اردو دنیا، فروری 2025
لوک ادب کی افادیت سبھی زبان و ادب کے لیے اہمیت کی
حامل ہے۔یہی وہ سرمایہ ہے جس سے زبان وادب کو پھلنے،پھولنے، سماج کی تہذیب وثقافت
کی بقا، معاشرت، علمی وادبی میدان میں لسانی تہذیب کو فروغ دینے، تمام اصناف کو
تقویت بخشنے، تقریر و تحریر میں معنویت اور وزن پیدا کرنے، اگلی نسل تک علمی ورثے
کو سینہ بہ سینہ اور نسل دَر نسل پہنچانے کا موثر ذریعہ ہے۔ عوامی ادب خوشی ومسرت
کا بھرپور اور تخلیقی سر چشمہ ہے۔اس میں کہاوتیں، پہیلیاں، حکایتیں، قصے، کہانیاں،
فقرے، لطیفے،لوک کتھائیں، محاورے، ضرب الامثال وغیرہ شامل ہیں جن کا خالق کو ئی
فردِخاص نہیں بلکہ پورا معاشرہ ہوتا ہے۔ جس کے پیچھے صدیوں کا سفر، لوگوں کے
تجربات، زمانے کے سرد وگرم کی کارفرمائی ہوتی ہیں اوریہ واقعیت اور اصلیت پرمحیط
ہوتا ہے۔ لوگ ادب کو علمی میدان میں نمایاں کرنے والوں میں کچھ اہم شخصیات ہیں
مثلاً اظہر علی فاروقی،قمر رئیس، دیوندر ستیارتھی،ٹیگور،قیصر جہاں اوربیگم بسم
اللہ نیاز وغیرہ۔
کسی بھی علاقے کے ادب، لوک ادب کے جائزے کے تحت وہاں کی
تہذیب و ثقافت، رسوم ورواج، عقائد و توہمات کاذکرکرنا وہاں کے ’لوک ادب‘ کو سمجھنے
میں آسانی ہوتی ہے۔ جیسا کہ لکشمی نارائن وسنسار چند اپنی کتاب میںلکھتے ہیں :
’’لوک
ادب میں اگر واقعیت اور اصلیت نہ ہوتی تو اس کی بیشتر قدروقیمت گھٹ گئی ہوتی۔ دوسری تحریری سر گزشتوں کی طرح اس نے بھی
تعصبانہ رجحان اپنا لیا ہوتا اور اس کی وہ اہمیت ضائع ہوجاتی جو انسان کے ارتقا کے
تسلسل میں بشریات کے مدارج سے متعلق کارآمد سراغ
دینے کی وجہ سے حاصل ہے۔ اس سے لسانی ماہروںکو انسانی بولی کا ابتدائی ماخذ
معلوم کرنے میں مدد ملی ہے ۔‘‘
(ڈوگری
لو ک ادب اور پہاڑی آرٹ،لکشمی نارائن و سنسار چند، مرتبہ نیلامبر دیو شرما،جموں اینڈ
کشمیر اکیڈمی آف آرٹ،کلچر اینڈ لنگویجز،
1969 ص 28)
ان باتوں سے ’لوک ادب‘کے ذریعے علاقے اور عوامی بولی کے
ماخذ تک پہنچنے میں کافی مدد ملتی ہے اور زبان کی ترقی یافتہ شکل کی سند مضبوط ہوتی
ہے اور یہ سب چیزیں ’لوک ادب‘ کی تحقیق ومطالعے سے ممکن ہے۔ جھارکھنڈ کے وجود میں
آنے کی ایک لمبی تاریخ ہے اوریہ مختلف تحریکوں سے وابستہ ہے جیسے بِرسا مُنڈا تحریک،تانا بھگت تحریک،کول تحریک،جھارکھنڈ
تحریک وغیرہ، پنج پرگنیہ، کُرمالی، سنتھالی،
مُنڈاری، کول، ہو، اس میں سے کھورٹھا زبان جو ہزاری باغ، دھنباد، سنگھ بھوم، گریڈ یہہ
اور سنتھال پرگنہ کے علاقوں میں بولی جاتی ہے۔کھورٹھا زبان آریائی خاندان سے تعلق
رکھتی ہے۔
سنتھال قبیلہ یہ جھارکھنڈ کی سب سے بڑی آبادی والا قبیلہ
ہے ان کی زبان سنتھالی ہے۔ جو آسٹرک ایشیائی خاندان سے ہے۔ اس کے رسم الخط کا نام
اول چِکی ہے جو 1941 میں رگھو ناتھ مُرمُو
نے ایجاد کیا ہے۔جس کے حروف تہجی 30ہیں۔سنتھال لڑکیاں بہت سے ایسے کاموں میں حصہ نہیں
لے سکتی ہیں مثال کے طور پر شکار، پنچایت کی بیٹھک وغیرہ میں،اسی طرح ہَل چلانے،
چھپر چھانے پربابندی ہے،شادی سے پہلے باپ کی دولت اور شادی کے بعد شوہر کی دولت
سمجھی جاتی ہیں۔سنتھال لڑکیاںگھونگھٹ نہیںڈالتی ہیں۔
بیٹی کی پیدائش پرپانچویں دن، اور بیٹے کی پیدائش پر
ساتویں دن چھٹی مناتے ہیں جس میںگاؤں کے مانجھی (ناؤ چلانے والا) ساتھ ہی دوسرے
لوگ اپنے بال منڈواتے ہیں پھربچے کے سر کا منڈن کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد بچے کے بال کو دونہ یعنی پتے کی کٹوری
میں رکھتے ہیں پھرسارے لوگ نہاتے ہیں بچے
کے بال کو گھاٹ میں بہا دیا جاتاہے۔ نہانے کے بعد جب واپس آتے ہیں تو دائی چاول
کو پانی میں گھول کر سبھوں پر باری باری چھڑکاؤ کرتی ہے جسے بدشگونی اور نحوست کو
ختم ہونے کاذریعہ سمجھتے ہیں ۔
جب دھان میں ہریالی آتی ہے تب ہڑیا تہوار مناتے ہیں
تاکہ فصل اچھی ہو۔ایک تہوار بندھا پرب ہے جو گھاٹ شیلہ میں لگتاہے ۔ یہ علاقہ شہر
جمشید پور سے کچھ فاصلے پر ہے اس میلے میں آس پاس کے گاؤں سے بھی لوگ کافی تعداد
میں آتے ہیں جس میں کانسہ، پیتل کے برتنوں کی دکانیں لگتی ہیں اور کافی خریداری
ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کی تفریح کے لیے، کھیل کود کے لیے مختلف چیزیں ہوتی ہیں
اور آج کل تو اس میں ایک دلچسپ ا ور تفریح کا سامان یہ ہے کہ چھوٹی سی جگہ میں
پانی جمع کرکے تالاب بناتے ہیں اورواٹر وین (Watervan) چلاتے
ہیں جو بچوں کے لیے خوشی کا سامان ہے۔ اسی تہوار کی طرف عبدالباری اپنی کتاب میں
رقمطرازہیں:
’’
ایک معاشی تہوار
بندھا پرب مشہور ہے جو دھالبھو م کے معروف مقام گھاٹ سِلہ میں میلہ کی حیثیت
سے لگتاہے ۔جس میں ہر قسم کے کانسہ، پیتل کے برتنوں کی دکانیں لگاتے ہیںاور تمام
لوگ اپنی ضرورت کے مطابق ان کی خریداری کرتے ہیں۔‘‘
(آدیباسی
تہذیب وثقافت، عبدالباری، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی۔25، نومبر 2017، ص
45)
اراؤں قبیلہ کے لوگ پورے جھارکھنڈ میں دوسرے نمبر پرہیں
ساؤتھ چھوٹا ناگپور میںسب سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔ جھارکھنڈ کی تمام ذاتوںمیں یہ
سب سے تعلیم یافتہ ہوتے ہیں لہٰذا ترقی یافتہ ہوناتو لازم ہے۔ اراؤں لوگ خود کو
کُڑک کہتے ہیں۔ اور کُڑک کے معنی انسان کے ہیں ۔ان کے رسم الخط کانام تولون سِکی
ہے جس کے موجد ڈاکٹر نارائن ہیں جو جھارکھنڈ کے ضلع گُملا سے ہیں۔کُڑک کو جھارکھنڈ
میں ریاستی زبان کادرجہ 2003میں دیا گیااور
پچھم بنگال میں ریاستی زبان کادرجہ 2018میں دیاگیا۔شری نرمدیشور کے مطابق اُراؤں
کا قدیم وطن کوکن تھا وہیں سے یہ لوگ منتقل ہوکر شاہ آباد ضلع میںآئے۔
یہ لوگ خاندان میں شادی نہیںکرتے ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ اس سے مصیبتیں آتی ہیں،ان
کے یہاں نزدیکی رشتے داروں میں شادی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ان کا خیال ہے کہ دھرم کادیوتا انھیں مختلف بیماریوں میں مبتلاکردے گا اس سے
اندھا یاکوڑھ یاکسی مہلک مرض کی بیماری لگ سکتی ہے۔
آدی واسی یہ دولفظ سے مل کر بناہے آدی جس کے معنی اصل
اور واسی جس کے معنی باشندہ، آدیواسی اس میں مزید چھوٹے بڑے گروہ ہیں (مِین) یہ سب سے بڑے اور اہم لوگ مانے جاتے ہیںاور
یہ جھارکھنڈ کے علاوہ دیگر علاقوںمیںبھی رہتے ہیں جیسے جے پور، سوائی
مادھوپور۔2000کی مردم شماری کے اندازے کے مطابق جھارکھنڈمیں7087068 آبادی ہیں۔ ان
لوگوں میں مچھلی،شراب،گوشت اور شراب نوشی کاکافی استعمال ہے۔مختلف اناج کو برتن میں
لے کر مہوا کے درخت کے نیچے رکھتے ہیںجہاں پر ٹھاکُر دیوتاکی مورتی ہوتی ہے۔ٹھاکُر
دیوتاکو گاؤں کامحافظ سمجھا جاتاہے اور لوگ اس کی پوجا کرتے ہیں۔ اس کے بعد اس
برتن سے کچھ دانے لے کرکھیتوں کے درمیان بوتے ہیںاور ٹھاکر دیوتا سے اچھی فصل کے
پکنے سے پہلے ایک امید لے کر مناتے ہیں۔
بھیل آدیواسی: لفظ بھیل
کا ماخذ دراوڑ زبان کے بِیل لفظ سے ہوا ہے جس کا معنی ’کمان‘ ہے اور یہ لوگ تیرکمان
کے ذریعے شکار کرتے تھے اور یہی شکاران کے گزر بسرکرنے کااسباب معاش تھا۔ اس کے
بعد آہستہ آہستہ کسبِ معا ش کے لیے کھیتی باڑی کو اپنایا اور اب کاشتکاری بھی ان
کی معیشت بن گئی ہے۔ یہ ایک گروہ ہے جو بچے کی پیدائش کے تیسرے دن صبح اٹھ کر نہا
دھوکر پھر وہ گھر کے صدر دروازے پر کھڑے ہوجاتے ہیں اس کے بعد اس کی نظر جس چیز پر پڑتی ہے۔ اسی کے مطابق بچے کانام رکھتے ہے
غرض کہ آدیواسی بھیل ذات میں ماں اپنے بچے کا نام رکھتی ہے اور وہ اپنے ہاتھ میں یا
جسم کے کسی حصے میں مختلف نشان بنواتے ہیںجو ان کابہترین کلچر ہے۔آدیواسی کے اس
کلچر کا ذکر ڈاکٹر یاسمین صدیقی اپنے ہندی مضمون میں لکھتی ہیں:
’’یہ
لوگ پہلے شکار کر کے جِیون یاپَن کرتے تھے، اب کھیتی کے دُوارا دَھن کماتے ہیں
بِھیل آدیواسیوں
میں گودنے ،گودوانے کی پَرتھا ہے تَتھا طرح طرح کے گودنے گودوائے جاتے ہیں۔‘‘
(ڈاکٹر یاسمین صدیقی،کوٹا یونیورسٹی،2016، ص9)
یہ جھارکھنڈ کی تیسری بڑی آبادی ہے یہ اپنے قبیلے کو
ہوڑوکّو اور خود کو ہوڑو کہتے ہیں۔ ان کی زبان منڈاری ہے ان کی زبان کو ہوڑو جَگَر
بولتے ہیںمطلب آدمی کی بولی۔یہ سارے ایک ہی قبائل کولرین سے ہیں۔ یہ بہت دلیر
ہوتے ہیں۔ان کے رسم الخط کو بانی اِیزیر یابانی اِیشِیر کہتے ہیںاور اس کاموجد
رُوئی دھاس ناگ تھا۔ منڈا لوگ جو جھارکھنڈ کے چھوٹا ناگپور کے علاقے میں رہتے ہیں۔
اس کے علاوہ بہار، اُڑیسہ، چھتیس گڑھ اور مغربی بنگال میں پھیلے ہوئے ہیں۔ تری
پورہ میں انھیں مورا اور مدھیہ پردیس میں موداس کہا جاتا ہے۔ جب لڑکا پیدا ہوتاہے
تو ان کاماننا ہے کہ کمانے والا پیداہواہے اور لڑکی کے بارے سوچتے ہیں کہ گھر
سنبھالنے والی پیدا ہوئی ہے۔شوہر کے بڑے بھائی اورساس کی بڑی بہن کو دیوتامانتے ہیںان
کو چھونا منع ہے ان کا نام لینامنع ہے بلکہ ان کے سائے سے دور رہنا پڑتاہے۔اگر اس
کے خلاف ہوجائے تو کفارے کے طور پر کھانا کھلانا پڑتا ہے، اس کو گڈِکو تَڑوم بولا
جاتا ہے۔ جب بچہ پیداہوتاہے تو اس کی نال کوتِیر سے اور بچی ہوتو بلیڈسے کاٹ کر
دروازے کے سامنے چھت کے نیچے دفن کرتے ہیں۔
’کہاوت‘
فرہنگ آصفیہ جلد سوم میں یہ تعریف دی گئی ہے،قول،بچن،ضرب المثل،نوکا،وہ بات جو نظیراً
باربار زبان پر آئے۔کہاوتیںلوک ادب کی ایک اہم ترین کڑی اور زبان کے لیے ایک زر خیزحصہ
ہے۔ زبان وبیان میں حسن اور شائستگی پیدا کرتی ہیں۔ سمندرکو کوزے میں بندکرنے کا کام کرتی ہیں،سمجھنے اور سمجھانے کے
لیے معاون ثابت ہوتی ہیں،اس سے بات میں وزن پیدا
ہوتاہے اور معنویت پیداہوتی ہے۔ یہ معاشرے کی پیداوار ہوتی ہیں،مختلف
حالات، مشاہدات اور تجربات کے بعد کہاوتیں بنتی ہیں پھر زبان زد عام وخاص ہوکر
زبان دَر زبان،نسل دَر نسل اور سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے ہوئے صدیوں کاسفر طے کرتی
ہیں۔ محققین، ماہر لسانیات، آثارِ قدیمہ، پتھروں، تختوںپر کندہ تحریروں،فقیروں،سادھو
سنتو ں،اکابرین کے اقوال اور مذہبی کتب سے کہاوت کے ابتدائی دور کی تاریخ سامنے
آتی ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر یونس اگاسکر رقمطرازہیں:
’’مغربی
عالموں نے بھی کہاوتو ں کے قدیم ترین نمونوں کوان کے ابتدائی نقوش سمجھ کر ان سے
جدید دورکی کہاوتوں کا سلسلہ جوڑا ہے اور کہاوتوں سے متعلق مختلف قسم کے نتائج
اخذکیے ہیں۔ چنانچہ دنیاکی ابتدائی کہاوتوں کے طورپر قدیم تہذیبوں مثلاً بابُل اور
نینَوا میں دستیاب شدہ تختیوں اور مصر کے پیرس پر موجود احکامات واقوال کو تحقیق
کاموضوع بنایا گیا اور ان کے بعدقدیم ترین مقدس کتب،ملفوظات،حکایات واحوال میںمحفوظ
اقوال و امثال کی قدامت پرصاد کیا گیا۔‘‘
(اردو
کہاوتیںاور ان کے سماجی ولسانی پہلو،ڈاکٹر یونس اگاسکر، موڈرن پبلشنگ ہاؤس، نئی
دہلی،1988ء ص88)
کھورٹھا کے بارے میں ماہرین کا اختلاف ہے کہ یہ بولی کس
زبان سے نکلی ہے۔ اس کا اصل وجود کیا ہے لیکن مختلف آرا کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیاگیاہے
کہ کھورٹھا ایک مشترکہ زبان ہے کیوں کہ جھارکھنڈ میں صدیوں سے آدیواسی اور سدانی یعنی غیر آدیواسی
رہتے چلے آرہے ہیں۔ ان کے آپسی میل جول اور سماجی ضرورت کے تحت یہ بولی وجود میں
آئی جس میںہندی،بنگلہ،مگہی کی ملاوٹ ہے اوریہ ایک آپسی تعلقات اور رابطہ کی بولی
ہے جیسا کہ ہر زبان اور بولی کاایک مزاج ہوتاہے جہاں مختلف زبان کے لوگ رہتے ہیں
تووہاں سماجی ضرورت سے از خو د کوئی اور زبان وجود میں آتی ہے۔ یہ آریائی خاندان
سے ہے اور رام گڑھ،کوڈرما،دیو گھر، صاحب گنج، دُمکا، لاتے ہار، پلامو، ہزاری باغ،
دھنباد، سنگھ بھوم، گریڈیہہ، چترا اور سنتھال پرگنہ علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ یہ ایک
عام بولی ہی نہیںبلکہ ریاستی سطح پر ہونے والے امتحانات (جے ایس ایس سی)جھارکھنڈ
اسٹاف سلکشن (جے ٹیٹ)جھاکھنڈ ایلی جیبل ٹیسٹ میںشامل کیا گیالیکن زبان کے طور پر
ابھی اعلان نہیں کیا گیا۔جھارکھنڈ میںمختلف زبانوں کی تصدیق کی گئی ہے۔2011ایکٹ کے
تحت جن دفتری زبانوں کو شامل کیا گیا ہے وہ حسبِ ذیل ہیں۔ ہندی، اردو، بنگالی،
سنتھالی، کھریا، کُرمالی، کھورٹھا اور ناگپوری۔ جغرافیائی اعتبارسے کھورٹھادامودر
ندی سے پارسناتھ کے آس پاس تک کاعلاقہ جو34/ہزار کلو میٹرسے زائد پھیلے ہوئے خطے
میں یہ بولی استعمال کی جاتی ہے ۔
جھارکھنڈ کی قبائلی بولیوں،،تہذیبوں کی بقا اور فرو غ
کے لیے1980میں رانچی یونیورسٹی میں ایک شعبہ قائم کیا گیا جس میں ہُو، کھریا، کھورٹھا، کُرمالی، کُرخ، مُنڈاری،
ناگپوری،پنچ پرگنیہ،سنتھالی کو شامل کیا گیااور رانچی یونیورسٹی میںمذکورہ تمام
زبانوں کے ماہرین موجود ہیں ۔زبان اور تہذیب و ثقافت کے لیے سر گرم ہیں۔
کھورٹھا زبان کے جاننے والوں میں کچھ اہم شخصیات اور ان
کے مشہور ومعروف کارنامے ہمارے سامنے موجو د ہیں۔ شری نواس پانوری،چابھی کاٹھی۔
ڈھا، سُکومار۔ چندو لال چوکیدار، مہندر پربھودت۔ بیچارہ ماسٹر، امتیاز غدر۔یہ کچھ
مشہور ناٹک ہیں۔ نَچنی کاکی، پی داس۔ کاہے چھوڑَل گاؤں، من پورن گوسوامی۔ سُرمنی
،امتیاز غدر۔یہ کچھ مشہور کہانیا ں اور ان کے مصنفین ہیں اور بھی بڑے بڑے مصنّفین
ہیں جیسے سراج الدین انصاری، ڈاکٹر گجادھر پربھاکر مہتو، پیارے حسین اور ڈاکٹر بی
این عہدار۔
ڈاکٹر اجیت کمار جھا کے نزدیک کھورٹھا کا وجود آدیواسی
بھاشا سے ہے کیونکہ اس میں آدیواسی کے الفاظ کافی ملتے ہیں اور یہاں صدیوں سے
سدان اور آدیواسی رہتے ہیں۔ جس سے ان کے آپسی تعلقات سے ان کاوجود ہواہے۔جارج
ابراہم گریسن کے مطابق کھورٹھا مگہی بھاشا کا بگڑاہوا روپ ہے۔ ڈاکٹر اجیت کمار جھا
کاکہنا ہے کہ بھارت کاپرانا رسم الخط کَھروسٹی تھااور کھورٹھا اُسی کھروسٹی سے
بناہے مثال دی ہے کہ پہلے کَھروسٹی بنا پھرکھورٹی بنا پھر کھوراٹھا بنا پھر
کھورٹھا بنا۔ مطلب وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا گیا اور کھورٹھا کا وجود ہوا۔
ایک تاریخ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ ایران میں گدھاکی
کھال پر جو رسم الخط لکھا گیا اسے کھارپوسٹ کہا گیا۔سنسکرت میںاس کو کھار پِرسٹی
بولا گیا۔ کالَنتَر میں کھاروسٹی بنا پھرکھورٹھا بنا۔آریائی زبان سے کھورٹھا کا
وجود ہوا ہے۔ڈاکٹر گَجادَر پربھاکر مہتو کاکہناہے کہ آریہ پریوارسے کھورٹھا کا
وجود عمل میںآیا۔کَھروسٹی دائیں سے بائیں لکھی جاتی جب کہ کھورٹھا بائیں سے دائیں
یعنی اس کا رسم الخط دیوناگری ہے اور اصل
کھروسٹی کاچلن ختم ہوگیا اور اب بس کھورٹھا باقی رہ گئی۔ بَرج موہن پانڈے نَلِن
ہندی سے کھورٹھا کا وجود مانتے ہیں۔ ان
کاکہنا ہے کہ یہ ہندی کابگڑا ہوا ایک نقش ہے۔
ایک ناٹک ہے جس کامرکزی کردار شنبھو اور کالورام ہے۔ یہ
ناٹک سماج میںرشوت خوری کا دھند ا اور اس سے سماج کو کس طرح سے ایک تعلیم یافتہ
نوجوان بچاتاہے اس پر مبنی ہے۔اور جھارکھنڈ کے دھنباد علاقے کے ایک گاؤں کا شنبھو
خوددار، غریب اور تعلیم یافتہ نوجوان ہے جو گاؤں کے بچوں کی تعلیمی ،سیاسی ،سماجی
بیداری کولے کر فکر مند رہتا تھا۔ اسکول میں کچھ وقت تک ملازمت کرنے کے بعد اپنے
گاؤں واپس چلاآتا ہے۔ در اصل گاؤں میںایک
کالو رام رہتا تھا جوکہ ایک زمانے میں باہر سے آیا تھا۔ گاؤں والوں نے کالوکی مدد
کی او ر وہ یہیں رہنے لگا۔ گاؤں والوں کے بیل، بکریوں کی دیکھ بھال کرتا تھا۔
چَراتاتھا تو گاؤں والے معاوضے کے طورپر دھان دیتے تھے۔ وہ اس کی ذخیرہ اندوزی
کرتا تھا۔ آہستہ آہستہ وہ اس سے سُود کادھندا کرنے لگا۔ راشن کی دکان کھول لی۔
اب وہ چرواہا نہیں رہا مہاجَن بن گیا اورکسانوں کی زمین بھی دبانے لگا، پیسے کے
نشے میںغنڈے بھی پالنے لگا اور الیکشن میںاپنی طاقت کااستعمال کرکے جیت بھی گیا۔گاؤں
والے اس سے بہت پریشان تھے توشنبھو اس کے چنگل سے سماج کوبچانے کے لیے لوگوں کی
ذہن سازی کرتاہے اور ساتھ ہی ذریعہ معاش کے لیے انتظام کرتاہے اور لوگوں کے دُکھ
مصیبت میں ساتھ دیتاہے تولوگ متحد ہوکر کالو رام کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں اورکالو
رام کا بیٹا بھی عاجز ہوکر اپنے باپ کے خلاف کھڑا ہوکر گاؤں والوں کاساتھ دیتاہے
اس کے بعد کالو رام سمجھ جاتاہے کہ گاؤں والے متحد ہوچکے ہیں اور وہ اس کے خلاف
سخت قدم اٹھا چکے ہیں اس بعد کالورام کاشی چلا جاتاہے کیونکہ اب یہاں اس کی کوئی
دھاندلی نہیں چلے گی۔ شنبھو اور گاؤں والوں کی ہمت وکوشش سے گاؤں کی حالت بہتر
ہوگئی اور گاؤں والے ظلم و استحصال سے چھٹکاراپائے۔یہ ناٹک اتنا مقبول ہوا کہ طبع
ہونے سے پہلے ہی دھنباد کے کئی علاقوں میں اسٹیج
پرکھیلاگیااور لوگوں کے دلوں میںایک جگہ بناکر سماج کی برائیوں کا پردہ فاش
کیا اور ظلم کے خلاف متحد ہوکر سچ اور صحیح کا ساتھ دینے کاپیغام دیا۔
کھورٹھا بولی کی خدمات پرجن ادیبوں کو اَکھر اسمان سے
نوازا گاا ہے وہ حسب ذیل ہیں:
جَناردَن گوسوامی 2007،
سُکو مار 2009، شیام سندرمہتو 2010 ، آکاش چھوٹی 2012، ناگیشورمہتو 2013، پَنچم مہتو2013، مہندر ناتھ گوسوامی سُدھاکر
2017، سراج الدین انصاری سراج 2017
کھورٹھا پر منعقد ثقافتی او ر تاریخ اجلاس کو ہم یہاں دیکھ
سکتے ہیں:
چَٹر
کانفرنس13/اپریل،1985منتظمین کھورٹھا ڈھا کی چَھترکمیٹی،کھورٹھا۔
بَھتُواکانفرنس:1989
اور2000 منتظمین کھورٹھا ساہتیہ سنسکرتی
پریشد،بوکارو۔
سنگاپور کانفرنس:
1989منتظمین کھورٹھا ساہتیہ سنسکرتی پریشد،بوکارو۔
دامودرپارسناتھ ڈَہر جاترا: 14/15/جنوری، 1989
دامودر سواتی جاترا:4/5/،مارچ،1994
کھورٹھا مانکی کَرن کاریاشالہ 22تا 24، اکتوبر،
2010کھورٹھا ساہتیہ سنسکرتی اکاڈمی،رام گڑھ۔
کہاوت کو کھورٹھا میں وائن کہتے ہیں۔ یہاں کھورٹھاکی
کچھ کہاوتوں کو پیش کیا جارہا ہے:
اٰپَن گاویں کُوکَّر راجا
لفظی معنی:
اٰپَن مطلب اپنا،۔گاویں گاؤں یا بستی کوکہتے ہیں۔کُوکُر کتاکوبولتے ہیںاور
بنگلہ میںبھی کُتّا کو کُوکُر بولتے ہیں۔
مفہوم: اپنے
گاؤں میں یاکسی بھی جگہ جب کمزور انسا ن کو کچھ طاقتور لوگوں کی پشت پناہی ملتی ہے
’تو وہ خود کو طاقتور سمجھنے لگتاہے۔ اس وقت یہ استعمال ہوتی ہے۔اٰپَن گاویں
کُوکَّر راجا۔
ہندی:اسی کو ہندی میں اس طرح ادا کرتے ہیں چِھیتراوِشیش پرادِھیکار ہونا۔
اردو:اس کہاوت کو اردو میں اس طرح بولتے ہیں’’اپنی گلی
میں کُتا بھی شیر ہوتا ہے۔‘‘
آگُو ناتھ نہ پیچھُو پَگہا
لفظی معنی: آگُو مطلب آگے،سامنے کے حصے کو بولتے ہیں۔
ناتھ،وہ رسّی جو جانورکی ناک میں نکیل کے طورپر ڈالی جاتی ہے۔پَگھا رسّی کوبولتے ہیں۔
مفہوم: ایسا بندہ جس پر کوئی ذمے داری نہ ہو سماجی
اعتبارسے،معاشی اعتبار سے یا کسی بھی اعتبارسے ہو کسی طرح کی اس پر ذمے داری نہ ہو
تو ایسے شخص کے لیے یہ کہاوت استعمال ہوتی ہے۔آگُو ناتھ نہ پیچھُو پَگھا۔
ناگپوری: اسی کو ناگپوری بولی میں ایسے بولتے ہیں’’نا
آگے ناتھ نا پاچھے پگھا۔‘‘
اِٹا سٹا کہا بَھار
مفہوم:بیکارکی بات نہ بولنا یہ کہاو ت اس وقت استعمال
ہوتی ہے جب کہیں کچھ بات چیت ہو رہی ہو اور اس جگہ کوئی شخص اس موقع محل سے ہٹ کر
کچھ دوسری بات کرتا ہے تب یہ کہاوت بو لی جاتی ہے۔
بنگالی: اسی کو بنگلہ میں اس طرح پیش کرتے ہیں اِٹا سیٹا
بولِس نا
لفظی معنی: اِٹا مطلب یہ۔اُٹا مطلب وہ۔بولِس مطلب
بولنا۔
پہیلیاں دماغی ورزش اور قوت حافظہ کو بڑھانے میں بہت ہی
حصہ داری نبھاتی ہیں لوک ادب کی اہم شاخ ہیںاور ذہنی تفریح کاسامان بھی۔
پہیلی کوکھورٹھا میں بُجھویل ،بُجھوَّل کہا جاتاہے اس
کے اور بھی مختلف نام ہیں ۔جیسے ہِی آنلی ،فانکی البتہ آسان پہیلی کو ’ہی آنلی‘
اور مشکل پہیلی کو’فانکی ‘سے موسوم کرتے ہیں ۔
ایگو باندھ دُو رَنگ پانی
لفظی معنی: ایک تالاب میں دورنگ کاپانی مطلب انڈا۔
تشریح: انڈا جس کو تالاب سے تشبیہ دی گئی ہے۔ تالاب کی
طرح چاروں طرف سے گِھرا ہوا ہونے کی وجہ سے اور اس میں
دورَنگ کاپانی ہوتا ہے ایک زردی سے لگا ہوتاہے،جس سے
پانی کا رنگ پیلا نظر آتاہے اور دوسرا جو تھوڑا صاف پانی ہوتاہے۔
ایگو بوڑھی بِہانہِی گَھسرلے بَہرائی
لفظی معنی: ایگو (ایک)بوڑھی (بُڑھیا) بِہانْہی (صبح سویرے)
گَھسرلے(گِھسٹتے ہوئے) بہرائی (نکلی)
ترجمہ: ایک بڑھیا صبح سویرے گھسٹتے ہوئے نکلتی ہے مطلب
گھر صاف کرنے والا کپڑا۔
تشریح: جس کپڑا سے گھر صاف کرتے ہیں اس کو بڑھیا سے تشبیہ
دی گئی ہے اور صاف کرتے وقت کپڑے کو ادھر
اُدھرکرتے ہیں۔اس کو گھسٹنے سے تشبیہ دی گئی ہے اور اسی کو کہاگیاہے کہ ایک بوڑھی
عورت صبح سویرے گھسٹتے ہوئے نکلتی ہے۔
ایگو بوڑھی گوٹے گانت پُھسڑی
لفظی معنی:گوٹے (پورا)گانت (جسم) پُھسڑی (پُھنسی،دانہ)
ترجمہ: ایک بڑھیا جس کے پورے بدن پر پُھنسی بھری ہوئی
ہے۔مطلب کٹہل ہے۔
تشریح: کٹہل کو بوڑھی اور اس کے اوپر جوکانٹے ہوتے ہیںاس
کو پُھنسی،دانہ سے تشبیہ دی گئی ہے۔
کھائتے رَسگر اُگلتے کَپاسْ
لفظی معنی: کھائتے(کھاتے ہوئے)رَسگر (رَس بھراہوا)
اُگالتے (اُگلے،باہر نکالے) کپاس (ایک پودہ جس کے پھل سے روئی نکلتی ہے،بغیر صاف کی
ہوئی روئی)
ترجمہ: رَس کھاکر کپاس اگلتے ہیں مطلب گَنّا۔
تشریح: گَنّا رسیلاہوتا ہے ہم اس کو چوستے ہیں اور جب
باہر نکالتے ہیں توکپاس کی طرح ہوجاتا ہے۔ روئی کی شکل معلوم ہوتی ہے۔
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کھورٹھا زبان جھارکھنڈ کی مشترکہ اور عوامی بولی ہے۔ علاقائی زبانوں میں مستعمل کہاوتیں اور پہیلیاںجن
سے ہم (بالخصوص اردو دان طبقہ)لاعلم ہیں ان کو منظر عام پرلانے کی کوشش ہونی چاہیے
اور یہ ہماری تہذیب و ثقافت کااہم جز بھی ہے۔
Mohd Taiyib
Research Schorla:
Center for Urdu Cultural Studies
Room No: 7, Boys Hostel 04
Maulana Azad National Urdu University
Gachibowli
Hyderabad- 500032 (Telangana)
Mobile:9567246590
Email:taiyib333@gmail.com