8/12/20

اقبال کی داستان سرائی - مضمون نگار: عبدالحق

 

اقبال کے فکر و فن کی روح میں انسان کی ہی جلوہ نمائی ہے۔ اشعار پر جہاں بھی نظر پڑتی ہے، حضرتِ انسان کی شبیہ و صورت کے ساتھ اس کے حال و مقام کا ذکر ملتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسان کے لیے ہی ان کا فکر و فلسفہ وقف ہے۔ ادبیات عالم میں شاید ایسی مثال نہ ملے۔ گویا انسانی ترانہ یا نغمہ سازی ہی اقبال کی شناخت ہے۔ یہی وہ مرکزی نقطہ ہے جس سے وہ کسی دور یا حال میں غافل نہیں رہے۔ فکری ارتقا کے ساتھ ہی بنی نوع بشر سے متعلق خیالات بہتر سے بہتر صورت گری کی طرف بڑھتے گئے اور بلند پروازی میں اضافہ ہوتا رہا۔ منزل کبریا تک رسائی اس کا ہدف ٹھہرا۔

انسان ارض و سما کی سب سے برگزیدہ تخلیق ہے اسے سب پر شرف حاصل ہے۔ یہ مسجودِ ملائک اور خالقِ کون و مکاں کی سب سے محبوب شے بھی ہے۔ اس کی ہزراوں صورتیں ہیں۔ مختلف زمانوں اور بستیوں میں اس کی ہدایت اور خیرخواہی کے لیے عظیم انسانوں کا نزول ہوتا رہا ہے۔ تخلیق آدم سے پیغمبر اعظم و آخر تک بعثتِ رسول کا سلسلہ جاری رہا ہے اور ان کے بعد مفکروں اور دانش وروں کے قیل و قال کا سلسلہ حشر تک جاری رہے گا۔ اقبال کی نظر میں اس طویل انسانی تاریخ کی بہت اہمیت ہے۔ ان کی داستان پسند طبیعت کے لیے حضرتِ انسان کی کہانی میں بڑی دل کشی تھی۔ ان کی تخلیق کا سرچشمہ یہی انسان ہے جو موجودات میں منفرد اور حقیقت میں رازِدرونِ کائنات ہے۔ دنیا کے تمام انسان ایک وحدت سے منسلک ہیں کیونکہ سب اولادِ آدم ہیں۔ سب کی پیدائش اور پہنائی میں اسی مشتِ خاک کی کار فرمائی ہے۔ اقبال کی تمام تر توجہ اور آرزو وحدتِ آدم کے عظیم تصور پر مرتکز ہے۔ سارے قبائل ایک وحدت میں گم ہوں۔ جمعیتِ اقوام کی جگہ جمعیتِ آدم ہو۔ احترام آدمیت ہی منشائے مالکِ کون و مکاں ہے۔ یہ سب فکرِ اقبال کے اشارات ہیں۔

اقبال فکر شعر کے ابتدائی دور سے ہی اس موضو ع پر سنجیدگی سے متوجہ ہیں۔ عمر پچیس سال کی ہے، مگر افکار کی پرواز او رہجوم طوفاں بدوش ہیں۔ انسان ان کا ممدوح اور محبوب بھی ہے۔ جگہ جگہ انسانیت سے متعلق سوز و ساز کی اضطرابی کیفیت نمایاں ہونے لگی ہے۔ متروک کلام یعنی 1901 سے پہلے کی شاعری میں بہت ہی واضح تصور موجود ہے۔انھیں نظرانداز کرکے صرف بانگِ درا کے پہلے دور کے کلام پر توجہ ہے کیونکہ زیربحث نظم  1904 کی تخلیق ہے۔ اسی دور سے انسان پر غیرمعمولی توجہ ان کی اساسی فکر کا برملا اظہار ہے۔ اس سے نوجوان شاعر کے سروکار کی نشان دہی کی جاسکتی ہے۔ یہ اشارہ قاری کی بصیرت کو بھی آواز دیتا ہے۔ ابتدائی دورکا یہ تصور اقبال کی فکری راہوں کو روشن کررہا ہے ۔ اس موضوع سخن کو ماہ و سال کے آئینے میں ہر دور میں دیکھا جاسکتا ہے اور ارتقائی صورتِ حال پر گفتگو بھی کی جاسکتی ہے۔ پہلی نظم ہمالہ (1901)  کے آخری بند سے داستان سرائی شروع ہوتی ہے       ؎

اے ہمالہ داستاں اس وقت کی کوئی سنا

مسکنِ آبائے انساں جب بنا دامن ترا

کچھ سنا اس سیدھی سادی زندگی کا ماجرا

اس دور کی سب سے طویل (انہتر اشعار) نظم ’تصویردرد‘ ہے جو تاثیر اور تاکید میں بے مثل تخلیق ہے۔ انسانی محبتوں سے سرشار یہ تخلیق اقبال کی بصیرتوں کی بے نظیر مثال بھی ہے۔ اس کے اشعار زبان زد محاورے بن گئے، جن کی بازگشت سیاسی ایوان و محل اور مسجد و محراب میں بھی گونجتی ہے۔ اقبال کی محبتوں کا ترجمان یہ شعر ملاحظہ ہو     ؎

شرابِ روح پرور ہے محبت نوع انساں کی

سکھایا اس نے مجھ کو مست بے جام و سبو رہنا

یہ بات لطف سے خالی نہیں ہے کہ اقبال دوسروں کے احوال و کوائف کے ساتھ اپنی رام کہانی بھی سناتے ہیں۔ ایک طرف بزمِ قدرت، انسان و حیوان اپنی سرگزشت سناتے ہیں۔ دوسری طرف حضرت انسان رودادِ زندگی بیان کرتے ہیں۔ اقبال سرگزشتِ آدم رقم کرتے ہیں اور آدم کے قصۂ رنگیں کو داستان سرائی کے لیے پسند کرتے ہیں۔ ان کے لیے یہ ناممکن تھا کہ اپنی کہانی قلم بند نہ کریں۔ وہ بھی اولادِ آدم تھے۔ آدم کی سرگزشت کے ساتھ اپنی سرنوشت بھی رقم کرتے ہیں۔ اس دور کی ایک دوسری تخلیق ’زہد اور رندی‘ بہت ہی لطف انگیز ہے جس میں مزاج کی سیمابی اور آزادروی کے ساتھ اور بہت کچھ منظوم ہوگیا ہے۔ مکالماتی لب و لہجہ بہت ہی کیف پرور اور داستانوی دلچسپی سے بھرپور ہے۔ اقبال ہی قصہ گو ہیں اور ہیرو بھی۔ منظر و مکالمہ بھی دل فروز ہے۔ اس نظم میں ستائیس اشعار ہیں اور ہر شعر بستہ و پیوستہ ہے۔ نظم صوت و حرف کے اعتبار سے مترنم اور خوش آہنگ بھی ہے۔

اک مولوی صاحب کی سناتا ہوں کہانی

سے شروع ہوتا ہے۔ مولوی صاحب صوفی منش، باعزت، عالم دین، اپنی کرامات کے ذاکر تھے۔ وہ اقبال سے بھی واقف تھے۔ ان کے لفظوں میں اقبال کی کہانی سنیے        ؎

سنتا ہوں کہ کافر نہیں ہندو کو سمجھتا

ہے ایسا عقیدہ اثر فلسفہ دانی

کچھ عار اسے حسن فروشوں سے  نہیں ہے

عادت یہ ہمارے شعرا کی ہے پرانی

لیکن یہ سنا اپنے مریدوں سے ہے میں نے

بے داغ ہے مانند سحر اس کی جوانی

اس شخص کی ہم پر تو حقیقت نہیں کھلتی

ہوگا یہ کسی اور ہی اسلام کا بانی

ایک دن حضرت زاہد سرراہ اقبال سے ملے تو علامہ نے شکایت کی۔ مولوی صاحب نے فرمایا کہ تمھارے بارے میں جو کچھ کہا وہ محبت کے سبب تھا اور شریعت کی راہ دکھانی تھی۔ اقبال اپنے مزاج کی ترجمانی کرتے ہیں     ؎

میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا

گہرا ہے مرے بحرِ خیالات کا پانی

مجھ کو بھی تمنا ہے کہ اقبال کو دیکھوں

کی اس کی جدائی میں بہت اشک فشانی

اس قصے کے خاتمے کا شعر مطالعۂ اقبال کا لازوال محاورہ بن گیا۔ اقبال کی پراسرار شخصیت کا ایسا برملا اظہار کسی تحریر میں ممکن نہ ہوسکا۔

اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے

اس کہانی کے تین کردار ہیں زاہد، اقبال کے دوست اور خود اقبال۔ کہانی کے تینوں لوازمات متکلم، مخاطب اور غائب قصہ کی متحرک تصویریں ہیں۔ یہ اقبال کی قصہ گوئی کی ایک عجیب مثال ہے۔ سرگزشتِ آدم بانگِ درا کے ابتدائی حصے کی (1904) تخلیق ہے اور کل اٹھارہ اشعار پر مشتمل ہے۔ اقبال بنیادی طور پر بیانیہ تخلیق کے انوکھے فن کار ہیں۔ غزلوں میں بھی حسن بیان کی ساحری موجود ہے۔ بال جبریل کی غزل منظر مکالمہ اور مخاطب کی حیرت فروش مثال ہے۔

اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا

اس نظم میں اقبال کا حسنِ بیان بڑی دل کشی رکھتا ہے۔ بیانیہ کے کچھ لوازمات ہیں۔ سرگزشت اپنے وجود پر گزری ہوئی داستان سرائی کا نام ہے۔ اس کے لیے قصہ گو کے ساتھ سامع اور مخاطب بھی بزم آرا ہوتے ہیں۔ ظاہر ان کا وجود معدوم ہوتا ہے مگر فن کار تصور کرلیتا ہے کہ وہ سامعین کی محفل میں اپنی خودنوشت سنا رہا ہے۔ اسے ایک تمثیلی تخاطب بھی کہہ سکتے ہیں۔ گو کہ شاعر خود اپنی ذات سے ہم کلام ہوتا ہے۔ مخاطب جو غائب ہے محض خیال میں موجود ہے۔ خودکلامی کی ایک بلیغ صورت اس نظم کی ایک خوبی ہے اور حسن آفرینی کی بہت ہی خوبصورت مثال سامعین کی صف میں ارض و سما پر محیط پوری کائنات ہے جو وسعت اور پھیلاؤ میں بے کراں ہے جس کے حدود کا تصور بھی انسانی ذہن سے بالاتر ہے۔ انسان فرشِ زمین سے ہی نہیں بام گردوں سے بھی مخاطب ہے۔ چونکہ آدم پہلی تخلیق ہی نہیں تمام تخلیقات عالم میں سب سے بلند و برتر ہیں۔ ان کی ذات میں ارض و سما کی وسعتیں اور پہنائیاں سمٹ کر ایک نقطے پر مرکوز ہوگئی ہیں۔ ایسے وسیع اور بے کراں پیکر کا خطاب کائنات سے ہی موزوں ہے۔ کسی خطے، قبیلے، یا قوم سے مناسب نہیں ہے۔ یہ ایک محدود زاویہ ہوگا۔ یہ نکتہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اقبال کا انسان صرف مشتِ خاک کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ وہ بے کراں وسعتوں کی ایک علامت ہے جس میں زمین و آسماں اور زمان و مکاں کے امکانی حدود سمٹ کر علامت بن گئے ہیں۔ اقبال کی ہی مثال ہے کہ آنکھ کے تِل میں آسمان کی وسعتیں اور سمندر ایک بوند پانی میں بند ہوگیا ہے۔

سمندر ہے اک بوند پانی میں بند

ازل اس کے پیچھے ابد سامنے

(ساقی نامہ)

پہنائیوں کا تقاضا تھا کہ اقبال قصہ گو کائنات سے گفتگو کے لیے روبرو ہوتے اور بزمِ کائنات کو اپنی رام کہانی سے روشناس کراتے۔ متکلم اور مخاطب میں مساوی مراسم  لازم ہوتے ہیں۔ جس شان کی بزم اور سامع ہوں اسی عظمت کی داستان بھی ہو اور واقعہ نگار بھی اتنا ہی عظیم ہو تب ہی سننے اور سنانے کا لطف ہے۔ ایک دوسرا نکتہ بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ اقبال کا انسان جگہ جگہ بزم کائنات سے مخاطب ہوتا ہے۔ اسی دور (1904) کی ایک دوسری بہت اہم نظم ’انسان اور بزمِ قدرت‘ ہے۔ دونوں میں ایک بہت ہی فکرانگیز مکالمہ ہے۔ انسان اپنی روسیاہی اور زوال کے اسباب دریافت کرتا ہے      ؎

میں بھی آباد ہوں اس نور کی بستی میں مگر

جل گیا پھر مری تقدیر کا اختر کیوں کر

نور سے دور ہوں ظلمت میں گرفتار ہوں میں

کیوں سیہ روز سیہ بخت سیہ کار ہوں میں

بزمِ قدرت انسان کو اس کے وجود کی آگہی بخشتی ہے اور انسان کو قدرت کی طرف سے دی گئی نوازشات کو  یاد دلاتی ہے کہ      ؎

باغباں ہے تری ہستی پئے گلزارِ وجود

انسان کو عرفانِ ذات کا پہلا سبق نگارِ قدرت سے حاصل ہوتا ہے۔ فلسفۂ خودی کا مہتم بالشان تصور قدرت کے آغوش سے جنم لیتا ہے۔خیال اقبال کا ہے مگر مکالمے کا تقاضا تھا کہ بزمِ قدرت ہم کلام ہوتی۔ عرفانِ حق اور عرفانِ ذات کے لیے دنیا میں بس دو ذرائع ہیں جنھیں انفس اور آفاق سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اپنی ذات اور مظاہر فطرت پر غور و فکر کی تاکید قرآن کا حکیمانہ ارشاد ہے۔ اقبال نے دوسرے مقامات پر حوالے دیے ہیں۔ سرگذشت آدم کے مکالمے میں اس زاویے کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اقبال کی شاعری کا بڑا حسن مکالماتی اندازِ بیان ہے۔ شاعری میں تمثیلی (ڈرامائی) اسلوب بذات خود ایک مقبول فن ہے۔ اس میں گفت و شنید کے ساتھ حرکات و سکنات کی متحرک تصویریں بڑی دلآویز لگتی ہیں۔ قاری کو قربت کا احساس شریک منظر بنا لیتا ہے۔ سامع پر محویت کی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ وہ خود ہم کلام ہونے لگتا ہے۔ اس طرح کے مکالماتی اسالیب سے اقبال کی شاعری بھری پڑی ہے۔ یہ سب کسی نہ کسی طرح افسانوی یا داستانوی حسن بیان کے امتیازات سے بھرپور ہیں۔ بانگِ درا کی دوسری نظم ’حقیقت حسن‘ داستان سرائی کی عجیب و غریب مثال ہے۔ غیرذی روح شے قصے کا آغاز مکالمہ سے کرتی ہے     ؎

خدا سے حسن نے اک روز یہ سوال کیا

اب قصے میں مناظر فطرت کے شاہکار کردار بن کر ابھرتے ہیں۔ چاند تارے شبنم زمین و آسماں بہار شباب وغیرہ کہانی کو حسن کاری سے آراستہ کرتے ہیں۔ شکوہ و جواب شکوہ کا مکالمہ ایک دوسری نوعیت کا ہے۔ شکوہ میں صرف انسان بولتا ہے جواب میں رب جلیل گویا ہوتا ہے۔ ’خضر راہ‘ میں شاعر اور خضر کا خطاب سوال و جواب کی صورت میں ہے۔ شمع و شاعر کی بھی یہی کیفیت ہے۔

پیر رومی و مرید ہندی سوال و جواب پر ہی مشتمل مکالمہ ہے۔ ’لینن خدا کے حضور میں‘ ایک نئی صورت کی مثال ہے۔ فارسی شاعری میں تو بہت سی نئی صورتیں ملتی ہیں۔ مکالموں کی کثرت سے اقبال کی صناعی اور پسندیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ طرح طرح کے مکالمے موجود ہیں۔ خدا اور انسان حو رو شاعر، جبریل و ابلیس، پہاڑ اور گلہری، ایک مکڑا اور مکھی، ایک گائے اور بکری، ہمدردی، ماں کا خواب، بچہ شاہیں اور ماہی، ابلیس اور مشیر ان ابلیس وغیرہ پچاسوں مقامات ہیں اس نظم میں مکالمے کی نوعیت مختلف ہے۔ سوال و جواب نہیں ہے بلکہ خود کلامی ہے جو داستان گو کے بیانیہ حوالوں پر مشتمل ہے۔ اس بیانیہ کا حسین آرٹ یہ بھی ہے کہ منظر و محاکات کی سحرکاری پر سامعین متوجہ ہیں۔ نظم کا لطف دوبالا ہوگیا ہے۔ یہ نظم متحرک اور رواں دواں تصویروں کا ایک مرقع بن گئی ہے۔ واقعہ نگاری کا کمال ہے کہ ہر عمل جیتا جاگتا منظر ہے جو آنکھوں کے سامنے انجام پارہا ہے۔ ان مصرعوں کو دیکھیے     ؎

لگی نہ میری طبیعت ریاضِ جنت میں

نکالا کعبے سے پتھر کی مورتو ںکو کبھی

کبھی میں ذوقِ تکلم میں طور پر پہنچا

کبھی صلیب پہ اپنوں نے مجھ کو لٹکایا

کبھی میں غارِ حرا میں چھپا رہا برسوں

نظم کے تمام اٹھارہ اشعار منظرنمائی یا تصویرکشی کی سحرنگاری سے معمور ہیں۔ ہر شعر ایک طویل کہانی کی روداد پیش کرتا ہے۔ گو مرقع سازی سے معمور یہ تخلیق اقبال کی نظم نگاری میں ایک منفرد مثال ہے اور لطف کی بات ہے کہ ابھی اقبال کی شاعری کا عہد طفلی ہے مگر نظم فن اور وسعت نظر کی پیشکش میں دور شباب کی ترجمان بن گئی ہے۔

اقبال کی داستان سرائی کا یہ حسن بڑی دل کشی کا سبب ہے کہ کرداروں کو لفظوں کے بولتے پیکر کے نفسِ گرم کی تپش بھی محسوس ہوتی ہے۔ محسوسات کا منظر اپنی رعنائیوں کے ساتھ تاثرات کی ایک کیفیت پیدا کرتا ہے۔ دو ایک ایسے منظرملاحظہ ہوں    ؎

لہو سے لال کیا سیکڑوں زمینوں کو

ڈرا سکیں نہ کلیسا کی مجھ کو تلواریں

بنا دی غیرتِ جنت یہ سرزمیں میں نے

اس نظم کی ایک اور دل چسپ خوبی ہے کہ داستان کی طوالت یا تفصیل کو صرف ایک شعر کے اختصار میں پیش کرنے کا ہنر فنی معجزہ سے کم نہیں ہے۔ تلمیح کی یہ صورت گری کلام اقبال میں عام ہے۔ کبھی کبھی صرف دو لفظ میں پورے واقعے کی تفصیل کی طرف اشارہ عجیب لطف انگیز ہوتا ہے جیسے آتش نمرود، کشتیِ مسکیں جان پاک دیوار یتیم، تیشۂ فرہاد جیسے سیکڑوں تلمیحاتی اشارے اقبال کے فنی کمالات کے مظہر ہیں۔ تلمیح کے لیے متعین الفاظ ہیں۔ اقبال کی شعری عظمتوں کا یہ اعجاز ہے کہ انھوں نے کئی لفظوں کو پیکر کے اشارات میں تبدیل کیے ہیں۔ وہ اقبال کی ساختہ علامت بن گئے ہیں۔ حضرت جبریل کا ابلیس سے سوال ہے     ؎

ہمدمِ دیرینہ کیسا ہے جہاں رنگ و بو؟

ابلیس کے جواب میں مستعمل چھ الفاظ میں ارض و سما کی تمام کیفیت سمٹ گئی ہے۔

یہی صورت نظم کے اختصار کو فنی اعجاز سے ہم کنار کرتی ہے۔ صرف اشارے ہیں تفصیل کی تفہیم سامع یا  قاری کی صواب دید کے حوالے کردی گئی ہے۔ ان میں بھی کہیں نام لے کر اور کہیں واقعہ کو کردار کی نشان دہی کے بغیر بیان کردیا گیا ہے۔ مثلاً    ؎

سنایا ہند میں آکر سرودِ ربانی

دیارِ ہند نے جس دم مری صدا نہ سنی

کشش کا راز ہویدا کیا زمانے پر

شاعر نے کمال احتیاط سے نام نہ لے کر قاری کو تلاش و تفصیل کے لیے آمادہ کیا ہے۔ اس مختصر نظم میں تخلیق عالم سے لے کر اٹھارہویں صدی تک کی عظیم داستانوں کو منظوم کرنا آسان نہ تھا۔ مگر اقبال نے صرف تاریخ ساز کرداروں کو منتخب کرکے کائنات کی دراز داستان کو اشاراتی اسلوب دیا ہے۔ یہ واقعات عظیم ہیں جن سے ظہورِ آدم اور بنی نوع انسان کی ہدایت کے سنگِ نشاں نصب ہوئے ہیں۔ ان میں عالمی مذاہب کے پیشوا اور ایجادات کے ماہرین شامل ہیں جنھوں نے انسانی تاریخ کو بڑی فکری اور مادی انقلاب کی رہبری کی ہے۔ کردار حضرت آدم کا ہے جنھوں نے مختلف زمانوں میں اور مقامات پر اپنے نقوش ثبت کیے ہیں۔ حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ، حضرت محمدؐ، گوتم بدھ کی صف میں عظیم سائنس دانوں کی کہکشاں بھی حضرت انسان کے وجود و نمود کی مختلف صورتیں ہیں جن میں آدم ہی کی جمال آفرینی کے جوہر نمایاں ہیں۔ قصۂ آدم کی صد رنگ تصویروں کا بیان اقبال کی مفکرانہ شاعری کا حاصل ہے۔ روح ارضی کے استقبال سے کار جہاں دراز کا نہ ختم ہونے والا سفر جاری ہے۔ اس نظم میں اقبال کی وسعتِ نظری قابل غور ہے۔ مذہبی رہ نماؤں کے دوش بدوش نیم مذہبی یا غیرمذہبی اولادِ آدم بھی ہم نشین ہیں۔ اس طرح کی اجتماعی تصویرکاری کی دوسری مثال جاویدنامہ بھی ہے جہاں پیغمبروں کے ساتھ دوسرے مفکر اور تخلیق کار بھی صف بستہ ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ نظم ’جاویدنامہ‘ کے روحانی سفر کی گزرگاہ کا نقطۂ آغاز بھی ہے۔

فنی اعتبار سے یہ ایک بہت ہی پراثر تمثیلی تخلیق ہے جسے داستان گوئی کے اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔ کہانی ایک نقطے پر آکر ختم ہوجاتی ہے۔ اس کا اختتام بہت معنی خیز ہے۔ حضرت آدم کی بے قرار روح کو جنت میں بھی سکون میسر نہ تھا۔ مختلف صورتوں میں وہ زمین پر تاریخ رقم کرتے رہے۔ پھر بھی اضطرابِ دل کو قرار حاصل نہ ہوا۔ کائنات کی گردش میں سرگرداں رہنے کے باوجود حقیقت کا سراغ نہ ملا تو اپنے وجود کو ٹٹولنا شروع کیا۔ معلوم ہوا کہ جس صداقت کی تلاش میں انسان بے چین  تھا۔ وہ خوداپنے ہی دل میں خانہ نشین تھا۔ نظم کا اختتامی نقطہ بہت ہی خیال افروز ہے۔ اسے ذرا وسعت دے کر غور و فکر سے ہم آہنگ کیجیے تو فلسفۂ خودی کا مرکزی خیال کارفرما نظر آئے گا۔ اپنے وجود میں اپنی ذات کا عرفان ہی خودی کا حاصل ہے۔ یہی اس نظم کا اساسی خیال اور بنیادی فکر ہے۔ اس نظم کے اثرات اقبال کی دوسری تخلیقات میں بھی نمایاں ہیں۔ تقریباً تیس سال بعد یہ نکتہ پوری گرمی اور گراں مائگی لے کر ’بال جبریل‘ کی غزل کا حرف راز بن کر نمودا رہوا اور ضرب المثل کے طور پر مشہو ر ہوا        ؎

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی

یا آدم کا خانۂ دل میں ہم نشین ہونا ہی من میں ڈوب کر سراغ زندگی کا پانا ہے۔ سینہ کائنات کا یہ راز وجو دکے اندر پوشیدہ ہے جسے فاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس نظم کا بنیادی خیال وحدت آدم کا عظیم تصور ہے جو وحدت کائنات اور تخلیق عالم کا سبب بھی ہے۔ اقبال اس وحدتِ انسانی کی نغمہ سرائی کے لیے ہمیشہ یاد کیے جائیں گے۔

اقبال نے اپنی فکر کو شعری پیراہن میں جس طرح سجایا ہے وہ بھی ایک مثالی حیثیت ہے۔ لفظوں کی ترکیبیں بڑی حد تک تنوع اور تصویرآفرینی سے آراستہ ہیں جیسے قصۂ پیمانِ اولیں، اوج خیالِ فلک نشیں، حرم نشیں، جام آخریں، خلاف معنی تعلیم اہل دیں چشم مظاہر پرست جیسی اضافت سے بھرپور ترکیبیں نظم کی نغمگی میں مددگار ہوتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ یہ نظم نغمہ و آہنگ سے بھرپور خوش آہنگ آوازوں کا مرقع محسوس ہوتی۔ قصہ گوئی اور مختلف کرداروں کی نمایاں تصویریں فکر و نظر کو پرنور کرتی ہیں۔ خیالات کا ہجوم ہماری بشاشتوں کو سرخوشی بخشتا ہے۔ اقبال کا مکالماتی اسلوبِ بیان ان کے شعری اسالیب کا ایک اعجاز ہے۔ وحدتِ آدم اور اپنے وجود کی آگہی کے تصورات کو حضرتِ آدم کی تمثیل اور تشبیہ میں بیان کرکے اقبال نے نظم کو فکری آہنگ کے امتزاج سے لافانی شاہ کار بنا دیا ہے۔ قصہ گو اقبال ہیں مگر انھوں نے صیغۂ غائب کے لافانی کردار حضرت آدم کو خوش نوائی کے لیے انتخاب کرکے معنی آفرینی کی دنیا آباد کی ہے کیونکہ ان سے بہتر کائنات میں کوئی دوسرا داستان سرا ممکن نہیں       ؎

آئینۂ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ

 

Prof. Dr. Abdul Haq

Dept of Urdu

University of Delhi

Delhi - 110007

Mob.: 9350461394

Email.: prof.abdul_haq@hotmail.com

 

 ماہنامہ اردو دنیا، نومبر 2020

 

 

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں