7/12/20

گجرات میں ادب اطفال کے شاعر و ادیب - مضمون نگار: صفیہ بانو اے شیخ

 


 

 گجرات کا علاقہ اردو زبان و ادب کا مرکز رہا ہے۔ لہٰذا یہاں پر اردو ادب کی تخلیق ہوتی رہی ہے۔ ادب اطفال میں بھی یہاں کے شاعروں اور ادیبوں کو نہ تو نظر انداز کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی بھلایا جاسکتا ہے میں اپنے اس مقالے میں  ادب اطفال کے تعلق سے صرف دو ادیبوں کی تخلیقات پر سیر حاصل بحث کروں گی

 اختر حسین اختر گجرات سے تعلق رکھتے ہیں، وہ بچوں کے شاعر ہیں۔ ان کی نظم ’پیسہ‘ملاحظہ کیجیے         ؎

سب کو     اپنا   بنا گیا   پیسہ

ساری   دنیا   پہ   چھا گیا  پیسہ 

خود کو  قادِر،  خُدا، سمجھتا ہے

ہاتھ جس کے  بھی آگیا  پیسہ       

گرم  روٹی کو  چھین کر ہم سے

دن  میں  تارے  دکھا گیا پیسہ

ہم بھنانے گئے تھے پیسے کو

یارو! ہم کو بھنا گیا پیسہ

مکر، چوری، دغا، فریب و عناد

ہر برائی کو پا گیا پیسہ

کچھ تعلق رہا نہ اپنوں سے

سارے رشتے بھلا گیا پیسہ

دین و دنیا سے، ہر طرف سے گئے

کام ایسے سکھا گیا پیسہ

کیا تونگر، گدا، فقیر امیر

سب کو طالب بنا گیا پیسہ

موج  مستی  میں  سب  اُڑا  ڈالا

جب کبھی ہاتھ آگیا پیسہ

قدر جس  نے بھی کی نہیں اس کی

ہوش اُس کے اڑا گیا پیسہ

علم والا ہو یا عمل والا

سب کو اُلو بنا گیا پیسہ

ایک بازار کیا گرا اس کا

سارے بازار ڈھا گیا پیسہ

کون اختر کا نام اب لے گا

نام اپنا کما گیا پیسہ

( سخن کا سفر   از اختر حسین اختر، اشاعت: 26 جنوری2003، مطبع : آئی ایس  بی ڈجیٹل مع نیشنل آفسٹ، دُدیشور، ص 16 سے 18)

اختر حسین اختر کی پیسہ سے متعلق مذکورہ نظم اطفال کی تعلیم و تربیت کے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہے اس نظم کا ہر شعر لاجواب ہے۔ پہلے ہی شعرسے قاری کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ پیسہ کس قدر ہم سب کی اولیّن ضرورت ہے۔ اس کے بغیر زندگی بسر نہیں کی جاسکتی۔  پیسہ سب کو اپنا بنا کر ساری دنیا پر چھا گیا ہے۔

ادب اطفال کی تعلیم کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ بچے زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کریں کیونکہ علم کے بغیر نہ تو خدا کی معرفت حاصل ہوسکتی ہے اور نہ ہی دنیا جہان کو جانا جاسکتا ہے۔دنیا کی ہر دولت چرائی جاسکتی ہے لیکن علم کے بارے میں حق یہی ہے کہ اسے چرایا نہیں جاسکتا۔دنیا کی ہر دولت خرچ کرنے سے گھٹتی جاتی ہے لیکن علم کی دولت جس قدر خرچ کی جائے اُسی قدر بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔پیسہ کمانے کے لیے علم حاصل کرنا یا علم حاصل کرنے کے لیے پیسہ خرچ کرنا نہ تو ہماری زندگی کا مقصد ہونا چاہیے نہ ہی مقصود۔مقطع میں شاعر نے پیسہ کے مقابلے علم و ادب کی ناقدری پیش کرکے اپنی بات ختم کردی ہے۔ 

 گنگا جمنی تہذیب ہمارے ملک کی جمہوریت، سالمیت اور یگانگت کا بنیادی عنصر ہے ہمارے ملک میں گوداوری، کرشنا،گنگا، جمنا، نربدا،کاویری جیسے بڑے دریا بہتے ہیں ہمارے ملک کے صنعتی اور غیر صنعتی بڑے بڑے شہر انھیں دریائوں کے کنارے آباد ہیں۔ پانی آب حیات ہے لہٰذا ہندوستانی تہذیب میں دریائوں کو ماں ( ماتا ) کا درجہ حاصل ہے۔بڑھتی ہوئی آبی آلودگی کے سبب پینے کے پانی کی قلّت میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔قومی نظام صحت کو بہتر بنانے اور آبی ذخائرکو آلودگی سے بچانے کے لیے مرکزی اور ریاستی سطح پر کئی منصوبے کام کر رہے ہیںان میں گنگا کی صفائی کا منصوبہ سب سے بڑا ہے۔ اب میں آپ کے سامنے اختر صاحب کی ایک اورنظم پیش کرتی ہوں جس کا نام ’ ندی ‘ ہے جس کی زبان نہایت ہی سادہ اور سلیس ہے۔اردو کے ادب اطفال میں ایسی نظموں کا اضافہ بڑا ہی معنی خیز ہے        ؎

ندّی بہتی جاتی ہے

آگے بڑھتی جاتی ہے

بستی ہو یا جنگل

بس بہتی ہی جاتی ہے

اٹھلاتی بل کھاتی ہے

ناگن سی لہراتی ہے

یہ ماحول بناتی ہے

یہ ماحول بچاتی ہے

چلتی ہے سیدھی سی کہیں

اور کہیں مڑ جاتی ہے

بہتی ہے آہستہ کہیں

تیز کہیں ہوجاتی ہے

گرتی ہے پربت سے کہیں

اور کہیں سستاتی ہے

سب کی پیاس بجھاتی ہے

سب کی شان جگاتی ہے

سب کا بوجھ اٹھاتی ہے

بیڑے پار لگاتی ہے

کھیتوں کو پانی دے کر

فصلیں خوب اگاتی ہیں

مت ڈالو کوڑا اِس میں

سَو سَو کام بناتی ہے

ندی آخر کو اختر

ساگر میں مل جاتی ہے

  ( سخن کا سفر از اختر حسین اختر، اشاعت  : 26 جنوری 2003، مطبع : آئی ایس بی ڈجیٹل مع نیشنل آفسٹ، دُدیشور، ص 30 سے 31)

بابائے قوم مہاتما گاندھی جی کی دِلی آرزو تھی کہ لوگ خود کو، اپنے سماج کو اور اپنے ملک کو ہر قسم کی غلاظتوں اور نجاستوںسے پاک اور صاف رکھیں۔ اسی خیال کے تحت نظیف ہندوستان (Clean India)  مُہِم کا پُر اثر آغاز ہوا۔ یہ مہم اب بھی جاری ہے ملک کے کونے کونے میں اس کے مثبت اور فیض رساںنتائج دیکھے جاسکتے ہیں۔سائنس کے اس مشینی دور میں انسان اور اس کی نسل قدرت یعنی Nature  سے دور سے دور تر ہوتی جارہی ہے۔ ادب اطفال میں ایسے ابواب کی شمولیت ضرور ہونی چاہیے جو بچوں کو فطرت کے قریب کردیں۔اس نظم میں ندی کا بہتے جانا، بڑھتے جانا، اٹھلاتے جانا، بل کھاتے جانا، سستاتے جانا، لہراتے جانا، وغیرہ مناظر کا بیان پڑھنے والے قاری کے دل میں ندی پر جانے اور وہاں کے نظاروں سے لطف اندوز ہونے کاولولہ پیدا کرتا ہے۔ 

انٹر نیٹ کے اس دور میں بچوں کے تعلیمی نظام میں نمایاں تبدیلیاں آچکی ہیں۔ ملک کے مستقبل کے ان ذمے دار شہریوں کے ہاتھ میں سمارٹ فون دکھائی دیتے ہیں۔ ادبائے اطفال موجودہ دور کے تقاضوں کی ترجمانی کریں۔ ایسی تخلیقات کا تخلیق ہونا اور نصاب تعلیم میں شامل ہونا لازمی ہے مگر افسوس ہمارے تعلیمی نظام میں اب تک ایسی کوئی نمایاں تبدیلی نہیں ہو پائی ہے۔ انسانی نسلوں نے پانی پر چلنا اور ہوا پر اڑنا تو سیکھ لیا ہے لیکن اشرف المخلوقات کی سی زندگی بسر کرنے سے کوسوں دور ہے۔ احمد خاں اثر یعنی اثر احمد آبادی علم نفسیات سے بی۔اے تھے۔درس و تدریس ان کا پیشہ تھا۔ انھوں نے صرف بچوں کے لیے مختلف موضوعات پر سادہ اور آسان زبان میں نظمیں لکھیں تھیں۔ ان کی نظموں میں اصلاح پسندی، تفریح اور تفنن کا عنصر جدّت کے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔بچوں کے لیے لکھی گئی ان کی نظم ’ سبزی والی ‘ ملاحظہ فرمائیے       ؎

آئی سبزی والی آئی

آؤ دیکھیں کیا کیا لائی

یہ ہے مولی وہ ہے گاجر

کتنے اچھے لال ٹماٹر

بیگن سے آلو کی یاری

بھنڈی کتنی پیاری پیاری

جو ہر روز کریلا کھائے

اس کے گھر میں روگ نہ آئے

لے لو سبزی اچھی اچھی

پالک، میتھی، اروی، گوبھی

سب کہتے ہیں سبزی کھاؤ

سبزی کھاؤ خون بڑھاؤ

( سبزی والی ( بچوں کی نظمیں ) شاعر : اثر احمدآبادی، اشاعت دسمبر2004،مطبع : خطیب کتاب گھر اینڈ پرنٹرس، ص19  )

جس طرح غالب اپنے خطوط میں بالمشافہہ گفتگو کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اثربھی اپنی اس نظم میں اطفال سے رو برو بات چیت کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہے۔ اس نظم میں جن جن سبزیوں کا اثر نے جس انداز میں ذکر کیا ہے وہ قاری کو حفظان صحت کی طرف مبذول کرتا ہے۔حفظان ِ صحت پر توجہ دینا آج کے دور کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ 

ریل کوئی بھی ہو( ٹوئے ٹرین، مینی ٹرین، پکنک ٹرین، پیسنجر ٹرین ) بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں کے لیے بھی تفریح کا سامان ہوتی ہے۔اثر احمد آبادی نے بھی بچوں کے لیے ’ریل ‘نامی ایک نظم لکھی ہے۔اسے ملاحظہ کیجیے          ؎          

وہ دیکھو وہ آئی ریل

پٹری پر لہرائی ریل

انجن ہے وہ سب سے آگے

اس کے پیچھے ہیں بس ڈبے

گارڈ ہری جھنڈی لہرائے

انجن اپنی چال دکھائے

سِگنل کا یہ کام ہے دیکھو

ریل سے کہہ دو ٹھہر کے جاؤ

گرمی، بارش، ہو یا سردی

ہر موسم میں ریل ہے چلتی

ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی

سب کی پیاری سب کی ساتھی

یہ لوگوں کا بوجھ اٹھائے

سب کو اپنے گھر پہنچائے

کام ہے اس کا سب کی خدمت

خدمت سے ملتی ہے عظمت

(سبزی والی (بچوں کی نظمیں) شاعر: اثر احمد آبادی، اشاعت دسمبر 2004، مطبع خطیب کتاب گھر اینڈ پرنٹرس، ص 63)

گجرات میں اردو زبان میںکثرت سے ادب اطفال تخلیق کیاجاتا رہا ہے۔یہاں کے ادیبوں اور شاعروں نے نہ صرف بچوں کی معیاری نظمیں لکھیں بلکہ بچوں کے لیے سبق آموز کہانیاں بھی لکھیں۔  اختر صاحب خالص ریاضی سے ایم۔ایس۔سی ہیں۔ قریب اڑتیس سال (38)تک درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ مقالے کی طوالت کے پیش نظر میںان کی کتاب ’ جنگل کا راجہ ‘ میں شامل دو کہانیوں پر مقالے کا اختتام کرنا مناسب سمجھتی ہوں۔ 

کہانی ’عزم ‘ کا مرکزی کردار حامد نامی لڑکا ہے۔ بچے بڑے ہی معصوم ہوتے ہیں وہ ہر وقت پیار و محبت تلاش کرتے رہتے ہیں۔ حامد بھی ایک معصوم بچہ ہے اُسے بھی پیار و محبت اور اپنائیت چاہیے تھی مگر اس کی جلد کا رنگ کالا تھا۔ دن بہ دن کالا رنگ گہراتا  ہوتاجا رہا تھا۔ اس کہانی میں حامد کو اپنے کالے رنگ کے سبب ہوئی احساس کمتری سے باہر نکلنے کا رستہ مل جاتا ہے یہ راستہ حامد جیسے ان گنت بچوں کے لیے بھی آسان نہیں تھا۔ اس کے جسم کا کالا پن اس کے لیے عذاب بن گیا تھا۔ اس نے جغرافیہ میں پڑھا تھاکہ افریقہ کے لوگ سیاہ فام اور قبیح صورت ہوتے ہیں۔وہ خیالات اور تصورات کی دنیا میں کھو جاتا ہے             ؎ 

            ’’حامد یہ سب کچھ  سوچتا جاتا اور اندر  ہی اندر محسوس کرتا کہ اس کی جلد کی سیاہی اور گہری ہوتی جارہی ہے  اور اتنا ہی نہیں   بلکہ وہ بڑھنے کے بجائے گھٹتا  جا رہا ہے اور ایک دن لوگ اُسے حبشی ہی نہیں ‘ بونا بھی کہیں گے پھر تو وہ سچ مچ مہذہب انسانوں کی بستی کا نہیں بلکہ افریقہ کے جنگل کا پگمی بن کر رہ جائے گا۔  ‘‘  

(بچوں کی کہانیوں کا مجموعہ: جنگل کا راجہ  از اختر حسین اختر، اشاعت : 1984، مطبع:  نشاط پریس ٹانڈہ فیض آباد،  ص5)

حامد جیسا ہونہار بچہ محض اپنے کالے پن کو لے کر نفسیاتی انتشار کا شکار ہوگیا۔خلل ِ دماغ کے سبب وہ احساس کمتری کا شکار ہوگیا۔اُسے محسوس ہوتا تھا کہ اس کے ساتھ نہ تو کوئی دوستی کرتا ہے اور نہ ہی کوئی اُسے اپنے پاس یا اپنے ساتھ بٹھاتاہے۔کوئی بھی اُسے اپنے ساتھ نہ تو کھیل کود میں شامل کرتاہے اور نہ ہی کوئی اُسے لنچ ٹائم میںکھانا کھانے میں شامل کرتا ہے۔اسکول کے تمام بچے اُسے کلّو یا کالیا کہہ کر ہی پکارتے ہیں۔حامد انہی خیالات میں ڈوب کر افسردہ رہنے لگا۔ علم خاک کے ذرّے کو آسمان کا درخشاں ستارہ بنانے کی صفت رکھتا ہے۔ تعلیم کے ذریعے ہی علم کے حصول کی منازل طے کی جاسکتی ہیں۔ تعلیم کے میدان میں بچوں کے درمیان پھل پھول رہے اس جیسے امتیازات کو مٹانے کی ذمہ داری کس کی؟ 

’’  حامد کی گھبرائی ہوئی حالت اور پُر نم آنکھوں کو دیکھ کراستاد انور حسین نے پوچھا،حامد چند لمحے خاموش  رہا پھر آنسوئوں کی لڑی کے  ساتھ آواز اس کے گلے سے باہر نکلی‘ سر ! کیا بد صورت کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ؟   ‘‘  

(بچوں کی کہانیوں کا مجموعہ: جنگل کا راجہ  از اختر حسین اختر ، اشاعت : 1984، مطبع : نشاط پریس ٹانڈہ فیض آباد، ص7)

کیا بد صورت کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں؟ حامد کے ذریعے اٹھایا گیا یہ سوال کسی قیامت سے کم نہ تھا۔اس کے استاد انور حسین اس کے لیے امید کی کرنوں سے بھرا عزم کا چراغ لے کر آئے۔  انھوں نے حامد کو سمجھایا کہ مایوسی کفر ہے۔حوصلہ رکھو۔ تم ایک ذہین طالب علم ہو۔ تمھیں عزم کرنا ہوگا۔ یقین ِ محکم اور عملِ پیہم سے تمھیں نہ صرف اپنے ساتھیوں کو بلکہ ساری دنیا کو یہ بتانا ہوگا۔بقول ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال:    ؎   عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی،   حامد کے عزم کرنے کے بعداُس کی زندگی میں بہت بڑا انقلاب آگیا۔ اب تک جو بچے حامد سے دوری بنائے ہوئے تھے،حامد میں آئے انقلاب آفرین  تغیر کے سبب اس پر فریفتہ ہوگئے۔ اس سے دوستی کرنے، اس کے ساتھ کھانا کھانے، اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے،اور اس کے ساتھ کھیلنے کودنے میں اپنے لیے فخر سمجھنے لگے۔

  اختر صاحب کی دوسری کہانی کا عنوان ہے’  دولت کا فرق‘ ۔ اس کہانی میںشہر احمد آباد کے ایک سوداگر کی زندگی کا المیہ پیش کیا گیاہے۔ سوداگر کو اولاد نہ ہونے کا غم تھا۔ کسی فقیر کی دُعا سے وہ دو لڑکوں کا باپ بن گیا۔ سوداگر ان پڑھ ضرور تھا لیکن اس نے اپنے دونوں بیٹوں کی تعلیم کے لیے کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی۔رازق اسکول جانے کے بہانے بازاروں میں،گلی کوچوںمیں، آوارہ گردی کرتا پھرتا تھاجبکہ امتیاز جو رازق سے چھوٹا تھا، برابر اسکول جاتا تھا اور خوب دل لگا کر پڑھتا تھا۔رازق بری صحبتوں میں پڑ کر جُوا کھیلنے، شراب پینے، اور عیاشیوں کے اڈّوں پر آنے جانے میں مشغول ہو گیا جبکہ امتیاز اعلیٰ تعلیم پاکر ڈاکٹر بن جاتا ہے۔ایک روز سوداگر کا انتقال ہوجاتا ہے۔ رازق اپنا حصہ لے کر بمبئی جیسے شہرمیں جا بستا ہے اور اپنی بری عادتوں کے سبب ساری دولت گنوا بیٹھتا ہے۔ امتیاز اپنے آبائی گھر میں اپنی ماں اور بیوی کے ساتھ خوش حال زندگی بسر کرتا ہے۔ رازق کے پاس جتنا پیسہ تھا وہ سارا خرچ ہوجاتا ہے۔ جب وہ نوکری تلاش کرنے جاتا ہے تب اسے اس کے اَن پڑھ ہونے کا احساس ہوتاہے۔ اس کہانی کا نچوڑ ذیل کے اقتباس میںمضمر ہے۔                      

’’  دونوں ایک ہی باپ کی اولاد تھے پھر بھی دونوں کی زندگی میں اتنا بڑا فرق  صرف اس لیے تھا کہ بڑے بھائی رازق کے پاس صرف  مادی دولت تھی  جو کبھی بھی فنا ہوسکتی تھی جبکہ چھوٹے بھائی امتیاز کے پاس علم تھا جو لازوال اور پائندہ ہے۔  ‘‘

(بچوں کی کہانیوں کا مجموعہ : جنگل کا راجہ  از اختر حسین اختر، اشاعت : 1984،مطبع : نشاط پریس ٹانڈہ فیض آباد، ص35)

 

Dr. SufiyaBanu .A. Shaikh

 C- Ground Floor Tajpalace, Kumbharwada

380001.  ,Jamalpur Ahmedabad

Mob: 9824320676,6354980992         

Email: shaikhsufiyabanu@gmail.com             

 

 

 

ماہنامہ اردو دنیا، نومبر 2020

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں