27/5/25

اردو کا صوتی ذخیرہ اور صوتی نظام لاثانی ہے، پروفیسر رئیس انور

 اردو دنیا، فروری 2025


خان محمد رضوان:پروفیسر رئیس انور صاحب، یوں تو آ پ کی تحریریں رسالوں میں ایک عرصے سے دیکھ رہا ہوں مگر ذاتی طور پر آپ کے متعلق میری واقفیت کم ہے۔ اپنے بارے میں قارئین کو کچھ بتائیں۔

پروفیسر رئیس انور:  رضوان صاحب، اس مصاحبے کے لیے میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ دراصل میرا آبائی وطن بہار شریف ضلع نالندہ ہے۔ وہاں کے استھاواں بلاک میں ایک گائوں موہنی ہے جہاں میرے جد امجد جیوٹھلی (ضلع پٹنہ) سے آکر آباد ہوگئے تھے۔ میرے والد مجیب الرحمن مرحوم بچپن میں تعلیم حاصل کرنے کلکتہ چلے گئے تھے اور فراغت کے بعد وہیں پر یسیڈینسی کالج (جسے اب یونیورسٹی کا درجہ مل گیا ہے۔) میں فارسی کے استاد ہوگئے۔ اسی بناپر میری پیدائش اور رہائش وغیرہ کلکتہ میں تھی۔ محمد جان ہائی اسکول، مولانا آزاد کالج اور کلکتہ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کی۔ 1978 میں ایم اے کرنے کے بعد ریسرچ میں مشغول ہوگیا۔ جلد ہی 1979میں بھاگلپور یونیورسٹی میں لکچر ر شپ مل گئی مگربہ وجوہ میں نے ایک سال بعد جون 1980 میں جوائن کیا۔ جنوری 1988میں مجھے متھلایونیورسٹی میں ریڈر کی حیثیت سے منتخب کیا گیا۔ وہیں میں ترقی پاکر پروفیسر اور صدر شعبہ بھی بنا۔ سنٹرل لائبریری اور لائبریری اور انفارمیشن سائنس کا ڈائرکٹر بھی رہا۔علاوہ بریں بارہ سال تک مولانا آزاد چیئر کا ڈائرکٹر رہا۔ کلکتہ کا ایک خاص ماحول، مزاج اور کلچر ہے جس سے میں متاثر ہوں۔ اس لیے بہار میں مجھے ایڈجسٹ کرنے میں دقت ہوتی رہی ہے۔  مجھے ابھی 2024 میں دوبارہ مولانا آزاد چیئر کے نگراں کے عہدے پر بحال کیا گیا ہے۔

خ  ر : آپ اپنے ہم عصروں پر بھی روشنی ڈالیں۔

ر  ا :           کلکتہ میں غلام نبی، محمد مظفر حسین، فہمیدہ بیگم اور ساجدہ بانو وغیرہ میرے ہم جماعت تھے۔غلام نبی، وکٹوریہ میموریل کلکتہ میں آفیسر ہوگئے تھے۔ مظفرحسین اورنگ آباد (بہار)کے کسی کالج میں استاد تھے جب کہ فہمیدہ اور ساجدہ کلکتہ کے کالجوںمیں تدریس کرتی رہیں۔ سینئر لوگوں میں یوسف ترقی، شمیم انور اور ابوبکر جیلانی تھے۔ یہ لوگ بھی وہیں کالج اور یونیورسٹی سے وابستہ تھے۔ بھاگلپور میں شاداب رضی اور محمد بدرالدین اچھے استاد اور دوست تھے۔دربھنگہ میں ڈاکٹر منصور عمر، ڈاکٹر مظفر مہدی اورڈاکٹر ارشد جمیل میرے اہم رفقا تھے۔ ان سے علم وادب پر نوک جھونک بھی ہوتی تھی۔ معاصرانہ چشمک ایک فطری عمل ہے۔ اگر یہ مثبت، صحت مند اور ادب و تہذیب کے دائرے میں ہو تو اس سے فائدے بھی ہوتے ہیں۔

خ ر:محترم آپ کے وقت میں اردو کے وہ کون سے رسالے تھے جو زبان وادب کی ترویج کر رہے تھے اور سب سے زیادہ آپ کو کس رسالے نے متاثر کیا؟

را:            ہمارے زمانے میں بیسویں صدی، شمع، سریتا اور کھلونا وغیرہ بڑوں اور بچوں میں مقبول تھے اور کلکتہ میں آسانی سے مل جاتے تھے۔ جب میں کالج میں پہنچا تو ماہنامہ آجکل، نیا دور، شاعر اور کتاب پڑھنا شروع کیا۔ بعد میں زبان وادب، پٹنہ اور روح ادب کلکتہ بھی مطالعے میں آیا۔ کالج میں استاذی پروفیسر اعزاز افضل ترقی پسندانہ مزاج رکھتے تھے۔ ’عصری ادب‘ اور’ عصری آگہی‘ ان کے یہاں زیر بحث رہتا۔ یونیورسٹی میں استاذی ظفر اوگانوی ’شب خون‘، ’سوغات‘ اور ’الفاظ‘ کے مندرجات پر گفتگو کرتے۔ استاذی شاہ مقبول احمد اور والد محترم کی توجہ کلاسیکی ادب پر مرکوز تھی۔ اسی بناپر میں کسی خاص ادبی تحریک یا رجحان سے وابستہ نہیں ہوا۔ ہاں سن شعور کو پہنچنے کے بعد’ عصری ادب‘،’ عصری آگہی‘، ’الفاظ‘ اور’ سوغات‘ وغیرہ زیادہ انہماک سے پڑھتا تھا۔

خ  ر:آپ اپنے علمی وادبی کام کی تفصیلات بتائیں۔

ر  ا:           رضوان صاحب میں نے شروعات شاعری سے کی۔ شاید والد محترم اور استاذی اعزاز افضل سے قربت کا اثر تھا۔ طالب علمی کے زمانے میں افسانے اور ناول بھی پڑھا کرتا تھا۔ اس لیے افسانہ نگاری کی بھی کوشش کی۔ شاعری اور افسانے کلکتہ ریڈیو پر بھی پڑھے۔ رسالے میں بھی چھپوائے۔ اس کے بعد رپورتاژ لکھے پھر مضمون نگاری اور تحقیق کی طرف راغب ہوا۔ غالب کے ایک بنگالی ہم عصر جنم جی مترا ارمان کے دو مخطوطے ’تذکرہ نسخۂ دلکشا‘اور ’منتخب التذکرہ‘ ترتیب دے کر شائع کیا۔ ایک اور کتاب ’جنم جی متر ارمان حیات و خدمات‘ لکھی۔ مضامین کا مجموعہ ’بازیافت پرویز شاہدی‘ مرتب کیا۔ تنقیدی وتحقیقی مضامین، تقریظ، تبصرے، ترجمے وغیرہ لگاتار شائع ہوتے رہے ہیں۔ اس نوع کی تحریروں کے کئی مجموعے بھی چھپ چکے ہیں۔ حالیہ برسوں میں ’بنگال کے اردو تذکرے‘ (2021)اور ’تلمیذ میر: غلام علی راسخ عظیم آبادی‘  (2023)شائع ہوئی ہیں۔

خ  ر: آپ ہندی اور انگریزی زبان کے ادب کے مقابلے میں اردو ادب کو کہاں پاتے ہیں؟

ر ا:دیکھیے اصل میں ادب اپنے ماحول میں پنپتا ہے۔  کسی بھی ملک یا علاقے، اس کے سماج، ا س کے کلچر اور اس کی تہذیب کا عکس ادب میں موجود ہوتا ہے۔ مغربی ممالک کا سماج، وہاں کے جغرافیائی حالات، روزمرہ کی زندگی اور دوسرے معمولات مشرقی ملکوں سے الگ ہیں۔ وہاں کی روز مرہ کی زندگی میں بہت سی ایسی قدریں ہیں جو ہمارے یہاں معیوب سمجھی جاتی ہیں جیسے نام نہاد آزادی، از حد کھلاپن، عریانیت، تصوراتی نراجیت وغیرہ۔ اتنا کہاجاتا ہے کہ وہاں کی تقلید میں یا یوروپی ادب کے اثر سے ہندی اور اردو میں بھی کچھ عناصر داخل ہوئے ہیں اور اس عمل کو Intellectualismکا نام دیا جاتا ہے۔ پھر بھی اردو ہندی کا نثری ادب اپنی الگ اور آزادانہ پہچان بنائے ہوئے ہے۔

                جہاں تک ہندی ادب کا سوال ہے، افسانے، ناول، تنقید وغیرہ بڑے معیاری ہیں مگر شاعری کسی حد تک کمزور ہے۔ اردو شاعری میں جس پائے کے نفیس و نازک احساسات اورجمالیات کا دل کو چھولینے والا اظہار ہوتا ہے اور دلکش اسلوب بھی ہوتا ہے، ہندی شاعری اس سے قدرے دور ہے۔

خ ر: کیا اردو اساتذہ کا معیار کچھ کم ہوا ہے؟ اب اچھے ادیب، نقاد اور شاعر پیدا نہیں ہورہے ہیں؟

ر  ا:تلخ سچائی یہ ہے کہ ہمارے کئی اساتذہ صرف ملازمت کرتے ہیں اور اردوکے استاد بن کر دوسرے کام میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ اردو زبان کے مستقبل، طلباکے مستقبل اور تدریس کے فرائض سے انھیں کم سے کم دلچسپی ہوتی ہے۔ طلبا کو نوٹس دے کر سمجھتے ہیں کہ  فرض منصبی ادا ہوگیا۔ زبان وادب کو پڑھنے، اپنے طور پر سمجھنے اور سمجھانے سے بہت کم تعلق رکھتے ہیں۔ بعض اساتذہ تدریس کے بجائے سمینار، سمپوزیم اور جلسوں میں ایسا مصروف رہتے ہیں کہ رزق کے حلال اور حرام کی تمیز ہی نہیں رہتی۔

                جب استاد اور شاگرد کا رشتہ اتنا کمزور ہو۔ تدریس کے تقاضے اور تقدس پامال ہونے لگیں تو ماحول میں بیزاری آنے لگتی ہے۔ ایسے میں درس گاہوں سے اچھے ادیب، نقاد اور شاعر کیسے نکلیں گے۔ آپ ہی سوچیے۔

خ ر: کیا تحقیق و تنقید کا معیار گرا ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟

ر  ا:           جامعاتی تحقیق میں یقینا گراوٹ آئی ہے یہ ہر سبجیکٹ میں ہے۔ اس کی وجہ یو جی سی کے بنائے ہوئے اصول و قواعد ہیں جن کے مطابق ریسرچ پیپر اور ریسر چ ڈگری کے لیے مخصوص اضافی نمبر ہیں۔ اسی بناپر باصلاحیت طلبا کے ساتھ ساتھ بے صلاحیت بھی اس کے لیے جگاڑ لگاتے ہیں اور ہم میں سے چند لوگ پیسے کی خاطر پیپر اور تھیس لکھ کر بے صلاحیت یا کم صلاحیت والوں کی سرپرستی کر تے ہیں۔ انھیں لکھ کر دے دیتے ہیں یا نقل کروادیتے ہیں۔ اسے ڈگری کا کمرشیلایزیشن کہنا چاہیے۔ لہٰذا معیار کی گراوٹ میں چند طلبا کے ساتھ ساتھ بعض اساتذہ بھی شریک ہیں۔

خ ر: ادب کی مبادیات کیا ہیں؟ ایک طالب علم یہ کیسے محسوس کرے گا کہ اس فن پارے میں ادبیت ہے یا نہیں ہے؟

ر  ا:یہ بہت مشکل اور سنجیدہ سوال ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے میں یہ واضح کردوں کہ ادب بنیادی طور پر موضوع، اسلوب اور ہیئت کا اٹوٹ، مربوط اور دلکش مجموعہ ہوتا ہے۔ ادب کا مطالعہ کرتے وقت یہ دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس میں جذبہ، احساس یا خیال کیسا ہے۔ اس کی زبان اور اس کا اسلوب کیسا ہے نیز جس ہیئت میں پیش ہوا ہے، اس میں سماکر اس کے تقاضوں کو پورا کررہا ہے یا نہیں۔ یہاں ایک مسئلہ یہ بھی سامنے آتاہے کہ ایک ہی خیال کو کئی شاعر یا نثر نگار اپنے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔ اس صورت میں تقابل کا سوال ابھرتا ہے کہ کس فن پارے میں اثر آفرینی ہے۔ کسے پڑھ یا سن کر ہماری حس بیدار ہوجاتی ہے۔ ہمارے شعور میں گرماہٹ پیدا ہوتی ہے۔ آل احمد سرور کی زبان میں مسرت اور بصیرت حاصل ہوتی ہے۔ دراصل ادب میں اسلوب کی بڑی اہمیت ہے۔ موضوع یا خیال اسی کے وسیلے سے ہیئت میں ضم ہوتا ہے۔ اس لیے میری نظر میں ادب کی قدر و قیمت کا دار و مدار اسلوب پر ہے۔ میں اسلوب کے سلسلے میں زیادہ نہیں بولوں گا۔ اس کی تعریف و تشریح بڑی پیچیدہ اور بڑی حد تک فلسفیانہ ہے۔ اس میں زبان، تکنیک اور تخلیقی عمل وغیرہ کی بحث شامل ہوجائے گی۔

خ  ر:کیا یہ درست ہے کہ اردو رفتہ رفتہ ختم ہوتی جارہی ہے یا اسے ختم کرنے کی ساز ش رچی جارہی ہے؟

ر  ا:اس میں بہت حد تک سچائی ہے۔ آج کل اردو جاننے والے بلکہ پڑھے لکھے لوگ ہندی سے متاثر نظر آتے ہیں۔ اسی وجہ سے اردو کا بنیادی ڈھانچہ دن بہ دن کمزور ہوتا جارہاہے۔ آپ غور کیجیے، اردو الفاظ اور محاورات کس تیزی سے بگڑرہے ہیں یا بگاڑے جارہے ہیں۔ اب معلوم چلا، علمائوں، حالاتوں وغیرہ میڈیا سے ہوتے ہوئے عوام میں رائج ہوتے جارہے ہیں۔  اگر پڑھے لکھے لوگ صحت زبان کا لحاظ نہیں رکھیں گے تو زبان کمزور ہوگی اور ہماری اردو زبان کا اردو تہذیب کا نقصان ہوگا۔

                آسان زبان یاہندوستانی الفاظ پر مشتمل زبان استعمال کرنا اچھا ہے۔ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ اردو میں علاقائی الفاظ بھی کھپائے جاسکتے ہیں مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اردو قواعد، ا س کے اپنے کینڈا اور اس کی اپنی پہچان سے سمجھوتہ کیاجائے۔

خ  ر: کیا مدارس کے فارغین کی وجہ سے آج اردو بچی ہوئی ہے؟ اگر مدرسہ والے نہ ہوتے تواردو میں قابل قدر کام نہ ہوتا؟

ر  ا:یہ جزوی طور پر درست ہے۔ آج کل بہار کے مدرسوں سے جو بچے اردو کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے آرہے ہیں، وہ بہت کمزور ہوتے ہیں۔ ان میں ادب کا وہ شعور نہیں ہوتا جو پہلے کبھی ہوا کرتا تھا۔ بہار میں عالم اردوکی سند والے ایم۔ اے۔ اردو میں داخلہ لیتے ہیں۔ ان کا املا اور جملہ بہتر ہوتا ہے مگر شعر وادب اور تاریخ ادب کی سمجھ برائے نام ہی ہوتی ہے۔ ان پر اساتذہ کو زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔

                جہاں تک قابل قدر کام کا سوال ہے۔ جیسا کام پروفیسر عبدالمغنی، پروفیسر ظفر اوگانوی، پروفیسر ابوالکلام قاسمی، پروفیسر ظفر احمد صدیقی وغیرہ نے کیا ہے جو بہت پہلے مدرسوں سے فارغ ہوئے تھے مگران لوگوں کے بعد ایک گیپ ہوگیا ہے۔

خ  ر:اردو کے مستقبل کے تعلق سے آپ کی کیا رائے ہے؟

ر  ا:           میری سمجھ سے اردو کا مستقبل زیادہ روشن نہیں ہے۔ ایک عرصے سے لپی بدلنے کی بات ہورہی ہے۔ اردوکے کئی اساتذہ کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جو صحیح زبان نہیں لکھ سکتے ہیں،املا تک غلط لکھتے ہیں۔ پانچ دس منٹ کسی موضوع پر بول نہیں سکتے ہیں۔ میں نے بہار، کے دو مشہور کالج اور دو یونیورسٹی میں تدریس کی ہے اور بہت کچھ دیکھا ہے۔ اردو کے طلبا عام طور پر دستخط یا درخواست کے لیے ہندی کا انتخاب کرتے ہیں۔ اکثر طلبا اردو میں درخواست لکھ بھی نہیں سکتے۔ اب ایسی صور ت میں اردو کے مستقبل کے بارے میں کیا رائے دی جائے۔ میرا ماننا ہے کہ شمالی ہندوستان میں بول چال کی زبان اردو ہے مگر لکھنے کی زبان ہندی ہوگئی ہے۔

خ  ر: اردو رسم الخط ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنتا رہا ہے۔ غیر تو غیر اپنے بھی اردو رسم الخط کی مخالفت کرتے ہیں۔ کیا اردوکو اس کے رسم الخط کے بغیر باقی رکھا جاسکتا ہے؟

ر ا:دیکھیے بہت سے ایسے الفاظ ہیں جو اردو رسم الخط ہی میں زندہ رہ سکتے ہیں۔ دیوناگری یا رومن لپی میں وہ دم توڑ دیں گے۔ ذ، ز، ض، ظ والے الفاظ تو فنا ہوجائیں گے۔ ان کا صحیح تلفظ ناپید ہوجائے گا۔ یہی حال ’ژ‘ والے لفظوں کا ہوگا۔ دراصل اردو کا صوتی ذخیرہ لاثانی ہے۔ اس کا نظام بھی بڑا جامع اور وقیع ہے۔ اصوات کی ایسی زرخیزی غالباً دوسری کسی زبان میں نہیں ہے۔ صوتی ذخیرے کا دارو مدار لپی پر ہے۔ لپی کی تبدیلی سے یہ بے نظیر ذخیرہ بالکل ختم ہوجائے گا۔ اردوکی ساری دلکشی، چاشنی اور سحر انگیزی مختلف اصوات کی شمولیت اور انضمام سے ہے اور اس معاملے میں بر صغیر کی کوئی زبان اردو کی ہمسر نہیں ہوسکتی۔ دوسری کسی لپی میں ایسی انضمامی توانائی اور تخلیقی سلیقہ مندی نہیں ہے کہ حسن ادا کے ساتھ دوسری زبانوں کے الفاظ کو نیا پیراہن عطا کردے یا دوسری زبانوں کے الفاظ کو صحیح Accentکے ساتھ ادا کرسکے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ زبان اپنی لپی کے ساتھ زندہ رہتی ہے۔ ہمیں عبرانی زبان سے سبق لینا چاہیے۔ قیام اسرائیل سے قبل یہودیوں کا کوئی الگ ملک نہیں تھا مگر اس قوم نے اپنی زبان کو سینہ بہ سینہ محفوظ رکھا اور ملک ملنے کے بعد وہاں اسے رائج کیا۔ اس لیے اردو زبان کو اس کی لپی کے ساتھ ہی زندہ رکھا جاسکتا ہے  ورنہ یہ جس لپی میں لکھی جائے گی، اسی میں ڈھل کر ختم ہوجائے گی۔

خ  ر:اچھا اب یہ بتائیں کہ نئی نسل اردو سے کیوں دور ہوتی جارہی ہے ؟ اسے اردو سے کیسے جوڑے رکھا جاسکتا ہے؟

ر  ا:دیکھیے، یہ دور کمر شیلائیزیشن اور ٹیکنالوجی کا ہے۔ تعلیم کا بہت چرچا ہے مگر روایتی تعلیم کی طرف سماج کا کمزور طبقہ راغب ہوتا ہے۔ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی تحصیل باعث فخر ہے مگر مہنگی ہے۔ سوائے ہندی کے دوسری دیسی زبانوں کا اسکوپ کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔ اردو بھی اس رجحان سے متاثر ہورہی ہے۔ اچھے پرائیویٹ اسکولوں بلکہ کئی سرکاری اسکولوں میں اردو کی تعلیم نہیں ہوتی ہے اور گارجین بڑی خوشی سے بچوں کو انگریزی کے علاوہ ہندی یا دوسری زبان پڑھنے دیتے ہیں۔کہیں کوئی احتجاج یا تحریک نہیں ہوتی۔ان کا اصل مقصد اچھی اور اعلیٰ مروجہ تعلیم حاصل کرنا ہوتا ہے۔

اس صورت حال میں اگر ہمیں اپنے بچوں کو اپنے کلچر، اپنی تہذیب اور اپنے مذہب سے جوڑے رکھنا ہے تو گھر پر محنت کرنا ہوگی۔ اردو تحریک کا نعرہ دینے اور میٹنگ کرکے اخباروںمیں فوٹو چھپوانے سے مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے۔ گھر پر اردو اخبار، رسالے اور کتابیںمہیا کرانا اور بچوں کو انھیں پڑھنے کی ترغیب دینا ہوگی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی تحصیل کوئی بری بات نہیں مگر اسی کے ساتھ اپنی زبان کی بھی جانکاری رکھنے میں کیا قباحت ہے۔

خ  ر:رئیس انور صاحب میں بہت ممنون ہوں کہ اردو زبان وادب کے حوالے سے آپ سے تفصیلی بات چیت ہوئی اور مختلف موضوعات پر آپ کے خیالات سے آگاہ ہونے کا موقع ملا۔ ایک بار پھر آپ کا شکریہ۔

 

Dr. Khan Mohd Rizwan

D-307, M.M.I Publisher

Abul Fazal Enclave, Jamia Nagar

New Delhi- 110025

Mob.: 9810862283

afeefrizwan@gmail.com

 

 

26/5/25

اپنشد، ماخذ: قدیم ہندی فلسفہ، مصنف: رائے شیوموہن لعل ماتھر

 اردو دنیا، فروری 2025

لفظ اُپنشد کا ابتدائی مفہوم گرو کے قدموں کے نزدیک بیٹھنا اور اطاعت گزاری کے ساتھ اس کے اپدیش کو سننا تھا۔ چنانچہ مکس ملر اپنشد کی تمہید میں کہتا ہے کہ سنسکرت زبان کی تاریخ اور ذہانت اس بات میں کچھ شبہ باقی نہیں رکھتی کہ ابتدا ً اُپنشد کا مفہوم مجلس تھا اور بالخصوص ایسی مجلس جو شاگردں پر مشتمل ہو اور جو اپنے استاد کے چاروں طرف ادب سے تھوڑے فاصلہ پر جمع ہوں۔ ڈیوسن کا خیال ہے کہ اس لفظ کا مطلب پوشیدہ تعلیم ہے جو پردۂ راز میں دی جاتی ہے اور خود اپنشدوں کی بہت سی عبارتوں سے ان کا ثبوت ملتا ہے۔ مکس ملر کو بھی اتفاق ہے کہ یہ لفظ اپنشدوں میں اس معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس تعلیم کو پوشیدہ رکھنے کے لیے بہت سے احکام کی تعمیل کرنی پڑتی تھی اور یہ کہا گیا ہے کہ یہ تعلیم اسی شاگرد یا طالب علم کو دی جائے جو اپنی اعلیٰ اخلاقی پابندی اور نیک خواہشات سے خود کو سننے کا اہل ثابت کرے۔ اپنشدوں کے مشہور شارح شنکراچاریہ نے اس لفظ کو ماخذ ’سد‘ قرار دیا ہے۔ جس کے معنی تباہ کرنے کے ہیں اور یہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ جبلی جہالت کو تباہ کرتا ہے اور صحیح علم کے اظہار سے نجات کی طرف لے جاتا ہے لیکن اگر ہم ان بہت سی عبارتوں کا مقابلہ کریں جن میں لفظ اپنشد واقع ہوا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ڈیوسن کے معنی درست ہیں۔ اس بارے میں خصوصی توجہ دی جاتی تھی کہ یہ تعلیم کسی غیرمستحق کو نہ دی جائے تاکہ اس کے بارے میں غلط فہمی اور اس کا غلط استعمال یا بے جا تصرف نہ ہوسکے۔ چنانچہ ’پرشن اپنشد‘ کے قول کے مطابق چھ شاگرد ایک بڑے گرو کی خدمت میں اعلیٰ ترین حقیقت کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے پہنچتے ہیں لیکن گرو تعلیم دینے سے قبل یہ مشورہ دیتا ہے کہ و ہ ایک سال تک اس کے ساتھ سکونت اختیار کریں۔ بظاہر اس غرض سے کہ ان کی حرکات و سکنات پر نظر رکھی جائے، تاکہ ان کو تشفی ہوجائے کہ وہ ایسی تعلیم کے مستحق ہیں اور ’کٹھ اپنشد‘ میں جب نچکیتا یہ جاننا چاہتا ہے کہ روحِ انفرادی یا جیو آتما موت کے بعد زندہ رہتی ہے یا نہیں، تویم (موت کا دیوتا) اس وقت تک کوئی جواب نہیں دیتا جب تک کہ اس کم سن طالب علم کے خلوص اور ذہنی قوت کی پوری آزمائش نہیں کرلیتا۔ ست اور آست کی تمیز کے بغیر کسی کو اعلیٰ ترین صداقت کی تعلیم دینے سے گریز کرنے کا طریقہ کچھ ہندوستان میں ہی نہ تھا بلکہ تمام قدیم باشندوں میں سب جگہ پایا جاتا تھا۔

اُپنشدوں کے ادب کا جو کہ نسلاً بعد نسل ہم تک منتقل ہوا ہے، ماخذ کا پتا چلانا کسی قدر دشوار ہے۔ ہندو روایت میں ان کا وہی رتبہ ہے جو ویدک ادب کی دیگر نوع مثلاً ’منتروں‘ یا ’برہمنوں‘ کو دیا گیا ہے۔ ان سب کو حیرت انگیز انکشاف یا ’اشروتی‘ خیال کیا جاتا ہے یعنی یہ ایسی تصانیف ہیں جن کا مصنف کوئی انسانی وجود نہیں ہے۔ اپنشدوں میں ہمیں اِدھر اُدھر ایسے مختصر اور پرمغز بیان ملتے ہیں جن میں ’سوتروں‘ یا ضابطوں کے مخصوص نشان پائے جاتے ہیں اور وہ ادبی مسالہ جس میں وہ مضبوطی کے ساتھ جمے ہوئے ہیں، کچھ اس نہج کا ہے کہ جس سے ان میں محفوظ صداقت کی تشریح اور اس کا تفصیل سے بیان ہوجاتا ہے۔ مزید برآں ان بیانات کو متعدد جگہوں پر اپنشد کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ شروع شروع میں یہ لفظ ’سوتر‘ یا ضابطہ کے لیے استعمال کیا گیا ہو جس میں فلسفہ اپنشد کی اہم صداقت کا لب لباب موجود ہو۔ مثال کے طور پر (تت توام اسی) ’وہ تو ہی ہے‘ پیش کیا جاسکتا ہے جس سے یہ علم حاصل ہوتا ہے کہ انفرادی روح اور کائناتی روح بنیادی طو رپر بالکل ایک اور یکساں ہے۔ قدیم زمانے میں اسی قسم کے فلسفیانہ سوتروں کا راز گرو اپنے چیلے پر افشا کرتے تھے اور اسی موضوع پر تشریحی تقریریں پہلے ہوتیں تو کبھی بعد میں۔ جیسے جیسے زمانہ گزرتا گیا ان تقریروں نے خاص صورتیں اختیار کرلیں اور ان اپنشدوں کے آغاز کا سبب نہیں، جو اس وقت ہمیں دستیاب ہیں۔ اگرچہ اس وقت تک یہ تحریری شکل میں نہیں لائی گئی تھیں۔ جس طریقے پر کہ اصل عبارت کی نشو و نما ہوئی ہے۔ یہ رائے قائم کی جاسکتی ہے کہ اس میں فقط ایک گرو کی تعلیم ہی نہیں ہے بلکہ اساتذہ کا ایک سلسلہ ہے اور اس نشو و نما میں قدیم تصورات نئے تصورات سے مل جل گئے ہیں۔ اس نقطۂ نظر سے اس امر کی وضاحت ہوجاتی ہے کہ ایک ہی اپنشد کی تعلیم میں بعض وقت  مختلف عناصر نظر آتے ہیں۔ ایک زمانے کے ہندوؤں کا قدیم علم و فضل جب اکٹھا اور مرتب کیا گیا تو اپنشد اس صورت میں ’برہمن‘ ادب کے ساتھ تتمہ کے طور پر شامل کیے گئے اور جب یہ ایک ہی صنف میں شامل کیے گئے تو دونوں یکساں قدیم شمار کیے جانے لگے۔ اس طرح ویدوں کے آخر میں واقع ہونے کے سبب اپنشدوں کو ویدانت کے نام سے موسوم کیا جانے لگا۔ قدیم اور مستند اپنشدں کا عہد ٹھیک طور سے معین نہیں کیا جاسکتا۔ نہ ان کے کسی مصنف کا حوالہ دیا جاسکتا ہے لیکن یہ سب بدھ سے قبل قرار دیے جاسکتے ہیں۔ کائنات کی فلسفیانہ تشریح کرنے میں وہ انسان کی اولین جدوجہد کی نمائندگی کرتے ہیں اس لحاظ سے انسانی فکر کی تاریخ میں بہت ہی انمول ہیں۔ وہ تمام نظامات ہاندی فلسفے کے اور بالخصوص ’ویدانت‘ کے اساسی عناصر ہیں۔ وہ تاریخی اہمیت سے بہت آگے ہیں۔اس لیے کہ ان کی نرالی روحانی قوت اور ان کی عالم گیر دل کشی کا عنصر فکر کی ازسرِ نو تعمیر میں اور مستقبل کے لیے زندگی کاازسر نو خاکہ تیار کرنے میں بہت زیادہ اثر پذیر ہے۔

یہ اپنشد بالخصوص جو کافی ضخیم ہیں زیادہ تر مکالموں کے طرز میںہیں۔ ان کا طریقہ استدلال فلسفیانہ کے بجائے شاعرانہ ہے۔ یہ فلسفیانہ نظمیں ہیں جو عام طور پر استعارے اور کنایے کے ذریعے صداقت کا اظہار کرتی ہیں۔ طرز ادا میں بہت زیادہ حذفِ عبارت سے کام لیا گیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان تصانیف کی  تفسیر کے لیے وہی شخص مخصوص کیا جاسکتا ہے جو آسانی سے اس کمی کو پورا کرسکے جو موضوع کو پیش کرتے وقت رہ گئی تھی۔

ویدک ادب پر مشتمل تصانیف میں سے غیرملکیوں کی توجہ سب سے پہلے اپنشدوں پر مبذول ہوئی۔  ان میں سے کئی کتابو ںکا ترجمہ مغلوں کے زمانے میں فارسی میں کیا گیا اور پھر ان کا ترجمہ لاطینی زبان میں کیا گیا اور لاطینی زبان کے ذریعے یورپ میں پہلی مرتبہ ان سے واقفیت ہوئی۔ چنانچہ شوپنہار کو اپنشدوں کا، جنھیں وہ نہایت قابل قدر سمجھتا ہے، علم اسی طرح حاصل ہوا۔ اس نے اپنی مشہور کتاب میں اپنشدوں کے متعلق اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ ’’اپنشد کی ہر سطر مستحکم، معین، کامل اور متناسب معنی پیش کرتی ہے۔ ہر ایک فقرے سے عمیق، اصلی، پرجلال خیالات برآمد ہوتے ہیں اور وہ سب ایک اعلیٰ، مقدس اور باوقار اسپرٹ سے چھایا ہوا ہے۔ تمام دنیا میں اصلی اپنشدوں کے سوا کوئی مطالعہ اس قدر مفید اور اعلیٰ نہیں ہے۔ یہ میری زندگی کی تسکین ہے اور یہی میری موت کے وقت وجہ تسلی ہوگا۔‘‘ شوپنہار کے ذریعے اپنشدوں کا مطالعہ جرمنی میں زیادہ ہوا اور سنسکر ت کے مطالعے سے عام دلچسپی بڑھی تو یہ اپنشد دیگر ممالک میں بھی جا پہنچے۔ حالیہ زمانے میں ان کے بے شمار ترجمے راست سنسکرت سے مغربی زبانوں میں کے گئے ہیں اور ان کی تعلیم غیرملکی عالموں کے لیے جاذبِ توجہ رہی ہے۔ فلسفہ اپنشد سے متعلق بہت سی شائع شدہ کتابوں میں سے ڈیوسن کی اعلیٰ درجے کی تصنیف کا ذکر ضروری ہے جو خاص پراز معلومات  ہے اور جس میں اپنشدوں کے مکمل خلاصے یا لب لباب بیان کرنے کے لیے بڑی احتیاط سے کام لیا گیا ہے۔

اپنشد میں دلچسپی کا مرکز بجائے بیرونی خالق کے اندرونی آتما ہوجاتا ہے، ویدوں کی وحدت پرستی کے میلان کا فطری نشو و نما خداپرستی کی ترقی یافتہ شکل میں ہوسکتا تھا نہ کہ اس نظریے کی طرف کہ ذات ہی اصلی حقیقت ہے اور باقی ہر ایک چیز اس سے بالکل ادنیٰ حیثیت رکھتی ہے۔ یہاں نہ تو کسی قسم کی عبادت کی جاتی ہے نہ کسی دیوتا اور پجاری کا کوئی تعلق ہی معلوم ہوتا ہے بلکہ ساری تلاش اعلیٰ ترین صداقت کی ہے اور انسان کی حقیقی ذات ہی حقیقتِ عظمیٰ معلوم ہوتی ہے۔ فلسفیانہ فکر کی تاریخ میں یہ سب سے اہم واقعہ ہے کہ ہندو ذہن برہمنی فکر سے اپنشدی خیال کی طرف راغب ہوا اور دلچسپی کا مرکز بیرونی خالق کی بجائے آتما ہوگئی۔ فلسفیانہ حیثیت کا یہ تغیر بے حد دلچسپ ہے اس لیے کہ اپنشدوں میں معروض سے موضوع کی طرف خیال کی تبدیلی کسی فلسفیانہ بحث یا نفس کی دقیق تحلیل سے حاصل نہیں کی گئی بلکہ اس کا تجربہ براہِ راست ادراک سے ہوا ہے اور یہ اذعان جس سے کہ اس صداقت کو سمجھ لیا گیا ہے، کسی بھی مطالعہ کرنے والے پر اپنا اثر کیے بغیر نہیں رہ سکتا اور یہ سمجھنا تو بالکل خلافِ قیاس ہے کہ طریق ’برہمن‘ کے تصورات سے اپنشدوں میں ’برہمہ‘ کے نظریے کا نشو و نما ہوا ہوگا۔

سب سے قدیم اپنشد نثر میں تحریر ہوئے ہیں اور اپنے طرز ادا میں تقریباً رموز ی کیفیت رکھتے ہیں۔ وہ بسیط، پرمغز اور دل پر اثر کرنے والے ہیں۔ ہم ان کو بار بار پڑھیں تب بھی نہیں تھکتے۔ یہ ہمیشہ تازہ ہیں، ان کا لطفِ عبارت ان کے خیالات کی قیمت سے الگ ہے، جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ لفظ اپنشد پوشیدہ اصول یا تعلیم کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اپنشد تعلیمات کا منشا یہ تھا کہ رازداری کے ساتھ خلوص سے دریافت کرنے والو ںکو یہ تعلیم دی جائے جو اعلیٰ اخلاق اور اعلیٰ خود ایثاری کے جذبے سے متصف ہوں اور جن کی غرض نجات حاصل کرنی ہو اور اس طرح ایک مرتبہ جب اپنشد کی اعلیٰ ترین طرز تحریر کا  طریقہ ظاہر ہوگیا تو وہ مذہبی لوگوں کے لیے خاص دلچسپی اور دل فریبی کا باعث بن گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب سنسکرت میں دوسری نثر و نظم کی تصنیفیں لکھی جانے لگیں۔ تب بھی اپنشدی صورت موقوف نہیں ہوئی۔ اس طرح اگرچہ ابتدائی اپنشد 500 ق م میں لکھے گئے، تاہم ہندوستان میں اسلامی اثر پھیلنے تک وہ اسی طرح لکھے جاتے رہے ہیں۔ ان میں ابتدائی اور اہم ترین وہ ہیں جن کی شرح شنکراچاریہ نے کی ہے۔ ان کے نام ہیں برہد آرنیک، چھاندرگیہ، ابیزیہ، تیتتریہ، ایمن، کین، کٹھ، پرشن، منڈک، ماندوکیہ، اس سلسلے میں یہ بات قابل غور ہے کہ الگ الگ  اپنشد ایک دوسرے سے مضمون اور طرزِ بیان میں مختلف ہیں۔ بعض تو وحدتی اصول ذات پر زور دیتے ہیں کہ وہی ایک حقیقت ہے، بعض یوگ کے عمل پر زور دیتے ہیں، بعض شیوا یا وشنو کی عبادت پر زور دیتے ہیں اور بعض فلسفہ یا تشریح بدن پر۔ حسبہ علی الترتیب ان کے نام پڑگئے۔ یہ سب مل کر تعداد میں 108ہیں۔

اپنشد الہامی ویدک ادب کے اختتامی حصے ہیں اور ان کو ویدانت کہا جاتا ہے۔ بالعموم یہ یقین ہے کہ سب سے اعلیٰ حقائق صرف ویدوں کے الہام ہی میں پائے جاتے ہیں۔ عقل کو عام طور پر کم درجہ دیا گیا ہے اور اس کا اصلی استعمال یہ تھا کہ انھیں دانائی کے ساتھ ویدوں کے تصورات کے معنی واضح کرنے کے لیے کام میں لایا جائے۔ یہ خیال کیا گیا ہے کہ حقیقت اور صداقت کا اعلیٰ علم کلیتاً  اپنشدوں میں ظاہر ہوچکا ہے اور عقل کا کام صرف یہ تھا کہ اس کو تجربے کی روشنی میں کھولے اور یہ انتہائی گستاخی سمجھی جاتی تھی کہ کوئی شخص خواہ وہ کتنا ہی فاضل اور لائق کیوں نہ ہو ،وہ اپنی رائے کی سند پر یا اپنی زبردست دلیلوں کی بنا پر صداقت کو بسیط طور پر بیان کرسکے۔ اس کا نظریہ اس وقت تسلیم کیا جاتا جب کہ وہ یہ ثابت کرے کہ اپنشد اس کی تائید کرتے ہیں۔ اس طرح ہندو فلسفے کے اکثر مذاہب اپنا اصلی فرض یہ سمجھتے ہیں کہ اپنشدوں کی تعبیر اس غرض سے کریں کہ یہ ثابت ہو کہ ان کا بیان کیا ہوا نظریہ ویدانت کے اصول کو ظاہر کرتا ہے۔ اس طرح ہر شارح نے اپنے موقعے پر عبادتوں کو خود اپنے نمایاں اصولوں کے موافق بنا کر پیش کیا اور دوسروں کو دبا دیا ان کی تشریح کرکے ان کو رد کردیا لیکن اپنشدی تعبیر کے مختلف نظامات کا مقابلہ کرتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ شنکر آچاریہ نے جو تعبیر کی ہے وہ وسیع طور پر ابتدائی اصولوں کے عام مجموعے کی رائے کو ظاہر کرتی ہے، اگرچہ بعض اصول ایسے ہیں جو دوسرے نظامات کے اصولو ںپر ممیز طور پر پردہ ڈالتے ہیں۔ اس طرح ویدانت بالعموم شنکر آچاریہ کی تعبیر سے وابستہ ہے۔ اگرچہ اور بھی نظامات ہیں جو اس امر کا دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ حقیقی ویدانت کے اصول کو ظاہر کرتے ہیں، لیکن صرف شنکر کے نظام کو ہی نظام ویدانت کہا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں اپنشدوں کی جدید تعبیر کرنے والے کا فریضہ ہوجاتا ہے کہ وہ ان شرح کرنے والو ںکی طرف مطلق توجہ نہ دے اور اپنشد کو باضابطہ کتاب نہ سمجھے بلکہ مختلف خیالات کا خزانہ سمجھے جس میں سب متاخر فلسفیانہ تصورات ابھی تک حیرت انگیز انکشاف کی حالت میں ہیں۔ اگرچہ یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ شنکر کا وحدتی اصول یا اس حد تک رسائی بہت سے اپنشدوں کا واحد مضمون ہے۔

جدید تعبیرکرنے والے کے لیے یہ بہتر ہوگا کہ وہ قدیم تعبیر کرنے والو ںکی پیروی نہ کرکے اپنشدوں کو مستقل طور پر علیحدہ علیحدہ دیکھے اور ان کے معنی متعین کرے لیکن ربط عبارت کا خاص لحاظ رکھے جس میں وہ ظاہر ہوتے ہیں، صرف یہی وہ طریقہ ہے جس سے ہم اپنشدوں میں دوسرے ہندی نظامات کے افکار کے اثرات کا مقابلہ کرسکتے ہیں اور اس طرح ان میں افکار کے میلانات کی ابتدائی تحریروں کو پاسکتے ہیں۔

اپنشد کوئی باقاعدہ کتابیں نہیں ہیں جو کسی شخص نے لکھی ہوں، بلکہ وہ خود کلامیوں، مکالموں یا قصوں پر مشتمل ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ان میں سادہ مباحث ہیں، لیکن کہیں علم کی شیخی یا منطقی ورزش نہیں، ایک سرسری طور پر پڑھنے والا بھی رشیوں کے جوش، سرگرمی اور صداقت طلبی کو دیکھ کر متحیر ہوجاتا ہے کہ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ ایسے استاد کی تلاش میں بڑے شوق سے مارے مارے پھرتے ہیں جو ان کو برہمہ کے طریقے پر تعلیم دینے کے لائق ہو کہ برہمہ کہاں ہے، اس کی نوعیت کیا ہے۔ ان کو اس تصور کی تلاش تھی کہ خارجی عالم کی تعبیر کے تحت ایک غیرمتغیر حقیقت ہے اور وہ عین اس کے مطابق ہے جو انسان کے جوہر میں ہے۔ ’سہمتا‘ کے آخری زمانے میں ایسے لوگ تھے جو عالم کے واحد خالق اور نگرانی کرنے والے کے تصور تک پہنچ گئے تھے اور اس کو مختلف ناموں سے یاد کرتے تھے۔ مثلاً پرجاپتی، وشواکرما، پرش، برہمہ، لیکن یہ ربانی متصرف ابھی تک صرف دیوتا ہی تھا اور اس دیوتا کی تلاش اپنشدوں میں شروع ہوئی۔ رشیوں نے ابتدا ہی اس خیال کے ساتھ کی کہ اعلیٰ اہتمام کرنے والا جوہر وہ ہے جو انسان اور عالم پر حکمران ہے لیکن اس کی نوعیت کیا ہے؟ کیا وہ فطر ت کے دوسرے دیوتاؤں کے مطابق ہے یا وہ ایک جدید دیوتا ہے یا کوئی دیوتا ہی نہیں؟ اپنشد اس جستجو کی تاریخ پیش کرتے ہیں اور ان نتائج کا ذکر کرتے ہیں جو حاصل ہوئے۔

اس جستجو میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ابھی آرنیکی تصورات اور عبارت کی علامتی صورتوں سے باہر نہیں آئے ہیں ’پران‘ (حیاتی سانس) کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ انسانی زندگی میں لازمی وظیفہ ادا کرتا ہے اور بہت سے قصے یہ ثابت کرنے کے لیے بیان کیے گئے ہیں کہ وہ دوسرے اعضا مثلاً آنکھ،کان، وغیرہ پر فوقیت رکھتا ہے اور اسی پر سب وظائف کا دار و مدار ہے۔ پران کی فوقیت کے اس اقرار سے اس پر برہمہ کے طور پر مراقبہ کرنا شروع ہوا گویا کہ وہ بہت مفید نتائج برآمد کرنے والا ہے۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ’آکاش‘ کی اعلیٰ خصوصیات، ہمہ جائیت اور ازلیت کے باعث اس پر برہمہ کے طو رپرمراقبہ کیا جاتا ہے اور اسی طرح من یا نفس اور آدتیہ یا سورج پر برہمہ کے طور پر غور کیا جاتا ہے۔ پس برہمو کے حاصل کرنے کے لیے ہم ایک سرگرم جستجو دیکھتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی اس نصب العین کا تشفی بخش جواب نہیں دے سکا جو برہمہ سے درکار تھا۔ برہمہ کی نوعیت کے صحیح علم تک پہنچنے کے لیے رشیوں کو ایسی بہت ناکامیوں، جدوجہد اور کشمکش سے دوچار ہونا پڑا ہے۔

ویدک شعرا کے دل مرئی ظہور کے دیوتاؤں کی پرستش کے اس قدر طویل مدت سے عادی تھے کہ وہ ایک مثبت اور معین برہمہ کی تلاش میں اس کو ترک نہیں کرسکتے تھے۔ انھوں نے قدرت کی پرجلال قوتوں کی بہت سی علامتوں کی آزمائش کی، لیکن کسی سے اطمینان کلی نہ حاصل ہوسکا، برہمہ کس کے مانند ہے، وہ نہیں جانتے تھے، وہ اپنی روحوں کی گہری طلب میں اس کا دھندلا اور خواب کا سا خیال رکھتے تھے جو مستقل اصطلاحات میں ظاہر نہیں کیا جاسکتا، لیکن یہی چیز ان کو منزلِ مقصود تک لے گئی کیونکہ وہ بہترین سے کم کسی چیز سے مطمئن نہیں ہوسکتے تھے جہاں تک انھوں نے آخری حقیقت کو متعین اور ایجابی صورت دینے کی کوش کی، وہ ناکام رہے۔

 

ماخذ: قدیم  ہندی فلسفہ، مصنف: رائے شیوموہن لعل ماتھر،  دوسرا ایڈیشن: 1998، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

 

21/5/25

فخر ہندوستان دوم، مضمون نگار: انیس الحسن صدیقی

اردو دنیا، فروری 2025


14 جولائی اور 23 اگست 2023 ہندوستان کی تاریخ میں سنہرے الفاظ سے لکھے گئے ہیں۔ 14 جولائی 2023 کو فخر ہندوستان ۔اول خلائی جہاز چندریان ۔سوم نے اپنا خلائی سفر شروع کرکے 23 اگست 2023 کو وِکرم لینڈر کو کامیابی کے ساتھ چاندکی سطح  پر اتار دیا تھا۔ وِکرم لینڈر کے اندر سوار خود کار گاڑی پرَگیان نے باہر نکل کر چاند کی سطح کا جائزہ لیا اور چاند کی تصویریں اتار کے ہندوستان روانہ کی تھیں۔ خود کار گاڑی  پر نصب سائنسی آلات نے چاند کی سطح کے متعلق اہم معلومات ہندوستانی سائنس دانوں کو 14 دنوں تک روانہ کی تھیں۔

اب 2 ستمبر کا دن بھی ہندوستان کی تاریخ میں سنہرے الفاظ سے لکھا گیا ہے۔ اس دن ایک اور فخرِ ہندوستان۔ دوم، خلا میں سورج کی مشاہدہ گاہ آدِتیہ ایل۔اول ،خلائی گاڑی پی۔ ایس۔ ایل۔ وی۔ پر سوار ہماری زمین سے خلائی سفر کے لیے  ہندوستانی وقت کے مطابق ٹھیک 11.30پر کامیابی کے ساتھ روانہ ہوئی۔اس خلائی گاڑی نے پندرہ منٹ میں سورج کی مشاہدہ گاہ آدتیہ ایل۔اول کو خلا میں 250 کلو میٹر کی دوری تک پہنچادیا تھا۔ اب یہاںسے آدتیہ ایل۔اول کا خلائی سفر شروع ہوا۔ چند گھنٹوں بعد ہندوستانی خلائی تنظیم کے سائنس دانوں نے خلا میں اپنے رسل و رسائل کے ٹیلی سسٹم کے ذریعے اس مشاہدہ گاہ کو زمین کے گرد 235 x 19,500 کلو میٹر کے ترخیمی مدار میں کردیا۔  اس کے بعد زمین کے گرد5 ستمبر 2023 کو 245 x 20,023 کلو میٹرکے ترخیمی مدارمیں کردیا۔اسی طرح اس کا زمین کے گرد مدار بڑھاتے بڑھاتے اس کو اپنی منزل ایل۔ اول تک125  دنوں میںپہنچادیا جائے گا۔ اس مہم کی خاتون ڈائرکٹر محترمہ ڈاکٹر نگار شاہ جی نے بتایا:

’’اسرو کی خلائی مہم سورج کی مشاہدہ گاہ آدِتیہ ایل۔اول خلا میں ایل۔اول مقام جو ہماری زمین سے 1,50,00,000 کلو میٹر کی دوری پر ہے یعنی چاند کی دوری کا تقریباً چار گنا، اس تک 125دنوں میں پہنچے گی۔ وہاں پہنچ کر وہ سورج کے بالا موسم کا مشاہدہ کرے گی۔ یہ سورج کی مشاہدہ گاہ آدتیہ ایل۔اول 1,475 کلو گرام وزنی ہے اور اس پر 7 سائنسی آلات نصب ہیں جو سورج کے بارے میں معلومات ہماری زمین پر اسرو کے خلائی اسٹیشن پر پہنچائیںگے۔ اس خلائی مہم کی تیاری اسرو تنظیم 2006 سے کر رہی تھی۔‘‘

اس سے پہلے اسرو نے سورج کے باہر موسم کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے اپنی خلائی مہم کے تحت سورج کی مشاہدہ گاہ سیارچہ اسٹرو سیٹ (Astrosat) کو 2006 میں خلا کے لیے روانہ کیا تھا ۔

دنیا کے سائنس دانوں کی نگاہیں اسرو تنظیم کی اس خلائی مہم اور اس کی خاتون ڈائرکٹر محترمہ ڈاکٹر نگار شاہ جی پر لگی ہوئی ہیں۔ کیونکہ یہ پہلا سنہرا موقع ہے کہ ایک خلائی مہم کی ڈائرکٹر ایک  ہندوستانی خاتون سائنسداں ہے۔

کون ہیں محترمہ ڈاکٹر نگار شاہ جی؟

محترمہ ڈاکٹر نگار شاہ جی 1964 میں شیخ میرن او رسائی تھون بیوی کے کسان گھرانے میں تامل ناڈو کی تحصیل ٹینکاسی کے تحت سین گوٹائی میں پیدا ہوئی تھیں۔ آپ سین گوٹائی میں پلی اور بڑھیں اور وہاں کے ایک اسکول ایس آرایم گورنمنٹ ہائر سیکنڈری  اسکول میں تعلیم پائی۔وہاں سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے گورنمنٹ کالج آف انجینئرنگ، مقام ترون ویلی، مدورائی کامراج یونیورسٹی کے تحت الیکٹرونکس اینڈ کمیونیکیشنز میں ڈگری حاصل کی۔اس کے بعدآپ نے الیکٹرونکس میں ماسٹر کی ڈگری برلا  انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنا لوجی، میسرا سے حاصل کی۔

1987 میں اسرو خلائی تنظیم میں، یو آر رائو سیٹلائیٹ پروگرام کے تحت  داخل ہوئیں۔ آپ نے مختلف پروگراموں میں کام کیا اور بحیثیت ایسوسی ایٹ پرو جیکٹ ڈائرکٹر آف ریسور سیسٹ۔ دوم۔ اے  انجام دیا۔ اس کے بعد سے خلائی مشاہدہ گاہ آدِتیہ۔ اول پر مستقل کام کر رہی ہیں۔ آپ کے خاوندبھی ایک انجینئر کے حیثیت سے دبئی میں کام کر رہے ہیں۔ آپ کے فرزند نیدر لینڈ میں ایک سائنس داں کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ آپ کی بیٹی ایک سند یافتہ ڈاکٹر ہیں اور پوسٹ گریجویشن کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

آج کل آپ بنگلور میں اپنی والدہ اور بیٹی کے ساتھ مقیم ہیں اور خلائی مشاہدہ گاہ آدتیہ ایل۔ اول کے سائنس دانوں اور تکنیکی ماہروں کی ٹیم کی سربراہ کی حیثیت سے نگرانی کر رہی ہیں۔

بہت سے زیادہ لوگوں نے آپ کے اس پروجیکٹ کو سراہا ہے اور تعریف کی ہے اور بعضوں نے تو ہندوستانی عظیم سائنس داں اے پی جے عبد الکلام کے نقشِ قدم  پر گامزن سائنس داں لکھا ہے جیسا کہ آپ تصویر میں دیکھ سکتے ہیں۔

خلا میں ایل۔اول کا مقام کیا ہے؟

یہ خلا میں سورج اور زمین کے درمیان وہ مقام ہے جہاں خلائی جہاز و مشاہدہ گاہ آدِتیہ ایل۔اول خود کو اس مقام پر رکھے گا۔ اس لیے اسرو کے مشن  کے سائنس دانوں نے سورج کا مشاہدہ بغیر کسی رکاوٹ کے کرنے کے لیے خلا میں یہ مقام طے کیا ہے۔ خلا میں اس نقطہ کو Lagrange-1 مقام کہا گیا ہے۔ لیگرینج ایک ماہر ریاضی کا نام ہے جس نے خلا میں سورج اور زمین کے درمیان ایسے پانچ نقطوں کو دریافت کیا تھا۔ اس لیے یہ پانچ نقطے اس کے نام  سے موسوم ہیں۔یہ وہ مقام ہیں جہاں دو خلائی جرم گھومتے اور گردش کر تے ہوئے بڑے اجرام کے مادوں کی قوت کی نفی کرتا ہے۔ اس لیے کوئی بھی خلائی جہاز سورج اور زمین کے درمیان ان نقطوں پر دونوں اجرام کی کشش کے کھنچائو اور مرکز گریز قوت (Centrifugal force) کے تحت وہیں ٹکا رہے گا اور زمین کے ساتھ ساتھ گھومتا رہے گا۔ سورج اور زمین کے درمیان ایسے پانچ مقام ہیں۔

 خلا میں ایل۔اول مقام ہماری زمین کے ان پانچ نقطوں میں سے پہلا نقطہ ہے جو ہماری زمین سے 1,50,00,000 کلو میٹر کی دوری پر ہے۔ یعنی چاند سے چار گنا زیادہ فاصلے پر۔ اس نقطے پر جو بھی جرم رکھ دیا جائے گا وہ ہمیشہ وہیں پر رہے گا اور زمین کے ساتھ ہی ساتھ سورج کے گرد گردش کرتا رہے گا۔خلا میں اس نقطہ سے سورج کے ہالۂ نور (Halo) کا مشاہدہ آسانی سے بغیر کسی رکاوٹ کے ہوگا۔ اس نقطہ پر سورج اور زمین کی کشش کا کھنچائو یعنی قوت جاذبہ خلائی مشاہدہ گاہ آدِتیہ ایل۔اول کو ہماری زمین کے ساتھ ہی ساتھ گھماتی رہے گی۔ آج کل خلائی سیارچہ ایس او ایچ او (SOHO) بھی اسی نقطے سے سورج کے ہالۂ نور کا مشاہدہ کر رہا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو خلا میں یہ نقطہ خلائی مشاہدہ گاہ آدِتیہ ایل۔اول کے پارکنگ کی جگہ ہے۔ جہاں سے یہ مشاہدہ گاہ اسرو کے زمین پر خلائی اسٹیشن کو سورج کے ہالۂ نور کی تصویریں مستقل روانہ کرتی رہے گی اور ہمیں ہمیشہ شمسی آندھی کے بارے میں پیشگی اطلاع فراہم ہوتی رہے گی۔

خلا میں ایل۔اول مقام پر مشاہدہ گاہ ایل۔اول کو قائم رکھنے کے کیا فائدے ہیں؟

پہلا فائدہ یہ ہے کہ اس مقام سے سورج کا مشاہدہ بغیر کسی رکاوٹ کے ہوسکتا ہے یہاں تک کہ سورج گرہن کے دوران بھی۔

دوسرا فائدہ یہ ہے کہ خلا میں  ایل۔اول  مقام سورج اور ہماری زمین کے درمیان کے فاصلہ کا ایک فیصد ہے۔ اس لیے مشاہدہ گاہ ایل۔اول پر نصب تمام سائنسی آلات سیدھے سورج کا مشاہدہ آسانی سے کر سکیں گے۔

تیسرا فائدہ یہ ہے کہ اس مشاہدہ گاہ پر نصب سائنسی آلہ وی ایل ای  سی سورج سے خارج شدہ مادے کا آسانی سے مشاہدہ کر سکے گا۔

چوتھا فائدہ یہ ہے کہ اس مقام پر مشاہدہ گاہ آدتیہ ایل۔ اول کا کم سے کم ایندھن خرچ ہوگا۔

خلا میں اس مقام سے تمام سائنسی مقاصد پورے ہوں گے۔  مثلااس مشاہدہ گاہ کے ذریعے ہمارے سب سے قریب ستارہ یعنی سورج کا گہرا مطالعہ ہو سکے گا یعنی کس طرح سورج کی ریڈیشن، گرمی، سورج سے بھر پور ذرات کا خارج ہونا اور ان کا کتنا اثر ہماری زمین کے مقنا طیسی علاقے پر ہوتا ہے۔ اس مشاہدہ گاہ پر نصب آلات سورج کی بالا فضا کی تہہ جس کو  لونی فضا (Chromosphere)کہا جاتا ہے یعنی سورج کے آس پاس کی فضا پر چھایا ہوا گیس کا غلاف ہے جو کرۂ ضیائی اور سورج کے ہالہ کے درمیان واقع ہے۔ اس کا مطالعہ آسانی سے ہو سکے گا۔ نخزِ مائیہ (Plazma) اور مقنا طیسی علاقے جو سورج کے ہالہ سے خارج ہوا مادہ کہلاتا ہے (Coronal mass ejection)کا بھی ہمارے سائنس داں مطالعہ کر سکیں گے۔ سورج کے ہالہ کا مقنا طیسی علاقہ اور سورج کی فضا کا بھی مطالعہ کیا جائے گا۔

سائنس دانوں کو بہت عرصہ پرانا پوشیدہ راز بھی معلوم ہو سکتا ہے کیونکہ اتنا زیادہ چمکدار سورج کے ہالہ کا درجۂ حرارت 10,00,000 سینٹی گریڈ ہے جب کہ سورج کی سطح کا درجۂ حرارت صرف 5,500 سینٹی گریڈ ہے۔ ایسا کیوں؟ یہ سائنس دانوں کو سورج پر ذرات کی رفتار بڑھنے کے عمل کے اسباب جو شمسی آندھی کی رہنمائی کرتے ہیں ان کو بھی سمجھنے میں مدد کرے گا۔

اس شمسی مشاہدہ گاہ ایل۔اول پر نصب آلہ ویلیک (VLEC) کا میکینزم ہے کہ جس کے ذریعے چمکدار دکھائی دینے والی روشنی بند ہوجاتی ہے اور صرف وہ روشنی جو سورج کے ہالہ سے آرہی ہے جانچی جاتی ہے۔ یہ آلہ سورج کے ہالہ کا مطالعہ کرنے کے لیے بہت ہی قلیل وقفہ کے لیے کھلے گا یعنی صرف 5 ملی سیکنڈ۔ تب ہی سورج کے ہالہ کے بارے میں معلومات ہو سکتی ہیں۔ انسانی آنکھ سورج کے ہالہ کو نہیں دیکھ سکتی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ سورج کے موسم کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

اس لیے کہ سورج بھی کائنات میں دوسرے ستاروں کی طرح ایک ستارہ ہے جو ہماری زمین سے سب سے قریب ستاروں میں سے ایک ہے۔ یہ ستارہ ہماری زمین سے 14,96,00,000کلو میٹر کی دوری پر ہے۔ سورج کا اپنا نظامِ شمسی ہے جس کے تحت اس کے گرد 8 سیارے گردش کر رہے ہیں جن میں ہماری زمین جس پر ہم اور آپ بستے ہیں ،سورج سے تیسرا سیارہ ہے۔ اس سیارہ پر ہی زندگی موجود ہے۔ باقی کے پانچ سیاروں پر زندگی یا زندگی کے آثار ابھی تک نہیں پائے گئے ہیں۔ سورج کی گرمی کے ذریعے ہی اس زمین پر سورج کے مزاج پر موسم منحصر ہیں۔سورج ، دہکتی آگ کا ایک گولہ ہے۔ اس میں ہائیڈروجن گیس بذریعہ کیمیائی رد عمل Fusion ہیلیم گیس میں تبدیل ہو رہی ہے۔اس تبدیلی کے ذریعے سورج میں مستقل آگ بھڑک رہی ہے۔

سورج پر آگ اتنی شدید ہے کہ جس کی تپش کے ذریعے ہماری زمین پر زندگی موجود ہے۔یہی نہیں بلکہ اس کی شدید تپش کے ذریعے ہماری زمین پر طوفان، سیلاب وغیرہ بھی آتے ہیں۔ یہ سب ہماری زمین کے موسم پر اثر کرتے ہیں۔ سورج سے شمسی آندھی تو ہمارے بجلی پیدا کرنے کی گرڈ اور سیارچوں پر بری طرح اثر کرتی ہے۔ سورج کے موسم کے بارے میں ہمیں پیشگی اطلاع کے ذریعے ہی ہم اپنی بجلی کی گرڈ اور سیارچوں کو بچا سکتے ہیں۔ اس سائنسی دور میں ان خطرات سے بچائو کرنے کے  لیے ہمیں سورج کے موسم کے بارے میں پیشگی اطلاع کی شدید ضرورت ہے۔ یہ پیشگی اطلاع سورج کی مشاہدہ گاہ ایل۔اول ہی دستیاب کرا سکتی ہے۔

شمسی مشاہدہ گاہ ایل۔اول پر کون کون سے سائنسی آلات نصب ہیں؟

شمسی مشاہدہ گاہ  ایل۔اول پر 7 سائنسی آلات نصب ہیں۔ ان سائنسی آلات کی سورج کی شدید گرمی سے حفاظت کے لیے شمسی مشاہدہ گاہ ایل۔اول کا ڈھانچہ بہت ہی زیادہ طاقتور اسٹیل کے آمیزہ سے بنایا گیا ہے۔ یہ اسٹیل کا آمیزہ نہ صرف دیر پا قائم رہنے والا ہے بلکہ خلا میں شدید درجہء حرارت کو برداشت  کر سکتا ہے۔ اسی لیے شمسی مشاہدہ گاہ ایل۔اول پر نصب تمام سائنسی آلات  باوجود سورج کی شدید گرمی کے بحفاظت اپنا کام کرتے رہیں گے۔

1             سب سے خاص آلہ’دکھائی دینے والی خارج ہوئی لائن ہالہ گراف‘  (Visible Emission Line Cornograph)   یعنی (VLEC) جو کہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرو فزیکس کے ذریعے ڈیزائن کیا گیا ہے اور جو سب سے زیادہ اہم سورج کے ہالہ کا سب سے نچلا حصہ اوپر کی طرف کا مطالعہ کرنے میں مدد کرے گا۔ یہ آلہ سورج کے ہالہ کی تصویر کشی کر سکتا ہے یعنی سورج کے نصف قطر کا 1.05گُنا۔ابھی تک کسی بھی نصب آلہ نے  اتنا قریب سے سورج کے ہالہ کی تصویر کشی نہیں کی ہے۔

2             آلہ شمسی الٹرا وائلٹ تصویر کشی دوربین(Solar Ultraviolet Imaging Telescope) یعنی (SUIT) ۔ 

یہ آلہ انٹر یونیورسٹی سینٹر برائے اسٹرو نامی اینڈ فزیکس (IUCAA) کے ذریعے تیار کیا گیا ہے۔ یہ آلہ الٹرا وائلٹ روشنی کو پکڑے گا اور شمسی کرہ ٔلون کی تصویر کشی کرے گا۔سورج سے خارج ہوئی روشنی کی توانائی کے فرق کا مطالعہ کرنے میں یہ آلہ مدد کرے گا۔

3             آلہ قلیل شمسی توانائی ایکسرے طیف پیما (The Solar Low Energy X-Ray Spectrometer)  یعنی SoLEXS)) اور زیادہ توانائی ایل۔اول، ذرات ایکسرے طیف پیما (HEL1OS) یہ آلہ ، آر۔ راو  سیٹلائٹ سینٹر نے تیار کیا ہے  جو کہ سورج کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کا ایکسرے کرنے میں مدد کرے گا۔

4             آلہ دی آدتیہ شمسی آندھی ذرات تجربہ(The Aditya Solar Wind Particle Experiment)  یعنی (ASPEX) یہ آلہ شمسی آندھی کے بارے میں پیشگی اطلاع دے گا۔

5             آلہ پلازمہ انالائزر برائے آدِتیہ (Plazma Analyser Package for Aditya)  یعنی (PAPA) یہ آلہ اسرو کے فزیکل ریسرچ لیبا ریٹری کے ذریعے تیار کیا گیا ہے۔ اس آلہ کے ذریعے شمسی آندھی اور تونائی کے آیونز کا مطالعہ کیا جائے گا۔

6             آلہ ہیلیو (HELIO)  یہ آلہ سورج کی فضا کا مشاہدہ کرے گا۔ خاص طور پر کرۂ لون (Chromosphere) اور سورج کا ہالہ۔

7             آلۂ میگ(MAG) یہ آلہ سورج کی مشاہدہ گاہ ایل۔ اول کے سورج کی طرف کے حصہ پر نصب ہے۔ یہ آلہ مقناطیسی علاقہ کا سینسر ہے۔ اس آلہ کو  لیبا ریٹری برائے الیکٹروآپٹکس سسٹم (LEOS) نے تیار کیا ہے۔ یہ آلہ بین سیاروی قدر (Magnitude) اور زمین کے گرد مقناطیس کی سمت ناپے گا۔

مستقبل میں ہندوستانی خلائی اسرو تنظیم کے مزید خلائی پروگرام آنے کی امید کی جا رہی  ہے۔

وہ بچے و بچیاں جو اس مضمون کا مطالعہ کر رہے ہیں، وہ ابھی سے اپنی زندگی میں عظیم سائنس داں،تکنیکی ماہر، اسٹروناٹ و ایرو انجینئر وغیرہ بننے کی تیاری شروع کردیں۔اس کے لیے آپ کو اپنے اسکول میں مضامین ریاضی،سائنس، بایو لوجی، فزیکس پر زیادہ سے زیادہ دھیان دینا ہوگا۔

حوالہ جات

1             کتاب ’خلا میں ہندوستانی پروگرام کی جھلکیاں‘، مصنف : انیس الحسن صدیقی، شائع 2018، ناشر : قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان،وزارتِ ترقی انسانی مسائل، حکومت ہند، فروغِ اردو بھون، FC-33/9، انسٹی ٹیوشنل ایریا، جسولہ، نئی دہلی۔ 110025

2             خلائی اسرو تنظیم کی ویب سائٹ:

                http:www.isro.org/

3             مضمون،’چاند پر قدم، نظر سورج پر‘(Feet on Moon, eyes on Sun)، مصنف : انوننا دت، شائع : دی انڈین ایکسپریس،نئی دہلی ایڈیشن، بتاریخ 29 اگست

4             مضمون: ’’سورج کے نزدیک: آدِتیہ ایل۔اول مشن اور اس کے مقاصد ’’،(The Sun up close: Aditya l-1 mission and its objectives) ، مصنف: انجلی مرار، شائع ، دی انڈین ایکسپریس،نئی دہلی ایڈیشن، بتاریخ 2 ستمبر، 2023

 

A. H. Siddiqui

679, Sector-22-B

Gurugram- 122015 (Haryana)

Mob.: 9654949434

تازہ اشاعت

اردو کا صوتی ذخیرہ اور صوتی نظام لاثانی ہے، پروفیسر رئیس انور

  اردو دنیا، فروری 2025 خان محمد رضوان:پروفیسر رئیس انور صاحب، یوں تو آ پ کی تحریریں رسالوں میں ایک عرصے سے دیکھ رہا ہوں مگر ذاتی طور پر ...