9/12/20

مولانا آزاد اور سائنس و ٹکنالوجی - مضمون نگار محمد اختر

 



مولانا ابوالکلام آزاد کی تعلیم وتربیت والد محترم کی نگرانی میں گھر کی چہار دیواری کے اندر ہوئی تھی۔ درس نظامی کی تکمیل کے علاوہ گھر پر فلسفہ، منطق، اقلیدس، الجبرااورریاضی کے لیے الگ سے اساتذہ متعین کیے گئے تھے۔ عربی، فارسی اورترکی زبان و ادب کے ساتھ علم کیمیا اورفلکیات کا علم بھی حاصل کیا تھا۔ بعد میں فرانسیسی اور انگریزی زبان سے بھی واقفیت بہم پہنچائی تھی۔ مطالعے کا روگ دس برس کی عمر میں لگ چکا تھا۔ حالات اورعصری تقاضوں کے پیش نظر مولانا آزاد نے مشرقی علوم وفنون کے علاوہ جدید مغربی علوم وفنون کا بھی مطالعہ کثرت سے کیا، اس شوق کی تکمیل کے لیے ہند اوربیرون ہند سے سائنسی علوم کے تراجم حاصل کیے اوراپنی علمی تشنگی بجھائی۔

مولانا آزاد کو علوم جدیدہ کا شوق سرسید کے مضامین اوران کی تصنیفات کے مطالعے سے پیدا ہوا۔سر سید کی تصنیفات کے ذریعے ہی انھیں یہ علم ہوا کہ عصر جدید میں کوئی تعلیم اس وقت تک مکمل تصورنہیں کی جاسکتی ہے، جب تک کہ مغربی دنیا اور جدید علوم وفنون سے براہ راست استفادہ نہ کیا جائے۔اسی ضرورت کے پیش نظر مولانا آزاد نے انگریزی زبان سیکھی تھی،تاکہ براہ راست استفادے کی صورت پیدا ہوسکے۔ ’آزاد کی کہانی خود آزاد کی زبانی‘ میں عبدالرزاق ملیح آبادی رقم طراز ہیں:

’’سرسید کی تصنیفات کے مطالعے نے علوم جدیدہ سے نہ صرف آشنا، بلکہ شائق وگرویدہ بنا دیا تھا۔ اب وہ دن تھا کہ عقائد وافکار میں ایک طوفان اٹھ چکا تھا۔ میری زندگی اب چل نہیں رہی تھی، بہہ رہی تھی۔ تمام قدیم چیزیں حقیر وذلیل ہو چکی تھی۔ علوم جدیدہ..... اورہروہ چیز جو ان کی طرف منسوب ہو، میرے قلب وذہن کے لیے بمنزلہ معبود کے تھی۔اب شوق ہوا کہ اردو، فارسی اور عربی میں نئے علوم کی جتنی کتابیں ترجمہ ہوئی ہیں، انھیںجمع کیا جائے۔ مولوی حالی مرحوم کی کتاب ’جیالوجی‘ جو مصر کے ایک عربی ترجمے کا ترجمہ ہے۔ پیرزادہ محمدحسین کی’ منطق استقرائی‘ اورٹینسن کے لکچرر کا ترجمہ،لارڈ بیکن کی سوانح عمری، سائنٹیفک سوسائٹی، علی گڑھ کے بعض تراجم ..... پنجاب کی لٹریری سوسائٹی کی کتابیں.... مولوی ذکاء اللہ کے بعض ترجمے، مرزاپوراورلکھنؤ چرچ مشن کے ابتدائی عہد کے علمی تراجم، سرکاری یونیورسٹیوں کے تعلیمی اورعلمی سلسلے کی تمام کتابیں منگوائیں اورشوق سے دیکھیں، مگر ان سے طبیعت کو سیری نہ ہوئی۔اب مصر وشام کی کتابوںکا شوق ہوا۔مولانا شبلی کو ایک خط لکھااوران سے دریافت کیا کہ علوم جدیدہ کے عربی تراجم کون کون ہیں اورکہاں کہاں ملیں گے؟..... انھوں نے دو سطروں میں جواب دیا کہ مصر و بیروت سے خط وکتابت کیجیے۔ خیر میںنے پہلے وہاں سے فہرستیں منگوائیں اورپھر کتابیں منگواتا رہا۔‘‘

(مولانا ابوالکلام آزاد (بروایت:عبدالرزاق ملیح آبادی)آزاد کی کہانی خود آزاد کی زبانی، ص257-258،حالی پبلشنگ ہاوس،دہلی، اپریل 1958)

مولانا ابوا لکلام آزاد کا یہ شوق مسلسل پروان چڑھتا رہا، عصری علوم کی کتابیں /تراجم خواہ کسی زبان میں میسر ہوں،انھیں حاصل کرتے اوراپنے ذوق وشوق کی تشنگی بجھاتے۔ ’احسن الاخبار‘کے دفتر میں مصر وشام اورطرابلس کے اخبارات کے علاوہ’المنار‘ اور’الہلال‘ بھی دیکھنے کو مل جاتے تھے،جن میں نئی نئی عربی کتابوںکی جانکاری ہوتی تھی۔ مولانا آزاد ان میں سے کتابوںکا انتخاب کرتے اور منگواتے۔خدا بخش نامی کتابوں کے ایک تاجر کے یہاں سے بھی مولانا کو نادر و نایاب کتابوںکا ایک ذخیرہ ہاتھ لگا تھا، جن کے مطالعے سے ان کی معلومات میں خاطرخواہ اضافہ ہوا۔ مولانا کے شوق وجنون کایہ عالم تھا کہ انھیں جدید علوم اورسائنس سے متعلق کتابیں ہر زبان اورہر قیمت پر قبول تھیں۔ سائنس کی کتابوں سے متعلق استفسار کرتے ہوئے مولانا عبدالرزاق کانپوری کو ایک خط میں لکھتے ہیں:

’’…دیگر یہ تحریر فرمائیں کہ آج کل سائنس کی جو کتابیں انگریزی میں لکھی جاتی ہیں۔ ان کے ترجمے اردو میں بھی دستیاب ہوتے ہیں؟اگر یہ سچ ہے تو کہاں دستیاب ہوتے ہیں؟تحریر کیجیے گا۔‘‘

(مالک رام (مرتب) خطوط ابوالکلام آزاد،ص19، ساہتیہ اکادمی، نئی دہلی 1991)

مولانا آزاد کے والد نے اپنے دونوں بیٹوں کو طب کی تعلیم بھی دلوائی تھی۔ مولانا نے اپنے شوق اورذاتی محنت سے نہ صرف قدیم، بلکہ جدید طب میں بھی ایک حد تک مہارت بہم پہنچائی تھی۔ اس کا بین ثبوت 1915 میں منعقد ہونے والی طبی کانفرنس پٹنہ ہے، جس کی صدارت حکیم اجمل خاں نے فرمائی تھی۔ کلکتہ کے مشہور طبیب حکیم نثار احمد جو اس کانفرنس کا حصہ تھے۔وہ فرماتے ہیں کہ مولانا نے اس موقع پردو گھنٹے تقریر فرمائی۔ قدیم وجدید طب کے حوالے سے بہت جامع گفتگو کی اوراس فن کی باریکیاں بیان فرمائیں۔ ان میں سے بعض باتیں تونامور اطبا کو بھی نہیں معلوم تھیں۔دوسری طرف مولانا آزاد کی سائنسی فکر اورسوچ کی گواہی ان کے سائنسی مضامین اوربعض کتابیں ہیں۔ مولانا آزاد تقریباًربع صدی تک صحافت سے وابستہ رہے۔اس دوران انھوں نے مختلف رسائل کے لیے نہ صرف سائنسی مضامین قلم بند کیے، بلکہ ’مرقع عالم ‘کے کہنہ مشق ایڈیٹر کو صرف چودہ برس کی عمر میں مشورہ دیتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:

’’اس عریضہ کے ہمراہ ایک مضمون ’علوم جدیدہ اوراسلام ‘ کے عنوان سے ارسال خدمت کرتا ہوں۔ اسے ’مرقع‘ میں شامل کیجیے… میں نے اس خیال سے کہ جب ’مرقع عالم‘ میں سائنس کے تراجم شائع ہورہے ہیں تو ان کی خرابیوں کا انسداد بھی ضرور بالضرور ہونا چاہیے۔ یہ مضمون ’علوم جدیدہ اوراسلام‘آپ کے پرچہ کے لیے بھیجا ہے۔

(مالک رام(مرتب) خطوط ابوالکلام آزاد،ص22-23)

مولانا آزاد نے اردو قارئین کے لیے بکثرت سائنسی مضامین لکھے، تاکہ انھیں جدید سائنسی معلومات اور تحقیقات سے آگاہ کیا جاسکے۔ مولانا آزاد کا پہلا مضمون ’ایکس ریز‘ پر تھا۔اردومیں یہ اولین مضمون تھا۔ مولانا آزاد کے سائنسی مضامین مختلف رسائل وجرائد میں شائع ہوتے رہتے تھے۔اس مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے وہاب قیصررقم طراز ہیں :

’’مولانا آزاد نے اردو پڑھنے والوںکو سائنسی علوم سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے اور انھیں سائنسی تحقیقات سے آگاہ کرنے کی خاطر اچھوتے اورنت نئے موضوعات پر بے شمار مضامین لکھے اوراپنے دور کے سب ہی اخبارات اوررسائل میں انھیں شائع کرایا..... سائنس کے تمام شعبوں پر مولانا کی نظر تھی اوران میں سائنسی علوم کا ادراک تھا۔ ادراک بھی ایسا کہ سائنس کے جس کسی موضوع پر وہ رقم طراز ہوئے، گویا ایسا معلوم ہوا کہ وہ اس شعبے کے ماہر ہیں۔ مضمون لکھنے کے لیے مواد تو وہ کسی نہ کسی انگریزی ماخذ سے لیتے تھے،لیکن سب سے پہلے اس موضوع پر تمہید باندھتے اورمضمون کے متن میں حسب ضرورت مثالوں، احادیث، اورقرآنی آیتوں کا حوالہ دیتے اور اپنے فہم وادراک سے اورخوبصورت طرز تحریر سے اس کو اتنا سہل بنادیتے تھے کہ پڑھنے والا شروع سے آخر تک پڑھتا اورلطف اندوز ہوتا تھا۔ وہ اتنے پر ہی اکتفا نہیں کرتے تھے،بلکہ آسانی سے سمجھ میں نہ آنے والے سائنسی اصولوں کی وضاحت کو، سائنس کی انگریزی اصطلاحات کی تشریح کو اوراردو میں ان اصطلاحات کے متبادلات کو اکثر اوقات مضمون کے فٹ نوٹ میں بیان کردیتے تھے۔‘‘

(وہاب قیصر، مولانا ابوالکلام آزادکی سائنسی بصیرت، ص19-20، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،نئی دہلی2004)

 جدید سائنسی علوم سے مولانا آزاد کو خاص شغف تھا اورمشرقی علوم و فنون ان کے رگ وریشے میں خون کی طرح دوڑ رہے تھے۔وہ زمانے کے بدلتے ہوئے تیور کوسمجھ رہے تھے۔ ’’بیسویں صدی کے عالمی تمدن کی پیچیدہ کیفیات پر ان کی نظر تھی..... جدید معاشرت ومعیشت کے تقاضوں کو وہ سمجھ رہے تھے...... انیسویں صدی کے مغربی سائنس، فلسفہ اورصنعت نے اپنی مادہ پرستانہ ترقیات کے نتیجے میں بیسویں صدی کے انسانی سماج کو جس استعماری واستحصالی سیاست کا شکار بنایا۔ اس کی ہمہ گیر تباہی پر مولانا آزاد کو سخت تشویش تھی۔ لہٰذا وہ اپنے ماحول میں مکمل انقلاب چاہتے تھے، تاکہ انسانیت کی تجدید، اصلاح اورترقی نئی بنیادوں پر تازگی اورمضبوطی کے ساتھ ہو۔ آزادی، مساوات اوراخوت کے نعرے معاشرے کی ٹھوس حقیقت بن جائیں، دنیا کا کھویا ہوا توازن بحال ہوجائے، زندگی راہ راست پر آجائے اورانسان اپنے مقدر کی تعمیر وتکمیل کے لیے آزاد ہو۔‘‘

(عبدالمغنی، مولانا ابوالکلام آزاد: ذہن وکردار،ص18-19،انجمن ترقی اردو(ہند)نئی دہلی2011)

مولانا آزاد ان مقاصد کو تعلیمی بیداری کے ذریعے حاصل کرنا چاہتے تھے۔ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ جدید سائنس اورٹکنالوجی کی تعلیم کے بغیر ملک کی ضروریات اورحالات کے تقاضوں کو پورا نہیں کرسکتے اورنہ ہی ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں جگہ پاسکتے ہیں۔مولانا آزاد ہندوستان کو ایک ایسے تعلیمی مرکز کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے، جہاں غیر ممالک کے طلبا بھی سائنس وٹکنالوجی کی تعلیم کے حصول کے لیے آئیں۔ اپنی اس خواہش کا اظہار کرتے ہوئے مولانا آزاد نے ایک موقعے پرفرمایا تھا:

’’وزارت تعلیمات کا جائزہ حاصل کرتے ہی پہلا فیصلہ جو میں نے کیا وہ یہ تھاکہ ملک میں اعلا فنی تعلیم کے حصول کے لیے سہولتیں فراہم کی جائیں،تاکہ خود ہم اپنی اکثر ضرورتوں کو پورا کرسکیں۔ ہمارے نوجوانوںکی ایک بڑی تعداد اعلا تعلیم کے حصول کے لیے جو ملک سے باہر جاتی تھی، خود ملک میں یہ تعلیم حاصل کرسکتی ہے۔ میں اس دن کا منتظر تھااوراب بھی ہوں جب ہندوستان میں فنی تعلیم کی سطح اتنی بلند ہوجائے گی کہ باہر سے لوگ ہندوستان اس غرض سے آئیں گے کہ یہاں اعلا سائنسی اورفنی تعلیم وتربیت حاصل کریں۔‘‘

(ہمایوں کبیر (مرتب) مولانا ابوالکلام آزاد: کتاب التذکرہ ص131-32، مولانا ابوالکلام آزاد، اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ،حیدرآباد1961)

سائنس اورٹکنالوجی کے فروغ کے لیے حکومت ہند نے 1947 میں ایک کمیٹی بنام ’سائنٹیفک مین پاور کمیٹی‘ تشکیل دی۔اس کا سربراہ ڈاکٹر ایس بھٹنا گر کو مقرر کیا اور ان کودس سالہ منصوبہ (1947-57) تیار کرنے کی ذمے داری دی گئی۔ اس کمیٹی کے پنچ سالہ منصوبے اوراس کی اہم تجاویز کو مختصراًجے۔سی۔گھوش نے یوں بیان کیا ہے:

’’1        سائنس اورحرفیات کے بعض شعبوںمیں جن پر اب تک کام نہیں ہوا۔ مخصوص نصاب تعلیم اورتحقیق کا انتظام۔

2          موجودہ اداروںمیں اگر گنجائش ہوتو تعلیم وتحقیقات کے کاموں میں توسیع۔

3  ملک میں موجود پالی ٹکنکس (کثیر الفنی اداروں)میں اعلا تعلیم کا انتظام۔

4          بعض موجودہ اداروںمیں مختلف نصاب کی تعلیم پانے والے طلبا کے داخلوں میں اضافہ۔

5          فنی عملے کے نگراں کاروں کی تربیت صنعت وحرفت کے ساتھ۔

6          چندمنتخب اداروںمیں منطقہ واری اساس پر وڈکشن انجینئرنگ اورڈیزائن انجینئرنگ کی تعلیم کے لیے سہولتوںکا فراہم کرنا۔

7          ادارے کی تعلیم کے ختم کرنے کے بعد وظیفے دے کر عملی تعلیم کے حصول کا انتظام۔ ‘‘

(ہمایوںکبیر (مرتب)مولانا ابوالکلام آزاد:کتاب التذکرہ ص270)

ان تجاویز کو بہت حد تک عملی صورت دی گئی، جس کے نتیجے میں سائنس اورٹکنالوجی کی تعلیم میں سہولیات اوروسائل کا گراں قدر اضافہ ہوا۔مولانا آزاد نے حسن تدبیر سے قلیل مدت میں کئی اہم سائنسی وتکنیکی ادارے قائم کیے،  جن میں چند یہ ہیں:

w          آل انڈیا کونسل فار ٹیکنیکل ایجوکیشن

w         انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ٹکنالوجی، کھڑک پور( جو آج’ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی‘ کھڑک پور کے نام سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔)

w         انڈین کونسل آف سائنٹیفک ایند انڈ سٹریل ریسرچ

w            انڈین کونسل فار ایگریکلچر اینڈ سائنٹیفک ریسرچ

w           انڈین کونسل فار میڈیکل ریسرچ سینٹر

یہ ادارے مولانا آزاد کی دوراندیشی اورمستقبل شناسی کی روشن مثال ہیں۔ انھوں نے ممتاز ماہرین تعلیم کی مدد سے سائنس اورٹکنالوجی کے میدان میں دن دونی رات چوگنی ترقی کا ایک جامع منصوبہ بنایا تھا۔ 1950  میں ’سینٹرل ایڈوائزری بورڈ‘ کے اجلاس میں صدارتی تقریر کرتے ہوئے مولانا آزاد نے فرمایا تھا:

’’فنی تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے جو لائحہ عمل ہمارے پیش نظر تھا۔ وہ چاراعلا حرفیاتی اداروں کا قیام نیز موجودہ اداروں کی تقویت تھی۔مالیہ نے اجازت نہیں دی کہ ہم چاروں کا ایک ساتھ قیام عمل میں لائیں، لیکن ہم نے سوچا کہ کام کی ابتدا تو کی جانی ضروری ہے۔ اس لیے بغیر تمام ضروری عمارتوں کی تعمیر کا انتظار کیے کلکتہ سے قریب مشرق میں اعلا حرفیاتی ادارہ قائم کیا گیا۔ابھی کام ہورہا ہے اورمجھے امید ہے کہ آئندہ تعلیمی سال میں ہم اساتذہ وطلبا کے پہلے گروہ کو اس ادارہ میں کام کرتا پائیں گے۔ساتھ ساتھ ہمارامقصد یہ بھی ہے کہ موجودہ اداروں کی حالت کو بہتر بنائیں اوران کی کارکردگی کی صلاحیت میں اضافہ کریں۔‘‘

(ہمایوں کبیر (مرتب)مولانا ابوالکلام آزاد:کتاب التذکرہ، ص127)

جدید ٹکنالوجی میں اعلا فنی تعلیم اورطلبا کی استعداد میں اضافے کے لیے ’انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ٹکنالوجی‘ کھڑک پورکا قیام عمل میں آیا۔ یہ ادارہ 1951 میں تعمیر ہوا اوربعد میں ’انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی ‘ کھڑک پور کے نام سے پوری دنیا میں شہرت پائی۔ انجینئرنگ کے ابتدائی اوربنیادی کورسز کے ساتھ،نیول آرکیٹکچر، اگریکلچرل انجینئرنگ، آرکیٹکچرکی ڈگریوں کے علاوہ پروڈ کشن انجینئرنگ کے کئی شعبوںمیں پوسٹ گریجویشن، اور مینجمنٹ اسٹڈیز کے قلیل مدتی پروگرام شروع ہوئے اور طلبا کی تعدادمیں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ آج یہ ادارہ اپنی ایک الگ شناخت رکھتا ہے۔ یہ اعلا فنی تعلیم وتربیت کا ادارہ مولانا آزاد کا ایک تاریخی کارنامہ ہے۔

اسی طرح کونسل فارسائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (CSIR) کا قیام 1942میں عمل میں آچکا تھا۔ 1949 میں اس ادارے کی توسیع کی طرف مولانا آزاد نے خصوصی توجہ دی۔ مولانا آزاد نے بحیثیت وزیر تعلیم CSIRکو ہمہ جہت ترقی دی۔ مولانا آزاد کی کاوشوں پر روشنی ڈالتے ہوئے وہاب قیصرلکھتے ہیں:

’’مولانا نے CSIRکے لیے سائنس انفرااسٹرکچر کی ترقی کو جوسمت بخشی تھی، وہ لائق تحسین ہے۔ بقول مولاناآزاد:’’وہ CSIRکے امورمیں بحیثیت وزیر نہیں، بلکہ آفس بیرر شامل رہتے تھے۔ ‘‘قوم کی ترقی میں سائنس کے اہم رول کے بارے میں مولانا آزاد کے خیالات واضح تھے۔ وہ اپنے ملک کے سائنسی ماہرین کو اس بات کی تلقین کرتے ہیںکہ سائنسی علوم کو سماجی ترقی کے لیے بروئے کار لائیں اوراس بات کا انتباہ دیتے ہیںکہ وہ سائنس اورٹکنالوجی کی دریافتوں اور ایجادوں کے انسانیت سوزاستعمال سے باز رہیں۔‘‘

(وہاب قیصر،مولانا ابوالکلام آزادکی سائنسی بصیرت،ص173)

مولانا آزاد سائنس اورٹکنالوجی کے تعمیری اورتخریبی دونوںپہلوئوںسے بخوبی واقف تھے۔ اسی لیے انھوں نے سائنس اوردیگر مغربی علوم و فنون کے ساتھ مذہبی تعلیم اور اخلاقی پہلو پر خاصا زور دیا ہے۔ مولانا آزاد ایک خاموش طبع شخص اورعملی زندگی کے پیکر تھے۔ ان کا فلسفۂ حیات اورفلسفۂ تعلیم بہت واضح تھا، وہ تعلیم کو زندگی کی تیار ی سے تعبیر کرتے تھے اورایک ایسے نظام تعلیم کے خواہاں تھے، جس میں عقائد کی پختگی،سچی دین داری، انسان دوستی اورعدل و ضبط جیسی اقدار شامل ہوں، تاکہ سیرت کی تعمیر میں کوئی کجی نہ رہ جائے اورطلبا جدید سائنس اورٹکنالوجی کےتخریبی پہلو سے خود کو بچالے جائیں۔

ابتدائی پانچ برس کے منصوبہ کے تحت ’کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ ‘  کا قیام عمل میں آیا، جس کا خاص مقصد جنگ کے وسائل کی فراہمی اورقومی زندگی کی ترقی کے لیے دوسرے مفیدعناصرکی فراوانی تھی۔

آمد ورفت اورنقل وحمل کے ذرائع کو بڑھانے کے لیے (CRRI)سینٹرل روڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا قیام 1952 میں عمل میں آیا،تاکہ زراعت، کامرس اورانڈ سٹریز میں ترقی کے مواقع زیادہ پیدا ہوں۔ اس ادارے کا افتتاح مولانا آزاد نے 16جولائی 1952 میں کیا اور سائنس وٹکنالوجی کے میدان میں ہورہی تعمیر وترقی کو تفصیل سے بیان فرمایا۔ اس کے علاوہ تعمیری اورتحقیقی ضرورتوں کے پیش نظر ’سینٹرل بلڈنگ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ (CBRI)کا  تشکیل عمل میں آیا،تاکہ عمارتوں کی تعمیر، تحقیق اورحفاظت کا مناسب انتظام ہوسکے۔ یہ ادارہ 1953 میں قائم ہواتھا۔ اس ادارے پر روشنی ڈالتے ہوئے وہاب قیصر لکھتے ہیں:

’’سینٹرل بلڈنگ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو 1953 میں رو ڑ کی میں قائم کیا گیا۔ اس ادارے کا افتتا ح مولانا آزاد کے ہاتھوں 12؍اپریل 1953 کو عمل میں آیا، جو CSIRکے تحت پنچ سالہ منصوبہ میں قائم ہونے والی گیارہ قومی لیبارٹیریوں میں سے آخر ی لیبارٹری تھی۔ آزادی کے ابتدائی پانچ سال میں ان لیباریٹریوں کا قیام ہندوستان کی صنعتی ترقی کی راہ میں سنگ میل ثابت ہوا۔ ہمارے ملک کی قومی صنعتوں کے ارتقااورفروغ میں سائنس اورٹکنالوجی کو بروئے کار لانے کی یہ پہلی باقاعدہ اورمنصوبہ بند کوشش تھی۔‘‘

(وہاب قیصر،مولانا ابوالکلام آزادکی سائنسی بصیرت،ص175)

اس ادارے کے ذمے چاراہم کام تھے، جن میں بلڈنگ میٹریل کی جانچ، تعمیر کے طریقے،  عمارتوں کی دیرپائی      سروے اوراطلاعات کے ڈویژن بھی بنائے گئے تھے، تاکہ وہ عمارتوں کے میٹریلس اورمضبوطی کوجانچ پرکھ سکیں۔

جدید سائنس اورمیڈیکل کے فروغ کے لیے مولانا آزادکی کاوشیں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ انھوںنے جدید سائنسی تحقیقات کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے پر بہت زور دیا تھا۔ اسی سمت میں ایک عملی قدم اٹھاتے ہوئے مولانا آزاد نے ’الکٹرانک انجینئرنگ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ قائم کیا تھا،جوCSIRکے ماتحت تھا۔ مولانا آزاد کی موجودگی میں جواہر لال نہرونے 21؍ستمبر 1953 کو اس عمارت کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس ادارے کے قیام کے ساتھ قومی اداروں کی تعداداکیس تک پہنچ گئی تھی۔ اس موقع پر الکٹرانکس کے شعبوںمیں جو نمایاں کام ہوئے تھے،اس پرمولانا آزاد نے روشنی ڈالی۔آگے چل کر الکٹرانکس کی یہ تحقیق رڈارکی دریافت کا باعث ہوئی۔

مولانا آزاد نے سائنسی علوم اورجدیدٹکنالوجی کی ہمہ جہت ترقی کے لیے مسلسل تگ و دو کی تھی۔ انھوں نے کئی اہم سائنس وٹکنالوجی اورمیڈیکل سائنس کے ادارے قائم کیے،اور جدید سائنسی تحقیقات کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے پر زور دیا۔ تاکہ ہمارا ملک اس میدان میں ترقی یافتہ ممالک کی ہمسری کرسکے۔


Dr. Mohd Akhtar

Vasanta College for Women

Rajghat

Varanasi- 221001

Mo.: 9793857521

Email.: akhtarvcr@gmail.com

 

ماہنامہ اردو دنیا، نومبر 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں