6/3/19

برسبیل آغاحشر کاشمیری مضمون نگار:۔ محمد شاہد حسین



برسبیل آغاحشر کاشمیری
محمد شاہد حسین

تلخیص
آغا حشر کاشمیری ڈراما نگار کے ساتھ ساتھ با شعور ڈائریکٹر، بے مثال خطیب، کامیاب مناظر اور بلند پایہ شاعر بھی تھے۔ 
آغا حشر گوناگوں شخصیت کے مالک تھے۔ ڈراما نگاری کے ساتھ ساتھ ان کی خطابت کا ڈنکا بھی ہر طرف بجتا تھا۔ ان کی تعلیم تو زیادہ نہ تھی لیکن ذوق مطالعہ نے ان کے علم کو وسیع تر کر دیا تھا۔ پھر ان کی ذہانت اور قوی حافظے نے اسے دو آتشہ بنا دیا۔ چنانچہ انھوں نے خطابت کی دنیا میں قدم رکھا تو وہاں بھی اپنے کو دوسروں سے ممتاز ثابت کیا۔ وہ تقریر کرتے تو سامعین پر وجد کا عالم طاری ہو جاتا۔ ’انجمن حمایت اسلام لاہور‘ کے جلسوں کی تقریریں اس کا واضح ثبوت ہیں۔
آغا حشر کی گفتگو میں ایک خاص دل آویزی ہوتی تھی۔ وہ لطیفوں، چٹکلوں، پھبتیوں اور مزے دار فقروں سے خشک سے خشک مباحث کو بھی رنگین بنا دیتے تھے۔ ایسی ایسی دلیلیں ڈھونڈ کر لاتے کہ حریف سے جواب بن نہ پڑتا۔ ان کی حاضر جوابی اور ضلع جگت کا یہ عالم تھا کہ اس فن کے بڑے بڑے مشاقوں کو بھی ان کے سامنے منہ کھولنے کا حوصلہ نہ ہوتا۔ 
آغا حشر کی شخصیت میں بڑائی اور عظمت کے کئی حوالے موجود تھے۔ ایک طرف ان کے مزاج میں تیزی اور تندی تھی تو دوسری طرف ان کے اندر خلوص و محبت کے جذبات بھی پوشیدہ تھے۔ وہ ایسا دردمند دل رکھتے تھے جو انسان دوستی اور انسانی ہمدردی کے جذبات سے مملو تھا۔ انھیں غریبوں اور زیردستوں سے بڑی ہمدردی تھی۔ وہ اکثر بیواؤں، یتیموں اور نادار عزیزوں کی خفیہ طور پر مالی امداد کرتے۔ انھیں اپنی والدہ سے بہت محبت تھی۔ ان کا بے حدا حترام کرتے تھے۔ ان کی چھوٹی سے چھوٹی خواہش آغا حشر کے لیے حکم کا درجہ رکھتی تھی۔ ویسے تو انھیں اپنے تمام عزیزوں سے خاص انسیت تھی، مگر اپنے چھوٹے بھائی آغا محمود شاہ کو وہ بے حد عزیز رکھتے تھے۔
آغا حشر کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف نہ کرنا علمی بددیانتی ہوگی۔ وہ خوش گو، خوش فکر اور رموز فن سے واقف شاعر تھے۔ انھوں نے شاعری کی ابتدا فارسی سے کی لیکن ان کی فارسی غزلیں محفوظ نہ کی جاسکیں۔ ان کی اردو غزلوں میں بھرپور تغزل موجود ہے۔ ان کے اسلوب کی سادگی، تشبیہ و استعارے کا فن کارانہ استعمال، رنگین بندشیں اور چست ترکیبیں، سادگی میں پرکاری کا حکم رکھتی ہیں۔ انھوں نے نظمیں بھی کہی ہیں جو زور و اثر سے معمور ہیں۔ خصوصاً انجمن حمایت اسلام لاہور کے جلسوں میں پڑھی گئی ’شکریہ یورپ‘ اور ’موج زمزم‘ کو بے انتہا شہرت حاصل ہوئی۔ ’شکریہ یورپ‘ کو برطانوی گورنمنٹ نے ضبط بھی کر لیا تھا۔
کلیدی الفاظ
ڈرامہ، شاعری، نظمیں، انڈین شیکسپیئر، الفریڈ تھیٹریکل کمپنی، متکلم فلمیں، مرثیہ، بدیہہ گوئی، زورِ بیان، 
ڈرامانگار کے ساتھ ساتھ باشعورڈ ائریکٹر، بے مثال خطیب، کامیاب مناظر اور بلند پایہ شاعر بھی تھے۔ ان کی غزلوں میں طرفگی، دل نشینی اور اثرآفرینی ہے تو نظموں میں سوز دروں اور روح عصر کی ترجمانی ہے۔ بدیہہ گوئی انھیں فطرت کا عطیہ تھی۔ اسلام پر کیے گئے اعتراضات کی مدافعت اور پادریوں سے مناظرے کے لیے ان کا ذہن ہمہ وقت حاضر رہتا تھا۔ 
ڈرامے کی دنیا میں امانت لکھنوی کے بعد، عوام و خواص میں جو شہرت و مقبولیت آغا حشر کو حاصل ہوئی وہ کسی اور کو نصیب نہ ہوسکی۔ انھوں نے جب ڈرامے کی دنیا میں قدم رکھا اس وقت طالب، احسن اور بیتاب کی شہرت و مقبولیت کا سورج نصف النہار پر تھا مگر انھوں نے اس شان سے ڈراما نگاری شروع کی کہ پارسی اسٹیج پر حشر برپا کر دیا۔ ماہرین ڈراما ان کی فنی بصیرت پر انگشت بدنداں رہ گئے اور شائقین ڈراما کے شوق کو گویا پرپرواز مل گیا۔ ڈراما نگاری، شاعری اور خطابت کے علاوہ اصلاح معاشرہ اور حب الوطنی ان کی شخصیت کے امتیازی پہلو ہیں۔
آغا حشر اصلاً کاشمیری النسل تھے۔ ایک کاشمیری بزرگ سید احسن شاہ شالوں کی تجارت کے سلسلے میں بنارس آئے، صبح بنارس نے وہ جادو کیا کہ یہیں کے ہو رہے۔ 1868میں انھوں نے اپنے بھانجے محمد غنی شاہ کو بھی بنارس بلا کر اسی کاروبارمیں لگا دیا۔ اس وقت ان کی عمر 18سال تھی۔ کچھ عرصہ بعد یعنی 30جولائی 1868 کو احسن شاہ نے غنی شاہ کی شادی اپنی سالی سے کرا دی۔ تین اور چار اپریل 1879 کی درمیانی شب میں ان کے یہاں بیٹا پیدا ہوا جس کا نام محمد شاہ رکھا گیا۔ بعد کو وہی حشر کے نام سے مقبول خلائق ہوا۔
آغا حشر کی جائے پیدائش متنازعہ فیہ ہے۔ صاحبان ’ناٹک ساگر‘ ان کی جائے پیدائش امرتسر لکھتے ہیں۔ ’تاریخ نظم و نثر اردو‘ کے مصنف آغا محمد باقر بھی ان کی جائے پیدائش امرتسر ہی بتاتے ہیں۔ 
آغا حشر کے بھانجے عبدالقدوس نیرنگ اپنی کتاب ’آغا حشر اور ناٹک‘ میں لکھتے ہیں:
’’آغا محمد شاہ حشر جیسا کہ کچھ لیکھکوں نے لکھا ہے، امرتسر میں پیدانہیں ہوئے تھے۔ ان کے پتا آغا غنی شاہ اٹھارہ ورش کی اوستھا میں شری نگر سے بنارس آئے اور یہیں شادی کی اور رہنے لگے۔ آغا حشر 4اپریل 1879 میں بنارس میں پیدا ہوئے۔ ان کا مکان نمبر 136/43 محلہ گووندپورا کلاں ہلکا چوک وارانسی آج بھی موجود ہے۔ ‘‘1؂
اس زمانے کا میونسپل بورڈ کا ریکارڈ نہ تو بنارس میں محفوظ ہے اور نہ امرتسر میں۔ جن حضرات نے آغا حشر کی جائے پیدائش امرتسر لکھا ہے انھوں نے بھی کوئی حوالہ نہیں دیا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ چند کاشمیری خاندان امرتسر میں سکونت پذیر تھے اور غنی شاہ اکثر وہاں جایا کرتے تھے۔ کہتے ہیں امرتسر میں انھوں نے شالوں کی ایک دکان بھی کھولی تھی۔ شاید اسی لیے کچھ لوگوں کو یہ شبہ پیدا ہوا ہو کہ آغا حشر امرتسر میں پیدا ہوئے۔
آغا حشر کے بھتیجے آغا جمیل کاشمیری ’انتخاب کلام آغا حشر کاشمیری‘ کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
’’ان کے والد (آغا حشر کے والد) محترم غنی شاہ صاحب 1868 میں وادئ لولاب سے اپنے ماموں احسن شاہ صاحب عرف پیر جی کی دعوت پر بنارس آئے تھے۔ پیر جی نے اپنی سب سے چھوٹی سالی دختر شیخ رحمان سے 30جولائی 1868 کو ان کا نکاح کردیا، محمد شاہ.... 4-3 اپریل 1879 کی درمیانی شب میں مکان نمبر 43/136 گووندپورا کلاں، ناریل بازار، بنارس میں پیدا ہوئے.... 17اپریل 1879 کو مولوی محمد مرزا جفار نے فارسی میں ان کا زائچہ ولادت تیار کیا۔‘‘ 2؂
حاشیے کے نوٹ میں لکھتے ہیں ’نکاح نامہ میرے پاس محفوظ ہے‘۔ ’جنم پترہ جو کافی طویل ہے میرے پاس محفوظ ہے۔ ‘
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمانوں میں زائچہ بنوانے کا عام رواج ہے؟ البتہ کہیں کہیں بادشاہوں یا امرا کے یہاں زائچہ بنتا ہوتو ہو۔ 
آغا جمیل نے ایک ملاقات میں راقم الحروف سے بتایاکہ ان کا خاندان پیرزادوں کا خاندان ہے۔ اس لیے ان کے خاندان میں زائچہ بنانے کا رواج ہے اور کشمیر میں عام مسلمانوں کے یہاں بھی زائچہ بنتا ہے۔ راقم کو مذکورہ زائچہ دکھایا اور یہ بھی بتایا کہ مذکورہ نکاح نامے کی چار شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ دلہن کبھی بنارس سے باہر نہیں جائے گی۔ 
آغا حشر کا جب انتقال ہوا تو آغا جمیل کی عمر 17سال تھی یعنی وہ باشعور ہو چکے تھے۔ ایسی صورت میں ان کے اور نیرنگ کے بیان پر اعتبار نہ کرنے کا کوئی جواز پیدا نہیں ہوتا۔ 
رضا علی عابدی اپنی تصنیف ’جرنیلی سڑک‘ میں لکھتے ہیں:
’’چنانچہ ہم گئے اور نہ صرف آغا حشر کی گلیاں ڈھونڈھ نکالیں بلکہ ان کے سوز و گداز کی داستانیں کہنے والی ایک شخصیت کو بھی پالیا۔ اور وہ تھے آغا حشر کاشمیری کے بھتیجے۔ آغا جمیل کاشمیری۔ یہ بنارس کے محلہ گووند پورہ کلاں کا ناریل بازار تھا جہاں ایک تختی لگی نظر آئی: ’آغا حشر لین‘۔ اسی گلی میں وہ مکان ابھی جوں کا توں موجود ہے جہاں 3اپریل 1879 کو آغا حشر پیدا ہوئے تھے۔ ان کے کاغذات، ان کی تحریریں، ان کے ڈراموں کے مسودے وہ سب ابھی موجود ہیں۔ اور یہی نہیں وہ مسہری جس پر وہ سوتے تھے۔ وہ آرام کرسی جس پر وہ بیٹھتے تھے۔ وہ میز جس پر لکھتے تھے۔ وہ پیالیاں جس میں وہ چائے پیتے تھے وہ سب بڑی احتیاط سے رکھا گیا ہے۔‘‘3؂
راقم کو بھی آغا جمیل کاشمیری سے ملنے، ان کاانٹرویو لینے اور مذکورہ بالا تمام چیزوں کا مشاہدہ کرنے کا شرف حاصل ہے اور خاکسار نے دہلی دوردرشن کی فرمائش پر ان تمام چیزوں کو بنیاد بنا کر آغا حشر پر ایک ڈاکومنٹری تیار کی تھی جسے دوردرشن نے بار بار ٹیلی کاسٹ کیا۔ آغا جمیل کے چار بیٹے آج بھی ناریل بازار کے اسی مکان میں بودوباش اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں نے اس ڈاکومنٹری کی تیاری میں کافی تعاون کیا۔ غرض کہ آغا حشر کاشمیری کی جائے پیدائش کے سب سے معتبر حوالے ان کے خاندان کے یہی افراد ہیں۔ 
آغا جمیل کاشمیری اپنے مضمون ’آغا حشر حیات اور کارنامے‘ میں لکھتے ہیں:
’’غنی شاہ طویل القامت اور مضبوط قویٰ کے مالک تھے۔ عبا اور قبا ہر وقت زیب تن رکھتے تھے۔ اسی لیے اہل محلہ انھیں آغا صاحب کہہ کر پکارتے تھے۔ اس طرح آغا ان کے نام کا جز ہو گیا اور بعد میں ان کے دونوں صاحبزادگان محمد شاہ اور محمود شاہ کے ناموں کے ساتھ بھی منسلک ہو گیا۔ تاحیات غنی شاہ کا رابطہ کشمیر سے قائم رہا۔ اسی لیے آغا حشر نے اپنی وطنیت کو اپنی ذات سے علیحدہ کرنا پسند نہیں کیا۔ اور خود کو ہمیشہ کاشمیری کہتے اور لکھتے رہے۔‘‘4؂
غنی شاہ ان لوگوں میں تھے جو انگریزی تعلیم کو برا سمجھتے تھے اور خاندان مذہبی روایات کا پاسدار تھا اس لیے آغا حشر کی ابتدائی تعلیم کا آغاز مولوی عبدالصمد صاحب کے مدرسے سے ہوا جہاں انھوں نے عربی فارسی اور اردو درسیات کی تحصیل کے ساتھ ساتھ حفظ قرآن کا سلسلہ بھی شروع کیا مگر یہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔ انگریزی تعلیم اور انگریزی وضع قطع سے اجتناب کے باوجود خاندان کے دباؤ اور کچھ لوگوں کے اصرار پر، مدرسے سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد آغا حشر کا داخلہ جے نرائن اسکول میں کرایا گیا۔ جہاں انھوں نے کچھ انگریزی تعلیم بھی حاصل کی۔ لیکن پڑھنے سے زیادہ ان کا دل دوستوں کی صحبت میں گپ شپ، سیروتفریح، ورزش، کشتی اور تیراکی میں لگتا تھا۔ شطرنج بھی بہت اچھا کھیلتے تھے۔ شعر گوئی کی ابتدا مدرسے کے زمانے سے ہوگئی تھی۔ ابتدا میں کچھ غزلیں فارسی میں کہیں۔ اسکول کے زمانے میں اردو شعر گوئی کی طرف راغب ہوئے۔ بقول آغا جمیل ڈرامے سے ان کی دلچسپی بچپن سے تھی۔ چند دوستوں کو ساتھ لے کر اسکول کے پیچھے والے قبرستان میں چادر تان کر اندر سبھا کھیلا کرتے۔
ترنم ہو یا تحت آغا حشر کا اسلوب شعر خوانی لاجواب تھا اور شعر بھی اچھے کہہ لیتے تھے۔ چنانچہ جلد ہی دوستوں کی محفل سے نکل کر مقامی مشاعروں تک رسائی حاصل کر لی۔ مگر اس سب کی وجہ سے تعلیم کا سلسلہ زیادہ آگے نہ بڑھ سکا۔ 
یہ وہ زمانہ تھا جب پارسی کمپنیاں شہر بہ شہر گھوم کر ڈرامے اسٹیج کرتی تھیں۔ ابھی سنیما کا رواج نہیں ہوا تھا۔ ڈراما تفریح کا بنیادی ذریعہ تھا۔ بہرحال 1897 میں الفریڈ جوبلی کمپنی بنارس آئی اور احسن لکھنوی کے ڈرامے ’چندراولی‘ کا بڑا شہرہ ہوا۔ بقول آغا جمیل آغا حشر بھی اپنے چند دوستوں کے ساتھ ڈراما دیکھنے گئے اور رعایتی ٹکٹ چاہا جو عام طور پر کمپنیاں طالب علموں کو دیا کرتی تھیں۔ مگر اس کمپنی نے رعایتی ٹکٹ دینے سے انکار کردیا۔ ان لوگوں نے پورا ٹکٹ لے کر ڈراما دیکھا۔ دوسرے روز ’رفیع الاخبار‘ میں ’احسن کے ڈرامے‘ کے عنوان سے ایک مضمون شائع کروا دیا۔ کمپنی کی طرف سے جواب شائع ہوا۔ پھر جواب الجواب کی نوبت آئی تو کمپنی نے مصالحت میں ہی عافیت سمجھی۔ صلح اس بات پر ہوئی کہ آغا حشر مع احباب بلا ٹکٹ ڈراما دیکھیں گے۔اس سلسلے میں آغا جمیل کاشمیری لکھتے ہیں:
’’نتیجہ یہ نکلا کہ مالکان کمپنی نے حشر کو مفت ڈراما دیکھنے کی دعوت دے کر مصالحت کر لی۔ اس طرح روزانہ ڈراما دیکھنا حشر کے معمولات میں شامل ہوگیا۔ احسن صاحب اس کمپنی کے ڈراما نویس اور امرت لال ڈائریکٹر تھے، ان لوگوں سے روزانہ ملاقات ہونے لگی۔
احسن صاحب سے روزانہ کسی نہ کسی علمی یا مجلسی موضوع پر گفتگو ہوتی رہتی تھی۔ ایک دن کسی موضوع پر احسن صاحب اور آغا حشر میں بحث ہوگئی اور حشر یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے کہ جیسا ڈراما آپ لکھتے ہیں میں ایک ہفتے میں ایسا ڈراما لکھ سکتا ہوں۔ اگرچہ احسن صاحب جیسے پختہ کار کے مقابلے میں حشر کا یہ دعویٰ بہ ظاہر طفلانہ تعلی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ مگر اس واقعے کے فوراً بعد انھوں نے دوستوں کے کلب کے لیے اپنا پہلا ڈراما ’آفتاب محبت‘ لکھ کر یہ ثابت کر دیا کہ ان کی زبان سے نکلے ہوئے یہ الفاظ محض طفلانہ تعلّی نہ تھے۔‘‘5؂
ڈراما ’آفتاب محبت‘ جواہر اکسیر پریس سے 1897 میں شائع ہوا جو آغا حشر کی ڈراما نگاری کی ابتدا تھی۔ چنانچہ آغا حشر کی ان دلچسپیوں اور تعلیمی مشاغل سے بیگانگی کو دیکھتے ہوئے والد نے انھیں تجارت کی طرف لگانا چاہا مگر تجارت میں بھی ان کا دل نہ لگا۔ چنانچہ والد نے میونسپلٹی میں ایک معقول ملازمت کا انتظام کروایا اور انھیں ساتھ لے کر زرِ ضمانت جمع کرانے گئے۔ آغا حشر کو ضمانت جمع کرنے کے لیے چھوڑ کر خود کسی دوسرے کام سے چلے گئے۔ سوئے اتفاق کہ اس روز زرِ ضمانت جمع نہ ہوسکی۔ واپس آتے ہوئے کچھ دوست احباب مل گئے اور آدھی سے زیادہ رقم ان کی ضیافت میں صرف ہوگئی۔ لہٰذا والد کی خفگی کے خوف نے ان کے قدم گھرکے بجائے اسٹیشن کی طرف موڑ دیے اور وہ بمبئی کے لیے عازم سفر ہوئے۔ بمبئی کا رخ شاید اس لیے کیا ہو کہ بمبئی میں ان کے دوست عبداللہ بسلسلۂ تجارت پہلے سے مقیم تھے۔عبداللہ باذوق آدمی تھے۔ شعر و شاعری سے دلچسپی رکھتے تھے۔ آغا حشر ان ہی کے یہاں قیام پذیر ہوئے۔ آغا حشر جس روز بمبئی پہنچے اسی رات عبداللہ ایک مشاعرے میں شریک ہونے جا رہے تھے انھیں بھی ساتھ لے گئے... آغا حشر نے بھی غزل سنائی جو کافی پسند کی گئی۔
بمبئی میں کچھ دنوں بعد ان کی ملاقات امرت لال ڈائریکٹر الفریڈ جوبلی کمپنی سے ہوئی۔ بنارس کی جان پہچان تھی۔ امرت لال انھیں گھٹاؤجی مالک الفریڈ کمپنی کے پاس لے گئے۔ گھٹاؤجی نے کم عمری کے سبب آغا حشر پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔ اور ازراہ تفنن چائے کی پیالی پر شعر کہنے کو کہا جو اس وقت ان کے سامنے رکھی ہوئی تھی۔ (اس وقت ڈراما نگار کی بنیادی خصوصیت اچھا شاعر ہونا مانی جاتی تھی) آغا حشر نے چائے کی پیالی پر فی البدیہہ شعر کہہ کر سنا دیا۔ گھٹاؤجی نے انھیں دوسرے روز آنے کو کہا۔ گھٹاؤجی کی کم توجہی ناامیدی کا سبب بنی اور وہ ان کے پاس نہیں گئے بلکہ بنارس واپس جانے کا ارادہ کر لیا۔ واپسی کا ٹیلی گرام دینے جا رہے تھے کہ راستے میں امرت لال مل گئے۔ اور دوسرے روز نہ آنے کی شکایت کی۔ آغا حشر نے دوسرے روز نہ ملنے کا سبب ناامیدی بتایا۔ امرت لال نے کہا فوراً جا کر ملو وہ تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔ چنانچہ آغا حشر گھٹاؤجی سے ملے اور کمپنی میں ان کا تقرر 35روپیہ ماہوار پر ہو گیا۔ بعض لوگوں نے پندرہ روپیہ ماہوار بھی لکھا ہے۔ بہرحال پندرہ ہو یا 35وہ بحیثیت ڈراما نویس کمپنی سے منسلک ہو گئے۔ 
احسن لکھنوی اس کمپنی کے تجربہ کار اور پختہ کار ڈراما نویس تھے، لہٰذا آغا حشر ایسا کچھ کر دکھانا چاہتے تھے جو احسن سے بہتر ہو۔ لہٰذا تھیٹر رنگ میں کسی ٹوٹی کرسی پر بیٹھ کر اور کسی بکس کو میز بنا کر دن رات ایک کردیا۔ 
بقول آغا جمیل اس کمپنی میں ایک یوریشین میم بھی ملازم تھی جو انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو بھی جانتی تھی۔ کسی ذریعے سے آغا حشر کا تعارف اس سے ہوا تو اس نے ان کے اندر چھپے ہوئے ڈراما نگار کو پہچان لیا اور اپنے شیکسپیئر کے تراجم انھیں دکھائے، جس سے آغا حشر کو ایک نئی راہ ملی اور وہ اسی راہ پر چل نکلے۔ اپنی شہرت کی انتہائی بلندیوں پر پہنچ کر بھی آغا حشر اس میم کا ذکر بڑے احسان مندانہ طریقے سے کرتے تھے۔ 6؂
آغا حشر بمبئی میں اکثر مشاعروں میں جایا کرتے تھے اور اپنا کلام سناتے تھے۔ وہاں کے ایک کہنہ مشق شاعر حکیم تجمل حسین سے ایک مشاعرے میں کسی بات پر ان بن ہو گئی۔ حکیم صاحب کے شاگردوں نے آغا حشر پر اعتراضات کرنے شروع کر دیے۔ چنانچہ حکیم صاحب سے ٹکر لینے کے لیے آغا حشر نے عروض و قافیہ اور معنی و بیان کا بڑی محنت سے مطالعہ کیا۔ مظفر شمیم لکھتے ہیں:
’’منشی تجمل حسین سے شاعرانہ چشمک سے یہ فائدہ ہوا کہ حشر نے عروض و قافیہ، بیان و معنی وغیرہ کا بڑی محنت سے مطالعہ شروع کیا۔ اور لغت و زبان کے قواعد کو بڑی گہری نظر سے دیکھا۔ اور تھوڑے دنوں میں وہ خود ایک پختہ شاعر بن گئے۔‘‘7؂
بمبئی کے قیام کے دوران آغا حشر نے بہت سے مناظروں میں بھی حصہ لیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کے ابتدائی دور میں کچھ دنوں بمبئی میں بھی قیام کیا۔ خواجہ حسن نظامی بھی ان دنوں بمبئی میں موجود تھے لہٰذا مشنریوں کے پادریوں سے ان تینوں نے مل کر خوب خوب مناظرے کیے اور انھیں اسلام کی ’حقانیت‘ سے آگاہ کیا۔ سعادت حسن منٹو ’گنجے فرشتے‘ میں لکھتے ہیں:
’’تھوڑی دیر بعد ادھر ادھر کی باتیں شروع ہوئیں۔ کسی نے آغا صاحب سے مولانا ابوالکلام آزاد کے تبحر علمی کے بارے میں پوچھا تو آپ نے اس کا جواب یوں دیا۔ ’’محی الدین کے بارے میں پوچھتے ہو۔ ہم دونوں اکٹھے امریکی اور عیسائی مبلغوں سے مناظرے لڑتے رہے ہیں۔ گھنٹوں گلا پھاڑتے تھے۔ عجیب دن تھے وہ بھی۔
آغا صاحب نے پھر کہا۔ ’’عجب دن تھے وہ۔ آزاد ڈھیل کے پینچ لڑانے کا عادی تھا۔ مجھے آتا تھا مزا کھینچ کے پینچ لڑانے میں۔ ایک ہاتھ مارا پیٹا کاٹ لیا۔ حریف منہ دیکھتے رہ گئے۔ ایک دفعہ آزاد بری طرح گھر گیا۔ مقابلہ چار نہایت ہی ہٹ دھرم عیسائی مشنریوں سے تھا۔ میں پہنچا تو آزاد کی جان میں جان آئی۔ اس نے ان مشنریوں کو میرے حوالے کیا۔ میں نے دو تین ایسے اڑنگے دیے کہ بوکھلا گئے۔ میدان ہمارے ہاتھ میں رہا۔‘‘ 8؂
بمبئی میں آغا حشر کے قیام کا زمانہ وہ زمانہ تھا جب عیسائی مشنری اور آریہ سماجی ایک منظم تحریک کی صورت میں اسلام کے خلاف زہر افشانی کر کے، اسلام کی روح سے بیگانہ مسلمانوں کو مذہب سے منحرف کر رہے تھے۔ اس وقت آغا حشر، مولانا ابوالکلام آزاد، ان کے بھائی ابوالنصر اور نظیر حسین سخا نے مل کر ایک انجمن قائم کی جس کا نام ’انجمن نصرت اسلام‘ رکھا گیا۔ یہ انجمن عیسائی اور آریہ سماجی مبلغوں کے خلاف ایک زبردست محاذتھا۔ عبدالمجید سالک لکھتے ہیں:
’’ہر دوسرے تیسرے دن یہ لوگ کسی نہ کسی پادری یا آریہ سماجی پرچارک کو پکڑ لاتے اور جلسہ عام میں مناظرہ کر کے اس کا قیمہ کر ڈالتے۔ یہاں تک کہ رامچندر دہلوی اور پادری طالب الدین جیسے پرانے گھاگ بھی ان کے پنجے میں گرفتار ہوئے۔ مولانا ابوالکلام اور مولانا ابوالنصر کا علم وفضل، نظیر حسین سخا کی فی البدیہہ شاعری اور آغا حشر کے زور خطابت اور ضلع جگت اور پھبتی میں مہارت غرض اس حرب مناظرہ کے لیے پورا اسلحہ خانہ موجود تھا۔ جس کا مقابلہ کسی عیسائی یا آریہ سماجی کے بس کا روگ نہ تھا۔ ہزاروں لوگ ان جلسوں میں شریک ہوتے تھے اور ان مناظرین اسلام کی تقریروں پر جوش و خروش کا اظہار کرتے تھے۔‘‘ 9؂
اس انجمن نے ’البلاغ‘ کے نام سے ایک ماہانہ رسالہ بھی جاری کیا تھا جسے مولانا ابوالکلام آزاد مرتب کرتے تھے۔ کچھ دنوں اس کی ادارت آغا حشر نے بھی کی تھی مگر ان میں سے کسی کا نام اس پر نہیں چھپتا تھا۔ بلکہ ان کے ایک ناخواندہ خدمت گار کالے خاں کو مولوی عبدالروؤف خاں کے نام سے اس انجمن کا سکریٹری اور رسالے کا ایڈیٹر بنایا گیا تھا۔ 10؂
آغا حشر گوناگوں شخصیت کے مالک تھے۔ ڈراما نگاری کے ساتھ ساتھ ان کی خطابت کا ڈنکا بھی چہار دانگ عالم میں بجتا تھا۔ ان کی تعلیم تو زیادہ نہ تھی لیکن ذوق مطالعہ نے ان کے علم کو وسیع تر کر دیا تھا۔ پھر ان کی ذہانت اور قوت حافظہ نے اسے دو آتشہ بنا دیا۔ چراغ حسن حسرت لکھتے ہیں :
’’ان کا حافظہ غضب کا تھا جو کچھ پڑھتے تھے یاد ہوجاتا تھا۔ میں ان دنوں ’عصر جدید‘ کا ایڈیٹر تھا۔ آغا صاحب سہہ پہر کو تشریف لاتے تھے۔ دو گھنٹے بڑی دلچسپ صحبت رہتی تھی۔ چلتے وقت کہتے تھے لاؤ بھائی کوئی اخبار کوئی رسالہ۔ میں اخبار اور رسالوں کا ایک بنڈل ان کے ساتھ کر دیتا تھا۔ دوسرے دن نوکر کے ہاتھوں بھیجوا دیتے تھے۔ راستہ چلتے کسی اخبار یا کسی کتاب کا کوئی گرا پڑا ورق نظر آجاتا تھا تو اسے اٹھا کر پڑھنا شروع کر دیتے تھے۔ اور اکثر اوقات یہ بھی ہوا ہے کہ نوکر بازار سے سودا لایا ہے کسی پڑیا پر انھیں داغ، غالب، حالی، شبلی یا کسی اور نثر نگار یا شاعر کا نام نظر آگیا۔ نوکر کو تاکید ہو رہی ہے کہ پڑیا کو جلد خالی کر کے لاؤ۔ دیکھو اسے کہیں پھینک نہ دیجؤ۔ ان کے مطالعے کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ یہ اس مطالعے کی برکت تھی کہ وہ ہر موضوع پر نہایت بے تکلفی سے باتیں کر سکتے تھے۔‘‘ 11؂
آغا حشر کے ذوق مطالعہ کے بارے میں آغا جمیل کاشمیری لکھتے ہیں:
’’کریمیہ لائبریری، بمبئی کے لائبریرین نے ایک تقریر میں ان کے شوق کتب بینی کے متعلق یوں اظہار خیال کیا تھاکہ ’’آغا صاحب کا شوق مطالعہ دیکھ کر میں یوں محسوس کرتا ہوں کہ گویا کہ یہ لائبریری شہر سے دور اور الفریڈ تھیٹر سے قریب صرف آغا صاحب کی علمی تشنگی کی سیرابی کے لیے بنائی گئی ہے۔‘‘ 12؂
چنانچہ آغا حشر نے خطابت کے میدان میں قدم رکھا تو وہاں بھی اپنے کو دوسروں سے ممتاز تر ثابت کر کے اپنی طلاقت لسان کا لوہا منوایا۔ جب وہ تقریر کرتے تو سننے والوں پر وجد کا عالم طاری ہوجاتا۔ ان کے پراثر زور بیان کی وجہ سے ہی ایک مرتبہ ڈاکٹر راجیندر پرشاد نے شملہ کانفرنس کے موقع پر کہا تھا کہ اگر آغا حشر کانگریس میں شامل ہوجاتے تو چوٹی کے لیڈروں میں شمار ہوتے۔ 13؂
انجمن حمایت اسلام لاہور کی ایک تقریر کا حال پروفیسر علیم الدین سالک کی زبانی سنیے:
’’جلسہ کی کارروائی شروع ہوئی تو لوگوں نے دیکھا کہ ایک دبلا پتلا سرخ و سفید انسان آنکھوں پر چشمہ لگائے سر پر سرخ ترکی ٹوپی رکھے اور سیاہ سوٹ پہنے اسٹیج کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ہر طرف انگلیاں اٹھنا شروع ہوئیں اور معلوم ہوا کہ آغا حشر آگئے۔ آغا صاحب اس سے پہلے اپنی تقریر کے سبب اہل لاہور سے روشناس ہو چکے تھے اور لوگوں کا ایک جم غفیر آپ کی آتش بیانی کا شہرہ سن کر نظم سننے کے لیے وہاں موجود تھا۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری اس وقت صدر جلسہ تھے۔ آغا صاحب ان کے پاس جا کر بیٹھ گئے۔ جب آپ کی نظم پڑھنے کا وقت آیا تو سب سے پہلے آپ نے نہایت موزوں الفاظ میں اس بات کا شکوہ کیا کہ انھیں وقت بہت کم دیا گیا ہے۔ اس کے بعد انجمن حمایت اسلام کے اراکین کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرائی کہ وہ کشمیری نہیں کاشمیری ہیں۔ یہاں کاشمیری کی تشریح کرتے ہوئے آپ نے حضور رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ’موتو قبل انت موتو‘ پیش کیا۔ اور اس پر تقریر کرتے ہوئے علم و معارفت کے دریا بہا دیے۔ تمام حاضرین پروجد کا عالم طاری تھا۔ علمائے کرام کی وہ جماعت جو اس سے قبل اراکین انجمن پر اس وجہ سے ناراض ہو رہی تھی کہ انھوں نے ایک ناٹک والے کو اسٹیج پر کیوں بلایا۔ اب سر جھکائے بیٹھی تھی آخر آغا صاحب نے اپنی تقریر ختم کی اور دیکھنے والی آنکھوں نے دیکھا کہ علمائے کرام نے اٹھ اٹھ کر نہایت عقیدت مندی سے آغا صاحب کے ہاتھ چومے۔‘‘ 14؂
آغا حشر کی خطابت کے بارے میں آغا جانی کشمیری لکھتے ہیں:
’’کلکتے میں ایران کے مشہور شاعر عرفی کا جنم دن منایا جا رہا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد بولے، نواب نصیر حسن خیال بولے، سلیمان ندوی بولے ان سب کے بعد لوگ چیخے حشر صاحب، حشر صاحب یہ بیباک مصنف کھڑا ہوا اس نے کہا۔
دوستو! عرفی ایران کا شاعر تھا اس زمانے میں پیدا ہوا تھا جب بچے بھی تلوار باندھتے تھے۔ گھوڑے کی سواری کرتے تھے۔ بات بات پر گردن دے دی جاتی تھی۔ میں اپنے ملک کے سب سے بڑے شاعر انیس کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ انیس نے اس زمانے میں تلوار کی تعریف کی ہے جب تلوار ٹوٹ چکی تھی۔ گھوڑے کی سواری ختم ہو چکی تھی۔ ملک اجڑ چکا تھا۔ لوگ بہار کا موسم بھول چکے تھے۔
ایک گھنٹے تک یہ بے مثال مقرر جس کو ہم پہلی بار سن رہے تھے بولتا رہا۔ انیس کے مرثیے کے بند پر بند سناتا رہا۔ پہلے عرفی کے شعر پڑھے پھر اسی مضمون کے انیس کے شعر پڑھے ایک گھنٹے تک بولتا رہا یہ شخص اور تالیاں بجتی رہیں۔‘‘ 15؂
آغا حشر کی گفتگو میں ایک خاص دل آویزی ہوتی تھی۔ وہ لطیفوں، چٹکلوں، پھبتیوں اور مزیدار فقروں سے خشک سے خشک مباحث کو بھی رنگین بنا دیتے تھے۔ اور ایسی ایسی دلیلیں ڈھونڈ کر لاتے کہ حریف سے جواب بن نہ پڑتا۔ ان کی حاضر جوابی اور ضلع جگت کا یہ عالم تھا کہ اس فن کے بڑے بڑے مشاقوں کو بھی ان کے سامنے منہ کھولنے کا حوصلہ نہ ہوتا تھا۔
آغا حشر ایک منفرد دل و دماغ کے انسان تھے۔ ان کی شخصیت میں بڑائی اور عظمت کے بے شمار حوالے موجود تھے۔ ایک طرف ان کی شخصیت میں ایسے طوفان کی تیزی و تندی تھی جو بڑے بڑے پتھروں کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتی تھی تو دوسری طرف ان کے اندر خلوص و محبت کے جذبات بھی پوشیدہ تھے۔ وہ ایک ایسا دردمند دل رکھتے تھے جو انسان دوستی اور انسانی ہمدردی کے جذبات سے مملو تھا۔ آغا حشر بہت زندہ دل اور باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ انھیں بہت کم مغموم دیکھا گیا۔ حاضر جوابی، بدیہہ گوئی اور برمحل جملے بازی ان کے مزاج کا حصہ تھا۔ 
لالہ سری رام نے انھیں ’ایک وضعدار خلیق اور بامروت انسان‘ کہا ہے۔ 16؂
منصور احمد کے مطابق :
’’حشر ظاہری اور ذہنی دونوں حیثیتوں سے ایک شاندار انسان ہیں۔ انھیں اپنی عظمت کا احساس ہے۔ وہ بڑائی اور غرور سے متنفر ہیں۔ خلوص اور محبت کے سامنے وہ آنکھیں بچھا دیتے ہیں... سخن فہموں کی وہ دل سے قدر کرنے والے تھے۔ ان کے غصے میں دشمنی نہیں۔ ان کی دشمنی میں ضرر نہیں، وہ صرف ایک شریف بے شر طبیعت کے مالک ہیں۔ اپنے کام سے انھیں بے حد شغف ہے اور اس کی ذرا ذرا سی تفصیلات کے وہ ماہر ہیں۔‘‘ 17؂
آغا حشر کو غریبوں اور زیر دستوں سے بڑی ہمدردی تھی۔ وہ اکثر بیواؤں، یتیموں اور نادار عزیزوں کی خفیہ طور پر مالی امداد کرتے۔ وہ بہت ملنسار طبیعت کے مالک تھے۔ چھوٹے سے چھوٹا خوانچے والا ان کی دوستی کا دم بھرتا اور حاکم وقت بھی اپنا رفیق جانتا۔ گھر ہوتے تو ہر آنے والے سے ملنا اپنا اولین فرض جانتے اور خوب خاطر مدارات کرتے۔ عشرت رحمانی ان کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’آغا حشر رند بلا نوش ہونے کے باوجود سچے و پکے خدا پرست اور ایماندار مسلمان تھے۔ ان کے دل میں عشق رسول کی تابانی اور نور ایمانی کی جلوہ گری تھی۔ وہ مشرقی تہذیب و تمدن کے دلدادہ اور بے جا مغرب زدگی سے متنفر تھے۔ انسانیت کا احترام ان کا دین اور قومی اقدار کی پابندی ان کا ایمان تھا۔ آزادی وطن، ترقی نسواں اور دین اسلام کے احیا اور تحفظ کے لیے ہر ممکن سعی و جدوجہد آغا صاحب نے اپنا فرض اولین تصور کیا جس کے لیے دامے درمے، سخنے، قدمے قابل قدر خدمات انجام دیں۔ ان کی تخلیقات میں ان مساعی کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ انجمن حمایت اسلام کے کئی سالانہ جلسوں میں حشر نے جو ملی نظمیں پڑھیں وہ اس حقیقت کی بین دلیل ہیں۔‘‘ 18؂
چراغ حسن حسرت لکھتے ہیں:
’’آغا صاحب نے اگرچہ لاکھوں کمائے اور لاکھوں ہی اڑائے۔ لیکن وہ تنہا خوری کے عادی نہیں تھے۔ جب روپیہ آتا تھا اس میں سب عزیزوں کے حصے لگائے جاتے تھے۔ قریب کے رشتہ داروں کو تو انھوں نے لاکھوں دے ڈالے۔ والدہ کی ایسی خدمت کی کہ کوئی کیا کرے گا۔ لیکن دور کے رشتہ داروں کو بھی وہ کبھی نہ بھولے۔ ان کے عزیزوں میں کئی بیوہ عورتیں اور یتیم بچے تھے۔ ان سب کے درماہے مقرر تھے۔ روپیہ آتا تھا تو جس کا جو حصہ مقرر تھا اسے گھر بیٹھے پہنچ جاتا تھا۔ غرض آغا کی ذات بیکسوں کی زندگی کا سہارا بنی ہوئی تھی۔‘‘19؂
یہ درست ہے کہ آغا صاحب کو اپنی والدہ سے بے حد محبت تھی۔ ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔ ان کی چھوٹی سے چھوٹی خواہش ان کے لیے حکم کا درجہ رکھتی تھی۔ والدہ کی ہر خواہش کو پہلی فرصت میں پورا کرتے تھے۔ ویسے تو انھیں اپنے تمام عزیزوں سے خاص انسیت تھی مگر اپنے چھوٹے بھائی آغا محمود شاہ کو وہ بے حد عزیز رکھتے تھے۔ ان کی ہر جا و بے جا ضرورتوں اور فرمائشوں کو پورا کرنا وہ اپنا اولین فرض سمجھتے تھے۔ انھیں آغا حشر نے ہمیشہ اپنے ساتھ رکھا اور اپنی توجہ خاص سے اسٹیج کا ایک اعلیٰ فن کار بنا دیا۔
آغاحشر بحیثیت شاعر
آغا حشر صرف ڈراما نگار ہی نہیں بلکہ بہت خوش گو، خوش فکر اور رموزفن سے واقف شاعر بھی تھے۔ گوکہ ابھی تک ان کی شاعرانہ عظمت کا باقاعدہ اعتراف نہیں کیا گیا ہے۔ لیکن ان کے کلام کی موجودگی میں اس سے انحراف بھی ناممکن ہے۔
ابتدائی تعلیم کے لیے ان کا داخلہ مولوی حافظ عبدالصمد کے مشہور مدرسے میں ہوا۔ بنارس کے مدرسے میں عربی و فارسی تعلیم کے دوران فارسی زبان کی شیرینی نے انھیں اپنی طرف راغب کیا اور انھوں نے اپنی شاعری کی ابتدا فارسی غزل گوئی سے کی۔ فارسی میں وہ شاہی تخلص کرتے تھے۔ فارسی کی وہ غزلیں محفوظ نہیں کی جاسکیں۔
آغا حشر کی اردو شعر گوئی کی ابتدا جے نرائن اسکول کی طالب علمی کے زمانے میں ہوئی۔ اردومیں انھوں نے ماہر علم عروض مرزا محمد حسن فائز سے اصلاح لی۔ تحت اور ترنم دونوں میں ادائیگی کا انداز منفرد تھا چنانچہ بہت جلد دوستوں کی محفل سے نکل کر مقامی مشاعروں تک رسائی حاصل کر لی۔ پہلی بار گھر سے نکل کر بمبئی پہنچے تو ابتدائی شہرت بھی انھیں شعر گوئی ہی کی بدولت حاصل ہوئی۔ ڈرامے کی دنیا میں انھیں داخلہ بھی زور بیان اور بدیہہ گوئی کی بدولت ملا۔
امرت لال کے انتقال پر آغا حشر نے فارسی میں مرثیہ لکھا جو ان کے دلی جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ یہ مرثیہ رسالہ شیکسپیئر بمبئی میں 1907 میں شائع ہوا۔ 1907 میں ہی جب والیِ افغانستان امیر حبیب اللہ خاں ہندستان تشریف لائے تو ان کی شان میں آغا حشر نے ایک قصیدہ فارسی میں پیش کیا۔ اس کے چند اشعار ملاحظہ ہوں جو ان کی فارسی دانی اور فارسی گوئی پر دال ہیں:
صبحدم پیشم بیامد نازنینے مہ رخے
خندہ بر لب، جام بر کف، جلوہ پاش و برق بار
ماہروئے مشک بوئے، دلبرے، جاں پرورے
خوش نظر والا گہر، لیلیٰ ادا، شیریں وقار
ناز پرور، ناز گستر، نازنیں، ناز آفریں
گلبدن گل پیرہن، گلگوں قبا، گلگوں عذار
عنبریں مو، یاسمیں بو، شعلہ خو، آئینہ رو
جلوہ بخش شام غم، صبح آفرین روزگار
غمزۂ بیباک او صد نخوت دارا شکن
عشوۂ چالاک او پنجہ کش اسفند یار
طرہ ہائے عنبرینش زور آور زور ور
خنجر چین جبینش ضرب زن، ضربش گذار
جستم و در برکشیدم، بوسہ دادم پے بہ پے
باز پرسیدم کہ اے جاں در لبم برتو نثار
کیستی، چوں آمدی؟ خندید و با صد ناز گفت
اے فصیح کاشمر، اے شاعر معجز نگار
آنم از مشرق بہ مغرب نور افشانی کنم
آنم اندر عالم ایجاد چوں شمس النہار
از شمیم جود ما گلشن بداماں ہر ختن
از نسیم لطف ما فردوس در ہر کوہ سار
فارسی کے علاوہ اردو میں بھی انھوں نے معیاری شاعری کا نمونہ چھوڑا ہے۔ ان کی غزلوں میں لطف و اثر اور بھرپور تغزل جلوہ گر ہے۔ ان کے اسلوب کی سادگی، تشبیہ و استعارے کا فن کارانہ استعمال، رنگین بندشیں اور چست ترکیبیں سادگی میں پرکاری کا حکم رکھتی ہیں۔ وہ شعر میں نازک خیالی کے بہت شائق ہیں۔ 
چند اشعار ملاحظہ ہوں ؂
چوری کہیں کھلے نہ نسیم بہار کی
خوشبو اڑا کے لائی ہے گیسوئے یار کی
بعد میرے بے وفا ئی اپنی یاد آئی تو کیا
بندہ پرور آپ نے اب قدر فرمائی تو کیا
جانتا تھا کھا رہا ہے بے وفا جھوٹی قسم
سادگی دیکھو کہ پھر بھی اعتبار آ ہی گیا
مہندی مرے لہو کی مبارک ہو آپ کو
رنگ حنا بھی اس میں ہے بوئے وفا بھی ہے
یاد میں تیری جہاں کو بھولتا جاتا ہوں میں
بھولنے والے کبھی تجھ کو بھی یاد آتا ہوں میں
یہ تو مئے انگور ہے کیا بات ہے اس کی
تو زہر بھی ہاتھوں سے پلائے تو مزا دے
آغا حشر نے غزلوں کے علاوہ نظمیں بھی کہی ہیں جو زورو اثر سے معمور ہیں۔ خصوصاً انجمن حمایت اسلام لاہور کے جلسوں میں پڑھی گئی ان کی دو نظمیں ’شکریہ یورپ‘اور ’موج زمزم‘ نے بے انتہا شہرت و مقبولیت حاصل کی۔ ’شکریہ یورپ‘ کے بارے میں آغا جمیل لکھتے ہیں:
’’21؍ مارچ 1913 کو انجمن کے سالانہ جلسے میں حشر نے ایک نظم پڑھنے کا وعدہ کر لیا مگر جلسے کے ایک دن قبل تک کمپنی کے انتظامات نے نظم لکھنے کی فرصت نہیں دی۔ شب میں فقیر محمد چشتی نے ان کو نظم پڑھنے کا وعدہ یاد دلایا۔ آغا صاحب اسی وقت لحاف اوڑھ کر بیٹھ گئے اور حکیم صاحب کی موجودگی میں منشی فضل الٰہی مرغوب رقم کو نظم ’شکریہ یورپ‘ لکھوانی شروع کردی جس کی راتوں رات خواجہ حسن نظامی کے مقدمے کے ساتھ کتابت و طباعت ہوگئی۔‘‘20؂
اس جلسے کی روداد لکھتے ہوئے علیم الدین سالک لکھتے ہیں:
’’... آغا صاحب نے اپنی نظم شروع کی، اس وقت محفل کی حالت دیکھنے کے قابل تھی۔ اہل درد رو رہے تھے۔ ملت بیضا کے شیدائی سسکیاں لے رہے تھے۔ نوجوان جوش کی وجہ سے بے قابو ہو رہے تھے۔ عوام پر سکتہ کا عالم طاری تھا۔ بچے بت بنے سناٹا کھینچے بیٹھے تھے۔ آخر مناجات والا بند آیا۔ آغا صاحب نے آستین چڑھا کر، اثر میں ڈوبے ہوئے انداز میں پہلا شعر پڑھا ؂
آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لیے
بادلو ہٹ جاؤ دے دو راہ جانے کے لیے
محفل تڑپ اٹھی۔ بے خودی اور اضطرار کی حالت میں ہزاروں ہاتھ دعا کے لیے دربارِ ایزدی میں بلند ہوئے اور آمین آمین کی آواز نے آسمان میں گونج پیدا کردی۔ اس نظم کو اس درجہ مقبولیت حاصل ہوئی کہ اس کے مطبوعہ نسخے جو ایک ایک آنے پر فروخت ہونا شروع ہوئے تھے۔ اس جلسے میں ایک ایک پاؤنڈ پر بھی دستیاب نہ ہوسکے۔‘‘21؂
اس نظم کا ایک مخصوص بند ملاحظہ ہو ؂
اے زمین یورپ! اے مقراض پیراہن نواز
اے حریف ایشیا اے شعلہ خرمن نواز
چارہ سازی تیری بنیاد افگن کاشانہ ہے
تیرے دم سے آج دنیا ایک ماتم خانہ ہے
اشک حسرت زا سے حشم حریت نمناک ہے
خونچکاں روداد اقوام گریباں چاک ہے
صرف تصنیف ستم ہے فلسفہ دانی تری
آدمیت سوز ہے تہذیب حیوانی تری
عظمت دیرینہ نالاں ہے ترے برتاؤ سے
دھل گیا حسن قدامت خون کے چھڑکاؤ سے
جلوہ گاہ شوکت مشرق کو سونا کردیا
جنت دنیا کو دوزخ کا نمونہ کر دیا
اٹھ رہا ہے شور غم خاکستر پامال سے
کہہ رہا ہے ایشیا رو کر زبان حال سے
بر مزار ما غریباں نے چراغ نے گلے
نے پر پرواز سوزد، نے سراید بلبلے
نظم کے اس بند کے لیے برطانوی گورنمنٹ کی طرف سے آغا حشر کے خلاف نوٹس جاری ہوا اور اسے ضبط کر لیا گیا۔ آغا حشر کے بارے میں آل احمد سرور لکھتے ہیں:
’’شکریہ یورپ‘ اور ’موج زمزم‘ کا لکھنے والا اول درجے کا شاعرنہ سہی اچھا شاعر ضرور ہے۔‘‘ 22؂
جیسا کہ پہلے ذکر ہوا حشر نے پہلی ملازمت پندرہ روپیہ یا پینتیس روپیہ ماہوار سے گھٹاؤجی کی الفریڈ تھیٹریکل کمپنی میں شروع کی۔ پھر مختلف کمپنیاں بدلتے رہے۔ ہر نئی کمپنی میں ان کا تقرر مشاہرے میں اضافے کے ساتھ ہوا۔ آغا حشر اردو ڈرامے کو نئی وسعتوں سے ہم کنار کرنا چاہتے تھے۔ لیکن مالکان کمپنی کی بیجا مداخلت سد راہ تھی۔ چنانچہ ملازمت سے دستبردار ہو کر انھوں نے حیدرآباد کے راجہ راگھوندر راؤ کی شرکت میں انڈین شیکسپیئر تھیٹریکل کمپنی بنائی اور اس کے لیے ’سلور کنگ‘ لکھا اور اسٹیج کیا۔ حیدرآباد کے قیام میں ان کی دوستی سوامی مراری دیو اور پنڈت جگ نرائن سے ہوئی۔ ان سے آغا حشر نے ہندو مذہب کی خوب جانکاری حاصل کی اور خوب کتابیں پڑھیں۔
انڈین شیکسپیئر تھیٹریکل کمپنی دہلی و پنجاب کے مختلف علاقوں سے ہوتی ہوئی لاہور پہنچی۔ لاہور میں 1913 میں آغا حشر کی شادی ہوئی۔ کمپنی شمالی ہند کے مختلف شہروں کا دورہ کرتی ہوئی کلکتہ آئی۔ 1914 میں آغا حشر کلکتہ اسٹیشن پر ٹرین کے انتظار میں ٹہل رہے تھے کہ پلیٹ فارم سے نیچے گر گئے اور داہنے پیر کی پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ پہلے تو ڈاکٹروں نے ٹانگ کاٹ دینے کی بات کی مگر پھر علاج سے ٹھیک ہوگئے۔ لیکن ٹانگ میں لنگ آخر تک باقی رہا۔ آغا جمیل لکھتے ہیں:
’’کمپنی کلکتہ سے کھڑک پور، مظفر پور پٹنہ ہوتی ہوئی بنارس آئی۔ جہاں 2؍ستمبر 1914 کو حشر کے یہاں بیٹا پیدا ہوا۔ جس کا نام نادر شاہ رکھا گیا۔ مگر تین ماہ بعد جب کمپنی لکھنؤ میں تھی اس کا انتقال ہوگیا۔ ‘‘23؂
کمپنی یوپی اور پنجاب کے مختلف شہروں کا دورہ کرتی ہوئی پھر لاہور پہنچی جہاں انھوں نے انجمن حمایت اسلام لاہور کے سالانہ جلسے میں اپنی نظم ’موج زمزم‘ پڑھی۔ اسی زمانے میں ان کی شریک حیات کی طبیعت کافی خراب تھی بالآخر 1918 میں ان کا لاہور میں انتقال ہوگیا۔ آغا حشر نے دل برداشتہ ہو کر کمپنی بند کردی۔ کمپنی کا سامان امرتسر میں رکھ کر خود بنارس آگئے۔24؂
آغا صاحب کو اپنی اہلیہ سے بے پناہ الفت تھی۔ ان کے انتقال سے انھیں بے حد صدمہ ہوا۔ کچھ دنوں کے لیے تو وہ ہوش و حواس کھو بیٹھے۔ اس کا ثبوت وہ مرثیہ ہے جو ان کی وفات پر آغا حشر نے لکھا اس کا ایک ایک شعر درد و اثر میں ڈوبا ہوا ہے۔ 25؂ عشرت رحمانی لکھتے ہیں:
’’اس مرثیے کے اشعار آغا صاحب ہر وقت پڑھتے اور آنسو بہاتے رہتے۔ احباب تسلی دیتے۔ ہنسانے کی ہر چند کوشش کرتے۔ مگر آغا صاحب کی کیفیت دیکھ کر روتے ہوئے اٹھتے۔ آخر آغا صاحب کے سب سے زیادہ قریبی دوست شفاء الملک حکیم فقیر محمد چشتی مرحوم نے کچھ اس انداز سے چارہ جوئی اور تشفی و مسیحائی کی کہ رفتہ رفتہ آغا صاحب کے زخم مندل ہوتے گئے۔‘‘ 26؂
اے۔ بی اشرف اور احمد شجاع نے آغا حشر کی اہلیہ کے انتقال کا سال 1916 بتایا ہے جبکہ آغا جمیل نے 1918۔ بہرحال جب آغا حشر کے زخم کچھ مندمل ہوگئے تو وہ پھر جے ایف مدان کی دعوت پر کلکتہ چلے گئے،ان کی کمپنی میں ایک ہزار روپیہ ماہانہ مشاہرہ پر کام کرنے لگے۔ اس بار کلکتہ کے قیام میں انھوں نے ہندی میں زیادہ ڈرامے لکھے۔
ہندی میں ڈرامے لکھنے کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ پیر کی ہڈی ٹوٹ جانے کے بعد ٹھیک ہوگئے تو کلکتہ سے لاہور پھر امرت سر گئے۔ وہاں نرائن پرشاد بیتاب کے ڈرامے ’مہا بھارت‘ نے دھوم مچا رکھی تھی۔ بیتاب نے کسی سے کہا اردو تو آغا صاحب کی مادری زبان ہے ہندی میں لکھیں تو ہم بھی داد دیں۔ یہ بات جوں کی توں آغا حشر تک پہنچ گئی۔ چونکہ وہ ایک جذباتی آدمی تھے لہٰذا انھوں نے فوراً ہندی میں ڈرامے لکھنے کی ٹھان لی۔ اور جلد ہی بن دیوی کی تخلیق کی جو ’بھارت رمنی‘ کے نام سے اسٹیج ہو کر بے حد مقبول ہوا۔
چنانچہ کلکتہ کے اس بار کے قیام میں انھوں نے ہندی میں ڈرامے لکھنے کی تجدید کی۔ اور 1919 میں ’مدھر مدلی‘، 1920 میں ’بھاگیرتھ گنگا‘۔ 1921 ’پراچین اور نوین بھارت‘، ’سنسار چکر عرف پہلا پیار‘۔ اردو میں ’ترکی حور‘۔ اور اسٹار تھیٹریکل کمپنی کے لیے بنگلہ زبان میں ’اپرادھی کیے‘ اور ’مصر کماری‘ ڈرامے لکھے۔ 1919 سے 1923 کے درمیان مڈنس لمیٹیڈ کی خاموش فلموں میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔ ’بھارت رمنی‘ فلم میں آغا حشر کا تانترک کا رول بے مثال تھا۔
1924 میں آغا حشر پھر بنارس آئے اور اپنی کمپنی ’دی گریٹ نیو الفریڈ تھیٹریکل کمپنی آف کلکتہ‘ کے نام سے بنائی۔ یہ کمپنی مختلف شہروں کا دورہ کرتی ہوئی 1927 میں الٰہ آباد پہنچی۔ الٰہ آباد میں مہاراجہ چرکھاری نے آغا حشر کا ڈراما دیکھ کر بہت پسند کیا۔ بعد میں مہاراجہ کی فرمائش پر آغا حشر نے ’سیتابن باس‘ لکھا جسے اسٹیج کرنے کے حقوق مہاراجہ نے آٹھ ہزار روپئے میں خرید لیے۔ ’سیتا بن باس‘ کا پہلا ایڈیشن ناگری رسم الخط میں ولسن پریس چرکھاری سے 20مئی 1929 میں شائع ہوا۔ جو 29مئی 1929 کو رجسٹریشن آف بکس کے قانون کے تحت نمبر 28پر رجسٹر ہوا۔ 
آغا جمیل کاشمیری لکھتے ہیں:
’’1928 میں مہاراجہ نے حشر کو مع کمپنی اپنے یہاں آنے کی دعوت دی۔ اور کمپنی کو خرید کر مزید روپئے آغا حشر کی نذر کیے اور ساتھ ہی ساتھ خود شاگرد ہو کر ان کو کمپنی کا نگراں مقرر کیا۔ آغا صاحب بحیثیت مہمان خصوصی رنگ محل میں رہنے لگے۔‘‘ 27؂
مہاراجہ چرکھاری کی دعوت پر آغا حشر چرکھاری گئے اور ڈیڑھ سال وہاں قیام کیا۔ مہاراجہ نے ان کی کمپنی خرید بھی لی تھی بعد میں انھیں واپس بھی کردی۔ مزید یہ کہ آغا حشر جتنے دنوں چرکھاری میں رہے مہاراجہ انھیں پندرہ سو روپیہ ماہانہ نذر کرتے رہے۔ اپنا ایک محل انھیں قیام کے لیے دیا۔ اور ایک تھئیٹر ہال ان کی دیکھ ریکھ میں بنوایا۔ محمد شفیع لکھتے ہیں:
’’مہاراجہ چرکھاری نے ان سے فرمایا تھا کہ ایسا تھئیٹر ہال تعمیر ہونا چاہیے جو ہر طرح سے مکمل ہو۔ وہ حشر کو ایک انجینئر کے روپ میں دیکھ کر خوش ہوئے اور انھوں نے طے کیا کہ 1927 کے میلے کے وقت اس میں ڈرامہ ضرور ہونا چاہیے۔ حشر صاحب بھی جی جان سے اس میں لگ گئے... یہ انھیں کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ ایک عظیم تھیٹر ہال بن کر تیار ہوا۔ جس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ روشنی اور پانی کے ساتھ ہی وہ انتظامات 1927 میں مہیا کیے گئے تھے جو کمپنی کے لیے ضروری تھے۔ آج بھی میلہ میدان چرکھاری میں یہ عظیم تھیٹر ہال بڑی شان سے اپنا سر اٹھائے کھڑا ہے۔ مگر افسوس کہ اس کے قدرداں باقی نہیں رہے۔ اور وہ صرف غلہ گودام بن کر رہ گیا ہے۔ کچھ ہی دن پہلے مہاراجہ چرکھاری (موجودہ) نے اسے گورنمنٹ ڈگری کالج کے لیے عنایت فرما دیا ہے۔‘‘ 28؂
آغا حشر کا دل کسی ایک جگہ نہیں لگتا تھا چنانچہ وہ چرکھاری میں ڈیڑھ سال رہنے کے بعد کمپنی لے کر کانپور آ گئے اور پھر مڈنس تھئیٹرز لمٹیڈ کی دعوت پر کلکتہ چلے گئے۔ 
1931 میں مڈن کی نوکری سے دستبردار ہو کر وہ بنارس آئے۔ جہاں اوپر سے بندر نے ان کے پیر پر ایک پتھر گرا دیا۔ پیر چوٹ کی وجہ سے سوج گیا۔ اسی کے ساتھ ساتھ دوسرے امراض بھی لاحق ہوگئے تھے۔علاج کے بعد کچھ افاقہ ہوا تو پھر کلکتہ چلے گئے۔ 
1930 میں متکلم فلموں کی ابتدا سے اسٹیج کو جو دھکا پہنچا اس کا اندازہ آغا حشر نے بخوبی کر لیا۔ اس بار کلکتہ کے قیام میں انھوں نے مڈن تھئیٹرس کی فلم کمپنی کے لیے۔ ’شیریں فرہاد‘ لکھا اس میں ماسٹر نثار نے ہیرو اور مس کجن نے ہیروئن کے کردار ادا کیے تھے۔ اس فلم کی مقبولیت دیکھ کر دوسری فلم ساز کمپنیاں بھی آغا صاحب کی طرف متوجہ ہوئیں۔ 29؂ چنانچہ انھوں نے کئی فلمی کہانیاں اور بہت سی فلموں کے مکالمے لکھے۔ آغا حشر کو جو شہرت اسٹیج پر حاصل تھی بہت جلد فلم میں بھی مل گئی۔ لہٰذا ہر فلم کمپنی چاہنے لگی کہ آغا حشر اس کے لیے لکھیں۔ 
ترک مے نوشی کی وجہ سے آغا حشر کی صحت 1929 سے ہی خراب ہونا شروع ہوگئی تھی۔ ڈاکٹروں کی صلاح تھی کہ تھوڑی تھوڑی لیتے رہیں مگر انھوں نے توبہ توڑنا گوارا نہ کیا۔
یہاں تک کہ 1934میں ان کی صحت حد درجہ خراب ہوگئی۔ اسی زمانے میں انھیں کسی مقدمے کے سلسلے میں کلکتہ سے لاہور جانا پڑا۔ یہ سوچ کر بھی لاہور چلے گئے کہ وہاں اپنے عزیز ترین دوست حکیم فقیر محمد چشتی سے علاج بھی کرا لیں گے۔ حکیم صاحب کے علاج سے کچھ افاقہ ہوا تو ’حشر پکچر‘ کے نام سے ایک فلم کمپنی بنائی، اور ’بھیشم پرتگیہ‘ کی شوٹنگ میں مصروف ہوگئے۔ ابھی فلم ابتدائی مرحلے میں ہی تھی کہ 20؍ اپریل 1935 کو ’’آفتاب حشر موت کی ظلمت میں ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔‘‘
حکیم فقیر محمد چشتی نے آغا محمود شاہ کاشمیری کی (جو اس وقت کلکتہ میں تھے اور جنھیں ٹیلی گرام تاخیر سے ملا تھا) اجازت سے، آغا صاحب کی وصیت کے مطابق میانی صاحب قبرستان میں ان کی اہلیہ کی قبر کے بغل میں سپرد خاک کردیا۔ حکیم محمد یونس نظامی نے قطعہ تاریخ وفات لکھا جس کا آخری شعر ہے ؂
ہر زباں پر مصرعہ تاریخ ہے
ہائے آغا محمد شاہ حشر
ملک کے مختلف اخبارات و رسائل میں یہ المناک خبر جلی حروف میں شائع ہوئی۔ ملک بھر میں ان کی یاد میں جلسے ہوئے۔ میموریل کمیٹیاں بنائی گئیں۔ مگر سب سے اہم کمیٹی لاہور میں بنی، جس کے ارکان میں اس دور کے تمام اکابر علامہ اقبال سے لے کر چودھری سر شہاب الدین تک شامل تھے۔ کئی شعرا نے منظوم نذرانہ عقیدت پیش کیا۔ حفیظ جالندھری لکھتے ہیں:
کون ہے جو حشر کا ہو جانشیں
ہو فلک جس کے تخیل کی زمیں
خندہ زن ہو گنبد افلاک پر 
ہے کوئی ایسا، نہیں کوئی نہیں
نرائن پرشاد بیتاب نے آغا حشر کے فن کا اعتراف اس طرح کیا ہے:
اے حشر کہ تو رقیب فن تھا میرا
آخر تو نے مجھے جیت کر ہی چھوڑا
لکھنے میں تو تھا ہی تو ہمیشہ آگے
مرنے میں بھی بیتاب سے پیچھے نہ رہا
ناٹک جو لکھا ملک میں مقبول ہوا
فقرہ جو تراشا وہی مقبول ہوا
تھا رنگ زباں بھی اس قدر معنی خیز
اسٹیج پہ تھوکا بھی تو اک پھول ہوا
مرزا عصمت اللہ بیگ اپنے ایک مضمون ’مرزا فرحت اللہ بیگ‘ میں لکھتے ہیں:
’’آغا حشر سے بھی پرانی یاد اللہ تھی، اور وہ ان کے پرانے مداح تھے۔ ممکن ہے کہ کوئی ان کے آگے آغا حشر کی برائی کردے۔ اجی حشر باپر کردیتے ہندوستان تو کیا دنیا میں اس ٹکر کا کوئی آدمی نہیں۔ کہتے تھے کہ ڈرامے کے فن کا اگر کوئی واقف کار ہے تو حشر ہے۔ ڈائریکٹر ہے تو حشر ہے۔ کہتے تھے کہ اس کے مرنے سے اردو ادب کا ایک پہلو بالکل تاریک ہوگیا۔ ایک نظم بھی لکھی تھی جس کا آخر شعر ہے۔ 
جب نہ نعم البدل رہا تو کہا
حشر کی موت اک قیامت ہے
اور اب بقول حشر صورت حال یہ ہے کہ ؂
بر مزار ما غریباں، نے چراغے نے گلے
نے پرِ پرواز سوزد، نے شراید بلبلے
حواشی
.1 عبدالقدوس نیرنگ۔ آغا حشر اور ناٹک (ہندی)۔ اترپردیش سنگیت ناٹک اکیڈمی، لکھنؤ 1978
.2 آغا جمیل کاشمیری (مرتب)۔ انتخاب کلام آغا کاشمیری۔ اترپردیش اردواکادمی، لکھنؤ 1991، ص: 05
.3 رضا علی عابدی۔ جرنیلی سڑک۔ سعد پبلی کیشن۔ محمد علی ہاؤسنگ سوسائٹی، کراچی۔ 1989 ،ص: 255-56
.4 آغا جمیل کاشمیری۔ آغا حشر حیات اور کارنامے۔ عصری ادب۔ شمارہ 51، جنوری 1983 ، ص: 19
.5 آغا جمیل کاشمیری۔ آغا حشر حیات اور کارنامے۔ عصری ادب۔ شمارہ 51، جنوری 1983،ص: 21
.6 مظفر شمیم (مرتب)۔ آنکھ کا نشہ اور دوسرے ڈرامے۔ انارکلی کتاب گھر، لاہور۔ 1957، ص: 02
.7 ایضاً، ص: 9
.8 سعادت حسن منٹو۔ گنجے فرشتے۔ ساقی بک ڈپو۔ اردو بازار، دہلی6-۔ 1993، ص: 46
.9 عبدالمجید سالک۔ یاراکن کہن۔ لاہور اردوپریس، 1955ء۔ ص: 118-19
.10 ایضاً۔ ص: 118
.11 چراغ حسن حسرت۔ مردم دیدہ۔ بار اول۔ دارالاشاعت پنجاب لاہور، 1951، ص: 58,59,60,61
.12 آغا جمیل کاشمیری۔ آغا حشر حیات اور کارنامے۔ عصری ادب۔ شمارہ 51۔ جنوری 1983، ص: 24
.13 بحوالہ تقریر پروفیسر علیم الدین سالک (یوم حشر 1962 منعقدہ بی این آر سنٹر لاہور۔ اے بی اشرف۔ آغا حشر اور ان کا فن۔ اعتقاد پبلشنگ ہاؤس، دہلی۔ 1980، ص: 110
.14 محمد طفیل احمد۔ تجلیات حشر۔ تاج کمپنی، لاہور، ص: 33-34
.15 آغا جانی کشمیری۔ سحر ہونے تک۔ دہلی امپریل پریس، ص: 172-73
.16 لالہ سری رام۔ خمخانہ جاوید۔ بار اول۔ 1911، ص: 466
.17 منصور احمد۔ ہندستان کے شیکسپیئر آغا حشر کاشمیری ڈراما کیوں کر لکھتے ہیں۔ ادبی دنیا۔ سالنامہ۔ 1935
.18 عشرت رحمانی۔ اردو ڈراما کا ارتقا۔ ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ۔ 2006، ص: 207
.19 چراغ حسن حسرت۔ مردم دیدہ۔ بار اول دارالاشاعت پنجاب لاہور۔ 1951، ص: 85
.20 آغا جمیل کاشمیری۔ آغا حشر حیات اور کارنامے۔ عصری ادب۔ شمارہ51، جنوری 1981، ص: 27
.21 بحوالہ آغا جمیل کاشمیری۔ آغا حشر حیات اور کارنامے۔ عصری ادب۔ شمارہ51، جنوری 1981، ص: 27-28
.22 بحوالہ چراغ حسن حسرت۔ مردم دیدہ۔ بار اول۔ دارالاشاعت پنجاب، لاہور۔ 1951، ص: 67
.23 آغا جمیل کاشمیری۔ آغا حشر حیات اور کارنامے۔ عصری ادب۔ شمارہ 51۔ جنوری 1983۔ ص: 29
.24 ایضاً۔ ص: 30 .25 سید محمد طفیل احمد۔ تجلیات حشر۔ لاہور تاج کمپنی۔ ص: 30
.26 عشرت رحمانی۔ آغا حشر۔ حریت کراچی (اخبار)۔ 29اپریل 1963
.27 آغا جمیل کاشمیری۔ آغا حشر حیات اور کارنامے۔ عصری ادب۔ شمارہ 51۔ جنوری 1983۔ ص: 31
.28 محمد شفیع۔ آغا حشر کاشمیری اور ان کے ڈراموں کا تنقیدی مطالعہ۔ عوامی پریس مالیگاؤں۔ 1988، ص: 56
.29 آغا جمیل کاشمیری۔ آغا حشر حیات اور کارنامے۔ عصری ادب۔ شمارہ 51۔ جنوری 1983۔ ص: 32

Prof. Shahid Husain
603/7, Shahjahanbad Apt. Sector 11, Plot1
Dwarka, New Delhi - 110075
Mob.: 9891673443


سہ ماہی فکر و تحقیق   شمارہ جنوری تا مارچ 2019





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں