4/12/20

بچوں کے ادب کا ایک قدیم خاموش خدمت گزار مرحوم حافظ عبدالسمیع دھامپوری - مضمون نگار: مولانا غیاث الدین دھام پوری

 



قدیم تاریخی، علمی، ثقافتی، اورتہذیبی، ورثے سے مالامال ضلع بجنورجہاں زمانہ قدیم سے شعروادب،افسانہ نگاری،اردوناول نگاری اور دیگرعلوم وفنون کے علاوہ اردوصحافت کے میدان میں بھی نمایاں مقام رکھتاہے نیز قدیم ثقافتی نظریے سے بھی ضلع بجنورکی ثقافتی اورتہذیبی روایت قابل فخررہی ہے،یوں تو ضلع بجنورکی خاک سے سیکڑوں نابغہ روزگارشخصیات نے جنم لے کر ضلعے کانام روشن کیاہے۔ لیکن شعروادب کے لیے بھی سرزمین ضلع بجنورزرخیز اورسرسبز واقع ہوئی ہے۔ یہاں سیکڑوں اردو اورفارسی کے ادیب پیدا ہوئے ہیںجنھوں نے اپنے علمی وادبی امتیاز کی بنا پرشہر ت دوام حاصل کی اورجن کی ادبی شہرت کی باز گشت پورے ملک میں سنی جاسکتی ہے ضلع بجنورکی ان شخصیا ت میں سے سرزمین دھامپورمیں پروان چڑھنے والے شعراء وادباء میں ایک معتبراورقابل تعظیم شخصیت جو کہ قادرالکلام شاعرہونے کے ساتھ ادب اطفال کے محقق بھی تھے،اورزبان وادب کی انفرادیت اورادب اطفال کے سبب مقبول خاص وعام ہوئے،جس کو ا س دنیاسے رخصت ہوئے 34 سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے۔  جوبراہ راست اپنے وقت کے ایک بڑے نام چیں شاعر اور ادیب ’سیماب اکبرآبادی‘ کے شاگرد تھے۔ شہردھامپورمیں پروان چڑھے، بچوںکے اس عظیم ادیب کوحافظ عبدالسمیع سیمابی دھامپوری کہاجاتاہے،لیکن شعرو ادب کی دنیامیں حافظ دھام پوری کے نام سے متعارف ہیں۔

حافظ دھامپوری کی پیدائش 5جولائی 1919 کو ضلع بجنورکے موضع منڈاورمیں ہوئی آپ ایک علمی وادبی گھرانے کے روشن چراغ تھے آپ کے والد مولانا عبدالعزیز اور آپ کے جدامجد 1880 میں دھامپور سے منڈ اور اس وقت کے وہاں کے رئیس(ساہوکار) جانکی پرساد کے یہاںبسلسلہ ملازمت چلے گئے تھے1922 میں ساہوکار کی وفات کے بعد1922 میں 42 سال کے بعد حافظ دھامپوری اوران کے آبا و اجداد پھرسے دھامپور آگئے  اس اعتبارسے حافظ کاآبائی وطن دھامپورہوا اور اسی وجہ سے ’حافظ دھامپوری‘کہنے اور لکھنے لگے اورعلامہ سیماب اکبرآبادی کے تلمیذ خاص ہونے کے سبب اپنے تخلص ’حافظ ‘کے آگے سیمابی استعمال کرتے تھے حافظ دھامپوری کے ایک چھوٹے بھائی کانام مستقیم اوربہن کا نام زبیدہ تھاوالد کانام مولاناعبدالعزیز اور والدہ کانام مجیداً خاتون تھا، جو اردو،عربی اورفارسی کی عالمہ تھیں۔

حافظ دھامپوری کی الف۔با۔تا۔تعلیم حافظ نصر ت منڈاوری کے یہاں ہوئی جوشاعربھی تھے اس کے بعدان کے والد مولاناعبدالعزیزنے ا ن کودھامپورمیںتحصیل سے متصل ایک سرکاری اسکول میں داخل کیامگرکچھ ہی دنوں کے بعدان کے والد نے ان کواس وجہ سے اس اسکول  سے ہٹالیاکہ وہاں مذہبی تعلیم نہ تھی پھرعربی وفارسی کی کتابیںخودہی گھر پر پڑھائیں اور حفظ قرآن کے لیے حافظ محمد ابراہیم (جوکہ بڑے نیک انسان تھے) کے سپرد کردیا، اردوکی تعلیم کے لیے منشی عبدالرحمن کے پاس چھوڑا جو اس وقت اردوکے بڑے نام چیں استاد تھے، اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ادیب کامل کا امتحان  دیا۔

موصوف نے امامت اور درس وتدریس کو بطورپیشہ اختیارکیااورتادم حیا ت اسی پیشے سے حاصل قلیل مشاہرے پر گزر بسرکی، حافظ دھامپوری نے اپنے ہی گھرمیں ایک مدرسہ قائم کیا اور بچوں کوتعلیم دینے لگے مگربعد میں کسی  وجہ سے دھامپور چھوڑکرراجہ کا تاج پورچلے گئے اوروہاں چھپیوں کے مدرسے میں 16 سال امامت کی،بعدہ تین سال سوائی مادھوپور راجستھان میں درس و تدریس اور امامت وخطابت کے فرائض انجام دیے۔ پھر،نجیب آباد، نیدڑو، جیترا، اوردھامپور محلہ بندوقچیان میں امامت کی۔ اس مسجد میں احقراستاد محترم کی اقتدا  میں نماز اد اکرتا تھا، اس لیے ان کی مترنم آوا ز، اور قرات قرآن اب تک یاد ہے، راقم الحروف کوچونکہ ان کی شاگردی کاشرف حاصل ہے اس لیے 34سال بعد بھی ان کاچہرہ مجھے اچھی طرح یادہے کتابی آنکھیں، دراز قد، لمبی داڑھی، علی گڑھی شیروانی اور پائجامہ،گول ٹوپی،چہرے پرچشمہ،ہاتھ میں بید، میانہ رفتار، ہلکی گفتار، مجموعی طورسے حافظ دھامپوری ایک خوش اخلاق، خوش مزاج، خوش اطور،خوش کردار، وسیع المنزلت اور کشادہ فکرتھے۔ اللہ نے آپ کودنیوی تکلفات، تصنع بناوٹ، سے طبعی طورسے بالکل مستغنی کردیا تھا، آپ بالکل سادہ مزاج تھے، حافظ دھامپوری کی زندگی تادم حیا ت نہایت عسرت اور تنگدستی میں گزری، لیکن تمام ترنا سازگار و نامساعد حالا ت کے باوجود بھی وہ تقویٰ پرعمل پیرا تھے، انسانی زندگی کاایک اہم جز شادی ہے لہٰذا حافظ دھامپوری رشتہ ازدواج میںبھی منسلک ہوئے اور ان کے گھر سات بچوں کی پیدائش ہوئی دو اولاد نرینہ اور دو لڑکیاں بچپن ہی میں انتقال کرگئیں اور بڑے بیٹے عبدالصمد بزمی کابھی چند سال قبل انتقال ہوچکاہے۔ مرحوم کے چھوٹے صاحبزادے محمد حنیف جوکہ احمد علی روڈ دھامپور میں  سیٹرنگ کاکام کرتے ہیں، منجھلے بیٹے عشرت بزمی جو پیشے سے کارپینٹر ہیں اور شعری ذو ق بھی رکھتے ہیں ان کو اپنے والدسے شعروسخن کا کچھ حصہ وراثت میں ملا ہے، عشرت بزمی کے مطابق ان کی حیا ت میں ان کاکوئی شعری مجموعہ چھپ سکااورنہ ہی ان کی علمی وادبی خدمات کے تعلق سے ان کے بڑے صاحبزادے عشرت بزمی کے علاوہ کسی اورسے ان کے بارے میں کوئی ٹھوس معلومات کوشش بسیارکے باوجود حاصل ہوسکی،باقی ان کی ادبی خدمات سے متعلق پورا دھامپور خامو ش ہے، ان کے کئی شعری مجموعے غیرمطبوعہ ہیں، کاش ان کی زندگی ہی میں ان کے ادبی گوشے محفوظ کرلیے جاتے توہمارے پاس دھامپور کے ایک قابل قدرسپوت کی ادبی خدمات بڑی آسانی سے ہمارے سامنے آجاتیں، عشرت بزمی کے بقول اگران کاتمام اردوو فارسی میں بچوں سے متعلق کہاگیاکلام محفوظ ومرتب ہوتا توان کے اشعارکی تعداددیگرشعرا  کے کلام کی طرح ہزاروں ابیا ت پرمشتمل ہوتی، مگرافسوس ان کاتمام کلام ہماری دسترس میں نہیں ہے۔ مگربقول ان کے بیٹے عشرت بزمی والد صاحب نے اپنا ایک شعری مجموعہ (صبح روشن) چھپوانے کی کوشش کی مگراس کی اشاعت کے لیے اس وقت1500 روپے کاانتظام نہ ہوسکاجس کی وجہ سے وہ مجموعہ شائع نہ ہوسکا،اب عشرت بزمی والد محترم کی اس ادبی وشعری یادگارکومنظرعام لانے کے متمنی ہیں۔

حافظ دھامپوری نے 1933 سے شاعری کاآغاز کیا یعنی 15سال کی عمرہی سے اشعارکہنے لگے تھے،اولاًحافظ نصرت منڈاوری سے اصلاح لی اس کے بعد مولاناظفرعلی خان (ولادت 1870 وفات1956) سے استفادہ کیا بعد میں اپنے وقت کے مشہورشاعرعاشق حسین علامہ سیماب اکبرآبادی (المتوفی1951) کا دامن تھام لیاتو پھر انھیں کے ہوکررہ گئے۔ حتیٰ کہ استاد کی محبت میں حافظ دھامپوری لفظ( سیمابی) کواپنے نام کے ساتھ استعمال کرنے کو فخر سمجھتے ہوئے نسبتی اضافے کے ساتھ استعمال کرتے تھے۔ اور کسی موقع پراستاد کی شان میںیہ اشعارکہے        ؎

میں جناب حضرت سیماب کا شاگرد ہوں

ہاں اسی لیے اعزاز تلمذ پربھی مجھ کو ناز ہے

آپ نے مجھ کو لب نازک  سے اپنا کہہ دیا

حافظ  ناشاد کو  کافی  یہی  اعزاز  ہے

بزرگ اورکہنہ مشق شاعریوسف بہزاد دھامپوری کہتے ہیں کہ اس وقت کی ایک ادبی تنظیم ’بزم ادب‘ کے حافظ دھامپوری صدراورمیں اس کا سکریڑی تھا،بقول عشر ت بزمی حافظ دھامپوری نے ایک جگہ لکھاہے کہ میں نے پچاس سال شاعری کی ہے اور پچاس ہزار اشعارکہے ہیں، حافظ دھامپوری چالیس سال تک رامپورسے نکلنے والے موقر ماہنامہ ’الحسنات ‘ میں چھپتے رہے، لہٰذا ماہنامہ الحسنات سے انتہائی تعلق کی بنا پرایک غزل بعنوان ’یہ گلدستہ ہے روحانی ادب کا‘تحریرفرماتے ہوئے لکھا:

یہ الحسنات ہے ایسا رسالہ

کہ ہے میرارفیق تیس سالہ

نظرافروز ہے اس کا نظارہ

جواہرپارہ ہے ہرایک شمارہ

اس کے علاوہ ماہنامہ ’نور‘ ماہنامہ الہلال، نیا دور اور ہندوستان بھر میں بچوںکے تعلق سے جو ماہنامے نکلتے رہے ان سب میں حافظ دھامپوری کی نظمیں، غزلیں، نعتیں منقبتیںمستقل چھپتی رہیں۔ حافظ دھامپوری کا شمار بیسویں صدی کے نمائندہ نظم گوشاعروں میں ہوتا ہے، نظم نگاری حافظ کا اوڑھنا اور بچھونا تھی، ان کی نعتیں، نظمیں، غزلیں، سبھی سلیس اورآسان زبان میںہیں۔ انھوں نے اپنی نعتوں میںعقید ت ومحبت کے ساتھ ادب واحترم کا لحاظ بھی رکھاہے جوایک نعت گوکے لیے ضروری ہے مولانانذیرالااکرم مرادآبادی کے ایک طرحی مصرعہ (آستان حبیب خداچاہیے )پربندلگاتے ہوئے یہ نعت کہی        ؎

اے زبان پہلے حمد خدا چاہیے

پھر حبیب خدا کی ثنا چاہیے

زندگی میں تجھے اور کیا چاہیے

سایہ  دامن مصطفی  چاہیے

ایک دیگرنعت میںحضورؐسے اس طرح اظہارمحبت کررہے ہیں           ؎

میں  تو  عشق  محمد کا  بیمار  ہوں

کب علاج و دوا کا طلب گار ہوں

اے طبیب ومجھے کب شفا چاہیے

یہ ہے  اعجاز  انگشت  صل  علی

آپ نے چاند کو ٹکڑ ے ٹکڑے کیا

 آپ سے جب  کہا معجزہ  چاہیے

بچوںسے متعلق حافظ کی نظمیںشامل نصاب ہیں، ایک نظم جوبیسک ریڈراردودرجہ تین میںہے وہ بھی شامل نصاب ہے، اس سبق آموز نظم میں ماں باپ کا احترام، اخوت، بھائی چارگی اور بچوںکی اخلاقی کردارسازی کی گئی ہے۔

حافظ دھامپوری کی بچوںکی ایک نظم پیارے نبی کی پیاری باتیں بڑی مشہورہوئی        ؎

دین سب کوسکھاتے تھے پیارے نبی

اچھی باتیں بتاتے  تھے پیارے نبی

داستان حق، اور آسان نظمیں، بچوں سے متعلق تقریباً پچاس نظموں پرمشتمل یہ دونوں کتابیں ادارہ الحسنا ت رامپور سے شائع ہوئیں بہرحال بچوں کی فطرت اور فراست پرفراخدلی سے قلم چلانے والایہ عظیم شاعردل میں  شاعری کی مزید تمنالیے یہ کہتا ہوا اس دنیائے فانی سے رخصت ہوا کہ        ؎      

 چالیس برس مشق سخن کرکے بھی حافظ

تکمیل فن شعر کی حسرت سی ابھی ہے

25نومبر1983 بروز جمعہ صبح 4 بجے حافظ عبدالسمیع دھامپوری الملقب بہ حافظ دھامپوری نے داعی اجل کو لبیک کہا اوراس طرح دھام پور کے افق پر ادب اطفال کا یہ خادم ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا۔


Maulana Ghayasuddin Dhampuri

Mohalla: Banduqchiyan, Dhampur

Distt.: Bijnor -246761 (UP)



ماہنامہ اردو دنیا، نومبر 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں