9/12/20

جنوبی ہند میں بچوں کی نظمیں - مضمون نگار: سید اسرارالحق سبیلی

 



اردو زبان کی پیدائش کا شرف جس طرح شمالی ہندوستان کو حاصل ہے، اسی طرح جنوبی ہندوستان کو اردو ادب کی ابتدا کا شرف حاصل ہے۔محققین کا اس بات پر تقریباً اتفاق ہے کہ اردو  زبان کی پیدائش شمالی ہند میں ہوئی اور اس کا بچپن دکن کی آزاد فضا میں گزرا،اور اس نے دکن کے علاقوں پر بہت جلد عوامی اور ادبی زبان کی شکل اختیار کر لی۔حافظ محمود شیرانی کو چھوڑ کر بیش تر محققین نے حضرت یمین الدین امیر خسرو(1253-1325) کو بچوں کا پہلا شاعر اور ان کی منظوم کتاب ’خالق باری‘کو جو  بچوں کو ذخیرۂ الفاظ سکھانے کے لیے ترتیب دی گئی تھی،بچوں کی پہلی کتاب قرار دیا ہے۔

ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی اور ڈاکٹر سیدہ مشہدی نے امیر خسرو کے بعد محمد قلی قطب شاہ معانی (1565-1611)  کو بچوں کا دوسرا شاعر قرار دیا ہے۔ بچوں کی نظموں میں موسموں،تہواروں اور کھیل کود وغیرہ کو اہمیت دی جاتی ہے،اس اعتبار سے محمد قلی قطب شاہ کی شاعری کا وہ حصہ جس میں اس نے ہندو مسلم تہوار،موسم اور کھیل کودوغیرہ سے متعلق اظہارِ خیال کیا ہے،جیسے: عید بقرعید، نوروز، بسنت، شبِ برات، سال گرہ، بارش، ٹھنڈکالا، برسات اور سرما، چوگان، پھوکڑی پھواورکھمڈی وغیرہ کو بچوں کے ادب میں شمار کیا جا سکتا ہے،جیسے بقرعید کے عنوان سے اس کی نظم ہے:

خوشی خبراں سنیا عید بکرید

کہ قرباں ہونے آیا عید بکرید

 کھٹکتا مرغ دل کے بوستاں میں

طرب مطرب کو لیایا عید بکرید

اسی طرح قطب شاہی دور کی مثنویوں میں شاہ راجوکی مثنوی ’تحفۃ النصائح‘اور سید بلاقی کی ’معراج نامہ‘ اور عادل شاہی دور کی مثنویوں میں محمد امین ایاغی کی مثنوی ’نجات نامہ‘شغلی کی مثنوی ’پند نامہ‘اور مختار کی مثنوی ’معراج نامہ، اور ’مولودنامہ‘کو بچوں کے اولین ادب میں شمار کیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر خوشحال زیدی،ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی اور ڈاکٹر سیدہ مشہدی نے دکنی دور (مغلیہ دور)کے ادبِ اطفال میں شاہ حسین ذوقی اور ان کی مثنوی’ماں باپ نامہ‘ کا ذکر کیا ہے کہ یہ ایک طویل نظم ہے،جس میں انھوں نے بچوں کو والدین کی عزت،مقام و مرتبہ اور ان کی عظمت واہمیت بیان کی ہے،ڈاکٹر سیدہ مشہدی کے بقول:

’’اس مثنوی میں ایسے مسئلے کو چھیڑا گیا ہے جس کا تعلق اخلاق اور مذہب سے ہے،اس سے بچوں کی کردار سازی میں مددمل سکتی ہے،اور ان کے اندروالدین کے لیے عزت و احترام کا جذبہ ابھارا جاسکتا ہے۔‘‘

(اردومیں بچوں کا ادب؛102-103،ایمن پبلی کیشنز رانچی)

اسی طرح آصف جاہی دورمیں شیر محمدخاں ایمان کی مثنوی’برق تاب‘اور نوازش علی خان بہادر شیدا کی مثنوی’اعجاز احمد‘کو بچوں کے ادب میں شمار کیا جا سکتا ہے،نیز ریاست مدراس کے کثیر التصانیف بزرگ مولوی محمد باقر آگاہ (1158-1220) ہجری نے کئی ضخیم مثنویاں لکھیں، جیسے:ہشت بہشت،محبوب القلوب، ریاض الجنان، تحفۂ احباب اور تحفۃ النساء وغیرہ

آزادی کے بعد جنوبی ہند میں بچوں کے نظم گو شاعروں  میں خورشید احمد جامی،سعادت نذیر اور وقار خلیل کا نام تاریخ میں ہمیشہ یاد رہے گا، خورشید احمد جامی جس طرح جدیدیت کے ممتاز اور منفرد شاعر شمار کیے جاتے تھے،اسی طرح اپنے دور میں بچوں کے لیے لکھنے والوں میں ممتاز تھے،ان کی نظموں کے مجموعے:شمعِ حیات (1947)، نشانِ راہ(1948)  اور تاروں کی دنیا (1952) شائع ہو چکے ہیں۔

سعادت نذیربچوں کے شاعر کی حیثیت سے حیدرآباد میں مشہور تھے، ان کی نظموں کا مجموعہ’پھول مالا‘کے نام سے موجو د ہے،اس مجموعے میں انھوں نے قومی،وطنی اخلاقی اور عصری ایجادات پر بڑی  پر اثر نظمیں لکھی ہیں، انھوں نے اپنی نظموں کے ذریعے درد مندی اور پیار کے ساتھ بچوں کے مستقبل کو سنوار نے کی کوشش کی ہے۔

حیدرآباد کے مشہور شاعر اور ادبی صحافی وقار خلیل نے بچوں کے لیے آسان اور دل کش زبان میں شاعری کی ہے،ان کی نظمیں آندھرا پردیش کے سرکاری نصاب میں شامل رہی ہیں، 1979 میں بچوں کے لیے ان کی چھوٹی چھوٹی نظموں کا مجموعہ ’ڈالی ڈالی پھول‘ شائع ہوا تھا، ان نظموں میں وطن سے محبت،بڑوں کا احترام،چھوٹوں پر شفقت،انسانیت کی حرمت اور مذاہب ِ عالم کی تقدیس وغیرہ پر اظہارِ خیال کیا گیا ہے،کتاب،مکتب کی طرف دوڑ،نیا گیت،علم و عمل،میری امی گلاب،نمائش اور پتنگوں کے دن ان کی کامیاب نظمیں ہیں،ان کی (35) نظموں کا مجموعہ’حرف حرف نظم‘کے نام سے قومی کونسل برائے فروغ ِ اردو زبان نئی دہلی سے شائع ہوا ہے،ان کی زبان سادہ، سلیس اور رواں ہے،تراکیب اور اضافتوں سے خالی ہے،ان کی بیش تر نظموں میں اخلاقی اقدار،محبت اور خدمت کا پیغام ملتا ہے۔

دورِ حاضر میں جنوبی ہند میں بچوں کے شاعروں اور ادیبوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے،اس دور میں بعض شاعر کی شناخت بچوں کے شاعر وادیب کی حیثیت سے ہو چکی ہے،جیسے:حافظ کرناٹکی،ان کے علاوہ تلنگانہ،آندھراپر دیش،کرناٹک اور تمل ناڈو میں کئی شاعر اپنی نظموں کے ذریعے بچوں کے اخلاق و کردار اور سیرت سازی کامقدس فریضہ انجام دے رہے ہیں۔

ادبِ اسلامی کے بزرگ شاعر مسعود جاوید ہاشمی نے بچوں کے شاعر،ادیب،مضمون نگاراور صحافی کی حیثیت سے بھی قابلِ قدر خدمات انجام دی ہے،ابوالفہم وحید علی خان کے ساتھ مل کر آپ بچوں کا اہم رسالہ ’ہمارے نو نہال‘نکالا کرتے تھے،ان کے انتقال کے بعد 2010 سے بچوں کا دو لسانی اردو وانگریزی میں ماہ نامہ ’فنکارِ نو‘  کے نام سے نکالا،جو حال ہی میں بند ہو گیا،ان کی نظمیں فنکارِنو کے علاوہ ضمیمہ گلدستہ روزنامہ منصف حیدرآباد میں شائع ہوئی ہیں،انھوں نے بچوں کے لیے حمد،نعت،دعا،عیدین اور موسم وغیرہ سے متعلق دل چسپ نظمیں لکھی ہیں۔

بزرگ استاد شاعر عبدالرحمن جامی نے بچوں کے لیے بھی خاصی تعداد میں نظمیں لکھی ہیں،انھوں نے بچوں کی دل چسپی،رجحان اور ضرورت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بچوں کے کھیل کوداور تعلیمی امور پر بے شمارنظمیں لکھی ہیں۔ ان کے علاوہ مزاحیہ،آدابِ زندگی،اخلاقیات اور مذہبی معلومات پر بھی کئی نظمیں کہی ہیں،جو ضمیمہ روز نامہ سیاست حیدرآبادمیں شائع ہوتی ہیں۔جامی صاحب نے جدید طریقۂ تدریس اور جدید سائنسی ایجادات پر نظمیں لکھ کر اپنی انفرادیت کا ثبوت دیا ہے،اس سلسلے میں ان کی مندرجہ ذیل نظمیں قابلِ ذکر ہیں:ٹی وی،ہوائی جہاز، کمپیوٹر، انٹرنیٹ،عصری ٹکنالوجی اورسل فون وغیرہ۔ا ن کی نظموں کا مجموعہ ’جہانِ اطفال‘ڈاکٹر عبدالقدوس نے مرتَّب کیا ہے،جو عنقریب شائع ہونے والاہے۔

پر وفیسر ایس اے مجید بیدارایک زمانے سے بچوں کے لیے نظمیں اور کہانیاں لکھ رہے ہیں،آپ بچوں کی ذہنی و علمی سطح کا خاص خیال رکھتے ہیں،ان کی نظموں کی زبان بڑی آسان،ہلکی پھلکی،شیریں اور موسیقی آمیز ہوتی ہے،قومی نظموں میں ان کی زبان ہندی کی آمیزش سے بہت سبک اور ترنم ریز ہو گئی ہے،ان کی نظمیں زیادہ تر بچوں کا ماہ نامہ امنگ دہلی اور دو ما ہی ’غبّارہ‘بنگلور میں شائع ہوتی رہتی ہیں،’پیاری امّاں‘، ’بچے بھارت کی شان‘ اور ’بھارت کو ہم سورگ بنائیں گے‘ان کی شاہ کار نظمیں ہیں۔   

فارسی اور اردو کے شاعر،ادیب،خاکہ نگار اور کالم نویس ڈاکٹر سید عباس متقی پوری زندگی درس وتدریس سے وابستہ رہے ہیں،اور سرکاری مدارس کی اردو نصابی کتب کی تدرین و ترتیب میں برابر حصہ لیتے رہے ہیں،انھوں نے بہت چھوٹے بچوں کے لیے بھی نظمیں کہی ہیں جو ایک مشکل کام ہے،ان کی ایک نظم:’چڑیا گھر کی سیر‘بہت عرصے تک آندھرا پردیش سرکاری مدارس کی پہلی جماعت کی درسی کتاب میں شامل رہی ہے،ان کی نظمیں بچوں کا ضمیمہ ’گلدستہ‘روزنامہ منصف میں گاہے بگاہے شائع ہوتی ہیں، ان کی نظمیں بچوں کو ذہنی تفریح اور رومان پرورماحول سے ہم کنار کرتی ہیں،خالص تفریحی نظموں میں بھی وہ سبق آموز پہلو کشید کر لیتے ہیں          ؎

تتلی سے چپ رہنا سیکھو

خاموشی سکھائے تتلی

چڑیا گھر میں سب حیواں ہیں

شکر خدا کا ہم انساں ہیں

مشہور شاعر،مصنف،محقق اور نقاد ڈاکٹر عبد الرؤف خیر1960 سے تا حال بچوں اور بڑوں کے لیے لکھ رہے ہیں،ان کی ایک نظم:’جب میں اسکول جانے لگتا ہوں‘ (کھلونا مارچ1972) حکومت مہاراشٹرا کی چوتھی جماعت کے نصاب میں 1983 تا1993 شامل رہی ہے،اور ایک نظم ’ہمالہ‘آندھرا پردیش میں دوسری جماعت کے سرکاری نصاب میں برسوں شامل رہی ہے،ادھر چند سالوں سے ان کی نظمیں ماہ نامہ امنگ کے شماروں میں جابجا نظر آتی ہیں،اپنی نظموں میں وہ کبھی کوّے کی ہوشیاری بیان کرتے ہیں،پانی اور ہوا کی افادیت و ضرورت پر روشنی ڈالتے ہیں،کبھی مزدور بچہ کی حالتِ زاربیان کرتے ہیں جو  اسکول جانے سے محروم رہتا ہے۔

دشتِ آرزو‘ کے شاعر لطیف آرزو کوہیری بچوں کے رسائل :امنگ،نور،اور فنکار ِنووغیرہ میں لکھتے رہے ہیں، 1980 سے وہ بچوں کے لیے نظمیں وغیرہ لکھ رہے ہیں،’لطیف نظمیں‘کے نام سے انھوں نے مختصر ومنتخب مجموعہ ترتیب دیا ہے،۔لطیف آرزوایک مخلص اور خداترس مومن ہیں، ان کی نظموں میں بچوں کو محبت، خلوص، امن، حسنِ عمل،نیکیوں کو پھیلانے اور برائیوں کو مٹانے کا پیغام ہے،انھوں نے بچوں کو گندے ناول اور رسائل سے دور رہنے کا مشورہ دیا ہے،نمونۂ کلام ملاحظہ ہو      ؎

  مہرووفا کے پھول کھلاتے رہیں گے ہم

حسنِ عمل کے موتی لٹاتے رہیں گے ہم

 امن واماںکی بچو!دنیاہے پیاسی کب سے

دنیا کوتم بچائو اللہ کے غضب سے

    ذکیہ تجلّی(م:2013) بچوں کے ماہ نامہ فنکارِ نو اور گلدستہ ضمیمہ روزنامہ منصف  میں ادھر پابندی سے لکھ رہی تھیں،وہ بچوں کے لیے مختصر،دل چسپ اور سبق آموز کہانیوں اور مضامین کے علاوہ نظمیں  اور حمد ودعا وغیرہ لکھتی تھیں، ان کی نظمیں ’امّاں‘اور ’میری پوتی منال‘بہ طورِ خاص قابلِ ذکر ہیں           ؎

اماں، اماں، اماں، اماں

میں ہوں جان و دل سے قرباں

خدمت کروں گا تیری اماں

قدموں تلے ہے جنت  تیرے

جنت ہے تو میری اماں 

اماں، اماں، اماں، اماں

بچوں کے کل وقتی شاعر،ادیب اور مضمون نگارحافظ امجد حسین امجد کرناٹکی (پ:1964) بچوں کے حالیہ دور میں نہایت ممتاز مقام رکھتے ہیں،انھوں نے بچوں کے لیے کافی تعداد میں حمد، نعت، منظوم سیرت پاک، رباعیات، قطعات، گیت، ترانے، غزلیں اور لوریاں وغیرہ لکھی ہیں،کثرتِ تصانیف کی بنا پر افتخار امام صدیقی اور محمد فرحت حسین خوشدل نے آپ کو بچوں کی شاعری کا امام قرار دیا ہے،بچوں کی شاعری سے متعلق ان کی کتابوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں:

نورِ وحدت،شمعِ ہدیٰ،ہمارے نبیؐ، موجِ تسنیم، طفلستان، معصوم ترانے، چاند گگن، مہکتی کلیاں،گلشن گلشن۔ شبنم شبنم، بلبلوں کے گیت، زمزمے، چمکتے ستارے، صحنِ مسرت، ہندوستان، لوریاں، معصوم غزلیں، ننھی منی غزلیں،صیامستان،فانوسِ حرم، اشک و رشک، رباعیاتِ امجد حصۂ اول، دوم، سوم، لحن، گلپوش جھروکے، آسان بیت بازی وغیرہ۔

حافظ صاحب نے بچوں کے اسلامی ادب میں قابلِ رشک خدمات انجام دی ہیں،یہی وجہ ہے کہ ریاست کرناٹکا اور مہاراشٹرا کے تقریباً دس دینی مدارس میں آپ کی دس دینی کتابیں داخلِ نصاب ہیں۔منظوم سیرتِ نبویؐ  پر مشتمل آپ کی کتاب ’ہمارے نبیؐ‘لکھ کر آپ نے بچوں کی اہم ضرورت کی تکمیل کی ہے،اس ضخیم  مجموعے میں آپ نے سیرتِ نبویؐ کے تمام اہم واقعات کو آسان اور رواں اسلوب میں قلم بند کیا ہے،آپ کی شاعری حفیظ جالندھری،مولانا حالی، عزیز بگھروی اور ابوالمجاہد زاہد حسین کی یاددلاتی ہے۔ مذہبی و اخلاقی موضوعات کے علاوہ آپ نے بچوں کے لیے سائنس، جغرافیہ، عمرانیات، ماحولیات اور حفظانِ صحت وغیرہ پر بڑی اچھی اور پیاری نظمیں لکھی ہیں۔

حافظ کرناٹکی کے بعد ریاست کرناٹک میں بچوں کے شاعر کی حیثیت سے ایک اہم اور معتبر نام ظہیر رانی بینوری کا ہے،بچوں کے لیے ان کی شاعری کے چار مجموعے شائع ہو چکے ہیں: کلیاں (1976)، گلاب (1992)، گلستاں (2003)، گلشن ظہیر (2011)  پہلے تینوں مجموعے کرناٹکا اردو اکیڈمی سے شائع ہوئے ہیں،جب کہ آخری مجموعہ قومی اردو کونسل کے مالی تعاون سے شائع ہوا ہے،ان کی نظمیں بچوں کے تمام رسائل میں پڑھنے کو ملتی ہیں،ظہیررانی بینوری کی خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے چھوٹے چھوٹے،آسان اور ہلکے پھلکے مصرعوں میں زیادہ تر نظمیں کہی ہیں۔سبک اور آسان لفظوں پر مشتمل ان کی نظمیں بچوں کے لیے ہرگز گراں بار نہیں ہوتیں،بچے انھیں آسانی سے مزے لے لے کرپڑھتے اور یاد کر سکتے ہیں،  انھوں نے کافی مقدار میں حمد،نعت،فرائضِ اسلام، عبادات، مذہبی، قومی، وطنی، اخلاقی، تاریخی اور جدید موضوعات پر نظمیں لکھی ہیں،نظم’کمپیوٹر‘کے چند اشعار ملاحظہ ہوں       ؎

کمپیوٹر ہے چیز نرالی

حیرت والی،جادو والی

روپ ہے اس کا ٹی وی جیسا

  کام ہے اس کا بڑا انوکھا

بٹن دباکر حرف بناؤ

بنا قلم کے لکھتے جاؤ

لوگوں کو خبریں پہنچائے

اوروں کا پیغام یہ لائے

  شاکرہ بیگم صبادرس و تدریس کے مقدس پیشے سے وابستہ رہی ہیں،بچوں کے ادب سے آپ کو خاصی محبت ہے،بچوں کے لیے آپ نے کئی نظمیں اور گیت لکھے ہیں، آپ کی نظموں اور گیتوں کا مجموعہ’گلدستۂ صبا‘ 2001 میں کرناٹک اردو اکیڈمی بنگلور سے شائع ہوا ہے،آپ کو اس بات کا احساس ہے کہ بچوں کو ابتدا ہی سے مذہب، اخلاق اور مہذب سماج کے بنیادی اصولوں سے واقف کرانا چاہیے، تاکہ وہ اچھے شہری بن سکیں،یہ کام ابتدائی عمر سے ہی کھیل کود کے طریقے سے اور سلیس نظموں کے پیرایہ میں کرنا چاہیے، چنانچہ نرسری اسکولوں کے بچوں کے لیے (55) نظموں اور گیتوں کا مجموعہ مرتب کیا ہے،اس میں موضوعات کی رنگارنگی ہے،بچوں کی دل چسپی،ان کی ہمہ جہت معلومات اور ذہنی وفکری نشوونما کا خیال رکھا گیا ہے، نظم:’نیک بچے کی آرزو‘کے چند اشعار ملاحظہ ہوں      ؎

مجھ سے رب راضی ہو ہمیشہ

اس پہ فدا ہے ریشہ ریشہ

سب کے دکھ میں کام میں آؤں

ہر ایک کومیں سکھ پہنچاؤں

 میں نہ کسی کی کروں برائی

لوں نہ کبھی میں چیز پرائی

کڑپہ آندھرا پردیش کے ستّار فیضی حالیہ دور میں بچوں کے ایک کامیاب شاعر ہیں،وہ اپنی ریاست سے بچوں کی شاعری کی کامیاب نمائندگی کر رہے ہیں،رسائل میں چھپنے کے علاوہ ان کی شاعری کا مجموعہ ’دھنک‘کے نام سے شائع ہو چکا ہے،جس میں حمد،نعت،موضوعاتی نظمیں،مختصر نظمیں(ننھی منی نظمیں)،حب الوطنی سے متعلق نظموں کے علاوہ36 حرکاتی نظمیں(تحتانوی طلبہ کے لیے) اور قطعات کی ہیئت میںپچاس پہیلیاں ہیں، ستّار فیضی کی نظموں کی زبان آسان اور ہلکی پھلکی ہے، انھوں نے چھوٹے بچوں کے لیے ان کی اپنی زبان میں لکھ کر قلمی پختگی کا ثبوت دیا ہے۔

ان کے علاوہ جنوبی ہند میں بچوں کے نظم گو شعراء کا ایک قافلہ ہے،اختصار کے پیشِ نظر ان کے نام لکھنے پر اکتفا کیا جارہا ہے:

یعقوب اسلم عمری، شاہوار بیگم، وائی محمد فضل اللہ رومی، الف احمد برق، مشتاق سعید، محمود خاں قیصر، انور عزیز، رضیہ یاسمین راز، ڈاکٹر وحید انجم، شہ نواز بانو یاسمین، ریشماں طلعت شبنم،جلال الدین اکبر،سردارسلیم اور ظفر صدیقی وغیرہ۔

مذکورہ جائزے سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرنِ حاضرمیں جنوبی ہند میں بچوں کی شاعری کی حالت کسی حد تک بہتر ہے۔ اگر مغربی ہند کی ریاست  مہاراشٹرا کی طرح جنوبی ہند میں مادرِ مہربان اردو کو ذریعۂ تعلیم کے طور پر عام کیا جائے تو بڑی تعداد میں قارئین اور اہلِ قلم پیدا ہو سکتے ہیں۔

کتابیات:

.1        اردو میں بچوں کا ادب،از : ڈاکٹر خوشحال زیدی

.2         اردو میں بچوں کا ادب،از:ڈاکٹر سیدہ مشہدی

.3         اردو میں بچوں کے ادب کی  اینتھولوجی،از:ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی

.4         بچوں کے ادب کی تاریخ،از:ڈاکٹر سید اسرارالحق سبیلی

.5         بچوں کا ادب اور اخلاق ایضاً

.6         دکن میں اردو، از:   سید نصیرالدین  ہاشمی

.7         مدراس میں اردو       ایضاً

 

Dr. Syed Asrarul Haque

Asst Prof. Dept of Urdu

Government Degree College

Siddipet - 502103 (Telangana)

Mob.: 09346651710

 ماہنامہ اردو دنیا،  نومبر 2020

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں