8/12/20

ہندوستانی فلموں کے مکالمے اور اردو - مضمون نگار: محمد منور عالم

 


 

ہندوستانی فلموں پر ہونے والی گفتگو اردو زبان اور اس کی تہذیب کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ ہندوستانی فلموں نے اردو کی آغوش میں آنکھیں کھولیں اور اردو زبان کو اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ پہلی ہندوستانی فلم ’عالم آرا‘ پر غور کیا جائے تو یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اس کی کہانی، مکالمے، نغمے، برتاؤ وغیرہ سب کے سب اردو کے رنگ میں ہیں۔ اس فلم کے مکالمے کی زبان اردو تھی جسے عوامی سطح پر بے حد مقبولیت حاصل تھی۔ اس فلم کے ہٹ ہونے میں مکالمے کا اہم رول رہا۔ اس پہلی متکلم فلم ’عالم آرا‘ کے مکالمے منشی ظہیر نے لکھے تھے جو اردو میں تھے۔ عالم آرا سے لے کر اب تک کی تمام ہندوستانی فلمیں اگر کامیابی سے ہمکنار ہوئیں تو اس میں مکالمے کا رول اہم رہا ہے۔

ابتدا میں موسیقی سے لبریز فلمیں شائقین کے لیے لطف اندوزی کا ذریعہ تھیں۔ مگر سنیما صنعت کی ترقی کے ساتھ رواں دواں زندگی کی بیشکاری کے لیے کئی ذرائع اظہار استعمال کیے گئے وہیں جذبات و احساسات کے حسین اور پر اثر اظہار کے لیے مکالمے کو بہترین آلہ کار مانا گیا۔ بولتی  فلموں کے آغاز سے اب تک مکالمے کی اہمیت برقرار ہے۔ ہزاروں مکالمے پسندیدگی کی سند پا چکے ہیں اور ناقابل فلم کی طرح خاص و عام کی زبان پر جاری ہیں۔ جہاں بھی فلموں میں اثر دار اداکاری کا ذکر ہوتا ہے وہیں مشہور ڈائلاگس برسوں تک شائقین بھول نہیں پاتے ہیں۔ آخر مکالمے میں ایسی کیا بات ہے کہ فلموں میں اس کی اتنی اہمیت ہے۔اس کو تعریف کا جامہ کس طرح عطا کر سکتے ہیں اس سلسلے میں فلموں سے وابستہ فن کاروں کی رائے سودمند ہو سکتی ہے اور ان نکات پر گفتگو کی جا سکتی ہے جن کی طرف آرٹسٹوں نے توجہ دلائی ہے۔جناب احسن رضوی جنھوں نے فلم مغل اعظم کے کچھ مکالمے لکھے، ان کے مطابق  ’’مکالمہ وہ پیرایہ گفتگو ہے جو کہانی کی تمام ضرورتوں پر حاوی ہو۔ ــ‘‘ (فلمی انٹرویو: محمد خالد عابدی، ص11) انھوں نے کہانی اور منظرنامے میں مکالمے کی بنیادی حیثیت کو قبول کیا ہے۔جدید شاعری کا اہم ترین نام اخترالایمان تقریباً چالیس سال تک فلموں سے وابستہ رہے۔ کہانیاں،  شاعری  اور مکالمے انھوں نے فلموں کے لیے لکھے۔

فلم کی کامیابی کے لیے جن نکات پر محنت کی جاتی رہی ہے ان میں مکالمہ بھی ایک ہے۔ مکالمے صرف تحریر نہیں کیے جاتے ہیں بلکہ اس کی قرأت کو رکارڈ کیا جاتا ہے۔ مکالمہ نویس اور اداکار کے درمیان مکالمے پر تبادلۂ خیال کو ضروری تصور کیا جاتا ہے۔ اداکار کو اس بات کے لیے تیار کیا جاتا ہے کہ مکالمے اس انداز سے ادا کیے جائیں جو اس زبان کی اصلیت کو برقرار رکھے۔ اس کے لیے با ضابطہ طور پر آدمی بحال کیے جاتے ہیں۔ اردو زبان کی ہمہ گیری اور مقبولیت کے پیش نظر فلموں کے مکالمے میں صرف الفاظ استعمال نہیں ہوتے ہیں بلکہ لہجہ بھی اردو والا ہی ہوا کرتا ہے۔ چند مکالمے ملاحظہ کیجیے اور ان میں اردو کی جلوہ گری محسوس کیجیے۔

ـ’’ آج میرے پاس گاڑی ہے، بنگلہ ہے، پیسہ ہے، تمہارے پاس کیا ہے ؟  میرے پاس، میرے پاس ماں ہے۔ ‘‘  (فلم دیوار )  ’’آپ کے پاؤں بہت حسین ہیں، انھیں زمین پر مت اتاریے گا میلے ہو جائیں گے۔‘‘  (فلم پاکیزہ )

’’انارکلی  ’سلیم کی محبت تمہیں مرنے نہیں دے گی اور ہم تمہیں جینے نہیں دیں گے ‘۔‘‘  (فلم مغل اعظم )

’’بڑے بڑے شہروں میں چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ ‘‘  (فلم دل والے دلہنیا لے جائیں گے )

کبھی کبھی کچھ جیتنے کے لیے کچھ ہارنا پڑتا ہے۔ اور ہار کر جیتنے والے کو بازیگر کہتے ہیں۔‘‘  (فلم بازیگر)

ان مکالموں کے حسن کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ وہ مکالمے ہیں جو فلم دیکھنے والے حضرات کو ازبر ہیں۔ عوام میں ان مکالموں کا استعمال روزمرہ کی طرح ہوتا ہے۔ کسی زبان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس کو بولنے والے سے اثرانداز ہو کر اس کو جاننے کی سعی کرنا۔ اردو زبان کی خصوصیت ہے کہ دوسری زبانوں کو جاننے والے جب اس الفاظ کو سنتے ہیں تو اس کو سیکھنے کی للک ہوتی ہے۔ ہندی یا دوسری علاقائی زبانوں کو جاننے اور بولنے والے اردو کے الفاظ کا استعمال کرکے خوش ہوتے ہیں اور اس کے حسن کی تعریف کرتے   ہیں۔ ہندوستانی فلموں سے وابستہ اہم مکالمہ نویسوں کی کارکردگی اور اردو زبان کی شمولیت کے لیے مکالمہ نگاری اور فلموں کا اختصار سے جائزہ سود مند ہوسکتا ہے۔ اس لیے چند اہم مکالمہ نویسوں کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے۔

راجندر سنگھ بیدی (1984-1915) مشہور افسانہ نگار گزرے ہیں۔ انھوں نے فلموں کے لیے کہانیاں اور مکالمے لکھے۔ ان کے مکالمے پسند کیے گئے اور فلموں کی کامیابی میں حصہ دار بنے۔ بحیثیت مکالمہ نگار ان کی کامیاب فلمیں  امانت، پھر کب ملوگی، ابھیمان، جوالا، عزت، میرے ہمدم میرے دوست، بہاروں کے سپنے، بہوبیٹی، میرے صنم، پھول سے انگارے، مدھومتی، مسافر، مرزا غالب، دلربا وغیرہ ہیں۔

خواجہ احمد عباس نے چالیس سال تک فلموں میں کام کیا۔ اس اثنا میں انھوں نے تقریباً پچاس فلموں کے لیے کہانی منظرنامے، مکالمے، فلم سازی اورہدایت کاری کی۔ ان پچاس فلموں میں سے بہت سی فلمیں خود کی ہی تھیں تو کچھ فلمیں دوسرے فلم سازوں اور ہدا یت کاروں کی تھیں۔ کسی فلم کے وہ صرف کہانی کار یا مکالمہ نگار تھے۔

قادر خان فلم اداکار کے طور پر خاص و عام میں مقبول نام ہے۔ قادر خان نے بحیثیت اداکار فلم انڈسٹری میں  اپنی شناخت مستحکم بنائی اور انھوں نے فلم ’جوانی دیوانی‘  سے اب تک فلموں سے وابستہ ہوکر خوب نام کمایا۔  فلموں میں آنے سے قبل اپنے طالب علمی کے زمانے میں وہ ڈرامہ لکھا کرتے تھے اور خود ڈرامے کا کردار بھی نبھاتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان مکالموں سے متاثر ہوکر راجندر سنگھ بیدی اور ان کے صاحب زادے سریندر بیدی نے اپنی فلم ’جوانی دیوانی‘ کے مکالمے لکھنے کو تیار کیا۔ اس وقت سے قادر خان بحیثیت مکالمہ نگار مشہور ہو گئے۔ فلم ’روٹی‘ کے مکالمے اتنے جاندار تھے کہ اس وجہ سے یہ فلم زبردست کامیاب ہو ئی۔ انھوں نے ’ امر اکبر انتھونی ‘ کے مکالمے لکھے جو اس سال سپر ہٹ فلم ثابت ہوئی۔  نصیب، قلم، پرورش، مرد، آتش، مقدر کا سکندر، دلہے راجا، جیسی کرنی ویسی بھرنی،انقلاب، سپوت وغیرہ فلموں کے مکالمے ان کے قلم کی جادوگری ہے۔ ان کے تحریر کردہ مکالمے امیتابھ بچن اور دلیپ کمار نے ادا کیے تو فلم کی اسکرپٹ نے کمال پیدا کر دیا۔ محمد جاوید مولا نے بالکل صحیح لکھا ہے :

’’جب ان سے پوچھا گیا کہ امیتابھ بچن کو سلیم جاوید کے بعد آپ نے مکالموں کے ذریعے کامیابی دلائی اس بارے میں ان کا کہنا ہے، میرے مکالمے سونا تھے جسے امیتابھ بچن نے اپنی آواز کے ذریعے کندن بنایا۔ مجھے امیتابھ جی کے ساتھ کام کر کے لطف آیا۔ میں نے ان کے مکالموں کی ادائیگی میں بہت مدد کی۔ ‘‘

(ہندوستانی فلم کا آغاز و ارتقا، جلد دوم، ص 36)

قادر خان نے با موقع اور با وزن مکالمے لکھے۔ اختصار کی جامعیت ان کے یہاں دیکھتے ہی بنتی ہے۔ چند مکالمے دیکھیے :

’’دکھ جب ہماری کہانی سنتا ہے تو خود دکھ کو بھی دکھ ہوتا ہے۔‘‘  (فلم: باپ نمبری بیٹا دس نمبری )

’’زندگی میں طوفان آئے، قیامت آئے..... مگر کبھی دوستی میں درار نہ آنے پائے۔‘‘  (فلم: آتش )

’’سکھ تو بے وفا ہے...چند دنوں کے لیے آتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ ‘‘  (فلم: مقدر کا سکندر )

’’دولت کا کیا ہے، وہ تو آتی جاتی رہتی ہے... مگر بیٹی تو گھر کی عزت ہے...اور عزت ایک بار چلی جائے تو وہ لوٹ کر نہیں آیا کرتی۔ ‘‘  (فلم: دلہے راجا )

’’حرام کی دولت انسان کو شروع شروع میں سکھ ضرور دلاتی ہے...مگر بعد میں لے جا کر ایک ایسے دکھ کے ساگر میں دھکیل دیتی ہے...جہاں مرتے دم تک سکھ کا کنارا کبھی نظر نہیں آتا۔‘‘  (فلم: جیسی کرنی ویسی بھرنی )

قادر خان نے ذو معنی مکالمے بھی لکھے جن میں طنز کی گہری چھاپ ہوتی ہے انھوں نے مزاحیہ انداز کے مکالمے بھی تحریر کیے۔ ان کی اداکاری میں ڈائیلاگز قہقہہ لگانے کو مجبور کرتے ہیں وہ واحد فنکار و اداکار ہیں جن کے دل میں نئے لکھنے والوں کے لیے ہمدردی ہے۔ ان کی فلم’ توسی گریٹ ہو پاپاجی ‘ کے مکالمے نے شائقین کا دل جیت لیا۔ قادر خان نے اردو زبان کی چاشنی سے لبریز مکالمے لکھ کر اس پیاری زبان کا جادو فلموں میں بکھیرا۔

گلزار فلم سے وابستہ ایک ایسی کثیر الجہات شخصیت کا نام ہے جنھوں نے سنیما کے خدو خال سنوارنے میں نمایاں کردار نبھایا۔ ان کو تین بار قومی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ انھوں نے متعدد فلموں کے لیے مکالمے لکھے۔

جاوید اختر کے مکالمے فلموں کی کامیابی کی ضمانت مانے جاتے ہیں۔ وہ نغمہ نگار اور شاعری کی حیثیت سے اردو ادب میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔ سلیم خان کے ساتھ ان کی جوڑی کافی مشہور تھی۔سلیم جاوید کی جوڑی نے ہندوستانی سنیما میں ایک نئی تاریخ رقم کی۔ شائقین ان کے مکالمے سننے کے لیے ہی تھیٹر تک آتے تھے۔  انداز، ادھیکار، ڈان، ہاتھ کی صفائی، سیتا اور گیتا، یادوں کی بارات، زنجیر، دیوار، شعلے، مجبور، ایمان دھرم، کالا پتھر، دوستانہ، ترشول، زمانہ، شان، کرانتی، شکتی، مسٹر انڈیاوغیرہ مشہور زمانہ فلمیں ان کے ڈائیلاگز کی وجہ سے کامیاب رہیں۔سلیم جاوید کی مشترکہ کارکردگی نے انھیں13 فلم فئیر ایوارڈ سے نوازا۔ یہ دونوں بے حد کامیاب مکالمہ نویس مانے جاتے رہے ہیں۔ شاعر ہونے کی وجہ سے ان کی نثر میں شاعری کی سی خوبی در آئی ہے۔ وہ جب مکالمے تحریر کرتے ہیں تو الفاظ کے انتخاب میں شاعری کی طرح محتاط ہوتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مکالمے کانوں میں رس گھولتے ہیں اور بااثر بھی معلوم پڑتے ہیں۔ ان کی مقبول فلموں سے چند مکالمے پیش کرتا ہوں جن سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ ان کے یہاں اردو زبان کی جادوگری ہے۔

’’جاؤ پہلے اس آدمی کا سائن لے کر آؤ جس نے میرے باپ کو چور کہا تھا۔  پہلے اس آدمی کا سائن لے کر آؤ جس نے میری ماں کو گالی دے کر نوکری سے نکال دیا تھا۔ پہلے اس آدمی کا سائن لے کر آؤ جس نے میرے ہاتھ پر یہ...یہ لکھ دیا تھا...یہ، اس کے بعد میرے بھائی تم جہاں کہوگے میں وہاں سائن کر دوں گا۔ ‘‘ ( فلم: دیوار)

’’ یہ تمھارے باپ کا گھر نہیں، پولیس اسٹیشن ہے، اس لیے سیدھی طرح کھڑے رہو۔ ‘‘( فلم: دیوار )

’’صحیح بات کو صحیح وقت پر کہا جائے تو اس کا مزہ ہی کچھ اور ہے اور میں صحیح وقت کا انتظار کرتا ہوں۔‘‘

(فلم: ترشول)

’’سپنے بھی سمندر کی لہروں کی طرح حقیقت کی چٹانوں سے ٹکرا کر ٹوٹ جاتے ہیں۔‘‘ (فلم: دیوار )

’’زندگی کا تمبو تین بمبو پر کھڑا ہے۔‘‘ (فلم: شرابی )

ان کے علاوہ کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، کمال امروہی، ہمانشو شرما، وجاہت مرزا، راہی معصوم رضا، رامانند ساگر، ڈاکٹر اچلا ناگر، آدتیہ چوپڑا نے فلموں میں جو مکالمے پیش کیے ان کی سماعت سے واضح ہوتا ہے کہ اردو زبان کا مزاج ہنوز قائم ہے۔ اس کے ساتھ ہی فلمی دنیا میں اردو کے ادبابطور خاص شعراکی مانگ بڑھنے لگی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ فلمستان میں شعراوادباکا جمگھٹا رہنے لگا۔ بے شمار نغمہ نگار، کہانی کار، افسانہ نویس منظر نامہ لکھنے والے ادباو شعرایہاں چھا گئے۔ فلم کی کہانی اسکرین پلے اور مکالمے لکھنے کے لیے بھی ادباسے کام لیا جانے لگا۔ واضح رہے کہ ان حضرات سے پہلے یہ کام منشی سے لیا جاتا تھا۔ادباو شعراکی فلم سے وابستگی نے فلموں کے معیار کو بلند کیا۔

ہندوستانی فلموں کی ایک صد سالہ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ ’ عالم آرا‘ سے اب تک کی فلموں میں مکالمے کی حیثیت کلیدی رہی ہے۔بے حد کامیاب فلمیں یا باکس آفس پر سپر ہٹ ہو نے والی فلموں کی کامیابی کی وجہ اگر تلاش کی جائے تو جہاں دوسرے اجزا کا نام آئے گاوہیں مکالمے کو کسی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔

 

Dr. Md Monauwar Alam

Asst Prof. Dept, of Urdu

R.N.College, Pandaul

Madhubani - 847234 (Bihar)

Mob.: 09934938380, 9852505654

 

 

 

 ماہنامہ اردو دنیا، نومبر 2020

 

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں