9/12/20

اس عہد کا بچوں کا ادب - مضمون نگار: صادقہ نواب سحر


 

ہم بڑے جو کچھ بچوں کے لیے لکھتے ہیں، وہ اکثر بچوں کی ذہن سازی کے لیے لکھتے ہیں۔زمانے کے ساتھ ساتھ ادب بھی بدلتا گیا، بدلتا جاتا ہے، سو چ بدلتی جاتی ہے، قدریں بدلتی جاتی ہیں۔ 1894 میں Rudyard نے’جنگل بک‘ لکھی تھی۔ اس کتاب میں ہندوستانی سماج کو دکھایا گیاہے۔ بہترین منظر نگاری ہے۔ لیکن برٹش راج کے لیے محبت، عقیدت اور ان کی خدمت کے جذبے بھی دکھائے گئے ہیں۔ انگریز ایسی کتابیں لکھتے تھے اور نرم مٹی میں ایسے جذبات کے بیچ بوتے تھے۔

پھر1943 میں آر کے نارائن آ ئے۔ ’مال گُڑی ڈیز‘  بچوں کے لیے لکھا۔ اس میں ہندوستانی تہذیب وثقافت کو اچھا  اور قابلِ قدر دکھایا۔ اسے قبولیت دی۔ اس میں انگریزوں کے خلاف میٹنگیں لی جارہی ہیں۔آزادی کے لیے جذبات پنپ رہے ہیں۔ ظلم کے خلاف اور آزادی کے لیے احتجاج کیا جارہا ہے۔

 کہنے کا مطلب یہ ہے کہ زمانے کے لحاظ سے بچوں کی ذہن سازی کا کام چلتا رہتا ہے، بدلتا رہتا ہے۔

  اکیسویں صدی انٹرنیٹ کا زمانہ ہے۔ ہتھیلی پر کتابیں، فلمیں اور نہ نجانے کیا کیا آگیا ہے۔ بچوں کے ہاتھوں میں موبائل آگیا ہے۔ اگر ان کا ذاتی نہیں تو گھر والوں کا، دوستوں کا موبائل دستیاب ہے۔ ایک ویب سائٹ ہے جس پر ’ایسی ہندستانی کتا بیں جو ہر ہندستانی بچے کو پڑھنا ہی چاہیے۔‘  مضمون دستیاب ہے۔ ان کتابوں کے موضوعات  دیکھیے:  

ایک کتاب ہے، نام ہے، ’دی بھیماینا‘۔  ’سری ودیا نَٹراجن‘ اور’ ایس آنند‘ ان دو مصنفوں نے لکھی ہے۔ یہ دلتوں کو مرکز میں رکھ کر لکھی گئی ہے۔ اس میںاچھوت ہونے کے تجربے ہیں۔  قانون کہتا ہے کہ اونچ نیچ نہ کرو۔ پھر بھی دلتوں کو برا محسوس ہو تا ہے۔ شاید جانے انجانے ایسا محسوس کرایا جاتا ہو۔

جے شری کلا تھِل‘ کی ذہنی بیماریوں پر کتاب ہے، نام ہے، Sack cloth man   )ٹاٹ کا کپڑاپہنا ہوا آدمی (

اس میں دکھا یا گیا ہے کہ ایک بچے کی راستے میں ایک پاگل آدمی سے دوستی ہو جاتی ہے۔ اس کتاب میں ان دو کرداروں کے علاوہ بچے کی ماں کی نفسیات کی عکاسی ملتی ہے۔

Flat Track Bullies   (غنڈا گردی کرنے والے)، یہ  ’بالا جی وینکٹ رمن‘ کی کتاب ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ ہر بچے کو انگریزی آنی چاہیے۔ یہ خیال بچوں میں احساس کمتری پیدا کرتا ہے۔ اسی complex کے بارے میں یہ کتاب لکھی گئی ہے۔

What Happend to Ragina that Night? (ریجینا کے ساتھ اس رات کیا ہوا؟) ’راہُل شریواستو‘ نے لکھی ہے۔ اس میں ایک  Nunکا خون ہو جا تا ہے اوربچے اس میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ اس کتاب میں تشدد بہت ہے اور سیاست بھی۔ یہاں سیاسی شناخت political identityکو سوال کیا گیا ہے۔

Slightly Burnt(ذراسا جلا ہوا)۔ ’پایل دھر‘کی تصنیف کردہ کتاب ہے۔ یہ 13 سے19 سال کے بچوں کے لیے ہے۔ تھیم ہے، نئی دوستیوں کی تلاش اور خاص طور پر ہم جنسوں سے۔ 

ایک اور کتاب ہے،’سدھارتھ شرما ‘کی کتاب The Grasshoppers' run( ٹِڈّے کی دوڑ)۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ جنگ بچوں کے لیے نہیں ہوتی۔جنگ میں انھیں کا نقصان سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس کتاب میں جنگ موضوع ہے۔ بچے  ہیں جو ناگا لینڈ میں جاپانی فوجیوں کے خلاف انھیں زیر کرنے کے کام میں ملوث ہیں۔

Queen of Ice(برف کی ملکہ)  دیویکار نگاچاری نے بچوں کے لیے لکھی ہے۔ یہ ایک تاریخی فکشن ہے۔ ایک شہزادی کشمیر کی ملکہ بن جاتی ہے۔ اورظالم بن جاتی ہے۔

رنجیت لال کی ایک کتاب فرقہ وارنہ فساد پر مبنی ہے۔ نام ہے، ’Battle No.9‘ متوسط طبقے میں لڑکا، لڑکی میں تفریق کرنا عام سی بات ہے۔ اسی کی نفسیات سے  متعلق ہے۔

اسی طرح ریوتھی سریش  نے Jobless, Clueless, Reckless‘ (بے خبر، لاپروا، مکار) نامی کتاب لکھی ہے، پارٹی میں جا نے کے لیے جھوٹ بولنا۔ جھوٹی قسمیں کھانا۔ نشہ بازی، teenage pregnancies خاندانی زندگی کی مشکلیںاس ناول کے مسائل ہیں۔

کہنے کا مدعا یہ ہے کہ بڑوں کی کتاب پر تو خوب ہنگامہ مچایا جا تا ہے۔ لیکن بچوں کی کتاب یا ادب پر دھیان نہیں دیا جا تا۔ان سے بچے کیا حاصل کررہے ہیں،اس کا خیال نہیں۔ آخریہ ساری کتابیں ہندوستانی ادیبوں ہی کی ہیں۔ ہندوستانی ادب کا حصہ ہیں۔ بچوں کے ذہنوں پر کیا اثر ڈالیں گی!  دوسری زبانوں میں ترجمہ ہو کر قارئین کا بڑا حلقہ بھی بنائیں گی۔

ترجموں نے زبانوں کو علاقائیت سے نکال کر عالمگیریت کی راہ دکھائی ہے۔ عربی زبان کی مشہور داستان ’الف لیلیٰ‘ترجمہ کے ذریعے انگریزی میں رچرڈ فرانسس برٹن کے ذریعے پہنچی اور وہاں سے دنیا کی ساری زبانوں میں پہنچ گئی۔ 

دوسری زبانوں کے بچوں کو اپنی انگریزی بہتر کرنے کے لیے ’سِنڈریلا‘ اور ’رے پینزیل ‘کہانیاں دی جاتی ہیں۔انگریزی ذریعۂ تعلیم والے بچے تو پڑھتے ہی ہیں۔ بتائیے کس بچے نے یہ کہانیاں نہیں پڑھی ہوں۔ چاہے وہ انگریزی کا ہو یاغیر انگریزی ذریعۂ تعلیم کے لیے ترجمہ۔ 

 سنڈریلاآدھی رات،کو بارہ بجے بغیر کسی کو بتائے گھر سے نکل کر لڑکے یعنی شہزادے سے ملنے جاتی ہے۔ ایسا ارادہ کرتے ہی غیب سے اس کے لیے مدد بھی آجاتی ہے۔ سلیپِنگ بیوٹی، دی فراگ پرنس، سنو وائٹ، جیسی کہانیوں میں شہزادے کے ایک بوسے سے لمبے عرصے سے سوئی ہوئی شہزادی جاگ جاتی ہے۔’رپنزیل‘ نظر بچا کر اپنی لمبی چوٹی قلعے کی دیوار سے لٹکا کر شہزادے کو اوپر بلا لیتی ہے۔

پنچ تنتر‘ وغیرہ لوک کہانیوں میں سے بدلے اور مکاری جیسے جذبات بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ اونٹ اور لومڑی جیسی کہانیوں کوسنانے یا بچوں کو یہ کتابیں ان کے ہاتھ میں دینے سے پہلے ایک بار ان پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کہانیوں سے بچوں کے ذہن پرکیا اثر ہو تا ہوگا! یقینایہ سوچنے والی بات ہے۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اسٹیریوٹائپ یا روایتی انداز کے کرداروں کا بچوں کی کتاب میں در آنا عام سی بات ہے جیسے سوتیلی ماں اور لڑکی کی خوش دامن کے کردار۔یہ برائی ظلم کی علامت بن گئی ہے۔ جبکہ یہ غلط ہے۔ لڑکیاں ساس کے اور بچے سوتیلی ماں کے تصور سے بھی کانپتے ہیں۔ نفرت کرتے ہیں۔مسلمان اکثر غریب اور ان پڑھ دکھائے جاتے ہیں۔ کبھی کوئی عقلمند ثروت مند کامیاب مسلمان ہیروکا دوست تک نہیں ہوتا۔اس کالباس زبان وغیرہ کا تصور منفی محسوس کروایا جاتا ہے۔

پھر ایسا ادب ہم بچوں کے آگے پروستے کیوں ہیں؟ اپنے بچے کیا پڑھ رہے ہیں،کیا دیکھ رہے ہیں،ہمیں پڑھ کر دیکھنا ہوگا۔ ہم صرف کتاب کی باہری خوبصورتی دیکھتے ہیں۔ اس کا سرورق دیکھتے ہیں۔ادبی ہی نہیں مذہبی کتابوں میں بھی یہ خطرہ بنا رہتا ہے۔ بچوں کی اسلامی کتاب کے نام پر فروخت ہونے والی ایک مقبولِ عام کتاب کو پڑھتے ہوئے ایک دس سال کے بچے نے اپنی امی سے پوچھا، ’’یہ بچہ کتنی خوشی سے اپنے دوستوں رشتہ داروں کے ساتھ سالگرہ منا رہا ہے۔ امی ہماری سالگرہ بھی کیوں نہیں مناتیں!‘‘

 پرنٹ میڈیا ہو یا الیکڑانک میڈیا،یہ بات سب پر لاحق ہوتی ہے۔ کارٹون میں بھی بدتمیز بچے دکھائے جاتے ہیں۔وہ لطف اندوز ہورہاہے۔  بچہ اس کی خرابی پکڑ لیتا ہے۔ سارے غلط کامو ں کے بعد کردار کو سمجھ آتا ہے کہ اس کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ بعد میں افسوس اور احساس گنا ہ اور شرمندگی دکھائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر گھر سے بھاگا ہوا بچہ پہلے مزے کرتاہے۔  بعد میں پریشان ہوتا ہے۔آخرمیں کسی طرح گھر پہنچ جاتا ہے۔ جب کوئی بچہ ایسا پڑھے گا یا دیکھے گا تو ایسے کام کے لیے اس کی حوصلہ شکنی تونہیں ہوگی۔ یہ خیال ضرور پیدا ہو سکتا ہے کہ چلو ہم بھی نکل جائیں۔ دنیا دیکھ لیں۔ ماں باپ تو کہیں گم ہونے والے نہیں۔

کہنا یہ ہے کہ غلط کاموں کو Adventurous نہیں دکھا نا چاہیے۔ برائی کا صرف بیان کافی نہیں ہے۔ اس کی مذمت کرنا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر فلموں میں چور کے پاس بنگلہ گاڑی ہے۔ لوگ اس کے آگے پیچھے پھرتے ہیں۔ اس طرح تو جو کوئی پیسہ کمانے پر مرکوزکرنے والا ہوگا۔ اس کو اچھا لگے گا۔ اس لیے برے کردار کو Glorify نہ کریں۔ انجام اچھا ہی ہوتا ہے نا۔یہ سوچ کرکردار Adventure کے لیے قدم اٹھا رہاہے۔ ایسا نہ دکھا ئیں کہ کچھ بھی کریں آخر میں ماں باپ کی گود میں بیٹھ جائیں گے۔ Realityسے بچتے نہیں نا بچّے!  

ڈرانے دھمکانے یا داداگری کرنے والا کردار پڑھنے دیکھنے والوں کو اچھا لگتا ہے۔ اگراسے دکھائیں تو یہ ضرور دکھائیں کہ پیچھے لوگ کیا سوچتے ہیں۔ ڈرتے ہیں تو نفرت بھی تو کرتے ہیں چڑھتے ہیں۔پیچھے سازش بھی تو کی جاتی ہیں۔یہ دکھانا بھی تو ضروری ہے۔

یورپ میں بچوں کا ادب پہلے ہی تیزی سے تبدیل ہوتا آرہا ہے۔ اس کا اثر دوسرے ملکوں پر بھی تو پڑتا ہے۔ لیکن وہاں کی اخلاقی قدریں، وہاں کی تاریخ، جغرافیہ، نفسیات سب مختلف ہیں۔ وہاں عورتوں کے کپڑے پہننے والے مردو ں کو مقرر کے طور پر اسکول میں مدعوکیا جاتا ہے۔وقت اور جگہ کے لحاظ سے ادب تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ یورپ میں انگریزوں کو ادب میں ہیرو بتا یابنا یا جاتا ہے۔ ہم جسے جنگ آزادی کہتے ہیں وہ اسے غدر کہتے ہیں۔ ہمارے لیے مجاہدین جنگ آزادی ہیں وہ ان کے لیے نفرت کے قابل ہیں۔

اور زبانوں کی طرح اردو کے کچھ عمدہ نثرنگاروں اور شاعروں کا ذکرکیا جا سکتا ہے جو اس سلسلے میں زبردست محنت کر رہے ہیں۔بچوں کے لیے ادب کی مختلف اصناف کی تخلیق ان کی کوششوں کا ثمر ہیں۔ یہ یادرکھنے کی ضرورت ہے کہ ادب تخلیق کرتے ہوئے اس خیال کا ذہن میں آنا کہ ہم لافانی ادب تخلیق کر رہے ہیں، ایک مضحکہ خیز سی بات محسوس ہوتی ہے۔ کیا کل چمکتے ہوئے کچھ ستارے آج ادب کے آسمان سے غائب نہیں ہو گئے ہیں۔ ان کا نام لیوا تک باقی نہیں ہیں۔ اور کیا کل دھول مٹّی میں روندی ہوئی تخلیق یا ادب پارہ آج ادب کے فلک پر بہت احترام کے ساتھ روشن نہیں ہیں! ادب کو لکھنے کے بعد اپنی تخلیق سے بے نیاز ہو جانا ضروری ہے۔ Swift نے Gulliver'sTravelایک سیاسی طنز کے طور پر لکھا تھا جس میں سیاح ’ گُلی وَر‘ کو بالشتیوں کی دنیا سے نپٹنا ہوتا ہے اور جو آج بہترین کہانیوں میں شامل ہے۔ کسی کو اس کے مقصد کا گمان تک نہیں ہوتا۔

نئی صلاحیتوں کی تلاش کرنا ضروری ہے بلکہ میں سمجھتی ہوں یہ تلاش ہر انسان کو اپنے آپ میں بھی ضروری ہے۔ پہلی کوشش بہت اہم ہوتی ہے۔ Starting problem میں الجھے رہنے سے بات نہیں بنتی۔ اس Barrier  سے نکلنا ہوگا۔ کم سے کم بچوںکو احساس دلانا ہی ہوگاکہ وہ اچھا لکھ سکتے ہیں۔ اسکول کالج کے زمانے میں امتحانوں اورتقریری مقابلوں کے لیے ہی سہی ہر بچہ تخلیقی ادب رچتا ہے۔ بس یہی ہے کہ وہ جانتا نہیں کہ ادب تخلیق کر رہا ہے۔یہ بات وہ جانتا اس لیے نہیں کہ رسالے پڑھنے کا رواج کم ہو گیا ہے۔ لکھنے کے لیے پڑھنا اور سننایعنی جاننا ضروری ہے۔ جب وہ امتحان لکھ رہا ہوتا ہے، تب بھی وہ کسی ادب پارے پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہا ہوتا ہے۔ تاریخ، سماجیات وغیرہ پر اس کی سوچ بن اور پنپ رہی ہے جس کو وہ تحریر تقریر کی شکل میں ڈھال رہا ہے۔ میں یہ بات اس لیے وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ رسالے کے لیے اپنی شاعری، مضمون، افسانہ، سفرنامہ، خاکہ یا کسی پینٹنگ پر شعر یا نثر میں کچھ لکھنے کے لیے کہاتو بچوں نے زیادہ ساتھ نہیں دیا۔ یعنی رسالے کی فائل دبلی پتلی رہی۔تحریری، تقریری مقابلوں میں حصہ لینے والوں کے نام بھی بہت کم آئے۔ اِس کے لیے میں نے ایک ترکیب نکالی۔ کلاس شروع ہوتے ہی جوابی پرچے طلبا میں تقسیم کر دئے۔ انھیںعنوان اور وقت دے کر لکھنے کے لیے تحریک دی۔

 آج بچے بھی اپنا ادب خود تخلیق کر کے اپنے بڑوں کی مدد سے اس کی اشاعت کروارہے ہیں۔ایک بچی کی لکھی ہوئی ایک خوبصورت کتاب ’SUSHI‘ہے۔ بہت مشہور ہوئی۔Sushi کے گھر میں ایک کتا ہے۔ وہ تصور کرتی ہے کہ اس کے ساتھ وہ اڑتی ہے لوگوں کو بچاتی ہے وغیرہ۔ یعنی بچے اگر اپنے تجربات اور احساسات کو قلم بند کریں تو کیا غضب کا خوبصورت اور کار آمد ادب تخلیق ہوگا۔ بس ضرورت ہے تو صحیح رہنمائی کی۔

 روکھی سوکھی تحریریں بچوں کو نصیحتوں جیسی لگتی ہیں۔ گھر کے بڑوں اور استادوں کی بالراست نصیحتوں، پھٹکار کو تو وہ سن لیتے ہیں، پچا لیتے ہیں لیکن زیادہ اثر تو دلچسپ تفریحی فلموں، کارٹونوں کا ہوتا ہے۔ ان سے وہ زیادہ سیکھتے بھی ہیں۔ اسی کو دلچسپ تفریحی انداز کو فرداور سماج کی اصلاح اور ترقی کے لیے فکشن کا حصہ بنا دیا جائے، یعنی بچوں کے ادب کا طرزِتحریرشگفتہ اور رنگین ہونا چاہیے۔ اسی لیے آج سائنس فکشن میں جدیدانکشافات اور ایجادات کو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ انھیں عصری ٹیکنالوجی کے فائدے اور نقصانات سے روبرو کروانا ادیب کی ذمے داری ہے۔ تصوراتی اور حقیقی زندگی دونوں کی ملی جلی تحریریں پسند کی جاتی ہیں۔ کون کہتا ہے کہ بچے نصابی کتابوں کے علاوہ دوسری کتابوں کو ہاتھ نہیں لگاتے !اگر ایسا ہے تو ’ہیری پاٹر‘ سیریز کا ترجمہ دنیا کی بیشتر زبانوں میں کیوں ہوتا ہے!

 آج کا بچہ جادو ٹونوں کی نہیں بلکہ حقیقت کی دنیا میں جینا چاہتا ہے۔ ایک ہی نسل میں زمین آسمان کا فرق ہو جاتا ہے۔

ڈرامے، لطیفے، منظوم پہیلیاں اساطیری اور اخلاقی ادب کے ذریعے بچوں تک پہنچائی جانی چاہیے۔ بچوں کے لیے سائنسی اور زمینی حقیقتوں سے لبریز موضوعات اور مضامین کی تلاش میں سرگرداں رہنا چاہیے۔ تبھی تو مزے مزے سے پڑھے جائیں گے۔  

 

Sadiqa Nawab Sahar

301, Sadiqa Mension

Axex Bank ke Uper

Shastri Nagar

Dist: Raigarh - 410203 (MS)

ماہنامہ اردو دنیا، نومبر 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں