3/12/20

ادب اطفال اور بچوں کی نفسیات - شاہد جمال




ادب اطفال پر گفتگو کرنے سے قبل ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ادب اطفا ل ہے کیا؟ کسی تحریر کی کون سی خصوصیت اسے ادب اطفال کے زمرے میں لاتی ہے۔یوں تو ادب اطفال کی تعریف مختلف اہل علم نے اپنے اپنے طور پر کی ہے۔اختلاف کے باوجود ان تعریفوں میں ایک بات مشترک ہے کہ ادب اطفال کو بچوں کے مزاج اور خواہشات کے مطابق ہونا چاہیے۔ادب اطفال میں کم از کم اتنی تو خوبی ہونی چاہیے کہ وہ بچوں کے تحیر و اشتیاق اور استعجاب کو تسکین پہنچا سکے۔اکبر رحمانی ادب اطفال کی تعریف میں لکھتے ہیں:

’’وہ ادب جس کے ذریعے بچوں کی دلچسپی و شوق کی تسکین ہو اور جو مختلف عمر کے بچوں کی نفسیات و ضرورتوں،دلچسپیوں،میلانات اور ان کی فہم وادراک کی قوت کو پیش نظر رکھ کر تخلیق کیا گیا ہو،صحیح معنوں میں ’بچوں کا ادب ‘ کہلانے کا مستحق ہے۔

(اردو میں بچوں کا ادب؛ ایک تنقیدی جائزہ، مشمولہ اردو میں ادب اطفال کا ذخیرہ، مرتب اکبر رحمانی، ایجوکیشنل اکادمی جل گاؤں، 1991، ص 68)

بچوں کا ادب تخلیق کرنے کے لیے موضوعاتی ونفسیاتی امور بھی ملحوظ رکھنا چاہیے۔بچوں کے ادب میں بچوں کی نفسیات و فطرت کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے اور سب سے اہم یہ کہ اسے بچوں کے لیے ہی لکھا جائے۔ چونکہ بچے بھی بڑوں کی طرح اپنی پسند ناپسند رکھتے ہیں لہذا اس میں ایسے موضوعات رکھنے چاہئیں جو ان کی ذہنی آسودگی اور نشوونما میں معاون ثابت ہوں۔

بچوں کی نفسیات ایک منفرد زاویہ رکھتی ہے۔یہ نفسیات کچھ معاملات میں تمام بچوں میں فطری طور پر ہی ودیعت ہوتی ہے۔عنفوان شباب کو پہنچنے نیز اس عمر کے بچوں کی نفسیات کی تشکیل میں یہی فطری نفسیات کارفرما ہوتی ہے۔دنیا کے تمام نوزائیدہ بچوں کے نفسیاتی ابعاد مختلف ماحول کی بدولت ہی مختلف ہوتے ہیں۔ڈاکٹر واٹسن نے نوزائیدہ بچوں کے جبلی و جذباتی نظام کی تحقیق کے بعد یہ نتیجہ اخذکیا کہ:

ــ’’بچے میں خوف، غصہ اور محبت کے تین واضح جذبات ہوتے ہیں۔ ابتدا میں ننھا بچہ اونچی آواز سے اور سہارا کھونے سے خوف محسوس کرتا ہے۔بچے کے کھیل میں مداخلت کی جائے تو اسے غصہ آجاتا ہے۔تھپکی دینے یا گدگدانے سے بچے میں جنسی تحریک ہوتی ہے۔بچے کے یہ تین جذبات پیدائش کے فوراً بعد معرض وجود میں آجاتے ہیں۔آئندہ بالغ زندگی کی گوناگوں پیچیدگیوں کی عمارت انہی تین بنیادی جذبات پر تعمیر ہوتی ہے۔

(بحوالہ بچوں کی نفسیات از ڈاکٹر عبدالروف، ورلڈ اسلامک  پبلی کیشنز، دہلی1982، ص12,13)

واٹسن بچوں کی نفسیاتی تعمیر میں ماحول کو بنیادی اہمیت دیتا ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ بچوں کے اکثر خوف ماحول و ذاتی تجربات کے زائیدہ ہوتے ہیں۔اس نے ایک ننھے بچے پر تجربہ کرکے یہ ثابت کیا کہ تربیت اور ماحول  سے اکثر بچوں میں خوف پیدا بھی کیے جاسکتے ہیں اور مٹائے بھی جاسکتے ہیں۔ایک بچہ جس نے سانپ کبھی نہیں دیکھا تھا،ڈاکٹر واٹسن نے اپنی نفسیاتی تجربہ گاہ میں جب اس بچے کے آگے ایک بڑا بے ضرر سانپ ڈالا تو وہ بچہ اس سے خوف کھانے کے بجائے کھیلنے لگاتھا۔لیکن کچھ دن بعد اس تجربہ گاہ میں ایک خوفناک آواز نکالنے والا آلہ نصب کردیا گیا۔جونہی وہ بچہ اس سانپ کو چھوتا آلہ بجنے لگتا۔سانپ کو چھونے پر خوفناک آواز نکلنے کی وجہ سے اس بار بچہ سانپ سے خوف کھانے لگا۔(ایضاً، ص29)

جہاں تک بچوں کی نفسیات کی بات ہے توماحول کے ساتھ ساتھ کسی ملک اور قوم کی تہذیب و ثقافت اور رسوم ورواج بھی بچوں کی نفسیات کی تعمیر و تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔برصغیرہندو پاک کے بچوں کا موازنہ اگر مغربی ممالک کے بچوں سے کیا جائے گا تو آپ واضح فرق محسو س کریں گے۔ہمارے یہاں بچوں کے دل میں بچپن سے ہی خوف سمو دیا جاتا ہے۔رات گئے اگر بچے نہیں سوتے تو پھرانہیں کسی نہ کسی جانور یا خیالی بھوت کے ڈر سے خاموش کرادیا جاتا ہے۔مثلا سو جاؤ ورنہ کتا آجائے گا یا بلی آجائے گی۔اور سب سے بڑھ کر اندھیرے کا خوف ان کے دل میں کم عمری سے ہی گھر کرلیتا ہے۔ جب کہ اس کے برعکس مغربی ممالک کے بچوں کو سال بھر کے بعد اکیلے سونے کی عادت ڈال دی جاتی ہے۔علاوہ ازیں سونے سے پہلے کہانی سنانا اور بچے کو گلے لگا کر بوسہ دینا بھی ان کے دل میں محبت اور انس کے جذبات پیدا کرتے ہیں۔بظاہر یہ ایک چھوٹی سی بات معلوم ہوتی ہے لیکن ایک بچے کے ذہن و دل پر اس حرکت کا بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔بے شک ہر والدین کو اپنے بچے سے بے حد محبت ہوتی ہے لیکن بچے اس محبت کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں اور انہیں وقتاً فوقتاً اس کا احساس کرانے کے لیے اظہار کی ضرورت ہوتی ہے۔جب آپ بچے کو گلے لگاتے ہیں تو اسے تحفظ کا احساس ہوتا ہے لیکن یہ احساس تحفظ اس احساس تحفظ سے قطعاً مختلف ہے جو اسے والدین کے درمیان سونے سے فراہم ہوتا ہے۔آخر الذکر سے وہ رفتہ رفتہ ڈرپوک اور بزدل بننے لگتا ہے۔جبکہ اول الذکر سے اس کے اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے۔ماہرین نفسیات کے مطابق گلے لگانا ایک بچے کی جسمانی و دماغی صحت کی بہتری کے لیے سب سے اہم ذریعہ ہے۔گلے لگانا بچے کی جذباتی صحت کے لیے بھی بے حد ضروری ہے۔

بچے کی شخصیت کی مناسب نشوونما کے لیے کھیل بہت ضروری ہے۔بچوں کے لیے ان کے کھلونے محض توڑنے پھوڑنے کی بے جان اشیا نہیں ہوتے بلکہ یہ ان کی شخصیت کی نشاندہی کا ایک ننھا و خوبصورت ذریعہ بھی ہیں۔بچوں کو کھلونوں سے کھیلتے دیکھ کر ان کی عادات و خصائل سے متعلق پیش گوئی کرنا آسان ہوجا تا ہے۔وہ بچے جو اپنے کھلونے سنبھال کر رکھتے ہیں اور کسی کو ہاتھ لگانے نہیں دیتے ان میں ملکیت کا رجحان بہت قوی ہوتا ہے۔کھلونوں کو توڑ کر دوبارہ جوڑنے والے بچوں میں تجسس کا مادہ زیادہ ہوتا ہے ساتھ ہی وہ ٹیکنیکل ذہن کے حامل ہوسکتے ہیں۔غصے و ناپسندیدگی کے عالم میں کھلونے توڑنے والے بچے اس سے مبرا ہیں۔ گڑیا سے بچیوں کی انسیت کسی سے پوشیدہ نہیں۔گڑیا سے بچیوں کی محبت ان کی مادرانہ جبلت کی غماز ہے۔عصر حاضر میںایسے سائنسی کھلونے بنائے جارہے ہیں کہ بچہ کھیل کھیل میں سائنس کی بہت سی ایجادات سے بھی متعارف ہوجاتا ہے۔یہ کھلونے یونہی نہیں تیار کیے جاتے بلکہ بچوں کی عمر اور ان کی نفسیات کو پیش نظر رکھ کر ہی کھلونے تیار کیے جاتے ہیں۔اس کے متعلق سلیم اختر لکھتے ہیں:

’’ امریکہ میں کھلونے بنانے والی بڑی بڑی کمپنیوں نے نفسیات دانوں کو مشیر رکھا ہوتا ہے جو بچوں کے نفسیاتی رجحانات کے مطابق کھلونے بنانے میں مشورے دیتے ہیں۔

(ہماری جنسی اور جذباتی زندگی،سلیم اختر،فرید بک ڈپو نئی دہلی، ص 75)

ہر جگہ کا ادب اطفال اپنے کلچر اورثقافت کی بنیادوں پر ہی لکھا جاتا ہے۔ہندوستان پاکستان کی بیشتر کہانیوں میں کسی بزرگ، سادھو،دیوی دیوتا،پری، جن اور دیو کا تذکرہ ضرور ملتا ہے جو مصیبت میں مدد کرنے کے لیے نمودار ہوتا ہے۔جبکہ امریکہ اور یوروپین ممالک میں یہ کام santa caluseیا fairy Godmotherکے ذریعے انجام دیا جاتا ہے۔جاپان کی لوک کہانیوں میں kitsuneنامی عقلمند لومڑی کا تذکرہ ملتا ہے جس کی نو دُم ہوتی ہے۔کٹ سونے کے پاس انسانی روپ میں تبدیل ہونے اور جادو وغیرہ کرنے کی صلاحیتیں ہوتی ہیں۔جب کہ چینی کہانیوں میں سانپ مینڈک اور ڈریگن کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔مینڈک چین میں دولت کی علامت ہوتا ہے۔ افریقی کہانیوں میں انانسی Anansiنامی مکڑی کا ذکر ہے جو عقلمند،بے وقوف،کاہل اور دلچسپ کسی بھی شکل میں ہوسکتی ہے لیکن اس سے ہمیشہ کوئی نہ کوئی سبق ضرور ملتا ہے۔اس کے علاوہ بندر ہاتھی زراف اور مگرمچھ وغیرہ کا ذکر بھی بار بار آتا ہے۔اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بچے کو اپنے کلچر تہذیب اور تاریخ سے واقف کروانے کے لیے کہانی سے بہتر دوسری صورت نہیں ہوتی۔ایک ادیب بھی جب بچے کے لیے ادب تخلیق کرتا ہے تو اپنے کلچر سے متاثر ہوکے کرتا ہے۔         

 بچوں کی کہانی لکھنا یا ان کے لیے ادب کی دوسری اصناف میں کچھ تحریر کرنابظاہر آسان معلوم ہوتا ہے۔لگتا ہے کہ صاحب گڈے گڑیا کا کھیل یا راجا رانی کی کہانی ہی تو ہے لیکن جب آپ بچوں کا ادب لکھنے کی کوشش کریں گے تو معلوم ہوگا کہ یہ مشکل ترین صنف ہے۔یہ ایک تعمیری اور مقصدی ادب ہے۔مصنف کو اس بات کا خیال رکھنا ہوتا ہے کہ بچہ اس کہانی یا نظم سے کوئی غلط پیغام اخذ نہ کرسکے یا بے راہ روی کا شکار نہ ہوجائے۔ساتھ ہی یہ کوشش بھی کرنی ہوتی ہے کہ کہانی میں ناصحانہ انداز حاوی نہ ہونے پائے کیونکہ نصیحت کے لیے انھیںوالدین یا اساتذہ ہی کافی ہوتے ہیں اور یہ انسانی نفسیات میں شامل ہے کہ براہ راست نصیحت، خشک باتیں اور وعظ قاری یا سامع میں اکتاہٹ کا عنصر پیدا کرتے ہیں۔ کتاب میں وہ کوئی نئی اور دلچسپ چیز تلاش کرتے ہیں۔ کوئی نئی تفریح،نئی دلچسپی،نیا ایڈونچر،نیا تخیل یا نئی فنتاسی۔ کتاب میں وہ تمام اجزا ہونے چاہئیں جو ایک بچے کے تجسس و اشتیاق کوتسکین دے سکیں۔ انھیں یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ یہ کتاب صرف انھیں کے لیے لکھی گئی ہے۔

لہٰذا ادب اطفال کی تخلیق ایسی ہو جو بچے سے باہم ربط پیدا کرسکے اور بچہ خود کو اس کہانی یا نظم سے جوڑ کر دیکھ سکے۔ساتھ ہی یہ بچوں کو مسرت بخشنے کے ساتھ ان میں تخیل کی صلاحیت کو بیدار کرے۔ان کے جوش و جذبے اور ان کے حوصلوں کو پروان چڑھائے۔واضح ہو کہ فنتاسی اور تخیل دونوںمیں فرق ہے۔فنتاسی سے مراد وہ ذہنی قوت ہے جو ایسی تصاویر یاخیال کو ذہن میں پیدا کرے جو حقیقی دنیا میں تقریباً ناممکن سی ہوں۔بچوں کی قوت متخیلہ بڑی طاقتور ہوتی ہے اور یہ ان کی ذہنی نشوونما میں اہم رول ادا کرتی ہے۔یہ خصوصیت بچوں میں فطری طور سے پائی جاتی ہے۔یہ فنتاسی کی عادت ادب سے زیادہ نفسیات سے تعلق رکھتی ہے۔تخیل اور فنتاسی کی اس صلاحیت کو جس ادب اطفال کے ذریعے پرواز کرنے کا موقع ملے وہ اس ادب کی کامیابی کی دلیل ہے کیونکہ یہ صلاحیت بذات خود ایک اچھی ادبی تخلیق میں مدد فراہم کرتی ہے۔ عالمی پیمانے پر مشہور نارنیا سیریز کے مصنف C.S.Lewis نارنیا کی پہلی کتاب The Lion, the witch and the wardrobe کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’’یہ ساری کہانی ایک ہرن کی تصویر سے شروع ہوئی جو چھتری اور کچھ ڈبے لے کر ایک برف سے ڈھکی ہوئی لکڑی پر کھڑا تھا۔‘‘

(Fantasy Literature for Children and Young adults by Pamlea S Gates. The Scarecrow press. 2003. P.3.)

 یہ تصویر سولہ برس کی عمر سے اس کے پاس تھی اور وہ تب سے اسے لے کر متجسس تھا اور پھر اسی تصویر کو لے کر اس نے ایک کہانی لکھنا شروع کی جس نے بالآخر ایک داستان کی شکل اختیار کرلی۔اس ایک تصویر نے اس سولہ سالہ لڑکے کے تخیل کو ایسے ایسے رنگ عطا کیے کہ آنے والے برسوں میں نارنیا سیریز نے دنیا بھر میں ریکارڈ قائم کردیے۔

ماہرین نفسیات نے بچوں کی عمر کو دو حصوں میں تقسیم کیاہے۔ایک ولادت سے چھ برس تک کی عمر اور پھر چھ سے چودہ برس تک کی عمر۔ لیکن یہ دونوں حصے بچپن کے زمرے میں ہی آتے ہیں۔اس عمر کے بچوں کو شوخ رنگ بھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیدہ زیب تصاویر میں بھی وہ دلچسپی لیتے ہیں، لہذا بچوں کا لٹریچر تیار کرتے ہوئے موجودہ دور میں کارٹون،فوٹوگرافی اور گرافکس وغیرہ کا استعمال ان کے لیے کشش کا باعث ہوسکتا ہے۔کہانی کے ساتھ تصاویر اور رنگ ایسے دلکش ہوں کہ بچہ ٹی وی اور موبائل کے بجائے ان رنگین کتابوں کی دنیا میں کھو جائے۔زبان نہایت آسان اور الفاظ کی تعداد کم ہونی چاہیے۔معروف ادیب ڈاکٹر خوشحال زیدی لکھتے ہیں:

’’مصنّفین کے سامنے مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ بچوں  کے لیے کیالکھیں؟ مختلف عمروں کے بچوں کے لیے لکھنا ہو تو مزید مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس میں سب سے بڑا پریشان کن مرحلہ زبان کا ہے۔ یہ ملحوظ رکھنا لازمی ہے کہ بچہ کس عمر میں کتنی زبان جانتا ہے۔ بچوں کا ادیب فطرت انسانی، مناظر قدرت اور بچوں کی نفسیات کے بارے میں مکمل معلومات رکھتا ہو۔‘‘

(بچوں کا ادب ضروریات اور مسائل، مشمولہ اردو ادب اطفال کے معمار، ڈاکٹر خوشحال زیدی، نہرو چلڈرن اکیڈمی، دہلی،ص 25)

چودہ سال کے بعد بچے بلوغت کی سرحدوں کو پہنچ جاتے ہیں اور ان کی پسند اور ترجیحات بدلنے لگتی ہیں۔ انگریزی اور دوسری مغربی زبانوں میں تو ان نو عمروں کے لیے خصوصی طور پر Young Adult Literatureتیار کیا جاتا ہے اور یہ باقاعدہ ایک صنف شمار کی جاتی ہے۔اس میں تیرہ برس سے زائد عمر کے بچوں کے ذوق کی کتب موجود ہوتی ہیں۔ان میں موضوعات کا تنوع ہوتا ہے۔ان کہانیوںمیں پلاٹ،کردار،منظر نگاری،مکالمہ نگاری جیسے تمام اجزائے ترکیبی پائے جاتے ہیں۔ انگریزی میں Harry Potterاور Narniaاس کی عمدہ مثال ہیں جبکہ اردو میں کرشن چندر کا ناول ستاروں کی سیر اورالٹا درخت،عصمت چغتائی کا تین اناڑی، سراج انور کا خوفناک جزیرہ، اطہر پرویز کا مشینی گھوڑا،مناظر عاشق ہرگانوی کا گدھ کے پنجے، وکیل نجیب کی کامکس خوفناک حویلی، ناولٹ بے زبان ساتھی اور ناول مہربان جن سرفہرست ہیں۔

اردو میں ادب اطفال کی ابتدا ناصر خسرو کی خالق باری سے مانی جاتی ہے جوکہ پچھلے وقتوں کے نصاب میں شامل رہی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ اس میں بچوں کے ادب کی خصوصیت کم ہی نظر آتی ہے،میر تقی میر نے بھی بچوں کے لیے موہنی بلی، گھر کا حال اور بکری اور کتے مثنویاں لکھیں۔بچوں کے لیے پہلی بار باضابطہ طور پر نظیر اکبر آبادی نے لکھا۔ تل کے لڈو،ہرن کا بچہ،تربوز،گلہری کا بچہ،کنکوے اور پتنگ اور معصوم بھولے بھالے وغیرہ ان کی نظمیں بچوں میں بے حد مقبول ہیں۔اسماعیل میرٹھی تو بچوں کے شاعر ہی کے طور پر مشہور ہوئے ہیں۔انہوں نے بچوں کی نصابی کتب بھی تصنیف کیں۔اس کے علاوہ غالب، حالی، شبلی، چکبست، اکبر الہ آبادی، علامہ اقبال، حفیظ جالندھری اور اختر شیرانی وغیرہ نے بھی بچوں کے لیے بہترین نظمیں لکھیں۔ جب کہ محمد حسین آزاد، نذیر احمد، ذکاء اللہ، پریم چند،خواجہ حسن نظامی،عظیم بیگ چغتائی، امتیاز علی تاج،عابد حسین،محمد مجیب،مرزا ادیب، صالحہ عابد حسین اور قرۃ العین حیدر وغیرہ نے بھی مضمون، ناول، ڈرامے اور کہانیاں لکھ کر ادب اطفال کے ذخیرے میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔

بچوں کی نفسیات کو مد نظر رکھتے ہوئے رضیہ بٹ کے ناول مسرتوں کا شہرکا ذکر برمحل ہوگا۔ یہ ادب اطفال کے بہترین ناولوں میں سے ایک ہے لیکن اسے وہ پذیرائی نہ مل سکی جس کا یہ حقدار تھا۔اس ناول میں رضیہ بٹ نے زندگی کے مختلف جذبات اور عادات کو کرداروں کی شکل میں پیش کیا ہے۔ناول کا آغاز ایک بستی سے ہوتا ہے جہاں کے رہنے والے گناہوں میں ڈوبے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی بستی کی رونقیں ماند پڑ چکی ہوتی ہیں۔ ناول میں چند بچوں کا گروہ ہوتا ہے جو بے حد شرارتی اور بدتمیز ہیں۔انہیں چھوٹے بڑے کا کوئی لحاظ نہیں اور وہ بستی کے ہر شخص کا جینا حرام کیے ہوتے ہیں۔ بستی کا ہر فرد ان بچوں سے تنگ ہوتا ہے۔ایک دن ان کی ملاقات ایک بزرگ سے ہوتی ہے جوانہیں بتاتے ہیں کہ ان لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے ان کے ذہن آلودہ ہیں۔بچے بزرگ کا مذاق اڑاتے ہیں اور ضد کرتے ہیں کہ اگر واقعی ایسی ہی بات ہے تو ان کے گناہ ظاہر کرکے دکھائیں۔بزرگ انھیں آگاہ کرتے ہیں لیکن بچے باز نہیں آتے۔آخر اس ضد کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ بچوں کے گناہ ان کی پیٹھ پر کوبڑ کی صورت ظاہر کردیے جاتے ہیں۔بچے بے حد خوفزدہ اور شرمندہ ہوتے ہیں اور اس سے نجات کی صورت دریافت کرتے ہیں جس پر بزرگ کہتے ہیں کہ اس کا علاج صرف اس بزرگ کے شہر میںملے گاجو کہ پہاڑ کے اس پار ہے۔خیر بچے سفر شروع کرتے ہیں اور پھر ان کی اصل دشواریوں کا آغازہ ہوتاہے۔راہ میں انھیں رحمدلی غفلت،شک،طمع لالچ، خوف، بہادری، دوستی، مہربانی، ظلم، کاہلی، سستی، غصہ، نفرت، تلخی، امن، محبت، ہمدردی، بردباری، سکون، سنجیدگی، شور، لڑائی، دھوکا، فریب، مدد، خوشامد، چوری، مہمانداری جیسے جذبات اور خصلتیں انسانی شکلوں میں ملتے ہیں۔رضیہ بٹ نے اس ناول کے ذریعے بچوں کو بری خصلتوں سے دور رہنے اور اچھی عادتوں کو اپنانے کی ایک بہترین کوشش کی ہے۔ ادب اطفال میں تمثیل کی اس سے بہترین مثال کوئی اور نہیں مل سکتی۔

یہ سچ ہے کہ اردو زبان ادب اطفال سے مالامال ہے،بچوں کے ادب میں سائنسی پہلو بھی ہے،تفریحی بھی اور اصلاحی بھی، لیکن اس کے باوجود آج بچوں کے ادب پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی بلکہ اس سے بے اعتنائی برتی جارہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ نئی نسل کے بیشتر بچے اپنی زبان و ادب سے ناواقف ہیں۔نئی نسل کی شخصیت کی تعمیر اور ذہنی بالیدگی کے لیے بچوں کے ادب کا معیاری ہونا بے حد ضروری ہے۔ ڈاکٹر اطہر پرویز سے ایک پروفیسر نے کہا کہ ’’تم بچوں کے لیے کیوں لکھتے ہو؟ یہ بھی کوئی لکھنا ہے،اچھے تحقیقی و ادبی مقالے لکھو،کوئی تعمیری کام کرو‘‘۔ اسی طرح محترمہ ناصرہ شرما نے ایک واقعہ بیان کیا کہ کسی قاری نے ان کی کہانی پڑھ کر خط لکھا کہ آپ سنجیدہ ادب کے ساتھ بچوں کی کہانیاں بھی لکھتی ہیں؟مجھے تعجب ہورہا ہے۔مجھے آپ جیسی ذہین عورت سے ایسی امید نہیں تھی کہ وہ پری کی کہانی لکھنے بیٹھ جائے گی۔

(بچوں کے ادب کی تاریخ۔سید اسرار الحق سبیلی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس، دہلی2016، ص58)

اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اردو کے بڑے مصنّفین،پروفیسرز اور قارئین کے نزدیک بچوں کے لیے لکھنا کس قدر غیر تعمیری و غیر سنجیدہ  ہے۔جب کہ آج کا بچہ کل کا ادیب،ڈاکٹر و انجینئر ہے تو آج ان کے لیے لکھا گیا ادب سنجیدہ و تعمیری کام کیوں نہیں ہے۔ادبی حلقوں میں جب تک یہ رجحان ختم نہیں ہوگا بچوں کے لیے معیاری ادب تخلیق نہیں ہوسکتا۔اس کے ساتھ ہی اردو زبان میں بچوں کے لیے معیاری ادب تخلیق کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم دوسری زبانوں میں ادب اطفال کے ساتھ ہورہے تجربات سے استفادہ کریں اور نئے خیالات اور رجحانات کے ساتھ تکنیک کے تجربوں کو بھی فروغ دیں۔

n

Shahid Jamal

Room No: 202, Ext. Brahmaputra Hostel, JNU

New Delhi - 110067

Mobile No. 9250194396

Email Add. shahidsallu76@gmail.com

 

ماہنامہ اردو دنیا، نومبر 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں