6/3/19

منٹو کا ناول’بغیر عنوان کے‘ ایک تنقیدی محاسبہ مضمون نگار:۔ امتیاز احمد علیمی



منٹو کا ناول’بغیر عنوان کے‘ ایک تنقیدی محاسبہ

امتیاز احمد علیمی
:تلخیص
اردو فکشن میں پریم چند کے بعد جو نسل ابھر کر سامنے آئی ان میں کرشن چندر، بیدی، عصمت اور منٹوکے نام امتیازی حیثیت کے حامل ہیں کیونکہ ان کا نام ایک ساتھ لیا جاتا ہے۔لیکن ان چاروں میں منٹو سب سے کم عمری کی موت مرا۔منٹو نے 42سال 7ماہ8دن کی مختصر زندگی پائی جس میں سے 21سال تو اس نے سماج اور معاشرے کو آئینہ دکھانے اور اردو ادب کی زلفیں سنوارنے میں صرف کر دیں اور بقیہ زندگی انسان، انسانیت، سماج، سیاست، جنس، نفسیات، تقسیم ہند، فرقہ وارانہ فسادات اورہجرت کے مسائل و موضوعات کے پس منظر میں ایسا فکشن تخلیق کرتا رہا جس نے ادبی اور غیر ادبی دونوں حلقوں میں بھونچال کی سی کیفیت پیدا کردی۔اس کی کہانیاں ایسے چھوٹے چھوٹے مسائل و موضوعات پر محیط ہیں جن سے پورا سماج نبرد آزماہے اور جو سبھی پر آشکار بھی ہیں۔لیکن منٹو کے سوا کسی اور میں ہمت نہیں تھی کہ ان پر قلم اٹھا سکے۔فکشن کی دنیا میں وہ اُس وقت واحد شخص تھا جس نے جنس اور طوائف جیسے شجر ممنوعہ کو موضوع بحث بناکر اپنے ہم عصروں میں الگ شناخت قائم کی۔جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ ناقدین ادب نے منٹو کی ادبی حیثیت مسخ کرنے کی مکمل سعی کی۔اسے شرابی،جنس پرست،رجعت پرست، ذہنی مریض اور پاگل جیسے خطاب سے نواز ا اور کسی نے بھی اس کی حقیقت نگاری کی انفرادیت کو تسلیم نہیں کیا۔کوئی ناقد تسلیم کرے یا نہ کرے اس کا قد اس کے عہد سے آج کہیں زیادہ اونچا ہے نیز اس کے فکشن کی اہمیت اور معنویت آج چو گنی ہو گئی ہے،کیونکہ جن لفظیات کی بنا پر اس پر مقدمات چلے اور اسے جیل جانا پڑاآج وہ معیوب اور معتوب نہیں گردانے جاتے ہیں۔آج وہ ہماری سوسائٹی اور معاشرے کی لفظیات (ڈکشن)کا حصہ بن چکے ہیں۔ 
مجھے یہاں منٹو کی افسانہ نگاری سے سروکار نہیں ہے بلکہ اس کے ایک اچھوتے ناول’بغیر عنوان کے‘ سے ہے۔یوسف سر مست نے اسے 1947سے قبل کا لکھا ہوا ناولٹ تسلیم کیا ہے۔حالانکہ ناول پر سنہ اشاعت درج نہیں ہے۔اسے ظفر برادرز۔دی مال روڈ۔لاہور نے شائع کیا ہے جس کا انتساب اس وقت کے وزیر اعظم ہندوستان پنڈت جواہر لال نہرو کے نام کیا ہے اور ناول کے آغاز سے قبل ’پنڈت نہرو کے نام پنڈت منٹو کا پہلا خط‘ لکھا ہے جو اس ناول کا دیباچہ بھی بن گیا ہے۔اس خط پر جو سنہ اشاعت درج ہے وہ27اگست1954 ہے۔اس خط میں جہاں وزیر اعظم سے بہت ساری شکایات کی ہیں وہیں اپنے اس ناول کے حوالے سے لکھا ہے :
’’میں نے یہ نئی کتاب لکھی ہے۔اس کا دیباچہ یہی خط ہے جو میں نے آپ کے نام لکھا ہے.... اگر یہ کتاب بھی آپ کے یہاں ناجائز طور پر چھپ گئی تو خدا کی قسم میں کسی نہ کسی طرح دلی پہنچ کر آپ کو گریبان سے پکڑ لوں گا۔پھر چھوڑو ں گا نہیں آپ کو...آپ کے ساتھ ایسا چمٹو ں گا کہ آپ ساری عمر یاد رکھیں گے.....یہ کتاب چھپ جائے تو میں اس کا ایک نسخہ آپ کو ضرور بھیجوں گا.....
(بغیر عنوان کے ،سعادت حسن منٹو،ناشر ظفر برادرز،دی مال روڈ،لاہور،ص:12-13)
خط کے مذکورہ اقتباس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ناول 1947کے بجائے27اگست1954سے قبل لکھا جا چکا تھا لیکن اس کی اشاعت 27اگست1954کے بعد ہوئی ہوگی کیونکہ اس کی صراحت اس خط میں موجود ہے کہ’’میں نے یہ نئی کتاب لکھی ہے۔یہ کتاب چھپ جائے تو میں اس کا ایک نسخہ آپ کو ضرور بھیجوں گا‘‘حالانکہ منٹو نے اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ’ میں ایک ناول لکھ رہا ہوں اسے شروع کیے ہوئے کوئی تیرہ سال کا عرصہ ہوچلا ہے مگر مکمل نہیں ہوا۔زندگی نے ساتھ دیا... تو...مکمل ہو جائے گا اور وہ ناول میری ادبی کاوشوں کا نچوڑ ہوگا۔‘‘اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ منٹو نے اس ناول کو 1941-42کے آس پاس لکھنا شروع کیا ہوگا جو بعد میں شائع ہوا۔ بہرحال میرا مدعا یہاں سنہ اشاعت کی تحقیق و جستجو نہیں ہے بلکہ ناول کا متن ہے۔اسی متن کی روشنی میں منٹو کی ناول نگاری کا جائزہ لیاگیا ہے۔ منٹو نے اپنے پورے ادبی سفر میں صرف یہی ایک ناول لکھا۔ یہ ناول اردو ادب میں کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔پہلا،ایک اردو ادیب کاوزیر اعظم ہندوستان کے نام اس کا انتساب،دوسرا ناول کے آغاز سے قبل پنڈت نہرو کے نام پنڈت منٹو کا خط،تیسرا خط میں سفاک حقیقت نگاری،چوتھا طنزیہ اسلوب، پانچواں سماجی اور سرحدی مسائل کا بے باکانہ اظہار،چھٹا کشمیر کے مسائل سے وزیر اعظم کو با خبر کرنا اور اپنی بات مضبوطی اور بے باکی سے رکھنا،ساتواں اردو زبان کے تئیں وزیر اعظم کا رویہ اورہندوستانی پبلشرز کی شکایت جو منٹو کی کہانیاں ناجائز طور پر ’منٹو کے فحش افسانے‘ کے نام سے شائع کرتے ہیں۔منٹو اپنی جس سفاک بیانی، حقیقت پسندی اور بے باکی کے لیے مشہور ہے اس کا بر ملا اظہار خط میں کیا گیا ہے۔
یہ ناول ایسا ہے جس کا موضوع نہ تو طوائف ہے اور نہ ہی جنسیت پسندی۔نہ تو سیاسی موضوع کو پیش کیا گیا ہے اور نہ ہی مظلوموں کی فریاد رسی ہے اور نہ ہی ترقی پسند نظریات کی تشہیر ،البتہ استحصال زدہ طبقے کی طرف معصوم اشارے ہیں۔یہ ایک خالص نفسیاتی ناول ہے جس میں عشق اور محبت کی نفسیاتی تحلیل کی گئی ہے۔اس کا موضوع ایک روایتی اور بورژوائی عشق ہے جس میں ناول کے مرکزی کردار سعید کی ذہنی و جسمانی کشمکش اور جذباتی زندگی کے نشیب و فراز کے ساتھ سماج اور معاشرے کے نفسیاتی دباؤکو مو ثر پیرائے میں پیش کیا گیا ہے۔ سعید کے کردار کو پیش کرتے ہوئے علم نفسیات کی مدد سے مختلف کرداروں کی نفسیاتی تحلیل کی گئی ہے۔اور اس تحلیل نفسی میں فرائڈ کے نظریہ جنس کا سہارا لیا گیا ہے۔سعید کی نفسیاتی کشمکش کو درج ذیل کرداروں کے پس منظر میں بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے جس کو ناول میں پیش کیا گیا ہے۔1۔حمیدہ، 2۔صغریٰ،3۔نعیمہ، 4۔پشپا، 5۔بملا، 6۔ راجکماری، 7۔ فاطمہ عرف پھاتو،8۔زبیدہ عرف بیدی، 9۔راجو۔ پورا ناول انھیں کرداروں کے پس منظر میں سماجی جبر، استحصال، معاشرتی صورتِ حال، مذہبی نقطہ نظر، افلاطونی عشق ،Live in relationship جیسی وبا کو بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔
کلیدی الفاظ
تنقید و تجزیہ، سماجی جبر،مذہبی جبر، معاشی بدحالی،عشق ومحبت،نفسیاتی کشمکش،معاشرتی صورتِ حال، اقداری رویے،live in relationship،حقیقت نگاری، بے باکی، جنسی مسائل،عصری معنویت،فحش نگاری، طنزیہ اسلوب،سہل نگاری،بورژوائی عشق،رجعت پرست،ذہنی مریض وغیرہ۔
151151151151151151151151151151151151
میں پریم چند کے بعد جو نسل ابھر کر سامنے آئی ان میں کرشن چندر، بیدی، عصمت اور منٹوکے نام امتیازی حیثیت کے حامل ہیں کیونکہ ان کا نام ایک ساتھ لیا جاتا ہے۔لیکن ان چاروں میں منٹو سب سے کم عمری کی موت مرا۔11مئی1912کو سمبرالا ضلع لدھیانہ پنجاب میں پیدا ہونے والے فکشن کے سب سے معتوب،مظلوم، مفلوک الحال اور تہمت زدہ،مگر اردو ادب کے سفاک، بے باک اور بے لاگ تخلیق کار سعادت حسن نے اپنے اصلی نام کے بجائے نسبتی نام منٹو سے لازوال شہرت حاصل کی۔ اس نے دنیائے کرب و بلا میں حق کے قائل انسان کے ظاہر و باطن کے مکھوٹے کو واشگاف کر دیا اور انھیں ہیجانی کیفیت میں مبتلا کر کے خود 18 جنوری 1955کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملا۔مگر جاتے جاتے اپنے پس پشت ایسی چنگاریاں چھوڑ گیاجو بعد میں شعلۂ جوالہ کی شکل اختیار کر گئیں جس کی آنچ اس عہد کے اخلاقیات کا درس دینے والے حضرات نے تو محسوس کیا ہی،ساتھ ہی دوسرے لوگوں کو بھی اپنی لپیٹ میں اس طرح لے لیا کہ تا حیات اس کی حدت محسوس کرتے رہے۔ اس حدت میں جب مزید شدت پیدا ہو گئی تو اس کی تاب نہ لا کر بو کھلا گئے اور اس بے لاگ حقیقت نگار کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑگئے۔ چنانچہ اس پر فحاشی،عریانی، سنسی خیزی،دہشت پسندی، سفاکی اور بد کرداری وغیرہ جیسے نہ جانے کتنے الزامات عائد کیے گئے جس کی پاداش میں اس پر مقدمے بھی چلے۔یہ مقدمے اس کے چھ افسانوں ’دھواں‘، ’کالی شلوار‘، ’بُو ‘،’ٹھنڈا گوشت‘، ’کھول دو،‘ ’اوپر،نیچے، درمیان‘ وغیرہ لکھنے کے جرم میں چلے۔ اسی وجہ سے اس بے رحم حقیقت نگار کو عدالت کا منھ بھی دیکھنا پڑا۔ جیل کی سلاخوں کی سختیاں جھیلنے کے با وجود اس نے حقیقت نگاری اور حقیقت بیانی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور سماج و معاشرے میں جو جیسا دکھا اس کا ہو بہو نقشہ کھینچ دیا۔ بقول جدیش چندر ودھاون:
’’مقدمات کی تشہیر نے ان کے فن کو بلا وجہ داغدار بنا دیااورکوتاہ بیں ناقدین اور اخلاق کے محافظوں نے ان کو جنس زدہ اور رجعت پسند قرار دیا۔‘‘1؂
منٹو نے 42سال 7ماہ8دن کی مختصر زندگی پائی جس میں سے 21سال تو اس نے سماج اور معاشرے کو آئینہ دکھانے اور اردو ادب کی زلفیں سنوارنے میں صرف کر دیں اور بقیہ زندگی انسان، انسانیت، سماج، سیاست، جنس، نفسیات، تقسیم ہند، فرقہ وارانہ فسادات اورہجرت کے مسائل و موضوعات کے پس منظر میں ایسا فکشن تخلیق کرتا رہا جس نے ادبی اور غیر ادبی دونوں حلقوں میں بھونچال کی سی کیفیت پیدا کردی۔اس کی کہانیاں ایسے چھوٹے چھوٹے مسائل و موضوعات پر محیط ہیں جن سے پورا سماج نبرد آزماہے اور جو سبھی پر آشکار بھی ہیں۔لیکن منٹو کے سوا کسی اور میں ہمت نہیں تھی کہ ان پر قلم اٹھا سکے۔فکشن کی دنیا میں وہ اُس وقت واحد شخص تھا جس نے جنس اور طوائف جیسے شجر ممنوعہ کو موضوع بحث بناکر اپنے ہم عصروں میں الگ شناخت قائم کی۔گو کہ ان کے ہم عصروں میں عصمت چغتائی نے بھی ان موضوعات پر طبع آزمائی کی مگر منٹو کے بالمقابل وہ کامیاب نہیں ہوئیں۔حالانکہ خواتین فکشن نگاروں میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ ناقدین ادب نے منٹو کی ادبی حیثیت مسخ کرنے کی مکمل سعی کی۔اسے شرابی،جنس پرست، رجعت پرست، ذہنی مریض اور پاگل جیسے خطاب سے نواز ا اور کسی نے بھی اس کی حقیقت نگاری کی انفرادیت کو تسلیم نہیں کیا۔کوئی ناقد تسلیم کرے یا نہ کرے اس کا قد اس کے عہد سے آج کہیں زیادہ اونچا ہے نیز اس کے فکشن کی اہمیت اور معنویت آج چوگنی ہو گئی ہے،کیونکہ جن لفظیات کی بنا پر اس پر مقدمات چلے اور اسے جیل جانا پڑاآج وہ معیوب اور معتوب نہیں گردانے جاتے ہیں۔آج وہ ہماری سوسائٹی اور معاشرے کی لفظیات (ڈکشن)کا حصہ بن چکے ہیں۔ 
منٹو انجام کی پروا کیے بغیر مسلسل لکھتا رہا،اس کا ہر افسانہ ایک ادبی سانحہ کا روپ لے کر نمودار ہوتا رہااور لوگوں کو چونکاتا اور دھچکے پہنچاتا رہا۔لیکن جب لوگوں نے اس عندلیب گلشن نا آفریدہ کی تخلیقات کو ٹھنڈے دل سے پڑھنے اور غور و فکر کرنے لگے تو انھیں ایک بے مثال فن پارہ کا تجربہ حاصل ہوا۔ مجھے یہاں منٹو کی افسانہ نگاری سے سروکار نہیں ہے بلکہ اس کے ایک اچھوتے ناول’بغیر عنوان کے‘ سے ہے۔ یوسف سر مست نے اسے 1947سے قبل کا لکھا ہوا ناولٹ تسلیم کیا ہے۔حالانکہ ناول پر سنہ اشاعت درج نہیں ہے۔ اسے ظفر برادرز۔دی مال روڈ۔لاہور نے شائع کیا ہے جس کا انتساب اس وقت کے وزیر اعظم ہندوستان پنڈت جواہر لال نہرو کے نام کیا ہے اور ناول کے آغاز سے قبل ’پنڈت نہرو کے نام پنڈت منٹو کا پہلا خط‘ لکھا ہے جو اس ناول کا دیباچہ بھی بن گیا ہے۔اس خط پر جو سنہ اشاعت درج ہے وہ27اگست1954 ہے۔اس خط میں جہاں وزیر اعظم سے بہت ساری شکایات کی ہیں وہیں اپنے اس ناول کے حوالے سے لکھا ہے :
’’میں نے یہ نئی کتاب لکھی ہے۔اس کا دیباچہ یہی خط ہے جو میں نے آپ کے نام لکھا ہے..... اگر یہ کتاب بھی آپ کے یہاں ناجائز طور پر چھپ گئی تو خدا کی قسم میں کسی نہ کسی طرح دلی پہنچ کر آپ کو گریبان سے پکڑ لوں گا۔پھر چھوڑو ں گا نہیں آپ کو...آپ کے ساتھ ایسا چمٹو ں گا کہ آپ ساری عمر یاد رکھیں گے....یہ کتاب چھپ جائے تو میں اس کا ایک نسخہ آپ کو ضرور بھیجوں گا.....‘‘ 2؂
خط کے مذکورہ اقتباس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ناول 1947کے بجائے27اگست1954سے قبل لکھا جا چکا تھا لیکن اس کی اشاعت 27اگست1954کے بعد ہوئی ہوگی کیونکہ اس کی صراحت اس خط میں موجود ہے کہ’’میں نے یہ نئی کتاب لکھی ہے۔یہ کتاب چھپ جائے تو میں اس کا ایک نسخہ آپ کو ضرور بھیجوں گا‘‘حالانکہ منٹو نے اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ’ میں ایک ناول لکھ رہا ہوں اسے شروع کیے ہوئے کوئی تیرہ سال کا عرصہ ہوچلا ہے مگر مکمل نہیں ہوا۔زندگی نے ساتھ دیا...تو...مکمل ہو جائے گا اور وہ ناول میری ادبی کاوشوں کا نچوڑ ہوگا۔‘‘اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ منٹو نے اس ناول کو 1941-42کے آس پاس لکھنا شروع کیا ہوگا جو بعد میں شائع ہوا۔ بہرحال میرا مدعا یہاں سنہ اشاعت کی تحقیق و جستجو نہیں ہے بلکہ ناول کا متن ہے۔اسی متن کی روشنی میں منٹو کی ناول نگاری کا جائزہ لیا جائے گا۔ منٹو نے اپنے پورے ادبی سفر میں صرف یہی ایک ناول لکھا۔ یہ ناول اردو ادب میں کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔پہلا،ایک اردو ادیب کاوزیر اعظم ہندوستان کے نام اس کا انتساب، دوسرا ناول کے آغاز سے قبل پنڈت نہرو کے نام پنڈت منٹو کا خط،تیسرا خط میں سفاک حقیقت نگاری، چوتھا طنزیہ اسلوب،پانچواں سماجی اور سرحدی مسائل کا بے باکانہ اظہار،چھٹا کشمیر کے مسائل سے وزیراعظم کو با خبر کرنا اور اپنی بات مضبوطی اور بے باکی سے رکھنا،ساتواں اردو زبان کے تئیں وزیر اعظم کا رویہ اورہندوستانی پبلشرز کی شکایت جو منٹو کی کہانیاں ناجائز طور پر ’منٹو کے فحش افسانے‘ کے نام سے شائع کرتے ہیں۔منٹو اپنی جس سفاک بیانی، حقیقت پسندی اور بے باکی کے لیے مشہور ہے اس کا بر ملا اظہار خط میں کیا گیا ہے۔ آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم کے نام ایک اردو ادیب کے لیے اس طرح کا خط لکھنا اور مذکورہ بالا مسائل کا نہ صرف اظہار کرنا بلکہ تلخ بیانی سے کام لینا بہت مشکل امر ہوتا ہے لیکن بقول غالب ’مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں‘کے مصداق منٹو نے اتنے مصائب اور مشکلات جھیلے کہ وہ سب آسان ہوگئی ہیں۔ اس طرح کی تلخ بیانی منٹو کا شیوہ بھی ہے اور اس کا طرۂ امتیاز بھی۔
اسی طرح کی منٹو نے اس ناول میں بھی حقیقت بیانی سے کام لیاہے۔لیکن یہ ناول ایسا ہے جس کا موضوع نہ تو طوائف ہے اور نہ ہی جنسیت پسندی۔نہ تو سیاسی موضوع کو پیش کیا گیا ہے اور نہ ہی مظلوموں کی فریاد رسی ہے اور نہ ہی ترقی پسند نظریات کی تشہیر ،البتہ استحصال زدہ طبقے کی طرف معصوم اشارے ہیں۔یہ ایک خالص نفسیاتی ناول ہے جس میں عشق اور محبت کی نفسیاتی تحلیل کی گئی ہے۔اس کا موضوع ایک روایتی اور بورژوائی عشق ہے جس میں ناول کے مرکزی کردار سعید کی ذہنی و جسمانی کشمکش اور جذباتی زندگی کے نشیب و فراز کے ساتھ سماج اور معاشرے کے نفسیاتی دباؤکو مو ثر پیرائے میں پیش کیا گیا ہے۔ سعید کے کردار کو پیش کرتے ہوئے علم نفسیات کی مدد سے مختلف کرداروں کی نفسیاتی تحلیل کی گئی ہے۔اور اس تحلیل نفسی میں فرائڈ کے نظریہ جنس کا سہارا لیا گیا ہے۔فرائڈ کا ماننا یہ ہے کہ انسان کی پوری زندگی جنس سے بھری پڑی ہے اسی لیے اس کے تمام حرکات و سکنات اسی جنس کے ارد گرد چکر لگاتے ہیں۔منٹو نے اسی نظریہ جنس کا سہارا لے کر سعید کی عشق اور جنس کے سلسلے میں ذہنی و جسمانی کشمکش اور جذباتی و ہیجانی کیفیات کی نفسیاتی تحلیل کرتے ہوئے ناول کی ابتداان الفاظ میں کرتا ہے:
’’آئے دن سعید کو زکام ہوتا تھا۔ایک روز جب اس زکام نے تازہ حملہ کیا تو اس نے سوچا....مجھے عشق کیوں نہیں ہوتا؟بیس برس کا عرصہ جس میں کئی برس اس کے بچپن کی بے شعوری کی دھند میں لپٹے ہوئے تھے۔کبھی کبھی اس کے سامنے لاش کی مانند اکڑ جاتا تھا۔اور وہ سوچتا کہ اس کا وجود اب تک بالکل بیکار رہا ہے۔محبت کے بغیر آدمی کیونکر مکمل ہو سکتا ہے؟3؂
ناول کی ابتدا ہی میں جو سوال اٹھا یا گیا ہے کہ ’مجھے عشق کیوں نہیں ہوتا؟‘پورا ناول اسی سوال کے جواب کی تلاش و جستجو،اس کے اسبا ب و علل، اس کی نفسیاتی، سماجی، مذہبی، اقداری اور تہذیبی و ثقافتی گرہوں کو اس کے سیاق و سباق میں سمجھنے اور سمجھانے کی ایک کامیاب کوشش ہے۔سعید کسی کے عشق میں گرفتار ہونا چاہتا ہے اور اس کے لیے ہر ممکن کوشش بھی کرتا ہے لیکن ناکام رہتا ہے۔ اسے اس بات کا بھی احساس ہے کہ اس کا دل خوبصورت ہے اور اس قابل ہے کہ محبت اس میں رہے،لیکن وہ مرمریں محل کس کام کا جس میں رہنے والا کوئی نہ ہو۔ اس کا دل محبت کرنے کا اہل تھا۔یہی وجہ ہے کہ اسے اس خیال سے بہت دکھ ہوتا کہ اس کی ڈھڑکنیں بالکل فضول ضائع ہو رہی ہیں۔لیکن بنیادی سوال یہی تھا کہ محبت پیدا کیسے ہوتی ہے؟کیا یکبارگی جنم لیتی ہے؟ اس کے کچھ پیرا میٹرس ہیں؟کیا زبر دستی محبت پیدا کی جا سکتی ہے؟کیا محبت پیدا کرنے کے لیے سنجیدہ ہونا ضروری ہے یا بیوقوف بننا ؟یا رنج و الم کی کیفیت پیدا کرنا؟کیا محبت کے لیے حسن کا کوئی پیمانہ ہے،اگر ہے تو وہ پیمانہ کون سا ہے؟عشق کرنے کے لیے جہل اور جاہل ہوناضروری ہے یاعلم اور عالم ؟ یہی وہ سوالات ہیں جو سعید کو نفسیاتی طور پر ذہنی و جذباتی کشمکش میں مبتلا کرکے اس کے اندر احساس کمتری کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔ اس احساس کمتری کو دور کرنے کے لیے عشق کرنے کے جتنے حربے ہو سکتے ہیں وہ آزماتا ہے۔لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ محبت کیسے پیدا کی جائے۔وہ محبت کرنے کے لیے اس قدر بے تاب رہتا ہے کہ جب چاہے اپنے اوپر رنج و الم کی کیفیت طاری کر سکتا ہے۔ لیکن اسے کسی سے محبت کیوں نہیں ہوتی ؟یہ سوال اس کے لیے وبال جان بنا رہتا ہے۔لیکن بقول ناول نگار:
’’ایک دن سوچتے سوچتے وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ محبت ایک دم پیدا نہیں ہوتی۔وہ لوگ جھوٹے ہیں،جو کہتے ہیں کہ محبت ایک دم پیدا ہوتی ہے۔اگر ایسا ہوتا تو ظاہر ہے کہ اس کے دل میں اب سے بہت عرصہ پہلے محبت پیدا ہو گئی ہوتی،کیونکہ بہت سی لڑکیاں اب تک اس کی نگاہوں سے گزر چکی تھیں،اگر محبت ایک دم پیدا ہو سکتی تو وہ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ خود کو بڑی آسانی کے ساتھ وابستہ کر سکتا تھا۔کسی لڑکی کو صرف ایک دو بار دیکھ لینے سے محبت کیسے پیدا ہو جاتی ہے، یہ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔
تھوڑے ہی روز ہوئے ایک دوست نے جب اس سے کہا،کمپنی باغ میں آج میں نے ایک لڑکی دیکھی ایک ہی نظر میں اس نے مجھے گھائل کر دیاتو اس کی طبیعت مکدر ہو گئی۔ایسے فقرے اس کو بہت پست معلوم ہوتے تھے۔ایک ہی نظر میں اس نے مجھے گھائل کردیا۔لا حول ولا.....جذبات کا کس قدر عامیانہ اظہار ہے۔
جب وہ اس قسم کے پست اورتیسرے درجے کے فقرے کسی کی زبان سے سنتا تو اسے ایسا معلوم ہوتا کہ اس کے کانوں میں پگھلتا ہوا سیسہ ڈال دیا گیا ہے۔
مگر پست ذہنیت اور لنگڑے مذاق کے لوگ اس سے زیادہ خوش تھے۔کیونکہ یہ لوگ جو عشق و محبت کی لطافتوں سے بالکل کورے تھے....اس کے مقابلے میں بہت زیادہ سکون،اور آرام کی زندگی بسر کر رہے تھے۔
محبت اور زندگی کو ایم اسلم کی نگاہوں سے دیکھنے والے خوش تھے،مگر سعید جو کہ محبت اور زندگی کو اپنی صاف اور شفاف آنکھوں سے دیکھتا تھامغموم تھا.....بے حد مغموم۔‘‘ 4؂
مذکورہ بالا طویل اقتباس سے کئی باتیں نکل کر سامنے آتی ہیں۔ پہلی یہ کہ عشق اور محبت کی نہیں جاتی ہو جاتی ہے۔ اس کے لیے بے شعور یا با شعور ہونا ضروری نہیں۔دوسری یہ کہ سستے اور چھچھورپن والے عشق و محبت اور افلاطونی عشق و محبت میں طرز تخاطب،طرز اظہار،لفظوں کے درو بست اور جذبات کے عامیانہ اظہار میں فرق ہوتا ہے۔تیسری افلاطونی عاشق جذبات کے عامیانہ طرز اظہار میں پست اور ادنی فقروں اور جملوں کو معیوب سمجھتا ہے۔چوتھی غیر افلاطونی عاشق سطحی جذباتیت،پست فقروں اور پھوہڑ جملوں کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔پانچویں، ایم اسلم جیسے افسانہ نگار افلاطونی عاشقوں کے لیے قابل نفریں اور قابل ملامت ہیں کیونکہ یہ لوگ سطحی کہانیوں کے ذریعے لوگوں کے جذبات کو بر انگیختہ کرتے ہیں۔حالانکہ ایسے ہی تخلیق کار عوامی سطح پر انتہائی مقبول ہوتے ہیں اور ان کی کہانیاں اور غزلیں ہر محفل میں گائی اور سنی جاتی ہیں۔بہزاد کی غزل’دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنادے‘ہر جگہ گائی اور بجائی جارہی ہے جس سے سعید کو وحشت ہوتی ہے۔یہی سطحی جذبات نگاری جو ایم اسلم کی کہانیوں اور بہزاد کی شاعری میں نظر آتی ہے اس کو نفسیاتی الجھنوں میں مبتلا کر دیتی ہے جن کی گتھیوں کو سلجھاتے سلجھاتے مزید الجھنوں کا شکار ہو کر عشق کرنے کے لیے اپنے گلی محلے کی لڑکیوں کی ایک فہرست تیار کر تاہے اور سب کے بارے میں سوچتا ہے کہ کون ہے جس سے عشق کیا جا سکتا ہے یا عشق کرنے کے قابل ہے۔ فہرست تیار کی گئی تو اس میں نو لڑکیاں اس کے پیش نظر تھیں 1۔حمیدہ، 2۔صغریٰ،3۔نعیمہ، 4۔پشپا، 5۔بملا، 6۔راجکماری، 7۔ فاطمہ عرف پھاتو، 8۔زبیدہ عرف بیدی، 9۔راجو۔ مذکورہ تمام لڑکیوں میں اسے وہ خوبیاں نظر نہیں آئیں جن سے وہ عشق کر سکتا۔غیر مسلم لڑکیوں سے اس لیے عشق نہیں کر سکتا کہ اس سے ہندو مسلم فساد ہونے کا اندیشہ تھا جبکہ مسلم لڑکیا ں کچھ اتنی خدا ترس تھیں کہ انھیں بقول منٹو ’اگر وہ کسی روز غالب کا ایک شعر اسے سنا دیتا،تو کئی دنوں تک نماز کے ساتھ بخشش کی دعائیں مانگ کر بھی،وہ یہ سمجھتی کہ اس کی غلطی معاف نہیں ہوئی‘صغریٰ اورنعیمہ کے بارے میں سوچنا ہی بیکار تھا۔اس لیے کہ وہ ایک کٹّر مولوی کی لڑکیاں تھیں اور ان کو صرف خدا سے محبت کرنا سکھایا گیا تھا (ص:31-32) ناول میں ان سب کی تفصیلات اور اسباب دونوں کو بہت ہی موثر انداز میں پیش کیا ہے جو کہ دیدہ و شنیدہ ہیں۔آٹھویں لڑکی زبیدہ سے عشق کرنے کا انجام کیا ہو سکتا ہے ناول نگار کے ہی لفظوں میں ملاحظہ کیجیے:
’’نمبر آٹھ۔زبیدہ عر ف بیدی بھرے بھرے ہاتھ پیروں والی لڑکی تھی۔دور سے دیکھنے پر گندھے ہوئے میدے کا ایک ڈھیر دکھائی دیتی تھی۔گلی کے ایک لڑکے نے اس کو ایک آنکھ ماری۔بیچارے نے یوں اپنی محبت کی بسم اللہ کی تھی،لیکن اس کو لینے کے دینے پڑگئے،لڑکی نے اپنی ماں کو ساری رام کہانی سنائی،ماں نے اپنے بڑے لڑکے سے پوشیدہ طور پر بات چیت کی اور اس کو غیرت دلائی،جس کا نتیجہ یہ ہواکہ ایک آنکھ مارنے کے دوسرے روز شام کو جب عبد الغنی صاحب طبابت عرف حکمت سیکھ کر گھر واپس آئے تو ان کی دونوں آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔‘‘5؂
مذکورہ بالا اقتباس میں کوئی خیالی یا تصوراتی بات نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے سماجی اور معاشرتی صورتِ حال کی ہو بہو عکاسی ہے اور یہ باتیں نہ صرف منٹو کے،بلکہ ہم سب کے مشاہدات اور تجربات کا حصہ ہیں۔اسی طرح منٹو نے تمام کرداروں کے بارے میں ان سے متعلق واقعات اور حادثات کو بہت ہی ڈارامائی انداز میں پیش کر دیا ہے۔ کہیں پر کوئی فیصلہ نہیں سنایا بلکہ قاری کے حوالے کر دیا کہ پڑھ کر وہ خود ہی فیصلہ کریں کہ وہ کس کردار کے ساتھ ہیں۔یہ نہ صرف اس ناول کی بڑی خوبی ہے بلکہ منٹو کی تحریروں کی سب سے اہم اور بڑی خوبی ہے کہ وہ اپنے فیصلے یا اپنی پسند و نا پسند قاری پر تھوپتا نہیں، وہ صرف کرداروں کے ذریعے سماج، معاشرہ،مذہب، اخلاق، اقدار، روایات، رسمیات اور تہذیب و ثقافت کو پیش کر دیتا ہے اور فیصلہ انھیں کے ذوق سلیم پر چھوڑ دیتا ہے۔ 
مذکورہ بالا کردار جو اب تک پیش کیے گئے وہ سب ضمنی کردار تھے۔ناول میں مرکزی کردار سعید کے علاوہ جن دو اور کرداروں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے وہ راجو اور فریا ہے۔راجو پشمینے کے چارسودا گر بھائیوں کے یہاں نوکرانی تھی۔وہ ان چاروں کی خدمت کرتے کرتے لڑکی سے کب عورت بن گئی پتہ ہی نہ چلا۔ وہ ہمیشہ ہر حال میں خوش و خرم رہتی تھی۔ راجو کی خوش حالی سعید کی نفسیاتی الجھن کا باعث بن گئی ۔ بقول ناول نگار:
’’یہ لڑکی جو کشمیر کی پیداوار تھی۔ان چاروں بھائیوں کے لیے سردیوں میں شال کا کام دیتی تھی۔وہ ہر وقت خوش رہتی تھی اور اس کو دیکھ کر سعید کو بہت دکھ ہوتا تھا۔خدا معلوم کیوں اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی تھی کہ وہ خوش نہ رہے۔‘‘6؂
سعید کی اس نفسیاتی گتھی کو سلجھانا ایک مشکل امر ہے۔لیکن یہ ایک ایسا جذبہ ہے جو کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی عمرمیں ہر انسان کے اندر پنپتا ہے اور ہر کوئی اس سے دو چار ہوتا ہے۔یہیں سے سعید راجو کی ہر حرکت پر نگاہ رکھتا ہے بالآخر سردرات کے سناٹے میں کمرے سے باہر راجو کو صرف ایک بنیائن اور شلوار پہنے دیکھ کر اس کے تمام تر جذبات بھڑک اٹھے اور اسے ایسا محسوس ہوا کہ عورت کے متعلق اس کے تمام جذبات اپنے کپڑے اتار رہے ہیں۔منٹو نے راجو کے جنسی پہلو کو پیش کرتے ہوئے سعید کے اندر ترحم کا جذبہ پیدا کیا ہے لیکن سعید کا ذہن راجو کی ہمدردی کے سلسلے میں سماج اور فرد کی اس کشمکش کی طرف لے جاتا ہے جس کے بارے میں فرائڈ نے کہا تھا کہ جبلتیں اپنی تشفی چاہتی ہیں لیکن سماج انھیں ایسا کرنے سے روکتا ہے۔روکنے کی صورت میں انسان کی شخصیت دو حصوں میں بٹ جاتی ہے ایک حصہ اسے مانتا ہے اور دوسرا حصہ اسے نظر انداز کرتا ہے۔ ان دونوں صورتوں میں انسان کی شخصیت کے اندر کشمکش جاری رہتی ہے۔ یہی کشمکش منٹو نے سعید کی زندگی میں دکھائی ہے۔سعید کی مزید کشمکش اس وقت بڑھ جاتی ہے جب راجو خود اس کے گھر میں ملازم ہو جاتی ہے۔چنانچہ وہی کشمکش یہاں محبت اور نفرت کے درمیان جھولتی رہتی ہے۔ راجوکی رات دن کی موجودگی سعید کے لیے وبال جان بن جاتی ہے۔اس کے بارے میں مسلسل سوچتے سوچتے بیمار پڑ جاتا ہے اور اسی بیماری کے عالم میں اس سے اظہارمحبت کر بیٹھتا ہے لیکن اس بے ساختہ اظہار کی وجہ اسے خود سمجھ میں نہیں آتی۔ اس طرح منٹو نے نفسیاتی طور پر سعید کی زندگی میں ٹوئسٹ پیدا کرکے انسان کی داخلی زندگی کی طرف واضح اشارے کیے ہیں،صرف اشارے ہی نہیں بلکہ اس کی تہہ در تہہ الجھنوں اور گتھیوں کو سلجھانے کی کوشش کی ہے۔آخر میں راجو سعید کے افلاطونی عشق کے معیار پر پوری نہیں اترتی، اس لیے اس سے بھی راہ فرار اختیار کرتا ہے۔ناول کا تیسرا اہم کردار مس فریاہے۔یہ ایک نرس ہے جس نے سعید کی بیماری کی حالت میں ضرورت سے زیادہ تیمارداری اور خدمت کی تھی۔نتیجے میں اپنے دوست کے کہنے پر اس سے عشق کرنے لگا لیکن سماجی اقدار و روایات اور اس کی بندشوں نے اس پر بھی قفل لگا دیا۔لیکن یہ قفل لاہور میں جاکر ٹوٹاجہاں دونوں کی اچانک ملاقات نے زندگی کو ایک نئے موڑ سے آشنا کرادیا۔ جہاں دونوں اپنی اپنی زندگی اور اپنے سماج اور معاشرے کی خوبیوں اور خامیوں پرروشنی ڈالتے ہیں۔مشرقی تہذیب و تمدن،سماجی روایات،معاشرتی جبر،آزادیِ خیال،عورت کا مقام،اس کی حیثیت اور اس کے حدود کیا ہیں، منٹو کے لفظوں میں دیکھیے:
’’معاف کرنا تم ایک غلط آدمی کے پاس آئی ہو۔تم سمجھتی ہو،میں عورتوں سے واقف ہوں اور ان کو سمجھ سکتا ہوں۔بخدا تم پہلی عورت ہو جس سے میں نے کھل کر بات کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہسپتال میں تم سے جتنی باتیں ہوتی تھیں،بالکل مصنوعی تھیں۔اس لیے کہ میں صرف ایک ایسی عورت سمجھ کر تم سے باتیں کرتا تھا جس سے میں جواب کے بغیر باتیں کر سکتا ہوں۔تم ہماری سوسائٹی سے واقف نہیں ہو۔ہم لوگ اپنی ماں،بہن کے سوا اور کسی عورت کو نہیں جانتے۔ہمارے یہاں عورتوں اور مردوں کے درمیان ایک موٹی دیوار حائل ہے۔۔ابھی ابھی تمہارا بازو پکڑ کر میں نے تمھیں اس چارپائی پر بٹھایا تھا۔جانتی ہو میرے جسم میں ایک سنسی سی دوڑ گئی تھی۔تم اس بند کمرے میں میرے پاس کھڑی ہو،جانتی ہو میرے دماغ میں کیسے کیسے خیالات چکر لگارہے ہیں۔‘‘7؂
’’میں تم سے بارہا کہہ چکا ہوں،میں نے ایسی فضا میں پرورش پائی ہے جہاں آزادیِ گفتار اور آزادیِ خیال بہت بڑی بد تمیزی تصورکی جاتی ہے۔جہاں سچی بات کہنے والا بہت بے ادب سمجھا جاتا ہے۔جہاں اپنی خواہشات کا دبانا بہت بڑا ثواب خیال کیا جاتا ہے۔‘‘8؂
یہ اس جاگیر دارانہ نظام کے عشق و محبت کی داستان ہے جہاں مردان خانہ اور زنان خانہ الگ الگ ہوا کرتے تھے کسی کو ایک دوسرے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔سعید بیسویں صدی کے اسی ابتدائی ماحول کا پروردہ ہے،جہاں یہ سارے جبر تہذیب کی صورت لیے ہوئے تھے۔اعلیٰ طبقے کا ادنی طبقے کی خواتین سے عشق و محبت کرنے میں سماج کا ڈر،اخلاقی اور اقداری روایات کی عدم پاسداری کا خوف،خاندان کی ناک کٹنے کے کرب نے اسے ہر طرح سے کمزور کردیا تھا کہ اب وہ عشق کرنے کے قابل نہیں رہا۔مشرقی معاشرے اور ماحول کا جبر جس کو سعید شروع سے آخر تک برداشت کرتا ہے اور سماجی روایات اور رسومیات کی پاسداری میں خود کو ایک ایسے مقام پر پاتا ہے جہاں وہ یہ فیصلہ کرنے میں ناکام ثابت ہوتا ہے کہ وہ کس سے عشق کرے اور کس کو اپنائے۔مس فریا کو یا نوکرانی راجو کو۔کیونکہ دونوں میں سے کسی ایک کو بھی اپنانے میں اور رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے میں سماج اور معاشرہ اسے کیا تصور کرے گا۔خاندانی وقار کو کیسی ٹھیس لگے گی۔کسی اجنبی لڑکی یا نوکرانی سے عشق و محبت کرنا۔اس سے وصال کی خواہش پیدا کرنا،مشرقی معاشرے میں کس درجہ ناپسند اور حقیر گرداناجاتا ہے منٹو نے سعید کے کردار سے ان تمام حقائق کی نقاب کشائی کی ہے۔مشرقی معاشرے اور روایتی اقدار کا پاسدار سعید محبت کے اسی نفسیاتی دباؤ اور کشمکش میں اپنی زندگی کی رعنائیوں،دلفریبیوں اور دل لگیوں کو یہ کہتے ہوئے بلی پر چڑھا دیتا ہے کہ اس معاملے میں بے وقوف یا چغد جو کچھ بھی ہوں میرے ماحول کی صنعت گری ہے۔منٹو نے فریا اور سعید کے مکالماتی اسلوب کے ذریعہ مشرق کی تنگ نظری،کوتاہ بینی،معاشرتی جبر، مذہبی پاسداری، اقداری روایات پر نہ صرف طنز کیا ہے بلکہ حقیقت بیانی سے کام لیا ہے، یہ اور بات کہ آج معاشرہ تیزی سے بدل رہا ہے جہاں یہ سب چیزیں بہت زیادہ معیوب نہیں سمجھی جاتی ہیں۔ لیکن بعض روایات ایسی ہیں جن کی پاسداری آج بھی کی جاتی ہے۔ مغربی معاشرے اور وہاں کی تہذیب و تمدن، آزادخیالی، آزادہ روی،کومس فریاکی زبانی بہت ہی فنکاری کے ساتھ پیش کیا گیاہے۔منٹو نے ناول کے آخری پیراگراف میں مغربی طرز تمدن Live in relationshipجیسی صورتِ حال کو پیش کرکے یہ ثابت کر دیا کہ مستقبل کا ہمارا معاشرہ اسی راستے پر گامزن ہوگا جس پر سعید جیسے تہذیب و تمدن کے پاسدار اور روایتی طریقے کے نگہبان لوگ اپنائیں گے۔چنانچہ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارا روایتی معاشرہ مغربی افکار و نظر یات اور تہذیب و تمدن سے نہ صرف متاثر ہے بلکہ اسے اوپر اوڑھ کر سماج اور معاشرے میں اپنی برتری کا بر ملا اظہار بھی کر رہا ہے، اور اپنی روایات اور رسومیات کو تنگ نظری،دقیانوسی، بد ذوقی،پست ذہنیت کی پیداوار،اورنہ جانے کیا کیا تصور کرتا ہے۔ مغرب کی جنسی بے راہ روی،آزادیِ خیال،مساوات مرد و زن،Live in relationshipجیسی صورتِ حال کو اپنے لیے ناگزیر سمجھتا ہے اور آخر میں وہ اسی سے چمٹ کر رہ جاتا ہے۔ بقول ناول نگار’ایک بار پھر آہنی پلنگ پر وہ ایک دوسرے میں مدغم تھے‘فریا اور سعید کا ایک دوسرے میں ادغام ایک فطری تقاضا اورفطری عمل تھا لیکن اس فطری تقاضے اور فطری عمل کے ذریعے منٹو نے مشرق پر مغرب کی فتح دکھائی اوریہ بھی دکھایاکہ ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ہمیں اپنی چیزیں، اپنے اقدار و روایات پسند نہیں بلکہ دوسروں کے زیادہ پسند ہیں۔آخر میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ منٹو کا یہ ناول مشاہداتی اور تجرباتی ناول ہے کیونکہ اس کی قرأت کے بعد یہ ماننا پڑے گا کہ منٹو نے زندگی کو نہ صرف قریب سے دیکھا ہے بلکہ اس کے رنگا رنگ پہلوؤں کو بہت ہی شدت کے ساتھ محسوس بھی کیا ہے۔اسی لیے انسانی زندگی اور اس کے مختلف حقائق اپنے تمام تر تنوعات کے ساتھ منٹو کے اس ناول میں نظر آتے ہیں۔ 
کسی بھی ناول کی سب سے بڑی خوبی اس کی Readabilityہے۔ اگر کسی ناول میں اس عنصر کا فقدان ہے تو وہ چاہے کتنا ہی بڑا فلسفہ،کتنی ہی بڑی دلچسپ داستان،یا انوکھی کہانی کے طربیاتی یا المیاتی پہلوؤں کوپیش کر رہا ہو،وہ مقبولیت حاصل نہیں کر سکتا۔کسی بھی فن پارے میں Readabilitiyاسی وقت پیدا ہو سکتی ہے جب فن کار کو اس موضوع پر نہ صرف گرفت ہو بلکہ زبان کے تہذیبی و ثقافتی پہلوؤں،اس کے انسلاکات اور نشیب و فراز کے ساتھ محل استعمال سے بھی بخوبی واقفیت ہو۔کرداروں کی زبان،راوی کا بیانیہ،منظر کشی، تشبیہات و استعارات،محاورات اور ضرب الامثال وغیرہ پر گرفت مضبوط ہو۔منٹو کے یہاں یہ تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں۔منٹو کے اس ناول کا اسلوب بھی وہی ہے جو اس کے افسانوں کا ہے۔ناول کے مطالعے کے بعد یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ منٹو کی زبان بہت ہی سادہ، سلیس،رواں،عام فہم اور صاف و شفاف ہے۔ اس میں تصنع آمیزی کے بجائے فطری زبان ہے، چاہے وہ مکالماتی زبان ہو یا کرداری زبان یا روای کا بیانیہ۔کہیں کسی طرح کی پیچیدگی نہیں ہے۔منٹو نے اسی اسلوب کے سہارے انسانی زندگی کے ہر جذبے کو لطیف سے لطیف اور شدید سے شدید انداز میں نہایت ہی خوش اسلوبی اور فنی چابکدستی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس کے الفاظ چھوٹے چھوٹے،عام فہم،اور جملے سادہ اور اکہرے ہیں۔اس نے ناول میں مفرس اور معرب الفاظ،طویل طویل بیانیہ جملوں کے استعمال سے حتی الامکان گریز کیا ہے۔کسی تکلف اور تمہید کے بغیر نفس مضمون کو پیش کیااور کبھی اس سے بھٹکا نہیں۔اظہار مطالب کے لیے جو کچھ کہنا ضروری ہوتا ہے ا سی پر اکتفا کیا۔ معترضہ جملے،فروعی جزئیات اور اس کی تفصیلات کا کہیں گزر نہیں ہے۔اس لیے اس کی تحریر بہت ہی گٹھی ہوئی اور چست ہے اور کہیں بھی جھول نظر نہیں آتا۔ یہ منٹو کے صرف اس ناول کی خوبی نہیں ہے بلکہ اس کی تمام تر تحریروں میں یہی خوبی ہے۔مذکورہ بالا اقتباسات اس کی روشن دلیل ہیں۔اس کے اسلوب میں چند خوبصورت جملے اور نادر تشبیہات ملاحظہ کیجیے:
’’اس کا دل خوبصورت ہے،اور اس قابل ہے کہ محبت اس میں رہے،لیکن وہ مرمریں محل کس کام کا جس میں رہنے والا کوئی نہ ہو۔‘‘9؂
’’ایک بار اس نے بازار میں ایک نوجوان لڑکی دیکھی،اس کی چھاتیاں دیکھ کر اسے ایسا معلوم ہوا کہ دو بڑے بڑے شلجم ڈھیلے کرتے میں چھپے ہوئے ہیں۔‘‘10؂
’’وہ اس کی چال غور سے دیکھتا رہا جس میں ٹیڑھا پن تھا۔ویسا ہی ٹیڑھا پن جیسا کہ برسات کے موسم میں چارپائی کے پایوں میں کان کے باعث پیدا ہو جایا کرتا ہے۔‘‘11؂
’’ایک لڑکی اس کی محبت میں گرفتار تھی، جو ہر جہت سے اس کے مقابلے میں ارفع و اعلیٰ تھی۔لطیف اور اس میں اتنا ہی فرق تھا جتنا لدھیانے کی دری اور کشمیر کے گد گدے قالین میں۔‘‘12؂
’’حمیدہ خوبصورت تھی۔اسے دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سفید شکر کی پتلی ہے،بھر بھری، اگر ذرا اس کو ہاتھ لگایا،تو اس کے جسم کا کوئی حصہ گر جائے گا۔ننھے سے سینے پر چھاتیوں کا ابھار ایسے تھا جیسے کسی مدھم راگ میں دو سُر غیر ارادی طور پر اونچے ہو گئے ہوں۔‘‘ 13؂
’’مگر میں صرف اتنا سمجھا ہوں کہ عورت سے عشق کرنا،اور زمین کا خریدنا تمہارے لیے ایک ہی بات ہے۔سو تم محبت کرنے کے بجائے ایک دو بیگھہ زمین خرید لو اور اس پر ساری عمر قابض رہو۔‘‘14؂
’’یہ کہہ کر سعید کو ایسا محسوس ہوا کہ اس کا سینہ ایک دم خالی ہو گیاجیسے موٹر کے ٹائر سے ہوا خارج ہو گئی ہے۔‘‘15؂
مذکورہ بالا جملوں سے منٹو کے تخلیقی بیانیہ کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ کتنا دلچسپ ہے۔اس طرح کے جملے ناول میں جگہ جگہ ملیں گے جس سے کرداروں کی ذہنی اور فکری سطح کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اس ناول کی سب اہم خوبی اس کا موضوع نہیں بلکہ اس کا اسلوب بیان اورزبان کا تخلیقی استعمال ہے۔ اسی اسلوب کے سہارے شاعر و ادیب پرنہ صرف تیکھا طنز کیا ہے بلکہ حقیقت بیانی سے کام لیتے ہوئے لکھا ہے :
’’مری لحد پہ کوئی پردہ پوش آتا ہے 
چراغ گور غریباں صبا بجھا دینا
ایسے شعر جب کبھی وہ کسی غزل میں دیکھتا تو اس نتیجے پر پہنچتا کہ عشق گورکن ہے جو ہر وقت کاندھے پر کدال رکھے عاشقوں کے لیے قبریں کھودنے کے لیے تیار رہتا ہے۔سعید اگر کوئی دیوان کھولتا۔تو اسے ایسا محسوس ہوتا کہ وہ کسی قصائی کی دکان میں داخل ہو گیا ہے،ہر شعر اسے بے کھال کا بکرا دکھائی دیتا تھا۔جس کا گوشت چربی سمیت بُو پیدا کر رہا ہو۔ہر بات زبان پر ایک خاص ذائقہ پیدا کرتی ہے۔جب وہ اس قسم کے شعر پڑھتا تو اس کی زبان پر وہی ذائقہ پیدا ہوتا جو قربانی کا گوشت کھاتے وقت وہ محسوس کیا کرتا تھا۔16؂
’’شاعر جس کی ساری عمر کوٹھوں پر اور شراب کے ٹھیکوں میں گزری ہو۔موت کے بعد حضرت مولانا۔اور رحمۃاللہ علیہ بنا دیا جاتا ہے،اگر اس کی لائف لکھی جاتی،تو اس کو فرشتہ ثابت کرنا سوانح نگار اپنا فرض سمجھتا ہے۔آغا حشر کاشمیری کی ساری زندگی کسبیوں میں گزری مگر موت کے فوراً بعد اس کے سارے کیریکٹر کو دھوبی کے یہاں بھیج دیا گیا۔جب وہاں سے واپس آیا۔اور لوگوں نے دیکھا تو اس میں کوئی داغ،کوئی شکن نہیں تھی.....‘‘17؂
اس طرح اس نے سماج، معاشرہ اور شاعر و ادیب کی نہ صرف تضحیک کی ہے بلکہ قاری کو آئینہ دکھانے کا کام کیا ہے۔یہی حقیقت بیانی اور بے باکانہ طرز اسلوب اس کی تحریروں کی جان ہیں۔منٹو کے یہاں جملوں کی ترتیب ہو یا ساخت اپنی وضع کردہ ہیں۔وہ لفظوں میں ایک قسم کی کیمیائی تبدیلی پیدا کرکے اس کو نئی معنویت سے ہم کنار کرتا ہے۔وہ پرانے لفظوں کو نئی معنویت اور نئی ماہیت کے ساتھ انھیں نفسیاتی اور فنی بنیادوں پر استعمال کرتا ہے۔منٹو کو اسلوبیاتی سطح پر یہ ہنر بخوبی آتا ہے کہ کم سے کم لفظوں میں گہرے سے گہرے مطالب کو کیسے پرویا جائے یا ایک ہی جذبہ،کیفیت اورمنظر کے مشترکہ عناصر کو کیسے مربوط کیا جائے اور متضاد پہلوؤں کو کیسے ہم آمیز کیا جائے یا تشبیہات و استعارات کا بر محل کیسے استعمال کیا جائے،جزئیات نگاری میں کن عناصر کو رکھنا ہے اور کن کو چھوڑنا ہے، طنزیہ نشتر کب اور کہاں لگانا ہے۔یہی وجہ ہے کہ منٹو نے اپنے افسانوں اور ناول کے ذریعہ حقیقت نگاری کے اسلوب میں سماجی اور معاشرتی مسائل کے نیچرل اور فطری بیانیہ میں خوبصورت عکاسی کی ہے۔منٹو در اصل ایک سچا، دیانت دار اور فطری فن کار تھا۔اس نے اپنی تمام تحریروں میں جو کچھ پیش کیا پورے خلوص اور ایمانداری کے ساتھ پیش کیا۔اس لیے اس کی تحریروں کو سنجیدگی سے پڑھنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کی نت نئی جہات سامنے آسکیں۔ اس پر جنسیت، فحاشی اور مخرب اخلاق ہونے کا غلط لیبل لگا کر اس کی مناسب تفہیم نہیں کی جا سکتی۔ 
حواشی
(1) منٹو نامہ ،جگدیش چندر ودھاون،کتابی دنیا دہلی،2003،ص:172
(2) بغیر عنوان کے ،سعادت حسن منٹو،ناشر ظفر برادرز،دی مال روڈ،لاہور،ص:12-13
(3) ایضاً،ص:19-20 (4) ایضاً،ص:25-26 
(5) ایضاً،ص:38 (6) ایضاً،ص:39-41 
(7) ایضاً،ص:116 (8) ایضاً،ص:128 
(9) ایضاً،ص:128 (10) ایضاً،ص:20 
(11) ایضاً،ص:21 (12) ایضاً،ص:24 
(13) ایضاً،ص:30-31 (14) ایضاً،ص:30-31 
(15) ایضاً،ص:130 (16) ایضاً،ص:37-38 
(17) ایضاً،ص:50


Imtiyaz Ahmad Aleemi
Research Scholar, Dept of Urdu
Jamia Millia Islamia
New Delhi - 110025
Mob.: 8750961043

سہ ماہی فکر و تحقیق   شمارہ جنوری تا مارچ 2019





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں