15/1/25

فاصلاتی تعلیم آج کی ضرورت، مضمون نگار: محمد فیروز عالم

 اردو دنیا،دسمبر2024

فاصلاتی تعلیم، تعلیم کا ایک ایسا شعبہ ہے جو درس و تدریس، ٹکنالوجی، اور تدریسی نظام کی ساخت  پر توجہ مرکوز کرتا ہے اور اس  کا مقصد ایسے طلباتک تعلیم کی رسائی کو ممکن بنانا ہے جو کسی وجہ سے جسمانی طور پر سیکھنے کی جگہ پرموجود  نہیں ہوتے۔یہ  حصولِ تعلیم کی نسبتاً نئی شکل ہے جو 200 سال پہلے مراسلاتی تعلیم  کے ساتھ شروع ہوئی تھی۔ مگر بہت سے بیرونی عوامل (مثلاً معاشرے میں اس کے تئیں غلط رویے اور تکنیکی امداد کی کمی) کی وجہ سے  ایک عرصے تک بہت زیادہ مقبول نہیں رہی،البتہ پچھلے دس بارہ سالوں کے عرصے میں اس طرز تعلیم کو عالمی سطح پر غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ٹکنالوجی اور انٹرنیٹ کی تیز رفتار ترقی  کی وجہ سے فاصلاتی تعلیم کے اس بنیادی تصور کو عملی جامہ پہنانا ممکن ہوگیا ہے کہ  ایسے طلباکو ان کے گھروں پر معیاری  تعلیم فراہم کی جائے  جو مالی، جغرافیائی یا دیگر وجوہات کی بنا پر ریگولر کلاسز میں شریک نہیں ہوسکتے۔

اگرچہ حالیہ برسوں میں فاصلاتی تعلیم کی مقبولیت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، لیکن اس  کے اصل معنی پچھلے چند سالوں میں بہت بدل بھی گئے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو فاصلاتی تعلیم میں پچھلے دس سالوں کے دوران  ایک بڑی تبدیلی آئی ہے، ایک تو  آن لائن کورسز کی شکل میں اس کے نفاذ کی وجہ سے، دوسرے اس وجہ سے کہ اب اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ثانوی تعلیمی اداروں میں بھی اسے نافذ کیا جارہا ہے۔ہماری روزمرہ  زندگی میں ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کی بڑھتی ہوئی اہمیت نے تعلیمی نظام پر بھی اپنا اثر مرتب کیا ہے۔ چنانچہ حالیہ برسوں میں تعلیمی اداروں کے سامنے دو آپشنز آگئے ہیں، ایک تو یہ کہ روایتی تعلیم کے ساتھ تکنیکی اختراعات کو مربوط کیا جائے اور  ریموٹ لرننگ،یعنی کلاس روم سے باہر رہ کر سیکھنے سکھانے کا عمل اپنایا جائے یا روایتی انداز میں ، یعنی رو بہ رو سیکھنے کے طریقے پر   قائم رہا جائے ،لیکن اگر ایسا کیا جائے گا تو  مستقبل قریب میں اسکولوں یا کالجوں میں داخل ہونے والے طلبا میں بڑی کمی آسکتی ہے اور ٹکنالوجی کی مانگ جو ابھی ہے وہ اگر اسی طرح بڑھتی رہی اور اسی رفتار سے لوگ اسے اپناتے رہے تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بہت سے تعلیمی اداروں کوطلباکے دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے  مجبوراً بند کرنا پڑے۔

حالانکہ اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ فاصلاتی طرزِ تعلیم میں  بہت سے چیلنجز بھی ہیں، جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ اس صورت میں اساتذہ اور طلبا کے درمیان رو بہ رو بات چیت نہیں ہوپاتی،اسی طرح  تنہائی کی وجہ سے طالب علم کی ذہنی صحت متاثر ہوسکتی ہے اور علمی حصولیابی نیز نمبرات اور گریڈ کی کمی کا بھی مسئلہ پیش آسکتا ہے۔مگر  یہ تمام خدشات دراصل اچانک تبدیلیوں کا ایک فطری ردعمل ہیں، جو کہ بالکل نارمل ہے۔ فاصلاتی طرزِتعلیم کے نفاذ کے  اب تک کے تجربے نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ طلبااور اساتذہ  سمیت تعلیمی اداروں کے لیے بھی بہت عملیت پسندانہ ہے۔ انٹرنیٹ اور لوگوںکے گھروں میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کے آنے سے لوگوں کے درمیان باہمی رابطے کے لیے جسمانی حدود کی شرط ختم ہوگئی ہے۔ چونکہ ٹیکنالوجی نے اتنی بڑی چھلانگ لگائی ہے کہ لوگ حقیقی اور ورچوئل دنیا کے درمیان فرق کرنے کی صلاحیت تقریباً مکمل طور پر کھو چکے ہیں۔ اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ آج کی دنیا کتنی بدل چکی ہے اور مستقبل میں مزید کتنی تبدیلیاں آنے والی ہیں۔اس طرح، فاصلاتی تعلیم بہت سے نوجوان اور معمر لوگوں کے لیے ایک عبوری دور کی نمائندگی کرتی ہے، بلکہ یہ انھیں مستقبل قریب میں کاروباری دنیا کے اندر رونما ہونے والی تبدیلیوں کے لیے بھی تیار کرتی ہے۔ اس لیے ایک متبادل طرزِ تعلیم کے طورپر ہمیں فاصلاتی نظام تعلیم کو اپنانا چاہیے اور اس کے جو فائدے ہیں انھیں ذہن میں رکھنا چاہیے۔

(https://knowledge.net.in/blog/post/the-s ignificance-of-distance-education-in-today-s-society)

ہندوستان جیسے ملک میں زیادہ تر نوجوان خواہش اور شوق  کے باوجود اعلیٰ تعلیم اس لیے حاصل نہیں کرپاتے کہ ان کی مالی حالت کمزور ہوتی ہے۔ اگر حصول تعلیم کا دورانیہ طویل ہے تو ایسے میں اسٹوڈنٹ لون، گھر کا کرایہ اور دیگر متعلقہ اخراجات  بہت سے متوسط طبقے کے افراد اور ان کے اہل خانہ کے لیے  بھاری بوجھ بن جاتے ہیں۔ البتہ پچھلے کچھ سالوں میں، فاصلاتی تعلیم کے آپشن کے متعارف ہونے کی وجہ سے سیکنڈری اسکولوں اور کالجوں کی ٹیوشن فیسوں میں نمایاں کمی آئی ہے۔ نہ صرف ٹیوشن فیس میں کمی ہوئی، بلکہ کھانے، رہائش اور دیگر تمام ضروریات سے متعلق طلباکے روزمرہ اخراجات میں بھی کمی آئی ہے۔ لہٰذا اگر آپ کے پاس معیاری تعلیم حاصل کرنے کے لیے مالی استطاعت نہیں ہے، تو آپ  فاصلاتی طرز تعلیم اپناکر اپنا خواب شرمندہ تعبیر کر سکتے ہیں۔

ایک اور فائدہ یہ ہے کہ فاصلاتی تعلیم کئی اعتبار سے لچک دار ہے۔مثلاًآپ دنیا میں کہیں سے بھی ڈگری حاصل کر سکتے ہیں۔آن لائن لرننگ کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ دنیا بھر کے طلبااپنی مرضی کی کوئی بھی ڈگری حاصل کر سکتے ہیں، جو پہلے جغرافیائی حدبندیوں کی وجہ سے ناممکن تھا۔ ابھی چند سال پہلے تک بعض ممالک کے بچے مشکل کاغذی کارروائیوں اور سخت حکومتی قوانین کی وجہ سے کسی خاص ملک کے اپنی پسند کے تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کرنے نہیں جاسکتے تھے،مگر فاصلاتی تعلیم کے متعارف ہونے کے بعد وہ گھر بیٹھے دنیا کی کسی بھی بڑی یونیورسٹی اور کالج سے اپنی پسند کی ڈگری حاصل کرسکتے ہیں۔خود ہندوستان کے اندر ان لوگوں کے لیے فاصلاتی تعلیم ایک نعمت ثابت ہوئی ہے جو معمر ہیں اور حصول علم کا شوق ہے مگر اسکول کالج میں داخل نہیں ہوسکتے یا روزگار اور نوکری کر رہے ہیں جس کی وجہ سے کلاس روم میں نہیں آسکتے، ایسے لوگ فاصلاتی تعلیم اور اوپن لرننگ کے ذریعے اپنی تعلیمی ترقی کا خواب بخوبی پورا کررہے ہیں۔ انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجیز کی بدولت حالات کافی بدل گئے ہیں،  جن کی وجہ سے کسی بھی کالج یا یونیورسٹی میں داخلے کے لیے درخواست دینا اور داخلہ کروانا بہت آسان ہوگیا ہے، اب کسی طالب علم کو ریاستی انتظامی پروٹوکول  کی تعمیل کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی اور وہ اپنے گھر بیٹھے دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں سے متعلقہ تعلیمی ڈگریاں حاصل کرسکتا ہے۔ اس طرح  ڈیجیٹل تعلیمی آپشن کے متعارف ہونے کے ساتھ تعلیمی پیراڈائم میں ایک بڑی  تبدیلی آئی  ہے۔

فاصلاتی تعلیم کا ایک اور اہم فائدہ یہ بھی ہے اس سے وقت کی بچت ہوتی ہے۔21ویں صدی میں بڑے شہروں میں آبادی  کی کثرت کی وجہ سے  فارغ وقت کا ملنا بھی اہم انسانی وسائل میں شامل ہو گیا ہے۔ ایسے میں بہت سے وہ طلباجو اپنے اسکول سے کئی میل دور رہتے ہیں وہ صرف اسکول جانے کے لیے روزانہ ایک یا دو گھنٹے  ضائع کرتے ہیں،جو یقینا فکرمندی کی بات ہے۔ لیکن  فاصلاتی تعلیم کو رسمی تعلیم کا ایک لازمی حصہ بنالینے کی وجہ سے جو طلبا اسکول تک پہنچنے میں کئی گھنٹے ضائع کرتے تھے، وہ اب ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے بروقت  اسباق میں شرکت کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔

ایک فائدہ فاصلاتی تعلیم کا یہ بھی ہے کہ طلبا اپنی فطری رفتار سے سیکھ سکتے ہیں۔ اس لیے کہ آن لائن سیکھنے کے جو پلیٹ فارمز ہیں ان میں ایسے آپشن دیے گئے ہیں کہ طالب علم اپنی سوچنے سمجھنے کی رفتار کے مطابق سیکھنے  کا ایک طریقہ اختیار کرسکتا ہے۔ یعنی ایسے طلباجو ایسے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جہاں سیکھنے سکھانے کا ایک طے شدہ طریقہ رائج ہے جس میں وہ فٹ نہیں بیٹھتے ، تو آن لائن لرننگ میں اسے آزادی ہے کہ وہ اپنے حساب سے وقت کو مینیج کرسکیں۔ دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو ایسے  طلبا سیکھنے کے عمل کو  اپنی سوچنے سمجھنے کی رفتار اور نظام الاوقات کے مطابق ایڈجسٹ کر سکتے ہیں، اور وہ لیکچرز کو ریوائنڈ کر سکتے ہیں ،انھیں  دوبارہ دیکھ سکتے ہیں ،اس طرح وہ اپنے مضمون پر زیادہ توجہ دے سکتے ہیں اور آسانی سے سیکھ سکتے ہیں۔ سیکھنے کا یہ طریقہ ان طلبا کے لیے زیادہ اچھی طرح  کام کرتا ہے جو وقت کے منظم استعمال میں  مہارت رکھتے ہیں اور جو اسائنمنٹس، پریزنٹیشنز اور امتحانات  کی تیاریاں بالکل وقت پر کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔

فاصلاتی طرزِ تعلیم سے ایک بہت بڑا فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم ملازمت کے ساتھ اپنی تعلیم بھی جاری رکھ سکتے ہیں۔ ہندوستان جیسے ملک میں بے شمار طلبا کے لیے سب سے مشکل چیزوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنی ملازمت اور تعلیمی  سرگرمیوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا نہیں کرپاتے کیونکہ عموماً ملازمت اور تعلیم کے اوقات ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں اور ایسے میں وہ یا تو ملازمت کرسکتے ہیں یا تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ بہت سے طلبا کی گھریلو معاشی حالت انھیں ملازمت پر مجبور کرتی ہے مگر وہ تعلیم بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ آئندہ مزید ترقیاں حاصل کرسکیں،تو ایسے میں فاصلاتی طرز تعلیم ان کے لیے سب سے بڑے معاون کے طورپر سامنے آتا ہے،اس نظام میں امتحانات اوراسائنمنٹس جمع کرنے کا بھی کوئی حتمی وقت نہیں ہوتا ، اگر وہ ملازمت یا دوسری قسم کی مجبوریوں کی وجہ سے متعینہ وقت پر امتحان نہ دے سکیں تو بعد میں دے سکتے ہیں،اسی طرح اگر ایک مقررہ تاریخ میں اسائنمنٹ جمع نہیں کرسکتے تو بعد میں بھی جمع کرنے کی گنجائش ہوتی ہے۔ اس طرح وہ کام اور تعلیم دونوں میں ہم آہنگی پیدا کرسکتے ہیں۔

فاصلاتی تعلیم حقیقی زندگی میں مؤثر اور حالات کے موافق بھی ہے۔ تعلیم کا اصل مقصد نوجوانوں کو باعزت شہری بنانا اور کاروباری دنیا کے تقاضوں کے مطابق انھیں  تیار کرنا تھا۔ مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، بچے اپنے تعلیمی اداروں سے باہر کی دنیا کے لیے کم سے کم تیار ہونے لگے، جس کی وجہ سے تعلیم کے شعبے میں ایک بحران پیدا ہوگیا۔ ان اچانک رونما ہونے والی تبدیلیوں کا واحد مناسب حل فاصلاتی تعلیم کو متعارف کروانا تھا، جو بہت کم وقت میں بہت مؤثر ثابت بھی ہوئی ہے۔اس طرز تعلیم نے طلباکو گھر سے اور خود اپنی ذمے داریوں کو انجام دینے، انھیں سیکھنے کے مواد تک رسائی فراہم کرنے، اور  ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کے ذریعے اپنے اساتذہ اور ساتھیوں کے ساتھ بات چیت کرنے کی  بہت سی نرم مہارتوں کو جنم دیا ہے جو رسمی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کافی عرصے تک مفید ثابت ہوں گی۔ فاصلاتی تعلیم نے بنیادی طور پر طالب علموں کو تکنیکی مہارتوں کو فروغ دینے، زیادہ عملیت پسندی کے ساتھ  مسئلے کو حل کرنے اور متعلقہ و غیر متعلقہ معلومات کے درمیان فرق کرنے  کے قابل بنایا ہے۔اگر عصری مطابقت کی بات کریں تو فاصلاتی تعلیم نے بعض معنوں میں روایتی تعلیمی ڈگریوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ آج دنیا بھر میں ہر روز تمام سائنسی شعبوں میں نئے نئے اعداد و شمار اور تحقیقی مقالات ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر شائع کیے جاتے ہیں۔ ایسے میں فاصلاتی تعلیم سے جڑے اساتذہ تازہ ترین تحقیق کی دستیابی کی بدولت اپنے  طلباکو نئی سائنسی دریافتوں کے بارے میں بصیرت فراہم کر سکتے ہیں، جو ان کی تعلیم کو مزید جدید اور روح عصر سے ہم آہنگ  بنائے گی۔خود طلبابھی ان دریافتوں تک رسائی حاصل کرکے اپنی تحقیقی  صلاحیتوں کو بہتر بناسکتے ہیں۔

فاصلاتی تعلیم کا ایک اہم فائدہ وسیع تر نیٹ ورکنگ کے مواقع کی فراہمی  بھی ہے۔فاصلاتی تعلیم کا یہ فائدہ کسی بھی روایتی کلاس روم کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سماجی روابط کسی بھی شخص کی کاروباری و اقتصادی  کامیابی  کے اہم عوامل میں سے ایک ہے۔  آن لائن کلاس رومز میں طلبااپنے ملک کے دوسرے حصوں کے علاوہ  پوری دنیا کے اپنے ساتھیوں سے مل سکتے ہیں۔ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے باہمی مواصلت انھیں ایک دوسرے سے مربوط رہنے ، ممکنہ طور پر دوستی قائم کرنے ، مختلف حوالوں سے اس دوستی کو مضبوط کرنے کے ساتھ اس  قابل بھی  بناتی ہے کہ وہ آئندہ کسی اہم کاروباری پروجیکٹ میں ایک دوسرے کے  طویل مدتی شراکت  دار بن سکتے ہیں۔https://www.allisonacademy.com)

الغرض  فاصلاتی تعلیم،حصول تعلیم کی ایک ایسی  شکل ہے جو طلباکو لیبر مارکیٹ کے تقاضوں کے مطابق  تیار کرتی ہے۔ اگر ہم یہ مانتے  ہیں کہ دنیا بھر میں تکنیکی ترقی آنے والے سالوں میں بھی جاری رہے گی، تو ہمیں یہ بھی ماننا چاہیے کہ وقت کے ساتھ ساتھ  فاصلاتی تعلیم ڈگری حاصل کرنے کا ایک غالب طریقہ بن جائے گا۔ لہٰذا جو لوگ کم وقت میں زیادہ سیکھنا چاہتے ہیں، ملازمت اور نوکری کے ساتھ اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھنا چاہتے ہیں، کم خرچ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے، اپنے وقت کو خود مینیج کرنا چاہتے ہیں اور اپنی قوت تفہیم کے مطابق پڑھنا اور سیکھنا چاہتے ہیں، جغرافیائی حدبندیوں سے ماورا ہوکر تعلیم حاصل کرنا چاہتے  ہیں، سیکھنے کے جدید ترین مواد تک رسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور خود مختار بننا چاہتے ہیں، تو ایسے لوگوں کے لیے فاصلاتی تعلیم ایک بہترین آپشن  ہے اور انھی مذکورہ خوبیوں کی وجہ سے آج دنیا  بھر میں اس طرز تعلیم کو مقبولیت بھی حاصل ہورہی ہے۔

اس وقت دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح ہندوستان میں بھی فاصلاتی تعلیم کا مضبوط نظام قائم ہے اور خاص طور پر کووِڈ کے بعد اس کی طرف لوگوں کی توجہ بڑھی ہے۔ اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی چارملین انرولمنٹ رکھنے والی ہندوستان ہی نہیں،دنیا کی  سب سے بڑی اوپن یونیورسٹی ہے،جس کے ساٹھ سے زائد علاقائی مراکز ہیں۔(بریڈی لونڈ، Creating Accessible Online Instruction Using Universal Design Principles، صفحہ 103،  مطبوعہ را مین اینڈ لٹل فیلڈ پبلشرز لندن2020)اس کے علاوہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی بھی فاصلاتی تعلیم فراہم کرنے والی ایک اہم مرکزی یونیورسٹی ہے جس کے مختلف صوبوں میں بہت سے ریجنل سینٹرز ہیں اور وہاں سے ہزاروں بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ دہلی یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور سیکڑوں ریاستی یونیورسٹیاں فاصلاتی تعلیم مہیا کررہی ہیں۔

ہندوستان میں فاصلاتی تعلیم کا آغاز 1962 میں مراسلاتی  کورسز کے پائلٹ پروجیکٹ کے ساتھ ہوا، جس کی وجہ سے دہلی یونیورسٹی کے اسکول آف کرسپنڈنس کورسز اور کنٹینیونگ ایجوکیشن (اب  Du-SOL) کی شروعات  ہوئی۔ اس منصوبے کی کامیابی کے نتیجے میں مزید یونیورسٹیوں میں مراسلاتی  کورسز کے شعبے شروع کیے گئے (بعد میں ان کو ڈائریکٹوریٹ یا مرکز برائے فاصلاتی تعلیم کا نام دیاگیا)۔ 1982 میں ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اوپن یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا، جو ہندوستان کی پہلی اوپن یونیورسٹی ہے، اس کے بعد 1985 میں اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی کا قومی سطح پر قیام عمل میں آیا۔ اگرچہ ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم کی نگرانی  کا قانونی اختیار یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے پاس ہے، لیکن اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی ایکٹ (1985) کے تحت اوپن اور فاصلاتی تعلیم (ODL) کے فروغ اور تعاون کی ذمے داری شروع میں اِگنو کو دی گئی۔ (امریک سنگھ،  Fifty Years of Higher Education in India، ، ص 16  مطبوعہ سیج پبلی کیشنز دہلی2004)

اگنو  نے 1991 میں  ڈسٹنس ایجوکیشن کونسل (DEC)  قائم کی  جو 1992 سے  فعال ہو گئی۔ اگنو  کے وائس چانسلر ہی اس کونسل کے چیئر پرسن کے طور پر کام کرتے تھے۔ (ارونا گوئل و ایس ایل گوئل،  Encyclopaedia of Higher Education in the 21st Century، 161، مطبوعہ دیپ پبلی کیشنز دہلی2005) اگست 2010 میں وزارت برائے فروغ انسانی وسائل نے ہندوستان میں فاصلاتی تعلیم کے معیارات کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی۔ کمیٹی نے ایک نیا ریگولیٹری ادارہ، ڈسٹنس ایجوکیشن کونسل آف انڈیا (DECI) کے قیام کی سفارش کی۔ اس نے یہ بھی سفارش کی کہ جب تک ایسی باڈی قائم نہیں ہو جاتی ڈسٹنس ایجوکیشن کونسل کو یو جی سی  منتقل کیا جا سکتا ہے،چنانچہ  29 دسمبر 2012 کو وزارت نے ایک حکم نامہ جاری کرکے  فاصلاتی تعلیم کی ریگولیٹری اتھارٹی کو اگنوسے یوجی سی  منتقل کردیا گیا۔ مئی 2013 میں اگنو نے ڈی ای سی کو تحلیل کر کے اس کے  تمام اثاثوں اور افرادی قوت کو اپنے دائرۂ اختیار  میں لے لیا، اور اس کے بعد ڈسٹنس ایجوکیشن بیورو قائم کیا گیا۔تب سے یہی ادارہ ہندوستان میں فاصلاتی تعلیم کی نگرانی اور دیکھ ریکھ کا ذمے دار ہے۔

 

Dr. Md. Firoz Alam

Assistant Profeesor, CTE

MANUU,

Darbhanga-846001 (Bihar)

firozmimt@rediffmail.com

تازہ اشاعت

فاصلاتی تعلیم آج کی ضرورت، مضمون نگار: محمد فیروز عالم

  اردو دنیا،دسمبر 2024 فاصلاتی تعلیم، تعلیم کا ایک ایسا شعبہ ہے جو درس و تدریس، ٹکنالوجی، اور تدریسی نظام کی ساخت   پر توجہ مرکوز کرتا ہے او...