7/3/19

قاضی عبدالستار کا ایک شاہکار تاریخی افسانہ مضمون نگار۔ مظفر حسین سید



قاضی عبدالستار کا ایک شاہکار تاریخی افسانہ
مظفر حسین سید

قاضی عبدالستار، اردو ادب کے اہم ترین تاریخی افسانہ و ناول نگار ہیں،جی ہاں! یہ دعویٰ درست ہے۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ اگر چہ اُردو کے کئی اصحاب قلم نے تاریخ کو افسانوی رنگ میں پیش کرنے کے لیے تاریخی ناول اور تاریخی افسانے رقم کیے ہیں، جن میں عبدالحلیم شرر، پریم چند، عزیز احمد، عصمت چغتائی اور قرۃ العین حیدر قابل ذکر ہیں، تاہم شرر کے علاوہ مذکورہ ادبا میں سے کسی نے تاریخ کو باقاعدہ اپنا موضوع نہیں بنایا۔ دیگر تمام اہل قلم نے ایک دو تاریخی افسانے ہی لکھے ہیں۔ا لبتہ عزیز احمد نے باضابطہ دو تاریخی ’ناولچے‘ تحریر کیے ہیں، جوبلاشبہ اعلیٰ پائے کے ہیں، لیکن انہوں نے تاریخی افسانہ نگاری کو اپنا مستقل شغل نہیں بنایا۔قاضی عبدالستار اس اعتبار سے سرفہرست ہیں کہ انہوں نے تاریخ کوباقاعدہ اپنا موضوع بنایا۔
تاریخی افسانہ نگاری (اور ناول نگاری) کے لیے شرط اوّل ایک اسلوب جلیل اور طرز نگارش ذی شان ہے، جس سے اگر افسانہ نگار محروم ہے، تو اس کے یہاں تاریخ زندہ و تابندہ حالت میں متشکّل ہوکر سامنے نہیں آسکتی۔ حسن اتفاق کہ ان ہر دو اوصاف سے قاضی صاحب کا قلم، روز اوّل سے مالا مال رہا ہے۔ ان کی غیر تاریخی نگارش تک میں اسلوب والا شان موجود ہے، پھر تاریخی افسانہ نویسی تو اس کی متقاضی بھی ہے۔
اگرچہ قاضی صاحب نے صرف تین عددخالصتاً تاریخی ناول، بہ عنوان: ’داراشکوہ،صلاح الدین ایوّبی اور خالدبن ولید‘، تخلیق کیے ہیں اور اگر ’غالب‘ کو سوانحی، ادبی ناول کے ہمرشتہ، تاریخی ناول بھی تسلیم کرلیا جائے تو یہ تعداد چار ہوجاتی ہے، بس، لیکن ان کے یہ تین (یا چار) ناول اردو کے تمام ترتاریخی ادب پر حاوی ہیں۔ جی ہاں، مولوی شرر سے بھی برتر۔ تاہم مزید بحث سے گریز، کیونکہ، سردست اس راقم بے قیر کا موضوع، قاضی صاحب کے ناول نہیں، بلکہ ان کے تاریخی افسانے ہیں۔ قاضی صاحب کے رقم کردہ تاریخی افسانے کم و بیش سات ہیں، جن کے عناوین یوں ہیں:’آنکھیں،بھولے بسرے، نیا قانون، سات سلام، غادرہ، چنگیز خاں کی موت اور لہو کا عطر‘، اس فہرست میں بلاشبہ ’آنکھیں اور بھولے بسرے‘ ان کے بہترین تاریخی افسانے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز بر آمدنہ کیا جائے کہ باقی پانچ افسانے، بہتر تاریخی افسانے نہیں ہیں، شاید یہ کہنا درست ہوگا کہ قاضی صاحب کا ہر تاریخی افسانہ، اپنی جگہ صدف ہے، بلکہ ان تمام افسانوں کو موتیوں کی ست لڑی کہا جائے، یا ہفت رنگ قوس قزح قرار دیا جائے، تو شاید غلط نہ ہوگا۔ (یہاں دیانت ادبی کے تحت، یہ صراحت لازم ہے کہ ان کے کم از کم ایک افسانے ’چینگیز خاں کی موت‘ میں ایک فاش تاریخی غلطی ہے، جو شاید صحیح مواخذ تک رسائی یا ان کے انتخاب میں کوتاہی کے سبب سرزد ہوگئی، مگر اس کے باوجود اپنے طرز نگارش کی اساس پر ’چنگیزخاں کی موت‘ بھی ایک عمدہ افسانہ ہے۔)
اگرچہ قاضی صاحب کے تمام، سات تاریخی افسانے اس امر کے متقاضی ہیں کہ ان کو زیر بحث لایا جائے۔ تاہم تنگئ قرطاس کے سبب سردست، اس کوتاہ قلم نے صرف ایک افسانے کو اس گفتگو کے دائرے ہیں رکھا ہے،جس کا عنوان ہے:’آنکھیں ‘۔ قدر معیار کے علاوہ اس کا ایک منطقی سبب یہ بھی ہے کہ یہ تاریخ کے ایک اہم دورسے تعلق رکھتا ہے، ’آنکھیں‘، کا پس منظرسلطنت مغلیہ کا دور زرّیں ہے، تاریخ کے ایک اہم عظیم دور،اس الشان سلطنت کے عہد عروج کے پس منظر میں رقم کیا گیا ہے۔
مذکورہ بالا تاریخی افسانے کا وصف اوّل یہ ہے کہ اس کا انداز بیان اور طرز نگارش، اپنے عہد کے ماحول سے مکمل تطبیق کا حامل ہے۔ یعنی’ آنکھیں‘ میں جاہ و جلال، و شان و شکوہ نمایاں ہے، اور یہ سب کچھ مکمل استدلال اور حقیقت نگاری کے ہم رشتہ ہے، نیز افسانہ نگار کا کمال یہ ہے کہ وہ کہیں خود نقیب وقت یا راوی کا کردار ادا نہیں کرتا، بلکہ تمام کوائف، پس منظر،پیش منظر،عصری ماحول یا خود کرداروں کی زبانی بیان ہوتے ہیں۔ نہ کہیں وعظ و پند ہے، نہ مرثیہ گوئی، بلکہ سب کچھ خود کار طور پر ہے، جیسے افسانہ نگار نہ تو تاریخ کا درس دے رہا ہے، نہ وقائع نگاری کررہا ہے، بلکہ وہ اپنے قاری کو تاریخ کے صفحات کی سیر اس اندازسے کراتا ہے کہ قاری، اسی عہد میں سانس لینے لگتا ہے اور اسلوب کا کمال یہ کہ قاری، محض قاری نہیں رہتا، بلکہ ناظر بن جاتاہے۔ یہی وہ وصف نادر ہے،جو قاضی صاحب کو اُردو کے دوسرے تاریخی افسانہ نگاروں سے ممتاز وممیّز کرتا ہے(یہاں اگر کوئی استثنا ممکن ہے تو عزیز احمد کا،مگر ان کا ذکر بھی تاریخی ناول نگاروں میں ہو تو بہتر ہے)۔ اس قدر ے طویل تمہید کے بعد، ان کے منتخب تاریخی افسانے کا جائزہ۔
’آنکھیں‘تاریخی افسانوں میں قاضی صاحب کا شاہکار علوی ہے۔ یہ افسانہ نہیں، اسلوب و انداز بیان کا ایسا نمونۂ عجیب ہے، جس کی مثال اُردو ادب میں تو خیر موجود ہی نہیں، انگریزی ادب میں بھی اس پائے کا تاریخی افسانہ دستیاب ہونا محال ہی ہے۔ ’آنکھیں‘ ایک ایسا ہیجان انگیز افسانہ ہے، جو قاری کو کئی شب ہائے دراز کے لیے، بے خواب کرسکتا ہے اور برسوں نہیں تو مہینوں، بے چین و مضطرب رکھ سکتا ہے( جن حضرات کو اس دعوے پر شک ہو اور انھوں نے یہ افسانہ پڑھانہ ہو، وہ راقم کو حکم فرمائیں، ’افسانہ آنکھیں‘، انھیں بہ تعجیل فراہم کردیا جائے گا۔ اغلباً یہ افسانہ، اوّلاً سہ ماہی’ نقوش‘ میں شائع ہوا تھا)۔
’آنکھیں‘ کا پس منظر عہد مغلیہ کا دور عروج ہے، اس کا ماخذ’ تزک جہاں گیری‘ اور اس کا مرکزی کردار شہنشاہ جہاں گیر خود ہے، اس افسانے کا کردار دوئم، ملکہ نور جہاں ہے، مگر اس کی حیثیت ایک صابر، سامع سانحات کی ہے۔ تاہم سب سے اہم، قدآور اور مضبوط کردار نواب صائمہ بیگم کا ہے، اس حد تک دراز کہ خود جہاں گیر اس کے سامنے کم قد نظر آتاہے، ایک ایسا کردار، جو قاری کے جذبات کو اوّلاً، مانند آتش بر انگیختہ اور بالآخرنہ صرف (قاری کے) جذبات بلکہ اس کے مکمل وجود کو مانند جلید، یخ کرکے رکھ دیتا ہے۔ باقی تمام کردار ثانوی ہیں، محض افسانے کی نشوونما میں مددگار کے طور پر۔
’آنکھیں‘، مکالمے اور تمثیل کے طرز پر رقم کیا گیا ہے، سارا واقعہ بلکہ، سانحہ، بہ زبان جہاں گیربیان ہوا ہے، جس کی سامع نور جہاں ہے اور جس کا فرض صرف مصرعہ اٹھانا اور صراحت طلب کرنا ہے۔ اس افسانے کا ایک وصف نادر یہ ہے کہ اس میں ایک جملہ بھی بطو رراوی، مصنف کے ذریعہ سپردقلم نہیں کیا گیا ہے، اس کے بادجود افسانہ کی ترسیل مکمل ہے اور قاری کو کہیں کسی تشنگی کا احساس نہیں ہوتا۔
مختصراً،’آنکھیں‘ کی کہانی یہ ہے کہ شہنشاہ جہاں گیر، اپنے سال جلوس دوم میں ایک عربی الاصل امیر سلطنت کی دختر نیک اختر، صائمہ بیگم پر اوّلین نظارے میں ہی عاشق ہوجاتا ہے، جس کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے شہنشاہ کی خدمت اقدس میں گلوریوں کا تحفہ پیش کردیا تھا۔ بقول جہاں گیر، صائمہ بیگم کے حسن و جمال کی مثال، تمام عالم میں موجود نہ تھی اور بالخصوص اس کی آنکھیں،ایسی بے نظیر تھیں کہ ان کا ثانی فرش تا فلک نظر نہ آسکتا تھا اور یہ رائے کسی کم فہم اور کم علم شخص کی نہیں، بلکہ شہنشاہ جہاں گیر کی ہے، جو نہ صرف صاحب علم و قلم بلکہ جمال پرستی اور قدر حسن میں ایک عالم میں یکتا۔ اس کے حرم میں ایک سے سوا دوسری حسینہ موجود ہے، مگر صائمہ بیگم کا حسن و جمال اس کے دل کو بے قرار، ذہن کو منتشر اور راتوں کو بے خواب کردیتا ہے۔ وہ اس عرب دو شیزہ کے نظر اوّل کے عشق میں ایسا گرفتار ہوتا ہے، کہ اس پر سارے جہان کی دولتیں نثار کرنے کا آرزو مند ہوجاتا ہے، مگر دوسری جانب صائمہ بیگم، ایک کوہ گراں اور بحر خاموش کا نام ہے، جسے نہ جاہ و جلال اور شوکت، نہ خدم و حشم کی طمع ہے، نہ ہی مراتب و تحائف کی تمناّ، اسے اپنے حسن بے مثال پر غرور ہونہ ہو، مگراپنے نسبی تبختر کا ایسا مستحکم احساس ہے کہ وہ کسی قیمت اور کسی شرط پر، اپنے افتخار نجابت کو قربان کرنے کو آمادہ نہیں۔ 
جب اسے یہ خبر مستند ملتی ہے کہ شہنشاہ وقت اس کے حسن بے مثل پر سو جان، اور ہزار مال سے عاشق ہے، بلکہ مائل بہ جنون ہے، تو وہ ایک ایسا اقدام انقلابی انجام دیتی ہے، جس کی ہمسری شاید دنیا کا کوئی’فیصلہ‘ نہ کرسکے۔ اوّلاً وہ شاہی قاصد کے ذریعہ حاضر کردہ خطاب،خلعت اور جشن سالگرہ کی دعوت شرکت کو بیک جنبش زبان نامقبول اور شہنشاہ کے خاموش پیام عشق کو بیک قدم پامال کردیتی ہے۔ دوئم، حکم شاہی کی تعمیل میں، رسماً حاضر بھی ہوتی ہے، تو اس طرح، جیسے سوالی سائل کے روبرو تو ہو، مگر محض اس کے اظہار طلب کو مسترد کرنے کے لیے اور جب اس پر یہ حقیقت آشکار اہوتی ہے کہ، دراصل جہاں گیر اس کی چشم ہائے بے بدل پر فدا ہے تووہ حتمی فیصلہ کرلیتی ہے اورحضور شاہی میں حاضری کا وعدہ، کہ تحائف شاہی کے جواب میں کوئی بے مثل تحفہ تو پیش کرنا ہی تھا۔ بہر کیف حاضری بھی ہوتی ہے اور آخری ملاقات بھی۔ مگر اس طرح کہ وہ شہنشاہ کی تمام تر عنایات خسروانہ کے عوض،اس کے روبرو ایک قدح سرخ پیش کرتی ہے، جس میں اس کی زندہ، تابندہ آنکھیں 151 جن کی رونق ابھی معدوم نہیں ہوئی151 جلوہ گرہیں، اس کے ہمرشتہ وہ، جو چند جملے شہنشاہ کی گداگری کے جواب میں، اسے بطور خیرات عطا کرتی ہے، وہ کرّۂ ارض کی سب سے ذی شان و ذی جاہ سلطنت کی بنیادیں متزلزل کرنے اور خود جہاں گیر کو، تازیست، مضطرب و بے قرار رکھنے کے لیے کافی تھے۔ یہ منظر قاضی صاحب کے قلم سے، بہ زبان جہاں گیر، ملاحظہ ہو:
’’مابدولت تخت سے اتر پڑے، دستگیری عطا کرنے کے بجائے اس کی نذر قبول کی، پیالہ ہاتھ میں آیا تو جیسے آنکھوں سے بصارت چلی گئی...پیالے میں اس کی دو آنکھیں تڑپ رہی تھیں... اس کی آنکھوں کے دیدے پیالے میں رکھے تھے، شہنشاہ کی پوری عمر میں آداب شہنشاہی کبھی اتنے بھاری نہ معلوم ہوئے، تاہم اس کا نقاب اٹھا دیا، آنکھوں کی جگہ دو سوراخ تھے، جن سے خون رس رہا تھا، زرد سنگ مرمر سے تراشا ہوا، چہرہ ساکت تھا۔ پائے مبارک میں جیسے کسی نے زنجیریں ڈال دیں... صرف اس قدر ادا ہوسکا، ’نواب صائمہ بیگم بہادر نے یہ کیا کرلیا‘... آواز آئی، ’شنہشا ہوں کہ پسند غریبوں کو زیب نہیں دیتی۔ناچیز کی آنکھیں جہاں پناہ کو پسند آگئیں، نذر میں گزاردی گئیں۔ کل کی گلوریوں کی طرح قبول فرمالیجیے‘۔ جب بھی تنہائی باریاب ہوتی ہے، جہاں گیر کی پیٹھ پر اس آواز کے تازیانے برسنے لگتے ہیں۔‘‘
قارئین نے ملاحظہ فرمایا، یہ تو صرف افسانے کے نقطۂ عروج کی عبارت ہے۔ حق یہ ہے کہ پورا افسانہ، اسی حسن ترقیم سے تموّل آمیز ہے۔ اب قاری کو چین نصیب ہو تو کیسے۔ بلا شبہ یہ قاضی صاحب کا بہترین تاریخی افسانہ ہے، جس کا جواب، خود ان کے یہاں بھی دستیاب نہیں۔
یہ تو ایک مثال دلخراش تھی۔ دراصل پورے افسانے میں مصنف کے اسلوب جلیل اور بیان پر شکوہ کے نمونے آویزاں ہیں، سطر در سطر پیوست ہیں۔ چند مثالیں حاضر ہیں:
جہاں گیر کی ذہنی کیفیت، ان جملوں سے عیاں ہے:
’’ہندوستان کے تخت پر جلوس کرنا آسان ہے، لیکن سچ بولنا دشوار ہے، دشوار تر‘‘۔
’’ یہ کیسی شہنشاہی ہے کہ ایک ایک جام کو ترستی ہے‘‘۔
’’زندگی کا صرف ایک نام ہے، جوانی، اور سلیم کی جوانی، دولت مغلیہ کے اوّلین صاحب عالم کی جوانی‘‘۔
صائمہ بیگم کے اظہار تکلّف کے جواب میں:
’’بے شک تحفۂ دردیش قیمت سے بلند ہوتا ہے۔ یہ موتی اس نفاست و نزاکت کی داد ہیں، جو ان گلوریوں میں مجسّم کردی گئی‘‘۔
چند بے مثل جملے مزید:
’’جب ہم نے چاہا کہ دل کی ویرانی کو شراب سے شاداب کرلیں، تو پہلی بار انکشاف ہوا کہ شراب نشے سے عاری ہوچکی‘‘۔
’’ہر چند کہ رات کی زلف کمر تک بھی نہ پہنچی تھی، (مگر) ہم بے طرح انتظار فرما ہوچکے تھے‘‘۔
’’وہ رات، زندگانی کی سب سے بھاری رات تھی۔(اس رات سے بھی زیادہ بھاری،جس کی صبح اکبر اعظم کی تلوار طلوع ہونے والی تھی،کیونکہ، اس رات کی دلداری کے لیے پچاس ہزار تلواریں سلیم کی رکاب میں تڑپ رہی تھیں اور صاحب عالم کے منہ سے نکلا ہوا، ایک فقرہ، اکبر اعظم کی تلوار کو غلاف کرسکتا تھا، لیکن) اس رات کی غم گساری کے لیے نورالدین محمد جہاں گیر کے پاس ایک دامن و آستیں کے سوا کچھ نہ تھا‘‘۔
جہاں گیر کی زبانی، صائمہ بیگم کے حسن و جمال کا اعتراف:
’’صائمہ بیگم سرسے پاؤں تک کرشمۂ الہٰی ہے، لیکن آنکھوں کی بے پناہی، زمین و آسمان کے درمیان، اپنی مثال نہیں رکھتی‘‘۔
عشق کی انتہا، جہاں گیر کے الفاظ میں:
’’پوری کائنات کو اپنے بازوؤں میں سمیٹ لینے والی محبت، اس ایک چھوٹے سے لمحے کی محتاج ہوتی ہے، جب عاشق اپنے سینے کا آخری راز محبوب کے سینے میں منتقل کردیتا ہے‘‘۔
واقعہ بیان کرنے کے بعد نور جہاں سے جہاں گیر کی آخری فرمائش:
’’ایک جام اور عطا کردیجیے کہ سماعت جلنے لگی ہے اور بصارت دہکنے لگی ہے‘‘۔
لیجیے صاحب! خواب سے بیدار ہو جائیے کہ افسانہ ’آنکھیں‘ کا بیان ختم ہوا۔
اس میں شک و شبہ کا شائبہ بھی نہیں کہ افسانہ ’آنکھیں‘ میں، قاضی صاحب کا فن اپنے اوج کمال پر ہے۔ ’آمد آفتاب، دلیل آفتاب‘کے بموجب، مزید کچھ عرض کرنیکی ضرورت نہیں۔
بطور اتمام گفتگو یہ راقم ناچیز ایک جسارت کا مرتکب ہونا چاہتا ہے کہ اگرچہ افسانہ ’آنکھیں‘ اپنی جگہ بے مثال ہے،تاہم اس سیہ قلم کی رائے یہ ہے کہ اس افسانے کے بیان والا شان میں مصنف، یعنی استاد محترم قاضی عبدالستار صاحب سے قدرے کوتاہی ہوئی ہے، جیسے ایک آنچ کی کسررہ گئی ہو۔ اتنے ذی جاہ موضوع اور اس قدر ذی شان بیانیے میں اس سے بھی زیادہ پر شکو ہ وہ پر جلال زبان استعمال ہوسکتی تھی،(بے شک قاضی صاحب اس پر قادر بھی تھے) مگر پتہ نہیں کیوں، ان کا خامہ جابہ جا لرزش کا شکار ہوا ہے،اور کئی مقامات پر ان سے لغزش قلم سزرد ہوئی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کچھ اور جمال بیان و جلال عبارت آرائی کی ضرورت تھی۔ کاش انہوں نے اپنی اس تخلیق پر نظر ثانی کرلی ہوتی۔نگارش کو اور پر اثر بنا لیا ہوتا151 بہرکیف ان تمام جسارتی اعتراضات کے باوصف، افسانہ’آنکھیں‘ ایک شاہکار بلند و برتر ہے۔
اتمام گفتگو کے طور پر راقم ناسواد یہ عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہے کہ خواہ چند نقاد اور قاضی صاحب کے بے شمار مدّاح، انھیں دوسرا پریم چند اور خالصتاً دیہات کا افسانہ نگار قرار دیں، مگر درحقیقت وہ ایک با کمال،با جمال و با جلال تاریخی افسانہ نگار و ناول نگار ہیں، اس کی سند، ان کا شاہکارا فسانہ’آنکھیں‘ اور معرکۃ لآرا ناول، ’دارا شکوہ‘ ہیں۔ ان دونوں نگارشات کی قرأت کے بعد، ان کے ایک اعلیٰ سطح کا ’مورخ افسانہ نگار‘ ہونے میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا۔ بے شک و ہ دیہی پس منظر کے ادیب علوی بھی ہیں، مگر ان کا تاریخی شعور و تاریخی پیش کش، سوا، ما سوا ہے۔  
ع۔ جو کچھ کہا تو ترا حسن ہوگیا محدود۔

Dr. Muzaffar Husain Syed
29/11, Sir Syed Road
Darya Ganj
New Delhi - 110002
Cell: 9818827853, 9211366940

ماہنامہ اردو دنیا   شمارہ  مارچ 2019






قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں