3/7/25

گورکھپور کا گوہر نایاب: مسلم انصاری، مضمون نگار: ذاکر حسین ذاکر

 اردو دنیا، مارچ 2025

محی الدین انصاری موسوم بہ مسلم انصاری 1920- 2012کی ولادت گورکھپور کے ایک علمی خانوادے میں ہوئی تھی۔ان کے والد محمد خلیل انصاری انڈین نیوی میں کیپٹن تھے۔انھوںنے اپنے اکلوتے بیٹے کی ولادت پر شاندار جشن کا اہتمام کیا۔ان کی خوشی قابل دید تھی۔ ان کی تنخواہ بہت اچھی تھی اس لیے مسلم کا پچپن نہایت آرام وآشائس میں گزرا، لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ جب ان کی عمر دس سال تھی ان کے والد کا اچانک انتقال ہو گیا۔ عزیز و اقارب کی بے گانگی اور کہیں سے کوئی امداد نہ ملنے کی وجہ سے ان کے گھر کی حالت مالی اعتبار سے خستہ ہو گئی۔ ان کی والدہ نے استقامت کا ثبوت دیا اورعزم و حوصلے سے گھر کو چلایا۔ بیٹے کے تعلیمی اخراجات کی عدم ادائیگی کی صورت میں ان کی والدہ نے ان کا داخلہ مقامی انجمن اسلامیہ کے دارالیتامیٰ کے شعبے میں کرایا، جہاں سے مسلم انصاری نے فاضل ادب کی ڈگری حاصل کر کے میدان کارزار میں قدم رکھا۔ انھیں عربی فارسی اور اردو پر عبور حاصل تھا۔ وہ مزید پڑھنا چاہتے تھے مگر اپنے گھر آنگن سے افلاس اور تنگ دستی کے مہیب سائے کو ختم کرنے کے مقصد سے انھوں نے بہرائچ میں مدرسہ اسلامیہ مسعودیہ میں بطور فارسی ٹیچر ملازمت ختیار کر لی۔وہ بچپن سے ہی ذہین اوربے حد حساس طالب علم تھے۔انھیں علم حاصل کرنے کا بے حد شوق تھا۔قیام بہرائچ کے دوران وہ درس وتدریس کے ساتھ ساتھ ہائی اسکول اور انٹر کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔1946میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد انھیں جلدہی ریلوے میں ملازمت مل گئی۔ریلوے کی ملازمت سے وہ 1981 میں  سبکدوش ہوئے۔صحیح معنوں میں ان کی ادبی زندگی کی شروعات ان کے ریٹائزمنٹ کے بعد شروع ہوتی ہے۔ ریٹائر ہونے کے بعد انھوںنے حج کیا اور ان کے زنبیل میں جتنا شعری سرمایہ تھا انھیں شائع کرانا شروع کردیا۔اس دوران انھوں نے ہر سال ایک یا دو شعری مجموعے کی اشاعت کرائی اور دبستان گورکھپور پر بھی کام کرتے رہے۔

مسلم انصاری ایک زود گوشاعرتھے اور ہر موضوع پر شعر کہنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ وہ امیر خسرو کی طرح بہت تیزی سے شعر کہنے والے شاعر تھے۔ اکثر وبیشتر دودواورتین تین زمینوںمیں سعی فرماتے اورشام تک تین چار غزلیںمکمل کر لیتے۔ان کے خیال میں لامتناہی پروازیں پوشیدہ تھیں۔ ان کی فکر میں بلندی اور سوز و گداز تھا۔وہ نکتہ سنج‘ رمز شناس اور دانشورانہ مطمح نظر کے شاعر تھے اور ان کی فطرت میں بے انتہاتندی تھی۔ کائنات کی تبدیلیوںاور معاشرتی نظام پر مسلم انصاری کی گہری نظر تھی۔ ان کے شعری سرمائے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کتنی باریک بینی سے سماجی بناوٹ پر نظر رکھتے تھے۔ایک تو ان کی ذہانت اور دوسری گورکھپور کی ادبی فضا نے انھیں شعروشاعری کی طرف مائل کیا۔ انھوں نے سولہ سال کی عمر میں شعر گوئی شروع کردی تھی۔بعد میں شاعری ان کے خمیر میں داخل ہو گئی۔ اٹھتے بیٹھے وہ شعری اکتسابات کی فکر میں لگے رہتے۔ ایک وقت ایسا آیا جب وہ شعر نہیں کہتے تھے بلکہ شاعری ان سے خود شعرکہلوانے کے لیے مجبور کرتی تھی۔ان کا سب سے اچھااور قابل قدر مجموعہ’ دیروحرم‘ ہے، جس کی اشاعت چالیس سال کی عمر میں ہوئی تھی۔دیروحرم کا عنوان انھوںنے مندرجہ ذیل شعر سے اخذ کیاہے        ؎

دیروحرم میں بحث ہوئی دل کہاں رہے

آخر یہ فیصلہ ہوابے خانماںرہے

اس وقت وہ حضرت مخمور دہلوی سے شرف تلمذ حاصل کررہے تھے۔دیروحرم کی غزلوں اور قطعات پر مومن اور میر کا براہ راست اثر دکھائی دیتاہے۔مخمور دہلوی کی استادی کا ہی اثر تھا کہ ان کی غزلیں ایک کہنہ مشق شاعر کا پتا دیتی تھیں۔ان غزلوں میں ان کی جوانی کے تجربات کا نچوڑ دکھائی دیتاہے۔ان دنوں ان کے افکار وخیالات میں بے انتہاتازگی وحرارت تھی۔ اس کا اندازہ دیروحرم کی غزلوں سے لگایا جا سکتاہے۔دیروحرم کی غزلوں میں بے انتہاروانی ، ترنم اور پرکیف لطافت کا احساس ہوتاہے۔ ان میں اتنی گرماہٹ اور تازگی ہے، جو ان کے بعد کے مجموعے میں عنقا ہے۔ دیر و حرم میں وہ کیفیاتی تازگی ہے، جوایک تجربے کار آدمی کی فکر میں ہونی چاہیے۔ ان دنوں غلام احمد فرقت کاکوروی سے ان کے شعری مراسم تھے۔ شعری نکات پر ان سے بحث بھی ہوتی رہتی تھی۔

1981میںحج کرنے کے بعد سفر حج کی تفصیلات کا ایک شعری گلدستہ ’ گلہائے حرمین‘ شائع کیا۔یہ بہت اہم کتابچہ ہے، جس میں انھوںنے حج کے  تمام ارکان کو قطعات میں پیش کیاہے۔اس کے بعد اگلے پندرہ سالوں تک ہر سال ان کا ایک شعری مجموعہ منظرعام پر آیا۔ 1986 میں ’تارنفس‘ منظر عام پر آیا۔اس مجموعے میں نظمیں اور غزلیں شامل ہیں۔ اس مجموعے کو انھوں نے اپنے استاد حضرت مخمور دہلوی کے نام معنون کرتے ہوئے انھیں کافی غمناک انداز میں یاد کیاہے۔تارنفس میں ان کی مشہور نظم بھارت شامل ہے         ؎

یہاں کا ذرہ ذرہ مہ جبیں ہے

یہ بھارت کی مقدس سرزمیں ہے

 1987میںان کے دو مجموعے ایک ساتھ شائع ہوئے ایک’ ضرب گل ‘اور دوسرا ’شہر غزل ‘۔ ان مجموعوں میں نظمیں، غزلیں اور قطعات شامل ہیں۔ 1989میں ’شعلہ تر‘کی اشاعت عمل میں آئی۔1990ہائیکو نظموں کا مجموعہ ’مثلث ‘منظر عام پر آیا۔ 1992میں ’حدیث درد‘ 1993میں ’دیوارزنداں‘ شائع ہوا۔ ’ساحل ساحل کی اشاعت  1998 میں ہوئی۔ دیوار زنداں کے دیباچے میں وہ دعواکرتے ہیں کہ ’’ میرے ان شعری مجموعوں کا اگر آپ بغور مطالعہ فرمائیں تو جہاں ان کے بیشتر اشعار میں عصری تقاضو ں کے نقوش اور تصورات ومحسوسات زندگی کے نشانات پائیں گے، وہیں میری سرسری کاوشات کی جھلکیاں اور بسیارگوئی کی پرچھائیاں بھی نظر آئیں گی ‘جو لائق تحسین بھی ہو سکتی ہیں اور قابل نفرین بھی‘ جس کا انحصار آپ کے مزاج اور مذاق پر ہے۔‘‘وہ آگے کہتے ہیں کہ ’’اب تو میں عمر کی اس منزل پر پہنچ گیا ہوں جہاں سے آگے بڑھنے کے لیے ہر قدم سنبھل سنبھل کر رکھنا پڑ رہا ہے۔کیوں کہ طبیعت میں نہ تو وہ پہلی سی جولانی ہے نہ افکارمیں وہ پہلی سی روانی...‘‘

(دیوار زنداں از مسلم انصاری فیضی آرٹ پریس گورکھپور1993، ص 8[دیباچہ کہنے کی باتیں])

 1988 میں ان کا ایک شعری مجموعہ’عکس غالب‘ شائع ہوا۔جس کے ذریعے انھوں نے اردو دنیاکے سامنے اپنی شعریات کا لوہا منوایا۔ عکس غالب مسلم صاحب کی جدت طرازی کا نتیجہ ہے۔ اس مجموعے میں انھوں نے غالب کے 208اشعار کی زمین پر نئے فکر وخیال کے ساتھ نئی غزل کہی ہے۔ انھوں نے کوشش کی ہے کہ ان غزلوں کے خیالات غالب کے خیالات و افکار سے متصادم نہ ہوں۔ انھوں نے دعواکیاکہ یہ مشق، غالب کی ہمسری اور برابری کے لیے نہیں ہے۔ بلکہ یہ صرف مشق سخن ہے۔یہ بہت انوکھی اور پرکشش پہل تھی۔ اس شعری مجموعے میں کچھ ایسے اشعاربھی ہیں جو کہیں کہیں غالب کے اشعار سے زیادہ معنی خیز اور پر خیال ہیں۔ اس کتاب کو مسلم انصاری نے بہت اہتمام سے شائع کرایا تھا۔ موٹے گلیزڈ کاغذ پر ہر صفحہ رنگین، غالب کا شعر الگ رنگ میں بحروں کا کوئی الگ رنگ اور ان کی غزل مختلف رنگ میں۔جیسے غالب کے دیوان کا پہلا شعر         ؎

نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا

کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصوری کا

یہ بحر رمل کی غزل ہے۔اس کی تقطیع ہے فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن؍فاعلان

مسلم انصاری نے اسی بحرمیں 6اشعار کی ایک غزل کہہ دی ہے          ؎

راز سربستہ نہ پوچھودہر کی تعمیر کا

اک بہانہ تھا کسی کے حسن کی تشہیر کا

دیدہ و دل نے کہا ماناہے کب تدبیر کا

کیجیے کس منہ سے شکوہ کاتب تقدیر کا

جھینی جھینی سی نگاہیں سمٹا سمٹا سا شباب

ہم نے دیکھا ہے وہ رخ بھی آپ کی تصویر کا

میرے جرم اولیں کو یوں تومدت ہوگئی

ایک ہنگامہ ہے لیکن اب بھی داروگیر کا

لذت عصیاں سے جو اب تک رہے ناآشنا

وہ فرشتے جائزہ لیں گے مری تقصیر کا؟

دیکھیے کیا دن دکھاتاہے یہ حسن اتفات

پھر پیام آیا ہے مسلم اس بت بے پیر کا

ان کی شعری کائنات میں منافقت، بے راہ روی، فریب، بداخلاقی اور حالات حاضرہ جیسے عنوانات پر سیکڑوں اشعار موجود ہیں۔ ان کو الگ الگ زمرے میں شامل کیا جائے تو ان کا انتخاب بیش قیمتی ہو سکتا ہے۔ یہاں ان کی شعری کائنات پر بحث کرنا شاید مناسب نہ ہو۔ میں چاہتاہوں کہ ان کی غزلوںکے بہترین اشعار کاایک انتخاب قارئین کے لیے پیش کر دیا جائے اور قارئین خود فیصلہ کریںکہ وہ کس پائے کے شاعر تھے       ؎

قفس میں تھے تو کبھی کھل کے ہنس بھی لیتے تھے

اب آشیاں میں تبسم بھی سازگار نہیں

کون قاتل ہے بتادیں گے ملاقات کے بعد

رہ گئے زندہ جو ہم اب کے فسادات کے بعد

جب اپنے شہر لوٹ کے مدت پہ آئے ہم

کتنوں سے اپنے گھر کا پتا پوچھناپڑا

ترے بدن کا تصور بھی کچھ عجیب ساتھا

کہ دوررہتے ہوئے بھی بہت قریب ساتھا

میکدہ کا تو نام ہے بدنام

فتنے اٹھتے ہیں خانقاہوں سے

یوں ترا تیر نظر دل سے پرافشاں نکلا

میراہر تارنفس تاررگ جاں نکلا

دل سے اٹھتاہے پھر دھواں ساکچھ

پھر زمانہ ہے بدگماں ساکچھ

گورکھپور کی تاریخ بہت قدیم ہے،  مگر اس کی شناخت ہمیشہ سمٹی رہی۔ اسے مسلم انصاری نے نمایاں انداز میں پیش کیا۔ دبستان گورکھپور کے ذریعے ہم کورکھپور کے عروج وزوال کی تفصیلات معلوم کر سکتے ہیں۔ دبستان گورکھپوردر اصل تاریخ گورکھپور ہے، جس میں کتنے ہی بیش قیمتی ہیرے موتی اور پوشیدہ قیمتی جواہرات کو قارئین کے سامنے لاکھڑا کیا گیا ہے۔ انھوں نے جو کچھ لکھا اپنے اخذو اکتساب کی بنیاد پرلکھاہے اور کسے کس طرح پیش کرنا ہے اس کا فیصلہ انھوںنے خود ہی کیا ہے۔ مواد کی عدم فراہمی کی صورت میں انھوں نے انتہائی جاں سوزی کے ساتھ اپنے خون جگر سے جس دبستان کی داستان لکھی ہے وہ انتہائی محبوب اور قابل ستائش ہے۔ انھوں نے جن شعرا کے حالات کا ذکر کیا ہے ان کے پس پشت جو کہانیاں ابھرکر سامنے آتی ہیں وہ گورکھپور کے تہذیبی، ثقافتی اور معاشرتی حالات کو بھی منظر عام پر لانے میں کامیاب ہیں۔اس بات کی تائید پروفیسر محمود الٰہی صاحب نے بھی کی ہے۔ ان کے خیال میں۔ ’’گورکھپور کی علمی فنی اور ادبی خدمات کا ابھی تک جائزہ نہیں لیاگیا تھا، مسلم انصاری نے اس فرض سے عہد برآ ہونے کا پروجیکٹ مرتب کیاجو دبستان گورکھپور کی صورت میں آج ہمارے سامنے ہے۔‘‘ پروفیسر احمر لاری اس بات کو کچھ توسیع کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔’’اردو کے دوسرے علاقوں اور مراکز کے ادبی کارناموں کے بارے میں مستند اور معتبر کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ابھی تک گورکھپور کی جو انیسویں صدی کے اوائل ہی سے اردوزبان وادب کا ایک اہم مرکز رہا ہے، نہ تو کوئی قابل اعتماد ادبی تاریخ لکھی گئی ہے اورنہ ہی یہاں کے قلم کاروں کا کوئی معتبر تذکرہ شائع ہوا ہے۔مجھے اس بات سے بے حد خوشی ہوئی کہ مسلم انصاری صاحب نے اس کمی کو محسوس کیا، انھوںنے دبستان گورکھپور کے عنوان سے گورکھپور کے قلم کاروں کا ایک ضخیم تذکرہ ترتیب دیا ہے۔‘‘

(دبستان گورکھپوراز مسلم انصاری فیضی آرٹ پریس گورکھپور 1997۔ [سرورق کے بعد پہلا اور دوسرا  فلیپ۔])

دبستان گورکھپور نے گورکھپور کو ادبی افق پر لاکر کھڑاکر دیا۔اسے ایک نئی پہچان دی۔اس کی وضاحت کرتے ہوئے مسلم انصاری کہتے ہیں۔’’لکھنؤ میں اردو شاعری جب اپنے شباب پر تھی برصغیر ہندو پاک کے تمام ممتاز مشاہیر شعراوادبایہاں کی ادبی محافل کو اپنی شرکت سے نواز چکے تھے اور کلام بلاغت نظام سے عوام کو محظوظ ومستفیض فرما چکے تھے۔‘‘ (دبستان گورکھپور، ص 14)

انھیں گورکھپور کی ادبی اہمیت وافادیت کا خوب اندازہ تھا۔’’الغرض گورکھپور میں ادبی سرگرمیاں ہمیشہ شباب پر رہیں۔ سلاطین اودھ کے دورمیں تو اس کو دبستان کی حیثیت حاصل ہو گئی تھی، جس کے روح رواں عبرت، عنبر، فانی، حامی، عجیب، ریاض، وسیم، فہیم، عمر، قاصر، ریحان، بدر، قمر وغیرہ جیسے ارباب فکر وفن تھے۔‘‘

(دبستان گورکھپور، ص14)

ڈاکٹر محمد اشرف کا خیال ہے کہ۔ ’’شعر وسخن کے میدان میں درجنوں شعری گلدستے آراستہ کیے اور اس شعبے میں انھیں غیر معمولی مقبولیت بھی ملی ‘لیکن ساڑھے سات سو صفحات پر مشتمل ’دبستان گورکھپور‘جیسی ضخیم کتاب شائع کرکے انھوںنے نثری ادب میں ایک الگ پہچان بھی بنالی، جس میں شہر کی علمی وادبی شخصیتوں کے سوانحی خاکوں اور ان کی تفصیلات پر سیر حاصل بحث کر کے تاریخی کانامہ انجام دیا۔اس سلسلے میں ان کی جتنی ستائش کی جائے ناکافی ہے۔‘‘

(ادبی نشیمن سہ ماہی جرنل لکھنؤ۔دسمبر 2024، فروری 2025 ڈاکٹرمحمد اشرف کا مقالہ ’گورکھپور کی ادبی شخصیتیں :ماضی اور حال کے آئینے میں‘ص 20)

مسلم انصاری نے دبستان گورکھپورمیں گورکھپور کے 269شعرا کا ذکر کیاہے۔اس میں چند نام ان ادیبوں کا بھی ہے،  جنھوںنے شعر وشاعری نہیں کی مگر اپنی نثر اور شخصیت کی تابناکی سے گورکھپور کے ادبی افق کو خوب چکمایا۔ان میں علامہ ابوالفضل احسان اللہ عباسی 1865-1927 ‘قاضی تلمذ حسین 1880-1946، مہدی افادی 1868-1921 اور عبدالقیوم رسا 1896- 1984 کے نام شامل ہیں، انھوںنے اپنی عالمانہ نثر نگاری اورادبی خدمات سے گورکھپور کے ادبی منظرنامے کو خوب روشن کیا۔مسلم انصاری نے اس ضخیم تاریخ میں شعراکے ساتھ ساتھ ان نثر نگاروں کی خدمات کا بہت اہتمام سے ذکر کیا ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے شعرا کا ذکران کے تخلص کے ردیفی ترتیب alphabatical سے کیاہے۔اس کے بھی دو باب متعین کیے۔ پہلے باب میں ان شعرا کا ذکر ہے، جو 1997سے قبل وفات پا چکے تھے اور دوسرے باب میں باحیات شعرا اور ادباکا ذکر ہے، جو گورکھپور میں یا ملک میں کہیں بھی کارہائے نمایا انجام دے رہے ہیں۔گورکھپورکے حوالے سے اردو شعروادب کی ترویج کی تاریخ بیان کرنے کے لیے انھوںنے ایک الگ باب خرچ کیاہے ، جس میں انھوں نے فورٹ ولیم کالج سے لے کر موجودہ گورکھپور کے جغرافیائی، ثقافتی اور تاریخی حصولیابیوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔دبستان دلی ، لکھنؤ اور گورکھپور کی تفصیل نیز اس کتاب کے لکھنے کے محرکات کے متعلق انھوںنے حرف درحرف کے باب میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔

اس کتاب کی سب سے بڑی اہمیت ان بے نام اور گمنام شاعروں کی بازیابی ہے، جو تاریخ کے دبیز پردے کے پیچھے کہیں روپوش ہو چکے تھے اور ان کی شخصیت پر گرد کی گہری تہہ جم چکی تھی۔ ان کی شخصیت پر جمی گہری پرت کو صاف کر کے انھیں ادبی دنیا سے روشناس کرانا ہی مسلم کا بڑاکارنامہ ہے۔ عام محقق کے لیے ایسے شاعروںپر ایک پیراگراف بھی لکھنا ممکن نہیں ہوتاہے، ایسے میں مسلم انصاری نے ان گمشدہ شعرا کی شخصیت، شاعری اور ادبی خدمات پر بیس سے تیس صفحات تک لکھ ڈالے ہیں۔ ان پر مواد جمع کرنا ان کے پیش نظر کتنا جوکھم adventurousکارنامہ رہا ہوگا اس کا اندازہ لگانا قدرے مشکل نہیں ہے۔ یوں تو اس کتاب میں دو درجن ایسے شعرا ہیں جو زمانے کی گردشوں میں گم ہو چکے تھے۔ مگر دو نام جن کی بازیافت مسلم انصاری نے کی، وہ انتہائی اہم ہیں۔ اول منشی مادھورام مادھو اور دوئم مولوی عبدالرحیم تمنا گورکھپوری موسوم بہ عبدالرحیم دہریہ کے نام نامی شامل ہیں۔

کتاب کے تیسرے باب کو اضافی معلومات کے طورپر پیش کیا گیا ہے۔ دبستان گورکھپور کو مسلم انصاری نے فورٹ ولیم کالج کے ابتدائی دنوں سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ اس باب میں فورٹ ولیم کالج، اردو لغت نویسی، اردو بحیثیت سرکاری زبان، یوروپین اور اینگلوانڈین شعرا، گورکھپور کا اصلی نام، اردو کا اولین کارنامہ اردو صحافت، اردو پریس ، اردو ادبی انجمنیں، اردو لائبریریاں،گورکھپور یونیورسٹی، باہمی گھریلو بول چال، اردو زبان وادب کے معاونین، اردو مدارس اور مہانگر کے اعداد وشمارشامل کیے گئے ہیں۔ان موضوعات پر مسلم انصاری نے مختصر مگر جامع معلومات فراہم کی ہے۔ فورٹ ولیم کالج اور اردو کے یوروپین شعرا کی تفصیل بہت اہمیت کی حامل ہے۔ یوروپین شعرا کے زمرے میں تمام اینگلوانڈین شعرا کا ذکر بہت عرق ریزی سے کیاگیاہے۔ان کے اشعار نمونے کے طورپر دینا بہت بڑی کامیابی ہے۔62 یوروپین شعرا کامختصراً ذکر ہے اورنمونہ کلام بھی دیا گیاہے۔ اسی باب میں مسلم انصاری نے گورکھپور کی اردو صحافت پر بہت جامع معلومات فراہم کی ہے۔ اس میں انھوںنے کل 52اخباروں اور رسائل کا ذکر کیاہے مگر ظاہر ہے کہ ان کی شروعات ریاض خیرآبادی کے اخبار’ ریاض الاخبار‘ سے ہوئی اور اس سلسلے کو انھوںنے ’روزنامہ راپتی‘ پر ختم کیا ہے۔ راپتی کو ساجدی پریس کے مالک حامدعلی انصاری نے 1995میں جاری کیا تھا، لیکن گورکھپور کا اہم ترین اخبار مشرق تھا، جسے حکیم برہم نے 1906میں جاری کیا تھا۔ ایک اہم اخبار اشتراک تھا جسے صحافی، شاعر اور افسانہ نگار ایم کوٹھیاوی راہی نے فراق گورکھپوری کی ایما پر 1967 میں جاری کیا تھا۔اشتراک 8صفحات پر شائع ہوتا تھا۔ اس میں پورے ہفتے کی خبروں کا تجزیہ شامل ہوتا اور شعروشاعری کی ترویج کے لیے خاص صفحات متعین کیے گئے تھے۔

 

Zakir Husain Zakir

Gulshan-e-Haider, Shanti Nagar

Ward No: 10

Distt.: Deoria- 274001 (UP)

27/6/25

ہوش صاحب، مضمون نگار: عبد اللہ خالد

 اردو دنیا، مارچ 2025

میانہ قد،گندمی رنگت، باوقار چہرہ اور پرعزم وتابناک آنکھوں والے ہوش نعمانی صاحب کی پیدائش 22 مارچ1933کو رامپورکے محلہ ٹھوٹر میں ہوئی تھی۔ اُن کے والد سعادت یار خاں سلطانی ریاست رامپور میں کسی معمولی عہدے پر تھے۔ والیِ رامپور کی ناراضگی کے سبب ملازمت سے برطرف کردیے گئے تو گھر سے آسودگی بھی رخصت ہوگئی، تنگی کے اسی دور میں ہوش صاحب کی پیدائش ہوئی۔ شرافت یار خاں نام رکھا گیا،  ہوش سنبھالا تو تعلیم کی ابتدا ہوئی۔ چند درجات تک حصولِ تعلیم کے بعد حالات کی سختی مانع آئی اور اعلیٰ تعلیم کا خواب پورا نہ ہوسکا۔البتہ علم وادب سے ایسا شغف تھا کہ مطالعے اور علمی مجلس سے بہت کچھ سیکھا۔ نوعمری سے ہی شاعری کرنے لگے۔ کچھ عرصہ بعد رامپور کے نامور استاد شاعر جلیل نعمانی کے حلقۂ تلامذہ میں شامل ہوگئے۔ جوانی کی عمر میں معاش کا مسئلہ درپیش آیا تو چند ملازمتیں کیں، مختلف اخبارات ورسائل سے وابستہ رہے لیکن جب مشاعروں میں خوب شرکت کرنے لگے اور مشاعروں سے معاش کا مسئلہ بھی حل ہونے لگا تو ساری غیر ادبی نوکریاں چھوڑ کر مستقل ملازمتِ سخن ہی اختیار کرلی۔ رفتہ رفتہ وہ دن بھی آئے کہ ہوش صاحب مشاعروں کے مقبول اور کامیاب شاعروں میں شمار ہونے لگے۔ مشاعروں سے الگ انھوںنے نہ جانے کتنی شعری وادبی انجمنیںقائم کیں، بے شمار سخن دوست افراد اور نومشق شعرا کو ادبی سرگرمیوں میں شامل رکھا ۔۔۔۔اور نہ جانے کیا کیا۔میں 1996 میں جب ان کا شاگر دہوا تو اُن کی مذکورہ ادبی سرگرمیاں بڑی حد تک کم ہوچکی تھیں۔ کبھی وہ دور بھی تھا کہ مسلسل مشاعروں میں شرکت کے سبب اہلِ خانہ کئی کئی دن بعد ان کا دیدار کرتے تھے ‘ اب یہ حال کہ زیادہ تر گھر میں رہتے۔ لیکن ارادوں میں مضبوطی اور قوتِ عمل میں وہی تازگی تھی۔ ان کا زیادہ تر وقت مطالعے، شعر گوئی اور تلامذہ کی تربیت میں صرف ہوتاتھا اوران مشغولیات میں کچھ وقت وہ بھی تھا جب احباب، سخن دوست اصحاب اورمقامی شعرا کی آمد ورفت کا سلسلہ جاری رہتا۔ لوگوں کی مسلسل آمد ورفت اور پیہم ربطِ خاص ہوش صاحب کی شخصیت کے سحر کا اثر تھا،  نہ جانے کب اور کن مراحل سے گزر کر انھوںنے اپنی انا کو اتنا دبا دیا تھا کہ وہ تقریباً معدوم ہوکر رہ گئی تھی۔ دل نوازی وانکساری سے آراستہ ان کی گفتگو مخاطب کو ایسا باندھ لیا کرتی تھی کہ پھر کبھی نہیں چھوٹتا تھا۔ انکساری محض شخصیت اور سماجی مراسم کا حصہ ہی نہ تھی بلکہ ان کی شاعری میں بھی اس کا نمونہ نظر آتا ہے۔ یہ انکسار کا مظہر ہی تو ہے کہ ایک شعر تمام زندگی میں انھوںنے ایسا نہیں کہا جس سے تعلّی کا رنگ جھلکتا ہو‘ پھر سب کی تعریف اور حوصلہ افزائی کی خوبی بھی ان میں موجود تھی۔ تعریف اتنے بھرپور انداز میں، ایسی صداقت اور خلوص کے ساتھ کرتے تھے کہ احمق تو احمق، باشعورآدمی کادماغ بھی گھنٹوں آسمان میں پرواز کرتا تھا۔ کوئی طنزیہ لہجہ اختیار کرے یا کسی معاملے میں اعتراض، ہوش صاحب انتہائی خندہ پیشانی کے ساتھ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اُڑا دیتے اور اپنی شانِ دلنوازی میں کمی نہ آنے دیتے تھے۔مجھے خوب معلوم ہے کہ کبھی ان کی کسی سے معاصرانہ یا منافرانہ چشمک نہیں رہی۔ صلحِ کل کی پالیسی ‘منکسر المزاجی اور شخصی وقار ہمیشہ اس قسم کے مراحل سے ان کو بچالیتا۔ْ بنیادی طور پر وہ’چشمک دار‘ شاعر نہیں تھے۔

ہوش نعمانی صاحب بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے۔غزل سے ہی آغازِ سخن کیا تھا اور ان کی آخری کاوش بھی غزل ہی کی شکل میں یادگار ہے۔ بقول ہوش صاحب ان کا پہلا شعر یہ تھا         ؎

جب بھی ہم آشیاں بناتے ہیں

اک تغیر فضا   میں  پاتے  ہیں

ابتدا میں روایتی شاعری کا زور رہا، پھر مطالعے ومشاہدے نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا۔ آہستہ آہستہ زمانے کے سردوگرم، زندگی کے تجرباتِ نو بہ نو اور حادثات و واقعات نے بھی غزل میں جگہ پانا شروع کی۔ اُن کا ذہن اپنے آس پاس کے ماحول،  سماجی صورت حال،  شہر،  وطن اور دنیا کے حالات کی جستجو سے لبریز تھا۔ ٹی وی اور ریڈیو پر مستقل خبریں سننا، پابندی سے اخبارکا مطالعہ کرنا ، گھر، باہر، محلہ، پڑوس ہر جگہ حالات وکیفیات اور ساکن ومتحرک رجحانات پر نظر رکھنا اور ان کو اپنے اشعار کا حصہ بنانا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ شاید اسی لیے رامپور کے شعرا میں شاد عارفی کے بعد سماج، حالات وواقعات اور نئے رجحانات پر مشتمل اشعار ہوش صاحب کے کلام میں سب سے زیادہ ہیں۔ روایت کے قدردان تھے لیکن جدت کے لیے بھی ان کا دروازۂ فکر کھلا ہوا تھا۔ نہ صرف موضوعات بلکہ لسانی حوالے سے بھی کشادہ ذہن تھے اسی لیے ان کی شاعری میں ٹھیٹھ ہندی اور انگریزی کے الفاظ بھی کثرت سے ملتے ہیں،  انھوںنے بے تکلفانہ طورپر ’تِلک، چندن، آرسی،  پجارن، سَمے، استھان، اسنان‘ اور خالص انگریزی الفاظ ’گٹر، کَوَر،بلب، سگریٹ، سُوئچ‘وغیرہ کا استعمال کیا ہے          ؎

تمھارا شہر بنارس نہیں کہ  بس  جائوں

تِلک لگاکے یہیں پر برہمنوں کی طرح

یہ لاش اصل میں ہے قاتلوں کی لاچاری

یہاں قریب میں کوئی  گَٹَر  نہیں  ہوگا

غزل کے علاوہ انھوںنے تقریباً سبھی اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی،  حمد ونعت ومناقب‘ منظومات،  قطعات، مدس، مخمس، مستزاد، تضمین، رباعی، مرثیہ، قصیدہ، چہار ابیات، ہائیکو، گیت، دوہے اور تاریخ گوئی کے نمونے ان کے مجموعہ ہائے کلام میں موجود ہیں۔

ہوش صاحب انتہائی قادرالکلام شاعر تھے، مسلسل مشق نے انھیں اس مرحلے تک پہنچا دیا تھا کہ ان کے لیے شاعری عام بول چال کی طرح ہوگئی تھی۔  تقریباً روزانہ ہی اُنھیں کچھ نہ کچھ اپنے یادوسروں کے لیے کہنا پڑتاتھا۔ جو یہ سب ان کی آمدنی کا ذریعہ بھی تھے،  پھر تلامذہ اور استفادہ کرنے والوں کے کلام پر اصلاح ومشورہ وغیرہ۔ غرض ان کا سارا دن اسی طور سے بسر ہوتا، تلامذہ کے علاوہ اُن سے استفادہ کرنے والوں میں ایسے بھی تھے جن کے اساتذہ کو گزرے ہوئے زمانہ ہوچکا تھا، مرحوم اساتذہ کے زندہ شاگردوں میں سے کچھ ہوش صاحب کاحقِ محنت ادا کرکے سبک دوش ہوجاتے اور کچھ اُن سے مشورۂ سخن کا اعتراف کرکے پیسے بچالیتے تھے۔ خفیہ استفادہ کرنے والوں کی بھی کمی نہیں تھی بلکہ ان میں دو ایک تو ایسے بھی تھے کہ ہوش صاحب کی زود گوئی کے سہارے خود اپنے شاگردوں کی تعداد میں اضافہ کرتے رہتے اور ہوش صاحب کا دم اُن کے لیے ایسا غنیمت تھا کہ شرمندگی سے بچے رہتے تھے۔

ہوش صاحب کے تلامذہ کی تعدا د بھی کثیر تھی، کچھ نے شاعری چھوڑ کر دنیا داری سے دل لگالیا اور کچھ ہوش صاحب کی بے پناہ ہمت افزائی اور تعریف سے پھول کر ’اپنی استادی‘ کے مدعی ہوگئے۔حسبِ عادت ہوش صاحب نومشقوں کی اتنی حوصلہ افزائی کرتے تھے کہ اکثر لوگ شکایت بھی کرتے ’آپ نومشقوں کا دماغ خراب کررہے ہیں ‘مگر وہ کسی کو کوئی صفائی دیے بغیر اپنی روش پر تاعمر قائم رہے۔ کتنے ہی نوواردانِ سخن اُن کی حوصلہ افزائی کے سبب پراعتماد ہوکر شعر کہنے لگے اور مشہور بھی ہوئے۔

ہوش صاحب کے مقامی وبیرونی تلامذہ کی صحیح تعداد لکھنا تو مشکل ہے مگر راقم الحروف کے علاوہ آزر نعمانی، طاہر کنول نعمانی،  عتیق جیلانی سالک، حسن اقبال، شارق نعمانی اور ہاشم نعمانی تادمِ حیات اُن کے رابطے میں رہے۔

ہوش نعمانی صاحب کی بارہ تصانیف ان کی حیات ہی میں منظرِ عام پر آگئی تھیں: ’اِندر دھنش (شاعری 1968)، میرا وطن (تذکرہ،  اردو نثر1974)، گھائوشبدوں کے (ہندی، منظومات وغزلیات اور گیت، 197)، زمزم وفرات (1987)، کائنات (1986)، شہادت نامہ (1994)، ادب گاہِ رامپور (1997)،  انجانی راہیں، ‘چھیڑ خوباں سے(2004)، آئینۂ مسدس(2006)، بیاں اپنا (غزلیات، (2008)،  اتمام(منظومات وغزلیات 2009)۔  قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اتمام یعنی آخری مجموعۂ کلام کی اشاعت کے بعد انھوںنے اپنے انتقال تک محض دو ایک غزلیں اور ایک نظم ہی کہی جن کی اشاعت روزنامہ رامپور کا اعلان میں ہوگئی تھی۔ اُن کی شخصیت وفن پر تین کتابیں ’’آج کا شاعر ہوش نعمانی از عتیق جیلانی سالک، 1986اور ’شناخت ( ہوش نعمانی اور ان کے چند تلامذہ کا کلام وتعارف) مرتبہ تبسم نشاط مرحوم، 1996 اور آزر نعمانی کی کتاب ’ہوش نامہ‘  1999میں شائع ہوکر مقبول ہوچکی ہیں۔ ہوش نعمانی شخص وشاعر کے عنوان سے ایک کتاب زیرِ تکمیل ہے جس کے مصنف رضوان لطیف خاں ہیں۔

ان کی زود گوئی کا اصل رنگ میں نے اس وقت دیکھا جب وہ ’ادب گاہِ رامپور‘ کی تکمیل کررہے تھے،  ایک ایک نشست میں ڈیڑھ سو، دوسو اشعار کہنا عام بات تھی یہاں تک کہ وہ بولتے جاتے اور میں لکھتے لکھتے تھک جاتا تو ہاتھ روکنے کے بہانے کہتا ’’ہوش صاحب! پان کھالیجیے کافی دیر سے نہیں کھایا آپ نے۔‘‘ ہوش صاحب اچھا کہہ کر اُٹھ جاتے اور اس طرح کچھ دیر مجھے آرام کا موقع مل جاتا۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان کی زود گوئی نے انھیں کسی حد تک نقصان بھی پہنچایا،  ظاہر ہے کہ انھیں وقت ہی میسر نہ آسکا کہ اپنے کلام پر نظرِ ثانی یا ترمیم کرسکیں جس کی وجہ سے بہت سے ایسے اشعار بھی ان کی غزلیات ومنظومات میں در آئے جو اُن کے معیارِسخن سے کم تر تھے۔ اس کے باوجود انھوں نے غزل کو کئی عمدہ اور یادگار اشعار دیے ہیں جو ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے بالخصوص ذیل کے دو اشعار تو ادبی دنیا میں کافی مشہور ہیں           ؎

وہ تو بتا رہا تھا کئی روز کا سفر

زنجیر کھینچ کر جو مسافر اتر گیا

جسم تو خاک ہے اور خاک میں مل جائے گا

میں بہر حال کتابوں میں  ملوں  گا  تم کو

اول الذکر شعر صبا افغانی رامپوری کے اچانک انتقال پر کہا تھا اور دوسرا شعر ماہنامہ الحسنات رامپور کے’ مولانا مودودی نمبرؒ‘ کے ٹائٹل کے لیے فی البدیہہ کہا۔

ہوش صاحب کا بچپن کشمکش سے بھرا ہوا ضرور رہا ہوگا لیکن جوانی سے بڑھاپے تک کی عمر انھوںنے کسی قدر سکون وعافیت کے ساتھ گزاری۔ ان کی اہلیہ زیب النساء بیگم انتہائی خدمت گزار اور شوہر پرست خاتون تھیں۔ اولاد میں تین بیٹیاں اور ایک بیٹا بلاغت یار خاں المعروف بان نعمانی بھی ان سے بہت محبت کرنے والے تھے۔ کبھی کبھی وہ مجھ سے بڑے فخر سے کہتے تھے کہ :دنیا کچھ کہے، کچھ مانے، لیکن میرے لیے یہی بہت ہے کہ خود میرے گھر میں بہ حیثیت شاعر مجھے بہت عزت حاصل ہے۔‘‘حالانکہ یہ بھی سچ ہے کہ مقامی ادبی حلقوں میں اُنھیں بہت اعتبار اور پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا تھا وہ ایسے شاعر تھے جن کا کلام بے شمار عام وخاص لوگوں کو یاد تھا۔ ایک بار ایک رکشہ والا بڑی مستی کے عالم میں رکشہ چلاتے ہوئے شعر گارہا تھا         ؎

چاندی کے چراغوں سے نہ جل جائے جوانی

ماٹی کے دیے چھوڑ کے گائوں  سے  نہ  جائو

میں نے کہا :’’شعر تو بہت اچھا ہے ،کس کا ہے؟‘‘ بولا:’’ مجھے کیا پتہ ؟ نمائش کے مشاعرے میں سنا تھا۔‘‘ میں نے بتایاکہ ہوش نعمانی صاحب کا شعر ہے تو بولا: ’’ارے وہ ، جو بجوڑیوں( محلہ باجوڑی ٹولہ رامپور) میں رہتے ہیں۔‘‘ میںنے کہا :’’ہاں وہی۔‘‘اسی طرح مزدور طبقہ‘ دوکاندار‘ چائے کے ہوٹل والے ‘ اور کئی پھیری والے ایسے تھے جن کو ہوش صاحب کے اشعار یا گیت یاد تھے۔

2013 کی بات ہے۔ ایک دن مجھ سے کہنے لگے : ’اتنی لمبی زندگی یوں ہی شاعری میں برباد کردی،  سب لاحاصل۔۔۔۔نہ کوئی جانتا ہے،  نہ مانتا ہے ۔۔۔ہائے افسوس۔‘‘ یہ سن کر لمحہ بھر کو مجھے سکتہ سا ہوگیا۔ ہمت کرکے انھیں تسلی دینے کے لیے بہت کچھ کہا مگر ان کو مطمئن نہ کرسکا۔ البتہ اس روز مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ ہوش صاحب کو اپنی موت کا یقین ہوچلا ہے۔ واقعی اس کے بعد وہ آہستہ آہستہ شکستگی سے دوچار ہوتے چلے گئے،  رامپور میں کئی ڈاکٹروں کو دکھایا پھر علی گڑھ میڈیکل کالج میں زیرِ علاج رہے جہاں ڈاکٹروں نے پیٹ میں آخری اسٹیج کا کینسر ہونے کی نشاندہی کردی۔ سعادت مند اکلوتے بیٹے نے اپنا کاروبار چھوڑ کر ان کا علاج اوربہت خدمت کی، وفا شعار اہلیہ ہمہ وقت سرہانے موجود رہیں۔ احباب مسلسل ان کو دیکھنے جاتے اور تسلیاں دیتے۔دعائیں ہوئیں ، ممکنہ دوائیں کی گئیں مگر کچھ کارگر نہ ہوسکا۔ پھر وہ دن (21 اگست 2014) بھی آیا کہ بولتی ہوئی آنکھیں بے جان، چہرہ ہر قسم کے تاثرات سے عاری اور مردِ سراپا سخن ہمہ تن خاموش تھا۔ واقعی اُن کی موت ہوگئی تھی۔

 

Abdullah Khalid

Ghair Kate Bazar Khan

Rampur - 244901 (UP)

Mob.: 9897496925

abdullahkhalidrmp@gmail.com

جمیل مظہری کی شاعرانہ خصوصیات، مضمون نگار: اسلم رحمانی

اردو دنیا، مارچ 2025

جمیل مظہری (2ستمبر1904، 23جولائی 1979) کا نام اردوشاعری میں محتاج تعارف نہیں ہے۔ وہ باکمال شاعر تھے۔ان کی شاعری معنی آفرینی،جدت طرازی اورمتنوع مضامین کا احاطہ کرتی ہے۔ جمیل مظہری ان کم یاب و کامیاب شاعروں میں ہیں جن کی مقبولیت کا سبب فن کی سچائی اور تخلیقیت کی وہ سطح ہے جہاں تخلیق اور تخلیق کار اس طرح ہم آہنگ ہو جاتے ہیں کہ تخلیق اپنے خالق کا آئینہ اور تخلیق کار اپنی تخلیق کا عکس بن جاتا ہے۔

جمیل مظہری کی زبان سادہ اور عام فہم ہے۔ ان کی نظموں اور غزلوں میں انسانی جذبات کی گہرائی اور سچائی ہوتی ہے، جو قاری کے دل کو چھو لیتی ہے۔مظہری نے اپنی شاعری میں نئے اور منفرد موضوعات کو چھیڑا ہے، جیسے محبت، زندگی کے مسائل اور معاشرتی موضوعات۔ ان کی شاعری میں خوبصورت تصویریں اور تشبیہیں ہوتی ہیں، جو قاری کو ایک نئے تجربے میں لے جاتی ہیں۔ ان کا رومانی انداز اور محبت کی خوبصورت تعبیرات انھیں خاص مقام عطا کرتی ہیں۔یہ عوامل مل کر جمیل مظہری کی شاعری کو مقبول بناتے ہیں، اور اردو ادب میں ایک اہم مقام عطا کرتے ہیں۔

جمیل مظہری کا ایک نمایاں وصف ان کی بہت سی غزلوں کا بے حد ذاتی ہوتے ہوئے بھی غیر ذاتی ہونا ہے۔ انھوں نے جو کچھ کہا وہ اکثر ان کے اپنے ذاتی در د و داغ کی داستان ہے، اس لیے اس میں تجربے کی سچائی اور جذبے کی وہ گرمی موجود ہے جو فرد کے نجی اوصاف کی مرہون منت ہوتی ہے۔ فنکاری یہ ہے کہ وہ اپنے ذاتی تجربے میں قاری و سامع کو اس طرح شریک رکھتے ہیں کہ وہ درد اس کو اپنا سا محسوس ہوتا ہے۔ شاعرانہ فنکاری کا مطلب ہے شاعری میں تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال۔ اس میں چند اہم عناصر شامل ہیں:

(الف )  زبان اور الفاظ کا انتخاب: شاعر کو الفاظ کا ایسا انتخاب کرنا ہوتا ہے جو جذبات اور خیالات کو بہتر انداز میں پیش کرے۔

(ب)  تخیل: شاعر اپنے خیالات کو منفرد اور جاذب نظر انداز میں پیش کرنے کے لیے تخیل کا استعمال کرتا ہے۔

(ج)  غنائیت اور موسیقیت:   شاعری میں ایک خاص ردم اور قافیہ کی اہمیت ہوتی ہے جو اسے موسیقی کی طرح جاذب بناتی ہے۔

(د)  پیکر تراشی:  شاعری میں الفاظ کے ذریعے بصری، سمعی یا حسی تجربات کو زندہ کرنا، تاکہ پڑھنے والا احساسات میں ڈوب جائے۔

(ہ)  مضامین اور موضوعات:شاعری میں مختلف موضوعات جیسے محبت، فطرت، زندگی، موت وغیرہ کو پیش کیا جاتا ہے۔

یہ عناصر مل کر شاعری کو ایک منفرد اور دلکش شکل دیتے ہیں، جو پڑھنے والوں کے دلوں کو چھو لیتی ہے۔ جب ہم جمیل مظہری کی شاعری بالخصوص غزلوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کی شاعری فنکارانہ معیار پر کھری اترتی ہے۔عام طور پر شاعری میں اور خاص طور پر غزل اور نظم میں فکر کی صلابت اور جذبے کی حلاوت کا متناسب امتزاج قائم رکھنا آسان نہیں ہے۔ صلابت کا مطلب ہے مضبوطی اور ثابت قدمی، جبکہ توانائی زندگی کی شدت اور جوش و خروش کی علامت ہے۔غزل میں یہ عناصر عشق، جدوجہد، اور استقامت کے ساتھ مل کر گہرائی اور اثر پیدا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، عشق میں صلابت کا اظہار وفاداری اور عزم کے ذریعے ہوتا ہے، جبکہ توانائی اس عشق کی شدت اور خلوص کو اجاگر کرتی ہے۔یہ دونوں کیفیتیں شاعر کی تخلیق میں ایک خاص چاشنی اور اثر پیدا کرتی ہیں، جو قاری کو متاثر کرتی ہیں اور زندگی کی حقیقتوں کا سامنا کرنے کی ہمت دیتی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ جمیل مظہری نے یہ مراحل شخصی تہہ داریوں اور تخلیقی باریکیوں کے ساتھ کامیابی سے طے کیے ہیں۔ ورنہ غزل اور نظم میں  دانشوری  کے اتنے سراب زدہ مواقع آتے ہیں کہ اگر دل دردمند، ظرف تربیت یافتہ، جذبہ سچا، زبان، متعلقات زبان پر عبور اور آنکھوں میں خواب نہ ہوں تو نہ  شعر کے  کلام موزوں بننے میں دیر لگتی ہے اور نہ آدمی کے نام نہاد نقاد بننے میں۔ مسائل و مقاصد کو ذات میں جذب کرکے جس شعری سطح پر جمیل مظہری نے غزلوں اور نظموں میں نبھایا ہے اس کی مثال شاعری کے موجودہ منظر نامے میں خال خال ہی ہے بطور مثال چند اشعار ملاحظہ فرمائیں        ؎

بس ایک احساس نارسائی نہ جوش اس میں نہ ہوش اس کو

جنوں پہ حالت ربودگی کی خرد پہ عالم غنودگی کا

ہے روح تاریکیوں میں حیراں بجھا ہوا ہے چراغ منزل

کہیں سر راہ یہ مسافر پٹک نہ دے بوجھ زندگی کا

خدا کی رحمت پہ بھول بیٹھوں یہی نہ معنی ہے اس کے واعظ

وہ ابر کا منتظر کھڑا ہو مکان جلتا ہو جب کسی کا

وہ لاکھ جھکوا لے سر کو میرے مگر یہ دل اب نہیں جھکے گا

کہ کبریائی سے بھی زیادہ مزاج نازک ہے بندگی کا

جمیل حیرت میں ہے زمانہ مرے تغزل کی مفلسی پر

نہ جذبۂ اجتبائے رضوی نہ کیف پرویز شاہدی کا

جمیل مظہری کے شعری فن پاروں میں معاشرتی بحران کا انعکاس بخوبی ہوا ہے۔ انھوں نے موجودہ دور کا انتشار، اضطراب، تجسس، ہیجان اور پیچیدگیاں شعوری اور لا شعوری طور پربرتا ہے۔ جمیل مظہری نہ صرف ادبی حسن رکھتے ہیں بلکہ معاشرتی مسائل کی گہرائی میں جا کر ان کی تشریح کرتے ہیں، جو کہ معاشرتی بحران کی صورت حال کی عکاسی ہے۔ ان نظموں میں بیان کی خطابت نہیں بلکہ اظہار کی صلابت ہے۔کیونکہ ان کی شاعری چکاچوندھ سے پاک ہے۔چکا چوندھ سے پاک شاعری کا مطلب ہے ایسی شاعری جو سادگی،  شفافیت اور خلوص پر مبنی ہو۔ اس میں الفاظ کی بھاری بھرکم استعمال سے گریز کیا جاتا ہے، اور خیال کی وضاحت اور صفائی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس طرح کی شاعری میں انسانی جذبات، تجربات اور حقیقتوں کی عکاسی کی جاتی ہے، جس میں گہرائی ہوتی ہے لیکن پیچیدگی نہیں۔

جمیل مظہری نے اپنی شاعری میں عمیق احساسات کو سادہ اور مؤثر انداز میں پیش کیا ہے۔ان کی شاعری کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ غزل کے روایتی مضامین اور خاص کر معاملہ بندی اور وادیِ عشق کے عامیانہ موضوعات ان کے یہاں نہیں ہیں۔  چند اشعار ملاحظہ فرمائیں            ؎

خلاف رسم تغزل غزل سرا ہوں میں

رباب وقت کی بگڑی ہوئی صدا ہوں میں

فضائیں دیں نہ جگہ میری بے قراری کو

ہوائیں مجھ کو سلا دیں کہ جاگتا ہوں میں

جمیل خنکیِ مرہم کا میں نہیں قائل

جراحتوں کو نمک داں دکھا رہا ہوں میں

جمیل مظہری کی شاعری میں ان کا اندازعموما قدرے انفرادی ہوتا ہے اوران کے تخلیقی وجدان میں حقیقت پسندی کی جو فکری سر شاری ہوتی ہے وہ ان کی شاعری میں بالکل نئی اور عجیب و غریب اہمیت کی حامل بنتی محسوس ہوتی ہے۔اور اسی سے ان کی شاعری میں زندگی کی حرارت اور توانائی بھی پیدا ہوتی ہے۔

مظہری کی شاعری میں بھی حرارت اور توانائی ہے، ان کی نظم نگاری ہو یا غزل گوئی ان کے یہاں صرف الفاظ کی اداکارانہ ترتیب اور قافیہ پیمائی کا نام شاعری نہیں ہے بلکہ فکر و تخیل،تجربات و مشاہدات اور احساسات وجذبات کے تخلیقی حسن کے ساتھ فنی اظہار کا نام شاعری ہے اور ہر اچھی اور قابل قدر شاعری میں ان خصوصیات کا ہونا ناگریز بھی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ فکری ریاضت اور فنی مزاولت بھی شاعر کے لیے درکار ہوتی ہے،کیونکہ شاعری لفظوں میں زندگی کی حرارت اور اندرونی سوز کی آنچ لفظی پیکروں میں ڈھال دینے سے وجود میں آتی ہے اور یہ وہ اوصاف ہیں جو فکری اور فنی زرخیزی کے ساتھ تہذیب اور تمدنی روایات و اقدار اور عرفان کے بغیر ممکن نہیں ہوتی ہیں۔یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ ماضی کے عرفان،حال کی معرفت اور مستقبل کے امکان سے شاعری میں حیرت انگیزی، کشش،جاذبیت،اور تاثیر در آتی ہے اور شاعری کے ان تمام اسرار و رموز سے جمیل مظہری پورے طور پر واقف نظر آتے ہیں۔ان کے لفظوں میں، خیالات کے ارتقا میں جو ربط و تسلسل ہوتا ہے وہ دراصل زندگی کے ماضی حال اور مستقبل کے ربط و تسلسل سے عبارت ہوتا ہے۔اس لیے ان کی غزلوں کی معنویت میں بھی ایک مخصوص قسم کی ضابطگی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے اپنی غزل کو روایتی لہجے اور لفظیات سے الگ رکھا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں          ؎

بہت مشکل ہے پاس لذت درد جگر کرنا

کسی سے عشق کرنا اور وہ بھی عمر بھر کرنا

سر محفل ترا وہ پرسش زخم جگر کرنا

مری جانب بمشکل اک نظر کرنا مگر کرنا

مسلّم ہو گئی ہے بے اختیاری جذب باطن کی

محبت اس سے کرنا جس سے نفرت اس قدر کرنا

بڑھا کر ہاتھ تارے آسماں سے کون توڑے گا

جمیل اک کار ناممکن ہے تقلید قمر کرنا

جہاں تک بات جمیل مظہری کی شاعری کے فنی اوصاف کی ہے تو ان کے کلام کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ کلام میں تراکیب، مغلق الفاظ اور اضافت کی کثر ت سے گزرتے ہیں۔ تشبیہات و استعارات کا نظام بھی بہت ہی فطری ہے۔ الفاظ نہایت سادہ اور عام فہم ہیں۔ الفاظ کی نشست میں فنکاری ملتی ہے۔ کلام میں روانی اور سوز وگداز بہت ہے۔یہاں تک کہ اکثر اشعاراپنی بے ساختگی اور روانی کی وجہ سے ضرب المثل بن چکے ہیں۔ سہل ممتنع کی بیشتر مثالیں ان کے کلام میں جا بجا دیکھنے کو ملتی ہیں۔ حالانکہ سادگی کے باوجود معنی کی بلندی اور تاثیر کلام ہاتھ سے نہیں جاتی، زبان کی سلاست، کلام کی پختگی اور مضامین کی بہتات نے بجا طو رپر انھیں استاد کا مرتبہ عطا کیا ہے۔ ان کی شاعری میں مختلف شعری فنون کا خوبصورت استعمال دیکھا جا سکتا ہے۔ان کی غزلوں کی فنی خصوصیات میں کئی اہم عناصر شامل ہیں:

.1            موضوعات کی وسعت: ان کی غزلیں انسانی جذبات، عشق، وطن، فلسفہ اور خودی جیسے موضوعات پر مشتمل ہیں۔ ان کی شاعری میں روحانی اور معاشرتی پہلوؤں کی جھلک ملتی ہے۔

.2            تشبیہات و استعارات:  ان کی شاعری میں تشبیہات اور استعارے کی خوبصورتی نمایاں ہے۔ وہ قدرتی مناظر، تاریخی شخصیات اور فلسفیانہ تصورات کو استعمال کرتے ہیں۔

.3            موسیقیت: ان کی غزلوں میں ایک خاص قسم کی موسیقیت ہے، جو پڑھنے یا سننے میں دلکش لگتی ہے۔ اس کے لیے وہ مخصوص بحر اور قافیہ بندی کا خیال رکھتے ہیں۔

.4            خودی کا تصور: ان کی شاعری میں اقبال کی طرح ’خودی‘کا  فلسفہ بھی نمایاں ہے، جو خود اعتمادی اور خود شناسی کی ترغیب دیتا ہے۔

.5              زبان و بیان: ان کی زبان میں سادگی اور پیچیدگی کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ ان کا اسلوب بامحاورہ اور عمیق ہوتا ہے، جس میں فلسفیانہ نکتہ چینی کی جھلک ملتی ہے۔

.6            نئے تجربات: انھوں نے روایتی غزل کی حدود کو توڑ کر نئے تجربات کیے، جیسے جدید خیالات اور متنوع شکلوں کا استعمال۔

یہ فنی خصوصیات جمیل مظہری کی شاعری بالخصوص غزلوں کو منفرد بناتی ہیں اور ان کے شاعری کے عالمی معیار کو بلند کرتی ہیں۔ اشعار دیکھیں         ؎

کہو نہ یہ کہ محبت ہے تیرگی سے مجھے

ڈرا دیا ہے پتنگوں نے روشنی سے مجھے

سفینہ شوق کا اب کے جو ڈوب کر ابھرا

نکال لے گیا دریائے بے خودی سے مجھے

ہے میری آنکھ میں اب تک وہی سفر کا غبار

ملا جو راہ میں صحرائے آگہی سے مجھے

خرد انہی سے بناتی ہے رہبری کا مزاج

یہ تجربے جو میسر ہیں گمرہی سے مجھے

شاعری میں اضطراب ایک معیاری موضوع ہے، جو شاعر کے ذہنی اور جذباتی حالات کی عکاسی کرتا ہے۔

ادب کی تنقید میں اضطراب کی کیفیت کو اکثر اہمیت دی جاتی ہے، کیونکہ یہ انسانی جذبات کی پیچیدگیوں کو سمجھنے میں مددگار ہوتی ہے۔شاعری میں اضطراب انسانی تجربات کی عکاسی کرتا ہے، اور یہ ایک ایسا عنصر ہے جو قاری کو شاعر کی داخلی دنیا میں داخل ہونے کی دعوت دیتا ہے۔کچھ مشہور شعرا جیسے غالب، اقبال، اور فیض احمد فیض نے اضطراب کو اپنے کلام میں باریک بینی سے بیان کیا ہے، جو انسانی تجربات کی پیچیدگیوں کو واضح کرتا ہے۔اسی طرح جمیل مظہری کی شاعری میں بھی اضطراب ایک مرکزی موضوع ہے جو ان کی اندرونی کشمکش اور زندگی کی تلخیوں کو نمایاں کرتا ہے۔ ان کی نظموں میں زندگی کی بے یقینی، عشق کی ناکامی، اور وجود کی تلاش کے عناصر ملتے ہیں۔ پروفیسر وہاب اشرفی لکھتے ہیں کہ:

’’جمیل مظہری کی نظموں میں اضطراب اور الجھن کی کیفیت نمایاں ہے۔ یہ اضطراب ان کی تشکیک کا نتیجہ ہے۔‘‘

(ذکر جمیل،ناشر خدابخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ، ص 45)

مظہری کی غزلوں میں اکثر ایسے لمحات پیش کیے جاتے ہیں جہاں انسان اپنے احساسات کی گہرائیوں میں غرق ہوتا ہے، اور یہ اضطراب اس کی شناخت کا حصہ بن جاتا ہے۔ اور یہ اضطراب ان کی تشکیک کا نتیجہ ہے۔ اشرفی مزید لکھتے ہیں کہ:

’’جمیل مظہری کی تشکیک انھیں خون کی آنسو رلاتی ہے۔وہ مسلسل کرب اور کشمکش میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ان کا ہیجان انھیں کوئی منزل عطا نہیں کرتا بلکہ بیچ راستے میں ایک کھوئے ہوئے مسافر کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ وہ نتیجتا تشکیک ہی کے نہیں بلکہ تضادات کے بھی پیکر بن جاتے ہیں۔ انھوں نے اپنا تعارف خود اس طرح کرایا ہے   ؎

دو جمیل اک جمیل کے اندر

یہ تضاد اور یہ دوئی کیوں ہے

یعنی جب وہ ہے منکر ادیان

ذہن پھر اس کا مذہبی کیوں ہے

جمیل مظہری کی شاعری میں یہ اضطراب ایک ایسی قوت کے طور پر بھی نظر آتا ہے جو تخلیق کا باعث بنتا ہے، جہاں درد اور خوشی کی باریکیوں کو ایک ساتھ محسوس کیا جاتا ہے۔ اس طرح، جمیل مظہری کی شاعری میں اضطراب صرف ایک احساس نہیں بلکہ فن کا ایک حصہ بھی ہے۔ جمیل مظہری کے تعلق سے یہ نظریہ بھی مشہور ہے کہ وہ تشکیک کے شاعر ہیں اور یہی سبب ہے کہ ان کی شاعری کے متعلق قاری اپنے ذہن میں منفی رائے قائم کر لیتا ہے۔ جب کہ شاعری میں تشکیک ایک اہم موضوع ہے جو فلسفیانہ اور وجودی سوالات پر مبنی ہے۔

تشکیک شاعری میں گہرائی اور بصیرت کا ایک عنصر ہے، جو قاری کو نہ صرف متن کے بارے میں بلکہ زندگی کے بارے میں بھی غور کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ ایک ایسے سفر کی مانند ہے جہاں قاری نئے خیالات اور تجربات کی تلاش میں نکلتا ہے۔ جمیل مظہری کی شاعری میں تشکیکی رویے پر غور کرنے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ انہوں نے تشکیک کے موضوعات کو اپنے کلام میں بڑے موثر انداز میں پیش کیا ہے۔ ان کی شاعری میں الجھن کا عنصر بھی ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ ان کی شاعری میں فلسفیانہ سوالات، وجودی مشکلات اور انسانی تجربات کی پیچیدگیاں واضح ہوتی ہیں۔ وہ اپنی نظموں میں مختلف جذبات اور خیالات کو پیش کرتے ہیں، جو پڑھنے والے کو سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ مظہری کی شاعری میں الفاظ کا انتخاب اور تشبیہات کا استعمال اس الجھن کو مزید گہرا کرتا ہے، جس سے قاری کو ایک نئی بصیرت ملتی ہے۔ ان کے خیالات کی کثرت اور گہرائی ان کی تخلیقات کو خاص بنا دیتی ہے، جہاں کبھی زندگی کی سادگی اور کبھی اس کی پیچیدگیوں کو بیان کیا گیا ہے۔

 

Aslam Rahmani

P.O.:Ramna, Mohammadpur Kazi Musahri, Muzaffarpur-  842002 (Bihar)

Mob: 6201742128

Email: rahmaniaslam9@gmail.com 

تازہ اشاعت

گورکھپور کا گوہر نایاب: مسلم انصاری، مضمون نگار: ذاکر حسین ذاکر

  اردو دنیا، مارچ 2025 محی الدین انصاری موسوم بہ مسلم انصاری 1920- 2012کی ولادت گورکھپور کے ایک علمی خانوادے میں ہوئی تھی۔ان کے والد محمد خل...