اردو دنیا، مارچ 2025
محی الدین انصاری موسوم بہ مسلم انصاری 1920- 2012کی
ولادت گورکھپور کے ایک علمی خانوادے میں ہوئی تھی۔ان کے والد محمد خلیل انصاری انڈین
نیوی میں کیپٹن تھے۔انھوںنے اپنے اکلوتے بیٹے کی ولادت پر شاندار جشن کا اہتمام کیا۔ان
کی خوشی قابل دید تھی۔ ان کی تنخواہ بہت اچھی تھی اس لیے مسلم کا پچپن نہایت آرام
وآشائس میں گزرا، لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ جب ان کی عمر دس سال تھی ان
کے والد کا اچانک انتقال ہو گیا۔ عزیز و اقارب کی بے گانگی اور کہیں سے کوئی امداد
نہ ملنے کی وجہ سے ان کے گھر کی حالت مالی اعتبار سے خستہ ہو گئی۔ ان کی والدہ نے
استقامت کا ثبوت دیا اورعزم و حوصلے سے گھر کو چلایا۔ بیٹے کے تعلیمی اخراجات کی
عدم ادائیگی کی صورت میں ان کی والدہ نے ان کا داخلہ مقامی انجمن اسلامیہ کے دارالیتامیٰ
کے شعبے میں کرایا، جہاں سے مسلم انصاری نے فاضل ادب کی ڈگری حاصل کر کے میدان
کارزار میں قدم رکھا۔ انھیں عربی فارسی اور اردو پر عبور حاصل تھا۔ وہ مزید پڑھنا
چاہتے تھے مگر اپنے گھر آنگن سے افلاس اور تنگ دستی کے مہیب سائے کو ختم کرنے کے
مقصد سے انھوں نے بہرائچ میں مدرسہ اسلامیہ مسعودیہ میں بطور فارسی ٹیچر ملازمت ختیار
کر لی۔وہ بچپن سے ہی ذہین اوربے حد حساس طالب علم تھے۔انھیں علم حاصل کرنے کا بے
حد شوق تھا۔قیام بہرائچ کے دوران وہ درس وتدریس کے ساتھ ساتھ ہائی اسکول اور انٹر
کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔1946میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد
انھیں جلدہی ریلوے میں ملازمت مل گئی۔ریلوے کی ملازمت سے وہ 1981 میں سبکدوش ہوئے۔صحیح معنوں میں ان کی ادبی زندگی کی
شروعات ان کے ریٹائزمنٹ کے بعد شروع ہوتی ہے۔ ریٹائر ہونے کے بعد انھوںنے حج کیا
اور ان کے زنبیل میں جتنا شعری سرمایہ تھا انھیں شائع کرانا شروع کردیا۔اس دوران
انھوں نے ہر سال ایک یا دو شعری مجموعے کی اشاعت کرائی اور دبستان گورکھپور پر بھی
کام کرتے رہے۔
مسلم انصاری ایک زود گوشاعرتھے اور ہر موضوع پر شعر
کہنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ وہ امیر خسرو کی طرح بہت تیزی سے شعر کہنے والے شاعر
تھے۔ اکثر وبیشتر دودواورتین تین زمینوںمیں سعی فرماتے اورشام تک تین چار غزلیںمکمل
کر لیتے۔ان کے خیال میں لامتناہی پروازیں پوشیدہ تھیں۔ ان کی فکر میں بلندی اور
سوز و گداز تھا۔وہ نکتہ سنج‘ رمز شناس اور دانشورانہ مطمح نظر کے شاعر تھے اور ان
کی فطرت میں بے انتہاتندی تھی۔ کائنات کی تبدیلیوںاور معاشرتی نظام پر مسلم انصاری
کی گہری نظر تھی۔ ان کے شعری سرمائے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کتنی باریک
بینی سے سماجی بناوٹ پر نظر رکھتے تھے۔ایک تو ان کی ذہانت اور دوسری گورکھپور کی
ادبی فضا نے انھیں شعروشاعری کی طرف مائل کیا۔ انھوں نے سولہ سال کی عمر میں شعر گوئی
شروع کردی تھی۔بعد میں شاعری ان کے خمیر میں داخل ہو گئی۔ اٹھتے بیٹھے وہ شعری
اکتسابات کی فکر میں لگے رہتے۔ ایک وقت ایسا آیا جب وہ شعر نہیں کہتے تھے بلکہ
شاعری ان سے خود شعرکہلوانے کے لیے مجبور کرتی تھی۔ان کا سب سے اچھااور قابل قدر
مجموعہ’ دیروحرم‘ ہے، جس کی اشاعت چالیس سال کی عمر میں ہوئی تھی۔دیروحرم کا عنوان
انھوںنے مندرجہ ذیل شعر سے اخذ کیاہے
؎
دیروحرم میں بحث ہوئی دل کہاں رہے
آخر یہ فیصلہ ہوابے خانماںرہے
اس وقت وہ حضرت مخمور دہلوی سے شرف تلمذ حاصل کررہے
تھے۔دیروحرم کی غزلوں اور قطعات پر مومن اور میر کا براہ راست اثر دکھائی دیتاہے۔مخمور
دہلوی کی استادی کا ہی اثر تھا کہ ان کی غزلیں ایک کہنہ مشق شاعر کا پتا دیتی تھیں۔ان
غزلوں میں ان کی جوانی کے تجربات کا نچوڑ دکھائی دیتاہے۔ان دنوں ان کے افکار وخیالات
میں بے انتہاتازگی وحرارت تھی۔ اس کا اندازہ دیروحرم کی غزلوں سے لگایا جا
سکتاہے۔دیروحرم کی غزلوں میں بے انتہاروانی ، ترنم اور پرکیف لطافت کا احساس
ہوتاہے۔ ان میں اتنی گرماہٹ اور تازگی ہے، جو ان کے بعد کے مجموعے میں عنقا ہے۔ دیر
و حرم میں وہ کیفیاتی تازگی ہے، جوایک تجربے کار آدمی کی فکر میں ہونی چاہیے۔ ان
دنوں غلام احمد فرقت کاکوروی سے ان کے شعری مراسم تھے۔ شعری نکات پر ان سے بحث بھی
ہوتی رہتی تھی۔
1981میںحج کرنے کے بعد سفر حج کی تفصیلات کا
ایک شعری گلدستہ ’ گلہائے حرمین‘ شائع کیا۔یہ بہت اہم کتابچہ ہے، جس میں انھوںنے
حج کے تمام ارکان کو قطعات میں پیش کیاہے۔اس
کے بعد اگلے پندرہ سالوں تک ہر سال ان کا ایک شعری مجموعہ منظرعام پر آیا۔ 1986 میں
’تارنفس‘ منظر عام پر آیا۔اس مجموعے میں نظمیں اور غزلیں شامل ہیں۔ اس مجموعے کو
انھوں نے اپنے استاد حضرت مخمور دہلوی کے نام معنون کرتے ہوئے انھیں کافی غمناک
انداز میں یاد کیاہے۔تارنفس میں ان کی مشہور نظم بھارت شامل ہے ؎
یہاں کا ذرہ ذرہ مہ جبیں ہے
یہ بھارت کی مقدس سرزمیں ہے
1987میںان کے دو
مجموعے ایک ساتھ شائع ہوئے ایک’ ضرب گل ‘اور دوسرا ’شہر غزل ‘۔ ان مجموعوں میں نظمیں،
غزلیں اور قطعات شامل ہیں۔ 1989میں ’شعلہ تر‘کی اشاعت عمل میں آئی۔1990ہائیکو
نظموں کا مجموعہ ’مثلث ‘منظر عام پر آیا۔ 1992میں ’حدیث درد‘ 1993میں ’دیوارزنداں‘
شائع ہوا۔ ’ساحل ساحل کی اشاعت 1998 میں
ہوئی۔ دیوار زنداں کے دیباچے میں وہ دعواکرتے ہیں کہ ’’ میرے ان شعری مجموعوں کا
اگر آپ بغور مطالعہ فرمائیں تو جہاں ان کے بیشتر اشعار میں عصری تقاضو ں کے نقوش
اور تصورات ومحسوسات زندگی کے نشانات پائیں گے، وہیں میری سرسری کاوشات کی جھلکیاں
اور بسیارگوئی کی پرچھائیاں بھی نظر آئیں گی ‘جو لائق تحسین بھی ہو سکتی ہیں اور
قابل نفرین بھی‘ جس کا انحصار آپ کے مزاج اور مذاق پر ہے۔‘‘وہ آگے کہتے ہیں کہ
’’اب تو میں عمر کی اس منزل پر پہنچ گیا ہوں جہاں سے آگے بڑھنے کے لیے ہر قدم سنبھل
سنبھل کر رکھنا پڑ رہا ہے۔کیوں کہ طبیعت میں نہ تو وہ پہلی سی جولانی ہے نہ افکارمیں
وہ پہلی سی روانی...‘‘
(دیوار
زنداں از مسلم انصاری فیضی آرٹ پریس گورکھپور1993، ص 8[دیباچہ کہنے کی باتیں])
1988 میں ان کا ایک شعری
مجموعہ’عکس غالب‘ شائع ہوا۔جس کے ذریعے انھوں نے اردو دنیاکے سامنے اپنی شعریات کا
لوہا منوایا۔ عکس غالب مسلم صاحب کی جدت طرازی کا نتیجہ ہے۔ اس مجموعے میں انھوں
نے غالب کے 208اشعار کی زمین پر نئے فکر وخیال کے ساتھ نئی غزل کہی ہے۔ انھوں نے
کوشش کی ہے کہ ان غزلوں کے خیالات غالب کے خیالات و افکار سے متصادم نہ ہوں۔ انھوں
نے دعواکیاکہ یہ مشق، غالب کی ہمسری اور برابری کے لیے نہیں ہے۔ بلکہ یہ صرف مشق
سخن ہے۔یہ بہت انوکھی اور پرکشش پہل تھی۔ اس شعری مجموعے میں کچھ ایسے اشعاربھی ہیں
جو کہیں کہیں غالب کے اشعار سے زیادہ معنی خیز اور پر خیال ہیں۔ اس کتاب کو مسلم
انصاری نے بہت اہتمام سے شائع کرایا تھا۔ موٹے گلیزڈ کاغذ پر ہر صفحہ رنگین، غالب
کا شعر الگ رنگ میں بحروں کا کوئی الگ رنگ اور ان کی غزل مختلف رنگ میں۔جیسے غالب
کے دیوان کا پہلا شعر ؎
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصوری کا
یہ بحر رمل کی غزل ہے۔اس کی تقطیع ہے فاعلاتن فاعلاتن
فاعلاتن فاعلن؍فاعلان
مسلم انصاری نے اسی بحرمیں 6اشعار کی ایک غزل کہہ دی
ہے ؎
راز سربستہ نہ پوچھودہر کی تعمیر کا
اک بہانہ تھا کسی کے حسن کی تشہیر کا
دیدہ و دل نے کہا ماناہے کب تدبیر کا
کیجیے کس منہ سے شکوہ کاتب تقدیر کا
جھینی جھینی سی نگاہیں سمٹا سمٹا سا شباب
ہم نے دیکھا ہے وہ رخ بھی آپ کی تصویر کا
میرے جرم اولیں کو یوں تومدت ہوگئی
ایک ہنگامہ ہے لیکن اب بھی داروگیر کا
لذت عصیاں سے جو اب تک رہے ناآشنا
وہ فرشتے جائزہ لیں گے مری تقصیر کا؟
دیکھیے کیا دن دکھاتاہے یہ حسن اتفات
پھر پیام آیا ہے مسلم اس بت بے پیر کا
ان کی شعری کائنات میں منافقت، بے راہ روی، فریب،
بداخلاقی اور حالات حاضرہ جیسے عنوانات پر سیکڑوں اشعار موجود ہیں۔ ان کو الگ الگ
زمرے میں شامل کیا جائے تو ان کا انتخاب بیش قیمتی ہو سکتا ہے۔ یہاں ان کی شعری
کائنات پر بحث کرنا شاید مناسب نہ ہو۔ میں چاہتاہوں کہ ان کی غزلوںکے بہترین اشعار
کاایک انتخاب قارئین کے لیے پیش کر دیا جائے اور قارئین خود فیصلہ کریںکہ وہ کس
پائے کے شاعر تھے ؎
قفس میں تھے تو کبھی کھل کے ہنس بھی لیتے تھے
اب آشیاں میں تبسم بھی سازگار نہیں
کون قاتل ہے بتادیں گے ملاقات کے بعد
رہ گئے زندہ جو ہم اب کے فسادات کے بعد
جب اپنے شہر لوٹ کے مدت پہ آئے ہم
کتنوں سے اپنے گھر کا پتا پوچھناپڑا
ترے بدن کا تصور بھی کچھ عجیب ساتھا
کہ دوررہتے ہوئے بھی بہت قریب ساتھا
میکدہ کا تو نام ہے بدنام
فتنے اٹھتے ہیں خانقاہوں سے
یوں ترا تیر نظر دل سے پرافشاں نکلا
میراہر تارنفس تاررگ جاں نکلا
دل سے اٹھتاہے پھر دھواں ساکچھ
پھر زمانہ ہے بدگماں ساکچھ
گورکھپور کی تاریخ بہت قدیم ہے، مگر اس کی شناخت ہمیشہ سمٹی رہی۔ اسے مسلم
انصاری نے نمایاں انداز میں پیش کیا۔ دبستان گورکھپور کے ذریعے ہم کورکھپور کے
عروج وزوال کی تفصیلات معلوم کر سکتے ہیں۔ دبستان گورکھپوردر اصل تاریخ گورکھپور
ہے، جس میں کتنے ہی بیش قیمتی ہیرے موتی اور پوشیدہ قیمتی جواہرات کو قارئین کے
سامنے لاکھڑا کیا گیا ہے۔ انھوں نے جو کچھ لکھا اپنے اخذو اکتساب کی بنیاد
پرلکھاہے اور کسے کس طرح پیش کرنا ہے اس کا فیصلہ انھوںنے خود ہی کیا ہے۔ مواد کی
عدم فراہمی کی صورت میں انھوں نے انتہائی جاں سوزی کے ساتھ اپنے خون جگر سے جس
دبستان کی داستان لکھی ہے وہ انتہائی محبوب اور قابل ستائش ہے۔ انھوں نے جن شعرا
کے حالات کا ذکر کیا ہے ان کے پس پشت جو کہانیاں ابھرکر سامنے آتی ہیں وہ
گورکھپور کے تہذیبی، ثقافتی اور معاشرتی حالات کو بھی منظر عام پر لانے میں کامیاب
ہیں۔اس بات کی تائید پروفیسر محمود الٰہی صاحب نے بھی کی ہے۔ ان کے خیال میں۔
’’گورکھپور کی علمی فنی اور ادبی خدمات کا ابھی تک جائزہ نہیں لیاگیا تھا، مسلم
انصاری نے اس فرض سے عہد برآ ہونے کا پروجیکٹ مرتب کیاجو دبستان گورکھپور کی صورت
میں آج ہمارے سامنے ہے۔‘‘ پروفیسر احمر لاری اس بات کو کچھ توسیع کے ساتھ پیش
کرتے ہیں۔’’اردو کے دوسرے علاقوں اور مراکز کے ادبی کارناموں کے بارے میں مستند
اور معتبر کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ابھی تک گورکھپور کی جو انیسویں
صدی کے اوائل ہی سے اردوزبان وادب کا ایک اہم مرکز رہا ہے، نہ تو کوئی قابل اعتماد
ادبی تاریخ لکھی گئی ہے اورنہ ہی یہاں کے قلم کاروں کا کوئی معتبر تذکرہ شائع ہوا
ہے۔مجھے اس بات سے بے حد خوشی ہوئی کہ مسلم انصاری صاحب نے اس کمی کو محسوس کیا،
انھوںنے دبستان گورکھپور کے عنوان سے گورکھپور کے قلم کاروں کا ایک ضخیم تذکرہ ترتیب
دیا ہے۔‘‘
(دبستان
گورکھپوراز مسلم انصاری فیضی آرٹ پریس گورکھپور 1997۔ [سرورق کے بعد پہلا اور
دوسرا فلیپ۔])
دبستان گورکھپور نے گورکھپور کو ادبی افق پر لاکر
کھڑاکر دیا۔اسے ایک نئی پہچان دی۔اس کی وضاحت کرتے ہوئے مسلم انصاری کہتے ہیں۔’’لکھنؤ
میں اردو شاعری جب اپنے شباب پر تھی برصغیر ہندو پاک کے تمام ممتاز مشاہیر
شعراوادبایہاں کی ادبی محافل کو اپنی شرکت سے نواز چکے تھے اور کلام بلاغت نظام سے
عوام کو محظوظ ومستفیض فرما چکے تھے۔‘‘ (دبستان گورکھپور، ص 14)
انھیں گورکھپور کی ادبی اہمیت وافادیت کا خوب اندازہ
تھا۔’’الغرض گورکھپور میں ادبی سرگرمیاں ہمیشہ شباب پر رہیں۔ سلاطین اودھ کے دورمیں
تو اس کو دبستان کی حیثیت حاصل ہو گئی تھی، جس کے روح رواں عبرت، عنبر، فانی، حامی،
عجیب، ریاض، وسیم، فہیم، عمر، قاصر، ریحان، بدر، قمر وغیرہ جیسے ارباب فکر وفن
تھے۔‘‘
(دبستان
گورکھپور، ص14)
ڈاکٹر محمد اشرف کا خیال ہے کہ۔ ’’شعر وسخن کے میدان میں
درجنوں شعری گلدستے آراستہ کیے اور اس شعبے میں انھیں غیر معمولی مقبولیت بھی ملی
‘لیکن ساڑھے سات سو صفحات پر مشتمل ’دبستان گورکھپور‘جیسی ضخیم کتاب شائع کرکے
انھوںنے نثری ادب میں ایک الگ پہچان بھی بنالی، جس میں شہر کی علمی وادبی شخصیتوں
کے سوانحی خاکوں اور ان کی تفصیلات پر سیر حاصل بحث کر کے تاریخی کانامہ انجام دیا۔اس
سلسلے میں ان کی جتنی ستائش کی جائے ناکافی ہے۔‘‘
(ادبی
نشیمن سہ ماہی جرنل لکھنؤ۔دسمبر 2024، فروری 2025 ڈاکٹرمحمد اشرف کا مقالہ
’گورکھپور کی ادبی شخصیتیں :ماضی اور حال کے آئینے میں‘ص 20)
مسلم انصاری نے دبستان گورکھپورمیں گورکھپور کے 269شعرا
کا ذکر کیاہے۔اس میں چند نام ان ادیبوں کا بھی ہے، جنھوںنے شعر وشاعری نہیں کی مگر اپنی نثر اور
شخصیت کی تابناکی سے گورکھپور کے ادبی افق کو خوب چکمایا۔ان میں علامہ ابوالفضل
احسان اللہ عباسی 1865-1927 ‘قاضی تلمذ حسین 1880-1946، مہدی افادی 1868-1921 اور
عبدالقیوم رسا 1896- 1984 کے نام شامل ہیں، انھوںنے اپنی عالمانہ نثر نگاری اورادبی
خدمات سے گورکھپور کے ادبی منظرنامے کو خوب روشن کیا۔مسلم انصاری نے اس ضخیم تاریخ
میں شعراکے ساتھ ساتھ ان نثر نگاروں کی خدمات کا بہت اہتمام سے ذکر کیا ہے۔ اس
کتاب میں انھوں نے شعرا کا ذکران کے تخلص کے ردیفی ترتیب
alphabatical سے کیاہے۔اس کے بھی دو باب متعین کیے۔ پہلے
باب میں ان شعرا کا ذکر ہے، جو 1997سے قبل وفات پا چکے تھے اور دوسرے باب میں باحیات
شعرا اور ادباکا ذکر ہے، جو گورکھپور میں یا ملک میں کہیں بھی کارہائے نمایا انجام
دے رہے ہیں۔گورکھپورکے حوالے سے اردو شعروادب کی ترویج کی تاریخ بیان کرنے کے لیے
انھوںنے ایک الگ باب خرچ کیاہے ، جس میں انھوں نے فورٹ ولیم کالج سے لے کر موجودہ
گورکھپور کے جغرافیائی، ثقافتی اور تاریخی حصولیابیوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔دبستان
دلی ، لکھنؤ اور گورکھپور کی تفصیل نیز اس کتاب کے لکھنے کے محرکات کے متعلق
انھوںنے حرف درحرف کے باب میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
اس کتاب کی سب سے بڑی اہمیت ان بے نام اور گمنام شاعروں
کی بازیابی ہے، جو تاریخ کے دبیز پردے کے پیچھے کہیں روپوش ہو چکے تھے اور ان کی
شخصیت پر گرد کی گہری تہہ جم چکی تھی۔ ان کی شخصیت پر جمی گہری پرت کو صاف کر کے
انھیں ادبی دنیا سے روشناس کرانا ہی مسلم کا بڑاکارنامہ ہے۔ عام محقق کے لیے ایسے
شاعروںپر ایک پیراگراف بھی لکھنا ممکن نہیں ہوتاہے، ایسے میں مسلم انصاری نے ان
گمشدہ شعرا کی شخصیت، شاعری اور ادبی خدمات پر بیس سے تیس صفحات تک لکھ ڈالے ہیں۔
ان پر مواد جمع کرنا ان کے پیش نظر کتنا جوکھم
adventurousکارنامہ رہا ہوگا اس کا اندازہ لگانا قدرے
مشکل نہیں ہے۔ یوں تو اس کتاب میں دو درجن ایسے شعرا ہیں جو زمانے کی گردشوں میں
گم ہو چکے تھے۔ مگر دو نام جن کی بازیافت مسلم انصاری نے کی، وہ انتہائی اہم ہیں۔
اول منشی مادھورام مادھو اور دوئم مولوی عبدالرحیم تمنا گورکھپوری موسوم بہ
عبدالرحیم دہریہ کے نام نامی شامل ہیں۔
کتاب کے تیسرے باب کو اضافی معلومات کے طورپر پیش کیا گیا
ہے۔ دبستان گورکھپور کو مسلم انصاری نے فورٹ ولیم کالج کے ابتدائی دنوں سے جوڑنے کی
کوشش کی ہے۔ اس باب میں فورٹ ولیم کالج، اردو لغت نویسی، اردو بحیثیت سرکاری زبان،
یوروپین اور اینگلوانڈین شعرا، گورکھپور کا اصلی نام، اردو کا اولین کارنامہ اردو
صحافت، اردو پریس ، اردو ادبی انجمنیں، اردو لائبریریاں،گورکھپور یونیورسٹی، باہمی
گھریلو بول چال، اردو زبان وادب کے معاونین، اردو مدارس اور مہانگر کے اعداد
وشمارشامل کیے گئے ہیں۔ان موضوعات پر مسلم انصاری نے مختصر مگر جامع معلومات فراہم
کی ہے۔ فورٹ ولیم کالج اور اردو کے یوروپین شعرا کی تفصیل بہت اہمیت کی حامل ہے۔ یوروپین
شعرا کے زمرے میں تمام اینگلوانڈین شعرا کا ذکر بہت عرق ریزی سے کیاگیاہے۔ان کے
اشعار نمونے کے طورپر دینا بہت بڑی کامیابی ہے۔62 یوروپین شعرا کامختصراً ذکر ہے
اورنمونہ کلام بھی دیا گیاہے۔ اسی باب میں مسلم انصاری نے گورکھپور کی اردو صحافت
پر بہت جامع معلومات فراہم کی ہے۔ اس میں انھوںنے کل 52اخباروں اور رسائل کا ذکر کیاہے
مگر ظاہر ہے کہ ان کی شروعات ریاض خیرآبادی کے اخبار’ ریاض الاخبار‘ سے ہوئی اور
اس سلسلے کو انھوںنے ’روزنامہ راپتی‘ پر ختم کیا ہے۔ راپتی کو ساجدی پریس کے مالک
حامدعلی انصاری نے 1995میں جاری کیا تھا، لیکن گورکھپور کا اہم ترین اخبار مشرق
تھا، جسے حکیم برہم نے 1906میں جاری کیا تھا۔ ایک اہم اخبار اشتراک تھا جسے صحافی،
شاعر اور افسانہ نگار ایم کوٹھیاوی راہی نے فراق گورکھپوری کی ایما پر 1967 میں
جاری کیا تھا۔اشتراک 8صفحات پر شائع ہوتا تھا۔ اس میں پورے ہفتے کی خبروں کا تجزیہ
شامل ہوتا اور شعروشاعری کی ترویج کے لیے خاص صفحات متعین کیے گئے تھے۔
Zakir Husain Zakir
Gulshan-e-Haider, Shanti Nagar
Ward No: 10
Distt.: Deoria- 274001 (UP)