7/12/20

بچوں کے شاعر محمد اقبال - مضمون نگار: سعود عالم

 



اقبال اردو کے اہم شاعر ہیں۔ ان کے کلام کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ شاعری اقبال کی جبلّت میں شامل تھی۔ اقبال نے شاعری کا آغاز بہت پہلے کردیا تھا اوربہت جلد انھیں مقبولیت بھی مل گئی تھی۔ 1899میں انجمن حمایت الاسلام کے ایک جلسے میں جب انھوں نے اپنی نظم ’نالۂ یتیم ‘ پڑھی تو اسی وقت لوگوں کو اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ لڑکا آگے چل کر بہت بڑا بننے والا ہے۔ اسی عرصے میں اقبال کی ایک دوسری نظم ’ہمالہ‘ بھی کافی مقبول ہوئی۔ اس کے بعد تولوگوں کی زبان پر اقبال کا چرچاعام ہوگیا۔ 1904میں اقبال نے ایک نظم ’ترانۂ ہندی‘ کے نام سے لکھی۔ یہ نظم اس زمانے میں اتنی مشہور ہوئی کہ ہرخاص وعام کی زبان زد ہوگئی۔ موجودہ دور میں بھی اس نظم کی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی اس وقت تھی۔ ہندوستان کے بیشتر پروگراموں میں یہ نظم گائی اور سنائی جاتی ہے۔اس نظم میں حب الوطنی کا اظہار ہے۔ گویا کہ اقبال اپنے ابتدائی دور میں جتنے مقبول تھے آج بھی اتنے ہی مقبول ہیں۔

اقبال 1905میں اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ چلے گئے، وہاں انھوں نے انگلستان کی مشہور یونیورسٹی کیمرج یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور فلسفے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد اقبال انگلستان سے جرمنی کوچ کرگئے اور وہاں کی مشہورمیونخ یونیورسٹی  سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ یہ ڈگری انھیں تحقیقی مقالہ ’ایران میں فلسفۂ الٰہیات کا ارتقا‘ پر تفویض کی گئی۔ اقبال نے بیرسٹری کی سندبرطانیہ یونیورسٹی سے حاصل کی۔پروفیسر آرنلڈ اُس وقت  لندن یونیورسٹی میں عربی کے استاد تھے۔ وہ چھ مہینے کے لیے چھٹّی پر گئے ہوئے تھے،  اِس دوران اقبال ان کے قائم مقام لندن یوینورسٹی میں عربی کی تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ 1908میں یورپ سے واپسی کے بعد اقبال نے شاعری کو جو رُخ دیا اُس کا مطالعہ ہر خاص وعام کے لیے ضروری ہے۔ یورپ میں رہ کر اقبال کی شخصیت میں بڑا نکھار پیدا ہوا۔ انھوں نے مغربی تہذیب کا کھوکھلا پن بہ نظر غائر دیکھا۔ ان کی نظم ’لینن خدا کے حضورمیں‘ سے اس کا پتا چلتا ہے۔

اقبال کی شاعری میں بچے، بوڑھے،جوان اور خواتین ہر طبقے کے لیے جگہ ہے۔ ہم فی الوقت بچوں کے لیے لکھی گئی نظموں میں سے ایک نظم ’بچے کی دُعا‘ پر مختصراً گفتگو کریں گے۔

 بچوں کے لیے لکھی گئی نظموں میں ایک پہاڑ اور گلہری، ایک گائے اور بکری،ایک مکڑا اور مکھّی،ایک پرندہ اور جگنو، بچے کی دعا،ہندوستانی بچوں کا گیت،جہاں تک ہوسکے نیکی کرو، محنت، ہمدردی، ماں کا خواب، گھوڑوں کی مجلس، جگنو، شہد کی مکھّی اور پرندے کی فریاد‘‘ قابل ذکر ہیں۔ان میں سے اکثر نظمیں اقبال نے دوسری زبانوں سے اردو میں منتقل کی ہیں۔ خواہ ترجمے کی شکل میں یا دیگر ذرائع کے طور پر۔ محققین وناقدین انھیں جونام دینا چاہیں دے سکتے ہیں۔واضح رہے کہ اقبال کی ان نظموں پر کسی بھی صورت میں سرقہ کا الزام عائد نہیں ہوتا۔اقبال نے ہر نظم سے پہلے اس کے ماخذ کا حوالہ دیا ہے اور انھوں نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ ان تمام نظموں کے خیالات دوسری زبان سے اردو میں منتقل کیے گئے ہیں۔البتہ زبان اور اسلوب اقبال کے اپنے ہیں۔

زیر بحث ’بچے کی دعا‘  اقبال کی وہ نظم ہے جو دنیا میں جگہ جگہ پڑھی جاتی ہے۔ یہ نظم ہندوپاک کے بیشتراسکولوں میں ترانہ کی شکل میں بطور دعا پڑھائی جاتی ہے۔ اس نظم کے ذریعہ اقبال نے تمام برادران وطن وقوم وملّت کو یہ تعلیم دینے کی کوشش کی ہے کہ اگر خدا نے انسان کو توفیق عطا کی تو وہ اپنے علم اور طاقت کی بدولت دنیا میں کچھ بھی کرنے پر آمادہ ہوسکتا ہے۔وہ دنیا میں پھیلی تاریکی کو روشنی میں تبدیل کرسکتا ہے۔ جیسا کہ اس شعرسے واضح ہوتا ہے         ؎

دوٗر دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے

ہر جگہ میرے چمکنے سے اُجالا ہو جائے

اقبال نے اگلے شعر میں وطن سے محبت کا پیغام دیا ہے۔ حب الوطنی اقبال کی فطرت میں شامل تھی ویسے بھی انسان جس ملک میں رہتاہے اس کو اس ملک کا وفادار بن کررہنا چاہیے۔ اقبال نے اس کی تعلیم اپنی شاعر ی کے ذریعہ دینے کی کوشش کی ہے۔

یہ شعر دیکھیں          ؎

ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت

جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت

اس شعر میں اقبال نے اپنا ایک فلسفہ ’خودی‘My self کو پیش کیا ہے جیسا کہ اس شعر کے پہلے مصرع کاپہلا جز ’ہومرے دم سے‘ سے واضح ہوتا ہے۔اقبال کا فلسفہ ہے  کہ اگر انسان نے اپنے آپ کو پہچان لیا توسمجھو اُس میں ہرکام کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔اسی فلسفے کو مدنظر رکھتے ہوئے اقبال دعائیہ انداز میں رب کریم سے دست دراز ہیں کہ اے میرے خالق! تو مجھے اس لائق بنا دے، میرے اندر وہ صلاحیت پیدا کردے کہ میں اپنے علم اور طاقت کی بدولت اپنے ملک کی حفاظت کرسکوں۔ اس کی مثال اقبال نے دوسرے مصرع میں دینے کی کوشش کی ہے کہ جس طرح پھول کے وجود کے بغیر چمن کی زینت بے رونق ہے اسی طرح میرے بغیر ملک کی حفاظت بھی نامکمل ہے۔

اس نظم میں ایک شعر ایسا ہے جو ہم میں سے ہر ایک کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ ملاحظہ ہو یہ شعر         ؎

ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا

درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا

شعر پڑھتے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ شاعر اس کے ذریعہ کیا پیغام دینا چاہتا ہے۔آدمی جتنا بھی بڑا ہوجائے باوجود اس کے دل میں خدمتِ خلق کاایک گوشہ ضرورمخفی ہوتا ہے۔ اسی طرح آدمی جتنا بڑا گناہ گار کیوں نہ ہو، اس کے دل میں اپنی خطا ونسیان کی تلافی کی جگہ باقی رہتی ہے۔ وہ اس کا ازالہ غریبوں کی حمایت اور درد مندوں کی خیرخواہی اور ہمدردی کے ذریعہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے بعد ہی اپنے رب کے دربار میں جانا چاہتا ہے۔

اقبال کو علماوناقدین نے کئی طرح سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ بعض نے انھیں فلسفی تصور کیا ہے تو بعض نے انھیں اسلامی شاعر کے طور پر دیکھنے کی کوشش ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی شاعری فلسفہ اور اسلامیات کاسنگم ہے۔ اقبال نے ان دونوں کو ایک ساتھ آسان لفظوں میں پروکر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کی بہترین مثال اِس نظم کے ان اشعارمیں دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ اشعار حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی بھی تصدیق کرتے ہیں۔ ان میں مارکس اور گاندھی جی کے فلسفہ کو بھی تلاش کیا جاسکتا ہے   ؎

ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا

درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا

زندگی ہو مری پروانے کی صورت یارب

علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب

اقبال صرف یہیں نہیں رکتے بلکہ وہ ایک قدم آگے بڑھ کر اس مشن کی کامیابی کے لیے دعا کرتے ہیں      ؎

میرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو

نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلانا مجھ کو

اقبال کی اس نظم میں سورۂ فاتحہ کی ایک جھلک نظرآتی ہے۔ جیسا کہ آخری شعر ’اھدنا الصراط المستقیم ‘ کاصریح ترجمہ ہے۔

علم کی شمع‘ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ انسان یا قوم کی نجات صرف ایک ہی چیز میں ہے اور وہ علم ہے۔ علم کی طاقت سے آج کے مادّیت پرست دور میں انسان ضرور چاند تارے تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اصل علم سے دور ہے۔

اقبال نے بچوں کی تعلیم سے متعلق ایک مضمون بھی لکھا تھا جو پہلی با ر1902میں رسالہ ’مخزن‘ میں شائع ہواتھا۔ یہ مضمون دوسری باراسی مجلہ میں اکتوبر 1917میں بھی شائع ہوا۔ دوبارہ شائع ہونے سے مضمون کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اقبال بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں کتنے فکر مند رہتے رہے ہوں گے۔اقبال ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:’’تمام قومی عروج کی جڑ بچوں کی تعلیم ہے۔‘‘ آگے مزید لکھتے ہیں:’’حقیقی انسانیت یہ ہے کہ انسان کو اپنے فرائض سے پوری پوری آگاہی ہو اور وہ اپنے آپ کو اس عظیم الشان درخت کی ایک شاخ محسوس کرے، جس کی جڑتو زمین میں رہے مگر اس کی شاخیں آسمان کے دامن کوچھوتی ہیں۔‘‘

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بچے کسی بھی ملک کے مستقبل ہوتے ہیں۔ ان کے مستقبل کا انحصارتعلیم پرہوتا ہے اور تعلیم انسان کاوہ واحد ہتھیار ہے جو انھیںدیگر تمام چیزوں سے ممتاز کرتی ہے۔تعلیم کے ساتھ ایک دوسری چیز تربیت کا ہونا بھی ضروری ہے۔یہ دونوں ضروری ہیں۔کسی بھی ملک یا قوم میں بچّے جب تک تعلیم سے آراستہ نہیں ہوتے تب تک وہ قوم یا سماج ترقی نہیں کرسکتی۔ ایسے میں بچّوں کی تربیت، ان کی تربیت گاہوں اور ان کے نصاب پر گہری نظررکھنا اہم ہوجاتا ہے۔ ہمارے معاشرہ میں اردو کی تعلیم کا عام چلن ہے۔ ہر خاص وعام اپنے بچوں کو اردو کی تعلیم سے واقف کرانا اپنا فرض منصبی سمجھتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مسلم کلچر میں اردو ایک ایسی زبان تسلیم کرلی گئی ہے کہ اس زبان میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا راز بھی مضمر ہے۔ایک زمانے میں اقبال، حالی، نظیر اور اسماعیل میرٹھی کی نظموں نے اور ڈپٹی نذیر احمد و راشد الخیری کے ناولوں نے ہمارے معاشرے کے بچوں میں بیداری پیدا کی اور ایک نیا رُخ دیا لیکن آج ہمارے ملک و قوم کے بچوں کا مستقبل تاریک نظرآرہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج بھی اقبال اوراسماعیل میرٹھی جیسے شعراہمارے معاشرے کے بچوں کے لیے آئیڈیل ہیںجن کی شاعری نے پورے معاشرے کو ایک نئے طریقے سے سوچنے اور عمل کرنے پر مجبور کردیا۔

اقبال نے جو کہا اس پر انھوں نے عمل بھی کیا۔ اقبال نے بچوں سے متعلق بہت ساری نظمیں لکھیںجس کا تذکرہ ہم نے مضمون کے شروع میں کردیاہے۔انھوں نے بچوں کے علاوہ اعلیٰ ثانوی درجات کے طلباو طالبات کے لیے بھی سبق آموز نظمیں لکھی ہیں۔ ان میں ’چاند اور تارے‘، ’شمع اور شاعر‘ قابل ذکر نظمیں ہیں۔

ہیئت کے اعتبار سے یہ نظم ’بچے کی دعا‘ مثنوی کی ہیئت لیے ہوئے ہے۔ اقبال کی بیشتر نظمیں مثنوی اور قصیدہ کی ہیئت میں ہیں۔

بچے کی دعا‘ اپنے آپ میں ایک چھوٹی سی نظم ہے۔ نظم؛ اردو ادب کی وہ صنف ہے جو دو معنوں میں مستعمل ہے۔ نظم بالعموم نثرکے مقابل استعمال ہوتی ہے۔اس کے تحت قصیدہ، مثنوی، رباعی، قطعہ اور مخمس ومسدّس وغیرہ اصناف آتے ہیں۔دوسرا، نظم اپنے آپ میں ایک منفرد اور جداگانہ صنف کی حیثیت رکھتی ہے۔اس کے تحت نظم کی کئی قسمیں ہیں جیسے پابند نظم، آزاد نظم، نظم معریٰ اور نثری نظم وغیرہ۔متذکرہ بالابحث کو سامنے رکھ کر اگر اس چھوٹی سی نظم پر طائرانہ نظرڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ نظم ہیئت کے اعتبار سے تو مثنوی کی ہیئت میں ہے لیکن تعدُّدِ اشعار کی وجہ سے اس کو نظم کے زمرے میں رکھنا زیادہ مناسب ہوگا۔


Saud Alam

B-114, Okhla Main Market

Jamia Nagar, Okhla

New Delhi - 110025

Mob:  8076495936

saudalam1983@gmail.com



ماہنامہ اردو دنیا، نومبر 2020


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں