4/12/20

بچوں کے صالح ادیب و شاعر: مرتضیٰ ساحل تسلیمی - مضمون نگار: پرویز اشرفی

 



 آج ادب اطفال کے میدان میں بے شمار شعرا اور ادبا نے بچوں کے لیے ادب تخلیق کیاہے لیکن اُن میں چند ہی ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو بچوں کے شعری ونثری ادب کے لیے وقف کردیا ہو۔ نئی نسل کو صالح اور بامقصد شعری ونثری ادب پیش کرنے والوں میں مرتضیٰ ساحل تسلیمی کانام سرفہرست ہے۔

مرتضیٰ ساحل تسلیمی اپنی بات بچوں یا بڑوں تک پہنچانے کے لیے انتہائی دل چسپ، پُرکشش اورمقناطیسی اسلوب اختیارکرتے ہیں۔ روز مرہ کے عام فہم الفاظ کا استعمال کرکے اپنی تخلیق کو نہ صرف دلچسپ بنا دیتے ہیں بلکہ اَن پڑھ قاری یا سامع بھی اُن سے محظوظ ہوئے بنا نہیں رہ پاتا۔

ہنسی ہنسی میں پتے کی بات کہہ گزرنے میں مرتضیٰ ساحل تسلیمی کو ملکہ حاصل تھا۔ لطیفہ گوئی کا انداز اختیار کرکے اپنا مقصد واضح کردینے میں بھی اُنھیں کمال حاصل  تھا۔  ان کا یہ انداز بچوں کا پسندیدہ انداز ہر دور میں رہا ہے۔ بچوں کی اس نفسیات کو پہچاننا تو بہت ہی آسان ہے لیکن اس کے تقاضوں کو پورا کرناآسان نہیں ہے جب کہ ساحل صاحب نے اسے بھی آسان سمجھ کر خارزار ادب میں قدم رکھا۔ ان کی ایک نظم کا نمونہ حاضر ہے        ؎

وہ اپنے ساتھیوں میں بڑا نیک نام ہے

ہر آدمی سے اُس کی دعا و سلام ہے

چھوٹوں کے واسطے ہے بہت اُس کے دل میں پیار

اور جو بڑے ہیں اُن کے لیے احترام ہے

مرتضیٰ ساحل تسلیمی نے زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والوں کا اپنے قلم سے تعارف کرایا ہے۔ عام طور پر لوگوں کا دھیان جن کی طرف نہیں جاتا ان کی نظروں سے وہ بھی نہیں بچ پائے۔ مثال کے طور پر انھوں نے دھوبی، کمہار، لوہار ، کسان، غبارے والا، چاٹ والا، پھلوں والا وغیرہ۔ پرندوں چرندوں اور دُنیا بھر کی مشہور وغیر مشہور اشیا پر نظموں کا ایک انبار لگا دیا ہے۔ اس طرح کی چند نظموں کے اشعار سے لطف اُٹھائیے        ؎

نظم بعنوان ’ بڑھئی

اسے لوگ کہتے ہیں سب بڑھئی

ذرا دیکھیے اس کی کاریگری

بہت محنتی ہے سمجھدار ہے

حقیقت میں یہ اچھا فنکار ہے

پھر بڑھئی کے مختلف اوزاروں مثلاً بسولہ، برما، رندہ، پلاس، پینچ کس، چھینی ہتھوڑی، ریتی اور آری وغیرہ کا ذکر کرکے اُنھیں حلال روزی کمانے کا حلال ذریعہ بتاتے ہیں        ؎

یہ اوزار سب اُس کے آتے ہیں کام

انہی کی بدولت کماتا ہے دام

جہاں تک بچوں کے ادب اور شاعری کا تعلق ہے، ساحل صاحب نے کوئی گوشہ چھوڑا نہیں ہے۔ اگر مثال پیش کرنا شروع کروں توایک دفتر ضخیم چاہیے۔ ’اخبار‘ جیسے سنجیدہ عنوان کے تحت بچوں کے لیے انھوں نے جو نظم لکھی ہے وہ الفاظ اور خیالات پر اُن کی دسترس کو ثابت کرتی ہے۔پیش ہے نمونہ           ؎

ایک جنگل سے یہاں آئی ہیں چڑیا اُڑ کر

جو یہ کہتی تھیں کہ جینا تھا وہاں پر دوبھر

ہم تھے محفوظ گھروں میں نہ گھروں سے باہر

کوئی راجا تھا وہاں، فوج نہ کوئی افسر

آج کی تازہ خبر

رات دن ہوتی ہے آپس میں لڑائی گھر گھر

چوریاں رات کو ہوتی ہیں وہاں پر اکثر

کل تو اک چوہے نے بلی کے لیے کان کتر

’’ایک انساں نے کیا ایک گدھے کا مرڈر‘‘

آج کی تازہ خبر

تھک کے اک پیڑ کے سائے میں جو بیٹھا نائی

اُسترا اُس کا چُرا لے گیا بندر بھائی

استرا ناک پہ رکھا تھا کہ شامت آئی

اپنے ہاتھوں ہی سے خود ہوگیا نکٹا بندر

آج کی تازہ خبر

ان نظموں کے سمندر سے میں نے ایک اور موتی تلاش کرکے نکالا ہے۔ عنوان ہے ’ ضمیر‘ اس پر غور کیجیے       ؎

میں کون ہوں بتائیے کیا میرا نام ہے

میں کون ہوں بتائیے کیا میرا کام ہے

آیا ہوں میں کہاں سے کہاں میرا قیام ہے

ہمدرد ہوں رفیق ہوں یہ جان لیجیے

میں ہوں ضمیر آپ کا پہچان لیجیے

اُٹھے غلط قدم تو بتاتا ہوں آپ کو

ہر ہر غلط عمل پہ جتاتا ہوں آپ کو

میں جاگتا ہوں خود بھی جگاتا ہوں آپ کو

جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اُسے مان لیجیے

میں ہوں ضمیر آپ کا پہچان لیجیے

جب بولتے ہیں آپ کبھی جھوٹ برملا

اور ٹوکتا ہوں میں کہ یہ عمل نہیں بھلا

اس وقت گھونٹتے ہیں مرا آپ ہی گلا

جو کچھ میںکہہ رہا ہوں اُسے مان لیجیے

میں ہوں ضمیر آپ کا پہچان لیجیے

کرتے ہیں آپ نقل اگر امتحان میں

اس ڈھنگ سے کہ آئے نہ شان و گمان میں

میں ٹوکتا ہوں آپ کو دل کی زبان میں

جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اُسے مان لیجیے

میں ہوں ضمیر آپ کا پہچان لیجیے

کرتے ہیں دوستوں سے اگر آپ گفتگو

رکھتے ہیں دوسروں کی کہاں پاس آبرو

غیبت کی خو کو آج ہی کردیجے آخ تھو

جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اُسے مان لیجیے

میں ہوں ضمیر آپ کا پہچان لیجیے

ادب کے اس ساحل پر نہ صرف شاعری بلکہ طنز ومزاح ، افسانہ، اصلاحی واسلامی ادب کے جہاز بھی لنگرانداز نظر آتے ہیں۔

ایک اہم اور قابل تعریف بات ساحل صاحب کے ذہن و قلم کی یہ ہے کہ وہ گرما گرم، سلگتے ہوئے مسائل پر بھی نظمیں اور کہانیاں لکھتے رہے ہیں۔ مثلاً جہیز کا بھیانک مسئلہ، طلبا میں انتشار و بے چینی، لاقانونیت کا عام رجحان، سماجی بگاڑ، سیاسی بدعنوانیاں، گھریلو مسائل اور مادّہ پرستانہ مزاج کا انجام وغیرہ۔ ’ الحسنات‘ اور ’بتول‘ وغیرہ کے اداریوں میں مذکورہ موضوعات کا احاطہ ایسے پیارے انداز میں کرتے ہیں جیسے کوئی خشک مضمون نہیں بلکہ مزے دار کہانی سنا رہاہو۔ مرتضیٰ ساحل تسلیمی کی اس خاموش جدوجہد کا اچھانتیجہ ہی اُن کے لیے صلہ ہے،انعام ہے اور ناموری کا ذریعہ ہے۔ ظاہرہے بامقصد ادبی زندگی گزارنے والے قلم کار کا مقصد ہی اپنے مقصد میں کامیاب ہونا ہوتا ہے۔ وہ دنیاوی شہرت اور تعریف و توصیف سے ہمیشہ بے نیاز ہی رہتاہے۔ اس کی بے نیازی ہی اُس کے لیے دنیا کی بڑی دولت ہوتی ہے۔

ساحل صاحب بچوں کے شاعر اور ادیب ہونے کے باوجود بڑوں کے لیے بھی وقتاً فوقتاً لکھتے ہیں مگر یہاں بھی وہی صالح مقصد پیش نظر رہتاہے، جو بچوں کے قلم کار کی حیثیت سے رہتا ہے۔ چونکہ بنیادی طور پر آپ بچوں کے قلم کار کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ کسی شاعر یا ادیب میں ایسی کوالیٹی کے ساتھ ہونا بہت بڑی بات ہے، یہ بات ساحل صاحب نے اپنے اندر اُس وقت سے پیدا کررکھی ہے جب سے اُنھوں نے لکھنا شروع کیا۔

آج کل جلسے جلوس کا بازار بھی خوب گرم ہے۔ یہ سب بھی ہڑتالوں سے جُڑی ہوئی چیزیں ہیں۔ اس لیے ساحل صاحب نے جلوس نظم کے ذریعہ آسان پیرائے میں چھوٹے بچوں کو سمجھایا ہے کہ جلوس نکالنے کا طریقہ کیا ہے؟ اور جلوس کہتے کس کو ہیں؟ جلوس نکالنے کامقصد کیا ہوتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ نظم ’ جلوس‘ کے درج ذیل اشعار اس کی سلامت، روانی اور مقصدیت کا اظہار ہیں          ؎

شکاری جو جنگل میں آئے نظر

تو پھر ڈر کے مارے سبھی جانور

گھروں میں رہے اپنے اپنے چھپے

نہ کوئی شکاری اُنھیں دیکھ لے

شکاری گئے لوٹ جب اپنے گھر

ہوا طے کہ راجا سے جاکر کہیں

جلوس ایک لے جائیں راجا کے پاس

بتائیں کہ ہم پر ہے کتنا ہراس

زرافہ کو لیڈر بنایا گیا

اُسے سب سے آگے چلایا گیا

چلے ہاتھ اپنے ہلاتے ہوئے

چلے سب وہ نعرے لگاتے ہوئے

اگر نظم ہڑتال اور جلوس کو ایک ساتھ سامنے رکھیں توایسا لگتاہے کہ شکاری کے مظالم کے خوف سے تنگ آکر سارے جانور راجا کے پاس اپنی شکایت لے کر گئے۔ جب ان کی شکایت پر توجہ نہ کی گئی تو اُنھوں نے احتجاج میںبھوک ہڑتال کردی۔ ساحل صاحب کی بہت سی ایسی نظمیں ہیںجن کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق موجود ہے۔ مرتضیٰ ساحل تسلیمی کی یہ ایک ضمنی خوبی ہے۔

آپ کی کہانیاں ’ گدھا گھوڑا‘، ’سرکس‘ اور ’دوستی‘ وغیرہ ایسی ہی کہانیاں ہیں جو مندرجہ بالا باتوں کی تصدیق کرتی ہیں۔ اپنی ایک نظم ’’پڑھنا لکھنا کام ہے میرا‘‘ میں بچوں کو سمجھاتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ پڑھنے لکھنے کے ساتھ کھیل بھی ضروری ہے۔ا سی کے ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہر کھیل پڑھنے والے بچوں کے لیے مناسب نہیں ہے      ؎

کھیلنا ہے تو کھیلو ہاکی

کرکٹ ٹینس اور کبڈی

میں کیوں کھیلو گِلّی ڈنڈا؟

اسی طرح ’اللہ‘ کے عنوان سے لکھی گئی نظم کی سلاست اور روانی دیکھیے        ؎

الف سے اللہ، ب سے بلاّ

پ سے پنجرا، ت سے تالا

ٹ سے ٹوپی، ج سے جوگی

چ سے چرخہ، ح سے حُقّہ

خ سے خنجر، د سے دفتر

ڈ سے ڈبّہ، ذ سے ذرّہ

مرتضیٰ ساحل تسلیمی نے بچوںکے لیے جوغزلیں کہی ہیں اُن میں بھی نظموں جیسی خصوصیات موجود ہیں۔ ایسی ہی ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں           ؎

جس کو چھوٹوں سے پیار ہوتا ہے

وہ بڑا باوقار ہوتا ہے

بے ادب ہر جگہ ہے بے عزت

باادب باوقار ہوتا ہے

اس کو ہوتی ہے سب سے ہمدردی

خود بھی وہ غمگسار ہوتا ہے

بول کر جھوٹ وہ خدا جانے

کس لیے شرمسار ہوتا ہے

غم کوئی ہو مگر نماز کے بعد

دل کو حاصل قرار ہوتا ہے

اس کو اچھا کوئی نہیں کہتا

فیل جو بار بار ہوتا ہے

دولتِ دین جس کو مل جائے

وہ بہت مالدار ہوتا ہے

پاس کیا ہو وہ امتحان میں جو

مدرسے سے فرار ہوتا ہے

ظاہرہے کہ مذکورہ غزل کے ہر شعر میں نظم کا لطف غزل کی ایک اہم شرط کے تحت ضروری ہے۔ ساحل صاحب کی کوئی بھی غزل ہو ، ہر غزل میں یہی خوبی نظر آئے گی۔

مرتضیٰ ساحل تسلیمی نے نثر کے میدان میں ہی سکہ نہیں جمایا بلکہ شاعری میں بھی اپنا جواب نہیں رکھا۔ بچوں کے لیے نظمیں لکھنے کاسہرا علامہ اقبال، حضرت امیر خسرو، اکبر الٰہ آبادی، پنڈت برج نرائن چکبست، مولوی اسماعیل میرٹھی، حامد اللہ افسر، یکتا امروہوی اور شفیع الدین نیّر کے سربندھا ہے، لیکن عصر حاضر میں مرتضیٰ ساحل تسلیمی نے اس صنف میں بچوں کے لیے اَن گنت نظمیں کہی ہیں۔ غزل جس کا مطلع ہے’’جس کو چھوٹوں سے پیار ہوتاہے، وہ بڑا باوقار ہوتاہے‘‘ دل کی گہرائیوں کو چھولینے والی غز ل ہے۔ ہر شعر اپنی جگہ خوب ہے۔ خاص طور سے تیسرا شعر ’’بے ادب ہے ہر جگہ بے عزت، باادب باوقار ہوتا ہے‘‘ اسی طرح ’’ سچا مسلمان بنادے‘‘ بھی ساحل صاحب کے مذہبی جذبے کی نشان دہی کرتا ہے کہ وہ کس طرح بچوں کو مذہب کی طرف راغب کررہے ہیں۔ اس میں اصلاح کا پہلو مضمر ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ بچہ اُنھیں پڑھے اور اُن سے متاثر نہ ہو۔

مرتضیٰ ساحل تسلیمی کی بچوں کے لیے محبت اُن کی ہر تحریر سے جھلکتی ہے اور پڑھنے والوں کو احساس ہوتاہے کہ وہ نونہالانِ قوم کی ذ  ہنی تربیت اور اصلاح کے لیے کتنی تگ و دَو کررہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ بچوں کا ادب اُن کو کبھی فراموش نہ کرسکے گا اور ان کی تحریریں بہت ہی توجہ اور پسندیدگی سے پڑھی جائیں گی!!


Parwez  Alam

N-113, Top Floor, Gali No. 10, 

20 futa Road

Batla House, Jamia Nagar, Okhla,

New Delhi - 110025

E-mail:  parwezashrafi1955@gmail.com

Mob. : 9990129128


ماہنامہ اردو دنیا، نومبر 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں