2/5/25

کورٹھا میں لوک ادب، مضمون نگار: محمد طیب

 اردو دنیا، فروری 2025

لوک ادب کی افادیت سبھی زبان و ادب کے لیے اہمیت کی حامل ہے۔یہی وہ سرمایہ ہے جس سے زبان وادب کو پھلنے،پھولنے، سماج کی تہذیب وثقافت کی بقا، معاشرت، علمی وادبی میدان میں لسانی تہذیب کو فروغ دینے، تمام اصناف کو تقویت بخشنے، تقریر و تحریر میں معنویت اور وزن پیدا کرنے، اگلی نسل تک علمی ورثے کو سینہ بہ سینہ اور نسل دَر نسل پہنچانے کا موثر ذریعہ ہے۔ عوامی ادب خوشی ومسرت کا بھرپور اور تخلیقی سر چشمہ ہے۔اس میں کہاوتیں، پہیلیاں، حکایتیں، قصے، کہانیاں، فقرے، لطیفے،لوک کتھائیں، محاورے، ضرب الامثال وغیرہ شامل ہیں جن کا خالق کو ئی فردِخاص نہیں بلکہ پورا معاشرہ ہوتا ہے۔ جس کے پیچھے صدیوں کا سفر، لوگوں کے تجربات، زمانے کے سرد وگرم کی کارفرمائی ہوتی ہیں اوریہ واقعیت اور اصلیت پرمحیط ہوتا ہے۔ لوگ ادب کو علمی میدان میں نمایاں کرنے والوں میں کچھ اہم شخصیات ہیں مثلاً اظہر علی فاروقی،قمر رئیس، دیوندر ستیارتھی،ٹیگور،قیصر جہاں اوربیگم بسم اللہ نیاز وغیرہ۔

کسی بھی علاقے کے ادب، لوک ادب کے جائزے کے تحت وہاں کی تہذیب و ثقافت، رسوم ورواج، عقائد و توہمات کاذکرکرنا وہاں کے ’لوک ادب‘ کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ جیسا کہ لکشمی نارائن وسنسار چند اپنی کتاب میںلکھتے ہیں :

’’لوک ادب میں اگر واقعیت اور اصلیت نہ ہوتی تو اس کی بیشتر قدروقیمت گھٹ گئی ہوتی۔  دوسری تحریری سر گزشتوں کی طرح اس نے بھی تعصبانہ رجحان اپنا لیا ہوتا اور اس کی وہ اہمیت ضائع ہوجاتی جو انسان کے ارتقا کے تسلسل میں بشریات کے مدارج سے متعلق کارآمد سراغ  دینے کی وجہ سے حاصل ہے۔ اس سے لسانی ماہروںکو انسانی بولی کا ابتدائی ماخذ معلوم کرنے  میں مدد ملی ہے ۔‘‘                                                          

(ڈوگری لو ک ادب اور پہاڑی آرٹ،لکشمی نارائن و سنسار چند، مرتبہ نیلامبر دیو شرما،جموں اینڈ کشمیر اکیڈمی آف آرٹ،کلچر اینڈ لنگویجز،  1969  ص 28)

ان باتوں سے ’لوک ادب‘کے ذریعے علاقے اور عوامی بولی کے ماخذ تک پہنچنے میں کافی مدد ملتی ہے اور زبان کی ترقی یافتہ شکل کی سند مضبوط ہوتی ہے اور یہ سب چیزیں ’لوک ادب‘ کی تحقیق ومطالعے سے ممکن ہے۔ جھارکھنڈ کے وجود میں آنے کی ایک لمبی تاریخ ہے اوریہ مختلف تحریکوں سے وابستہ ہے جیسے  بِرسا مُنڈا تحریک،تانا بھگت تحریک،کول تحریک،جھارکھنڈ تحریک وغیرہ، پنج  پرگنیہ، کُرمالی، سنتھالی، مُنڈاری، کول، ہو، اس میں سے کھورٹھا زبان جو ہزاری باغ، دھنباد، سنگھ بھوم، گریڈ یہہ اور سنتھال پرگنہ کے علاقوں میں بولی جاتی ہے۔کھورٹھا زبان آریائی خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ 

سنتھال قبیلہ یہ جھارکھنڈ کی سب سے بڑی آبادی والا قبیلہ ہے ان کی زبان سنتھالی ہے۔ جو آسٹرک ایشیائی خاندان سے ہے۔ اس کے رسم الخط کا نام اول چِکی ہے جو 1941 میں  رگھو ناتھ مُرمُو نے ایجاد کیا ہے۔جس کے حروف تہجی 30ہیں۔سنتھال لڑکیاں بہت سے ایسے کاموں میں حصہ نہیں لے سکتی ہیں مثال کے طور پر شکار، پنچایت کی بیٹھک وغیرہ میں،اسی طرح ہَل چلانے، چھپر چھانے پربابندی ہے،شادی سے پہلے باپ کی دولت اور شادی کے بعد شوہر کی دولت سمجھی جاتی ہیں۔سنتھال لڑکیاںگھونگھٹ نہیںڈالتی ہیں۔

بیٹی کی پیدائش پرپانچویں دن، اور بیٹے کی پیدائش پر ساتویں دن چھٹی مناتے ہیں جس میںگاؤں کے مانجھی (ناؤ چلانے والا) ساتھ ہی دوسرے لوگ اپنے بال منڈواتے ہیں پھربچے کے سر کا منڈن کیا جاتا ہے۔  اس کے بعد بچے کے بال کو دونہ یعنی پتے کی کٹوری میں رکھتے ہیں  پھرسارے لوگ نہاتے ہیں بچے کے بال کو گھاٹ میں بہا دیا جاتاہے۔ نہانے کے بعد جب واپس آتے ہیں تو دائی چاول کو پانی میں گھول کر سبھوں پر باری باری چھڑکاؤ کرتی ہے جسے بدشگونی اور نحوست کو ختم ہونے کاذریعہ سمجھتے ہیں ۔

جب دھان میں ہریالی آتی ہے تب ہڑیا تہوار مناتے ہیں تاکہ فصل اچھی ہو۔ایک تہوار بندھا پرب ہے جو گھاٹ شیلہ میں لگتاہے ۔ یہ علاقہ شہر جمشید پور سے کچھ فاصلے پر ہے اس میلے میں آس پاس کے گاؤں سے بھی لوگ کافی تعداد میں آتے ہیں جس میں کانسہ، پیتل کے برتنوں کی دکانیں لگتی ہیں اور کافی خریداری ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کی تفریح کے لیے، کھیل کود کے لیے مختلف چیزیں ہوتی ہیں اور آج کل تو اس میں ایک دلچسپ ا ور تفریح کا سامان یہ ہے کہ چھوٹی سی جگہ میں پانی جمع کرکے تالاب بناتے ہیں اورواٹر وین  (Watervan) چلاتے ہیں جو بچوں کے لیے خوشی کا سامان ہے۔ اسی تہوار کی طرف عبدالباری اپنی کتاب میں رقمطرازہیں:

’’ ایک معاشی تہوار  بندھا پرب مشہور ہے جو دھالبھو م کے معروف مقام گھاٹ سِلہ میں میلہ کی حیثیت سے لگتاہے ۔جس میں ہر قسم کے کانسہ، پیتل کے برتنوں کی دکانیں لگاتے ہیںاور تمام لوگ اپنی ضرورت کے مطابق ان کی خریداری کرتے ہیں۔‘‘                                                                 

(آدیباسی تہذیب وثقافت، عبدالباری، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی۔25، نومبر 2017، ص 45)

اراؤں قبیلہ کے لوگ پورے جھارکھنڈ میں دوسرے نمبر پرہیں ساؤتھ چھوٹا ناگپور میںسب سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔ جھارکھنڈ کی تمام ذاتوںمیں یہ سب سے تعلیم یافتہ ہوتے ہیں لہٰذا ترقی یافتہ ہوناتو لازم ہے۔ اراؤں لوگ خود کو کُڑک کہتے ہیں۔ اور کُڑک کے معنی انسان کے ہیں ۔ان کے رسم الخط کانام تولون سِکی ہے جس کے موجد ڈاکٹر نارائن ہیں جو جھارکھنڈ کے ضلع گُملا سے ہیں۔کُڑک کو جھارکھنڈ میں  ریاستی زبان کادرجہ 2003میں دیا گیااور پچھم بنگال میں ریاستی زبان کادرجہ 2018میں دیاگیا۔شری نرمدیشور کے مطابق اُراؤں کا قدیم وطن کوکن تھا وہیں سے یہ لوگ منتقل ہوکر شاہ آباد ضلع میںآئے۔

یہ لوگ خاندان میں شادی نہیںکرتے ہیں کیونکہ  ان کا ماننا ہے کہ اس سے مصیبتیں آتی ہیں،ان کے یہاں نزدیکی رشتے داروں میں شادی کرنے کی اجازت نہیں  ہے۔ان کا خیال ہے کہ دھرم کادیوتا  انھیں مختلف بیماریوں میں مبتلاکردے گا اس سے اندھا یاکوڑھ یاکسی مہلک مرض کی بیماری لگ سکتی ہے۔

آدی واسی یہ دولفظ سے مل کر بناہے آدی جس کے معنی اصل اور واسی جس کے معنی باشندہ، آدیواسی اس میں مزید چھوٹے بڑے گروہ ہیں  (مِین) یہ سب سے بڑے اور اہم لوگ مانے جاتے ہیںاور یہ جھارکھنڈ کے علاوہ دیگر علاقوںمیںبھی رہتے ہیں جیسے جے پور، سوائی مادھوپور۔2000کی مردم شماری کے اندازے کے مطابق جھارکھنڈمیں7087068 آبادی ہیں۔ ان لوگوں میں مچھلی،شراب،گوشت اور شراب نوشی کاکافی استعمال ہے۔مختلف اناج کو برتن میں لے کر مہوا کے درخت کے نیچے رکھتے ہیںجہاں پر ٹھاکُر دیوتاکی مورتی ہوتی ہے۔ٹھاکُر دیوتاکو گاؤں کامحافظ سمجھا جاتاہے اور لوگ اس کی پوجا کرتے ہیں۔ اس کے بعد اس برتن سے کچھ دانے لے کرکھیتوں کے درمیان بوتے ہیںاور ٹھاکر دیوتا سے اچھی فصل کے پکنے سے پہلے ایک امید لے کر مناتے ہیں۔

 بھیل آدیواسی: لفظ بھیل کا ماخذ دراوڑ زبان کے بِیل لفظ سے ہوا ہے جس کا معنی ’کمان‘ ہے اور یہ لوگ تیرکمان کے ذریعے شکار کرتے تھے اور یہی شکاران کے گزر بسرکرنے کااسباب معاش تھا۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ کسبِ معا ش کے لیے کھیتی باڑی کو اپنایا اور اب کاشتکاری بھی ان کی معیشت بن گئی ہے۔ یہ ایک گروہ ہے جو بچے کی پیدائش کے تیسرے دن صبح اٹھ کر نہا دھوکر پھر وہ گھر کے صدر دروازے پر کھڑے ہوجاتے ہیں اس کے بعد اس کی نظر جس چیز  پر پڑتی ہے۔ اسی کے مطابق بچے کانام رکھتے ہے غرض کہ آدیواسی بھیل ذات میں ماں اپنے بچے کا نام رکھتی ہے اور وہ اپنے ہاتھ میں یا جسم کے کسی حصے میں مختلف نشان بنواتے ہیںجو ان کابہترین کلچر ہے۔آدیواسی کے اس کلچر کا ذکر ڈاکٹر یاسمین صدیقی اپنے ہندی مضمون میں لکھتی ہیں:

’’یہ لوگ پہلے شکار کر کے جِیون یاپَن کرتے تھے، اب کھیتی کے دُوارا دَھن کماتے ہیں

   بِھیل آدیواسیوں میں گودنے ،گودوانے کی پَرتھا ہے تَتھا طرح طرح کے گودنے گودوائے جاتے ہیں۔‘‘ (ڈاکٹر یاسمین صدیقی،کوٹا یونیورسٹی،2016، ص9)

یہ جھارکھنڈ کی تیسری بڑی آبادی ہے یہ اپنے قبیلے کو ہوڑوکّو اور خود کو ہوڑو کہتے ہیں۔ ان کی زبان منڈاری ہے ان کی زبان کو ہوڑو جَگَر بولتے ہیںمطلب آدمی کی بولی۔یہ سارے ایک ہی قبائل کولرین سے ہیں۔ یہ بہت دلیر ہوتے ہیں۔ان کے رسم الخط کو بانی اِیزیر یابانی اِیشِیر کہتے ہیںاور اس کاموجد رُوئی دھاس ناگ تھا۔ منڈا لوگ جو جھارکھنڈ کے چھوٹا ناگپور کے علاقے میں رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہار، اُڑیسہ، چھتیس گڑھ اور مغربی بنگال میں پھیلے ہوئے ہیں۔ تری پورہ میں انھیں مورا اور مدھیہ پردیس میں موداس کہا جاتا ہے۔ جب لڑکا پیدا ہوتاہے تو ان کاماننا ہے کہ کمانے والا پیداہواہے اور لڑکی کے بارے سوچتے ہیں کہ گھر سنبھالنے والی پیدا ہوئی ہے۔شوہر کے بڑے بھائی اورساس کی بڑی بہن کو دیوتامانتے ہیںان کو چھونا منع ہے ان کا نام لینامنع ہے بلکہ ان کے سائے سے دور رہنا پڑتاہے۔اگر اس کے خلاف ہوجائے تو کفارے کے طور پر کھانا کھلانا پڑتا ہے، اس کو گڈِکو تَڑوم بولا جاتا ہے۔ جب بچہ پیداہوتاہے تو اس کی نال کوتِیر سے اور بچی ہوتو بلیڈسے کاٹ کر دروازے کے سامنے چھت کے نیچے دفن کرتے ہیں۔

کہاوت‘ فرہنگ آصفیہ جلد سوم میں یہ تعریف دی گئی ہے،قول،بچن،ضرب المثل،نوکا،وہ بات جو نظیراً باربار زبان پر آئے۔کہاوتیںلوک ادب کی ایک اہم ترین کڑی اور زبان کے لیے ایک زر خیزحصہ ہے۔ زبان وبیان میں حسن اور شائستگی پیدا کرتی ہیں۔ سمندرکو کوزے میں  بندکرنے کا کام کرتی ہیں،سمجھنے اور سمجھانے کے لیے معاون ثابت ہوتی ہیں،اس سے بات میں وزن پیدا  ہوتاہے اور معنویت پیداہوتی ہے۔ یہ معاشرے کی پیداوار ہوتی ہیں،مختلف حالات، مشاہدات اور تجربات کے بعد کہاوتیں بنتی ہیں پھر زبان زد عام وخاص ہوکر زبان دَر زبان،نسل دَر نسل اور سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے ہوئے صدیوں کاسفر طے کرتی ہیں۔ محققین، ماہر لسانیات، آثارِ قدیمہ، پتھروں، تختوںپر کندہ تحریروں،فقیروں،سادھو سنتو ں،اکابرین کے اقوال اور مذہبی کتب سے کہاوت کے ابتدائی دور کی تاریخ سامنے آتی ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر یونس اگاسکر رقمطرازہیں:

’’مغربی عالموں نے بھی کہاوتو ں کے قدیم ترین نمونوں کوان کے ابتدائی نقوش سمجھ کر ان سے جدید دورکی کہاوتوں کا سلسلہ جوڑا ہے اور کہاوتوں سے متعلق مختلف قسم کے نتائج اخذکیے ہیں۔ چنانچہ دنیاکی ابتدائی کہاوتوں کے طورپر قدیم تہذیبوں مثلاً بابُل اور نینَوا میں دستیاب شدہ تختیوں اور مصر کے پیرس پر موجود احکامات واقوال کو تحقیق کاموضوع بنایا گیا اور ان کے بعدقدیم ترین مقدس کتب،ملفوظات،حکایات واحوال میںمحفوظ اقوال و امثال کی قدامت  پرصاد کیا گیا۔‘‘

(اردو کہاوتیںاور ان کے سماجی ولسانی پہلو،ڈاکٹر یونس اگاسکر، موڈرن پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی،1988ء ص88)

کھورٹھا کے بارے میں ماہرین کا اختلاف ہے کہ یہ بولی کس زبان سے نکلی ہے۔ اس کا اصل وجود کیا ہے لیکن مختلف آرا کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیاگیاہے کہ کھورٹھا ایک مشترکہ زبان ہے کیوں کہ جھارکھنڈ میں  صدیوں سے آدیواسی اور سدانی یعنی غیر آدیواسی رہتے چلے آرہے ہیں۔ ان کے آپسی میل جول اور سماجی ضرورت کے تحت یہ بولی وجود میں آئی جس میںہندی،بنگلہ،مگہی کی ملاوٹ ہے اوریہ ایک آپسی تعلقات اور رابطہ کی بولی ہے جیسا کہ ہر زبان اور بولی کاایک مزاج ہوتاہے جہاں مختلف زبان کے لوگ رہتے ہیں تووہاں سماجی ضرورت سے از خو د کوئی اور زبان وجود میں آتی ہے۔ یہ آریائی خاندان سے ہے اور رام گڑھ،کوڈرما،دیو گھر، صاحب گنج، دُمکا، لاتے ہار، پلامو، ہزاری باغ، دھنباد، سنگھ بھوم، گریڈیہہ، چترا اور سنتھال پرگنہ علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ یہ ایک عام بولی ہی نہیںبلکہ ریاستی سطح پر ہونے والے امتحانات (جے ایس ایس سی)جھارکھنڈ اسٹاف سلکشن (جے ٹیٹ)جھاکھنڈ ایلی جیبل ٹیسٹ میںشامل کیا گیالیکن زبان کے طور پر ابھی اعلان نہیں کیا گیا۔جھارکھنڈ میںمختلف زبانوں کی تصدیق کی گئی ہے۔2011ایکٹ کے تحت جن دفتری زبانوں کو شامل کیا گیا ہے وہ حسبِ ذیل ہیں۔ ہندی، اردو، بنگالی، سنتھالی، کھریا، کُرمالی، کھورٹھا اور ناگپوری۔ جغرافیائی اعتبارسے کھورٹھادامودر ندی سے پارسناتھ کے آس پاس تک کاعلاقہ جو34/ہزار کلو میٹرسے زائد پھیلے ہوئے خطے میں یہ بولی استعمال کی جاتی ہے ۔

جھارکھنڈ کی قبائلی بولیوں،،تہذیبوں کی بقا اور فرو غ کے لیے1980میں رانچی یونیورسٹی میں ایک شعبہ قائم کیا گیا جس میں  ہُو، کھریا، کھورٹھا، کُرمالی، کُرخ، مُنڈاری، ناگپوری،پنچ پرگنیہ،سنتھالی کو شامل کیا گیااور رانچی یونیورسٹی میںمذکورہ تمام زبانوں کے ماہرین موجود ہیں ۔زبان اور تہذیب و ثقافت کے لیے سر گرم ہیں۔

کھورٹھا زبان کے جاننے والوں میں کچھ اہم شخصیات اور ان کے مشہور ومعروف کارنامے ہمارے سامنے موجو د ہیں۔ شری نواس پانوری،چابھی کاٹھی۔ ڈھا، سُکومار۔ چندو لال چوکیدار، مہندر پربھودت۔ بیچارہ ماسٹر، امتیاز غدر۔یہ کچھ مشہور ناٹک ہیں۔ نَچنی کاکی، پی داس۔ کاہے چھوڑَل گاؤں، من پورن گوسوامی۔ سُرمنی ،امتیاز غدر۔یہ کچھ مشہور کہانیا ں اور ان کے مصنفین ہیں اور بھی بڑے بڑے مصنّفین ہیں جیسے سراج الدین انصاری، ڈاکٹر گجادھر پربھاکر مہتو، پیارے حسین اور ڈاکٹر بی این عہدار۔

ڈاکٹر اجیت کمار جھا کے نزدیک کھورٹھا کا وجود آدیواسی بھاشا سے ہے کیونکہ اس میں آدیواسی کے الفاظ کافی ملتے ہیں اور یہاں صدیوں سے سدان اور آدیواسی رہتے ہیں۔ جس سے ان کے آپسی تعلقات سے ان کاوجود ہواہے۔جارج ابراہم گریسن کے مطابق کھورٹھا مگہی بھاشا کا بگڑاہوا روپ ہے۔ ڈاکٹر اجیت کمار جھا کاکہنا ہے کہ بھارت کاپرانا رسم الخط کَھروسٹی تھااور کھورٹھا اُسی کھروسٹی سے بناہے مثال دی ہے کہ پہلے کَھروسٹی بنا پھرکھورٹی بنا پھر کھوراٹھا بنا پھر کھورٹھا بنا۔ مطلب وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا گیا اور کھورٹھا کا وجود ہوا۔

ایک تاریخ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ ایران میں گدھاکی کھال پر جو رسم الخط لکھا گیا اسے کھارپوسٹ کہا گیا۔سنسکرت میںاس کو کھار پِرسٹی بولا گیا۔ کالَنتَر میں کھاروسٹی بنا پھرکھورٹھا بنا۔آریائی زبان سے کھورٹھا کا وجود ہوا ہے۔ڈاکٹر گَجادَر پربھاکر مہتو کاکہناہے کہ آریہ پریوارسے کھورٹھا کا وجود عمل میںآیا۔کَھروسٹی دائیں سے بائیں لکھی جاتی جب کہ کھورٹھا بائیں سے دائیں یعنی  اس کا رسم الخط دیوناگری ہے اور اصل کھروسٹی کاچلن ختم ہوگیا اور اب بس کھورٹھا باقی رہ گئی۔ بَرج موہن پانڈے نَلِن ہندی سے کھورٹھا کا وجود مانتے ہیں۔  ان کاکہنا ہے کہ یہ ہندی کابگڑا ہوا ایک نقش ہے۔

ایک ناٹک ہے جس کامرکزی کردار شنبھو اور کالورام ہے۔ یہ ناٹک سماج میںرشوت خوری کا دھند ا اور اس سے سماج کو کس طرح سے ایک تعلیم یافتہ نوجوان بچاتاہے اس پر مبنی ہے۔اور جھارکھنڈ کے دھنباد علاقے کے ایک گاؤں کا شنبھو خوددار، غریب اور تعلیم یافتہ نوجوان ہے جو گاؤں کے بچوں کی تعلیمی ،سیاسی ،سماجی بیداری کولے کر فکر مند رہتا تھا۔ اسکول میں کچھ وقت تک ملازمت کرنے کے بعد اپنے گاؤں واپس چلاآتا ہے۔  در اصل گاؤں میںایک کالو رام رہتا تھا جوکہ ایک زمانے میں باہر سے آیا تھا۔ گاؤں والوں نے کالوکی مدد کی او ر وہ یہیں رہنے لگا۔ گاؤں والوں کے بیل، بکریوں کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ چَراتاتھا تو گاؤں والے معاوضے کے طورپر دھان دیتے تھے۔ وہ اس کی ذخیرہ اندوزی کرتا تھا۔ آہستہ آہستہ وہ اس سے سُود کادھندا کرنے لگا۔ راشن کی دکان کھول لی۔ اب وہ چرواہا نہیں رہا مہاجَن بن گیا اورکسانوں کی زمین بھی دبانے لگا، پیسے کے نشے میںغنڈے بھی پالنے لگا اور الیکشن میںاپنی طاقت کااستعمال کرکے جیت بھی گیا۔گاؤں والے اس سے بہت پریشان تھے توشنبھو اس کے چنگل سے سماج کوبچانے کے لیے لوگوں کی ذہن سازی کرتاہے اور ساتھ ہی ذریعہ معاش کے لیے انتظام کرتاہے اور لوگوں کے دُکھ مصیبت میں ساتھ دیتاہے تولوگ متحد ہوکر کالو رام کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں اورکالو رام کا بیٹا بھی عاجز ہوکر اپنے باپ کے خلاف کھڑا ہوکر گاؤں والوں کاساتھ دیتاہے اس کے بعد کالو رام سمجھ جاتاہے کہ گاؤں والے متحد ہوچکے ہیں اور وہ اس کے خلاف سخت قدم اٹھا چکے ہیں اس بعد کالورام کاشی چلا جاتاہے کیونکہ اب یہاں اس کی کوئی دھاندلی نہیں چلے گی۔ شنبھو اور گاؤں والوں کی ہمت وکوشش سے گاؤں کی حالت بہتر ہوگئی اور گاؤں والے ظلم و استحصال سے چھٹکاراپائے۔یہ ناٹک اتنا مقبول ہوا کہ طبع ہونے سے پہلے ہی دھنباد کے کئی علاقوں میں اسٹیج  پرکھیلاگیااور لوگوں کے دلوں میںایک جگہ بناکر سماج کی برائیوں کا پردہ فاش کیا اور ظلم کے خلاف متحد ہوکر سچ اور صحیح کا ساتھ دینے کاپیغام دیا۔

کھورٹھا بولی کی خدمات پرجن ادیبوں کو اَکھر اسمان سے نوازا گاا ہے وہ حسب ذیل ہیں:

  جَناردَن گوسوامی  2007،  سُکو مار  2009،  شیام سندرمہتو 2010 ، آکاش چھوٹی  2012، ناگیشورمہتو 2013،  پَنچم مہتو2013، مہندر ناتھ گوسوامی سُدھاکر 2017، سراج الدین انصاری سراج  2017

کھورٹھا پر منعقد ثقافتی او ر تاریخ اجلاس کو ہم یہاں دیکھ سکتے ہیں:

  چَٹر کانفرنس13/اپریل،1985منتظمین کھورٹھا ڈھا کی چَھترکمیٹی،کھورٹھا۔

  بَھتُواکانفرنس:1989 اور2000  منتظمین کھورٹھا ساہتیہ سنسکرتی پریشد،بوکارو۔

سنگاپور کانفرنس:  1989منتظمین کھورٹھا ساہتیہ سنسکرتی پریشد،بوکارو۔

دامودرپارسناتھ ڈَہر جاترا: 14/15/جنوری، 1989

دامودر سواتی جاترا:4/5/،مارچ،1994

کھورٹھا مانکی کَرن کاریاشالہ 22تا 24، اکتوبر، 2010کھورٹھا ساہتیہ سنسکرتی اکاڈمی،رام گڑھ۔

کہاوت کو کھورٹھا میں وائن کہتے ہیں۔ یہاں کھورٹھاکی کچھ کہاوتوں کو پیش کیا جارہا ہے:

اٰپَن گاویں کُوکَّر راجا

لفظی معنی:  اٰپَن مطلب اپنا،۔گاویں گاؤں یا بستی کوکہتے ہیں۔کُوکُر کتاکوبولتے ہیںاور بنگلہ میںبھی کُتّا کو کُوکُر بولتے ہیں۔

مفہوم:  اپنے گاؤں میں یاکسی بھی جگہ جب کمزور انسا ن کو کچھ طاقتور لوگوں کی پشت پناہی ملتی ہے ’تو وہ خود کو طاقتور سمجھنے لگتاہے۔ اس وقت یہ استعمال ہوتی ہے۔اٰپَن گاویں کُوکَّر راجا۔

ہندی:اسی کو ہندی میں اس طرح ادا کرتے ہیں چِھیتراوِشیش  پرادِھیکار ہونا۔

اردو:اس کہاوت کو اردو میں اس طرح بولتے ہیں’’اپنی گلی میں کُتا بھی شیر ہوتا ہے۔‘‘

آگُو ناتھ نہ پیچھُو پَگہا

لفظی معنی: آگُو مطلب آگے،سامنے کے حصے کو بولتے ہیں۔ ناتھ،وہ رسّی جو جانورکی ناک میں نکیل کے طورپر ڈالی جاتی ہے۔پَگھا رسّی کوبولتے ہیں۔

مفہوم: ایسا بندہ جس پر کوئی ذمے داری نہ ہو سماجی اعتبارسے،معاشی اعتبار سے یا کسی بھی اعتبارسے ہو کسی طرح کی اس پر ذمے داری نہ ہو تو ایسے شخص کے لیے یہ کہاوت استعمال ہوتی ہے۔آگُو ناتھ نہ پیچھُو پَگھا۔

ناگپوری: اسی کو ناگپوری بولی میں ایسے بولتے ہیں’’نا آگے ناتھ نا پاچھے پگھا۔‘‘

اِٹا سٹا کہا بَھار

مفہوم:بیکارکی بات نہ بولنا یہ کہاو ت اس وقت استعمال ہوتی ہے جب کہیں کچھ بات چیت ہو رہی ہو اور اس جگہ کوئی شخص اس موقع محل سے ہٹ کر کچھ دوسری بات کرتا ہے تب یہ کہاوت بو لی جاتی ہے۔

بنگالی: اسی کو بنگلہ میں اس طرح پیش کرتے ہیں اِٹا سیٹا بولِس نا

لفظی معنی: اِٹا مطلب یہ۔اُٹا مطلب وہ۔بولِس مطلب بولنا۔

پہیلیاں دماغی ورزش اور قوت حافظہ کو بڑھانے میں بہت ہی حصہ داری نبھاتی ہیں لوک ادب کی اہم شاخ ہیںاور ذہنی تفریح کاسامان بھی۔

پہیلی کوکھورٹھا میں بُجھویل ،بُجھوَّل کہا جاتاہے اس کے اور بھی مختلف نام ہیں ۔جیسے ہِی آنلی ،فانکی البتہ آسان پہیلی کو ’ہی آنلی‘ اور مشکل پہیلی کو’فانکی ‘سے موسوم کرتے ہیں ۔

ایگو باندھ دُو رَنگ پانی

لفظی معنی: ایک تالاب میں دورنگ کاپانی مطلب انڈا۔

تشریح: انڈا جس کو تالاب سے تشبیہ دی گئی ہے۔ تالاب کی طرح چاروں طرف سے گِھرا ہوا ہونے کی وجہ سے اور اس میں

دورَنگ کاپانی ہوتا ہے ایک زردی سے لگا ہوتاہے،جس سے پانی کا رنگ پیلا نظر آتاہے اور دوسرا جو تھوڑا صاف پانی ہوتاہے۔

ایگو بوڑھی بِہانہِی گَھسرلے بَہرائی

لفظی معنی: ایگو (ایک)بوڑھی (بُڑھیا) بِہانْہی (صبح سویرے) گَھسرلے(گِھسٹتے ہوئے) بہرائی (نکلی)

ترجمہ: ایک بڑھیا صبح سویرے گھسٹتے ہوئے نکلتی ہے مطلب گھر صاف کرنے والا کپڑا۔

تشریح: جس کپڑا سے گھر صاف کرتے ہیں اس کو بڑھیا سے تشبیہ دی گئی ہے  اور صاف کرتے وقت کپڑے کو ادھر اُدھرکرتے ہیں۔اس کو گھسٹنے سے تشبیہ دی گئی ہے اور اسی کو کہاگیاہے کہ ایک بوڑھی عورت صبح سویرے گھسٹتے ہوئے نکلتی ہے۔

ایگو بوڑھی گوٹے گانت پُھسڑی

لفظی معنی:گوٹے (پورا)گانت (جسم) پُھسڑی (پُھنسی،دانہ)

ترجمہ: ایک بڑھیا جس کے پورے بدن پر پُھنسی بھری ہوئی ہے۔مطلب کٹہل ہے۔

تشریح: کٹہل کو بوڑھی اور اس کے اوپر جوکانٹے ہوتے ہیںاس کو پُھنسی،دانہ سے تشبیہ دی گئی ہے۔

کھائتے رَسگر اُگلتے کَپاسْ

لفظی معنی: کھائتے(کھاتے ہوئے)رَسگر (رَس بھراہوا) اُگالتے (اُگلے،باہر نکالے) کپاس (ایک پودہ جس کے پھل سے روئی نکلتی ہے،بغیر صاف کی ہوئی روئی)

ترجمہ: رَس کھاکر کپاس اگلتے ہیں مطلب گَنّا۔

تشریح: گَنّا رسیلاہوتا ہے ہم اس کو چوستے ہیں اور جب باہر نکالتے ہیں توکپاس کی طرح ہوجاتا ہے۔ روئی کی شکل معلوم ہوتی ہے۔

ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کھورٹھا زبان  جھارکھنڈ کی مشترکہ اور عوامی بولی ہے۔  علاقائی زبانوں میں مستعمل کہاوتیں اور پہیلیاںجن سے ہم (بالخصوص اردو دان طبقہ)لاعلم ہیں ان کو منظر عام پرلانے کی کوشش ہونی چاہیے اور یہ ہماری تہذیب و ثقافت کااہم جز بھی ہے۔

 

Mohd Taiyib

Research Schorla:

Center for Urdu Cultural Studies

Room No: 7, Boys Hostel 04

Maulana Azad National Urdu University

Gachibowli

Hyderabad- 500032 (Telangana)

Mobile:9567246590

Email:taiyib333@gmail.com

 

30/4/25

شمس الرحمن فاروقی کے افسانوں کی تخلیقی زبان اور پس نو آبادیاتی مباحث، مضمون نگار: اقبال حسین

 اردو دنیا، فروری 2025

شمس الرحمن  فاروقی کی شخصیت اردو ادب میں ایک نابغہ روزگار کی ہے۔ اردو ادب میں ایسا کوئی ادیب نہیں ہے جو بیک وقت تنقید اور تخلیق  دونوں پر یکساں دسترس رکھتا ہو۔ فاروقی کی تنقید جس بلند پائے کی ہے اور ہم یہ بات بلا خوف و تر دید کہہ سکتے ہیں کہ نہ صرف اردو بلکہ ہندوستان کی دیگر زبانوں میں بھی  فاروقی جیسا ذی علم، ہوش مند اور اعلیٰ درجے کا ادبی ناقد فی زمانہ کوئی نہیں ہے۔  لیکن یہ بڑے کمال کی بات ہے کہ ادبی تنقید میں اتنے بڑے کارنامے انجام دینے کے باوجود فاروقی کی تخلیقات بھی اسی اعلیٰ پیمانے کی ہیں کہ ان کا بھی کوئی ثانی اردو  تو  اردو دوسری زبانوں میں بھی مشکل ہی سے ملے گا۔ تنقید اور تخلیق دونوں پر یکساں دسترس اپنے آپ میں ایک عجوبہ ہے چونکہ تخلیق ہمیشہ معروضی تنقید کے مخالف ہوتی ہے۔ چاہے وہ لا شعوری طور پر ہی کیوں نہ ہو۔ فاروقی کے ادبی تخلیقی سرمائے کو   پس نو آبادیاتی نظریے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ انھوں نے نوآبادیاتی اثرات کے تناظر میں نہ صرف اردو ادب کے ثقافتی اور ادبی ورثے کو دوبارہ دریافت کیا بلکہ اسے ایک جدید اور معروضی تنقید کے ذریعے عالمی ادب کے مساوی لا کھڑا کیا۔ فاروقی کا کارنامہ اس سے کہیں زیادہ ہمہ جہت ہے۔ ان کی تخلیقی اور تنقیدی کاوشوں نے اردو ادب کو نئی سمت اور شناخت عطا کی ہے، جو انہیں نہ صرف اردو ادب بلکہ عالمی ادبی تناظر میں بھی ایک منفرد مقام عطا کرتی ہے۔

فاروقی کے افسانے اور ان کا  شاہکار ناول ’ کئی چاند تھے سر آسماں ‘ اس امر کی روشن دلیلیں ہیں جس میں ان کا تخلیقی ذہن ان کے تنقیدی شعورکے ساتھ مل کر حقیقت کو ایک اکائی کی طرح پیش کرتا ہے اور ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ کسی مخصوص زمان و مکاں میں حقیقت کا کلی ادراک کس طرح کیا جاتاہے۔

شمس الرحمن فاروقی کا افسانوی مجموعہ ’سوار اور دوسرے افسانے ‘ 2001  میں پہلی بار ’ آج کی کتابیں ‘ کے تحت شائع ہوا ، اور   2003 میں دوبارہ ’ شب خون کتاب گھر‘ سے منظر پر آیا۔ اس مجموعے میں پانچ افسانے شامل ہیں اور ہر افسانہ اپنے پلاٹ، تھیم اور بیانیہ کے حوالے سے بے حد اہم ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا  نہ  ہوگا کہ فاروقی کے یہ افسانے اردو میں اپنی نوعیت کی بالکل منفرد  تحریریں ہیں۔

برصغر  میں نوآبادیاتی دور میں اردو زبان و ادب پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ مغربی فکر، انداز، اور اقدار نے مقامی زبانوں اور ادبی رویوں کو پسِ پشت ڈالنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں تخلیقی آزادی محدود ہو گئی اور مقامی ثقافتی ورثہ کمزور ہونے لگا۔ شمس الرحمن فاروقی نے اس صورت حال کا گہرا ادراک کیا اور اپنی تخلیقات کے ذریعے اردو ادب کو اس نوآبادیاتی دباؤ سے آزاد کرنے کی کوشش کی۔   نوآبادیاتی پس منظر کے حوالے فاروقی اس مجموعے کے دیباچہ میں لکھتے ہیں :

اٹھارویں صدی کو میں ہند اسلامی تہذیبی تاریخ کا زریں باب سمجھتا ہوں۔ اردو فارسی ادب، تصوف  علوم عقلیہ و نقلیہ، فنون حرب و ضرب، موسیقی، ان میدانوں میں اٹھارویں صدی والوں نے جو نئے نئے مضمار و بد اد ریافت کیے اور فتح کیے ، ان کی مثال پہلے نہیں ملتی، بعد میںملنے کا تو خیر کوئی سوال ہی نہیں۔ اور اٹھارویں صدی کی دہلی کا کوئی کیا حال لکھے۔ ہم لوگ چند شہر آشوبوں، چند ہجوؤں، تعصب اور کینہ پر بنی چند انسانوں کو تاریخ قرار دے کر اٹھارویں صدی کی دہلی کو زوال، انتشار، بدامنی، طوائف الملوکی، امیروں کی مفلسی اور غریبو ں کی فاقہ کشی کا شہر سمجھتے ہیں۔

(فاروقی، 24: 2003)

اٹھارویں صدی ہند اسلامی تہذیب کا ایک شاندار دور تھا، جہاں اردو، فارسی ادب، تصوف، اور علوم عقلیہ و نقلیہ کو عروج حاصل ہوا۔ دہلی اس وقت علم و فنون، موسیقی اور ادبی تخلقات کا مرکز تھی، جہاں میر،  سودا، مصحفی اور غالب جیسے شعرا نے اردو زبان کو بے مثال وسعت دی۔ غزل اور داستان جیسی اصناف نے زبان کی جمالیات کو مزید سنوارا۔

انگریزی زبان اور نوآبادیاتی نظام کی وجہ سے  اردو کے کئی الفاظ کے ساتھ ساتھ روایتی تحریری انداز بھی متروک  و معدوم ہوگئے  اور فارسی و عربی کی جگہ انگریزی اثرات نمایاں ہونے لگے۔ تہذیب کی روایتی روحانیت  اور سادگی کو مادیت اور صنعتی ترقی نے دبا دیا، جبکہ داستان اور غزل جیسی اصناف کی جگہ ناول اور نظم نے لینا شروع کیا۔ دہلی، جو کبھی تہذیبی اور ثقافتی عروج کا مرکز تھی، نوآبادیاتی تبدیلیوں کے باعث بدامنی، غربت، اور عدم مساوات کا شکار ہوگئی۔ تاہم، اس دور  میں شعرا اور ادبا نے اپنی تخلیقات میں ان تبدیلیوں کو محفوظ کیا، جو آج بھی تہذییی شناخت کا حصہ ہیں۔ نوآدیاتی  دلی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے تعلق سے غالب افسانہ کے بینی مادھو رسوا  کے مشاہدات کی ایک مثال کے  طور پر نیچے کے اقتباس ملاحظہ کیجیے :

چار مہینے میں نے ان مجلدات کو حرز جاں کی طرح سینت کر رکھا۔ نومبر 1862 کے آخری دن تھے جب میں بیل ڈاک قنوج، فرخ آباد، بیاور، کول، بلند شہر، غازی آباد، شاہدرہ، دلہائی ہوتا ہوا  بیس دن کی مسافت کے ہرج مرج جھیلتا ، غم والم اٹھاتا، دلی پہنچا۔ میں باڑہ ہند وراؤ کی ایک سرا میں اترا۔ معلوم ہوا کہ بلی ماروں کا علاقہ یہاں سے کچھ بہت دور نہیں۔ آہنی سڑک ابھی کانپور کے پاس سے بھی نہ گزری تھی، گو کہ اس کے آنے کے غلغلے تھے۔ میں نے بھی اب تک ریل کی سواری کی نہ تھی، اور نہ اس کا ارادہ تھا۔ لیکن دہلی کی ریل منزل میری سرائے کے پاس ہی تھی۔ وہاں کی چہل پہل ، لوگوں کی دھکا پلک، دھواں دھکڑ ، دْخان پھینکتے ہوئے آتشی انجنوں کا آنا جانا (اس لفظ سے میں کانپور میں آشنا ہوا)، مجھے یہ سب کچھ عجب وحشت انگیز، سا لگا۔‘‘

(فاروقی:43:2003)

افسانہ،بحیثیت ایک تخلیقی نثر کی صورت میں، صرف واقعات اور حادثات کے بیان تک محدود نہیں ہوتا؛ اس میں زبان کی تخلیقی تشکیل بھی بہت ہی  اہم ہوتی ہے (عالم189L2005)۔ پس نوآبادیاتی منظرنامے میں، لسانی تخلیق کا کردار بہت اہمیت رکھتا ہے۔ جب تک زبان میں تخلیقی جدت نہیں آتی، افسانہ ادب کی دنیا میں اپنے مقام کا دعویٰ نہیں کر سکتا، اور مصنف کو حقیقی تخلیقی نثر کے ایک فنکار کی حیثیت سے اعتبار حاصل نہیںہو سکتا۔  ادب کے  نا قدین  اور تخلیقی نثر کے مصنّفین کے درمیان فرق بنیادی طور پر نثر کے فن میں مہارت کا ہے۔اس تناظر میں، شمس الرحمٰن فاروقی کے افسانے  اپنے نثری انداز میں عمیق تبدیلیوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کی نثر  اس  دور کی تخلیق نو ہے جب اردو زبان میں  فارسی و عربی  کے اثرات کا انجذاب تھا۔ فاروقی کی نثر ایک ایسی روایت کا نیا عہد ہے، جو اردو زبان میں عربی و  فارسی زبان کے  اثرات  کے ساتھ ہی اپنے مقامی اظہار کو اجاگر کرتا ہے۔  ابتدائی اردو محاورے  اور ذخیرۂ  لغات پر  ان کا  گہرا اور عمیق علم ، جو اردو کی  روایتی قصہ گوئی سے جڑا ہوا ہے، اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ وہ پرانی زبان کے ذخیرے کو نئے مفہوم کے ساتھ جوڑنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ فاروقی کے نزدیک، الفاظ صرف جامد نہیں ہوتے، بلکہ ان کو تازہ دم اور موجودہ و تاریخی اہمیت سے ہم آہنگ کیا جاسکتاہے۔مثال کے طور پر، فاروقی کے ذریعے استعمال کیے گئے لفظ ’ادیب‘ ( جو جدید اردو میں  نوآبادیاتی اثرات کی وجہ سے ’مصنف‘ کے محدود معنی میں مستعمل ہے)  پر گہرائی سے غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ زبان کس طرح بدلتی ہے۔ یہ لفظ، جو اصل میں ’استاد‘ کے معنی میں استعمال ہوتا تھا، اب نوآبادیاتی اور ثقافتی تبدیلیوں کے اثرات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، اور اس سے پس نوآبادیاتی  شناخت اور ثقافتی بازیابی کے موضوعات ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ اسی طرح، ’سلمہ اللہ تعالیٰ‘  جیسے الفاظ، جو پہلے بزرگوں کے لیے ایک احترام کا اظہار تھا۔ مزید برآں، فاروقی ’غم کھانا‘  جیسے محاورے  کا استعمال اپنی نثر میں کرتے ہیں، جو قبل نوآبادیاتی زمانے میں ’انتظار کرنا‘ یا ’صبر کرنا‘ کے معنوں میں مستعمل  تھا اب جدید استعمال میں یہ الفاظ اور محاورے بالکل مختلف معنوں کے ساتھ ہیں، پھر بھی ان میں ایسی لچک موجود ہے جو انھیں مختلف سیاق و سباق میں دوبارہ استعمال کرنے کی گنجائش فراہم کرتی ہے۔

درج بالا  مثالیں فاروقی کی اس صلاحیت کو ظاہر کرتی ہیں کہ وہ ماضی اور حال کے درمیان پل بناتے ہوئے  پرانی نثر کو زندہ رکھتے ہیں اور زبان کو نوآبادیاتی اثرات اور ثقافتی مزاحمت کی روشنی میں نئے معنی فراہم کرتے  ہیں، تاکہ موجودہ سماجی اور سیاسی حقیقتوں پر تنقید کی جا سکے۔ ایسے اظہاروں کو دوبارہ حاصل کر کے، فاروقی زبان کی سہل پسندی اور سادگی کو رد کرتے ہیں، اور اس کے بجائے ایک زیادہ پیچیدہ اور کسی قدر تہہ دار لسانی ورثے کو اپنانا پسند کرتے ہیں، جو نوآبادیاتی تاریخ اور پس نوآبادیاتی شناخت کی پیچیدگیوں کو اجاگر کرتا ہے۔ پس نو آبادیاتی نظریات کے تحت یہ سوال اٹھنا واجب ہے کہ جب سادگی اور بے ساختگی نے زبان پر حکمرانی حاصل کر لی ہے تو کلا سیکی اور زیادہ رسمی نثری اسلوب کا استعمال کیوں کیا جائے؟ لیکن  شمس الرحمن فاروقی کے ذریعے قبل نوآبادیاتی دور کی کلاسیکی  اردو نثر کو دوبارہ زندہ کرنا محض ماضی کی بازیافت  کاعمل نہیں ہے، بلکہ یہ نوآبادیاتی ماضی کے ساتھ ایک شعوری تعامل اور تعلق کی استواری کا عمل ہے، جہاں زبان کو مزاحمت اور شناخت کی تعمیر کے  ایک ٹول(tool)کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ فاروقی کی نثر یہ ثابت کرتی ہے کہ زبان ایک ثقافتی جدوجہد کا میدان بن سکتی ہے، جہاں نوآبادیاتی ورثہ اور مقامی مزاحمت کا  آپس میں ٹکراؤ ہوتا ہے اور ماضی کے ’اعلیٰ‘ ادبی اشکال اور موجودہ زمانے کی بدلتی ہوئی زبان کے درمیان رابطے اور ترسیل کا عمل  شروع ہوتاہے (سعید 11:1202)۔

فاروقی کی مہارت صرف ان کی لفظیات  کے استعمال تک محدود نہیں ہے بلکہ ان کی نثری ساخت میں بھی عمیق تبدیلیاں دکھائی دیتی ہیں۔ ان کی کلاسیکی اور محاوراتی اردو کے درمیان توازن، فارسی اور عربی محاوروں کا استعمال، اور ان کے درمیان ایک پیچیدہ تعامل کو پس نوآبادیاتی حکمت عملی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کا نثری اسلوب مختلف زمانوں کی ادبی زبانوں کے درمیان ایک رابطے کی صورت اختیار کرتا ہے، جو نوآبادیاتی ورثے اور مقامی ثقافتی مزاحمت کے درمیان تناؤ کو اجاگر کرتا ہے، اور ماضی کی ’معیاری‘ ادبی روایات اور موجودہ دور کی عوامی زبانوں کے درمیان جاری جدوجہد کو بیان کرتا ہے(ناصر عباس111: 2024)۔

پس نوآبادیاتی نقطہ نظر کے مطابق، یہ صرف ایک اسلوبیاتی انتخاب نہیں بلکہ یہ زبان کی ایک ایسی طاقت کا اظہار ہے جو ثقافتی خودمختاری کے دعوے کے طور پر منتج ہے۔ فاروقی کی محتاط زبان کا استعمال، جیسے ’غم خانہ‘، ’ادیب‘ اور ’سلمہ اللہ تعالیٰ‘، ماضی اور حال کے درمیان ایک رابطے کو  جنم دیتا ہے۔ یہ رابطہ زبان کی نوآبادیاتی مسلطیت سے آزادی اور اس کے موجودہ ہندوستانی سماج میں اہمیت کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ وہ اپنی نثر کے ذریعے یہ ثابت کرتے ہیں کہ زبان نہ صرف نوآبادیاتی تاریخ کا ایک ریکارڈ ہے، بلکہ یہ ایک متحرک قوت بھی ہے جو پس نوآبادیاتی جدید یت کے عمل کو آگے بڑھاتی ہے۔

فاروقی کا پس نوآبادیاتی موقف ان کے اردو کے کلاسیکی ورثے سے گہرے تعلق اور اس کی جدید تشریحات کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے۔ وہ زبان میں پوشیدہ سیاسی طاقت کو سمجھتے ہیں اور اس کا استعمال ثقافتی تسلسل اور سماجی تنقید کے طور پر کرتے ہیں۔ ان کے افسانے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ زبان نوآبادیاتی تاریخ کا ایک ریکارڈ ہونے کے ساتھ ساتھ پس نو آبادیاتی تخیل کا ایک وسیلہ بھی ہو سکتی ہے۔ فاروقی کی نثر اس بات کی وضا حت کرتی ہے کہ زبان ایک ایسا میدان ہے جہاں نوآبادیاتی اثرات کے مابین جدوجہد اور شناخت کی تخلیق کی جاتی ہے۔

 سوار اور دوسرے افسانے‘ مجموعہ میں شامل افسانہ ’ آفتاب  زمیں‘  کا تجزیاتی محاکمہ کرتے ہوئے فاروقی کے استعمال شدہ لفظوں اور محاوروں کے تعلق سے خالد جاوید  لکھتے ہیں :

اس مضمون میں بیانیے کی دوسری خوبیوں کا ذکر (جزوی طور سے ہوتا ہی آیا ہے ) میں مختصر ا ً کرنے پر ہی اکتفا کروں گا۔ مثال کے طور پر فاروقی کے بیانیے میں ذخیرہ الفاظ ، روزمرہ اور محاورے کا استعمال اس دور کے تہذیبی، تاریخی اور یہاںتک کہ سیاسی صورت حال کی جیسی بھر پور انداز میں نمائندگی کرتے ہیں وہ صرف فاروقی کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا تھا۔ اس زبان نے بیانیہ کے آئینے کو کی طرح صاف و شفاف بنا دیا ہے مگر میں اپنی پرانی بات پر پھر بھی قائم ہوں کہ آئینے اور آپ کے درمیان جو خلا ہے اور اس خلا میں جو دھند ہے اس دھند میں ہی وہ بصیرت پوشیدہ ہے جو اٹھارہویں صدی کی دہلی اور لکھنؤ کی پوری تہذیب کو ہمارے حواس و ادراک کے لیے قابل گرفت بناتی ہے۔ اسی دھند سے ہی مصحفی کی ایک شبیہ بننا شروع ہوتی ہے۔’ آفتاب زمیں‘  اس کا  ہی افسانہ ہے  اور یہ اردو ادب میں پہلی بار ممکن ہوسکا ہے  کہ ایسی سچی اور خالص شبیہ  کہیں ابھرتی ہوئی نظر آتی ہو۔ خاص طور سے جب ہم زمان ومکاں کے ایک طویل فاصلے سے شبیہ کا نظارہ کررہے ہوں۔‘‘ (جاوید: 93: 2008)

شمس الرحمن فاروقی نے اپنی افسانہ نگاری میں اردو زبان کے بیانیہ امکانات کو وسیع کیا اور اسے ایک خودمختار ادبی زبان کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان کے افسانے گہری علامتوں، استعارات، اور کلاسیکی اسلوب کے ذریعے زبان کی طاقت کو ابھارتے ہیں  اور ان کا اسلوب مغربی اثرات سے آزاد، لیکن جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہے، جس نے اردو ادب کو ایک نئی سمت دی ہے۔ شمس الرحمن فاروقی کے افسانے اردو زبان کے جمالیاتی ورثے، کلاسیکی ادب، اور تاریخی شعور کو اجاگر کرتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں داستانوی عناصر، زبان کی نفاست، اور ماضی کی ادبی روایات کی بازیافت شامل ہیں، جو نوآبادیاتی اثرات کو رد کرتے ہوئے اردو ادب کو اس کی اصل شناخت فراہم کرتی ہیں۔ ان کا زیر بحث افسانوی مجموعہ اس بات کی بہترین مثال ہے، جس میں انھوں نے قبل نوآبادیاتی زمانے کے تہذیبی اور ادبی ورثے کو نہایت باریکی سے پیش کیا ہے۔ ان افسانوں کا بیانیہ برصغیر کی تہذیبی عظمت کو نمایاں کرتا ہے اور نوآبادیاتی بیانیے کو چیلنج کرتا ہے جو مقامی ادبی و تہذیبی تاریخ کے ورثے  کو اکثر کم تر ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

حوالے اور ماخذ

l              خالد جاوید: 2008،  ’ کہانی، موت اور آخری بدیسی زبان‘،  نئی دہلی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس

l              احمد دین: 2023، ’سر گزشت الفاظ‘ ، لاہور، عالمگیر پریس

l              ایڈورڈ سعید، 2009، ’ ثقافت اور سامراج‘، مترجم یاسر جواد،  اسلام آباد،  مقتدرہ قومی زبان

l              ایڈورڈ سعید، 2012، ’شرق شناسی‘، مترجم محمد عباس،  دہلی، البلاغ پبلی کیشنز

l              محمد منصور عالم، 2005، ’حریر دو رنگ: شمس الرحمٰن فاروقی شاعر و افسانہ نگار‘، نئی دہلی، رعنا کتاب گھر

l              شمس الرحمن فاروقی،  2003، ’سوار اور دوسرے افسانے‘، الٰہ آباد، شب خون کتاب گھر

l              شمس الرحمن فاروقی، 2003، ’ غالب افسانہ‘، مشمولہ سوار اور دوسرے افسانے، الٰہ آباد، شب خون کتاب گھر

l              شمس الرحمن فاروقی، 2003، ’سوار ‘، مشمولہ  سوار اور دوسرے افسانے، الٰہ آباد، شب خون کتاب گھر

l              شمس الرحمن فاروقی، 2003، ’ ان صحبتوں میں آخر‘، مشمولہ  سوار اور دوسرے افسانے، الٰہ آباد، شب خون کتاب گھر

l              شمس الرحمن فاروقی،2003، ’آفتاب زمیں‘، مشمولہ  سوار اور دوسرے افسانے، الٰہ آباد، شب خون کتاب گھر

l              شمس الرحمن فاروقی،2003، ’لاہور کا ایک واقعہ‘، مشمولہ  سوار اور دوسرے افسانے، الٰہ آباد، شب خون کتاب گھر

l              شمس الرحمن فاروقی،2011، ’اردو کا ابتدائی زمانہ‘، نئی دہلی،مکتبہ جامعہ لمٹیڈ

l              شمس الرحمن فاروقی،2020، ’ قبض زماں‘، نئی دہلی،عرشیہ پبلی کیشنز

l              شمس الرحمن فاروقی،،  2022، ’تنقیدی افکار‘، نئی دہلی، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان

l              گوپی چند نارنگ، 2004، ’ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘، نئی دہلی، قومی کونسل براے فروغ اردو زبان

l              ناصر عباس نیر، 2016،  ’اردو ادب کی تشکیل جدید: نو آبادیاتی اور پس نوآبادیاتی عہد کے اردو مطالعات‘، کراچی، اوکسفرڈ  یونیورسٹی پریس

l              ناصر عباس نیر، 2024،  ’مابعد نوآبادیات: اردو کے تناظر میں‘، لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز

 

Iqbal Husain

Research Scholar, Dept of Urdu

Jamia Millia Islamia

New Delhi- 110025

Mob.: 9871648568

iquebalhussain1982@gmail.com

 

امتیازعلی عرشی کی تدوینی خدمات، مضمون نگار: فیضان اشرف

 اردو دنیا، فروری 2025


کسی خاص متن کی بازیافت اور اس کی تصحیح وترتیب کے عمل کو تدوین کہتے ہیں۔ تدوین کے ذریعے قدیم متون کو گمنامیوں سے نکال کر ان کو مصنف کے اصل متن سے قریب سے قریب تر لانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کے مختلف نسخوں کا مقابلہ کرکے درست کیا جاتا ہے۔ اس میں مرتب کسی مصنف کی منتشر تخلیقات یا کسی تخلیق کے منتشر اجزا کی تصحیح و ترتیب کرکے جمع کرنے کی کوشش کرتے ہیں اوریہ کوشش بھی کرتے ہیں کہ کسی بھی قدیم متن کو اس انداز میں پیش کیا جائے کہ جیسا اس متن کو مصنف نے آخری مرتبہ لکھا تھا۔ ترتیب متن کا کام تحقیق و تنقید سے قدرے مختلف ہے اس میں فنی مہارت کے ساتھ دلچسپی کا ہونا بھی ضروری ہے۔یہ کام وہی انجام دے سکتے ہیں جن کو قدیم مخطوطات و متون سے دلچسپی ہو اور یہ دلچسپی ہمیں مکمل طور سے مولاناامتیاز علی عرشی کی تحریروں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔صابر علی سیوانی اپنی کتاب ـــتدوین متن کی روایت آزادی کے بعد‘ میں لکھتے ہیں:

ــ’’ان کا امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے اردو ادب کو تحقیق کے آداب و رموز سکھائے۔ تحشیہ و تدوین کا معیار قائم کیا اور صحت متن کواعتبار بخشا... عرشی صاحب نے اپنی تحقیقی کاوشوں سے ادب کو بیش بہا ادبی خزینے سے روشناس کرایا اور ان متون کوصحت متن کے ساتھ پیش کیا،جو نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔ــ‘‘ـ1

مولانا امتیاز علی عرشی نے پوری زندگی نادر مخطوطات اور کلاسیکی متون کی دریافت میں وقف کر دی۔ محنت و تجسس مولانا عرشی کا شیوہ تھا وہ اس وقت تک مطمئن نہیں ہوتے جب تک کہ کسی بھی متن کے تمام تر نسخوں کو ملاحظہ نہ کر لیں۔ تحقیق کی شرط اول کو کبھی فراموش نہیں کیا۔ اس لیے انھوں نے کبھی  قیاس آرائی اور افواہ پر یقین نہیں کیا بلکہ خود اس کی تصدیق کی۔ اس لیے ان کے اسلوب میں ہمیں ان کی محنت، تجسس، تخصیص نظر آتی ہیں۔ امتیاز علی عرشی کا تحقیقی دائرہ بہت وسیع ہے انھوں نے اردو زبان کے ساتھ ساتھ فارسی اور عربی زبانوں کی ادبیات پر بھی بیش بہا کارنامے انجام دیے ہیں۔

مولانا امتیازعلی عرشی کا شمار اردو تحقیق میں بحیثیت غالب شناس ہوتا ہے۔ انھوں نے غالب کے تعلق سے جو تحقیقی کارنامے انجام دیے ہیں، ان میں دیوان غالب (نسخہ عرشی)، مکاتیب غالب، انتخاب غالب، فرہنگ غالب قابل ذکر ہیں۔ مولانا امتیاز علی عرشی نے بحیثیت مدون جو پہلا مقبول ترین کارنامہ انجام دیا وہ ’مکاتیب غالب‘ ہے۔اس حوالے سے مشہور محقق رشید حسن خان لکھتے ہیںــ:

’’مکاتیب غالب کے ایک ایک خط کے ذیل میں مرحوم نے بیش قیمت معلومات سے بھرپور حواشی لکھے ہیں اور مقدمہ کتاب کو گنجینہ معلومات بنا دیا ہے۔‘‘2

مولانا امتیاز علی عرشی جب رامپور رضا لائبریری سے وابستہ ہوئے تو ان کی نظر غالب کے ان خطوط پر پڑی جوزمانے سے کتب خانے میں کاغذوں کے انبار میں دبے رکھے تھے۔ مولانا عرشی نے اس وقت کی ریاست رامپور کے چیف منسٹر کرنل بشیر حسین زیدی کے اصرار پر ان تمام خطوط کو جمع کرکے ان پر ایک مبسوط مقدمہ حواشی کے ساتھ مرتب کرکے 1937 میں شائع کیا۔ یہ سارے خطوط عرصہ دراز سے ردی کی مانند پڑے تھے لیکن مولانا امتیاز علی عرشی نے انھیں خطوط کے ذریعے غالب کی زندگی کے بعض ایسے پہلو واضح کیے جو کہ نہ صرف غالب کی نجی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ اس وقت کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی ماحول کو سمجھنے اور جاننے کے لیے کافی اہم ہیں۔               

ــ’ مکاتیب غالب‘ غالب کے ان خطوط کا مجموعہ ہے جو انھوں نے رامپور کے نواب یوسف علی خان اور ان کے جانشین نواب کلب علی خان کے نام تحریر کیے تھے۔ مکاتیب غالب میں خطوط کی کل تعداد115 اور مکتوب الیہم کی تعداد 6 ہے۔اور خطوط کے علاوہ اس میںایک قطعہ اورایک قصیدہ درج ہے۔ مکاتیب غالب دو حصوں پر منقسم ہے جس کے پہلے حصے میں کرنل بشیر حسین زیدی کی تقریب کے علاوہ مولانا عرشی کا 173 صفحات کا طویل ترین مقدمہ شامل ہے۔ دوسرے حصے میں خطوط شامل ہیں جن کی تعداد 117 ہے۔ مکاتیب غالب کے پہلے ایڈیشن میں مولانا عرشی نے غالب کے متعلق 10 عنوانات قائم کیے تھے اور جب اس کا دوسرا ایڈیشن 1943 میں شائع ہوا تو مولانا عرشی نے اس میں دو اور عنوانات کا اضافہ کیا۔ اس طرح مکاتیب غالب میں عنوانات کی کل تعداد 12 ہوگئی ہے۔

مقدمہ کا پہلا عنوان ’سرگزشت غالب‘ ہے جس میں غالب کے سوانحی کوائف،تعلیم،معاصرین سے ان کا تعلق، قرض، امراض، وفات، مدفن وغیرہ کو بہت ہی مفصل و محققانہ انداز میںپیش کیا ہے۔ دوسرا عنوان ’تصانیف‘ ہے جس میں مولانا عرشی نے غالب کی تمام تحریروں کا احاطہ کیا ہے جس میں غالب کی اردو فارسی کی کتابیں، دیوان اردو، دستنبو، کلیات فارسی، نامۂ غالب اور تاریخ سلاطین تیموریہ کا تحقیقی جائزہ پیش کیا ہے۔ تیسرے عنوان میں غالب کے شاگردں کا ذکر کیا ہے جن کا تعلق رامپور سے تھا۔چوتھے عنوان میں غالب کے کاروبار اور قرض وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔ پانچویں عنوان میں غالب کے انگریز تعلقات کا ذکر کیا ہے جس میں ان کو انگریزوں سے ملنے والی پینشن اور غدر کے وقت بگڑے حالات کا تذکرہ کیا ہے۔ چھٹا عنوان ’بہادر شاہ ظفر سے تعلقات‘، ساتواں عنوان’تعلقات رامپور‘، آٹھواں عنوان ’اصلاح غالب‘ کے نام سے قلم بند کیا۔ نویں عنوان میںغالب کی انشا پردازی پر بات کی گئی ہے۔ دسواں عنوان غالب کے عادات و خصائل پر مبنی ہے جس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ غالب کسی بھی خط کا جواب دینے میں عجلت سے کام لیتے تھے۔ شدت مرض اور زیادتی ضعف کے باوجود خط کا جواب جلد از جلد دینے کی کوشش کرتے تھے۔ مولانا امتیاز علی عرشی لکھتے ہیں:

’’خط کا جواب دینے میں میرزا صاحب بہت باضابطہ تھے۔ وہ یوں تو ہر خط کا جواب فوراـــــ لکھتے،اور غیراختیاری عذر کے علاوہ اور کسی عذر کے پیش کرنے کا کبھی موقع نہ آنے دیتے۔‘‘3

تحقیق و تدوین کے سلسلے میں ’دستور الفصاحت‘ مولانا امتیاز علی عرشی کی ترتیب کردہ کتابوں کی فہرست میں اہم مقام رکھتی ہے۔ دستور الفصاحت حکیم احد علی خان یکتا کی تصنیف ہے جس کا موضوع اردو زبان کی صرف و نحو، معانی، عروض اور قواعد اردو سے ہے۔دستور الفصاحت فارسی زبان میں ہے اور یہ کتاب انشاء اللہ خان انشا کی کتاب ’دریائے لطافت‘ سے پیش تر لکھی گئی تھی لیکن دریائے لطافت کے بعد شائع ہوئی۔اس سلسلے میں مولانا امتیاز علی عرشی لکھتے ہیں:

’’ اس کی تالیف کا کام انشا کی دریائے لطافت سے پہلے انجام پا چکا تھا۔جس کا سال اختتام 1222ھ (1807) ہے۔‘‘4

اور آگے لکھتے ہیں:

ــ’’اس لیے ہم پچھلے دلائل کی کمک پر کہہ سکتے ہیں کہ مصنف کی نظر میں دریائے لطافت کا نہ ہونا اس بنا پر تھا کہ یہ ابھی معرض وجود ہی میں نہیں آئی تھی۔‘‘5

دستور الفصاحت کے مقدمہ میں ارد و زبان کے آغاز و ارتقا، زبان کے مستند مراکز پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔ دستور الفصاحت میں مقدمہ کے بعد اس میں پانچ ابواب شامل ہیں۔پہلا باب چار فصلوں پر مشتمل ہے۔ جو فارسی زبان کے اصول و قواعد اورصرف و نحو سے متعلق ہے۔ دوسرا باب ایک تمہید اورچھ فصلوں پر مشتمل ہے جس میں اردو زبان کے قواعدو صرف سے بحث کی گئی ہے۔تیسرے باب میں ایک تمہید اور16 فصلیں ہیں اور یہ باب بھی اردو زبان و قواعد سے متعلق ہے۔ چوتھے باب میں 2 فصلیں ہیں جو عروض اور علم قافیہ سے متعلق ہیں۔ اس باب میں اردو اور فارسی کی بحروں پر بحث کی گئی۔پانچواں باب چار فصلوں پر مشتمل ہے۔ اس باب میں علم بیان، علم معانی اور علم بدیع پر بحث کی گئی ہے اور آخر میں ’خاتمہ‘ ہے جس میں ان شعرا کے حالات زندگی اور منتخب اشعار پیش کیے گئے ہیں جن کا کلام کتاب میں بطور مثال پیش کیا گیا ہے۔

دستور الفصاحت 125 صفحات کی کتاب ہے لیکن مولانا عرشی نے اس پر 117صفحے کافاضلانہ مقدمہ قلم بند کیا ہے جس میں فارسی اور اردو کے متعدد تذکروں کے متعلق اہم معلومات جمع کی ہیں۔ مولانا عرشی نے مقدمہ میں مصنف کے حالات زندگی پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ہی ساتھ نسخے کے سائز،اس کی ضخامت، اول و زائد اوراق، ہر صفحے میں سطروں کی تعداد،نسخے کا خط جیسے  اہم نکات کی وضاحت کی ہے۔ مولانا عرشی کی کاوش اور محنت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے کتاب کے آخر میں ایک ذیلی عنوان ’مآخذ حواشی‘ قائم کر کے ان فارسی اور اردو کے 59 مطبوعہ کتب و تذکروں کی تفصیلات درج کی ہے جن سے دستور الفصاحت کی تدوین کے دوران مدد لی۔ جس میں حمید اورنگ آبادی کا تذکرہ ’گلشن گفتار‘،میر تقی میر کا تذکرہ نکات الشعراء،سید فتح علی گردیزی کا تذکرہ ’تذکرہ ریختہ گویاں‘،قیام الدین قائم کا تذکرہ مخزن نکات وغیرہ کا نام شامل ہے۔

دیوان غالب نسخہ عرشی ‘مولانا امتیاز علی عرشی کا ماہر غالبیات کی حیثیت سے سب سے اہم کارنامہ ہے۔ یہ نسخہ غالب کے اردو کلام کا مجموعہ جسے تاریخی اعتبار سے تریب و تدوین کیا گیا ہے۔ دیوان غالب پہلی مرتبہ انجمن ترقی اردو علی گڑھ سے 1958 میں پہلی بار شائع ہوا۔ دیوان غالب میں مولانا عرشی کا ایک عالمانہ و فاضلانہ مبسوط مقدمہ تحریر کیا جس کی ضخامت 160 صفحات ہے۔ اس میں انھوں نے غالب کے حالات زندگی، غالب کی عربی اور فارسی زبان پر دسترس،غالب کی شاعری کی خصوصیات و عیوب پر تفصیل سے بات کی ہے۔ اس سلسلے میں مشہور محقق مالک رام اپنے مضمون تبصرہ دیوان غالب (نسخہ عرشی) میں لکھتے ہیں:

’’اردو دنیا کو مولانا امتیاز علی عرشی کا ممنون احسان ہونا چاہیے کہ برسوں کہ برسوں کی ریاضت کے بعد انھوں نے یہ کام مکمل کر لیا جس میں انھوں نے موضوع کے تمام گوشوں کو اجاگر کیا۔ سب سے پہلے 160 صفحات کا دیباچہ ہے اس میں انھوں نے حسب معمول پوری داد تحقیق دی ہے۔‘‘6

مولانا عرشی نے دیوان غالب کی ترتیب و تدوین میں متعدد نسخوں سے استفادہ کیا۔ ان سبھی نسخوں کا ذکر مولانا نے مقدمہ میں کیا ہے۔جس میں کچھ نام یوں ہیں: 1857 کا غالب کے ہاتھ سے لکھا ہوا نسخہ،نسخہ بھوپال، نسخہ شیرانی،گل رعنا ،نسخہ رامپور ،نسخہ حمیدیہ،نسخہ لاہور وغیرہ۔نسخہ غالب چار حصوں پر مشتمل ہے:گنجینہ معنی، نوائے سروش،یادگار نالہ باد آورد۔نسخہ عرشی میں غالب کا وہ تمام تر کلام  درج کیا گیا ہے جو ان کے نام سے اب تک شائع ہوتا رہا۔

دیوان غالب کا پہلے حصے ’گنجینہ معنی‘ میںغالب کے وہ تمام اشعار درج کیے گئے ہیں جو نسخہ بھوپال اور نسخۂ شیرانی میں تو موجود تھے ،لیکن 1833 میںترتیب کردہ دیوان سے مرزا غالب نے خارج کر دیا تھا۔ دوسرے حصے بعنوان ’نوائے سروش‘ میںغالب کا وہ کلام شامل ہے جسے مرزا غالب نے اپنی زندگی میں لکھوایا تھا اور اسے طبع کراکرکے لوگوں میں تقسیم کیا تھا۔ تیسرے حصے ’یادگارنالہ‘ میں وہ کلام درج کیا گیا ہے، جو دیوان غالب کے کسی بھی نسخے میں نہیں تھا، لیکن بعض نسخوں کے حاشیوں یا ان کے خطوط کے اندر یاغالب کے نام سے دوسروں کے بیاضوںاور ڈائریوں میں پایا گیا تھا اور یہ اشعار اخبارات و رسائل کے ذریعے لوگوں تک پہنچ چکے تھا۔ ’باد آورد‘کے حصے میں نسخہ عرشی زادہ کے ذریعے سے دریافت کلامِ غالب کوشامل کیا گیا ہے۔ ’بادآورد‘ کا حصہ ’دیوان غالب‘ نسخہ عرشی کے پہلے ایڈیشن، جو 1958 میں شائع ہوا تھا اس میں شامل نہیں تھا۔

مولانا امتیاز علی خان عرشی کا مغلیہ دور کے حوالے سے ایک اور اہم کارنامہ ’نادرات شاہی‘ کی تدوین و ترتیب ہے۔ یہ کتاب مغلیہ حکومت کے آخری دور کے فرمانرواں شاہ عالم ثانی کے ہندی،اردو اور فارسی کلام کا مجموعہ ہے۔جس کو خود بادشاہ شاہ عالم ثانی نے 1797 میں مرتب کروایا تھا۔ نادرات شاہی کو نواب کلب علی خان نے مشہور اردو شاعر داغ دہلوی کے توسط سے رامپور رضا لائبریری کے لیے خریدا تھا۔اس کتاب کا پہلا ایڈیشن 1944میں شائع ہوا۔حسب دستور اس میں بھی مولانا عرشی نے ایک محققانہ مقدمہ تحریر کیا جس میں شاہ عالم ثانی کی حالات زندگی،حسب ونسب،سخن گوئی وغیرہ کا ذکر بہت مفصل انداز میں پیش کیا ہے۔ اس حوالے سے صباح الدین عبد الرحمن لکھتے ہیں:

’’ عرشی صاحب کو نادر چیزیں ڈھونڈنکالنے کا فطری ملکہ ہے جنھیں وہ زیور اطاعت سے آراستہ کر کے اہل ذوق تک پہنچاتے رہتے ہیں۔ 1944 میں نادرات شاہی کی اشاعت ان کی جوہر سناشی کا نتیجہ ہے... اس کے شروع میں عرشی صاحب نے 62 صفحے کا جو مبسوط مقدمہ لکھا ہے،اسے پڑھنے کے بعدماننا پڑھتا ہے کہ ہندوستان کی تاریخ پر بھی ان کی نظر وسیع ہے۔‘‘7

تاریخ محمدی‘ میرزا محمد حارثی بدخشی دہلوی کی اہم ترین تاریخی کتاب ہے۔اس کتاب میںحارثی بدخشی نے10 ھ سے 1161ھ تک کے مشاہیر و علمی شخصیات کے مختصر حالات زندگی اور سنہ وفات درج کی ہیں۔ مولانا عرشی نے اس کتاب کی متن کی تصحیح کر کے اس پر حواشی لکھے۔ اس کتاب کا متن 142 صفحات پر محیط ہے لیکن حواشی187 صفحات تک پھیلے ہیں۔ مولانا عرشی نے تاریخ محمدی کو تمام تر تحقیقی و تدوینی اصولوں کا خیال رکھتے ہوئے تدوین کیا۔ عرشی صاحب کے تدوینی کارناموں میں تاریخ محمدی کو اہم مقام حاصل ہے۔

ترجمہ مجالس رنگین مشہور ریختی گو شاعر سعادت یار خاں رنگین کی فارسی کتاب کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ ترجمہ رامپور کے اخبار ’ناظم‘ میں 1942 میں قسط وار شائع ہوا تھا۔ مولانا عرشی نے اس کتاب کو حواشی کے ساتھ ترتیب دیا اور ساتھ ہی ان تمام تفصیلات کا بھی ذکر کیا جو اس کتاب کے وجود میں آنے کی وجہ بنیں۔ اس کتاب میں کل 62 مجالس ہیں اور مولانا عرشی نے اس کتاب کے عنوان پر بھی تفصیلی بات کی ہے۔جس میں انھوں نے یہ بتایا کہ اس کتاب کا نام مجالس رنگین کیسے پڑا۔

اردو کے مشہور قواعد نویس، داستان گو، شاعرو ادیب انشاء اللہ خان انشا کی مشہور غیر منقوط کتاب سلک گوہر کو تصحیح کے ساتھ پہلی مرتبہ 1948 میں رامپور سے مولانا عرشی نے شائع کیا۔یہ 36 صفحات پر مشتمل ایک مختصر داستان ہے۔ اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں ایک بھی نقطہ نہیں ہے۔لیکن یہی خوبی ہی شاید اس کی بے لطفی کی وجہ بنی۔پروفیسر گیان چند جین لکھتے ہیں:

’’اس کتاب کی اہمیت محض ’کوہ کندن و کاہ برآوردن‘ میں ہے۔بے نقط کی قید کی وجہ سے اس قدر بے لطفی پیدا ہو گئی ہے کہ پوری داستان کا پڑھنا تقریباََ محال ہو گیا ہے۔‘‘8

لیکن پھر بھی اپنی خاص نوعیت کی بنا یہ کتاب آج بھی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔سلک گہر کے علاوہ انشاہ اللہ خان انشا کی ایک اور مشہور داستان ’رانی کیتکی کی کہانی‘ ہے۔یہ ایک طبع زاد داستان ہے جس میں رانی کیتکی اور کنور اودے بھان کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔اس داستان کی خاص بات یہ ہے کہ یہ خالص ہندوستانی زبان میں لکھی گئی ہے۔ اس میں عربی اور فارسی کے الفاظ سے پرہیز کیا گیا ہے۔سب سے پہلے اس کتاب کو مولوی عبدالحق نے تصحیح متن کے ساتھ 1926 میں انجمن ترقی اردو اورنگ آباد کے رسالہ ’اردو‘ میں شائع کیا۔ اس کے بعد عبدالحق صاحب نے اس داستان کو کتابی صورت میں 1933میں اپنے مقدمہ کے ساتھ شائع کیا۔ مولانا امتیاز علی عرشی نے عبد الحق کے پہلے ایڈیشن اور رضا لائبریری میں رکھے دو اور مخطوطوں کا آپس میں مقابلہ کرکے درست کیا۔بقول گیان چند جین:

’’اسٹیٹ لائبریری رامپور میں داستان کے دو مخطوطے دریافت ہوئے ایک کتابی شکل میں ہے۔ دوسرا انشا کے ساتھ شامل ہے۔ان کی مدد سے مولانا امتیاز علی خان عرشی نے اسے از سر نو مکمل کیا۔‘‘ 9

مولانا امتیاز علی عرشی کی ایک اور اہم کارنامہ ’محاورات بیگمات ‘ہے۔ یہ کتاب مشمولہ اردو ادب، علی گڑھ، اشاعت جولائی، دسمبر1952 میں نامی پریس، لکھنؤ سے شائع ہوئی۔ مولانا عرشی نے اس کتاب کو خان آرزو کی نوادر الالفاظ اور سعادت یار خان رنگین کے دیوان ریختی کی مدد سے تیار کیا۔ اس کتاب میں کل صفحات 32 ہیں۔ دیوان ریختی کے آخر میں عورتوں کے مخصوص محاوروں اور الفاظ کی فہرست ہے۔ ان محاوروں کو خان آرزو نے اپنی کتاب نوادرالالفاظ میںشامل کیا۔ مولانا عرشی نے دیوان ریختی اور نوادرالالفاظ ان دونوں کتابوں کی تشریحات کو سامنے رکھ کر مزید تحقیقی حواشی کے ساتھ مرتب کیا۔

ارد و اور افغان‘ بھی مولانا عرشی کی تحقیق دسترس اور زبانِ اردو پر ان کی وسعتِ نظر کا ثبوت ہے۔ مولانا عرشی نے از قبل اس کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے جشن سیمیں میں 1942 میں بطور مقالہ ’اردو پر پشتو کا اثر‘ کے عنوان سے پڑھا تھا پھر اصلاح وو اضافے کے بعدمعارف کے تین شماروں میں 1949 میں ’اردو زبان کی بناوٹ میں افغانوں کا حصہ‘ کے عنوان سے شائع ہوا اور 1960 میں بروی پریس،پشاور سے کتابی صورت میں بعنوان ’اردو اور افغان‘ طبع ہوئی۔یہ کتاب لسانیات کے تعلق سے بہت اہم کتاب ہے اس کتاب میں ان تمام پشتو الفاظ کے بارے میں بات کی ہے جن کا اردو کی تشکیل میں اہم حصہ ہے۔مولانا عرشی اس بات کا بھی انکشاف کرتے ہیں کہ ماہرین لسانیات نے صرف فارسی، عربی، سنسکرت اور ترکی کو ہی اردو زبان کا پیش خیمہ بتایا لیکن پشتو زبان کو کسی نے بھی اہمیت نہیں دی۔اس کے علاوہ عربی اور فارسی زبان میں موجود 253 پشتو الفاظ کی بھی نشاندہی کی جو آج بھی بگڑی ہوئی شکلوں میں موجود ہیں۔یہ کتاب لسانیات کے ضمن میں اردو کی مستند اور اعلیٰ کتب میں شمار کی جاتی ہے۔

 اس کے علاوہ مولانا امتیاز علی خان عرشی کی دیگر غیر مطبوعہ کتابیں بھی ہیں جو ان کی وفات کے سبب منظر عام پر نہ آ سکیں؛ جیسے اشاریہ اودھ کیٹلاگ،انتخاب ناظم، خطاطی کی تاریخ،دیوان مومن۔مولانا عرشی کا انتقال اردو تحقیق و تدوین کے لیے بہت بڑا خسارہ تھا جس کی کمی شاید کبھی پوری نہیں ہو سکتی۔امتیاز علی عرشی کی تحقیقی کاوشیں اور ان کی لگن ،غیر مطبوعہ مخطوطات کی چھان بین اور ان کی تدوین و ترتیب میں انہماک نے اردو تحقیق کو مالا مال کیا ہے اور جہاں تک ان کی ذہنی انسیت کی بات کی جائے تو قطعاً ہر تحقیق جیسے حرف آخر نہیں ہوتی مگر عرشی کی ترتیب کردہ کتب یقینی طور پر آخری حوالے کا مقام رکھتی ہیں ۔کتابوں کی ترتیب میں انھوں نے ہمیشہ احتیاط سے کام لیا ہے اور ان کے یہاں اغلاط شماری بھی کم ہی ہے بلکہ بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے، یہ ان کے تحقیقی ذہن اور انتہائی احتیاط کی مثال ہے۔ امتیاز علی عرشی اپنی تحقیقات اور تدوینی خدمات کے آئینے میں ہمیشہ زندہ و جاوید رہیں گے۔

حواشی

1             تدوین متن کی روایت آزادی کے بعد: ڈاکٹر صابر علی سیوانی، محمد خالد تنویر پبلشر، حیدرآباد،2021،ص14

2             مشمولہ: ماہنامہ ـ’تحریک‘ نئی دہلی، جلد 92، اپریل 1981، ص 8

3             امتیاز علی عرشی(مرتب)، دیباچہ مکاتیب غالب،مطبوعہ قیمیہ، بمبئی، 1937، ص 108

4             دستور الفصاحت سلسلہ مطبوعات کتاب خانہ رامپور 1943، ص 27

5             ایضاً

6             مشمولہ ’نقوش‘ لاہور،شمارہ 101، نومبر1964،ص 166

7             مشمولہ: ماہنامہ ’تحریک‘ نئی دہلی، جلد 92، اپریل 1981، ص 17

8             اردو کی نثری داستانیں: پروفیسر گیان چند جی ، قومی کونسل برائے فروغ زبان اردو زبان،نئی دہلی،2002،ص370

9             ایضاً

 

Faizan Ashraf

Lal Bahadur Shastri Smarak P.G. College Anandnagar

Maharajganj - 273155 (UP)

Mob.: 9917284412

faizanashraf664@gmail.com

 

 

 

 

 

تازہ اشاعت

کورٹھا میں لوک ادب، مضمون نگار: محمد طیب

  اردو دنیا، فروری 2025 لوک ادب کی افادیت سبھی زبان و ادب کے لیے اہمیت کی حامل ہے۔یہی وہ سرمایہ ہے جس سے زبان وادب کو پھلنے،پھولنے، سماج کی ...