اردو دنیا، فروری 2025
خان محمد رضوان:پروفیسر رئیس انور صاحب، یوں تو آ پ کی
تحریریں رسالوں میں ایک عرصے سے دیکھ رہا ہوں مگر ذاتی طور پر آپ کے متعلق میری
واقفیت کم ہے۔ اپنے بارے میں قارئین کو کچھ بتائیں۔
پروفیسر رئیس انور:
رضوان صاحب، اس مصاحبے کے لیے میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ دراصل میرا آبائی
وطن بہار شریف ضلع نالندہ ہے۔ وہاں کے استھاواں بلاک میں ایک گائوں موہنی ہے جہاں
میرے جد امجد جیوٹھلی (ضلع پٹنہ) سے آکر آباد ہوگئے تھے۔ میرے والد مجیب الرحمن
مرحوم بچپن میں تعلیم حاصل کرنے کلکتہ چلے گئے تھے اور فراغت کے بعد وہیں پر یسیڈینسی
کالج (جسے اب یونیورسٹی کا درجہ مل گیا ہے۔) میں فارسی کے استاد ہوگئے۔ اسی بناپر
میری پیدائش اور رہائش وغیرہ کلکتہ میں تھی۔ محمد جان ہائی اسکول، مولانا آزاد
کالج اور کلکتہ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کی۔ 1978 میں ایم اے کرنے کے بعد ریسرچ میں
مشغول ہوگیا۔ جلد ہی 1979میں بھاگلپور یونیورسٹی میں لکچر ر شپ مل گئی مگربہ وجوہ
میں نے ایک سال بعد جون 1980 میں جوائن کیا۔ جنوری 1988میں مجھے متھلایونیورسٹی میں
ریڈر کی حیثیت سے منتخب کیا گیا۔ وہیں میں ترقی پاکر پروفیسر اور صدر شعبہ بھی
بنا۔ سنٹرل لائبریری اور لائبریری اور انفارمیشن سائنس کا ڈائرکٹر بھی رہا۔علاوہ
بریں بارہ سال تک مولانا آزاد چیئر کا ڈائرکٹر رہا۔ کلکتہ کا ایک خاص ماحول، مزاج
اور کلچر ہے جس سے میں متاثر ہوں۔ اس لیے بہار میں مجھے ایڈجسٹ کرنے میں دقت ہوتی
رہی ہے۔ مجھے ابھی 2024 میں دوبارہ مولانا
آزاد چیئر کے نگراں کے عہدے پر بحال کیا گیا ہے۔
خ ر : آپ اپنے
ہم عصروں پر بھی روشنی ڈالیں۔
ر ا : کلکتہ
میں غلام نبی، محمد مظفر حسین، فہمیدہ بیگم اور ساجدہ بانو وغیرہ میرے ہم جماعت
تھے۔غلام نبی، وکٹوریہ میموریل کلکتہ میں آفیسر ہوگئے تھے۔ مظفرحسین اورنگ آباد
(بہار)کے کسی کالج میں استاد تھے جب کہ فہمیدہ اور ساجدہ کلکتہ کے کالجوںمیں تدریس
کرتی رہیں۔ سینئر لوگوں میں یوسف ترقی، شمیم انور اور ابوبکر جیلانی تھے۔ یہ لوگ
بھی وہیں کالج اور یونیورسٹی سے وابستہ تھے۔ بھاگلپور میں شاداب رضی اور محمد
بدرالدین اچھے استاد اور دوست تھے۔دربھنگہ میں ڈاکٹر منصور عمر، ڈاکٹر مظفر مہدی
اورڈاکٹر ارشد جمیل میرے اہم رفقا تھے۔ ان سے علم وادب پر نوک جھونک بھی ہوتی تھی۔
معاصرانہ چشمک ایک فطری عمل ہے۔ اگر یہ مثبت، صحت مند اور ادب و تہذیب کے دائرے میں
ہو تو اس سے فائدے بھی ہوتے ہیں۔
خ ر:محترم آپ کے وقت میں اردو کے وہ کون سے رسالے تھے
جو زبان وادب کی ترویج کر رہے تھے اور سب سے زیادہ آپ کو کس رسالے نے متاثر کیا؟
را: ہمارے زمانے میں بیسویں
صدی، شمع، سریتا اور کھلونا وغیرہ بڑوں اور بچوں میں مقبول تھے اور کلکتہ میں
آسانی سے مل جاتے تھے۔ جب میں کالج میں پہنچا تو ماہنامہ آجکل، نیا دور، شاعر
اور کتاب پڑھنا شروع کیا۔ بعد میں زبان وادب، پٹنہ اور روح ادب کلکتہ بھی مطالعے میں
آیا۔ کالج میں استاذی پروفیسر اعزاز افضل ترقی پسندانہ مزاج رکھتے تھے۔ ’عصری
ادب‘ اور’ عصری آگہی‘ ان کے یہاں زیر بحث رہتا۔ یونیورسٹی میں استاذی ظفر اوگانوی
’شب خون‘، ’سوغات‘ اور ’الفاظ‘ کے مندرجات پر گفتگو کرتے۔ استاذی شاہ مقبول احمد
اور والد محترم کی توجہ کلاسیکی ادب پر مرکوز تھی۔ اسی بناپر میں کسی خاص ادبی تحریک
یا رجحان سے وابستہ نہیں ہوا۔ ہاں سن شعور کو پہنچنے کے بعد’ عصری ادب‘،’ عصری
آگہی‘، ’الفاظ‘ اور’ سوغات‘ وغیرہ زیادہ انہماک سے پڑھتا تھا۔
خ ر:آپ اپنے
علمی وادبی کام کی تفصیلات بتائیں۔
ر ا: رضوان
صاحب میں نے شروعات شاعری سے کی۔ شاید والد محترم اور استاذی اعزاز افضل سے قربت
کا اثر تھا۔ طالب علمی کے زمانے میں افسانے اور ناول بھی پڑھا کرتا تھا۔ اس لیے
افسانہ نگاری کی بھی کوشش کی۔ شاعری اور افسانے کلکتہ ریڈیو پر بھی پڑھے۔ رسالے میں
بھی چھپوائے۔ اس کے بعد رپورتاژ لکھے پھر مضمون نگاری اور تحقیق کی طرف راغب ہوا۔
غالب کے ایک بنگالی ہم عصر جنم جی مترا ارمان کے دو مخطوطے ’تذکرہ نسخۂ دلکشا‘اور
’منتخب التذکرہ‘ ترتیب دے کر شائع کیا۔ ایک اور کتاب ’جنم جی متر ارمان حیات و
خدمات‘ لکھی۔ مضامین کا مجموعہ ’بازیافت پرویز شاہدی‘ مرتب کیا۔ تنقیدی وتحقیقی
مضامین، تقریظ، تبصرے، ترجمے وغیرہ لگاتار شائع ہوتے رہے ہیں۔ اس نوع کی تحریروں
کے کئی مجموعے بھی چھپ چکے ہیں۔ حالیہ برسوں میں ’بنگال کے اردو تذکرے‘ (2021)اور
’تلمیذ میر: غلام علی راسخ عظیم آبادی‘
(2023)شائع ہوئی ہیں۔
خ ر: آپ ہندی
اور انگریزی زبان کے ادب کے مقابلے میں اردو ادب کو کہاں پاتے ہیں؟
ر ا:دیکھیے اصل میں ادب اپنے ماحول میں پنپتا ہے۔ کسی بھی ملک یا علاقے، اس کے سماج، ا س کے کلچر
اور اس کی تہذیب کا عکس ادب میں موجود ہوتا ہے۔ مغربی ممالک کا سماج، وہاں کے
جغرافیائی حالات، روزمرہ کی زندگی اور دوسرے معمولات مشرقی ملکوں سے الگ ہیں۔ وہاں
کی روز مرہ کی زندگی میں بہت سی ایسی قدریں ہیں جو ہمارے یہاں معیوب سمجھی جاتی ہیں
جیسے نام نہاد آزادی، از حد کھلاپن، عریانیت، تصوراتی نراجیت وغیرہ۔ اتنا کہاجاتا
ہے کہ وہاں کی تقلید میں یا یوروپی ادب کے اثر سے ہندی اور اردو میں بھی کچھ عناصر
داخل ہوئے ہیں اور اس عمل کو Intellectualismکا
نام دیا جاتا ہے۔ پھر بھی اردو ہندی کا نثری ادب اپنی الگ اور آزادانہ پہچان
بنائے ہوئے ہے۔
جہاں
تک ہندی ادب کا سوال ہے، افسانے، ناول، تنقید وغیرہ بڑے معیاری ہیں مگر شاعری کسی
حد تک کمزور ہے۔ اردو شاعری میں جس پائے کے نفیس و نازک احساسات اورجمالیات کا دل
کو چھولینے والا اظہار ہوتا ہے اور دلکش اسلوب بھی ہوتا ہے، ہندی شاعری اس سے قدرے
دور ہے۔
خ ر: کیا اردو اساتذہ کا معیار کچھ کم ہوا ہے؟ اب اچھے
ادیب، نقاد اور شاعر پیدا نہیں ہورہے ہیں؟
ر ا:تلخ سچائی یہ
ہے کہ ہمارے کئی اساتذہ صرف ملازمت کرتے ہیں اور اردوکے استاد بن کر دوسرے کام میں
زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ اردو زبان کے مستقبل، طلباکے مستقبل اور تدریس کے فرائض سے
انھیں کم سے کم دلچسپی ہوتی ہے۔ طلبا کو نوٹس دے کر سمجھتے ہیں کہ فرض منصبی ادا ہوگیا۔ زبان وادب کو پڑھنے، اپنے
طور پر سمجھنے اور سمجھانے سے بہت کم تعلق رکھتے ہیں۔ بعض اساتذہ تدریس کے بجائے
سمینار، سمپوزیم اور جلسوں میں ایسا مصروف رہتے ہیں کہ رزق کے حلال اور حرام کی تمیز
ہی نہیں رہتی۔
جب
استاد اور شاگرد کا رشتہ اتنا کمزور ہو۔ تدریس کے تقاضے اور تقدس پامال ہونے لگیں
تو ماحول میں بیزاری آنے لگتی ہے۔ ایسے میں درس گاہوں سے اچھے ادیب، نقاد اور
شاعر کیسے نکلیں گے۔ آپ ہی سوچیے۔
خ ر: کیا تحقیق و تنقید کا معیار گرا ہے؟ اگر ایسا ہے
تو اس کی وجہ کیا ہے؟
ر ا: جامعاتی
تحقیق میں یقینا گراوٹ آئی ہے یہ ہر سبجیکٹ میں ہے۔ اس کی وجہ یو جی سی کے بنائے
ہوئے اصول و قواعد ہیں جن کے مطابق ریسرچ پیپر اور ریسر چ ڈگری کے لیے مخصوص اضافی
نمبر ہیں۔ اسی بناپر باصلاحیت طلبا کے ساتھ ساتھ بے صلاحیت بھی اس کے لیے جگاڑ
لگاتے ہیں اور ہم میں سے چند لوگ پیسے کی خاطر پیپر اور تھیس لکھ کر بے صلاحیت یا
کم صلاحیت والوں کی سرپرستی کر تے ہیں۔ انھیں لکھ کر دے دیتے ہیں یا نقل کروادیتے
ہیں۔ اسے ڈگری کا کمرشیلایزیشن کہنا چاہیے۔ لہٰذا معیار کی گراوٹ میں چند طلبا کے
ساتھ ساتھ بعض اساتذہ بھی شریک ہیں۔
خ ر: ادب کی مبادیات کیا ہیں؟ ایک طالب علم یہ کیسے
محسوس کرے گا کہ اس فن پارے میں ادبیت ہے یا نہیں ہے؟
ر ا:یہ بہت
مشکل اور سنجیدہ سوال ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے میں یہ واضح کردوں کہ ادب بنیادی
طور پر موضوع، اسلوب اور ہیئت کا اٹوٹ، مربوط اور دلکش مجموعہ ہوتا ہے۔ ادب کا
مطالعہ کرتے وقت یہ دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس میں جذبہ، احساس یا خیال کیسا
ہے۔ اس کی زبان اور اس کا اسلوب کیسا ہے نیز جس ہیئت میں پیش ہوا ہے، اس میں سماکر
اس کے تقاضوں کو پورا کررہا ہے یا نہیں۔ یہاں ایک مسئلہ یہ بھی سامنے آتاہے کہ ایک
ہی خیال کو کئی شاعر یا نثر نگار اپنے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔ اس صورت میں تقابل
کا سوال ابھرتا ہے کہ کس فن پارے میں اثر آفرینی ہے۔ کسے پڑھ یا سن کر ہماری حس بیدار
ہوجاتی ہے۔ ہمارے شعور میں گرماہٹ پیدا ہوتی ہے۔ آل احمد سرور کی زبان میں مسرت
اور بصیرت حاصل ہوتی ہے۔ دراصل ادب میں اسلوب کی بڑی اہمیت ہے۔ موضوع یا خیال اسی
کے وسیلے سے ہیئت میں ضم ہوتا ہے۔ اس لیے میری نظر میں ادب کی قدر و قیمت کا دار و
مدار اسلوب پر ہے۔ میں اسلوب کے سلسلے میں زیادہ نہیں بولوں گا۔ اس کی تعریف و تشریح
بڑی پیچیدہ اور بڑی حد تک فلسفیانہ ہے۔ اس میں زبان، تکنیک اور تخلیقی عمل وغیرہ کی
بحث شامل ہوجائے گی۔
خ ر:کیا یہ
درست ہے کہ اردو رفتہ رفتہ ختم ہوتی جارہی ہے یا اسے ختم کرنے کی ساز ش رچی جارہی
ہے؟
ر ا:اس میں بہت
حد تک سچائی ہے۔ آج کل اردو جاننے والے بلکہ پڑھے لکھے لوگ ہندی سے متاثر نظر
آتے ہیں۔ اسی وجہ سے اردو کا بنیادی ڈھانچہ دن بہ دن کمزور ہوتا جارہاہے۔ آپ غور
کیجیے، اردو الفاظ اور محاورات کس تیزی سے بگڑرہے ہیں یا بگاڑے جارہے ہیں۔ اب
معلوم چلا، علمائوں، حالاتوں وغیرہ میڈیا سے ہوتے ہوئے عوام میں رائج ہوتے جارہے ہیں۔ اگر پڑھے لکھے لوگ صحت زبان کا لحاظ نہیں رکھیں
گے تو زبان کمزور ہوگی اور ہماری اردو زبان کا اردو تہذیب کا نقصان ہوگا۔
آسان
زبان یاہندوستانی الفاظ پر مشتمل زبان استعمال کرنا اچھا ہے۔ میں تو یہاں تک کہتا
ہوں کہ اردو میں علاقائی الفاظ بھی کھپائے جاسکتے ہیں مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں
کہ اردو قواعد، ا س کے اپنے کینڈا اور اس کی اپنی پہچان سے سمجھوتہ کیاجائے۔
خ ر: کیا مدارس
کے فارغین کی وجہ سے آج اردو بچی ہوئی ہے؟ اگر مدرسہ والے نہ ہوتے تواردو میں
قابل قدر کام نہ ہوتا؟
ر ا:یہ جزوی
طور پر درست ہے۔ آج کل بہار کے مدرسوں سے جو بچے اردو کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے
آرہے ہیں، وہ بہت کمزور ہوتے ہیں۔ ان میں ادب کا وہ شعور نہیں ہوتا جو پہلے کبھی
ہوا کرتا تھا۔ بہار میں عالم اردوکی سند والے ایم۔ اے۔ اردو میں داخلہ لیتے ہیں۔
ان کا املا اور جملہ بہتر ہوتا ہے مگر شعر وادب اور تاریخ ادب کی سمجھ برائے نام ہی
ہوتی ہے۔ ان پر اساتذہ کو زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔
جہاں
تک قابل قدر کام کا سوال ہے۔ جیسا کام پروفیسر عبدالمغنی، پروفیسر ظفر اوگانوی،
پروفیسر ابوالکلام قاسمی، پروفیسر ظفر احمد صدیقی وغیرہ نے کیا ہے جو بہت پہلے
مدرسوں سے فارغ ہوئے تھے مگران لوگوں کے بعد ایک گیپ ہوگیا ہے۔
خ ر:اردو کے
مستقبل کے تعلق سے آپ کی کیا رائے ہے؟
ر ا: میری
سمجھ سے اردو کا مستقبل زیادہ روشن نہیں ہے۔ ایک عرصے سے لپی بدلنے کی بات ہورہی
ہے۔ اردوکے کئی اساتذہ کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جو صحیح زبان نہیں لکھ سکتے ہیں،املا
تک غلط لکھتے ہیں۔ پانچ دس منٹ کسی موضوع پر بول نہیں سکتے ہیں۔ میں نے بہار، کے
دو مشہور کالج اور دو یونیورسٹی میں تدریس کی ہے اور بہت کچھ دیکھا ہے۔ اردو کے
طلبا عام طور پر دستخط یا درخواست کے لیے ہندی کا انتخاب کرتے ہیں۔ اکثر طلبا اردو
میں درخواست لکھ بھی نہیں سکتے۔ اب ایسی صور ت میں اردو کے مستقبل کے بارے میں کیا
رائے دی جائے۔ میرا ماننا ہے کہ شمالی ہندوستان میں بول چال کی زبان اردو ہے مگر
لکھنے کی زبان ہندی ہوگئی ہے۔
خ ر: اردو رسم
الخط ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنتا رہا ہے۔ غیر تو غیر اپنے بھی اردو رسم الخط کی
مخالفت کرتے ہیں۔ کیا اردوکو اس کے رسم الخط کے بغیر باقی رکھا جاسکتا ہے؟
ر ا:دیکھیے بہت سے ایسے الفاظ ہیں جو اردو رسم الخط ہی
میں زندہ رہ سکتے ہیں۔ دیوناگری یا رومن لپی میں وہ دم توڑ دیں گے۔ ذ، ز، ض، ظ
والے الفاظ تو فنا ہوجائیں گے۔ ان کا صحیح تلفظ ناپید ہوجائے گا۔ یہی حال ’ژ‘ والے
لفظوں کا ہوگا۔ دراصل اردو کا صوتی ذخیرہ لاثانی ہے۔ اس کا نظام بھی بڑا جامع اور
وقیع ہے۔ اصوات کی ایسی زرخیزی غالباً دوسری کسی زبان میں نہیں ہے۔ صوتی ذخیرے کا
دارو مدار لپی پر ہے۔ لپی کی تبدیلی سے یہ بے نظیر ذخیرہ بالکل ختم ہوجائے گا۔
اردوکی ساری دلکشی، چاشنی اور سحر انگیزی مختلف اصوات کی شمولیت اور انضمام سے ہے
اور اس معاملے میں بر صغیر کی کوئی زبان اردو کی ہمسر نہیں ہوسکتی۔ دوسری کسی لپی
میں ایسی انضمامی توانائی اور تخلیقی سلیقہ مندی نہیں ہے کہ حسن ادا کے ساتھ دوسری
زبانوں کے الفاظ کو نیا پیراہن عطا کردے یا دوسری زبانوں کے الفاظ کو صحیح Accentکے ساتھ ادا کرسکے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ زبان اپنی لپی کے ساتھ زندہ رہتی
ہے۔ ہمیں عبرانی زبان سے سبق لینا چاہیے۔ قیام اسرائیل سے قبل یہودیوں کا کوئی الگ
ملک نہیں تھا مگر اس قوم نے اپنی زبان کو سینہ بہ سینہ محفوظ رکھا اور ملک ملنے کے
بعد وہاں اسے رائج کیا۔ اس لیے اردو زبان کو اس کی لپی کے ساتھ ہی زندہ رکھا
جاسکتا ہے ورنہ یہ جس لپی میں لکھی جائے گی،
اسی میں ڈھل کر ختم ہوجائے گی۔
خ ر:اچھا اب یہ
بتائیں کہ نئی نسل اردو سے کیوں دور ہوتی جارہی ہے ؟ اسے اردو سے کیسے جوڑے رکھا
جاسکتا ہے؟
ر ا:دیکھیے، یہ
دور کمر شیلائیزیشن اور ٹیکنالوجی کا ہے۔ تعلیم کا بہت چرچا ہے مگر روایتی تعلیم کی
طرف سماج کا کمزور طبقہ راغب ہوتا ہے۔ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی تحصیل باعث فخر
ہے مگر مہنگی ہے۔ سوائے ہندی کے دوسری دیسی زبانوں کا اسکوپ کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔
اردو بھی اس رجحان سے متاثر ہورہی ہے۔ اچھے پرائیویٹ اسکولوں بلکہ کئی سرکاری
اسکولوں میں اردو کی تعلیم نہیں ہوتی ہے اور گارجین بڑی خوشی سے بچوں کو انگریزی
کے علاوہ ہندی یا دوسری زبان پڑھنے دیتے ہیں۔کہیں کوئی احتجاج یا تحریک نہیں ہوتی۔ان
کا اصل مقصد اچھی اور اعلیٰ مروجہ تعلیم حاصل کرنا ہوتا ہے۔
اس صورت حال میں اگر ہمیں اپنے بچوں کو اپنے کلچر، اپنی
تہذیب اور اپنے مذہب سے جوڑے رکھنا ہے تو گھر پر محنت کرنا ہوگی۔ اردو تحریک کا
نعرہ دینے اور میٹنگ کرکے اخباروںمیں فوٹو چھپوانے سے مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے۔
گھر پر اردو اخبار، رسالے اور کتابیںمہیا کرانا اور بچوں کو انھیں پڑھنے کی ترغیب
دینا ہوگی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی تحصیل کوئی بری بات نہیں مگر اسی کے ساتھ اپنی
زبان کی بھی جانکاری رکھنے میں کیا قباحت ہے۔
خ ر:رئیس انور
صاحب میں بہت ممنون ہوں کہ اردو زبان وادب کے حوالے سے آپ سے تفصیلی بات چیت ہوئی
اور مختلف موضوعات پر آپ کے خیالات سے آگاہ ہونے کا موقع ملا۔ ایک بار پھر آپ
کا شکریہ۔
Dr. Khan Mohd Rizwan
D-307, M.M.I Publisher
Abul Fazal Enclave, Jamia Nagar
New Delhi- 110025
Mob.: 9810862283
afeefrizwan@gmail.com