7/12/20

بچوں کے رسائل اور موجودہ صورتِ حال محمد جہانگیر وارثی

 



 بچوں کا ادب تخلیق کرنا بچوں کا کھیل نہیں ہے اور نہ ہی بڑوں کے لیے بے کاری کا کوئی شوق ہوسکتا ہے کیونکہ ادب اطفال پر لکھتے وقت ہمیں اپنی ذہنی سطح سے سمجھوتا کرنا ہوتا ہے۔ بچوں کی نفسیات کو ٹٹولنا ہوتا ہے۔ ان کی ذہنی ساخت کو مد نظر رکھنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر لکھنے والا اس معیار ومنہاج کی پاسداری نہیں کرسکتا ہے۔

ادب اطفال سے راست طور پر دو کام لیے جاتے ہیں۔ اول، بچوں کی ذہنی نشو ونما کی ترکیب نکالی جاتی ہے۔ دوم،نئے لکھنے والوں کی نئی پود تیار کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے ان دونوں مقاصد میں کامیابی کے لیے رسالوں اور جریدوں کا اہم کردار ہوگا۔ کیونکہ لکھنے والے بھی اس میں مشق ومزاولت کرسکتے ہیںاور رسالوں تک بچوں کی رسائی نسبتاً آسان ہے۔ اگر اردو میں بچوں کے ادبی رسالے کی بات کریں تو بڑی مایوسی ہاتھ آتی ہے۔ کیونکہ اردو میں قابل ذکر بہت ہی کم رسالے نکل رہے ہیں اور جو نکل بھی رہے ہیں، ان میں بچوں پر لکھنے والے کم جگہ پاتے ہیں اور بچوں کے جز وقتی ادیبوں کا اس پر دبدبہ رہتا ہے۔ اس لیے ان رسالوں سے مذکورہ دونوں مقاصد میں کامیابی کم ہی مل پاتی ہے۔

اپنے مقالے میں بنیادی طور پر تین باتوں پر توجہ مبذول کروں گا۔

(1)     آخر بچوں کے رسائل کم کیوں نکلتے ہیں۔

(2)      اس میں بچوں کے کل وقتی ادیب کثرت سے کیوں نہیں چھپ پاتے ہیں۔

(3)      پٹنہ سے شایع ہونے والے ’مسرت‘اور دہلی سے شایع ہونے والے ’کھلونا‘ اور لکھنؤ سے شائع ہونے والے ’ٹافی‘ پر روشنی ڈالی جائے گی۔

ان بند ہوجانے والے رسائل کے جائزہ سے ایک طرف جہاں یہ معلوم ہوگا کہ ان کا مشن کیا تھا اور کیسے کیسے لوگوں نے ان رسائل کے ذریعہ ادب کو پڑھا اور ادیب بن گئے۔ وہیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ بچوں کے رسائل کا بند ہوجانا ہمارے لیے نیک شگون نہیں ہے۔ کیونکہ ان کے بند ہوجانے سے ایک نسل کی ذہنی نشو ونماکی رفتار دھیمی ہوجاتی ہے اور لکھنے والوں کی نئی کھیپ تیار نہیں ہوجاتی ہے۔

این سی ای آر ٹی نے ادب اطفال پر توجہ دے کر ایک بہتر مکالمہ کے لیے راہ ہموار کیا ہے۔ امید ہے کہ اس موضوع پر گفت وشنید سے بچوں کے ادیب فعال ہوں گے اور بچوں کی نفسیات کے مدنظر ادب تخلیق کیا جائے گا۔  

٭

ادب اطفال کا جو مقام شاید تقریباً نصف صدی پہلے تھا وہ اب نہیں ہے۔اب اردو میں بچوں کے ادب کی صورتِ حال تشویشناک ہے، جو لوگ کسی حد تک مورچہ سنبھا لے ہوئے ہیں، ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اب سے چالیس برس قبل کا موازنہ کیا جائے تو یہ سامنے آئے گا کہ اردو کا وہی زریں دور تھا، اسی زمانہ میں بچوں کے معیار ی رسالے نکلتے تھے۔ بچوں پر لکھنے والوں کی تعداد زیادہ تھی۔

اب اور پہلے کے معیاری رسائل کا موازنہ کیا جائے تو یہ کہنا ذرا بھی مبالغہ نہیں ہوگا کہ ماہنامہ ’ٹافی‘ اور ’کھلونا‘ کا بھی ہم پلہ آج کوئی رسالہ نہیں ہے، ٹافی جس کی شروعات 1961میں ہوئی تھی، نے بہت سے ایسے لکھنے والے پیدا کردیے، جن کا آج بھی شہرہ ہے، ’ٹافی‘ نے جہاں بچوں پر مثبت اثرات مرتب کیے وہیں بہت سے نئے لکھنے والوں کی ہمت افزائی کی اور انھیں لکھنا سکھایا۔ 1967سے 1972تک ماہنامہ ’ٹافی‘کی ادارت سنبھالنے والے احمد مشکور نے چند برس قبل راشٹریہ سہارا دہلی میں کچھ یوں لکھا تھا:

’’ماہنامہ’ٹافی ‘ لکھنو میں 1967سے 1972کے پانچ سال کے دوران جن بچوں نے معیاری کہانیاں، خوبصورت نظمیں اور اعلی ترین مضامین تحریر کیے آج وہ اللہ کا شکر ہے کہ اردو کے چمکتے ستارے ہیں، مناظر عاشق ہرگانوی نے ’ٹافی‘ میںمستقل معیار ی مضمون ’ملانابالغ‘ لکھا، ‘ آج وہ ڈاکٹر مناظر ہرگانوی ہیں۔ بھاگلپور یونیور سٹی کے ڈپارٹمنٹ آف اردو کے صدر ہیں۔ رئیس صدیقی ’ٹافی‘ میں  ’جان پہچان‘ کے عنوان سے ملک کے مشہورو معروف شعرا اور ادبا کے انٹرویو لکھتے تھے۔ آج وہ آل انڈیا ریڈیو، دہلی کے پروگرام ایگزیکیٹیو اور پروگرام ’ادبی محفل‘ کے انچارج ہیں۔ رضوان احمد مستقل ’ٹافی‘ میں شائع ہوئے۔وہ ڈاکٹر رضوان احمد پٹنہ میں حکومت بہار کے پبلک ریلیشن آفیسر ہیں۔ عدیل عباس جامی چریاکوٹی میرے عزیز تھے اورشمس الرحمن فاروقی کے وطن چریاکوٹ اعظم گڑ ھ سے تعلق تھا، ان سے میں نے بڑی پیاری سی نظمیں لکھوائیں۔ سیتاپور کے مرحوم کیف احمد صدیقی اور ناوک حمزہ پوری کا ’ٹافی‘سے خا ص تعلق تھا۔‘‘

(روزنامہ راشٹریہ سہارا، دہلی18مارچ 2010)

ماہنامہ’کھلونا‘ کی اپنی ایک خصوصیت تھی، جس سے چھوٹے بڑے ہر عمر کے لوگ مستفید ہوتے تھے، کھلونا کے تعلق سے فیروز بخت احمد جو آج بھی ادب اطفال کے تعلق سے کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے ہیں، لکھتے ہیں:

’’مطالعہ انسان کی ذہنی نشو ونما کے لیے ہمیشہ ٹانک کا کام کرتا ہے۔ میرے لیے یہ کام پیارا رسالہ ماہنامہ ’کھلونا‘ کیا کرتا تھا۔ افسوس کا مقام ہے کہ ’کھلونا‘ ہم سے روٹھ گیا، ٹوٹ گیا، بکھر گیا۔ ماہنامہ’کھلونا‘ اپنے دعوی کے عین مطابق 8سے80سال کے بچوں کا رسالہ ہوا کرتا تھا۔ حاجی یوسف دہلوی کے تین فرزند، یونس دہلوی، ادریس دہلوی اور الیاس دہلوی نے اسے دنیا کی کسی بھی زبان کے بچوں کے رسالے سے بہتر وبرتر بنادیا تھا۔‘‘

(ماجد کی عقلمندی اور بچوں کی دیگر کہانیاں صفحہ5)

ان دونوں رسالوں پر سرسری نظر ڈالنے کے بعد ہم یہاں مسرت پر تفصیلی نگاہ ڈا ل رہے ہیں، تاکہ یہ اندازہ ہوسکے کہ بچوں کا رسالہ نکالنے کی کس قدر حوصلہ افزائی ہوتی تھی۔

دربھنگہ کی صحافت یہ خوش آئند پہلو کہ وہاں کے صحافیوں نے دربھنگہ سے باہر بھی اپنی صلاحیت کا پرچم لہرا یا ہے۔ یوں تو’مسرت‘کی اشاعت پٹنہ سے ہوئی، تاہم اس کے مدیر محترم کا تعلق دربھنگہ کی سرزمین سے ہی ہے۔ مسرت کی پہلی اشاعت دسمبر 1966میں ہوئی اور آخری شمارہ  غالباً جنوری 1969میں منظر عام پر آیا۔ ’مسرت‘ کی اشاعت پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اس وقت کے نائب صدر جمہوریہ ہند، ڈاکٹر ذاکر حسین نے ایڈیٹر کے نام 24اکتوبر 1966کو ایک مکتوب ارسال کیا تھا، جس میں بچوں کی ذہنی تربیت اور فکری نشوونما کے لیے مخصوص اس رسالہ کی تحسین کی تھی۔ جب کہ پہلے شمارہ کے صفحہ تین پرکلیم الدین احمد کے جملے یوں مرقوم ہیں :

’’بچوں کے ادب کی اردو ادب میں بڑی کمی ہے۔ ’مسرت‘ کو اس طرح بچوں کے درمیان پیش کیجیے کہ وہ حقیقی طور پر باعث مسرت ہو۔ امید ہے کہ’’مسرت‘ بچوں کے ادب میں ایک گرانقدر اضافہ ہوگا ‘‘۔

(ماہنامہ مسرت، پٹنہ، جلداور شمارہ1، ص 3)

پہلے شمارہ میں ادب اطفال پر آسی رام نگری ’پنگھٹ پر‘، زکی انور ’ایک بہت بڑا گدھا‘، ظفر اوگانوی ’پاندان‘، طلعت فاطمہ ’خواب یا پیغام‘،رحمت آرا اشر ف ’رہبر‘کی کہانیاں شامل ہیں، جب کہ اطہر شیر نے ’خدابخش خان اوران کی لائبریری‘ کے عنوان سے بچوں کے ذہنی مذاق کو سامنے رکھتے ہوئے انتہائی آسان لفظوں میں ایک مضمون لکھا ہے۔پروفیسر عبدالمغنی نے ’ہے دیکھنے کی چیز اسے باربار دیکھیے‘ کے تحت ناصحانہ انداز میں انسانی معاشرت اور نعمت خداوندی پر عمدہ مضمون لکھا ہے۔ ظہیر صدیقی نے کولمبس اوراس کی سیاحت کے متعلق معلومات افزا مواد پیش کیا ہے۔ ’ مسرت ‘ نے چا چا نہرو پر بھی ایک قابل مطالعہ شمارہ نومبر 1967میں شائع کیا تھا،جو کہ 80 صفحات پر مشتمل تھا۔ ورنہ تو عموماً یہ 48صفحات میں شائع ہوتا تھااور قیمت فی پرچہ 50 پیسے ہوتی تھی۔ ایک موقعہ پر اس کی قیمت بڑھا کر 75پیسے کرنے کا اعلان کیا گیا، لیکن مارچ 1968میں چند لوگوں کی درخواست پر قیمت نہیں بڑھائی گئی ’’لیکن کچھ بہن بھائیوں کا مشورہ ہوا کہ ابھی کم از کم ایک سال تک قیمت نہ بڑھائی جائے۔چنانچہ فی الحال مسرت کی قیمت پہلے ہی کی طرح فی کاپی پچاس پیسے اور سالانہ چھ روپے رہے گی۔ کہیے اب تو آپ خوش ہیں نا؟‘‘۔ جنوری 1969میں شائع ہونے والے شمارہ پر بھی قیمت 50پیسے ہی درج تھی۔

  چاچا نہر ووالے شمارہ میں اختر اورینوی، صالحہ عابد حسین، زکی انور،مظہر امام، سہیل عظیم آبادی، شہاب دائروی، شبنم کمالی، ڈاکٹر کیول دھیر،مناظر عاشق ہرگانوی کے علاوہ شین مظفر پوری(مزاحیہ) کے مضامین قابل ذکر ہیں۔

ماہنامہ ’ مسرت ‘میں لکھنے والوں کے نام کچھ اس طرح ہیں :عبدالمغنی، علقمہ شبلی، زکی انور، سلطان احمد، واہی، آسی رام نگری، رمز عظیم آبادی، وفاملک پوری، مظہرامام، حضرت صفیر بلگرامی، پروفیسر علیم اللہ حالی، ڈاکٹر ارمان نجمی، طلعت فاطمہ، مناظر عاشق ہرگانوی وغیرہ۔

 مسرت کے مشمولات سے اندازہ ہوتا ہے کہ بچوں کے ذہنی مزاج اور ذوق وشوق کو سامنے رکھتے ہوئے مضامین اور ایسی کہانیاں پیش کی جاتی تھیں، جو بچوں کی ذہنی نشو ونما کے ساتھ ساتھ معلومات میں بھی اضافہ کریں۔ موضوع چاہے کچھ بھی ہو ہر ایک میں بچوں کی علمی سطح کا خیال رکھا جاتا تھا۔ مثلا، چاچانہرو کے شمارہ میں نہ جانے کیا کچھ شائع  نہیں کیا جاسکتا تھااوراس کی گنجائش بھی ہوتی، تاہم اس میں بھی ایڈیٹر نے ایسے ہی مواد کو شامل کیا، جس سے بچوں کی معلومات میں اضافہ ہو اور رسالہ سے دلچسپی بھی قائم رہے۔  میگزین سائز کے ماہنامہ ’مسرت ‘کے مشمولات میں ُاس زمانے کے معتبرو نامور قلمکاروںکی شمولیت ہوتی تھی اور ایسے بھی بے شمار نام نظر آتے ہیں، جو آج علم وادب کے لحاظ سے معتبریت کی سند رکھتے ہیں۔ رسالہ کی کامیابی میں جہاں دیگر پالیسیوں کا عمل دخل ہوتا ہے، وہیں انتخابِ مضامین میں اعتدال پسندی کا بھی کرشمہ ہوتا ہے۔ ایڈیٹر ضیاء الرحمن غوثی نے مسرت کے ہرشمارہ میں اس بات کا خاص خیال رکھنے کی کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا معیار نہ صرف پر بلند نظر آتا ہے، بلکہ اول تاآخر ہر شمارے میں مدیرانہ صلاحیت کی جھلکیاں ملتی ہیں اور رسالہ کا معیار اول شمارہ سے ہی بلندنظر آتاہے۔

مسرت ‘کی مسلسل اشاعت اور ہر شمارہ میں چند صفحات کی رنگین طباعت سے ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ یہ کوئی نصف صدی قبل کا رسالہ ہے۔طباعت کی عمدگی اسے آج کے قابل ذکر رسالوں کی صف میں لا کھڑاکرتی ہے۔ رہی بات موضوعات ومواد کی آج بچوں کے لیے اِکّادُکّا شائع ہونے والے رسائل سے کہیں زیادہ اس کے مواد عمدہ قا بل ذکر ہیں۔’’مسر ت کی باتیں‘‘ نامی چند سطری اداریہ میں بچوں سے تخاطب کا انداز انتہائی دلکش ہے، کیونکہ اس میں نہ کوئی غیر ضروری اطلاع دی جاتی تھی اور نہ ہی بچوں کے سامنے فلسفہ بگھارنے کی کوشش ہوتی تھی۔ کاش ’مسرت ‘جیسی کوئی خوشی آج بچوں کو نصیب ہو جائے۔ اخیر میں پہلے شمارہ کے صفحہ پانچ سے واہی کی نظم سے چند مصرعے ـ      ؎

لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری

زندگی صورتِ لیڈر ہو خدایا میری

مجھ سے اسکول میں ہو شورش وشر کی رونق

ایک ہنگامے پہ موقوف ہو گھر کی رونق

لیڈرانہ مرا آہنگ طبیعت ہوجائے

سچ سے نفرت ہو مجھے، جھوٹ کی عادت ہوجائے

الغرض مجھ کو وہ اوصاف عطاکریارب

آگے چل کر جو بنادے مجھے لیڈر یارب

پھر تو قسمت کا ہر اک بنددریچہ کھل جائے

پھر تو کم مائگی ِ علم کا دھبہ دھل جائے

بچوں کے ادب پر مطالعہ کے لیے ماقبل اورمابعد آزادی کی تقسیم انتہائی دشوار گزار ہے۔ کیونکہ بچوں کے ایسے بہت سے رسالے رہے ہیں،جو آزادی سے قبل بھی نکلتے تھے اور مابعد آزادی بھی، بس اتنا کہا جاسکتا ہے کہ اب سے کوئی 25-30برس قبل بچوں کے معیار ی رسالے نکلتے تھے، جو اب ندارد ہیں۔ مثلا ماہنا مہ ’کھلونا‘،ماہنا مہ ’ٹافی‘، ما ہنامہ ’چند انگری، ماہنا مہ’غنچہ‘، ماہنامہ ’شریر‘، ماہنامہ ’جنت کا پھول‘، ماہنامہ ’پریم‘ ماہنامہ ’پھلواری‘وغیرہ اب بس تاریخ کا حصہ بن کر رہ گئے ہیں۔ آج بچوں کے لیے ماہنامہ ’نور‘و ’حجاب‘ رام پور، ماہنامہ ’امنگ‘، دہلی، ماہنامہ ’سائنس کی دنیا‘ دہلی، ماہنامہ ’سائنس ‘، ماہنامہ ’گل بوٹے‘ ممبئی، ماہنامہ ’بچوں کی دنیا ‘ دہلی،شائع ہورہے ہیں۔

 بچوں کو معیار ی ادب سے جوڑنے کے لیے این سی پی یوایل نے ’بچوں کی دنیا ‘نامی رسالہ کی جوشروعات کی ہے، شاید اسی طرز پر بچوں کے دیگررسائل کو دیدہ زیب اور پرکشش بنانے کی کوشش جائے گی۔ کیونکہ یہ رسالہ نہ صرف ادبی معیار کے اعتبار سے بلند ہے بلکہ بچوں کے لیے جس طرح پرکشش رنگین رسالہ ہونا چاہیے، اس لحاظ سے بھی انتہائی موزوں ہے۔ 

رسائل وجرائد سے قطع نظر اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ کتنے قلم کاروں نے اپنے شعر وادب سے بچوں کی کردار سازی اور تربیت میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اس تعلق سے نظر ڈالتے ہیں تو تلوک چند محروم، حامد اللہ افسر میرٹھی، سعادت نظیر،ابوالمجاہد زاہد، ظفر گورکھپوری، سیدہ فرحت، ابرارکرتپوری، وقارخلیل، بدیع الزماں خاور، بزمی بھارتی، خضر برنی، ذاکر حسین، ڈاکٹر صالحہ عابدہ حسین، شفیع الدین نیر وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں، آئیے ان میں سے چند ادیبوں اور شاعروں کے سرمایے پر سرسری نظر ڈالتے ہیں۔ حامداللہ افسر میرٹھی اور تلوک چند محروم یہ دونوں ایسے شاعر ہیں، جن کی زندگی بچوں کے لیے معلم کی سی حیثیت رکھتی۔ ان دونوں نے اپنی شاعری سے بچوں کے اندر حب الوطنی،جذبہ ایثار اور اخلاقی تربیت کی روح پھونکنے کی کوشش کی ہے۔ تلوک چند محروم کی نظموں کے دومجموعے ’بہار طفلی، بچوں کی دنیا‘ علی الترتیب 1961-64میں شائع ہوئے، ان کی نظم محنت کے ایک ٹکڑے پر ایک نظر :

گر چاہتے ہو عزت، محنت سے وہ ملے گی

درکا ر اگر ہے شہرت، محنت سے وہ ملے گی

ہے جس کا نام دولت، محنت سے وہ ملے گی

کہتے ہیں جس کو قسمت، محنت سے وہ ملے گی

محنت کرو عزیزو، محنت سے کام ہوگا

نظم کا یہ ٹکرا دراصل ان کے مجموعہ نظم ’بہار طفلی‘سے ماخوذ ہے، جس میں انھوں نے بچوں کے ذہن ودماغ میں یہ بٹھانے کی کوشش کی ہے کہ ہرکام کے لیے محنت درکار ہے۔ عزت چاہیے، شہرت چاہیے، دولت چاہے، سب کے لیے محنت اولین شرط ہے۔

حامد اللہ افسر میرٹھی نے بچوں کے اندر بالخصوص حب الوطنی کی روح پھونکنے کی کوشش کی ہے، انھوں نے بچوں کے لیے بے شمار نظمیں اور کہانیاں لکھیں، ان کی نظموں کے دومجموعے ’بچوں کے افسراور گہوارے گیت کے‘شائع ہوئے۔

محمد اسحاق مائل خیر آبادی، بزمی بھارتی اور بدیع الزماں خاور نے بھی بچوں کے لیے بہت سی نظمیں کہیں۔بدیع الزماں کی نظموں کا مجموعہ ’ننھی کلیاں‘ 1938، مائل خیر آبادی کی چودہ نظموں کا مجموعہ ’گڈو کے گیت‘1973میں اوربزمی بھارتی کا مجموعہ ’دھنک‘ بھی اس کے آس پاس زمانہ میں شائع ہوئے۔ بدیع الزماں خاور اور بزمی کی نظموں سے مائل خیر آبادی کی نظمیں ذرا مختلف ہوتی ہیں۔ کیونکہ بالعموم ان کی نظموں پر اسلامیات کا گہرا رنگ چڑھا ہوتا ہے۔ اسی طرح خضر برنی کا مجموعہ ’مہکتی کلیاں‘ 1987، سطوت رسول کا مجموعہ ’کھیل سنسار‘ وقار خلیل کا مجموعہ ’حرف حرف نظم‘کے نام سے شائع ہوا۔

اگر نثری ادب کی بات کریں تو کرشن چندر نے 1957میںستاروں کی سیر اور1965میں خرگوش کاسپنا جیسی تخلیقات پیش کیں۔ عصمت چغتائی نے ’’تین اناڑی‘‘جیسا قابل قدر ناول دیا۔ ڈاکٹر ذاکر حسین نے بھی بچوں کے لیے بہت سی کہانیاں لکھیں۔نظمیں اور ڈرامے لکھے، ان کی کہانیوں کا مجموعہ ’ابو خان کی بکری اور چودہ کہانیاں‘ 1963میں شائع ہوا، اسی طرح پروفیسر محمد مجیب اور حامداللہ افسر میرٹھی نے بھی علی الرتیب ’شیلا، آؤ ڈرامہ کریں ‘اور ’چار چاند، جانوروں کی کہانی‘ لکھ کر بچوں کے ادب میں اضافہ کیا ہے۔ ان کے علاوہ بچوں کے نثری ادب میں گرانقدر اضافہ کرنے والوں میں وکیل نجیب، ڈاکٹر شمس الاسلام فاروقی، ڈاکٹر خوشحال زیدی، ڈاکٹر مظفر حسین غزالی، محمد خلیل، غلام حیدر، یوسف انصاری  وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔

قابل غور پہلو یہ ہے کہ ادب اطفال کے تعلق سے صورتحال ناگفتہ بہ ہے، اگرو اقعی اردو کا فروغ ہو رہا ہے تو ادب اطفال کا بھی فروغ ہوتا، کھلونا اور ٹافی جیسے بچوں کے معیاری رسالوں کا اضافہ ہوتا۔ ڈاکٹر سید عبدالباری لکھتے ہیں :

’’اگر حصول آزادی کے پچاس سال کے عرصہ کا موازنہ اس سے عین قبل کے دور محکومی کے پچاس سالوں سے کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان بعد کے پچاس سالوں میں بچوں کا ادب نسبتاً کم تخلیق ہوا ہے ‘‘۔

(آزادی کے بعد اردو زبان وادب،صفحہ 156)

انصاف پسندی سے جائزہ لینے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ بچوں کے کل وقتی ادیب، بچوں کے بے شمار جز وقتی ادیبوں سے مات کھا جاتے ہیں۔ بچوں کے جز وقتی ادیب عام طور سے ادب کے دوسرے شعبہ میں زیادہ عمل دخل رکھتے ہیں۔ مثلاً ناول نگاری، افسانہ نگاری میں شہرت رکھنے والے ادیب بچوں کے لیے بھی لکھنا شروع کردیتے ہیں۔ ان کی شہرت تو دراصل دوسری اصناف ادب میں ہوتی ہے، مگر وہ بچوں کے لیے بھی دو چار مضامین لکھ لیتے ہیں۔ اس کا نقصان یہ سامنے آتا ہے کہ بچوں پر لکھنے والے کل وقتی ادیب، جز وقتی ادیبوں کے سامنے شہرت میں بونے بن جاتے ہیں۔ اس لیے خالص بچوں پر لکھنے والوں کی خاطر خواہ پذیرائی ہونی چاہیے، ایسانہ ہوکہ کل وقتی ادیب کی مراعات بھی جز وقتی بچوں کے ادیبوں کے لیے مختص ہوجائیں۔


Prof. M. J Warsi

Dept of Linguistics

Aligarh Muslim University

Aligarh - 202002 (UP)

Mob.: 09068771999


ماہنامہ اردو دنیا، نومبر 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں