6/3/19

ظفر پیامی کے ناول ’فرار‘ کے نمائندہ کردار مضمون نگار:۔ ہمانشو شیکھر



ظفر  پیامی کے ناول ’فرار‘ کے نمائندہ کردار
ہمانشو شیکھر
ظفر پیامی کا شمار ایک اہم اور معتبرناول نگاروں میں ہوتاہے۔ وہ ترقی پسند تحریک سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ناولوں میں ترقی پسند عناصر کے نقوش واضح طور پر ملتے ہیں۔ ’فرار‘ اور’ ستاروں کے قیدی‘ ان کے دو اہم ناول ہیں۔ ’فرار‘ ان کا نہایت مقبول ترین ناول ہے۔ اس ناول میں انھوں نے سماجی حقیقت نگاری اور روز مر ہ زندگی کے مسائل کو نہایت خوب صورتی سے پیش کیا ہے۔یہ ناول اپنے کینوس اور فنی اعتبارسے بھی نہایت اہم ہے۔تاہم اس مضمون میں محض’ فرار ‘کے ایک پہلو’کردار نگاری‘پر اظہارِ خیال مقصود ہے۔
کردار نگاری،کرداروں کے حرکت و عمل سے عبارت ہے۔ کرداروں کا عمل ہی واقعات کا موجب بنتا ہے اور واقعات کی منطقی ترتیب پلاٹ کی شکل اختیار کرتی ہے۔ کرداروں کے بغیرکسی قصے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ایک مغربی فکشن نقاد نے کردار کو ناول کا ’تین چوتھائی‘ کہا ہے۔ ناول کے واقعات اور ان سے تعلق رکھنے والے افراد کی تشکیل کردار کی فطرت سے ہوتی ہے۔ اس طرح ناول میں آنے والے ہر کردار کی اپنی کرداری صفات ہوتی ہیں جو واقعات قصہ کا حصہ بنتے ہیں انھیں کے تناظر میں کرداروں کی ذاتی صفات واضح ہوتی چلی جاتی ہیں۔ 
ناول انسانی فطرت کا عکاس ہوتاہے اس لیے اس میں انسانی عادات و خصائل، خوبیوں اور خامیوں، پسند و ناپسند اور حرکت و عمل کا گہرا تجزیہ ہونا لازمی ہے۔ انسانی شخصیت کی وسعت، پیچیدگی، سنجیدگی اور اس کے اسرار کی بنا پر ہی ناول کا آغاز ہوتاہے۔ کرداروں کی جانبداری، آزادی اور حرکت و عمل ناول کی روح ہے۔ اس روح کوروشن اور پُر اثر بنانے کے لیے ناول نگار میں تخیل کی صلاحیت اور فنکاری بھی ہونی چاہیے۔ فطری اور عام زندگی سے قریب لگنے والے کرداروں کی تخلیق وہی ناول نگار کر سکتاہے جو حد درجہ حساس،باریک بیں، ایماندار، نڈر، غیر مصلحت پسند او ر ر موز فکر و فن سے آشنا ہو۔ ان صفات کے ساتھ ناول نگار میں گہری انسانی ہمدردی اور لطافت کا جذبہ ہونا ضروری ہے۔ اگر ناول نگار میں یہ خصوصیات موجود نہیں تو اس کے کردار اجنبی معلوم ہوں گے اور قاری کو کرداروں کے دل کی دھڑکنوں میں اپنے دل کی آواز سنائی نہیں دے گی۔ لہٰذایہ ضروری ہے کہ ناول میں کردار کی تخلیق اس طرح کی جائے کہ وہ قاری کی شخصیت کا ایک حصہ بن جائے۔ ایسے کردار زندہ انسانوں کی طرح چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔
کرداروں کی کامیابی کا انحصار اس امرپر ہے کہ وہ زندہ انسانوں کی طرح چلتے پھرتے محسوس ہوں اور کتاب بند کر لینے کے بعد بھی ہماری یاد داشت میں محفوظ رہ سکیں۔ کردار نگاری کی شرط یہ ہے کہ قاری ناول کے کردار سے کوئی اجنبیت محسوس نہ کرے۔ قاری کو اس کردار سے دلچسپی ہوتی ہے جو اسے آس پاس کے لوگوں کی طرح محسوس ہو۔ ناول کے کردار سے ہماری دلچسپی اور ہمدردی کی اہم وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان میں ہم اپنی جانی پہچانی شخصیت کودیکھ لیتے ہیں۔ 
ناول نگار کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے کرداروں کو اتنا جاندار بناکر پیش کرے کہ وہ پلاٹ کی زمین اور ناول کی فضا میں متحرک نظر آئیں اور قاری کے دل و دماغ پر ان کی خوبیوں اور خامیوں کا اثر دیر تک قائم رہے، یہاں تک کہ کرداروں کے دکھ درد میں قاری خود کو دکھی محسوس کرنے لگے اور ان کی خوشی سے اسے اپنے اندر بھی مسرت کا احساس ہو۔اور کردار کے تئیں قاری کے دل میں ہمدردی پیدا ہو جائے۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب ناول نگار پلاٹ کی طرح کرداروں کا انتخاب بھی اپنی ذاتی واقفیت اور تجربوں کی بنیاد پر کرے جس میں وہ خود سانس لے چکا ہو جس کا اسے اچھی طرح علم ہو اور جس کے زیر اثر پرورش پانے والے افراد کی نفسیات اور مزاج کو وہ اچھی طرح سمجھتا ہو۔
ظفر پیامی کو کردار نگاری میں خاص مہارت رہی ہے۔اس کا انعکاس ان کے ناول ’فرار‘ میں واضح طور پر دیکھا جاسکتاہے۔ فرار میں انھوں نے اپنے عہد کی سیاسی صورت حال کو ہی نہ صرف پیش کیاہے بلکہ انھوں نے حقیقت نگاری اور کردارکے اصل روپ کی پیشکش کا بھی خاص خیال رکھا ہے۔
افتخار حسین ہاشمی عرف تاری:
تاری اس ناول کا مرکزی کردار ہے۔ الہ آباد میں پیدا ہوئے اور وہیں تعلیم حاصل کی۔ یہ اُن وسیع القلب اور کشادہ ذہن مسلمانوں میں سے ہے جو تقسیم سے قبل مشترکہ ہندو مسلم روایت کی پیدا وار ہے اور اپنے طالب علمی کے زمانے میں وہ وطن پرست اور ترقی پسند خیالات کے لیے مشہور تھے۔ 1947کی تقسیم ہند سے پیدا شدہ المناک حالات نے ہندو مسلمانوں کے درمیان ایک خلیج پیدا کر دی تھی۔ چونکہ یہ تقسیم مذہبی نقطۂ نظرکو ذہن میں رکھ کر عمل میں لائی گئی تھی، اس لیے جو مسلمان ہندوستان میں رہ گئے اور اپنا وطن چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوئے ان کے ساتھ تنگ نظری، غیر اخلاقی اور غیر انسانی سلوک کیاجانے لگا۔ تقسیم ہند کے نتیجے میں پیدا ہوئی عداوتوں اور سازشوں کا شکار انھیں لوگوں کو ہونا پڑا۔ان عداوتوں اور سازشوں کا شکار افتخار حسین ہاشمی عرف تاری بھی ہوئے۔ طبقاتی الٹ پھیر اور ہندو فرقہ پرستوں نے اس کی راہ میں ایسی مشکلیں کھڑی کردیں کہ وہ غیر قانونی طورپر کراچی جانے پر مجبور ہو گیا۔ مختصر یہ کہ تقسیم ہند کے وقت ہندوستان کے زیادہ تر مسلمان نئے ملک پاکستان جا رہے تھے۔تاری بھی ان میں سے ایک تھے۔ تاری ہندوستان سے کراچی چلے گئے۔کراچی جانے والے زیادہ تر لوگوں کا تعلق یوپی اور بہار سے تھا۔ان کے ساتھ بھی وہاں اچھا سلوک نہیں کیا گیا۔ کچھ لوگوں کو مستقل سکونت مل گئی۔اور کچھ لوگ مہاجر قرار دے دیے گئے۔افتخار تاری کو بھی وہاں مہاجر سمجھا گیا۔ تاری صاحب کو ہندوستان سے فرار ہونے کے بعد بھی سکون میسر نہیں ہوا۔ان کی حیثیت ہر جگہ مشکوک تھی۔ افتخار حسین تاری ایک بھٹکا ہوا راہی بن کر رہ گئے،جن کے لیے راستہ ہی راستہ تھا منزل کا کہیں کوئی پتہ نہیں تھا۔تاری کے بارے میں مصنف ایک جگہ لکھتا ہے :
’’تاری صرف تاری تھا یعنی پیپل کے پیڑ سے ٹوٹا ہواایک پتّا جو شاخ سے ٹوٹنے کے بعد ہوا کی ملکیت بن جاتا ہے، جہاں چاہے ہوا اسے راکھ میں تبدیل کر دے۔‘‘ 
آفتاب چودھری :
آفتاب چودھری ایک مشہور صحافی ہے اور تاری کا خاص دوست ہے۔ وہ اپنے دوست کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہے۔ آفتاب نے تاری کے لیے وہ سب کچھ کیا جو ایک دوست کے لیے کیا جا سکتا ہے۔ اس نے تاری کے ہر دردو غم میں ساتھ دیا۔ آفتاب چودھری نے تاری کو کراچی سے دلی بھگایا ہی نہیں بلکہ اپنے گھر پر حفاظت کے ساتھ تب تک رکھا جب تک وہ تار ی کو پٹنہ کے راستے کٹھمنڈو پہنچانے میں کامیاب نہ ہو گیا۔ کراچی سے کٹھمنڈو تک تاری کے ساتھ ساتھ رہا اور راستے میں درپیش تمام مشکلات کا سامنا کرنے میں تاری کی مدد کی۔ تاری اپنی بیٹی سحر ہاشمی سے 20 سالوں سے نہیں مل پایا تھا۔ وہ بیٹی سے ملنے کے لیے ہمیشہ ترستا رہا۔آفتاب نے سحرہاشمی سے اس بارے میں بھی بات کی لیکن سحر باپ کے فرار اختیار کرنے سے ناخوش تھی، اسے ان سے ہمدردی تھی لیکن وہ رات کے اندھیرے میں چوروں کے مانند ملنا نہیں چاہتی تھی۔ اس لیے جب تک تاری نے بھگوڑے کی زندگی گزاری، سحر ان سے نہیں ملی۔ آفتاب اور تاری اسکول کے دنوں میں اشتراکیت کے کارکن تھے۔ ہمیشہ انقلاب کی باتیں کرتے تھے لیکن باتوں کو کبھی عملی جامہ نہیں پہنا سکے تبھی سے ان دونوں میں دوستی تھی۔ تاری کے ہر برے وقت میں آفتاب نے اپنی جان کی بازی لگاکر تاری کو اس کی آخری منزل تک پہنچایا۔ آفتاب کا کردار بے حد دلکش اور زندگی سے بھرپور ہے،یہ مصنف کا اپنا کردار معلوم ہوتاہے۔
سحر ہاشمی:
سحر ہاشمی ناول کا اہم نسوانی کردار ہے۔ یہ افتخار حسین ہاشمی عرف تاری کی بیٹی ہے جو اپنے نام کی خصوصیات کو اپنی شخصیت میں رکھتی ہے۔سحر ہاشمی تاری کی بیٹی ہے جو نئی نسل کی نمائندگی کرتی ہے۔ وہ بھاگنے کے بجائے لڑنے میں یقین رکھتی ہے۔ تاری مرنا نہیں چاہتا اس لیے وہ فرار میں ہی زندگی محسوس کرتاہے۔ سحر ہاشمی اپنے باپ کو بھگوڑا سمجھتی ہے۔ باپ بیٹی دونوں اپنی اپنی دلیلیں دیتے ہیں۔ لیکن سحر ہاشمی کی دلیلیں زیادہ واجب معلوم ہوتی ہیں۔ اور تاری کو بھی بعد میں احساس ہوجاتا ہے کہ بھگوڑا کے طورپر باربار مرنے سے بہتر ہے ایک بار لڑ کر مرنا۔ پہلے وہ فیصلہ نہ کرنے سے قاصر تھالیکن اب وہ فیصلہ بھی کر سکتا تھا اور اس نے طے کیا کہ وہ کراچی جائے گا اور وہیں رہے گا۔ تاری ان مہاجروں کی علامت ہے جو آج بھی اپنے حقوق سے محروم ہیں۔ دیکھیے یہ اقتباس: ’’پپا جس رات کے اندھیروں میں کھوئے رہتے ہیں اُسی رات کی صبح کی تمنّا کیوں نہیں کرتے۔ اس سر زمین پر بھی توکوئی سورج، کوئی صبح کبھی تولائے گا۔‘‘
سحر ہاشمی جب کٹھمنڈو ناٹک کرنے جاتی ہے تو وہاں اس کی ملاقات کوکب مرزا سے ہوتی ہے جو تاری کے ساتھ ہمیشہ کے لیے لندن جانے والے ہوتے ہیں۔ کوکب مرزا سحر کو بھی اپنے ساتھ لندن آنے کے لیے اکساتی ہے لیکن وہ تیار نہیں ہوتی۔ پھر یہ دلیل دیتی ہے کہ شعیب جو اس کا ہونے والا شوہر ہے وہ بھی لندن ہی میں رہتا ہے جو اس کے بچپن کا دوست ہے سحر پھر بھی انکار کر دیتی ہے اور شعیب کے ساتھ شادی سے بھی انکار کردیتی ہے کیو نکہ وہ اپنے وطن میں رہنا نہیں چاہتا۔ کوکب سمجھانے کی کوشش کرتی ہے کہ دولہن دولہا کے دیش میں جاتی ہے۔ اس پر سحر ہاشمی کہتی ہے:
’’جو لڑکی آپ کے سامنے بیٹھی ہے وہ کوئی سلیپنگ بیوٹی نہیں ہے سوئی ہوئی کسی پرنس چارمنگ کے انتظار میں۔‘‘
’’وہ چنڈی ہے۔‘‘
’’اور شاید.....شاید درگا بھی۔ وہ سب کچھ ہے جو ایک خود دار انسان کو ہونا چاہیے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت مگر میری درگا صرف ہیروئین ہے میرے ڈرامے کی۔ میں اسے پوجتی نہیں آپ کی طرح۔ میں درگا کو ڈرامے سے نکال بھی نہیں سکتی ہوں۔‘‘
مصنف نے اس کردار کی پیش کش بے حد ہنرمندی سے کی ہے۔ یہ ناول کاایک زندہ جاوید کردار ہے۔
کیول کوہلی:
اپنی مٹی کی خوشبو سب سے بڑی خوشبو ہوتی ہے۔ ان احساسات و جذبات کو قوت بخشنے میں کیول کوہلی کے کردار کا اہم رول رہا ہے۔ مصنف نے اس کیفیت کو بہت ہی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔کیول کوہلی ماڈل ٹاون، لاہور کا رہنے والا ہے۔ تقسیم ہند کے حادثے کے بعد وہ الہ آبادآگیا۔ یہاں آکر اس نے ایر فورس کی نوکری کر لی۔ ایک دن اسے والٹن پر حملہ کرنے کا آرڈر ملا۔ وہ ہوائی جہازلے کر تقریباً ۱۰ منٹ تک والٹن اور ماڈل ٹاون کے اوپر چکر کاٹتا رہاوالٹن اور ماڈل ٹاؤن ایک دوسرے سے جڑا ہوا شہر تھا لیکن اس نے ایک بھی بم کا استعمال نہیں کیا، حالانکہ کیول ہندوستانی فضائیہ کا نامور پائلٹ تھا اور نشانہ بھی بالکل صاف تھا اور وہ اس طرح کا کام پہلے کئی بار کرچکا تھا۔ لیکن اس نے خودکو دشمنوں کے حوالے کر دیا۔ ایک دن کیول کو دشمنوں کی قید سے فرار ہونے کا موقع ملا لیکن وہ ہندوستان کی سرحد کی جانب بھاگنے کے بجائے جو زیادہ دور بھی نہیں تھا الٹا ماڈل ٹاون کی جانب بھاگا اور دشمنوں کی گولیوں کا شکار ہوگیا۔ 
اس کے علاوہ بھی فرار میں کنول نرائن، کوکب مرزا، شہنشاہ بھائی، لینڈ رولد فیلڈ، مسزچغتائی جیسے معاون کردار ہیں۔ یہ ناول کو مربوط بنانے اور مصنف کے مقصد کو واضح کرنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ مصنف چونکہ ایک مشہورجرنلسٹ رہے ہیں اور ان کی صحافت کا میدان بھی زیادہ تر برصغیر ہی رہاہے۔ ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش تینوں ممالک کے سیاست دانوں اور اعلیٰ افسروں کے ساتھ ان کا اٹھنا بیٹھنا رہاہے۔ اس لیے ان کے کردار اسی معاشرے کے زائیدہ ہیں۔ اور سبھی کردار بے حد فطری اور حقیقی معلوم ہوتے ہیں۔

Dr. Himanshu Shekhar, Mahatma Gandhi Antarrashtriya Hindi Vishwavidyalaya, Gandhi Hills, Manas Mandir P.O, Wardha, Maharashtra 442005 (Maharashtra)



قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں