10/12/20

افسانوی روایت کا منفرد راوی: نیر مسعود - نثار احمد

 



 نیر مسعود  اردو کے ایک ممتاز افسانہ نگار ہیں۔ ان کے افسانوی امتیازکی  بہت سی وجوہات ہیں جو انھیں ان کے تمام معاصرین سے منفرد بناتی ہیں۔ نیر مسعود نے ایسے وقت  میں افسانے لکھنے شروع کیے جب افسانہ نگار جدیدیت کے زیر اثر خالص علامتی اور ابہام زدہ افسانے لکھ رہے تھے۔ ترقی پسند افسانے کے بعد افسانہ نگاری کا یہ اسلوب افسانوی تخلیقات کی شناخت بن چکا تھا۔ اس عہد میں شاید ہی کوئی ایسا افسانہ نگار ہو جس نے اس مخصوص رنگ میں لکھنے کی کوشش نہ کی ہو مگر نیر مسعود واحد ایسے افسانہ نگار ہیں جن کا افسانہ جدیدیت کے پیدا کیے ہوئے  اسالیب کے ساتھ ان کے منفرد اسلوب سے بھی پہچانا گیا۔

نیر مسعود نے افسانہ نگاری ایک بہت بھر پور علمی  اورتحقیقی زندگی گزارنے کے بعد شروع کی، وہ  ایک لمبے عرصے تک لکھنؤ کی تہذیب وثقافت اور اس کی خاک میں چھپی ہوئی بہت سی نایاب صورتوں کو سنوارنے  میں لگے رہے، انھوں نے فارسی اور انگریزی سے بہت سے تراجم بھی کیے۔ ان تمام حوالوں سے ان کی ایک شناخت مستحکم ہوچکی تھی۔ اسی لیے ان کی اولین کہانیوں کے ساتھ ہی ان کے پڑھنے والوں کا  ایک حلقہ بن گیا لیکن کہانیاں پڑھنے کی روایتی تربیت نے ان کے قارئین کو بہت دیرتک ان سے جوڑے نہیں رکھا۔ نیر مسعود کے بارے میں بہت شدت کے ساتھ یہ بات کہی گئی اور کہی جاتی ہے کہ ان کی کہانیاں مبہم ، مشکل اور پیچدہ ہیں۔اور یہ کہہ کر ان کا نام بھی جدیدیت کے ابہام پسندوں کے ساتھ لیا جانے لگا۔ جبکہ نیر مسعود کا افسانہ اپنے بیانیے، محل وقوع ، تکنیک  اور واقعات کی ترتیب  کے لحاظ سے ایک الگ ہی مزاج کا افسانہ ہے۔ وہ ہماری افسانوی روایت میں ان دوچار لکھنے والوں میں ہیں جنھوں نے اپنے وقت کے حاوی تخلیقی رجحان  کو ذرا بھی قابل اعتنا نہیں سمجھا ،ان کے لیے ان کا اندرون اور تخلیقی وجدان ہی اول و آخر رہا۔ نیر مسعود کے افسانوں میں پیچیدگی اور ابہام کا مسئلہ بھی بہت مختلف ہے ، ان کے افسانوں کی اس جہت پر جس طرح گفتگو ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہوئی۔ بظاہر بہت حقیقی اور  سچی صورتوں سے متشکل بیانیہ کیسے ایک غبار میں چلا جاتا ہے اور معنی کاری کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے نیر مسعود کے افسانوں کے مطالعے کا یہ ایک اہم پہلو ہے۔ نیر مسعود کے یہاں کہانی کا مرکز متن کے کسی ایک حصے میں نہیں ہوتا بلکہ لامرکز میں ہوتا ہے، اس لامرکز کی تلا ش ہی ان کے افسانوں کی ایک بامعنی قرأت کا استعارہ ہے۔

نیر مسعود کے افسانوں کے بارے میں ایک خاص  بات یہ بھی ہے کہ وہ ایک پورے تہذیبی علاقے کی دریافت سے صورت پذیز   ہوتے ہیں۔ ان کا محل وقوع اور زمانی عرصہ ایک بھرے پرے اور پر وقار شہر کا  ماضی ہے۔ اس ماضی کی پراسراریت، تحیر  اور اس کے تہذیبی رنگ نیر مسعود کے افسانوں کے متن  میں رچے بسے ہوتے ہیں۔ان کے بعض افسانوں کے حوالے سے اس ماضی کو لکھنؤ شہر کاماضی بھی کہا جاسکتا ہے لیکن زیادہ تر اس کے سائے  اس حد بندی سے نکل کر دور تک دراز ہوتے چلے جاتے ہیں۔ نیر مسعود کے افسانوں کو پڑھنا شہروں کے پرانے کرداروں ،پرانے مقامات اور کھنڈرات  کی خاموشیوں کی پراسراریت سے بھی گزرنا ہے۔

نیر مسعود کے بیشتر  افسانے ان کی اسی تخلیقی انفرادیت کو سامنے لاتے ہیں۔ ان کا تفصیلی مطالعہ معاصر افسانوی صورتِ حال میں ان کے امتیاز کو واضح کرنے اور اس نئی افسانوی روش کے خد وخال کو نمایاں کرنے سے عبارت ہے۔

اردو کی افسانوی روایت میں نیر مسعود کے بالکل منفرد اسلوب ،  موضوعات  اور تکنیک کے نئے انداز کی وجہ سے ان کے تخلیقی جہان میں اترنا  ایک خالص ادبی ضرورت ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں وہ اردو کے پہلے ایسے افسانہ نگار ہیں جو علم و تحقیق کی وسیع تر دلچسپیوں کے ساتھ افسانہ لکھنے کی طرف مائل ہوئے۔ انھوں نے کافکا کا اردو میں ترجمہ کیا ، ان کے اور کافکا کے تخلیقی محرکات میں بھی ایک خاص قسم کی مماثلت پائی جاتی ہے۔ دونوں نے خواب کی معدوم ہوتی پرچھائیوں کو کاغذ پر نقش کرنے کی کوششیں کیں۔ اس کے علاوہ لکھنؤ کی مٹتی ہوئی تہذیب کے نقوش کوبھی انھوں نے اپنی افسانوی بافت کا حصہ بنایا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ انھوں نے کہانیوں میں حقیقت کو ایک دھند کی شکل دینے کے لیے بالکل نئے انداز اختیار کیے جو نہ ان کے معاصرین میں کسی کو سوجھے اور نہ ہی ان کے بعد اس طرز پر کسی نے کہانی کہی۔ دھند کی اس معنی کاری کا عمل نیر مسعود کے یہاں بالکل ہی منفرد انداز کا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان کے افسانوں کی باضابطہ قرأت کی جائے اور اردو کی افسانوی روایت میں ان کے مقام اور اختصاصی پہلوؤں کو نمایاں کیا جائے۔

نیر مسعود اپنی کہانیوں کی پیچیدگی اور ابہام کی وجہ سے اردو کے بہت کم قارئین کی توجہ حاصل کرسکے، زیادہ تر قارئین  ان کی چند کہانیوں کے بعد ہی ان سے دور ہو گئے۔ اس لیے باقاعدہ طور پر نیر مسعود پر کوئی تحقیقی و تنقیدی کام نہ ہو سکا۔ اردو کے کچھ اہم ناقدین نے ان پر ضرور بہت اچھے مضامین لکھے جن سے نئے قارئین کو  نیر مسعود کے افسانوں میں داخل ہونے کے آداب سیکھنے کو ملے اور ساتھ ہی ان کے افسانوں  میں موجود خاموشیوں کو سمجھنا آیا۔ نیر مسعود پر مضامین لکھنے والوں میں سکندر احمد ، شمیم حنفی ، قاضی افضا حسین، شارب ردولوی، لطف الرحمن، عابد سہیل،ناصر عباس نیر، حمید شاہد ، آصف فرخی،محمد خالد اختر اہم ہیں۔

نیر مسعود کو سمجھنے کے لیے اس ماحول کو سمجھنا بھی ضروری ہے جہاں ان کی پرورش و پرداخت ہوئی،نیر مسعود خالص ادبی فضا کے پروردہ تھے، ادبستان جہاں بڑے بڑے ادیبوں، شاعروں اور نقادوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا، والد ماجد مسعود حسن رضوی ادیب کا خود ادب میں  ایک بڑا نام تھا، اس کے علاوہ قدیم لکھنؤ کی تہذیبی معاشرت تھی جس کا اثر ان پر ہونا لازمی تھا، یہی وجہ ہے کہ نیر مسعود کی تحریروں میں بھی اتنی ہی متانت و سنجیدگی ہے جتنی ان کی شخصیت میں ہے۔ سادہ اور سلیس اسلوب لیکن اس کے پیچھے تہداری کا انبار لگا ہوا ہے۔ ان کی اس ادبی اور تہذیبی پرورش میں ادبستان کا انتہائی اہم کردار رہا ہے۔

نیر مسعود اس وقت افسانہ تحریر کر رہے تھے جب اودھ کا تہذیبی نظام درہم برہم ہو گیا تھا، قدیم اور جدید رواج کا ٹکراؤ زوروں پر تھا  افلاس غربت بھوک مری بے روزگاری آوارہ گردی لوٹ کھسوٹ  میں سماج جکڑتا جا رہا تھا،مگر پھر بھی ماضی پر فخر تھا، جینے کی موہوم آس تھی اور یہی نیر مسعود کے افسانوں کا موضوع قرار پائے، طاؤس چمن کی مینا ان کا مشہور افسانہ ہے ، افسانہ پہلی نظر میں بہت سادہ ہے لیکن اس کی تہہ میں زوال پذیر اودھ کا پورا منظر نامہ موجود ہے ،سادہ اور سلیس الفاظ کے پیچھے طعن و تشنیع کے تیر ہیں جو زوال پذیر اودھ کے نوحہ خواں ہیں، افسانہ طاؤس چمن کی مینا زوال پزیر اودھ کا شاندار استعارہ ہے، مذکورہ افسانے کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں:

کچھ دور تو میں اپنی دھن میں نکلا چلا،پھر مجھے سب کچھ بدلا بدلا معلوم ہونے لگا،شہر پر عجیب مردنی سی چھائی ہوئی تھی۔چوڑے راستوں پر گوروں کے فوجی دستے گشت کر رہے تھے،اور میں جس گلی میں مڑتا اس کے دہانے پر انگریزی فوج کے دو تین سپاہی جمے ہوئے نظر آتے تھے۔گلیوں کے اندر لوگ ٹولیاں بنائے چپکے چپکے آپس میں  باتیں کر رہے تھے، مجھے گھر پہنچنے کی جلدی تھی اس لیے راستے میں کہیں رکا نہیں۔لیکن ہر طرف ایک ہی گفتگو تھی، رکے بغیر بھی مجھے معلوم ہو گیاکہ اودھ کی بادشاہی ختم ہو گئی، سلطان عالم واجد علی شاہ کو تخت سے اتار دیا گیا ہے۔ وہ لکھنؤ چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ اودھ کی سلطنت انگریزوں کے ہاتھ میں آگئی ہے اور اس خوشی میں انہوں نے بہت سے قیدی کو آزاد کر دیا ہے۔

ایک طرف بھوک اور کسمپرسی کا عالم ہے، فاقہ کشی ہے لیکن دوسری طرف کرداروں کی ایسی نزاکت اور متانت، یہ کردار گزشتہ اودھ کا استعارہ ہیں،جنھیں نیر مسعود نے اپنے افسانے کا موضوع بنا کر اس پر طنز کیا ہے  اسی طرح کے واقعات و حادثات نیر مسعود کے افسانوں کا موضوع ہیں،جس کا انھوں نے بذات خود مشاہدہ کیا تھا۔

ادب اور ادیب اپنی تہذیب کا آئینہ دار ہوتا ہے، وہ اپنے عہد کا ترجمان ہوتا ہے، نیر مسعود کے افسانے اپنے عہد کا  آئینہ ہیں، انھوں نے موضوع کے انتخاب میں بہت نبرد آزمائی نہیں کی، ہیر رانجھا،لیلی مجنوں کے قصوں کو اجاگر کرنے کی ضرورت نہیں پڑی  بلکہ سامنے خود ان کا زوال آمادہ معاشرہ تھا، جس کو برتتے ہوئے ان کا افسانوی سفر تمام ہو گیا۔

نیر مسعود کا شمار اردو کے ان معدودے چند افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے ایک روایتی اسلوب سے الگ ہو کر افسانہ نگاری میں الگ شناخت قائم کی،انھوں نے ان بندھے ٹکے اصولوں سے شعوری اور لا شعوری طور پر اجتناب کیا جو افسانہ نگاری کے حوالے سے رائج تھے اور برتے جارہے تھے،انجام کار بعض لوگوں نے تو انہیں سرے سے افسانہ نگار ہی تسلیم نہیں کیا۔ نیر مسعود کا شمار قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین کے بعد ہمارے یہاں سب سے زیادہ روایت سے منحرف افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے، لیکن انھیں ذرہ برابر بھی اس کا افسوس نہیں، انھیں اس بات کا قطعی ملال نہیں تھا کہ لوگ انھیں ایک افسانہ نگار کے بجائے قصہ گو سمجھتے ہیں، وقت گزرنے کے ساتھ درپردہ تہیں وا ہوتی گئیں اور نیر مسعود ایک معتبر افسانہ نگار گردانے جانے لگے، خود انہی کا اقتباس پڑھیے، اندازہ ہو جائے گا کہ وہ اپنے تئیں کیا سوچتے تھے:

3 جون 1924 کو کافکا کی وفات ہوئی  تو اسے کوئی بڑا ادبی سانحہ نہیں سمجھا گیا وہ اس وقت تک جرمن کا ایک غیر معروف افسانہ نگار تھا جس کی تحریر اپنے صاف بیانیہ انداز کے باوجود مفاہیم کے اعتبار سے سے کمال کی حد تک مبہم تھیں۔اس وقت کافکا کو  دستایفسکی کی طرح ادبیات میں پیچیدہ ترین دماغ کا مالک سمجھا جاتا ہے اس کی تحریروں کی مذہبی، روحانی، صوفیانہ،فلسفیانہ، مابعد الطبعیاتی،سماجی،اخلاقی نفسیاتی اور جنسی تاویلیں کی جارہی ہیں, اور اس کی تحریروں میں ہر تاویل کا جواز موجود ہے،  خود کافکا ان تحریروں کو اپنی خواب نما باطنی زندگی کی عکاسی قرار دیتا ہے،اور تاویلیں اب تک اس باطنی زندگی کو پوری طرح گرفت میں نہیں لا سکی ہیں،البتہ اتنا یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ کافکا کی باطنی زندگی ان کی ظاہری زندگی سے مختلف تھی۔

 نیر مسعود کو احساس تھا کہ انھوں نے افسانہ لکھنے کے لیے  اس نہج  کا استعمال کیا ہے جو روایت سے ہٹ کر ہے، بطور افسانہ نگار شاید ان کا اعتراف دیر سے ہو، یا نہ بھی ہو  لیکن جو ان کا اندرون تھا ان کا جو احساس تھا اس کا استعمال افسانہ میں انہوں نے تب بھی کیا،یہ مسئلہ قاری اور نقاد کا تھا کہ وہ ان تحریروں کو کس صورت میں دیکھتے ہیں۔

پورے مشرقی ادبیات میں ہمیشہ سے ہی مافوق الفطرت عناصر اور رنگین فضاؤں اور تصوراتی ادب کی روایت رہی ہے،داستان امیر حمزہ اور دیگر داستانیں اس کی واضح مثالیں ہیں، نیر مسعود اس روایت سے الگ ہیں، حقیقت پسندی کی طرف ان کا رجحان زیادہ ہے، اور ان کا یہی جھکاؤ انہیں منفرد افسانہ نگار بناتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کی کہانیاں بہت سپاٹ ہوتی ہیں،پلاٹ بہت سیدھا سادہ ہوتا ہے، بعض اوقات تو قاری کو یہ گمان ہوتا ہے یہ کوئی سادہ سا ترجمہ یا مضمون ہے جسے افسانہ کہہ دیا گیا ہے۔ نیر مسعود کا یہی سادہ پن ان کو الگ صف میں لا کھڑا کرتا ہے،خود اپنے بارے میں لکھتے ہیں:

لوگوں کو میری کہانیوں کے بارے میں یہ خیال رہا  کہ یہ مثلا کہیں سے ترجمے ہیں اس وجہ سے مجھے اور ڈر لگا رہتا ہے  مگر خیر اب تک کوئی چوری پکڑی تو نہیں گئی۔

نیر مسعود اردو کے ان چند ادیبوں میں سے ایک ہیں جنھیں مغرب میں بھی پڑھا گیا، اردو میں ادبی روایت پسندی کی بنیاد پر  نیرمسعود یکسر نکار دیے گئے، ظاہر ہے اردو قارئین کی ذہنی پرورش جس ادبی فضا میں ہوئی تھی وہاں نیرمسعود کا ٹکنا دشوار تھا، مشرقی ادبیات میں ابتداسے ہی مافوق الفطرت عناصر اور تصوراتی ادب کا رجحان حاوی تھا، حالانکہ بعد میں ترقی پسندی اور جدیدیت کے رجحان کے بعد ادب میں حقیقت پسندی کو تھوڑی بہت جگہ ضرور نصیب ہوئی ، ادب برائے ادب سے ادب برائے زندگی کی روایت ضرور وقوع پذیر ہوئی۔ اس میں بہت حد تک حقیقت پسندی کا عمل دخل تھا، مغرب میں یہ رجحان بہت پہلے سے اتم درجے میں موجود تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نیر مسعود ابتدا میں اردو سے زیادہ انگریزی اور دیگر مغربی زبانوں میں پڑھے گئے۔ محمد عمر میمن نے ان کی کئی کہانیوں کا ترجمہ انگریزی زبان میں کیا ہے۔  The Annual of Urdu Studies  نے نیر مسعود کے تنقیدی مضامین و انٹرویو اور ان کی دس کہانیوں کو انگریزی میں شائع کیا، اس کے علاوہ مریم ابو ذہاب نے پیرس سے نیر مسعود کی سات کہانیاں کافور کے نام سے شائع کیں۔  ان کا مشہور افسانہ طاؤس چمن کی مینا کا انگریزی ترجمہ بھی عمر میمن نے کیا جو امریکہ کے مشہور رسالہ  Wisdom Madison میں  1997 میں شائع ہوا؟

نیر مسعود کو انگریزی میں نہ صرف پڑھا گیا بلکہ ان پر  تبصرے بھی کیے گئے، محمد عمر میمن نے نیر مسعود پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے:

کلیتاً غیر ماخوذ اور اردو فکشن کی تاریخ میں اپنے سے پہلے ظہور پذیر ہونے والی ہر شے سے غیر مماثل یہ کہانیاں اپنے آپ میں ایک علیحدہ قسم کہی جا سکتی ہیں، ایک طرف تو یہ کہانیاں (اردو کے) اولین رومانیوں  اور مصلحوں (کی تخلیقات) سے مختلف ہیں، دوسری طرف منشی پریم چند جیسے حقیقت نگار اور ترقی پسند ادیبوں سے بھی مختلف ہیں، عجیب بات یہ ہے کہ یہ کہانیاں اس تجدد پسندانہ تجریدیت اور علامتیت کے کسی عنصر کی تقلید بھی نہیں کرتیں،جس نے 1960 اور اس کے بعد کے برسوں میں شدت کے ساتھ اردو کے افسانوی منظر نامے پر دھوم مچا رکھی تھی۔  (بحوالہ: نیر مسعود ادیب اور دانشور 33 )

انگریزی نقاد Eliza Beth Both  نیر مسعود کے بارے میں لکھتے ہیں:

نیر مسعود کی اپنی نجی دنیا ہے جسے وہ اپنے نفس ( اپنی ہستی) کے حوالے سے دیکھتے ہیں  یہ آئینے سے جھانکتے ہوئے عکسوں ابہامات اور بیک وقت نمایاں اور دھندلی بے خیالیوں کی دنیا ہے جو اپنے خلا کے کھینچاؤ سے ہمیں سراسیمہ بھی کرتی ہے، ماضی یہاں حال پر مسلط رہتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اس میں معنی پیدا کرنے کی ہر کوشش کی تادیب بھی کرتا رہتا ہے۔(ایضاً ، ص 35)

 اردو قاری جس وقت نیر مسعود کو نکار رہا تھا انھیں ایک قصہ گو ، روایت سے منحرف، مبہم لکھاری کہہ کر سرے سے افسانہ نگار تسلیم کرنے سے منحرف تھا ،انگریزی میں وہ نہ صرف پڑھے جارہے تھے بلکہ ان کی کہانیوں پر مناسب رائے کا اظہار بھی کیا جا رہا تھا۔ نیر مسعود کو انگریزی کے علاوہ فرانسیسی فارسی اور دیگر زبانوں میں بھی ترجمہ کیا گیا، جو ان کی عالمی ادب میں بطور افسانہ نگار مقبولیت کی نشاندہی کرتا ہے، بعد میں اردو نقادوں نے بھی ان پر لکھا۔

نیر مسعود کے افسانوں میں سادگی کے ساتھ بہت گہرائی ہے، الفاظ کی سطح پر بلا کی سنجیدگی ہے لیکن معانی میں عجیب شور ہے، افسانوں کی قرأت جتنی آسان ہے ان کی تفہیم اتنی ہی مشکل ہے شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے بارے میں یہ رائے قائم کر لی گئی کہ وہ مبہم افسانہ نگار ہیں، اسی بنا پر بہت سے نقاد اور قاریوں نے ان سے پلہ جھاڑ لیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان افسانوں کی با معنی قرأت کے ساتھ ان کی صحیح تفہیم درکار تھی جہاں تک خال خال نقاد ہی پہنچ سکے۔نیر مسعود کا یہ مسئلہ کبھی رہا ہی نہیں کہ قاری پر ان کی تحریر کا کیا تاثر قائم ہوگا۔ ان کی تخلیق ان کے اندرون کا اظہار تھی اور بس۔ انھوں نے کبھی یہ باور کرانے کی کوشش نہیں کی کہ اس کی تفہیم اس طرح کی جا سکتی ہے۔ ملمع سازی، جملوں کا ادھیڑ بن، استعاروں، کنایوں اور مقفیٰ و مسجع عبارتوں کا استعمال  ان کا مسئلہ نہیں رہا،  خیال کا ایک تسلسل تھا جسے ایک لڑی میں پرو تے چلے گئے، اک خواب تھا جسے بیان کرتے چلے گئے، اس سے بے نیاز ہوکر کہ معبر اس کی کیا تعبیر دیتا۔ نیر مسعود خود کہتے ہیں :

میری کہانیوں میں بلکہ میری پوری زندگی میں خوابوں کا بہت بڑا کردار رہا ہے،بعض خواب تو اس قدر مربوط گویا پورے بنے بنائے افسانے کے طور پر دیکھے، بہت لمبے خواب بھی دیکھے، قسطوں میں میں کوئی خواب نہیں دیکھ سکا اب تک، بار بار دکھائی دینے والے خواب بھی دیکھے اب بھی اپنے خواب دیکھتا ہوں اور ان پر لکھتا رہتا ہوں۔

نیر مسعود کے افسانے انھیں خوابوں کی تحریری صورت ہے، انھوں نے کھلی آنکھوں سے سے اودھ کی تاراجی دیکھی، معاشرے کو دوسرے قالب میں ڈھلتے ہوئے دیکھا، ان کا خواب کھلی آنکھوں کا خواب تھا جس میں زندگی کے چھوٹے سے لے کر بڑے موضوعات تک شامل تھے، ننگی آنکھوں سے دیکھے گئے خواب کو انھوں نے صفحہ قرطاس پر  بہت ہی سادہ الفاظ میں درج کر دیا، ان سادگی میں تہذیبی اور معاشرتی کشمکش کی ایک دنیا آباد ہے جس کی بازیابی پوری طرح نقاد اور حساس قاری پر منحصر ہے۔

 

Nisar Ahmad

Room No.: 217, Chandrabhaga Hostel, JNU

New Delhi - 110067

ماہنامہ اردو دنیا، نومبر 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں