28/10/25

خلیل علی خاں اشک،ماخذ: ارباب نثر اردو، مصنف: سید محمد، مرتب: رحیل صدیقی

 اردو دنیا، مئی 2025

 

فورٹ ولیم کالج میں خلیل علی خاں ہی ایک ایسے مولف ہیں جن کی کتاب تو بے حد مقبول اور رائج ہوئی مگر وہ اس کی بدولت مشہور ہونے کے بجائے بالکل پردۂ گمنامی میں رہے۔ ’قصۂ امیر حمزہ‘ کے نام سے ہندوستان کا بچہ بچہ واقف ہے۔ اس زمانے میں بھی جب کہ اردو زبان نے ترقی کے کئی مدارج طے کرلیے ہیں اور اس میں ناولوں، قصوں، مختصر افسانوں کا کافی ذخیرہ موجود ہے اور روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔امیرحمزہ کے شائق اکثر جگہ نظر آتے ہیں اور اب بھی اس کتاب کو تھوڑی بہت مقبولیت حاصل ہے مگر یہ عجیب اتفا ق ہے کہ خلیل علی خاں کی محنت شاقہ نے ان کو نام و نمود سے اب تک بالکل محروم رکھا اور شاید یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ان کا نام ان کے اپنے کارناموں کے ساتھ اردو داں پبلک سے متعارف کرایا جارہا ہے۔ انھوں نے جس کاوش و محنت سے داستان امیر حمزہ سی ضخیم کتاب جو کئی سو صفحات پر مشتمل ہے لکھی ہے اس کی داد دینا تو کجا آج تک کسی نے اس خصوص میںان کا ذکر بھی نہیں کیا۔1

ہم نے اردو شاعروں کے تقریباً تمام تذکروں کی ورق گردانی کی مگر ان کا حال کسی میں نہیں ملا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ان کے حالات وغیرہ کے متعلق بہت کم معلومات رکھتے ہیں۔ ان کی مولفہ کتابیں بھی ان کے حالات پر کچھ روشنی نہیں ڈال سکتیں۔2 جہاں تک ہمیں معلوم ہے مولوی عبدالحق صاحب مدیررسالہ اردو نے ’اہل یورپ نے اردو زبان کی کیا خدمت کی‘ کے عنوان سے جو مضمون فورٹ ولیم کالج کے ادبی کارناموں پر لکھا ہے اس میں خلیل علی خاں کا ذکر ہے مگر صرف اتنا ہی کہ انھوں نے 1809 میں کپتان ٹیلر کے حکم سے ’اکبرنامہ‘ علامی ابوالفضل کو ’واقعات اکبر‘ کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا جو شائع نہیں ہوا۔ (رسالہ اردو نمبر 151، ص 485)

پھر مولوی محمد یحییٰ صاحب تنہا نے اپنی کتاب میں ان کا جو ذکر کیا ہے وہ سراسر مولوی عبدالحق صاحب کے بیان کی نقل ہے اور اس میں ایک لفظ کا بھی اضافہ نہیں ہوا۔ (سیرالمصنّفین، ص 136) ان دونوں نے خلیل علی خاں کو خلیل اللہ خاں لکھا ہے مگر ہمارے پیش نظر ان کی جو کتاب ہے اس میں صاف طور پر خلیل علی خاں مندرج ہے اور اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔3 ہم آگے کسی موقعے پر اشک کا وہ بیان نقل کردیں گے جس سے ان کا اصل نام معلوم ہوسکتا ہے۔ افسوس ہے کہ اشک نے اپنے آبا و اجداد اور مولد وطن کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں لکھا۔ ان کی تاریخ ولادت، مقام پیدائش اور تعلیم و تربیت تک کا حال معلوم نہیں۔4 بہرحال صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ ابتداً کالج کے تنخواہ یاب منشی نہیں تھے۔ غالباً ڈاکٹر گلکرسٹ کے ایما سے اپنے طور پر پہلے یہ کتاب مرتب کی ہوگی او رپھر کالج کے متوسل ہوگئے۔

چار کتابیں ان کی یادگار ہیں۔6 ان میں سے پہلے قصہ امیرحمزہ ہے۔ یہ طولانی اور ضخیم قصہ ڈاکٹر گلکرسٹ کے ایما سے1215ھ (1801) میں لکھا گیا۔ اس قصہ کے اصل مصنف کے متعلق مختلف خیالات ہیں اور کوئی قطعی و یقینی رائے قائم کرنا مشکل ہے۔ ہمارے پیش نظر جو نسخہ ہے اس میں اشک نے لکھا ہے کہ یہ قصہ سلطان محمود غزنوی (998 تا 1030) کے خوش کرنے اور اس فاتح کو ملک گیری و کشورکشائی کے لیے آمادہ و تیار رکھنے کے لیے کئی ایک راویوں اور داستان گویوں نے چودہ جلدوں میں تصنیف کیا۔ ایک اور موقعے پر اشک نے ہی اس کو ملا جلال بلخی سے منسوب کیا ہے۔ برٹش میوزیم میں ایک فارسی نسخہ محفوظ ہے۔ اس میںاس کا مصنف شاہ ناصرالدین احمد کو بتایا گیا۔ اسی میوزیم میں دوسرا نسخہ ابوالعلائی کے نام سے منسوب ہے۔ بعض لوگوں نے اس کو فیضی کے تخلیقی دماغ کی پیداوار بتایا ہے۔ غرض وہ مثل ہے جتنے منھ اتنی باتیں۔ ہماری دسترس  میں اصل فارسی نسخے نہیں ہیں اور شاید ہندوستان میں بہت ہی کم جگہ فارسی نسخے موجود ہوں گے۔ ایسی صورت میں ہم اس کے اصل مصنف کے متعلق کوئی صحیح اور معتبر بات بلا تحقیق کے نہیں بیان کرسکتے۔ پھر یہ بھی شبہ ہے کہ یہ قصہ ابتداً عربی میںبھی لکھا گیا یا فارسی ہی میں تصنیف ہوا۔ خلیل علی خاں اشک اور دیگر ہندوستانی مولفین کے نسخے جو دستیاب ہوئے ہیں ان سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اصل نسخہ فارسی میں اتنا طویل نہ تھا۔ ان لوگوں نے اس میں ہندوستانی عنصر کو داخل کرکے اپنا لیا ہے اس پر ہم ذرا تفصیل سے بحث کریں گے۔

جیسا ہم نے ابھی اوپر لکھا ہے اشک نے اس کو 1215ھ (1801) میں مرتب کیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان سے پہلے اردومیں کسی نے توجہ نہیں کی تھی اور سب سے پہلے اشک نے ہی اس کو صاف زبان میں نوآموز ان اردو کے لیے تالیف کیا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

’’مخفی نہ رہے کہ بنیاد اس قصۂ دلچسپ کی سلطان محمود بادشاہ کے وقت سے ہے اور اس زمانہ میں جہاں تک راویان شیریں کلام تھے انھوں نے آپس میں مل کر واسطے سنانے اور یاد دلانے منصوبے لڑائیوں اور قلعہ گیری اور ملک گیری کے خاص بادشاہ کے واسطے امیر حمزہ صاحب کے قصہ کی چودہ جلدیں تصنیف کی تھیں۔ ہر رات ایک داستان حضور میں سناتے تھے انعام واکرام پاتے تھے۔ اب شاہ علی جاہ عالم بادشاہ کے عہد میں مطابق 1215 ہجری اور سنہ اٹھارہ سو ایک عیسوی کے خلیل علی خاں جو متخلص بہ اشک ہے حسب خواہش مسٹر گلکرسٹ صاحب عالی شان والا مناقب بنا پر آموز ان زبان ہندی اس قصہ کو اردوئے معلی میں لکھا تاکہ صاحبان مبتدیان کے پڑھنے کو آسان ہووے۔‘‘

اشک کے نسخے پر بحث کرنے سے قبل ایک نظر مروجہ اور جدید نسخوں پر بھی ڈال لینی ضروری ہے۔ مروجہ نسخوں میں سب سے پہلے منشی نول کشور کا مرتب کرایا ہوا نسخہ ہے۔ اس کو حافظ سید عبداللہ بلگرامی نے ترتیب دیا تھا او ربیان کیا جاتا ہے کہ انھوں نے بڑی محنت سے تعقید عبارت دور کرکے اردوئے معلی کا جامہ پہنایا۔ یہ نسخہ بہت مقبول ہوا۔ چنانچہ چند ہی مہینے میں پہلا ایڈیشن ختم ہوگیا پھر دو ایڈیشن اور شائع ہوئے، چوتھی مرتبہ نول کشور پریس کے مشہور مصحح سید تصدق حسین مرحوم نے جو عربی فارسی کے بڑے عالم تھے اور جن کی یادگار فارسی کی متداولہ و مشہور لغت ’لغات کشوری اب تک مقبول  خاص و عام ہے، اس کی نظر ثانی کی۔ تصدق حسین لکھنؤ کے باشندے تھے اور ان کی زبان عربی و فارسی سے اس قدر متاثر تھی کہ ان کی ہر عبارت سے عربیت اور رنگینی ٹپکتی ہے۔ انھوں نے نظرثانی میں اس کو تکلفات و آرائشات لفظی سے ’فسانۂ عجائب‘ کا جواب بنا دیا  اور جابجا اپنی طرف سے اضافے کیے اور خود بھی بڑے افتخار کے ساتھ دعویٰ کیا ہے کہ بطور نثر ’فسانۂ عجائب‘ ترتیب دیا۔‘‘ اس سلسلے میں انھوں نے درپردہ خلیل علی خاں کی عبارت کو تعقید سے معمور کہا ہے اور اس کو صاف زبان میں لکھنے کا سہرا حافظ سید عبداللہ بلگرامی کے سر باندھا ہے مگر یہ سراسر غلط ہے۔ اشک کی عبارتیں بے حد صاف و سلیس ہیں۔ آگے ہم دونوں کی تھوڑی تھوڑی عبارت جو ایک ہی مضمون سے متعلق ہے نقل کرکے اس غلط بینی کا پردہ فاش کردیں گے جس سے اصل حقیقت ظاہر ہوجائے گی۔

تصدق حسین کا مصححہ نسخہ بھی بہت مقبول ہوا۔ اب تک اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ ان کا طرز بیان جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے بالکل فسانۂ عجائب کی تقلید ہے اور ان کو خود بھی نہ صرف اعتراف بلکہ اس پر افتخار ہے۔ اس میں سادگی اور صفائی نام کو نہیں۔ اس نقص کے بعد بھی اس کا مقبول ہونا قوم کی تکلف پسندی اور بگڑے ہوئے مذاق کی دلیل ہے۔ ہر ملک اور قوم کی تاریخ ادبیات میں ایک دور ایسا ضرور ملتا ہے جب کہ ادب سے اصلیت دور ہوجاتی ہے اور بجائے معنوی خوبیوں کے لوگ ظاہری محاسن اور لفظی آرائشات کو پسند کرنے لگتے ہیں، صفائی اور سادگی پر تکلفات اور صنائع بدائع کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ایسا زمانہ حقیقی ادب کی پیداوار سے محروم رہتا ہے اور اس کا لٹریچر ادب عالیہ نہیں بن سکتا۔ اس کی بہار صرف چند روزہ ہوتی ہے اور کاغذی پھولوں کی طرح وہ بھی ایک محدود عرصے تک پبلک کو مرغوب طبع رہ کر فنا ہوجاتا ہے۔ انگریزی ادبیات میں پوپ اور اس کے مقلدین کی شاعری کا بھی یہی حال ہے۔ فارسی کے متاخر غزل گو یوں کی بھی یہی کیفیت ہے، خیالات میں اصلیت سادگی اور جوش مفقود ہے صرف الفاظ ہی الفاظ ہیں جس میں تاثیر نہیں۔ اسی طرح فارسی کے متاثر نثر نویسوں کے کارنامے بھی اصلیت سے دور ہیں۔ چہار مقالہ، نظامی عروضی، سفرنامہ حکیم ناصر خسرو کے مقابلہ میں سہ نثر ظہوری اور رسائل طغرائے مشہدی  کو ہمیشہ ہرگز فروغ حاصل نہیں ہوسکتا۔ ایک میں بقائے دوام کے آثار ہیں اور دوسرے میں چند روزہ لطف اور وقتی پسندیدگی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اردو میں سرور کے ’فسانۂ عجائب‘ اور تصدق حسین کی مصححہ داستانِ امیرحمزہ اور اس قسم کی دوسری کتابوں کا بھی یہی حال ہے۔ جس طرح اردو شاعری کا مذاق بگڑتے بگڑتے صرف لفاظی اور نقالی رہ گئی۔ نثر نویسی بھی اس قعر میں گرپڑی اور چونکہ ایک زمانہ میں رنگینی طبع اور غفلت سے یہی طرز بیان مقبول تھا اور ان کتابو ںکو بھی مقبولیت مل گئی مگر اب علوم جدیدہ کی ترقی کے ساتھ قوم کے مذاق میں بھی تبدیلی پیدا ہوچلی ہے اور اس قسم کی کتابوں سے عوام کو وہ دلچسپی باقی نہیں رہی جو پہلے تھی۔ اسی داستان امیرحمزہ کو لیجیے اب سے گیارہ سال پیشتر اس کا بارہواں ایڈیشن شائع ہوا تھا۔ دوبارہ اب تک چھپنے کی نوبت نہیں آئی۔ اگرچہ اب قدیم قصوں کی طرف سے ان کی فوق العادت اور خلاف فطرت باتوں کی وجہ سے لوگوں کی دلچسپی کم ہوتی جارہی ہے مگراشک کے ’قصۂ امیر حمزہ‘ اور اس کے ساتھ کی بعض دیگر کتابوں میں ایسے جوہر ضرور موجود ہیں جو پھر ایک بار ان کو مقبولیت دلا سکتے ہیں۔ جب افسانہ کا احیا ہوگا توبہ لحاظ اصلیت و سادگی ان قصوں کو بعد کی مرصع او رپرتکلف کتابوں پر ترجیح حاصل ہوجائے گی اور خود اس وقت بھی اس کے آثار پائے جاتے ہیں۔ آج کل ’فسانۂ عجائب‘ کو وہ مقبولیت حاصل نہیں جو ’باغ و بہار‘ کو ہے۔

خلیل علی خاں کا طرز بیان نہایت سلیس اور بے تکلف ہے۔ انھوں نے میرامن اور شیر علی افسوس کی طرح دہلی کے ٹھیٹ محاوروں او ر روزمرہ کو اپنا اوڑھنا بچھونا نہیں بنایا بلکہ سنجیدہ عبارت آرائی کی ہے۔ زبان میں گھلاوٹ بھی ہے اور سادگی بھی، ہندی اور فارسی الفاظ کا استعمال نہایت مناسب تناسب کے ساتھ کیا گیا ہے اور اکرام علی کی طرح زبان میں روانی اور صفائی بے حد ہے۔ کوئی فقرہ ضرورت سے زیادہ طویل نہیں معلوم ہوتا۔ بعض الفاظ جو اب تک متروک ہوگئے ہیں اس میں بھی پائے جاتے ہیں مگر ان کے دیگر معاصرین کے مقابلہ میں اشک کے ہاں ایسے متروکات کی تعداد بہت کم ہے۔ بعض جگہ فارسی ترکیبیں اور چھوٹے چھوٹے فارسی ٹکڑے بھی رکھے گئے ہیں مگرایسی طویل کتاب میں ان سب کا استعمال برا نہیں۔ اس سے بجائے مصنوعیت  پیدا ہونے کے اصلیت کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔

امیر حمزہ کی داستان اردو ادبیات میں عجیب اہمیت رکھتی ہے۔ پہلے ہی یہ قصہ چار جلدوں میں لکھا گیا تھا۔ منشی محمد حسین جاہ اور منشی احمد حسین قمر نے اس کے مضمون کو طوالت دے کر اور حاشیے چڑھا کر کئی جلدیں طلسم  ہوش ربا کی تیار کیں، پھر دوروں نے اس سلسلے کو اور آگے بڑھایا اور شبدیز قلم کی جولانیوں سے طلسم ہفت پیکر، طلسم نوروزی جمشید، ایرج نامہ، اختر نامہ وغیرہ خداجانے کتنے ناموں سے اس سلسلے کی جلدو ںپر جلدیں تیار کیں۔7 غرض انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا (قاموس العلوم برطانیہ) کی طرح اس سلسلہ کا ایک اچھا خاصا کتاب خانہ بن گیا اور داستان پسند پبلک کی ضیافت طبع کے لیے اتنا وافر ذخیرہ جمع ہوگیا کہ عمرکا بہت بڑا قصہ اس کے مطالعہ کی نذر ہوجائے۔

قصۂ امیرحمزہ کے رجال داستان میں عرب و عجم کی مشاہر ہستیوں کی عجیب آمیزش ہے۔ ایک طرف امیر حمزہ، عمرو عیاراور مقبل کی سیرتیں عربی ہیں تو دوسری طرف بزرچمہر، بحثک، قباد اور نوشیرواں وغیرہ خالص ایرانی ہیں۔ پھر تاریخی اور افسانوی شخصیتوں کو عجیب انداز سے مدغم کیا گیا ہے۔ بعض رسمیں اور طریقت خالص ایرانی ہیں جس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ یہ قصہ ابتداً فارسی ہی میں تصنیف ہوا تھا۔ جیسے اڑتے ہوئے پرندوں میں سے کسی خاص پرندے کو تاک کر تیر مارنا اور اگر تیراسی کے لگے تو اس سے اپنے مقصد میں کامیابی و موافق مرام نتیجے کی فال لینا، جس کو فال گوش کہتے ہیں۔ یہ خالص ایرانی دستور ہے۔ اس کے علاوہ ساری داستان میں بہت سی باتیں خالص ہندوستانی بھی ہیں جن سے صاف طور پر ثابت ہے کہ اردو میں منتقل کرتے وقت مترجم کے دماغِ رسا نے یہ اضافے کیے ہیں اور اصل قصے کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا ہے۔ مثلاً مدرسہ میں عمرو عیار کی شرارتوں کی جو تفصیل دی ہے وہ سب  ایسی شرارتیں ہیں جو نہ صرف ہندوستانی طلبہ میں پائی جاتی ہیں بلکہ خاص اسی ملک کی چیزیں ہیں یا عمرو عیار ایک دفعہ نوشدارو حاصل کرنے کے لیے مدائن جاتا ہے یاور وہاں اپنے آپ کو گاؤں کا باشندہ بتاتا اور نوشیرواں سے دیہاتی زبان میں گفتگو کرتاہے۔ اس موقعے پر قصہ نویس نے جو زبان استعمال کی ہے وہ صوبۂ اودھ کے ایک گاؤں کی ہے۔ عمرو و عیار کا ایک دفعہ سمندر میں ایک کشتی سے ٹاپو پر کود پڑنا اور پھر ایک موقعے پر ساحل پر اترتے ہی تسمہ پا اشخاص کا نظر آنا، یہ ٹکڑے الف لیلہ سے ماخوذ ہیں۔ اسی طرح سر اندیپ کے بادشاہ لندھور سے لڑنے جانے سے قبل امیر حمزہ کا محل نوشیرواں میں بلایا جانا اور ان کی اس شرط پر کہ فتح و کامیابی کے بعد مہرنگار دختر نوشیرواں سے ان کا عقد کردیا جائے ان کو شربت پلانا اور پان کی گلوریاں دینا خالص ہندوستانی رسمیں ہیں، جن کو ایران سے کچھ علاقہ نہیں۔ قصہ نویس نے القش وزیر کے اس تخت کی ساخت کا تخیل جو اس نے بادشاہ قباد کے لیے بنایا تھا، شاہ جہاں کے تخت طاؤس سے لیا ہے۔ غرض پوری داستان میںایسی بیسیوں باتیں ہیں جن سے بخوبی واضح ہے کہ یہ مترجم کے حواشی ہیں اور اس نے قصہ کو اپنا لیا ہے۔

یوں تو اس قصہ کے اکثر و بیشتر رجال داستان میں فوق العادت اور بعض مرتبہ خلاف عقل باتیں  بھی دکھائی گئی ہیں مگر ساری داستان میں سب سے زیادہ اہم کردار عمروعیار کا ہے۔ عمرو عیار اس قصے کی جان اور مرکز ہے۔ اس کے کردار میں عجیب و غریب گل کاریاں کی گئی ہیں اور اس کو ایسا چال باز مبارز طلب اور مہم باز بتایا گیا ہے کہ اس کے آگے یورپ کے ازمنہ وسطیٰ کے جنگجو نائٹ اور اڈونچرر کوئی حقیقت نہیں رکھتے، مگر اس کے کردار میں شروع ہی سے بری خصلتیں اور طمع اور چال بازی کے عناصر شامل کرکے اس کو نیکی سے دور بتایا ہے۔ غرض اس، سردار عیاران، سے ایسے ایسے کارنامے منسوب کیے گئے ہیں کہ عقل انسانی سے باہر ہیں۔

ذیل میں ہم ایک ہی مضمون کے متعلق اشک اور تصدق حسین دونوں کے نسخوں سے ایک بیان نقل کرتے ہیں۔ ان دونوں میں وہی فرق ہے جو اصل اور نقل، اصلی پھول اور کاغذی پھول میں ہوتاہے۔ ایک سرتاپا صفائی، سادگی اور اصلیت کا نمونہ ہے اور دوسرا بالکلیہ مرصع مسجع، تکلف اور مصنوعیت کا مظہر ہے۔

حکایت: ’’یہاں سے دو کلمہ داستان ملک القش کے ملاحظہ فرمائیے، جب کہ وہ باغ تیا رہوا۔ ایک دن بادشاہ کے حضور میں عرض کی، غلام نے ایک باغ حضور کی بدولت بنایا ہے اور بندہ امیدوار ہے کہ ظل سبحانی وہاں رونق افروز ہوکر ایک چمچہ آش نوش جان فرمائیں کہ باعث عزت و ازدیاد خانہ زاد ہے۔ مصرع

شاہاں چہ عجب گر بنوا زند گدا را

فرمایا کہ مضائقہ تم جاکر تیار کرو ہم بھی آتے ہیں۔ القش حضور سے رخصت ہوکر واسطے تیار کے آگے گیا۔ بعد اس کے جانے کے بادشاہ بھی زمرد کے تخت پر سوار ہوکر اور تمام وزرا وا مرا ہمراہ لے کر طرف باغ بیداد کے رونق افزا ہوئے۔ جب کہ سواری باغ کے قریب آئی ملک القش نے ایک تخت ہوادار واسطے بادشاہ کے ایسا تیار کیا تھا کہ اس میں گل بوٹے لعل اور الماس کے تھے اور چاروں کونوں پر اس کے چار طاؤس زمرد کے بنائے گئے تھے جنھوں کے پیٹ میں لخلخے خوشبو کے رہتے تھے اور واسطے تخت کی شان کے طاؤس کے پہلو میں دونوں طرف ایک ایک نرگس دان رکھا تھا جن کے کونے مرصع کے مثل زمرد سرسبز تھے اور الماس کے پھول جنھوں کی زردی پکھراج کی سی تھی۔ اس کو معہ ہودجوں اور چالیس ہاتھیوں جن پر جھولیں زربفت کی پڑی ہوئیں اور عماریاں کارزری و جواہرنگار انھوں کی پیٹھ پر کسی ہوئی اور دو سو گھوڑے عربی، عراقی، ترکی، تازی معہ جواہر مرصع اور کئی اونٹ بغداد کے دو کوہانی کہ جن کے کجاؤں پر کار چوبی زربفت کی چادریں کسی ہوئی تھیں اور کتنے خیمے کتنی کشتیاں سلاح اور جواہرات کی اور پارچہ جات سوتی اور ریشمی اور پشمینے اپنے ساتھ لیے اور باہر کے جلوخانے تک استقبال کرکے بادشاہ کو یہ سب نذر گزرانا اور تخت کا پایہ پکڑ کر بوسہ دیا اور ہمراہ ہوا۔ جب کہ بادشاہ باغ کے اندر گئے دیکھا تو عجب گلزار ہے کہ شاید کہیں ایسا نہ ہوگا۔ اس کی وہ چار دیواری سنگ مرمر کی جس میں تمام فیروزے کی تحریر اور طرح بہ طرح کی بیل ہے اور نیچے زمرد کے اور خوشے موتیوں کے لگے ہوئے ہیں، اور وہ صاف روشنی سبزے کا عالم ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا پھولوں کی خوشبو ہر دم جس سے دماغ کو قوت ہوتی تھی۔ کیاریاں اقسام اقسام کی، گلزار ہر قسم کے پھول جس میں پھولے ہوئے مثل گل لالہ نافرمان بابونہ گیندا، جوہی سوسن چنبیلی، موتیا، موگرارائے بیل، گلاب، سیوتی، کلفا، گل مہدی، گل شبو، نرگس، داؤدی ہر ایک طرح کلی بہار تھی اور دونو ںطرف روش کے  دو بڑے پیڑ چمپا اور مولسری کے بہت خوبصورت پھولے جن کی تمام ٹہنیوں پر اور شاخوں پر غرارے بادلے چڑھے ہوئے۔ وہ منہدی اور رائے بیل کی ٹہنیوں پر شان، وہ چوپڑ کی نہر مثل لوح الماس بلب پانی کے چہار طرف گئی کہ جس کے فوارو ںپر ہزارہ کی جاطوطے، بلبل، فاختہ، مور، عندلیب جواہرات کے بنے ہوئے، جن کے پروبال سے ہزارہ چھٹا ہوا ایک لطف دیتا تھا اور سفید عالم عمارت کا جس میں سنہری رو پہلی الماس تراش استادوں پر تمام تمامی کے سائبان کھینچے ہوئے کہ جن میں سراسر موتیوں کی جھالر تھی اور سونے کی تیلیوں کی چلمنیں مینے سے رنگی ہوئیں۔ پوٹی داروں پر کلابتوں کی ڈوریوں کی زربفت کے پردوں کے ساتھ بندھی ہوئی۔ غرض بادشاہ اس باغ کو دیکھ کر اپنے باغ کو بھول گیا۔ (قصۂ امیر حمزہ ازاشک، ص 7)

’’حکایت: نخلبندان بوستانِ اخبار، چمن پیرایان گلستاں اظہار، تختہ کاغذ صاف میںاس طرح اشجار الفاظ موقع موقع پر نصب فرماتے ہیں۔ صحن شفاف قرطاس کو گل و ریاحین مضامین رنگارنگ سے یوں رشک تختہ ارژنگ بناتے ہیں کہ جب باغ بیداد تیار ہوا نمونہ بہشت شداد نمودار ہوا۔ القش خوشی سے پھول گیا۔ فکر دارین بھول گیا۔ فرط مسرت سے پھولا نہ سماتا تھا۔ جامہ تن سے باہر ہوا جاتا تھا۔ بادشاہ کی خدمت میں عرض کیا کہ غلام نے حضور کی بدولت و اقبال ایک باغ تیار کیا ہے۔ انواع انواع کے درخت ثمردار اور گل بوٹے کے لگائے ہیں۔ دور دور سے بہ صرف زرکثیر نادر نادر درخت منگوائے ہیں، باغبان نادر کارنخلبندی میں ہوشیار بہم پہنچائے ہیں۔ ہزارہا روپیے صرف کرکے سیکڑوں استاد اس فن کے بلوائے ہیں، ہر ہر شخص یکتائے زمانہ ہے اپنے اپنے ہنر میں یگانہ ہے۔ بیل بوٹے ایسے لگائے ہیں کہ مانی و بہزاد اپنی صنعت سے شرمائے ہیں مگر جاں نثا رکی نظروں میں سماتا نہیں خزاں کا رن باغ میں معلوم ہوتا ہے۔ جب تک ظل سبحانی خلیفۃ الرحمانی کا قدم مبارک اس میں جاتا نہیں۔ ناسخ        ؎

سرسبز ہو جو سبزہ تیرا پائمال ہو

ٹھیرے تو جس شجر کے تلے وہ نہال ہو

امیدوار ہوں کہ حضرت خاقان جہاں نوشیرواں زبان بطریق گل گشت کبھی اس طرف توجہ فرمائیں۔ خانہ زاد موروثی کا رتبہ فلک اعظم تک پہنچائیں۔ حضرت کے قدموں کی برکت سے باغ میں بہار آجائے ہر گل غنچہ اپنا اپنا رنگ دکھائے۔ ازراہ غلام نوازی اگر دو ایک میوے نوش جان فرمائیں غلام کو ثمر مراد حاصل ہو۔ اشجار امیدبار لائیں۔ بادشاہ نے اس کے التماس کو قبول فرمایا۔ معروض ہے اس کا درجہ اجابت میں لایا۔ القش نے تسلیم بجا لا کر نذر گزارنی۔ رخصت ہوا باغ میں آکر سامان دعوت کرنے لگا۔ آناً فاناً سب اسباب ضیافت کامہیا ہوگیا۔ اقسام اقسام کے کھانے تیار ہونے لگے۔ طرح طرح کے کھانے کشتیوں میں چنے گئے۔ ارباب نشاط کو حاضری کا  حکم ہوا۔ آتش بازوں نے آتش بازی کا موقع ڈھونڈھ رکھا۔ روشنی کا سامان ہونے لگا۔ ہزارہا گلاس چڑھ گیا۔ جھاڑ فانوس دیوار گیریاں صاف ہونے لگیں۔ مومی کافوری شمعیں چڑھائی گئیں۔ تھوڑی دیر کے بعد بادشاہ جم جاہ فلک رفعت خورشید طلعت دادگر انصاف پرور معہ ارکان دولت واعیان سلطنت بہار افزائے باغ بیداد ہوا القش کا شجر مقصود بار لایا۔‘‘ (داستان امیرحمزہ از تصدق حسین، ص 15)

اشک کے نسخے سے اوپر ہم نے جو حکایت نقل کی ہے وہ ان کی رنگین بیانی کا بہترین نمونہ ہے اور ساری کتاب میں اس سے زیادہ مصرع اور رنگین بیان کوئی نہ ملے گا مگر تصدق حسین  کے نسخہ سے جو عبارت نقل کی گئی ہے ہم نے قصداً اسی پر اکتفا کیا اور یہ بھی طویل ہے۔ اس کے بعد تخت اور باغ کا جو نقشہ انھوں نے کھینچا ہے اور اتنا طویل ہے کہ ہم کو بہ خوف طوالت چھوڑ دینا پڑا۔ اس کی رنگینی و آرائش کے لیے یہ کہنا کافی ہے      ؎

قیاس کن ز گلستان من بہار مرا

واقعات اکبر

اشک کا دوسرا اور قابل قدر کارنامہ ’واقعات اکبر‘ ہے۔ انھوں نے 1809 میں کپتان ولیم ٹیلر کے ایما سے علامی ابوالفضل کی مشہور کتاب ’اکبرنامہ‘ کا اردو میں اس نام سے ترجمہ کیا تھا۔ یہ بدقسمتی سے شائع نہیں ہوا۔ یورپ کے بڑے بڑے کتب خانوں میں بھی اس کے قلمی نسخے یا مسودہ موجود نہیں ہے۔ اکبر نامہ جیسی سفید اور اہم کتاب ہے اس کے اظہا رکی ضرورت نہیں۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ اشک کا یہ ترجمہ دست بردزمانہ سے محفوظ ہے یا نہیں۔ اگر یہ کتاب دریافت و شائع ہوجائے تو ہماری تاریخ کے سرمایہ میں ایک بیش قیمت اضافہ ہوگا۔

مولوی نصیرالدن صاحب ہاشمی نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ انھیں رائل ایشیاٹک سوسائٹی لندن کے کتب خانے میں اشک کی دو اور کتابیں ملی ہیں:

(1)  قصۂ گلزار چین  (2) رسالہ کائنات

ان میں سے پہلی کتاب چین کے شہزادہ رضوان شاہ اور روح افزا پری زادبادشاہ اجنہ کی لڑکی کے معاشقے کی داستان ہے۔ یہ فارسی کے ایک مشہور قصے کا ترجمہ ہے۔ اشک نے اس کو ہنری بولٹ کے لیے 1229ھ (1804) میں مرتب کیا ہے۔ اس قصے کو قطب شاہی شاعر فائز 1094ھ (1683) میں اور پھر مولانا باقر آگاہ نے 1211ھ (1797) میں نظم میں ترجمہ کیا ہے۔ اشک کے ترجمہ کا نمونۂ عبارت یہ ہے:

’’بلادچین میں ایک بادشاہ عادل و بازل، رعیت پرور، غریب نواز دادگستر ایسا تھا کہ اقلیم سبع آفتاب مہتاب کی شکل اس کے فیض سخاوت و عداوت سے روشن تھی۔ جناب باری نے اسے ہر ملک کی شہریاری دی تھی۔ روز و شب عیش و عشرت میں رہتا تھا۔ اس کے شہر میں دن عید اور شب شب برات تھی۔ کسی کو کسی بات کا غم نہ تھا۔ بادشاہ کو سدا ایک غم فرزند رہتا تھا۔ اس کے گھر میں اولاد نہ تھی۔‘‘

رسالہ کائنات جو ایک مختصر سا رسالہ ہے۔ 1217ھ مطابق 1803 میں ڈاکٹر جان گلکرسٹ کی فرمائش سے مرتب کیا گیا ،جس کی مصنف نے دیباچہ کتاب میں صراحت کی ہے۔ ہاشمی صاحب نے اس کا کوئی نمونہ نقل نہیں کیا۔

خلیل علی خاں کے تخلص اشک سے معلوم ہوتا ہے کہ ضرور شاعر ہوں گے۔ اس زمانے میں شاعری کا گھر گھر چرچا بھی ان کے شاعر یا ناظم ہونے کا خیال پیدا کرتا ہے۔ اول تو ان کا ذکر ہی کسی تذکرہ میں نہیں۔ پھر انتخابی اشعار ملیں تو کہاں سے۔ ان کا کوئی دیوان ہی نہیں،جس سے دو چار شعر مل سکیں۔ قصۂ امیر حمزہ میں کہیں کہیں ایک آدھ ان کا طبع زاد شعر مل جاتا ہے مگر وہ ان کی شاعری کا کوئی اچھا نمونہ نہیں ہوسکتا۔ اتنا ضرور ہے کہ وہ بہت ہی پست درجہ کے شاعر تھے اور ہم ان کو ناظم یا قافیہ پیما کہہ سکتے ہیں۔ ان کا یہ حال معلوم ہوتا ہے کہ تفنن طبع کے طور پر کبھی کچھ کہہ لینا اور کسی موقع پر قافیہ پیمائی کردی۔

n

ماخذ:  ارباب نثر اردو، مصنف: سید محمد، مرتب: رحیل  صدیقی، دوسری طباعت: 2019، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

غیاث احمد گدی کی افسانہ نگاری، مضمون نگار: عبد الرزاق زیادی

 اردو دنیا، مئی 2025


غیاث احمد گدی(1928-1986) کا شمار اردو کے ممتاز افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔آزادی کے بعد اردو فکشن بالخصوص اردو افسانے کو اپنے فکر و فن اور طرز اسلوب کے ذریعے جن تخلیق کاروں نے بہت متاثر کیا اور اس میں اپنانمایاں نقش ثبت کرنے میں کامیاب رہے۔ ان میں ایک اہم اور معتبر نام غیاث احمد گدی کا بھی ہے۔ غیاث احمد گدی نے چوتھی کلا س پاس ہونے کے باوجود نہ صرف اردو زبان و ادب کی بیشتر کتابیں پڑھ لی تھیں بلکہ بہت جلد ان کی کہانیاں اس عہد کے بیشتر رسائل و جرائد کی زینت بن چکی تھیں۔ غیاث احمد گد ی کی پہلی کہانی ’دیوتا‘ کے نام سے 1947 میں ’ہمایوں‘ میں لاہور سے شائع ہوئی۔ پھر یکے بعد دیگرے ان کے متعدد افسانے چھپتے چلے گئے۔ بابالوگ (1969)، پرندہ پکڑنے والی گاڑی (1977) اور سارادن دھوپ (1985) غیاث احمد گدی کے تین افسانوی مجموعے اردو فکشن میںغیر معمولی اضافے ہیں۔ غیاث احمد گد ی نے کن حالات میں اپنی ادبی زندگی کا آغاز کیا اس پر روشنی ڈالتے ہوئے جمشید قمر لکھتے ہیں:

’’غیاث احمد نے زندگی کرنے کے لیے جس راہ کا انتخاب کیا، اس کا ایک سرا تو حالات کے آگے جھکنے کے بجائے ان کے خلاف نبر د آزمائی سے جا ملتاہے۔ ان جاں گسل حالات نے ان کی شخصیت میں درد مندی اور جاں گدازی کی ایسی صورت کو پیدا کیا جس نے ان کی تخلیقات کی باطنی ساخت میں مستقل عنصر کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ میرے خیال میں اپنے خاندان کے سفاکانہ رویوں نے ہی ان کی زندگی کے حالات کو جاں گسل بنا دیاتھا۔ غالباً یہی سبب ہے کہ یہاں کے رہتے ہوئے بھی ان کے بھاگے بھاگے پھرنے کے احساس کی تہہ میں وہی محرومیاں اور نا آسودگیاں ہیں، جن کا سامنا انھوں نے اپنے خاندانی ماحول میں کیا۔ان کے بیشتر افسانوں میں افراد قصہ کی زندگی کے تجربے کی نوعیت اور اس کی تہہ میں یہی عناصر موجود ہیں۔ علاوہ ازیں بیانیہ کی تہہ میں نرم و مدھم، گھلتا پگھلتا جو لہجہ پوشیدہ ہے، اس کے عواقب میں وہی در دمندی اور جاں گدازی کے مستقل عناصر ہیں، جن سے غیاث کی زندگی اور فن دونوں کا خمیر اٹھتا ہے۔ ان کے تخلیقی ذہن کی سرشت ومزاج میں موجود ان عناصر کی تعمیر ان ہی اسباب و عوامل کے رہین منت ہیں جن سے غیاث زندگی میں بر سر پیکار رہے۔‘‘1

مذکورہ اقتباس سے اس بات کا اندازہ لگانا قطعی دشوار نہیں کہ غیاث احمد گدی کے فکر و فن کا خمیر کن حالات اور کس پس منظر میں ہوا تھا۔چونکہ غیاث احمد گدی کی پوری زندگی مصائب و آلام اور پریشانیوں سے گھری ہوئی تھی اس لیے ان کی بیشتر کہانیوں میں بھی ہمیں وہی فضا نظرآتی ہے۔ انھو ں نے اپنی کہانیوں میں ان مسائل و معاملات کو موضوع بنایا ہے جن کا تعلق ان کے گر د وپیش سے تھامگران کے فن کا کمال یہ ہے کہ ان میںکسی ایک شخص یا علاقے تک محدود نہیں۔ ان کی کہانیاں خواہ وہ ظلم و استحصال کی ہو، احتجاج و انحراف کی ہو، جنسی احوال کی ہو، غریبی و مفلسی کی ہو، سماجی پستی و افلاس کی ہو ہر ایک میں انسانی ہمدردی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ان کی کہانیوں میں انسان دوستی اور اس کے تحفظ کا اظہار قدم قدم پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ غیاث احمد گدی کے فکر و فن کا ذکر کرتے ہوئے وہاب اشرفی لکھتے ہیں :

’’غیاث کا سنجیدہ قاری ایک نظر میں محسوس کرے گا کہ وہ انسان دوستی کے بہت بڑے علمبر دار رہے ہیں۔ ان کا دل انسانی ہمدردیوں کی شیرینی سے بھرا ہے، اس حد تک کہ وہ ایسے افسانے میں بھی جہاں جارحانہ اور تشدد کی فضا تعمیر کرنے میں مجبور ہوتے ہیں وہاں بھی انسانی ہمدردی کی ازلی جبلت ان پر حاوی ہو جاتی ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ انھیں ایک Idealistکہہ دینا آسان معلوم ہوتا ہے۔ لیکن مثال پسند توکسی نہ کسی نقطۂ نظر کا پابند ہوتاہے۔کسی ازم کی حدو ں میں اسیر ہوتا ہے۔ حیات و کائنات کے بارے میں اس کا موقف واضح ہوتاہے اور اس کی نگارشات اسی موقف کی ترویج و اشاعت کا آلۂ کار ہوتی ہیں۔لیکن میں نے کہا ہے کہ غیاث کسی ازم کے پابند نہیں توپھر ان کی مثال پسندی کا کیا جواز ہے ؟‘‘2

وہاب اشرفی نے غیاث احمد گدی کے حوالے سے جن نکات کی طرف اشارہ کیا ہے ان میں ایک بڑی بات ان کا ہر طرح کے ازم سے آزاد ہونا ہے۔حالانکہ ان کے بعض افسانوں پر منٹو کا اثر ہے۔کرشن چندر اور بیدی، انتظار حسین اور قرۃا لعین کے طرز پر بھی انھوں نے اپنی کہانیاں لکھی ہیں۔ غیاث احمد گدی کے بعض افسانوں میں ترقی پسندیت کا رنگ غالب ہے تو کسی میں جدیدیت کے اثرات۔ لیکن ان سب کے باوجود غیاث احمد گدی کا کمال فن یہ ہے کہ انھوں نے خود کو کسی ازم یا تحریک کا پابند نہیں بنایا بلکہ اس کے برخلاف انھوں نے ہمیشہ اپنے تجربات و مشاہدات کو اپنا رہنما بنایا اور فنی سطح پر اپنے مشاہدات و تجربات کو قارئین کے سامنے پیش کیا۔ یہی وجہ ہے کہ غیاث احمد گدی کا جو اسلوب ہے اس میں قدم قدم پر فطری پن اور اوریجنلٹی کا احساس ہوتا ہے۔ان کی کہانیوں سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:

’’میں اس خوشبو کے بغیر کیسے زندہ رہ سکتا ہوں بے بی؟کیسے زندہ رہ سکتاہوں...؟‘‘

باہر ایک ہچکولے کے ساتھ جیپ کے رکنے کی آواز سنائی دی۔بڑھا انکل نے ہڑ بڑا کر آنکھیں کھول دیں۔ابھی کچھ پاتے پاتے اس نے کھو دیا۔پھر ا س کے کانوں میں جوتے کی آواز آئی۔ وہ چونک کر اٹھ کھڑا ہوا۔ کیچ بھری ہوئی آنکھوں کے کنارے آنسوؤ ں سے نم ہو رہے تھے۔اس نے ہا تھ اٹھا کر آستین سے آنکھیں پونچھ لیں۔

برآمدے کو عبور کر کے نئی میم صاحب اس کے سامنے آگئی۔ ’’یُو بڈھا۔ تم اور میں کیا کرتا۔‘‘  اس نے نفرت سے بڑھا انکل کو گھورا۔’’کیا چوری کرنا مانگتا‘‘۔

’’مومیم صاحب ایسا اپھک نہیں۔ اِدر بے بی ہے نا... وہ رک گیا۔’ کیاوہ سچ کہہ دے ؟نہیں !نئی میم صاحب ابھی بے بی کو بہوت گالیاں دے گی۔بہوت جھگڑا کرے گی۔سوتیلی ماں ہے نا!بہت تکلیف دے گی‘... اس کا دل لرز گیا۔‘‘3

اس اقتباس کے ہر لفظ اور جملے سے غیاث احمد گدی کی حقیقت نگاری اور فطری پن کا احساس ہوتا ہے۔ کہانی ’بابا لوگ‘ ہو یا اس کے علاوہ دیگر کہانیاں مثلاً پہیہ، افعی، سائے ہم سائے،خانے تہ خانے وغیرہ میں غیا ث احمد گدی کے فطری پن اور حقیقت نگاری کے عمدہ نمونے دیکھ سکتے ہیں۔ ان میں افسانہ نگار نے بڑی خوبصورتی اور فن کاری کے ساتھ انسانی زندگی کے مسائل و موضوعات کو اپنا موضوع بنا یا ہے۔ا س کے علاوہ ان میںعلاقائی ر ہن سہن،معاشرت و معیشت، لباس و پوشاک اور تہذیب و ثقافت کے ساتھ ساتھ وہاں کے فطری و قدرتی مناظر کی بڑی خوبصورت پیش کش موجود ہے۔ ان کہانیوں میں ہم غیاث احمد گدی کے یہاں ترقی پسند عناصر دیکھ سکتے ہیں۔ ان کے اولین افسانوی مجموعہ’با بالوگ‘ کی بیشتر کہانیوں میں بھی وہی رنگ اور فضا موجود ہے، لیکن جو ں جو ں ان کا سفر آگے بڑھتا گیا ان کے فن میں بھی تبدیلی آتی چلی گئی اور اس کا دائرہ ذات  سے کائنات تک پھلتا چلا گیا۔ اس سلسلے میں الیاس احمد گدی لکھتے ہیں:

’’شروع میں ان کا فن اس ندی کی طرح تھا جو پہاڑ سے اتر رہی ہو۔ سرکش، تند خو، پتھروں سے سر ٹکراتی، چٹانوں سے الجھتی، جھاگ اُڑاتی۔ مگر اب جیسے یہ ندی کھلے میدان میں اتر آئی تھی۔ اس میں وسعت بھی آگئی تھی اور گہرائی تھی۔ اور ایک طرح کا وقار بھی۔ انھوں نے غم ذات کو غم ِ کائنات تک پھیلا دیا تھا۔‘‘4

غیاث احمد گدی کے فن کا یہی ذات سے کائنات تک کا پھیلاؤ ان کے پہلے اور بعدکے افسانوںمیں فکری و فنی اعتبار سے کافی فرق و امتیاز نظر آتا ہے۔ مجموعہ ’پرندہ پکڑنے والی گاڑی‘ کے بیشتر افسانے اس کی عمدہ مثال ہیں۔اس میں شامل افسانوں میں صرف موضوعات و مسائل کے بیان میں ہی انفرادیت موجود نہیں ہے بلکہ ان میں ہیئت اور تکنیک میں تبدیلیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ان افسانوں میں ایک طرف جہاں موضوعات و مسائل کی پیش کش میں ہندوستان کی تہذیب و معاشرت، مادہ پرستی، سیاسی کشمکش، سماجی استحصال، غریبی و مفلسی جیسے مسائل کو بڑی حقیقت نگاری کے ساتھ پیش کیا گیا ہے وہیں ان میں کہیں کہیں جدید تکنیک کا سہار الیتے ہوئے علامت نگاری اور اساطیری اسلوب کو بھی اپنایا گیا ہے۔مجموعے میں شامل کہانیاں مثلاً تج دو تج دو، ڈوب جانے والا سورج، ایک خوں آشام صبح، افعی، پر کاشو، دیمک، کیمیا گر، کالے شاہ، اندھے پرندے کا سفر اور پرندہ پکڑنے والی گاڑی وغیرہ اس کی اہم مثالیں کہی جاستی ہیں۔ان کہانیوں میں تخلیق کار نے بڑی خوبصورتی اور فن کاری کے ساتھ علامت نگاری سے کام لیا ہے۔افسانہ ’ پرندہ پکڑنے والی گاڑی‘ سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

’’یہ روز مرہ کا دستور ہوتا۔ دوکا ن دار دوکانوں میں ہوتے، راہ گیر راہ چلتے رہتے، موٹر کاریں تیزی سے پوں پاں کرتی گزر تی ہوتیں، جوتا گانٹھنے والا گانٹھتا رہتا، خریدو فروخت جاری رہتی، شورو غل سے کان پڑی آواز سنائی دیتی، لین دین کا بازار اتنا جواں ہوتا کہ اول تو گاڑی کی طرف کسی کی نظر ہی نہ اٹھتی، لیکن ان میں سے کسی کی نظر اٹھ بھی جاتی تو وہ سحر زدہ سا اس عجیب و غریب گاڑی اور اس کے حسن کو دیکھنے میں کھو جاتا... کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کوئی آدمی چونکتا اور ذرا حوصلہ سے اٹھتا، گاڑی والے جب اس آدمی کو قریب آتے دیکھتے تو جھٹ اپنی لمبی جیب میں ہاتھ ڈالتے اور چند سکّے نکال کر اس کی طرف اچھال دیتے، پھر وہ آدمی سکّے چننے میں ایسا محو ہوجاتا کہ اسے کسی چیز کا ہوش ہی نہ رہتا۔  لوگ یہ منظر دیکھتے اور آنکھوں اور چہروں سے حرت کا اظہار کرتے۔ اس وقت ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتیں، یہ عمل کچھ زیادہ دیر نہیں رہتا، فقط چند منٹ، دس یا بیس منٹ تک، پھر حیرت کا یہ وقفہ کم ہوتا گیااور ہوتے ہوتے محض چند سکنڈ رہ گیا تو، اب اس کے بعد وہ منزل آنے والی تھی کہ لوگ باگ اپنے کاموں میں مصروف ہیں اور پرندے پکڑنے والی گاڑی آگئی ہے، اور پرندہ پکڑتی چلی جا رہی ہے اور آدمی ہے کہ اس کی جانب نظر اُٹھا کر دیکھتابھی نہیں۔‘‘5

یہ افسانہ درحقیقت ایک علامتی افسانہ ہے۔ اس کے ذریعے غیاث احمد گدی نے اپنے اس مظلوم و لاچار سماجی زندگی کو پیش کیا ہے جس میں ہر طرح کی آزادی چھین لی گئی ہے۔اس افسانے میں جہاں ایک طرف پرندہ پکڑنے والی گاڑی کی خوبصورتی اور دلکشی کو بیان کیا ہے وہیں دوسری طرف اس سماج و معاشرت کے نظام کو بیان گیا ہے جو حد درجہ ظالم و جابر ہے۔اس افسانے کا ہر ہر لفظ اپنے آپ میں ایک علامتی پیکر لیے ہویے ہے۔موجودہ عہد کے پس منظر میں بھی اگر اس افسانے کو دیکھیں تو اس کی معنویت بڑھ جاتی ہے جہاں ظلم و زیادی کا رویہ اپنایا جاتا ہے اور حکومتی انتظام و انصرام ہی نہیں بلکہ اعلیٰ افسران بھی اس کی پشت پناہی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔  

اس مجموعے میں کچھ ایسے افسانے بھی شامل ہیں جن میں غیاث احمد گدی نے عام علامت نگاری سے ہٹ کر بھی کام لیا ہے۔ اس میں انھوں نے انسانوں اور حیوانوں کو کر دار نہ بنا کر بے جان چیزوںکو مرکزی کر دار بنا کر پیش کیا ہے۔ افسانوی مجموعہ ’پرندہ پکڑنے والی گاڑی‘ کاانتساب غیاث احمد گدی نے نہ صرف ’منی بائی طوطے کے نام‘کیا ہے بلکہ اسی نام سے افسانے میں منی بائی کے طوطے کو ایک زندہ جاوید کر دار بنا کر پیش کیاہے۔غیاث احمد گدی کے علامتی افسانوں میں ’تج دو تج دو‘ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں افسانہ نگار نے ایک فرد کو علامت بنا کر پورے سماج کی عکاسی کی ہے۔ غیاث احمد گدی نے کچھ افسانے جدیدیت کے زیر اثر بھی لکھے ہیں بلکہ ایک زمانے میں ان کا رجحان ترقی پسندی سے ہٹ کر اس جانب غیر معمول حد تک ہو گیا تھا، ممکن ہے یہ اسی کا نتیجہ ہو۔ مگر اس میں بھی غیاث احمد گدی کا فن اپنے کمال پر نظر آتاہے۔ اس کے مرکزی کر دار کے سہارے تحلیل نفسی کو پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے لیکن اس میں بھی کہانی پن اور بیانیہ کا اس طرح خیال رکھا گیا ہے کہ موضوع محض کسی ذات یا فر د تک محدود نہیں رہ جاتا ہے بلکہ یہ ہر فرد، خاندان، اور سماج کو احاطے میں لے لیتا ہے۔اس کہانی میں ایک دم کتے کا بطور علامت و استعارہ استعمال ہوا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:

’’وہ رو رہا تھا اور اس کے کان بج رہے تھے۔ لگاتار وہی منحوس الفاظ گونج رہے تھے اور جب وہ رو رہا تھا، اس نے دیکھا وہ دم کٹا کتا جسے وہ دروازے کے باہر چھوڑ آیا تھا اور اندر آکر دروازہ بند کر لیا تھا، و ہ پتہ نہیںکیسے اندر آکر اس کے لحاف میں آگھسا تھا۔ اس نے دیکھا دم کٹا کتا اس سے تقریباً چمٹا اس کے گال سے اپنے تھوتھنے لگا ئے تھا اور اس کی آنکھوں سے لگاتار آنسو بہہ رہے تھے اور وہ کتا اس کی گر دن کو ہولے ہولے چاٹ رہا تھا... اور اس کے کان بدستور بج رہے تھے اور آنسو بہہ رہے تھے۔‘‘6

اس کہانی میں غیاث احمد گدی نے دم کٹے کتے کو ضمیر کی علامت بنا نے میںحد درجہ فن کاری کا ثبوت پیش کیا ہے۔

افسانوی مجموعہ بابا لوگ ہویا پرندہ پکڑنے والی گاڑی یا پھر سارادن دھوپ میں شامل غیاث احمد گدی کے آخری دور کے افسانے ہیں۔  ان کے مطالعے سے جہاں قاری پر ان کے فکر و فن کے امتیازات کی گرہیں کھلتی جاتی ہیں وہیں اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ امتداد زمانہ کے ساتھ اس میں فکری و فنی گہرائی بھی آتی چلی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے آخری دور کے افسانوں کے موضوعات میں ہمہ گیری و آفاقیت کے پہلو نمایاں نظر آتے ہیں۔ ان کہانیوں کے کردار بھی کسی خاص سماج و معاشرے اور  ملک و خطے تک محدود نہیں ہوتے۔ گرچہ ان کہانیوں میں ہندوستان کے پس منظر میں کہانیاں بُنی گئی ہیں اور اس کے واقعات کی تصویرکشی کی گئی ہے مگر اس کے جزئیات اور داخلی کینوس اس قدر وسیع ہیں کہ اس میں قومی و بین الاقوامی مسائل دیکھے جاسکتے ہیں، نیز ان میں علامتی، استعارتی اور تمثیلی انداز کے ساتھ ساتھ ہیئت و تکنیک کے تجربے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔معروف فکشن ناقد مہدی جعفر لکھتے ہیں:

’’غیاث احمد گدی کے یہاں عموماً شعور کی رو کی تکنیک استعمال ہوئی ہے۔ سوچنے کے عمل میں غواصی اور دروں بینی جزوی طور پر ان کی پہچان بنتی ہے۔ افسانوں میںشعور اور تحت الشعور دھو پ چھاؤں کی طرح جھلملاتے ہیں۔ چنانچہ عصری ماحول کے شعوری پس منظر میں یادوں کا استغراق ایک چونکا دینے والا اثر رکھتا ہے۔ اس کے باوجود افسانوں میں فکری عنصر حاوی نظر آتا ہے۔ فکر، احساس اور جذبے کے ساتھ خمیر ہو کر سامنے آتی ہے اور تمثیل نگاری، پیکر تراشی اور اسطور سازی کے عمل سے گذر تی ہے۔ گدی کا لہجہ نرم ہے اور انداز پر سکون۔ ان کی زبان الجھاؤ اور پیچیدگی سے گریز کرتی ہے اور الفا ظ، زبان و مکان، جذبات اور احساسات کے تسلسل سے ہم آہنگ ہوکر ڈھلتے ہیں۔ ان کے جملوں کی تشکیل اور تراش و خراش پر شعورکی حکمرانی صاف نظر آتی ہے۔ چنانچہ غیاث احمد گدی اپنے اسلوب پر اس درجہ قادرہیں کہ وہ نئی حسیت کو بھی پرانے اسلوب میں داخل کر کے زبان کو تازگی بخشنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔‘‘7

گرچہ غیاث احمد گدی نے شعور کی رو کی تکنیک کا استعمال شعوری طور پر اپنے افسانوں میں نہیں کیا ہے لیکن جا بجا ان میں اس کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں اوراس تعلق سے ان کی متعدد کہانیاں مثلاطلوع، کوئی روشنی، صبح کا دامن، چہر ے پہ چہرہ، سایے ہم سایے، سرنگ، بھیگا ہوا لب وغیرہ پیش کی جا سکتی ہیں۔

اس طرح آزادی کے بعداردو فکشن بالخصوص اردو افسانہ نگاری کی تاریخ میں اپنا نام رقم کرانے والے تخلیق کاروں میں غیاث احمد گدی ایک اہم نام ہے۔ انھوں نے اپنی تخلیقات کے ذریعے نہ صرف اردو فکشن کے سرمایے میں قابل قدر اضافے کیے بلکہ موضوعات و مسائل اور اسلوب و تکنیک کے ساتھ ساتھ زبان و بیان کی سطح پر بھی اسے وسعتوں سے ہمکنار کیا۔غیاث احمد گدی ایک ذہین اور اوریجنل تخلیق کار تھے،یہی وجہ ہے کہ اپنے معاصرین کے مقابلے میں بہت کم پڑھے لکھے ہونے کے باوجود بھی ان کی تخلیقات کے فطر ی پن اور اوریجنلٹی نے انھیںادب میں ایک انفرادی شناخت عطا کی ہے اور اسی کی بدولت وہ ادب کی دنیا میں ہمیشہ امر رہیں گے۔

حواشی

.1            غیاث کا تخلیقی ذہن، جمشید قمر،مشمولہ غیاث احمد گدی: فرد اور فنکار، احتساب پبلی کیشن، بوکارو، 2000، ص 99-100

.2            غیاث احمد گدی کی افسانہ نگاری، وہاب اشرفی،مشمولہ غیاث احمد گدی: فرد اور فنکار، احتساب پبلی کیشن، بوکارو، 2000، ص147

.3            کہانی’ بابالوگ‘، غیاث احمد گدی مشمولہ غیاث احمد گدی کے افسانے، جمشید قمر، ایمن پبلیکیشنز، رانچی، 1991، ص88

.4            مگدھ پوری کا داستان گو، الیاس احمد گدی بحوالہ غیاث احمد گدی، نسیم احمد نسیم، ساہتیہ اکادمی، دہلی 2017، ص28

.5            کہانی ’پرندہ پکڑنے والی گاڑی‘، غیاث احمد گدی، اسرار کریمی پریس، الہ آباد،1977،ص10

.6            تج دو تج دو،غیاث احمد گدی، پرندہ پکڑنے والی گاڑی، اسرار کریمی پریس، الہ آباد،1977،ص38

.7            نئی افسانوی تقلیب، مہدی جعفر، ماہنامہ ’جواز‘ (مالیگاؤں) جنوری تامارچ،بحوالہ غیاث احمد گدی،ساہتیہ اکادمی، ص24-25

n

Dr. Abdur Razzaque Ziyadi

House No.D-14/7 Johari Farm

Noor Nagar Extn., Jamia Nagar, Okhla

New Delhi-110025  

Mob.: 9911589715

E-mil: arziyadi@gmail.com

 

خواجہ حسن نظامی کے انشائیوں میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت، مضمون نگار: محمد اکبر

 اردو دنیا، مئی 2025


انیسویں صدی کے آغاز میں انگریز حکمرانوں نے اپنی سیاسی گرفت کو مضبوط اور مستحکم کر لیا تھا۔مگر تہذیبی اقتدار ابھی تک قائم نہ ہوسکاتھا۔کیونکہ ہندوستانی اپنی معاشرت اور تہذیبی قدروں سے مطمئن تھے۔ مغربی تہذیب و ثقافت اور اس کے معاشی نظام کو اپنانا ہندوستانیوں کے لیے آسان نہ تھا۔پہلی جنگ آزادی 1857کے بعد حالات تبدیل ہوئے ہندوستانی عوام اپنے آپ کو مجبور اور بے بس محسوس کرنے لگے۔آہستہ آہستہ انگریزوں کے تہذیبی برتری کا تصور ابھرنے لگا۔ لوگ اسے قبول کرنے پر آمادہ ہورہے تھے۔ جس سے انگریزی حکومت اور اس کی تہذیب کی حمایت بڑھتی جارہی تھی۔لوگوں کو عہد وسطی کی تہذیب فرسودہ نظر آنے لگی تھی۔ اس میں نئے عہد کی سیاسی،معاشرتی اور ذہنی تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت نہیں تھی۔لہٰذا انھیں انگریزوں کی پیروی میں ہی ہندوستان کی ترقی اور کامیابی نظر آنے لگی۔اس ذہنی کشمکش اور تصادم کے دور میں خواجہ حسن نظامی کی پیدائش ہوئی۔ابتدائی تعلیم کا آغاز بستی نظام الدین،نئی دہلی میں ہوا، مولانا اسماعیل کاندھلوی اور مولانا یحییٰ کاندھلوی جیسے اساتذہ سے آپ کو شرف تلمذ صاصل رہا۔آپ کی فراغت مدرسہ رشیدیہ گنگوہ سے ہوئی۔

خواجہ حسن نظامی اردو کے ایک صاحب طرز ادیب اور صحافی تھے۔انھوں نے بے شمار مضامین، افسانے، انشائیے، روزنامچے،خاکے اور سفر نامے تحریر کیے ہیں۔ وہ صوفیا کے خاندان سے وابستہ تھے۔ خداکا خوف، وسیع المشربی،انسان دوستی، کشادہ قلبی، خلوص، رواداری، اور اعلی انسانی قدریں وغیرہ انھیں اپنے آباؤ اجداد سے ورثے میں ملی تھیں۔انھوں نے ان اقدار کو اپنی شخصیت اور مزاج کا جز بنا لیا تھا۔فطری طور پر ان کی نگارشات میں بھی ان کا اثر دیکھنے کو ملتا ہے۔

خواجہ حسن نظامی نے انشائیے کو بام عروج تک پہنچا یا اور انشائیہ کے فن کو ترقی دی اور اس کے اسلوب کو نکھارا۔انشائیے کی جتنی خصوصیات ہیں وہ سب ان کے یہاں موجود ہیں۔خواجہ حسن نظامی کے انشائیوں کا مجموعہ’سی پارۂ دل‘134انشائیوں پر مشتمل ہے۔جسے پانچ منازل میں منقسم کیا گیا ہے اور ہر منزل کا الگ الگ عنوان مقرر کیا گیاہے۔پھر شذرات کے تحت کچھ اور انشائیے دیے گئے ہیں۔ دوسرا مجموعہ ’کانا باتی‘ جس میں انشائیوں کے علاوہ ریڈیائی تقریریں بھی شامل ہیں۔اگر تمام انشائیوں کے عنوانات پر غور کیا جائے تو ان میں ایک مخصوص سلسلہ ٔ خیال کی جھلک نظر آتی ہے۔ 

خواجہ صاحب کو اس بات کا ڈر تھا کہ انسان اس سرمایہ دارانہ نظام،مشینی دور اور مادیت کے غلبہ میں زندگی کی اخلاقی اقدار،مذہب بالخصوص تصوف سے بیگانہ ہوجائے گااس لیے انھوں نے انشائیہ نگاری کا مقصد تصوف کو فروغ دینا بتایا۔وہ خود لکھتے ہیں :

’’میں نے جتنی بھی خامہ فرسائی کی ہے وہ محض اس لیے کی ہے کہ نئی روشنی کے لوگ جوصوفیوں کی پرانی کتابیں نہیں پڑھتے یا ان کتابوں کے قدیمی طرز تحریر کے سبب تصوف ہی سے غیر مانوس ہوتے جاتے ہیں۔ میرے نئے انداز تحریرسے ادھر راغب ہوں اور کیف روحانی سے فائدہ اٹھائیں۔‘‘

(سی پارۂ دل،خواجہ حسن نظامی،خواجہ اولادکتاب گھر،درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا نئی دہلی، نواں ایڈیشن، ص، (15,16

خواجہ حسن نظامی نے اپنی نگارشات میں تصوف کے نکات کی عکاسی کی ہے۔ ان کے معاصر انشائیہ نگار بھی سماج کے اعلیٰ طبقے کے لیے لکھ رہے تھے۔ان کی تحریریں اپنی علمی اور فلسفیانہ موضوعات کے باعث عوام کی ذہنی سطح سے مطابقت نہیں رکھتی تھیںان کے بر خلاف حسن نظامی نے گہری اور بصیرت افروز باتیں بھی سادہ اور اس قدر عام فہم انداز میں پیش کیںکہ قاری انھیں آسانی سے سمجھ سکے اور ان سے نصیحت حاصل کر سکے۔ان کا مخاطب سماج کا عام طبقہ ہے یعنی معمولی پڑھے لکھے لوگ ہیں جن میں خاص طور پر ان کے مریدین شامل ہیںجو ان کی ذہنی سطح اور تعلیمی استعداد سے بہت اچھی طرح واقف تھے اسی بنا پر انھوں نے اپنے انشائیوں میںقاری کے لیے مسرت کا سامان فراہم کیا ہے۔ خواجہ صاحب ایسے انشائیہ نگار ہیں جنھوں نے اپنے ماحول اور اپنے چاروںطرف پھیلے ہوئے معاشرے سے موضوعات کا انتخاب کیا۔ چھوٹے چھوٹے موضوعات پرطبع آزمائی کی مثلاًمست الست کی دعا،بھگت کے بس میں آبھگوان، کعبے والے خدا کو کیوں کر پائوںاور جھولی والے فقیر کی بھیک وغیرہ ان سب میں اخلاق کا کوئی نہ کوئی درس، معرفت کا کوئی نہ کوئی گوشہ اور عبرت کا کوئی نہ کوئی پہلو تلاش کر لیتے ہیں۔ الو،مکھی،مٹی کا تیل، لالٹین، دیاسلائی، فٹ بال یہ سب عام سے موضوعات ہیں۔ لیکن خواجہ حسن نظامی ان میں بھی افادیت کا پہلو تلاش کر لیتے ہیں۔

خواجہ حسن نظامی کے انشائیوں میں سب سے پہلے جس چیز پر نظر پڑتی ہے وہ ہے ان کے عنوانات کا نرالاپن۔ ان کے عنوان سے ہی انبساط کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ انھوں نے عام رنگ سے ہٹ کر اپنا راستہ اختیار کیا ہے۔ حسن نظامی بہت غور فکر کے بعد اپنے انشائیوں  کے عنوان رکھتے تھے۔ اس لیے کہ عنوان ہی کسی انشائیے کی جان ہوتی ہے۔مثال کے طور پر جھینگر کا جنازہ، گرفتار شدہ خطوط،کانا باتی مکھی وغیرہ کو اپنے انشائیوں کا موضوع بنا کر ایسے نثر پارے تخلیق کیے ہیںجن میں فنی خوبیاں موجود ہیں۔

ہندوستان کی ثقافتی اور تہذیبی کاموں میںخواجہ حسن نظامی نے جس طرح دلچسپی لی ہے وہ ناقابل بیان ہے یا یوں کہیں کہ انھوں نے ان میں اپنی تحریروں کے ذریعے جان ڈال دی ہے۔اہل علم اسے بھلا نہیں سکتے، وہ ہر مذہب و ملت کے لوگوںسے اچھے تعلقات رکھتے تھے۔ مسلمان، سکھ، عیسائی سب ہی ان کے عقیدت مند تھے۔وہ ہمیشہ فرقوں اور مذاہب میں خوشگوار تعلقات قائم کرنے کے لیے کوشاں رہتے تھے۔خواجہ صاحب نے اپنے آپ کوعوام کی زندگی کے دھارے سے کبھی دور نہیں کیاان کا قلم معمولی سے معمولی موضوع کے لیے اٹھتا رہا۔ وہ جھینگر کی موت اور مچھر کی بھنبھناہٹ کو بھی ادب کا روپ دینے پر پوری قدرت رکھتے تھے۔اس طرح کا تنوع صرف نظیر اکبر آبادی کے یہاں نظر آتا ہے۔ جنھوں نے اپنی نظموں میں اپنے عہد کی عوامی زندگی، تہواروں، تقریبات، پیشہ وروں،معمولی چیزوں، کیڑوں  مکوڑوں اور دیگر مختلف چیزوں کی حقیقی انداز میں مرقع کشی کی ہے۔نظیر اکبر آبادی کی طرح خواجہ صاحب کی نظر بھی مکھی،مچھر،الواور جھینگر وغیرہ پر پڑتی ہے۔ انھوں نے حقیر سے حقیر شئے کو عزت و وقار عطا کرکے اس میں معرفت اور تصوف نیز دیگر امور کے نہ جانے کتنے گوشوں کو ڈھونڈنکالا ہے۔وہ اپنی زبان سادہ عام فہم اسلوب اور عوامی کلچر کے قریب رکھتے ہیں۔اردو کو مقامی احساسات اور ثقافتی مزاج کا ترجمان بنانا چاہتے ہیں۔ڈاکٹر آدم شیخ حسن نظامی کی انشائیہ نگاری کے متعلق رقمطراز ہیں:

’’حسن نظامی کے انشائیوں کی سب سے بڑی خوبی ان کے بظاہرمعمولی عنوانات ہیںجن پر انھوں نے بڑی سلاست اور شستگی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔الو،دست پناہ،آغوش مچھر میں شب عیداور تنکے کا سلوک جیسے انشائیوںمیں اس فقیر ادیب نے غورو فکر کے زبردست خزانے پوشیدہ کیے ہیںیوں تو حسن نظامی اپنی تحریروں میں خانقاہ کی فضا سے فرار حاصل نہ کرسکے لیکن اس چہار دیواری میں رہ کربھی انھوں نے اپنے افکار واظہارکے ذریعے انشائیوں کی ایک ایسی دنیا پیدا کی ہے جس پر ان کی شخصیت اور فطرت جھلکتی ہے۔خدا پرستی اور انسانی ہمدردی ان کے مضامین میں بنیاد کا کام کرتے ہیں کہ ان کا ہر لفظ دل میں اترتا معلوم ہوتا ہے۔‘‘

(ڈاکٹر آدم شیخ،انشائیہ،بمبئی رائٹرس امپوریم پرائیویٹ لمیٹڈ،تیسرا ایڈیشن،1925،ص،68 (

خواجہ حسن نظامی نے صوفیانہ عناصر کو اپنے انشائیوں میں براہ راست پیش کیا ہے۔وہ بغیر کسی تمہید کے اصل موضوع کو بیان کرنے لگتے ہیں عموماًروز مرہ کی کسی مانوس شئے کی ظاہری شکل و صورت کا جائزہ لیتے ہوئے اس میں گہری معنویت کا کوئی نہ کوئی پہلو تلاش کرلیتے ہیں۔سگنل کی آنکھ،لیمپ اور مٹی کا تیل ان کی نظر میں صرف اندھیرے کو دور کرنے اور گھر کو روشن کرنے والا محض ایک مائع نہیں بلکہ روح کی تاریکیوں کو زائل کرنے والاحقیقت شناس کی شمع روشن کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔جیسا کہ وہ خود اپنے انشائیے میں رقمطراز ہیں:

’’اے خاک نشیںتیل!ہم کو تیری یہ ادا بھاتی ہے کہ جہاں آگ قریب آئی تو مشتعل ہوا۔خدا کی قدرت ہے کہ تجھ میں یہ صلاحیت ہے کہ تو آن کی آن میں شعلۂ زار بن کر مقبول ہوجاتا ہے اور انسان کی یہ قسمت کہ برسوں ٹکریں مارتا ہے۔پہاڑوں دریائوں میں سرگرداں پھرتا ہے۔مگر وہ تجلی نصیب نہیں ہوتی جو وجود خاکی کو جلا کر فنا کردے۔‘‘

(سی پارۂ دل،خواجہ حسن نظامی،خواجہ اولادکتاب گھر،درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا نئی دہلی، نواں ایڈیشن،1965ص 154,155 )

ان کی نگارشات کا مطالعہ انسان کو قدرت خداوندی پر غور کرنے،بنی نوع کے ساتھ ساتھ دیگر ذی روحوں سے محبت کرنے اور اپنی اخلاقی تربیت کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔وہ اپنی تحریروں سے ایک ایسا ماحول بنا دیتے ہیں کہ قاری ان کی باتیں بلا چوں چرا تسلیم کرلیتا ہے مثال کے طور پر ’گلاب تمہارا کیکڑہمارا‘ میں خود بیان کرتے ہیں :

’’کیکڑ کا پھول گلاب کے پھول سے لاکھ درجے اچھا۔گلاب کا پھول ایک دن کی تیز دھوپ میں کمہلا اور مرجھا جاتا ہے اور کیکڑ کا پھول ہفتوں سورج کا مقابلہ کرتاہے۔اور آج کل تعریف اسی کی ہے جو دشمن کے مقابلے میں زندہ سلامت رہے۔‘‘(سی پارۂ دل،ص209,210)

کہیں کہیں خواجہ صاحب کے عنوانات خالص ہندوستانی سماج کی عکاسی کرتے ہیں مثلاًہم بالک ایک پتاکے،مدنی شیام سندر کی مرلی،پردیسی پیتم دیکھی تہاری پریت،رس کے بھرے تورے نین،گیان کتھا، چنبیلی کے پھول پر شبنم، ہری دواری گنگا کے کنارے چنتا من مورتی،من کہہ ایک دھوبی کاغذی گھاٹ پر اور رام اپدیش وغیرہ۔ان سب انشائیوں میں خالص ہندوستانی تہذیب کی عکاسی دیکھنے کو ملتی ہیں۔مدنی شیام سندر کی مرلی،میں بے قرار دل کی پکار کو حسن نظامی نے کس طرح الفاظ کا جامہ پہنایاہے:

’’مگر اب زمانہ گزرگیا،راتیں بیت گئیں، شیام سندر کی مرلی کی آواز سنائی نہیں دیتی،جنگل کے ہرن، باغوں کے مور،آم کی ٹہنی کی کوئل سب اس پیاری اور سریلی صدا کی راہ دیکھ رہے ہیں۔جس کی کوک کلیجہ میں ہوک پیدا کرتی ہے۔برسات کا موسم قریب آیا،کالی گھٹائیں امنڈ امنڈ کر آئیں گی اور کرشن کنہیاکی بانسری کو ڈھونڈیں گی۔‘‘

  (سی پارۂ دل،نواں ایڈیشن،1965ص،(102

خواجہ حسن نظامی نے مختلف صنعتوں کو اپنی نثر ی اسلوب کا جامہ پہنا کر ایک خاص وصف بخشا ہے۔ ان میں سے ایک تمثیلی بیانیہ ہے جس کی وجہ سے ان کا بیانیہ رمزیہ کے ذیل میں آجاتا ہے۔جھینگر،مچھر اور مکھی کا انسانوں کی طرح باتیں کرنا، اجمیری پہاڑی کا بولنا، آنسو کا اپنی کہانی سنانااور دیا سلائی کا انسان سے تکرار تو تو میں میں کرنا دوا کی شیشی کا باطنی اشارے کرنا وغیرہ ان کے انشائیوں کو تمثیلی نثر کا نمونہ بنا دیا ہے۔

ایک دیہاتی عورت جس کا شوہر پردیس میں ہے اسے ہچکی آتی ہے تو اسے اس کا شوہر یاد آتا ہے۔اس کو حسن نظامی نے اپنے انشائیہ ’’ہچکی‘کے ذریعہ بہت ہی اچھے انداز میںپرویا ہے وہ محبوب کے خیالوں میں کس طرح کھو جاتی ہے:

’’ تو کیوں آئی ہے؟ میرا سجنا تو یاد نہیں کرتا؟ مرے من موہن سندر کے دل میں میرا خیال تو نہیں آیا؟

پھرآئی  ہچکی نہ ستا۔میرا سینا ناتواں ہے۔اس میں جگہ جگہ پھانسیں چبھی ہوئی ہیں تو آتی ہے تو سینے میں کھٹک ہوتی ہے۔اس کے ز خم دکھنے لگتے ہیں۔سانس رکا جاتا ہے۔جب تو آتی ہے گردن کو جھٹکا دیتی ہے اور ناف سے سر تک پٹھوں اور رگوں کو ہلا ڈالتی ہے۔میرا جی سانس سے گھبرا تا ہے اور پیا پیارے کی یاد میں بے قابو ہوا جاتا ہے۔

ہائے میں نے کیسے کیسے درد بھرے خط بھجوائے۔ لکھنا نہ آتا تھا دوسروں سے لکھوائے،مگر اس نے کاغذ کا ایک پرزا نہ بھیجا۔دو حرفوں میں بھی بخیلی کی کس سے کہوں میری نہ کوئی سکھی ہے نہ سہیلی ہے۔ اپنا ہے نہ پرایا ہے۔ کاش مجھ پر کوئی لعن طعن ہی کرنے والا ہوتا۔اسی بہانے سے دل بہلتااس کا ذکر سننے میں آتا۔میں نے اس کی خاطر رسوائیاں برداشت کی دنیا نے کیا کچھ نہ کہا لیکن اس نے اتنا بھی نہ پوچھاکہ میں بھی کوئی ہوں۔ اب ہچکی آئی ہے کیا (موہنے واسنیہا)پیام یار لائی ہے۔ اگر اس کا خط ہے تو کس سے پڑھوائوں،خیال کے ڈاک میں سانس کا ڈاکیہ لایا ہے۔وہی پڑھے گا۔مگر آہ اس خط میں کیا لکھا ہے۔پڑھنے والوں کی آنکھوں میں آنسوبھرے آتے ہیں۔تلھ (پیارے) مجھے بتا تو کیوں  روندا(روتا ) ہے۔میرا ساجن تو اچھا ہے۔‘‘ (ایضاً، ص 137-38)

 

 ہچکی کے بہانے اس انشائیے میںبہت کچھ لکھا گیا ہے کتنا گہرا اور عمیق مشاہدہ ہے۔اس انشائیے میںبھر پور ہندوستانی تہذیب کی عکاسی نظر آتی ہے۔حسن نظامی کے بہت سے انشائیے مکالموں کے بل بوتے پر آگے بڑھتے ہیں مثال کے طور پرشروع کے چند جملے دیکھیں:

’’جاری جا میں روٹی نہیں کھاتا،چاولوں کی پیچ ادھر کنارے پر رکھ دے اور ایک چلم بھر کر لا۔دم لگائوں دھواں اڑائوں غم مٹائوں۔

چھواچھو،چھوا چھو،چھوا چھو۔

کیوں ری نندا کی ماں دریا کا پانی گدلا،صابن کم، میں کیوں کر ان میلے کپڑوں کو صاف کروں، چھواچھو، چھوا چھو،چھوا چھو۔

دیکھ درخت کا پتا سوکھ کرگرا،ہوا اڑا کر لے چلی۔ اب خیر نہیں یہ بچھڑا ہوا کب ملے گا۔چھواچھو،چھوا چھو،چھوا چھو۔‘‘ (ایضاً، ص 103)

حسن نظامی نے ہندوستانی آہنگ کوتصوف میں ڈھالا ہے۔اور اپنے انشائیوں میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت اور تاریخی  تلمیحوں کا کثرت سے استعمال کیا ہے۔ہندی کے ہلکے پھلکے نرم اور مترنم الفاظ کے استعمال سے ان کے اسلوب میں مٹھاس اور رس پیدا ہوجاتا ہے۔ ایجاز و اختصار حسن نظامی کے انشائیوں کی ایک خاص خوبی ہے۔ انھوں نے چھوٹے چھوٹے انشائیے لکھے ہیں جو تکنیک اور معنویت کے اعتبار سے بڑے مکمل اور بھر پور ہوتے ہیں،جیسے  ’آیار چل کر دیکھیں‘، ’’برسات کا تماشہ ‘ اور ’مرغ کی اذان‘وغیرہ مختصر ہونے کے باوجود جامع ہوتے ہیں جن میں تشنگی کا کوئی پہلو باقی نہیں رہتا۔

خواجہ حسن نظامی کواپنے عہد کے بدلے ہوئے سماجی و معاشی حالات کی تیز رفتاری کا احساس تھا۔ان کا ایک انشائیہ ’مچھر‘ تہذیبی و ثقافتی صورت حال اور ذات کائنات کے مسائل کا اشاریہ بن گیا ہے۔جوسرعت پذیر ثقافتی تبدیلی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔مچھر کا کردار انسانوں سے کم نہیں،مچھر کو طنز کا آلہ بنا کر پیش کی گیا ہے۔انھوں نے اس کو عاشق مزاج بتا کر اس زمانے کے نوابوں،راجائوں کے تعیش پسندی کی طرف اشارہ کیا ہے۔اس کا ایک اقتباس دیکھیے:

’’یہ الزام سراسر غلط ہے کہ بے خبری میں آتا ہوں اور سوتے میں ستاتا ہوں۔یہ تم اپنی عادت کے موافق سراسر  نا انصافی کرتے ہو۔حضرت میں تو کان میں آکر الٹی میٹم دے دیتا ہوںکہ ہوشیار ہو جائو۔ اب حملہ ہوتا ہے۔تم ہی غافل رہو تو میرا کیا قصور۔زمانہ خود فیصلہ کرے گاکہ میدان جنگ میں کالا بھتنا لمبے لمبے پائوں والابے ڈول فتح یاب ہوتا ہے یا گورا چٹا آن پان والا۔‘‘ (ایضاً، ص،(173

خواجہ صاحب کے ان انشائیوں کو پڑھتے ہوئے ہنسی بھی آتی ہے اور قاری بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوجاتاہے۔ فضا بندی اوربیانیہ اسلوب کے ذریعہ تہذیب و ثقافت کی حقیقی تعبیر پیش کرنے کا بہت ہی نرالاانداز اپنایا ہے۔اسی طرح جھینگر کو انھوں نے ہم عصرتعلیمی، سماجی اور ثقافتی صورت حال پر طنز کاایک آلہ بنایا ہے۔ جھینگر فتوحات مکیہ کی ایک جلد میں بیٹھا ہوا ہے۔یہ تاریخی سانحہ ہی نہیں بلکہ کسی قوم کی ثقافتی زوال کا نتیجہ ہے۔ اس کے ذریعہ انھوں نے ہمیں اپنا محاسبہ کرنے کی ترغیب دی۔جھینگر کے پردے میں فرد اور معاشرے کے رویوں پر گہرا طنز کیا ہے اور مختلف سماجی برائیوں کی طرف ہماری توجہ مبذول کرائی ہے۔

خواجہ حسن نظامی نے مختلف مذاہب اور مختلف صوبوں کے لوگوں کی خصوصیات کا بھی جائزہ لیا ہے۔ انھوں نے جہاں ہندو مسلم اور سکھ کی بات کی ہے وہیں یوپی والے،پنجابی اور دلی والے جیسے موضوعات پر بھی قلم اٹھائے ہیں۔ان کے موضوعات میں اتنا تنوع ہے کہ یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اردو میں کسی انشا پرداز نے اتنے مختلف موضوعات پر نہیں لکھا۔ سیاسی، سماجی، اخلاقی اور فلسفیانہ مسائل سے لے کر چھوٹی چھوٹی چیزوں تک کو موضوع بنایا ہے۔ انھیں زندگی سے بے پناہ محبت تھی اپنے گرد و پیش کی ہر چیز انھیں عزیز تھی وہ عالم تھے اس لیے ان کا علم وسیع تھا۔ آنکھیں اور دماغ کھلا رکھتے تھے اس لیے ان کا مشاہدہ غیر معمولی تھا۔وہ گوشہ نشیں نہیں تھے بلکہ خدا کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے والے تھے۔ ’’ٹھنڈا سانس کھجور کی ٹہنی کے نیچے‘‘کے ایک اقتباس کو دیکھیں:

’’ میرٹھ میں شام تھی،ابر تھا ہوا کا سکوت تھا، آسمان و زمین پر اداسی تھی جھینگروں کا شور تھا۔ مینڈک جگہ جگہ بول رہے تھے۔میں نے کجھور کے نیچے کھڑے ہوکر قدرت کے اس نظارے کو دیکھا اور میرے سینے نے ایک ٹھنڈا سانس باہر بھیجا۔زمین کہتی تھی میں ٹھنڈی ہوں۔بارش کے پانی نے مجھ کو سیراب کردیا۔دیکھو میرے جسم پر پانی بہنے کے نشان پڑے ہوئے ہیں جو بل کھاتا ہوا مجھ پر سے گزرا ہے۔‘‘ (ایضاً، ص 112)

خواجہ صاحب کے انشایئے مادّی قدروں کی براہ راست مخالفت نہیں کرتے ہیں۔مگر رومانی اخلاقی رجحانات کو بر قرار رکھنے یا اپنانے اور انسان کا رشتہ کائنات اور فطرت سے استوار کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔اور اسی پر ان کا زیادہ زور ہوتا ہے۔

حسن نظامی اس بات کو سمجھتے تھے کہ انسان کو زیادہ دیر تک نصیحت اور پند کی باتیں نہیں سنا سکتے۔ اس لیے انھوں نے براہ راست نصیحت نہ کرکے نصیحت کی باتیں انشائیے کے نرم پیرائے میں ڈھالتے چلے جاتے ہیں۔ قاری کو اس طرح کی نصیحت میں تاثیر آنے لگتی ہے۔

خواجہ حسن نظامی ایک وسیع النظر شخص تھے بلا امتیاز وہ سبھی کو ایک خدا کی مخلوق سمجھتے تھے اور سبھی سے پیار کرتے تھے۔تکریم آدم ان کا شیوہ تھا۔وہ کسی کو حقیر نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔

خواجہ حسن نظامی نے ہندوستان کے موسم،یہاں کے پہاڑ،یہاں کی ندیاں، لوک تہذیب،پھلوں اور پھولوں کا بیان،برسات کا موسم غرض مناظر قدرت کی عکاسی اس طرح کی ہے کہ پوری تصویر آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے۔’’مدنی شیام سندر کی مرلی‘‘انشائیہ میں ہندوستانی ثقافت کی جھلک بہت نمایاں ہے۔اس سلسلے کا ایک اقتباس دیکھیے:

’’شیام سندر مرلی لیے بن سے نکلے۔وہ ہمارے سینا پتی تیر کمان سنبھالے نمودار ہوئے۔اب کوئی دم میں دم مرلیا باجے گی اور نین کی بدلی برسے گی۔ندی نالے سوکھے تھے۔گنگا جمنا پیاسی تھیں۔گھاٹ کے تیرتھ سونے تھے، بھگتی کا تھا کال پڑا۔ست کے گلے جنجال پڑا۔اب مرگ کی ترشنا دور ہوئی اور جنتا من کافور ہوئی اب ہر ہر کی آمد آمد ہے۔‘‘ (ایضاً، ص 103)

مجموعی طورپر ہم کہہ سکتے ہیں کہ خواجہ حسن نظامی نے اپنے انشائیوں میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت سے اپنے عارفانہ جذبات کوہم آہنگ کیا ہے۔جہاں جہاں عشقیہ بیان ہوئے ہیں وہاں بھی ہندوستان کی ایک الگ جھلک اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ نمایاں ہے۔ بالخصوص عشق و محبت اور سوزو گداز کے بیان میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔انھوں نے مسلمانوں کی اخلاقی اقدار اور اصلاح کے لیے قرآن کی تعلیمات اور تصوف کا سہارا لے کر انشائیے لکھے۔ ہندوستان کے درپیش مسائل سے خواجہ صاحب کا فکری پس منظر تیار ہوا پھر مختلف موضوعات پر سیکڑوں کتابیں کسی مقصد کے تحت لکھ ڈالیں جو آج بھی معاشی اور معاشرتی سطح پر قوم کی اصلاح اور فلاح و بہبود میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ انھوں نے اپنی زندگی میں بہت سے اونچ نیچ دیکھے تھے جن سے ان کی بصیرت میں تیزی پیدا ہوئی۔ ان کے مزاج کا ضبط اور ان کی سادگی ان کے اسلوب میں نمایاں ہے۔وہ اردو کے صاحب طرز انشا پرداز ہیں جنھوں نے عام فہم زبان میں طریقت کے رازوں کو عوام تک پہنچایا ان کی ٹکسالی اور شیریں زبان اس وقت تک قدر کی نظر سے دیکھی جائے گی جب تک اردو بولنے والے موجود رہیں گے۔

n

Dr Mohd Akbar

  Assistant Professor

 CPDUMT,MANUU,

Hyderabad- 500032 (Telangana)

  Mb.8373984391

 

تازہ اشاعت

خلیل علی خاں اشک،ماخذ: ارباب نثر اردو، مصنف: سید محمد، مرتب: رحیل صدیقی

  اردو دنیا، مئی 2025   فورٹ ولیم کالج میں خلیل علی خاں ہی ایک ایسے مولف ہیں جن کی کتاب تو بے حد مقبول اور رائج ہوئی مگر وہ اس کی بدولت ...