کے لیے بے چین ہے وہ ایک اور گلابو نہیں ہوگی، بلکہ فولاد ہوگا... جو رہتی دنیا تک ہماری رگوں میں لاوا بن کر بہتا رہے گا اور اسے کھلے آسمان کے نیچے جنم لینا ہوگا۔‘‘
گلابو کی یہ ہمت یہ بہادری خودداری اعتماد اور چیلنج ایک نئی عورت کو جنم دیتا ہے۔ قید کی زنجیروں کو توڑ کر قدم باہر نکالنے کی تحریک دیتا ہے۔ کھلے آسمان کا استعارہ ایک نئے نظام کا اعلان ہے جس میں عورت کی خودمختاری ہوآزادی ہو۔
زمیندارانہ نظام کی بیگمات کا اگر نفسیاتی مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے اندر کا ظلم و ستم جو وہ دوسروں پر ڈھاتی ہیں دراصل ان کے خود کے حالات کی دین ہے۔ وہ بھی اس کو روا رکھنے میں خود کو مجبور اور بے بس پاتی ہیں۔ ان کا فرسٹریشن ہے ان کا احساس کمتری ہے جس میں کمزور، مجبور اور ناتواں پستے ہیں۔
جیلانی بانو کے افسانے ’ادّو‘ کا معصوم ادّو بھی اس کا شکار ہے۔ ادّو غریب ہے لیکن ایماندار ہے۔ صرف ایک روپیہ کے خاطر بیگم صاحبہ کی عدالت میں وہ جھوٹا اور چوٹّا قرار دیا جاتا ہے۔
انجم عثمانی کا افسانہ ’سیمینار جاری ہے‘ کی مسز خان بھی ایک ایسی ہی مردہ ضمیر کی زندہ عورت ہیں، جو محفلوں میں فنکشن میں تو سماجی برابری کی باتیں کرتی ہیں لیکن خود اپنے گھر میں آٹھ دس برس کے ملازم پر ظلم کرتی ہیں۔
جس طرح عورت کے انیک روپ ہوتے ہیں اسی طرح ظلم و ستم کے بھی انیک روپ ہوتے ہیں کہیں عورت ظلم سہتی ہے کہیں ظلم کرتی ہے کہیں وہ بالادستی کا شکار ہوتی ہے تو کہیں بالادستی حاصل کرتی ہے اس میں عورت کبھی کبھی یہ بھی بھول جاتی ہے کہ وہ خود پر ہی ظلم کررہی ہے۔ آج جس دیدہ دلیری سے نسائی نطفے کا قتل ہورہا ہے اس میں ذمے دار مرد تو ہے ہی عورت بھی برابر کی شریک ہے۔ ترقی پسندی کے اس دور میں خوبصورت بیوی بھی ترقی کی ضامن سمجھی جانے لگی ہے دونوں طرح نسوانیت کا خون۔ تعلیم یافتہ لڑکیاں اپنی آسائشوں کی خاطر آج ہر خطرہ مول لینے پر آمادہ رہتی ہیں۔ جیلانی بانو کا افسانہ "Specimen Box" مادہ جنین کشی کا ایسا دکھ بھرا احساس ہے جس سے اندر ہی اندر عورت کی روح تڑپ رہی ہے۔
سلام بن رزاق کا افسانہ ’آواز گریہ’ کی زینب اپنی ذہنی جسمانی اور نفسیاتی خواہشات کی تکمیل کو محبت سمجھ بیٹھتی ہے۔ لیکن دونوں مقام پر ناکام ثابت ہوتی ہے۔ شوہر کے ساتھ رہ کر پرانے عاشق سلیمان کے ساتھ بے وفائی کی اور شادی کے بعد پرانے عاشق سے جسمانی رشتہ برقرار رکھ کر شوہر کے ساتھ بے وفائی کی۔ لیکن افسانہ عشق محبت اور بے وفائی کا نہیں ہے۔ عورت اور مرد کی جنسی نفسیاتی کی گہرائی کے فرق کا ہے۔ بیوی کی بے وفائی واحدمتکلم کو موت تک پہنچا دیتی ہے۔ یہ موت اسے تیسری آنکھ عطا کرتی ہے اس تیسری آنکھ سے اپنی موت پر روتے بلکتے اپنی بیوی کو دیکھتا ہے جو روتی پیٹتی ہے چوڑیاں توڑ دیتی ہے۔ منگل سوتر نوچ کر پھینک دیتی ہے۔ لیکن یہ سب تو اسے جھوٹ اور اداکاری کے سوا کچھ نہیں لگتا۔ یہ تیسری آنکھ اب بھی اس کی چھاتیوں کا گداز پن دیکھ رہی ہے کیوں؟؟
عورت کیا ہے؟ ممتا، محبت، آسودگی، قربانی، خدمت، ضبط، دعا، حسن، رعنائی، نغمہ اس میں اور بہت سی صفت جوڑی جاسکتی ہیں لیکن عورت کی مکمل شخصیت کے بیان کے لیے پھر بھی ناکافی ہیں۔ ان مرقع خوبیوں سے لبریز عورت کی جیتی جاگتی تصویر ہمارے آپ کے گھروں میں کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہے۔ کہیں خورشید اکرم کی ’بڑی اماں‘ کے روپ میں تو کہیں فیاض رفعت کی ’سونالی‘ کے روپ میں تو کہیں ترنم ریاض کے یہاں ماں کے روپ میں۔
ترنم ریاض کے یہاں عورت کی کئی مثالیں ماں بہن بیوی اور بیٹی کے روپ میں اپنے حصے کا دکھ درد سمیٹے ہوئے موجود ہیں۔ ایسا یقین بھی تھا اور خیال بھی کیا جاتا تھا کہ عورت کی معصومیت اور تعلیم کی کمی اس کے استحصال کی راہیں ہموار کردیتی ہے لیکن موجودہ دور میں پڑھی لکھی اعتماد سے بھرپور ایک بہتر حیثیت اور مرتبہ حاصل کرلینے کے بعد بھی کتنی آسانی سے وہ ظالم مرد سماج کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ دولت کے حصول کے لیے۔ شمیم نکہت کا افسانہ ’بیمہ‘ کی شاردا بھی روزانہ جہیز اور دولت کی بھینٹ چڑھتی لڑکیوں میں سے ایک ہے۔ شاردا ایک کمپنی کی ڈائرکٹر ہے مزاج سے نرم زبان سے شیریں، کام اور محنت پر اعتماد رکھنے والی۔ ہر ایک پر شاردا کی شخصیت کا جادو چل جاتا تھا۔ وہ دفتر میں ہر ایک کی ہر دل عزیز تھی۔ پولس افسر وکرم سے اس کے والدین اور شاردا کی رضامندی سے شادی طے ہوئی اور دونوں رشتۂ ازدواج میں بندھ گئے۔ شوہر کی محبت اور اپنائیت نے تمام تکلف اور رازداری کے پردے ہٹا دیے۔ شار دا کے بنک اور بیمہ کے کاغذات نے شوہر کے اندر لالچ کے بیج بو دیے۔ اپنے شوہر وکرم کے ساتھ کشمیر گھومنے گئی شاردا جنگل سے مری ہوئی ملتی ہے۔ آخر شاردا کا قصور کیا تھا؟ شوہر پر یقین کرنا؟؟
صغریٰ مہدی کا افسانہ ’سمجھوتہ‘ کی عورت اپنے وطن اور اپنی مٹی سے محبت کرتی ہے اور دولت و ترقی کے بعد بھی اپنی تہذیب و تمدن سے جڑی ہوتی ہے۔
اپنی زمین، اپنی مٹی، اپنی تہذیب، اپنے ملک اور قدروں سے جڑے رہنے کا احساس، اندر ہی اندر شدت پکڑتا رہا۔ وہ اوپری اوپری خود کو خوش رکھنے کی کوشش کرتی رہی۔ سمجھوتے پر سمجھوتے کرتی رہی خوشیوں اور ضرورتوں پر قربان ہوتی رہی لیکن اب پیمانہ لبریز ہوگیا تھا۔ اب سوال آبرو کا تھا اپنی، اپنے بزرگوں اور خاندان کی۔ اس کے لیے اماں سمجھوتہ نہیں کرسکیں۔ روح کے زخمی ہونے کی تڑپ نے انھیں اندر سے لہولہان کردیا۔
دراصل عورت احساس کی ایک ایسی دہلیز ہے جس سے گزرے بغیر کوئی راستہ کسی بھی رشتے تک پہنچ ہی نہیں سکتا۔ عورت کے نازک احساسات ہی رشتوں کی کڑیاں جوڑنے کا کام کرتے ہیں۔ ذکیہ مشہدی کا افسانہ ’میراث‘ عورت کے اسی جذبے کی عکاسی کرتا ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے اور تقسیم ہند کے بعد رونما ہونے والے حادثات اور واقعات رِستے ناسور او ر پنپتے زخم اور کرب کیا سرحدوں پر لائن کھینچنے سے ختم ہوجاتے ہیں۔ نہیں مرے ہوؤں کا چھوٹنا اور زندوں کا بچھڑنا اس افسانے ’میراث‘ میں نئے سرے سے رشتوں کا آغاز عورت کے ہی ذریعے ہوتا ہے۔
نئی نسل نیا زمانہ نیا ماحول جدید تعلیم لیکن آج بھی عورت اس میں کہاں ہے۔ کس مقام پر ہے۔ اس کی کیا حیثیت ہے۔ ذکیہ مشہدی کی کہانی ’حصار‘ میں ایسی ہی عورت فرح خان زندگی جینے کا حق مانگتی ہے۔
اقبال مہدی کی ’منجھلی دلہن‘ بھی زمانے سے لڑتی جوجھتی ایسی ہی عورت کا روپ ہے۔
نعیم کوثر کا افسانہ ’رتی لال‘ کی پری بیگم بھی مظلوم عورت کی بہترین مثال ہے۔
یہ افسانہ حالانکہ رتی لال کا ہے لیکن بات چونکہ عورت کی ہورہی ہے تب پری بیگم کا اپنے گھر میں ہوئے چیر ہرن کا ذکر کیسے نہ کیا جائے کہ بڑی بھابی تو ماں کی طرح ہوتی ہے۔ اپنے ہی گھر کی چہار دیواری میں اپنوں سے لٹنے والی پری بیگم خود اپنا بھی سامنا نہیں کرسکیں اور انھیں زہر کھانا پڑا اور وہ رتی لال جوان کی ایک جھلک دیکھنے کی خواہش لیے زندہ تھا پری بیگم کو دیکھا تو کس حال میں...؟؟ پری بیگم تو چلی گئیں۔ لیکن وہ اردو افسانے میں ایسا نقش چھوڑ گئیں جس کا مٹنا ناممکن ہے۔ ’کھول دو‘ کی ’سکینہ‘ کی طرح۔
عورت کب کب کہاں کہاں کیسے کیسے مرتی ہے۔ کبھی وہ مر کر زندہ رہتی ہے کبھی زندہ رہ کر بھی مری ہوتی ہے اور کبھی اس کی صورت ان دونوں سے مختلف۔
پیغام آفاقی کا افسانہ ’پیتل کی بالٹی‘ کی وندنا ایک ایسی عورت ہے جو اپنے ہونے کا ہر وقت اعلان کرتی رہتی ہے۔ عورت کے نامکمل وجود کا کرب اسے چین سے جینے نہیں دیتا۔
نورالحسنین کا افسانہ ’زہر‘ بھی ایک ایسی ہی اوشا کی کہانی بیان کرتا ہے۔ زندگی کی مایوسیوں کو خاموشیوں، ویرانیوں کو ایک بچے کی کلکاری سے پُر کرنے کے بے شمار جتن کے باوجود خدا کی سنگدلی کو وہ اپنا نصیب سمجھ کر نئے سرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہے کہ درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہوجانا اور راجندر اس کا پورا ساتھ دیتا ہے:
’’دیکھو... میاں بیوی کا رشتہ محض میاں بیوی کا نہیں ہوتا... وہ جہاں ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں وہیں ایک دوسرے کے سر پرست بھی ہوتے ہیں... اور میں کہتا ہوں وہ ایک دوسرے کے لیے بچے بھی ہوتے ہیں... ٹھیک ہے ہمیں کوئی بچہ نہیں ہے... ناسہی لیکن کیا اس کے انتظار میں ہم ایک دوسرے کو یہ سکھ بھی نہیں دے سکتے؟‘‘ ’زہر‘ کا راجندر ’پیتل کی بالٹی‘ کے روی سے ذرا مختلف ہے، اسی طرح ’پیتل کی بالٹی‘ کی وندنا بھی ’زہر‘ کی اوشا سے مختلف ہے۔ درد مایوسی محرومی خواہش دونوں کی ایک ہی ہے۔
مشرف عالم ذوقی کی ’کاتیائن بہنیں‘ رما کاتیائن اور ریتا کاتیائن ایک ظالم شرابی تشدد پسند جنگلی باپ کو جس میں انسانیت نام کو نہیں تھی دیکھتے دیکھتے سہم سہم کر بڑی ہورہی تھیں۔ دونوں بہنوں کی زندگی میں ویرانی کی ایک لمبی تاریخ تھی۔ ماں ساری ساری رات روتی سہمی سہمی گائے کی طرح یا پھر معصوم میمنے کی طرح جسے وہ جنگلی باپ تھوڑا تھوڑا کرکے ذبح کرتا رہا۔ ماں کے روپ میں انھوں نے ایک مظلوم عورت دیکھی اور باپ کے روپ میں ظالم جابر جنگلی مرد۔ باپ کے گھر میں داخل ہوتے ہی دونوں تھرتھر کانپنے لگتی تھیں۔ انھیں باپ کی پرچھائیں سے بھی ڈر لگنے لگا تھا۔ خو ف کے کسی نازک پل میں وہ دونوں ایک دوسرے میں سما جاتیں۔ اور پھر ایک دن خوشیوں بھرا دن ان کی زندگی میں آیا۔ ایک پاگل سانڈ نے ان کے شرابی باپ کو پٹخ دیا۔ باپ کا خون بھرا جسم دروازے میں پڑا ہے اور محلے کی بھیڑ جمع ہے۔ ماں اس دن کتنی شانت اور خوبصورت لگ رہی تھیں... جب سب غم ظاہر کرکے چلے گئے تو وہ ہنس رہی تھیں... اور پھر جب تک ماں زندہ رہی بیٹھی بیٹھی ہنستی رہی۔ مرتے وقت بھی اس کے ہونٹوں پر ہنسی موجود تھی۔ ایک عورت کی موت زندہ رہ کر بھی مر کر بھی۔
کاتیائن بہنیں کسی مرد کے سامنے میمنہ یا گائے بن کر جینا نہیں چاہتی تھیں اس لیے انھوں نے اپنی ایک الگ دنیا آباد کرلی۔ فینتاسی کی دنیا میں لِسبِین بن کر اپنے جسم کا تندور ٹھنڈا کرتے کرتے عمر کے آخری پڑاؤ میں پہنچ گئیں۔ وہ بتا دینا چاہتی تھیں کہ ’عورت اپنے آپ میں مکمل ہوتی ہے اسے مرد کی ضرورت نہیں ہے۔‘ مردوں کی حاکمی کو للکارنے والی دونوں بہنوں کی کہانی انھیں حالات کے بطن سے پیداہوئی۔
اسلم جمشیدپوری کے افسانے ’پینٹھ‘ کی سیما سماجی اور تہذیبی روایتوں کی آڑ میں بازار کی ایک شے بنتی جارہی ہے۔ جانور سے بھی بدتر شے۔ وہ عمر کی ستائیسویں برس کو پہنچ چکی تھی۔ اور یہ اس کا اٹھارہواں رشتہ آیا تھا۔ ہر کوئی بازار میں بکاؤ شے کی طرح چال ڈھال رنگ روپ قد، تعلیم، گھریلو کام او رہنر دسیوں سوال کیا کچھ نہیں پوچھا اور دیکھا گیا۔ اس نے اب تک جتنے لڑکے دیکھے تھے سب کسی نہ کسی زاویے سے نامکمل تھے لیکن وہ اپنے والدین کی پریشانی محسوس کرتے ہوئے خاموش تھی۔ لڑکے والے آتے ضیافتیں ہوتیں اور سیما کبھی عورتوں کے درمیاں تو کبھی مردوں کے درمیان تیرِ نظر سے چھلنی ہوتی رہی لیکن اس مرتبہ سوال کرنے والی خود سیما تھی۔ تعلیم؟ ملازمت؟ ملازمت میں عہدہ؟
مرد اساس معاشرے میں مرد ذات سے زخمی ہوتی عورت تبسم فاطمہ کے افسانہ ’جرم‘ میں دیپا کے اندر دیکھنے کو ملتی ہے۔ ’عورت‘ اسے خود سے شدید نفرت کا احساس ہونے لگا۔ اس نے ایک ایسے مرد سے شادی کی تھی جس کے خیالات اس کے ہم آہنگ تھے۔ جو عورت کو ایک نئی پریبھاشا دینا چاہتا تھا۔ دیپا کے ساتھ مل کر ’’دیپا ہم ہمیشہ دوست رہیں گے جیسے دو دوست رہتے ہیں‘‘ دوست؟؟ تین صرف تین سالوں میں زندگی کا حسین فلسفہ بدل کر اتنا بدصورت کیسے ہوگیا؟؟ وہ بدل رہا تھا۔ اس کے بدلنے سے دیپا ٹوٹتی جارہی تھی۔
’’تم پھیل رہی ہو... تم سوٹ مت پہنا کرو... تمھارا جسم کافی پھیل گیا ہے۔ کولہے..... سینہ.... پشت کا حصہ تم بہت بھدی ہوتی جارہی ہو...
’’عورت نو ماہ مرد کی جبلت کو اپنی کوکھ میں سنجوتی ہے اور بدن پر بھدے نشاں ابھار لیتی ہے... عورت اگر بھدی ہوتی ہے تو اس میں کس کا ہاتھ ہوتا ہے۔‘‘
الیشا کی پیدائش کے بعد ہی ہوا تھا... محبوبہ اور دوست سے جانگھوں والی عورت بننے پر وہ شرم محسوس کررہی تھی۔ لیکن وہ ہارنا نہیں چاہتی... فاتح بننا چاہتی ہے... زندگی کے ہر موڑ پر۔
مرد آخر اتنا کمینہ کیوں ہوتا ہے؟ شاید ہر مرد کے اندر ایک Sadist مرد چھپا رہتا ہے اور وہ جیسے جیسے عورت کو پراعتماد مکمل اور مضبوط دیکھتا ہے اس کا Sadist مرد باہر آنے لگتا ہے۔ غزال ضیغم کی ’نیک پروین‘ شوہر کا ہر طرح کا دیا دکھ سہتی رہی اور اسے خوش کرنے کی کوشش کرتی رہی کیونکہ وہ اس کا شوہر تھا۔ ’’جب آرسی مصحف کے وقت اس کی شکل دیکھی تھی ایک دم معصوم۔ حیرت سے اُداس آنکھیں ایک ٹک آئینے میں دیکھ رہی تھیں...‘‘
’’انسان کے اندر کتنے غار چھپے ہوئے ہیں؟ کتنے روپ؟‘‘
بہت جلد ملمع اترنے لگا پرت در پرت۔ چھ مہینے سے زیادہ دوستی وہ کسی لڑکی سے نہیں رکھتا تھا۔ ایک رات وہ رات بھر نہیں آیا۔ بچہ سخت بیمار تھا۔ شکایت کرنے پر اس نے جواب دیا ’’بچہ تمھاری ذمے داری ہے، تم نے پیدا کیا ہے اپنی خوشی سے۔ میں نے تو منع کیا تھا۔‘‘ بہت کچھ سہنے کے بعد نیک پروین نے نیکی کا لبادہ اتار دیا۔ اچانک وہ بہت میچور ہوگئی۔ بالوں کی تراش خراش لباس فیشن... پارلر... ریستوراں... موسیقی... مستی اور خوشی۔
بچے کو کریچ میں ڈال کر وہ باقی کاموں سے بھی بچ گئی تھی۔ رونے گڑگڑانے کے بجائے اس نے خود کو بدل لیا ... وہ اب بے پروائی سے کھاتی پیتی اور گھومتی اپنی سہیلی کے ساتھ فلم فائر دیکھنے چلی جاتی۔ اس کی نظر میں یہی اس کا جواب تھا۔ فلم ’فائر‘ کا دیکھنا ہی اس کی بغاوت کا کھلا اعلان ہے۔ ثروت خاں کا افسانہ ’میں فرد ماربھلی‘ میں کانسٹبل کیرتی اپنی سہیلی سنبل کو شوہر سے پٹتے دیکھتی ہے تو ششدر رہ جاتی ہے۔ اس کے اپنے زخم بھی تازہ ہوجاتے ہیں جہاں اس کی ماں پٹتی تھی ظالم باپ مارتا تھا۔ پتی پرمیشور... لاتیں ... گھونسے۔ دہاڑتا باپ۔ بلکتی ماں اور اس کا ننھا وجود۔ کیرتی کے اندر ایسے مردوں کے خلاف بغاوت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور وہ خود کو روک نہیں پاتی اپنے کانسٹبل ہونے کا حق ادا کرتی ہے۔ ’حسن کے معیار‘ میں شوہر رام اپنی کامیابی کے لیے اپنی بیوی سیتا کو استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتا۔ لیکن جب عورت کے ضمیر کو چوٹ پہنچتی ہے تو اپنا سب کچھ شوہر پر قربان کرنے والی عورت باغی بن کر بدلا بھی لے سکتی ہے۔
اقبال انصاری کی ’عورت‘ صادقہ نواب سحر کی ’راکھ سے بنی انگلیاں‘ کی ’تبسم زیدی‘ شائستہ فاخری کے ’پرآشوب موسم‘ کی ’بلقیس‘ اختر آزاد کے شدھی کرن کی ’عورت‘ تبسم فاطمہ کے ’حجاب‘کی ’نجمہ باجی‘ سلام بن رزاق کے ’حلالہ‘ کی ’کلثوم‘ وغیرہ یہ وہ عورتیں ہیں جو زخمی ہوکر بھی اڑنا چاہتی ہیں۔ جو اپنے اندر ہواؤں کا رخ موڑنے کا عزم رکھتی ہیں۔
1970 کے بعد افسانوی ادب پر نمایاں یہ عورتیں ترقی یافتہ آزاد ملک کی عورتیں ہیں۔ یہ سچ ہے کہ عورت بدل رہی ہے۔ وہ جاگ رہی ہے۔ اس کی پروازِ فکر میں سنجیدگی اور احساسِ نظر میں بالیدگی نمایاں ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ اس کے قدم باہر نکل گئے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ وہ گھر اور باہر برابری کے درجے سے آج بھی محروم ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ عورت کا استحصال اس کے اپنے گھر سے ہی شروع ہوتا ہے۔ اسے آج بھی اپنے پیدا ہونے پر اختیار نہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ ان تمام استحصال کا ذمے دار مرد آج بھی نہیں بدلا۔ اس نے سماجی مذہبی سیاسی سارے قانون توڑے ہیں۔ ہمارے افسانوی افق پر یہ عورت بدلتے وقت کے ساتھ دیکھیے کس کس رنگ میں کیا کیا لے کر نمایاں ہوتی ہے؟؟ اس کے حوصلے اور عزم کے آگے کون کون پست ہوتا ہے؟؟ وقت ہی بتائے گا۔

Ms. Nigar Azeem
H-3, Batla House, Jamia Nagar,
Okhla New Delhi -110025 






قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں