7/3/19

اردو غزل اور علم کونیات (Cosmology) مضمون نگار۔ ای آر محمد عادل




اردو غزل اور علم کونیات
(Cosmology)

ای آر محمد عادل
انسان ایک حسّاس ذہن لے کر اس کائنات میں آیاہے اور اپنے گردوپیش میں مشاہدات کرتا رہا ہے۔ جب وہ اس کائنات میں آیا تو مختلف چیزوں کا مشاہدہ کرنے کے سبب اس کے ذہن میں مختلف قسم کے سوالات کا جنم ہوا۔یہ مشاہدات اس کی شعوری فکر پر مبنی تھے۔ہر شخص اپنے اپنے ذہن کے مطابق اس وسیع کائنات کو شعور کی فکر پر پرکھتا ہے لیکن جس کا جیسا ذہن اور مشاہدہ ہوتا ہے وہ اس کائنات کی وسعتوں اور گہرائی میں ڈوبتا چلا جاتا ہے۔ایک شاعر بہت حسّاس ذہن رکھتا ہے اس کا شعور بھی ایک عام آدمی کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جن سوالات کا جواب آج کی جدید سائنس دریافت کر رہی ہے وہ سوالات اس کے ذہن میں بھی موجود ہیں اور یہ بھی مسلسل ایک سائنسداں کی طرح اس کی دریافت کر رہا ہے۔یعنی ایک مشترکہ احساس دونوں میں ہے جو اس کو فطری طور پر قدرت سے ملا ہے۔اسی شعور کی جھلک ہم کو اردو شاعری کے شعرائے کرام کے یہاں بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔اردو غزل اورعلم کونیات کے موضوع پر یہ مضمون اپنے دامن میں کائنات کے حیرت انگیز کرشموں کو سمیٹے ہوئے ہے۔
ا نسانی زندگی کی ابتداء سے لے کر آج تک یہ وسیع و عریض کائنات انسانی ذہن کو اپنی طرف مبذول کرتی رہی ہے۔جس کے سبب انسانی ذہن میں منفرد سوالات کا جنم ہوتا رہا ہے۔مثال کے طور پر اس کائنات کا کس طرح وجود ممکن ہوا ہے ؟کائنات کے نظام میں سورج، چاند، ستاروں کی کیا حیثیت ہے؟اس نظامِ شمسی میں ہماری زمین کی کیا کارکردگی ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔پرانے زمانے میں انسان کے نزدیک ہمارا نظامِ شمسی ہی پوری کائنات کی حیثیت رکھتا تھا اس کے ذہن میں کائنات کی بہت سی چیزوں کا تصوّر بھی نہیں تھا۔ 
کائنات کے پورے ڈھانچے اور اس کے مَبداء کا علم کونیات (Cosmology)کہلاتا ہے۔کائنات کی ابتدا اور اس کے خاتمہ کے بارے میں بہت سے نظریات پائے جاتے ہیں۔قدیم یونانی نظریہ ’مستحکم حالت کا نظریہ‘ (Steady-State Theory) کے مطابق یہ کائنات قدیم ہے اس کا کوئی آغاز ہے اور نہ کوئی انجام ہے۔یہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔کچھ سائنسدانوں کے مطابق اس کائنات کا وجودایک عظیم دھماکے سے وجودمیں آیا ہے اور یہ تصور کیا جاتا ہے کہ اس کی عمر لگ بھگ 14 ارب سال ہے اور یہ نظریہ عام ہوگیا ہے کہ ایسے عظیم واقعہ سے ہوا ہے جس کو بگ بینگ(Big Bang)کہا جاتا ہے۔ اس نظریہ نے قدیم یونانی نظریہ ’مستحکم حالت کا نظریہ‘ (Steady-State Theory) کو غلط قرار دیا ہے اور یہ اس بات کی بھی ترجمانی کرتا ہے کہ جس طرح اس کائنات کا وجود ایک عظیم دھماکہ سے ہوا ہے اسی طرح اس کائنات کا خاتمہ بھی ممکن ہے ایک وقت ایسا بھی ہوگا جب یہ تمام تر مادّۂ کائنات آپس میں ٹکرانے کے سبب چور چور ہوجائیں گے۔
جب کائنات کا وجود عمل میں آیا تو بہت سارے واقعات بہت تیزی کے ساتھ عمل میں آئے اس کی ابتداء مختلف اقسام کے ذیلی ایٹمی ذرّات (Subatomic Particles) سے ہوئی جس میں الیکٹران، پازیٹران، نیوٹریناس اور اینٹی نیوٹریناس کے ساتھ ساتھ شعاع ریزی (Radiation) کرنے والے فوٹان بھی موجود تھے اس وقت اس کا درجۂ حرارت تقریباًایک کھرب سینٹی گریڈ (ایک کھرب80ارب فارن ہائیٹ) تھا اور اس کی کثافت (Density) پانی کی نسبت 4 ارب گنازیادہ رہی ہوگی۔ایک سیکنڈکے بعد بڑے بدلاؤ ہوئے اوراس کا درجۂ حرارت گر کر 10ارب سینٹی گریڈ (18 ارب فارن ہائیٹ) پر آگیا۔اس عمل کے ساتھ ساتھ مادّہ اس قدر پھیلا کہ اس کی کثافت تیزی سے گرتے ہوئے پانی کی نسبت 4لاکھ گنا زیادہ ہوگئی،اس کے بعد پروٹان اور نیوٹران جیسے بھاری بھرکم عناصر کا وجود عمل میں آیا۔
14 سیکنڈ بعد درجۂ حرارت 3ارب سینٹی گریڈ (5ارب 40کروڑفارن ہائیٹ) تک چلا گیااور اس دوران متضاد چارج شدہ پازیٹران اور الیکٹران آپس میں ایک دوسرے کو فنا کرنے لگے جس کے سبب توانائی خارج ہوئی اور 2پروٹان اور2نیوٹران والے ہیلئم کے مرکزے(Nuclei) بننے لگے۔
3 منٹ بعد کائنات کا درجۂ حرارت 90کروڑ سینٹی گریڈ(ایک ارب62 کروڑ فارن ہائیٹ) رہ گیا۔اس وقت اس درجۂ حرارت کی وجہ سے ڈیوٹیریم (Deuterium) کا مرکزہ جو ایک پروٹان اور ایک نیوٹران رکھتا تھا وجود میں آیا۔30منٹ کے بعد درجۂ حرارت 30کروڑ سینٹی گریڈ (5کروڑ 40لاکھ فارن ہائیٹ) تک آگیا اس مرحلے کے دوران الیکٹران اور پروٹان کی ایک بڑی تعداد اپنے متضاد ذرّات (Antiparticles)پازیٹران اور اینٹی پروٹان کی وجہ سے ختم ہوچکی تھی اور باقی پروٹان اور الیکٹران ہائیڈروجن اور ہیلئم کے مرکزے کے بننے کے عمل میں استعمال ہو چکے تھے۔یہ سلسلہ یوں ہی لگاتار چلتا رہا اور لگ بھگ ایک لاکھ سال کی مدّت کے بعد برق پارے (Ions) اور الیکٹران نے مل کر ایٹم کی تشکیل کی۔یہ تمام تر افعال ستاروں اور کہکشاؤں کی تشکیل میں آنے سے پہلے تقریباً ایک ارب سال پہلے وقوع پزیر ہوئے۔ اسی طرح جس طرح یہ پھیل رہی ہے اس کا خاتمہ بھی ایک ممکنہ صورت’بگ کرنچ‘(Big Crunch)کے سبب ہوگا جس میں ایک عظیم دھماکا ہوگا اور مسلسل پھیل رہی یہ کائنات سکڑنا شروع کردے گی یہ عمل بالکل ’بگ بینگ‘ کے عمل کا الٹا ہوگا جس کے نتیجے میں کائنات کا خاتمہ ہو جائے گا۔ 
اورعصر حاضر کے سائنسدانوں نے’بوسون‘ کی دریافت کر کے ایک نئی کامیابی حاصل کی ہے۔اس کی دریافت ’سوئٹزرلینڈ‘ میں واقع تجربہ گاہ لارج ہاڈرون کولائڈر(Large Hadron Collider) میں4جولائی 2012بدھ کے دن ہوئی۔سائنسدانوں کے مطابق انھوں نے ایسے ذرّے کو دیکھنے میں کامیابی حاصل کی جو صرف ہمارے کرۂ ارض پر ہی نہیں بلکہ تمام کائنات میں زندگی کی موجودگی کی بنیاد اور اس کا سبب ہے اور کائنات کی سب رنگا رنگی اس کی مرہونِ منت ہے۔دورِحاضر کی سائنس کے مطابق یہی ذرات ہیں جو کائنات کے مکان کی اصل اینٹیں ہیں اور مادے کوفنا نہیں ہے وہ صرف اپنی شکل بدلتا ہے،اور ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے جس میں اس کو مزید تقسیم کرنا ممکن نہیں ہے اسی انتہا کو جدید سائنسداں بوسون (Boson) کہتے ہیں۔بوسون کو صرف بوسون نہیں کہا جاتا ہے بلکہ اس کوماہرینِ طبیعات’ہگزبوسون‘(Higgs Boson) کہتے ہیں۔دراصل Peter Higgsنے ایک تھیوری پیش کی تھی جس کے مطابق اگر بوسون کا پتا چل جائے اور وہ نظر آجائے تو تخلیقِ کائنات اور تخلیقِ آدم کے وجود میں آنے کا راز آشکار ہوسکتا ہے جو ابتدا سے لے کر اب تک راز رہا ہے۔اس نظریہ کی بنیاد وہ نظریہ ’اسٹینڈرڈ ماڈل‘ کہلاتا ہے جو 1924میں سائنسدانوں نے پیش کیا۔اس نظریہ کے مطابق کائنات ایک بندھے،ٹکے اور مضبوط عمل کے ذریعہ وجود میں آئی ہے۔یہ جو پھول کھلتے ہیں،مرجھا جاتے ہیں،انسان اور دوسرے ذی حیات پیدا ہوتے ہیں مر جاتے ہیں ایک ’اسٹینڈرڈ ماڈل‘ کے مطابق ہے۔یہ عمل خود بخود اسی طرح رواں دواں مسلسل ہوتا رہتا ہے۔ اس میں تبدیلی اس وقت رونما ہوتی ہے جب کائنات کا کوئی کردار مثلاً انسان یاکوئی اور ذی حیات اس طے شدہ سسٹم کے برعکس کام کرتا ہے۔بوسون وہ ذرہ ہے جو تمام کائنات کی اساس ہے اگر اس کو کسی بھی طرح ریگولیٹ کر دیا جائے تو انتشار کا یہ سلسلہ روکا جاسکتا ہے۔ بوسون مادے کی گویا اصل ماں ہے جس کے سبب سارے مادی ذرات وجود میں آئے ہیں اگر اس کاوجود نہ ہو مادے کی تمام تر اقسام روشنی کی رفتار سے گردش کرنے لگ جائیں گی کیوں کہ مادہ نہیں ہوگا تو زندگی بھی نہیں ہوگی یعنی بوسون ہی مادی وجود کی حیات و موت کاسبب ہے۔برج نرائن چکبست کا شعر کائنات کے وجود میں آنے کے تمام تر نظریات کا ترجمان معلوم ہوتا ہے ؂
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے انھیں اجزا کا پریشاں ہونا
اسپیس ریسرچ میں مصروف ناسا جیسی ایجنسیوں نے اپنے تجربات اور دوربینوں کے مشاہدات کے ذریعے اس بات کی ترجمانی کی ہے کہ ہماری کائنات میں صرف ہمارا ہی سورج اور نظامِ شمسی نہیں ہے اس کے علاوہ بھی کائنات میں اربوں کہکشاؤں اور آفتابوں کا وجود ہے۔نظامِ شمسی میں آفتاب کے ساتھ ساتھ سیارے موجود ہیں اور ان سیاروں کے ارد گرد چاند گردش کر رہے ہیں جن کا حقیقی اندازہ لگانا بھی دشوار ہے لیکن اگر ہمارے نظامِ شمسی میں اگرسیاروں کے 63 چاند دریافت ہو چکے ہیں تو ہماری کائنات میں موجود ان لاکھوں ستاروں کے نظام میں کروڑوں چاند وں کی موجودگی سے ہرگز گریز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ایک شعر میں اس طرف سوچنے کی دعوت ملتی ہے ؂
یوں سمجھیے بیچ سے خالی کیے ہوئے
لاکھوں ہی آفتاب ہیں اور بے شمار چاند
اس شعر کے پہلے مصرعے ’یوں سمجھیے بیچ سے خالی کیے ہوئے‘ پر غور و فکر کریں تو وہ ہم کوایک نئی تصویر پیش کرتا ہے۔ اس شعر میں ’ بیچ سے خالی‘ ہونے کا لفظ استعمال کیا ہے جس سے’ بلیک ہول‘(Black Hole) مرادلی جا سکتی ہے۔ ’بلیک ہول ‘یونیورس کا ایک ایسا حصہ ہوتا ہے جس میں کمیت (Mass) اور قوتِ کشش (Gravitational force) بہت زیادہ موجود ہوتی ہے وہ اپنے پاس سے گزرنے والی ہر چیز کو اندر کھینچ لیتا ہے یہاں تک کہ روشنی کی شعاع بھی اس کے پاس سے گزرنے پر اس کے اندر سما جاتی ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق ہمارا سورج اور کائنات میں موجود لاتعداد ستاروں میں مسلسل ایک’نیوکلیئر فیوزن ‘ عمل پزیر ہوتا رہتا ہے اس دوران ہائیڈروجن اپنا وجود بدل کرہیلیم میں تبدیل ہوجاتا ہے اور ایسے عمل کے دوران انتہائی حرارت اور توانائی خارج ہوتی ہے۔پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب ہائیڈروجن پوری طرح ختم ہونے کی حد پر آجاتی ہے۔ اس وقت ستارے کی حرارت اور کمیت بڑھنے لگتی ہے اور اس کی قوتِ کشش میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔سائنسدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہائیڈروجن کے ختم ہونے پر بھی ’ نیوکلیئر فیوزن ‘ کاعمل نہیں رکتا ہے بلکہ اس عمل کے بعد’ہیلیم مرکزہ ‘ آپس میں جڑ کر ’آکسیجن‘ پھر ’آکسیجن مرکزہ‘ آپس میں جڑ کر’سلکان‘ اور ’سلکان مرکزہ‘ آئرن میں تبدیل ہونے لگتے ہیں۔یہ بھاری عناصر اپنی گریویٹی کی وجہ سے ستارے کے مرکز کی طرف بڑھنے لگتے ہیں اور اس وقت ستارے کا حجم سکڑنے لگتا ہے اور اس کی ڈینسٹی بڑھتی جاتی ہے اور پھر مادّہ آئرن میں تبدیل ہوجاتا ہے اگر اس وقت ستارے کی کمیت ایک خاص مقدار سے زیادہ ہو جاتی ہے تو اس میں ایک بڑا دھماکا ہو سکتا ہے جس کوسائنس کی اصطلاح میں ’سپرنووا‘ (Supernova) کہتے ہیں اس کے بعد ستارہ ’بلیک ہول‘ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ ’بلیک ہول‘ بننے کا یہ عمل اس وقت سے رواں دواں ہے جب سے ہماری کائنات کا وجود عمل میں آیا ہے۔سائنس اس بات کی عکاّس ہے کہ ہمارے سورج کی سطح پر بھی ’بلک ہول‘ بننے کا یہ عمل جاری و ساری ہے اور نہ جانے کتنے ہی ستارے جو حجم میں سورج سے کتنے ہی بڑے ہیں ان میں بھی یہ عمل مسلسل چل رہا ہے جس کے مضر اثرات ہمارے نظامِ شمسی پر بھی بڑھیں گے اس لیے ماہرینِ فلکیات اس عمل پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور نئی تحقیق کی تلاش میں ہیں۔ لہٰذا غزل کا یہ شعر سورج میں بننے والے ’بلیک ہول‘ اور ’سپرنووا‘ کی ترجمانی اور اس سے پڑنے والے مضر اثرات پر صادق آتا ہے ؂
تیرا آسماں ہے پگھل رہا تجھے کیا زمیں یہ پتا نہیں
نئے سائباں کی تلاش کر تجھے سورجوں کی ہوا نہیں
(ہلال نقوی)
ماہرین نے جب دوربین کی مددسے سورج کی سطح کا مشاہدہ کیا تو حیرت انگیز نتائج سامنے آئے انھوں نے سورج کی سطح پر سیاہ دھبوں کی دریافت کی جس کو ’سورج کے دھبے‘ (Sunsport)کہا گیا۔دیکھنے میں وہ کالے رنگ کے محسوس ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ بہت روشن ہوتے ہیں۔ان کے سیاہ نظر آنے کاسبب در اصل ان کے قریب موجود وہ حصّے ہیں جوبہت ہی زیادہ روشن ہیں جن کی مناسبت سے وہ ہم کو سیاہ معلوم ہوتے ہیں۔سورج کے ان دھبوں کا درجۂ حرارت باقی سورج کی سطح کے مقابلے میں2000سینٹی گریڈ(3600فارن ہائیٹ) کم ہوتا ہے۔ سورج کے ان دھبوں کی تعداد 11سال کی مدّت کے درمیان کم اور زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ غالب کا یہ شعر دیکھیے جوسورج میں بننے والے داغوں کی طرف اشارہ کرتا ہے ؂
لوگوں کو ہے خورشید جہاں تاب کا دھوکا
ہر روز دکھاتا ہوں میں ایک داغِ نہاں اور
(غالب)
ہماری کہکشاں کا وجودکروڑوں،اربوں ستاروں، گرد و غبار اور گیسوں پر مشتمل سحابیوں (Nebulae) سے عمل میں آیا ہے ہماراسورج بھی ایک ستارہ ہے اور یہ بھی دوسرے ستاروں کی طرح گیسوں کے مرکب سے پیدا ہوا ہے۔یہ ستارے نیوکلیائی دھماکوں (Nuclear Fusions) کااخراج کرتے رہتے ہیں۔ستارے گرد و گیس کے ان بادلوں میں تشکیل ہوئے ہیں جنھیں ’سحابیہ‘ (Nebula) کہا جاتا ہے۔سحابیے میں موجود گیس اور گرد و غبار کے عناصر باہمی کشش کے سبب آپس میں ٹکرا کر اندھیرے علاقوں کی تشکیل کرتے ہیں جن کو ’پروٹوسٹار‘(Protostar) کہا جاتا ہے۔ جیسے جیسے یہ’پروٹوسٹار‘ آپس میں ٹکراتے ہیں ان کی کثافت اور گرمی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ایک مدّت کے بعد وہ اس قابل ہو جاتے ہیں کہ نیوکلیائی دھماکوں (Nuclear Fusions) کی ابتدا کر سکیں اور اس طرح وہ مکمل طور سے ایک ستارہ بن جاتے ہیں۔غالب کی غزل کا یہ شعر ستاروں کے بننے کے عمل کی طرف ہمارے ذہن کو لے جاتا ہے ؂
زمانہ عہد میں اس کے ہے محوِآرائش
بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لیے
(غالب)
سیاروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے لاکھوں ذرات بھی سورج کے چاروں طرف گردش کر رہے ہیں جن کو شہابیے ( Meteors) کہتے ہیں۔یہ بناوٹ میں ریت کے ذرّات جتنی ساخت رکھتے ہیں اس وجہ سے خلا میں ان کی موجودگی کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے لیکن جب کوئی شہابیہ ہماری زمین کے قریب آتا ہے تو وہ رگڑ کھا کر گرم ہوجاتا ہے اور جل کر تباہ و برباد ہو جاتا ہے ایسے میں ایک روشنی کی لکیر دیکھائی دیتی ہے جس کو ’شہابِ ثاقب‘ یا ٹوٹتا ہوا ستارہ کہا جاتا ہے۔اردو غزل کا یہ شعر’شہابِ ثاقب‘ کی ترجمانی پیش کر رہا ہے ؂
ٹوٹ کر ایک ستارے نے دیا ہم کو سبق
روشنی راہ میں بن جاؤ زمانے کے لیے
رات کی تاریکی میں جب ہم آسمان کامشاہدہ کرتے ہیں تو ہم کو ستاروں سے منّور ایک حسین منظر نظر آتا ہے۔ہم کو ستاروں کے بے شمار جھرمٹ نظر آتے ہیں جن کو ہم اعداد و شمار میں بھی نہیں لا سکتے ہیں۔ہمارا سورج خود ایک ستارہ ہے اس کا تعلق تقریباً ہزار ملین ستاروں کے جھرمٹ سے ہے۔اجرامِ فلک کا یہ جھرمٹ کہکشاں کے نام سے جانا جاتا ہے۔اسی کہکشاں میں ہماری زمین اور نظامِ شمسی میں شامل سیّارے بھی ہیں۔لیکن سیّاروں میں اپنی روشنی نہیں ہوتی ہے یہ سب سورج کی روشنی کے عکس کے پڑنے پر چمکتے ہیں اور رات میں ہم کو ایسا دھوکاہوتا ہے جیسے یہ سیّارے نہ ہوکر خود ستارے ہیں،مثلاً مشتری، زہرہ، مریخ، زحل میں ایسی چمک دکھائی دیتی ہے جس سے ان کا ستارے ہونے کا گمان ہوتا ہے۔اس کے علاوہ سیّاروں کے گرد گردش کرتے ہوئے چاند بھی ایک چمک دار منظر پیش کرتے ہیں۔کچھ ستارے پھیلتے اور سکڑتے ہیں،کچھ ستاروں کی مسلسل روشنی نہیں ہوتی،کچھ ہماری قوتِ بینائی سے اتنی دور ہیں جن کی روشنی ہماری آنکھوں تک نہیں پہنچتی،کچھ ایسے بھی ہیں جن کی روشنی سفر میں ہے،کچھ ہمارے سورج سے ہزار گنا وسیع ہیں لیکن دور ہونے کے سبب چھوٹے معلوم ہوتے ہیں۔غالب بھی اس حقیقت سے آشنا تھے۔کہ ستارے حقیقت میں ہوتے کچھ اورہیں اور دکھائی کچھ اوردیتے ہیں اگرچہ یہ بہت بڑے ہیں لیکن دور ہونے کی وجہ سے چھوٹے معلوم ہوتے ہیں مختلف رنگ کے ہوتے ہیں لیکن ایک جیسے رنگ کے نظر آتے ہیں،اس لیے غالب انھیں بازیگرکہتے ہیں کیوں کہ ان کے ظاہر و باطن میں فرق ہوتا ہے ؂
ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
(غالب)
سورج کے چکّر کاٹنے والے ہمارے نظامِ شمسی کے سیارے عطارد،زہرہ، زمین،مریخ، مشتری، زحل، یورینس، نیپچون،پلاٹو بھی سورج کے ہی ٹکڑے ہیں جو ایک طاقت ور ہلچل کے سبب ٹوٹ کر سورج سے نکلے ہیں۔آج کے جدید دور میں ماہرینِ فلکیات نے ان آسمانی ہلچل اور اجرامِ فلک کا مشاہدہ کرنے کے لیے بڑی بڑی دوربینوں (Telescopes) اور سیٹلائٹ ڈیزائن کیے ہیں تاکہ رات دن خلاؤں میں ہونے والی ہلچل پر ہر لمحہ نظر رکھی جاسکے۔ اس کے سبب ہم یہ دریافت کر سکے ہیں کہ ہماری زمین اپنے محور پرگھوم کرسورج کے گرد365 دن میں اور کچھ گھنٹوں میں چکّر لگاتی ہے جس سے رات اور دن، اور موسموں کا سلسلہ قائم رہتا ہے۔لیکن ہمارے نظامِ شمسی میں دوسرے سیّارے مختلف فاصلوں پر ہونے کے سبب مختلف وقت میں سورج کے گرد چکّر لگاتے ہیں۔مثلاً ’یورینس کو 84سال، نیپچون کو 165سال،پلوٹو کو 248 سالوں ‘کا عرصہ درکار ہے۔
غالب کو یہ علم تھاکہ ہماری خلاؤں میں اجرامِ فلک میں چیزیں مسلسل گردش کر رہی ہیں۔اس لیے ہم کو ان آسمانی گردش پر رات، دن نظر رکھنے کی ضرورت ہے، تاکہ ہم ہر لحظہ ہونے والی تبدیلیوں سے آشنا ہو سکیں۔ان کا یقین تھا کہ خلاؤں میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں رونما ہوتی رہیں گی اس لیے ہم کو اس گردش سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے،کیونکہ اس پر ہمارا زور نہیں چلتا ہے۔غالب کا یہ شعر اسی بات کو بیان کرتاہے ؂ 
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب کائنات میں پھیل رہا یہ مادّہ آپس میں ٹکرا کر فنا ہوجائے گا غزل کا یہ شعر بہت خوبصورتی سے اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے ؂
گردش یہ خلاؤں کی بے شک اک روز تھمے گی سب کے لیے
جو چاک پہ گھوما کرتا ہے وہ خاک کا پیکر ٹوٹے گا
(ہلال نقوی)
سورج کی سطح پر ہورہے مسلسل دھماکوں کی ہلچل اور اس میں بن رہے سراخ کے سبب آج وہ اپنے خاتمہ کی طرف رواں ہے اور اس سے خارج ہونے والا ’ریڈیشن‘ بھی اپنے اثرات ڈال رہا ہے جس سے نظامِ شمسی پر ہی نہیں خلا میں موجود دوسرے سیّاروں پر بھی اہم بدلاؤ ہوئے ہیں غزل کا یہ شعر اس بات کا ترجمان ہے ؂
گھبرا کے گر نہ جائے خلا کے مکان سے 
سورج کا بوجھ اٹھتا نہیں آسمان سے
(وفانقوی)
اس کے علاوہ مندرجہ ذیل اشعارخلاؤں کی بلندی اوراس کی وسعت کی ترجمانی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ؂
منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے
عرش سے ادھر ہوتا کاش کے مکاں اپنا
(غالب)
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں 
(علا مہ اقبال)
نظر سے دور، مہ و کہکشاں سے آگے ہے
زمینِ اہلِ طلب آسماں سے آگے ہے
(شمیم کرانی)
مجھے تلاش نئے آسمان کرنے ہیں
یہ ابتدا ہے میری،اختتام تھوڑی ہے
(احمدرئیس)
المختصر اس وسیع کائنات کی باتوں کو ایک مختصر سے مضمون میں بیان کرناممکن نہیں ہے۔خود آج کی سائنس بھی اس کے بہت سے رازوں سے پردہ نہیں اُٹھا پائی ہے۔جیسے جیسے فلکیات کے نئے نئے راز آشکار ہوتے جائیں گے ویسے ویسے ہماری فہم و ادراک اس تک پرواز کرنے لگے گی لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اردو غزل کے شاعروں نے اپنے اشعار میں ایسی ایسی باتیں پیش کر دیں ہیں جس پر آج کی سائنسی تحقیقات اور معلومات صادق آتی ہیں۔ 
کتابیات
(1) کائنات کیسے وجود میں آئی مترجم ’مولانا محمد زکریا اقبال‘ لاہور پاکستان
(2) تخلیقِ کائنات مترجم’عبدالستار‘لاہورپاکستان

E.R. Mohd Adil
Hilal House, H.No: 4/114 Jagjeevan Colony
Naglah Mallah Civil Line
Aligarh - 202002
Mob: 9358856606 
ماہنامہ اردو دنیا   شمارہ  مارچ 2019





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

1 تبصرہ:

  1. نہایت عمدہ اور موضوع کے اعتبار سے منفرد مضمون ہے. عادل صاحب ایک منجھے ہوئے قلمکار ہیں.

    جواب دیںحذف کریں