3/3/25

اکبر الہ آبادی کی شاعری میں مشرق کا تصور، مضمون نگار: امیرحسن

 اردو دنیا، جنوری 2025


تجھے ہم شاعروں میں کیوں نا اکبر معتبر سمجھیں

بیاں ایسا کہ دل مانے زباں ایسی کہ سب سمجھیں

اکبر الہ آبادی دنیائے شاعر میں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ہندو پاک کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی اپنے مخصوص لب و لہجے کی وجہ سے کافی معروف ہیں۔ اکبر کی شاعری سے ہر خاص و عام واقف ہے۔ اکبرالہ آبادی کو وہ قدور منزلت نصیب نہ ہوئی جس کے وہ حقدار تھے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ رہی کہ ان کو صرف اور صرف طنز و مزاح کا شاعرتصور کیا گیا۔ لیکن اکبر کی شاعری ہمیں ایک تاریخ کی طرف اشارہ دیتی ہے۔ اس کے علاوہ اکبر کی شاعری ہندوستانی تہذیب و تمدن کی علمبردارہے۔

حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں کوئی قوم اپنی تہذیب و ثقافت اور روایات و واقعات سے پہچانی جاتی ہے۔ قومیں اپنے اوصاف کی بقا کے لیے بھر پور کوششیں کرتی ہیں۔ یقینا کسی بھی قوم کی بقا اورعظمت اس کی تہذیب اور ثقافت میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ دنیا کی تمام تر زندہ قومیں اپنی تہذیب اور روایتی ورثے سے بہت محبت کرتی ہیں اور اس کے لیے بڑی بڑی قربانیاں پیش کرتی ہیں۔

اکبر الہ آبادی نے عوامی ذہنیت کو پستی میں گرنے سے بچانے کی کوشش کی۔ نوآبادیاتی نظام یعنی (Neocolonialism) کے ذریعے ہونے والے نقصانات سے ہندوستانی عوام کو آگاہ کیا۔ اردو ادب کی پوری تاریخ میں اس  نوآبادیاتی نظام کے خلاف شعوری طور پرجن لوگوں نے رد عمل ظاہر کیا ان میںاکبرالہ آبادی کا نام سر فہرست ہے۔

 اکبر نے عوامی ذہنیت کو بلندی پر لے جانے کے لیے اور ان کو پستی سے باہر لانے کے لیے ضروری سمجھا کہ عوام کو آہستہ آہستہ ان کے برتر ہونے کا احساس دلایا جائے۔دوسری جانب انھوں نے نئے خیالات اور نئی فکر کو اپنی کڑی تنقید کی کسوٹی پر پرکھنا شروع کیا اور جہاں کہیں ان کی نگاہ میں کسی نئی فکر اور نئے خیالات میں مضر اثرات ابھرتے تو انہوں نے فوراً اپنی شاعری کی ذریعے سے ہندو ستا نیوں کو آگاہ کیا۔

ا کبر جب ہندوستانیوں کو مشرقی تہذیب وتمدن کے اوصاف سے خالی اور مغرب کی اندھی تقلید میںمبتلا دیکھتے تو ان کو مشرقی تہذیب و تمدن اور ثقافت و روایت ملیا میٹ ہوتی ہوئی دکھائی دیتی تھی۔ اکبر الہ آبادی مشرقی تہذیب وتمدن کے علمبر دار تھے۔ وہ محسوس کر رہے تھے کہ یہ چیز یں جو انگریزوں کی طرف سے آرہی ہیں یہ ہمارے لیے غلامی کی علامت ہیں۔ ریل، انجن ، بھاپ، برقی لیمپ، مشین ، کلیسا اور موٹر وغیرہ ان تمام چیزوں کو اکبر علامت کی سطح پر لے رہے تھے اور ان سب کو غلامی کی علامت سمجھ رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ان کے ذریعے ہمیں ذہنی طور پر غلام بنایا جا رہا ہے۔  اکبر الہ آبادی کو اس سے شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنی تہذیب کو خود ہی ملیا میٹ کرنے کا خوف ستار ہا تھا۔

شمس الرحمن فاروقی اکبرالہ آبادی کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ اکبر کی پہلی عظمت اس بات میں ہے کہ (مہاتما گاندھی اور اقبال دونوں نے مغرب اور اس کی تہذیب و تعلیم کو براہ راست اور بہت قریب سے دیکھا تھا) لیکن اکبر نے ملک کے باہر جائے بغیر اس تہذیب اور تعلیم کی علامتوں اور مضمرات کو سمجھ لیا۔‘‘

(اکبر الہ آبادی: نوآبادیاتی نظام اور عہد حاضر: شمس الرحمن فاروقی، ص 8)

اکبرالہ آبادی بنیادی طور پر مشرق پر ست تھے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مشرق ہی میں سب کچھ ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ ہر انسان کو اپنی پرانی چیزوں سے محبت ہوتی ہے اور اگر اکبر الہ آبادی نے مشرقی تہذیب وتمدن کے تحفظ کے لیے مغربی تہذیب و تمدن کو تسلیم کرنے سے انکا ر کیا ہے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے نقادوں نے اکبرالہ آبادی کو قدامت پرست اور نہ جانے کیا کیا کہا ہے۔ جدید تعلیم کے نام ہماری مشرقی تعلیم،  روحانی اقدار اورتہذیبی روایات کو کس طرح مٹایا اورتعلیم کو صرف مادیت پرستی کی طرف لے جایا جا رہا، ان امور کو پوری شدت کے ساتھ اکبر الہ آبادی نے اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔

اکبرکے تصور مشرق کو ان کے اشعار کی روشنی میں بہتر انداز سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اکبر الہ آبادی نے اپنے اشعار میں مشرق و مغرب کے تہذیبی اقدار ، تعلیمی نظام، نئے پرانے کی آمیزش اور تعلیم نسواں کو بڑی شدت کے ساتھ پیش کیا ہے        ؎

ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں

کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں

جب نئی تعلیم دی جانے لگی تونئی کتابیںیعنی نئے نصاب کی ضرورت بھی ہوئی۔ اس بات کی طرف اکبرنے اشارہ کیا ہے کہ ایسی کتابوں کوپڑھ کر بچے اپنے والدین کو پاگل، مجنوں اور خبطی سمجھنے لگتے ہیں اور ایسی کتابیں جن سے لوگوں کے ذہن اور سماجی اقدار میںتنزل آجائے تو انھیں ضبط کر لینا ہی بہترہے        ؎

شیخ مرحوم کا قول اب مجھے یاد آتا ہے

دل بدل جائیں گے تعلیم بدل جانے سے

مذکورہ شعر میں لفظ ’شیخ‘ کو ایک کردار بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ اکبر الہ آبادی شیخ کو مشرقی اقدارکے نمائندے کے طور پر پیش کرتے ہیں یعنی اپنی پرانی چیزوں پر چلنے والا۔ یہاں یہ کہا جارہا ہے کہ شیخ صاحب نے درست کہاتھاکہ تعلیم کے بدل جانے سے دل بھی بدل جاتے ہیں۔ تعلیم کے ذریعے سے انسان کوکسی بھی طرف موڑا جا سکتا ہے اس بات کو اکبر الہ آبادی بخوبی دیکھ اور سمجھ رہے تھے۔ اس کے برعکس یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ تعلیم انسانوں کے اذہان کو بدل دیتی ہے۔ اس کی جیتی جاگتی مثال ہمیں اپنے آس پاس دیکھنے کو مل جائے گی۔

اکبر الہ آبادی نے جہاں ایک طرف مشرقی تعلیمی نظام، مشرقی تہذیب و تمدن اور مشرقی روایات کو اپنی شاعری میں جگہ دی اور ان کے تحفظ کا بیڑا اٹھایا تو وہیں دوسری طرف مغربی تہذیب و تمدن کواپنی شاعری کے ذریعے سے طنز کا نشانہ بھی بنایا۔ اکبر الہ آبادی کی شاعری سے مشرقی تہذیب وتمدن کو سمجھا جا سکتا ہے      ؎

مل کا آٹا ہے نل کا پانی ہے

آب و دانہ کی حکمرانی ہے

بظاہر یہ بہت عجیب شعر معلوم ہوتا ہے لیکن اس شعر میں پورا تہذیبی  انہدام دیکھنے کو ملتاہے۔’ مل کا آٹا‘ یعنی چکی کے بجائے مشین کے ذریعے سے گیہوں پیسا جا رہا ہے۔ ’چکی‘ مشرقی تہذیب کا حصہ ہے۔ ’نل کا پانی‘، ہمارے یہاں قدیم دور میں نل کا تصور نہیں تھا بلکہ لوگ پانی حاصل کرنے کے لیے کنواں کا سہارا لیتے تھے۔ لیکن موجودہ دور میں ایسا نہیں ہے۔ کنویں کی تہذیب پورے طریقے سے مٹ چکی ہے۔ نل کے آجانے سے ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ پہلے ہم اپنی مرضی سے جب جی چاہا پانی نکال لیے، لیکن اب ہم کسی کے تابع ہوگئے      ؎

پائپ کوئی کھلا نہیں گھر میں لگی ہے آگ

اب بھاگنا ضرور ہوا غور کیا کریں

یہاں لفظ ’پائپ‘ کا استعمال شاعر نے طنزکے طور پر کیا ہے۔کیونکہ اس کے پس پردہ ہماری پوری کنویں کی تہذیب خطرے میں دکھائی دیتی ہے۔ بلکہ یہ کہاجا ئے تو غلط نہ ہو گا کہ کنویں کی تہذیب پورے ہند و ستانی سماج سے غا ئب ہو چکی ہے۔ پائپ سے پانی ایک وقت تک ہی آتا ہے، اس کے بعد بند ہو جاتا ہے۔ اس لیے شاعر طنز کستے ہوئے کہتا ہے کہ تمام پائپ بند ہیں اور گھر میں آگ لگی ہوئی ہے، اس پر قابو پانا مشکل ہے۔ دوسرے مصرعے میں اشارہ ہے کہ ایسی صورت حال میں اب انسان صرف ادھر ادھر ہی بھاگ سکتا ہے۔  وہ غور و فکر کرنے کے بھی پوزیشن میں نہیں ہوتا ہے۔ اگر کنواں ہوتاتوشاید آگ پر قابو پا لیا جاتا ہے، لیکن افسوس کہ پائپ کی وجہ سے کنویں کا وجود ہی ختم ہو چکا ہے۔

قمر الدین احمد بدایونی لکھتے ہیں کہ اکبر نے مذکورہ شعر کی تو جیہ حسب ذیل بیان کی ہے:

’’ اکبر نے فرمایا کہ تھوڑا عرصہ ہوا چوک کی دکان میں آگ لگ گئی۔ اس وقت پائپ بند ہونے کی وجہ سے رعایا کا سخت نقصان ہوا۔ میں نے مذکورہ شعر اس خیال سے متاثر ہو کر لکھا تھا۔ اگر اس وقت زمانۂ سابق کی طرح کنویں ہوتے تو آگ بر وقت قا بو میں لائی جا سکتی تھی۔ شہروں میں ترمیم دیکھو کہ حکمران طبقہ اور امرا سول لائن میں ہیں۔ غربا کے لیے زیست کے دن گزارنے کے واسطے شہر کے گندے گوشے علاحدہ ہیں۔ مراد اس سے یہی ہے کہ نہ امیر و غریب یکجا ہوں گے، نہ ایک دوسرے کے دکھ درد سے ہمدردی ہوگی۔‘‘

(بزم اکبر: مولوی قمرالدین بدایونی، ص 20)

اس کے علاوہ اکبر کے تعلق سے لوگوں کے درمیان یہ مشہور ہے کہ اکبر عورتوں کی تعلیم کے خلاف تھے۔ لیکن یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اکبر عورتوں کی تعلیم کے خلاف نہیں بلکہ وہ عورتوں کی آزادی کے خلاف تھے۔ اس آزادی کے خلاف تھے جس آزادی کی بات انگریز کرتے تھے۔ اس تعلیم کے خلاف تھے جس تعلیم کی بات انگریز کرتے تھے۔ ہمارے سماج میں عورتوںکو دیوی جیسے پاک لفظ سے پکارا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مشرقی تہذیب نے عورتوں کو ایک اعلیٰ مقام عطا کیا ہے۔ اس بات کو بھی اکبر کے کلام کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ کیا واقعی اکبر عورتوں کی تعلیم کے خلاف تھے یا صرف اور صرف اکبر کے ساتھ اس تہمت کو لگا دیا گیا ہے      ؎

 حامدہ چمکی نہ تھی انگلش سے جب بیگانہ تھی

اب ہے شمع انجمن پہلے چراغ خانہ تھی

جب تک حامدہ نے مغربی تعلیم حاصل نہیں کی تھی یعنی انگریزی نہیں سیکھی تھی، اس وقت تک اس کے چمکنے کا تصور ہی نہیں تھا، یعنی وہ گھر کا چراغ تھی، لیکن جب اس نے انگریزی کی تعلیم حاصل کرلی تووہ شمع انجمن ہونے لگی۔ محفل میں زیادہ اہمیت کی حامل بن گئی۔ ہماری مشرقی تہذیب میں لڑکیوں کو گھر کے چراغ کی مانندسمجھا جاتا ہے اور ان کو پردے میں رکھا جاتا ہے۔ لیکن انگریزی تعلیم کی وجہ سے آج کی تاریخ میں ہماری لڑکیاں شمع محفل بنی ہوئی ہیں۔ اس تعلیم نے ہمارے تہذیبی اقدار کو پامال کر دیا ہے        ؎

تعلیم دختراں سے یہ امید ہے ضرور

ناچے دلہن خوشی سے خود اپنی برات میں

مغربی تعلیم جولڑکیوں کو دی جا رہی ہے یا مغرب سے جو تعلیم ہمارے یہاں آئی ہوئی ہے، اس تعلیم سے صرف بے حیائی اور برائی کے علاوہ اچھائی کی امید نہیں کی جاسکتی ہے۔ جو دلہن ہے وہ خود اپنی شادی میں ناچ رہی ہے۔ ہمارے یہاں آج بھی لڑکیاں شادی کی بات سن کر شرم سے دور چلی جاتی ہیں، لیکن جب سے ہمارے یہاں کی لڑکیوں نے مغربی تعلیم حاصل کی ہے ان کے اندر سے شرم و حیا با لکل ختم ہو چکی ہے۔

مذکورہ بالا جو اکبر الہ آبادی کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس سے یہ بات ہرگز نہیں نکا لی جا سکتی ہے کہ اکبر عورتوںکی تعلیم کے خلاف تھے۔ بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اکبر اس تعلیم کے خلاف تھے جو معاشرے میں بے حیائی اور بے پردگی کو جنم دے۔ایک سچے اور محب قوم کی حیثیت سے اکبرالہ آبادی کی دور بیںاور گہری بصیرت ہر لحاظ سے قابل داد ہے۔ اکبر الہ آبادی نے مشرقی تہذیب و تمدن کی بقا کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے۔ ہر آنے والی مصیبتوں سے ہندوستانیوں کو بیدار کیا ہے۔ اس کے فوائد اور نقصانات کے بارے میں بتایا ہے۔ اکبرالہ آبادی انگریزوں کی چال بازیوں کے خلاف تھے۔ انھیں اس بات کا پورا احساس ہو گیا تھا کہ یہ لوگ ہماری صدیوں پرانی تہذیب وتمدن کو پامال کر دیں گے ،ہمیں غلامی کی زنجیر میں جکڑ دیں گے اور ہمیں ذہنی غلام بنا دیں گے اور یہی ہوا بھی کہ ہندوستانی قوم ایک طرح سے ذہنی غلامی کی زندگی بسر کر رہی ہے۔

 اکبر الہ آبادی کبھی بھی ترقی کے خلاف نہیں تھے۔ وہ اپنی شاعری کے ذریعے لوگوں کو بار بار توجہ دلا رہے ہیں کہ غلامی کی زندگی جینے سے بہتر ہے کہ کچھ صنعت و حرفت کی طرف توجہ دی جائے۔جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ موجودہ دور میں خاص طور سے نئی تعلیمی پالیسی میںVocational Education یعنی پیشہ ورانہ تعلیم کی طرف ہماری حکومتیں خاص توجہ کر رہی ہیں، جبکہ اس بات کی طرف اکبر نے پہلے ہی اپنے اشعار کے ذریعہ بتایا تھا کہ ہمیں ان چیزوں کو سیکھنے اور پڑھنے کی ضرورت ہے جو کہ نا صرف ناموری کا ذریعہ ہوں بلکہ ان سے زندگی کو با مقصد اور آسان بھی بنایا جا سکے۔ نظم کا ایک ٹکڑا ملاحظہ ہو، جس میں وہ نوجوانوں کو صاف صاف تلقین کرتے ہوئے نظر آتے ہیں         ؎

وہ باتیں جن سے قومیں ہو رہی ہیں نامور سیکھو

اٹھو تہذیب سیکھو، صنعتیں سیکھو، ہنر سیکھو

بڑھائو تجربے اطراف دنیا میں سفر سیکھو

خواص خشک و تر سیکھو، علوم بحر و بر سیکھو

اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اکبر الہ آبادی کی شاعری ہندوستانی تہذیبی اقدار کا نوحہ ہے۔ اکبر کی اسی ناقدانہ بصیرت اور ماضی و مستقبل شناسی کے مد نظر انھیں ایک عہد ساز شاعر قرار دیا جا سکتا ہے۔

 

Ameer Hasan

Research Scholar

Jamia Millia Islamia

New Delhi- 110025

Mob.: 7503551548

ameerhasan2013@gmail.com

 

جلال لکھنوی کی غیر مطبوعہ داستان بالا باختر: ایک تعارف، مضمون نگار: محمد سعید اختر

 اردو دنیا، جنوری 2025

جلال لکھنوی (1834-1909) کا شمار اردو کے ممتاز شعرا میں ہوتا ہے۔ شاعری کے علاوہ  لغت نویسی، تاریخ گوئی اورزبان دانی کے حوالے سے بھی ان کی اہم خدمات ہیں۔ جلال لکھنوی کو بچپن ہی سے شعرو شاعری کا شوق تھا ، جب مصرع موزوں کرنے لگے تو انھوں نے امیر علی خاں ہلال کواپنا استاد بنایا۔ اس کے بعد میر علی اوسط رشک اور آخر میں فتح الدولہ برق کے شاگرد ہوئے۔ مشاقی اور مہارت نے بہت جلد انھیں استاد شاعر کا رتبہ دے دیا۔یہاں تک کہ لوگ جلال لکھنوی سے مشورہ سخن کرنے لگے، اس زمانے کے کئی نامور شعرا جن میں آرزو لکھنوی کا نام سب سے نمایاں ہے جلال کے شاگرد ہوئے۔ اس کے علاوہ یاس لکھنوی، احسان علی خاں احسان شاہجہانپوری، وغیرہ ان کے شاگردوں میں شامل ہیں۔

جلال لکھنوی کی ایک داستان جو ’داستان بالا باختر‘ کے نام سے موسوم ہے ہنوز غیر مطبوعہ ہے۔ یہ داستان رضا لائبریری رامپور میں موجود ہے۔ جلال ایک بلند پایہ شاعر ہونے کے ساتھ داستان نویسی میں بھی ممتاز درجہ رکھتے تھے۔ ’داستان بالا باختر‘ تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ لائبریری کا کیٹلاگ نمبر399۔400،401ہے۔

 جلال لکھنوی بطور شاعر مشہور ہیں۔ لکھنؤ کے ممتاز شاعروں میں انھیں شمار کیا جاتا ہے۔ دربار رامپور سے وابستگی نے انھیں مزید شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا۔ امیر مینائی اور داغ کی صحبتوں نے فکرو فن کو مزید جلا بخشی، لیکن اس کے علاوہ بھی جلال کی ایک دنیا تھی جن پر کم توجہ دی گئی۔ جلال کی ایک حیثیت داستان گو کی ہے، رامپور انھیں اسی لیے بلایا گیا تھا، ان کے والد حکیم میر اصغر علی خاں کی دربار رامپور سے وابستگی داستان گو کے طور پر تھی، جلال بھی اسی حیثیت سے وہاں وابستہ ہوئے۔ رازیزدانی کے بقول:

’’واقعہ یہ ہے کہ جلال کے والد حکیم میر اصغر علی خان داستان گو دربار رامپور میں داستان گو کی حیثیت سے ملازم تھے۔چنانچہ رضا لائبریری رامپور کے قلمی داستانوں کے ذخیرے میں ترجمہ ایرج نامہ اس تفصیل سے یہ پہلی جلد 365 صفحوں میں دوسری جلد 351 میں تیسری 340 صفحہ قلمی 336 صفحہ قلمی اور پانچویں جلد 302 صفحہ قلمی ان کے نام سے موجود ہیں۔ اور پانچویں جلد کے آخر میں یہ عبارت درج ہے:

’’تمام شد ایرج نامہ درزبان اردو بحسن سعی احقرالعباد ہیچ مداں کج مج بیان حکیم سید اصغر علی داستان گو بحکم نواب معلی القاب محمد کلب علی خاں بہادر دام اقبالہ بروز جمعہ داد از دہم ذی الحجہ 1285ھ‘‘۔

اور بالا باختر کا ترجمہ تین جلدوں میں اس تفصیل سے ہے کہ پہلی جلد صفحہ 375 قلمی دوسری جلد قلمی صفحات 288 اور تیسری جلد قلمی صفحہ 215 حکیم سید ضامن علی جلال کے نام سے موجود ہے۔‘‘1

داستان بالا باختر چونکہ قلمی ہے اس لیے اس کے مطالعے اور تعارف کی باقاعدہ کوئی شکل نہیں ہے، چند سطروں میں تعارف یا داستان کے سلسلے میں کوئی بات ملتی ہے۔ پروفیسر محمد حسن نے داستان بالا باختر پر صرف اتنا لکھنے پر ہی اکتفا کیا ہے۔ اقتباس ملاحظہ کریں :

’داستان بالاباختر‘ پر بحث کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے فن داستان گوئی پر بحث کی جائے اور اس کی روشنی میں جلال کے کمالات کا جائزہ لیا جائے۔ لیکن یہ ہمارے دائرۂ بحث سے خارج ہے۔ اس لیے ان کی داستان کا تذکرہ صرف اس حیثیت سے کیا گیا ہے کہ یہ بھی جلال کی ہمہ گیرشخصیت میں ایک اور پہلو کا اضافہ کرتی ہے۔‘‘2

ڈاکٹر سہیل بخاری جلال لکھنوی کی داستان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:

’’انھوں (جلال لکھنوی)نینواب کلب علی خاں کے عہد میں بالا باختر کی تین جلدیں بھی تحریر کی تھیں، پہلی جلد میں 376،دوسری جلد میں 288،تیسری جلد میں 215 اوراق ہیں۔اور تقطیع تمام جلدوں کی ساڑھے گیارہ او ر ساڑھے سات ہے۔ ان جلدوں کا ایک ایک قلمی نسخہ کتب خانہ عالیہ رامپور میں محفوظ ہے۔ 3

جلال لکھنوی نے نواب عالی جاہ یوسف علی خاں کی فرمائش پر اس داستان کو اردو قالب میں ڈھالا تھا۔ پہلی جلد میں 375ورق اور 750صفحات ہیں۔ دوسری جلد 288ورق اور 576صفحات پر مشتمل ہے۔تیسری جلد 215ورق اور 430صفحات پر مشتمل ہے۔ ان تینوں جلدوں کے کاتب خود جلال لکھنوی ہیں۔ گیان چند جین نے لکھا ہے کہ دو جلدوں کا ترجمہ جلال لکھنوی نے کیا تھا اور تیسری جلد ان کے والد حکیم میر اصغر علی نے مکمل کی تھی۔4 لیکن رضا لائبریری رامپورمیں موجود کسی بھی نسخے سے یہ ظاہر نہیں ہوتا ہے کہ اس داستان کے مولف حکیم میر اصغر علی ہیں۔ ممکن ہے کہ گیان چند جین کی نظر سے ساری جلدیں نہ گزری ہوں۔

جلال لکھنوی کی داستان نویسی پر کسی کی کوئی تحریر یا رائے اب تک سامنے نہیں آسکی ہے۔ ابھی تک داستانوں کے بہت سے مطالعے کیے جاچکے ہیں مگر قلمی داستانوں کا ایسا کوئی مطالعہ سامنے نہیں آیا ہے جس میں جلال لکھنوی کی داستان کو موضوع بحث بنایا گیا ہو۔ رازیزدانی، گیان چند جین اور ڈاکٹر سہیل بخاری نے جلال لکھنوی کی داستا ن گوئی پر ضمناً بحث کی ہے۔ رامپور رضا لائبریری کے کتب خانے میںجلال لکھنوی کہ یہ داستان غیر مطبوعہ کیٹلاگ میں موجود ہے۔ان کا ایک اور نثری رسالہ جو عروض و قوافی کے نام سے جانا جاتا ہے وہ بھی کتب خانے میں موجود ہے۔

جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ جلال لکھنوی کے والد حکیم میر اصغر علی (وفات1296ھ) داستان گو کی حیثیت سے پہلے سے ہی اپنی شناخت قائم کر چکے تھے۔  نواب آصف الدولہ کے دربارسے بحیثیت داستان گو وابستہ ہوئے۔نواب محمد سعید خاں  (1840-1855)  کے دور حکومت میں رامپور آئے اور رامپوردربار سے ان کا انسلاک بھی داستان گو کے طور پر ہی رہا۔گیان چند جین جو داستان شناس کے طور پر جانے جاتے ہیں انھوں نے اپنی کتاب (اردو کی نثری داستانیں)میں جلال کے والد میر اصغر علی کی داستانوں کی ایک فہرست درج کی ہے، اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ میر اصغر علی نے فارسی میں بھی داستانیں لکھی ہیں۔ ان داستانوں کی فہرست حسب ذیل ہیں۔

1        داستان امیر حمزہ ثانی نامکمل،

2        صندلی نامہ دو جلد مع تورج نامہ مکتوبہ 1265ھ م1848

3        داستان صاحب قران سکندر ثانی دفتر ہفتم مسمی بہ رعدالغیب مکتوبہ 1268ھ

میر اصغر علی کی فارسی تصانیف سے کہیں زیادہ اہم اردو تصانیف ہیں جو مندر جہ ذیل ہیں:

1        قصہ روشن جمال تصنیف 1273ھ158ورق واجد علی شاہ کی خدمت میں پیش کیا گیا تھا۔

2        قصہ سیم تن وپری پیکر 62ورق غالباً واجد علی شاہ کی مثنوی افسانۂ عشق کی داستان ہے۔ افسانۂ عشق کے ہیرو اور اس کی محبوبہ کانام سیم تن و پری پیکر تھا۔

3        داستان غزالہ 50ورق واجد علی شاہ کی مثنوی دریائے تعشق کا قصہ۔

4        قصۂ ماہ پروین۔55ورق۔ واجد علی شا ہ کی مثنوی بحر الفت سے مرتب۔

مندرجہ بالا چاروں قصوں کا داستان امیر حمزہ یا رامپور سے کوئی تعلق نہیں۔ حمزہ کے سلسلے میں انھوں نے ذیل کی اردو داستانیں لکھیں :

5        ایرج نامہ5جلد تصنیف1868م1285ھ

6        داستان دریائے نیل و نیلم جادو و لوح گرفتن از متعلقہ ہوشربا ضخیم۔

7        داستان شمالیہ باختر

فہرست کے بعد پروفیسر گیان چند جین نے یہ بھی وضاحت کر دی ہے کہ:

’’ان کے علاوہ بوستان خیال کے سلسلے میں انھوں نے طلسم ہفت کواکب لکھی۔ ایرج نامے کے دیباچے سے معلوم ہوتا ہے کہ نواب کلب علی خاں نے داستان امیر حمزہ کے دفتر اردو میں لکھانا چاہے تو نو شیرواں نامہ منشی انبا پرشاد کے سپرد کیا اور ایرج نامہ اصغر علی کودیا۔‘‘5

جلال کے والد نے داستانوی ادب میں جو کارنامے انجام دیے ہیں ان پر ابھی کوئی باقاعدہ کام نہیں ہو سکا ہے۔ امید ہے کہ آئندہ اس پر توجہ دی جائے گی۔

’داستان بالاباختر‘داستان امیر حمزہ صاحب قران کا دفتر سوم ہے۔جس کا اردو ترجمہ جلال لکھنوی نے رامپور میں کیا تھا۔اس کے مطالعے سے ایک اہم بات یہ سامنے آتی ہے کہ جلال لکھنوی کی داستان ’بالاباختر‘ (غیر مطبوعہ)اور شیخ تصدق حسین کی داستان ’بالاباختر‘ (مطبوعہ) دونوں ایک ہی فارسی داستان کا اردو ترجمہ ہیں اور اس کا خالق ابوالفیض فیضی ہے جو جلال الدین محمد اکبر کے زمانے میں موجود تھا۔ ان دونوں داستانوں کی کہانی اور کردار ایک دوسرے سے اس طرح مماثلت رکھتے ہیں کہ پڑھنے والا بغیر کسی عذر کے یہ کہنے پر مجبور ہوجائے گا کہ یہ دونوں کسی ایک فارسی داستان کا اردو ترجمہ ہیں۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے شیخ تصدق حسین کی داستان ’بالا باختر‘ مطبوعہ کا تجزیہ اپنی کتاب’ساحری، شاہی،صاحب قرانی داستان امیر حمزہ کا مطالعہ، جلد چہارم:داستان دنیا (1) میں کیا ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے اندازہ لگانا زیادہ آسان ہوجاتا ہے کہ ان دونوں داستانوں میں مماثلت کہاں تک ہے۔ فاروقی نے ساحری، شاہی، صاحب قرانی (داستان امیر حمزہ کا مطالعہ جلد اول:نظری مباحث )میں طلسم گوہر بار کا ذکر کرتے ہوئے جلال لکھنوی کی داستان کے بارے میں یہ لکھا ہے کہ :

’’اسی ایڈیشن کے صفحہ 19 پر محمد سلیم الرحمن نے اس داستان کی طباعت اول کے سر ورق پر نقل چھاپی ہے۔ ا س سے اس کی تاریخ اشاعت 1887 معلوم ہوتی ہے۔ شیخ تصدق حسین کی بالا باختر اول بار 1899 میں چھپی۔ محمد سلیم الرحمن نے لکھا ہے کہ اس داستان کو ایک جلد میں انبا پرساد رسا نے ، اور تین جلدوں میں ضامن علی جلال نے بھی لکھا ہے۔ یہ ہنوز غیر مطبوعہ ہیں۔ 6

اس اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جلال لکھنوی اور شیخ تصدق حسین کی داستان(بالاباختردفتر سوم داستان امیر حمزہ صاحب قران)ایک ہی فارسی داستان کا دو اردو ترجمہ ہیں اور جب ہم شیخ تصدق حسین کی داستان کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ دونوں داستانیں ایک ہی داستان گو نے کہی ہے۔ جلال لکھنوی نے تو اس بارے میں کچھ بھی نہیںلکھا ہے لیکن شیخ تصدق حسین نے اس داستان سے متعلق بعض باتوں کی تفصیل بیان کر دی ہے۔ان کے مطابق یہ داستان اکبر بادشاہ کے زمانے میں لکھی گئی تھی۔ مشہور داستان گو فیضی نے اسے فارسی قالب میں ڈھالا تھا۔ شیخ تصدق حسین نے بالاباختر کا اردو ترجمہ (مطبوعہ)صرف ایک جلد میں کیاہے جب کہ جلال لکھنوی کا اردو ترجمہ (غیر مطبوعہ) تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ بالاباختر (شیخ تصدق حسین) کے ابتدائی صفحات پر مطبع کی طرف سے( منشی نولکشور کانپور) داستان بالاباخترکے بارے میں یہ لکھا ہے :

’’تمام زمانہ پر واضح ہے کہ داستان امیر حمزہ صاحب قران وہ وادی ناپیدا کنار ہے جس کی بالا دوی میں پیک خیال بھی معترف بہ عجز و قصور ہے جن حضرات شائقین نے ان داستانوں کو سنایا ملاحظہ فرمایا ہے وہ کما حقہ واقف و آگاہ ہیں کہ یہ داستانیں برسوں میں بھی تمام نہیں ہوتیں الحق کہ ان کے اصول فارسی کے مصنف ہمہ دان شیخ ابوالفیض فیضی نے جو ان داستانوں کو واسطے تفریح طبع جلال الدین محمد اکبر بادشاہ کے اس قدر وسیع البیانی اور نازک خیالی کے ساتھ تصنیف فرمایا کس قدر جانکاہی کی ہوگی۔اس داستان کے آٹھ دفتر ہیں اور بعض دفتر کئی جلدوں پر مشتمل ہیں حسب ذیل ہیں۔

اول:نوشیرواں نامہ:2 جلد

دوم:کوچک باختر:1جلد

سوم: بالاباختر:1جلد

چہارم:ایرج نامہ:2جلد

پنجم: طلسم ہوشربا،7 جلد

ششم:صندلی نامہ:1جلد

ہفتم: تورج نامہ:2جلد

ہشتم:لال نامہ:1جلد

...مذکورہ بالا دفتربالاباختر جو داستان کا دفتر سوم ہے اور جس کو بلبل ہزار داستان شاخسار بلاغت گل سر سبد چمنستان فصاحت ماہر خوش بیان کامل شیرین زبان تصدق حسین صاحب داستان گو نے حسب تحریک شیخ حامد حسین صاحب از جانب مطبع نولکشور بڑی محنت و مشقت سے بزبان اردو نہایت فصیح و بلیغ ترجمہ فرمایا)۔‘‘7

شیخ تصدق حسین کو سن شعور سے ہی داستان گوئی کا شوق تھا۔ داستان بالا باختر نے اس شوق کو مہمیز کرنے کا کام کیا۔ وہ داستان کے مقدمے میں سبب تالیف کے سلسلے میں رقم طراز ہیں :

’’شیخ تصدق حسین داستا ن گو خدمت ناظرین باتمکین میں بصد ادب ملتمس ہے کہ اس حقیر پر تقصیر کو ابتدائے سن شعور سے داستان گوئی کا شوق تھا اور ماہرین اس فن کی خدمت گذاری میں بسر کرتا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اگر چہ کم مایگی اور عدم لیاقت علمی سد راہ شہرت وترقی تھی تاہم امرا ورئوسادیگر صنادید شہر نے اپنی عالی ہمتی اور حقیر نوازی سے اس کج مج زبان کے بیا ن کو پسند فرمایا اور بمو جب المرء یقیس علیٰ نفسہ اچھے لوگ بھی اس روالخلائق کو اچھا سمجھنے لگے۔ ...امیر با اقبال رئیس با جاہ و جلال شریف و شریف پرور قدردان اہل علم و ہنر زیب و سادہ بہت و برتری مسند نشین بزم حشمت و بہتری عالی جناب معلیٰ القاب جناب منشی نولکشور صاحب سی آئی ای منشی شیخ حامد حسین کے یہ حکم صادر فرمایاکہ داستان امیر حمزہ صاحب قران کے کل دفاتر کا بزبان اردو بہ عبارت سلیس و مضامین نفیس از طرف مطبع بہ خاکسار کرے۔ چونکہ یہ داستان ایسی ضخیم ہے جس کے ہر دفتر کی ہر ایک جلد روکش بحر زخار ہے اور ان کے اصول بزبان فارسی مصنفہ ماہر ہمہ دان شیخ ابوالفیض فیضی ہیں جنھوں نے براے تفریح طبع جلال الدین محمد اکبر بادشاہ ہند کے اس داستان عظیم الشان کو نہایت وسیع البیانی اور نازک خیالی کے ساتھ تصنیف کیا تھا اس کمترین کو جرأت نہ ہوتی تھی کہ اتنے بڑے امر بزرگ کی خدمت کا بار انصرام اپنے ذمہ لے لوں، مگر اصرار محب موصوف اور ارشاد آقاے نامدار ممدوح سے بفحواے المامور معذور چار و نا چار خدمت ترجمہ کو منظور کیا اور الحمد اللہ کہ باقبال خدا وند نعمت محتشم الیہ باحسن وجوہ دفتر ہائے مفصلہ ذیل کا ترجمہ اس ذرہ بے مقدرا کے سعی سے انجام پذیر ہوا۔‘‘8

 داستان سے دلچسپی اور شوق جلال کو ورثے میں ملا تھا جلال نے اردو ترجمے کے سلسلے میں داستان کی ابتدا میںہی لکھا ہے جسے اس داستان کا دیباچہ بھی تصور کیا جاسکتا ہے۔جو مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ جامع بھی ہے ملاحظہ کریں:

’’خوشہ چیں ارباب کمال سید ضامن علی تخلص بہ جلا ل کی جب ایرج نامہ کی اردو کرنے سے فرصت ہوئی سرکار فیض سے دفتر سویم یعنی کتاب بالا باختر رنگنے کے واسطے عنایت ہوئی۔اگرچہ یہ ہیچ مداں کج مج زبان لیاقت نثر طرازی اور قابلیت انشاپردازی نہ رکھتا تھا مگر تعمیل حکم سے چارا نہ ہوا۔ناگزیر خامہ رنگین بیان کو ہاتھ میں اٹھا لیا اور کچھ عبارت بے رنگ لکھنا شروع کیا۔‘‘9

داستان بالاباختر میں جلال لکھنوی نے جابجا اپنی رباعیات اور اشعار کو شامل کر دیا ہے جس سے اس داستان کی اہمیت میں چار چاند لگ جاتے ہیں۔ داستان کی ابتدا اس طرح سے ہوتی ہے    ؎

ساقی مے لالہ رنگ سے بھر  ساغر

نہ خالی ہوں سبو پلا برابر ساغر

دل کو ہوس شراب اس دور میں ہے

یہ شیشہ پکارتا ہے ساغر ساغر

’’نازکی بخش بوستان مضامین کہن چلے، بند شاہدان کو آئین سخن مشام سخنوران کو ترو تازہ اور بزم سامعان کو سرمایہ اندوز رونق بھی اندازہ کرتی ہیں کہ جس وقت شمع کا شانہ شان و شوکت نور دیدہ شجاعت و بسالت نو نہال گلشن کامران چراغ دود مان صاحب قرانی ملک قاسم امیر کشور کیرسے آزردہ ہوکر یکہ و تنہا وقت شب لشکر سے مل کر ایک طرف کو روانہ ہوا ، اثنای راہی سیارہ بن عمر کے ہاتھ رقعہ اس مضمون کا شاہزادہ بدیع الزماں کو بھیجا کہ میں عازم در بند جالندریہ جارہا ہوں اگر تجھے کچھ دعوی شجاعت ہے مدعی جرأت ہے توآ میرے تعاقب میں،عالم تنہائی میں خوب مقابلہ ہوگاوہیں میرے اور تیرے جھگڑے کا فیصلہ ہوگاجو غالب ہو وہ دنگل رستم کا امیر طالب ہو، سیارہ بن عمر نے وہ رقعہ لے کر خیمہ گاہ بدیع الزماں کا راستہ لیا۔ دوسرے دن جاکر دیا بدیع نے اس اس رقعہ کو پڑھا۔ ... غیظ و غضب بڑھا اسی وقت یہ بھی لشکر سے نکل کھڑا ہوا اور مرکب صبا رفتار پر سوار ہوکر تعاقب میں قاسم کی چل کھڑا ہوا ...سینی شاہزادہ خاور سپاہ ملک قاسم کا کہ دوپہر رات تک برابر اس نے رہزنی کی تا صبح مرکب اڑائے ہوئے چلا آیا یہاں تک کہ سامنے دربند جالندریہ کو پایا یہ پہلا در بند ہے ان سات دربندوں میں سے جو علاقہ تک سائل سے رکھتی ہیں ان شاء اللہ العزیز۔‘‘10

 جلال لکھنوی نے پہلی جلد میں یہ اہتما م کیا ہے کہ جیسے جیسے واقعات قلمبند کرتے گئے ہیںویسے ہی ان واقعات کو لال روشنائی سے شروع کرتے ہیں اور یہ سلسلہ صرف اور صرف پہلی جلد تک ہی محدود ہے۔ بقیہ کی دونوں جلدوںمیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔

اب یہاں شیخ تصدق حسین کی داستان کا آغاز پیش کیا جارہا ہے۔ تاکہ یہ آسانی سے ذہن نشین ہوجائے کہ دونوں داستانیں ایک ہی فارسی داستان کا اردو ترجمہ ہیں۔ انھوں نے اس داستان کا آغاز حمد،نعت اور منقبت حضرت ابو طالب سے کیا ہے۔جب کہ جلال لکھنوی نے اپنی داستان کاآغاز رباعی سے کیا ہے۔داستان بالا باختر(شیخ تصدق حسین )سے اقتباس ملاحظہ کریں:

’’جب شہزادہ خاور سپاہ قاسم ذی جاہ اپنے غصہ کو ضبط نہ کرسکے لحاظ وپاس امیر باتوقیر سے ظاہراً  تو کچھ نہ کہا مگر لشکر سے تنہا نکل گئے۔ جاتے وقت انھوں نے عیار سیارہ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ تو جاکر شاہزادہ بدیع الزماں سے میری طرف سے کہہ دینا کہ میںطرف در بند جالندریہ کے جاتا ہوںاگر کچھ آپ کو دعویٰ مردی و مردانگی کا ہو تو اسی مقام پر تشریف لائیے۔ اور دنگل رستم کا فیصلہ کر لیجیے۔ قاسم یہ پیغام دے کرسمت دربند جالندریہ کو روانہ ہوئے ادھر سیارہ عیار نے پیغام ملک قاسم کا شہزادہ دیع الزماں کو پہنچایا۔ حال روانگی بدیع الزماں کا پھر عرض کیا جائے گا۔ اب حال شہزادہ قاسم کا سنیے کہ انھوں نے گھوڑے پر سوار ہوتے ہی سیدھی راہ دربند جالندریہ کی لی۔ اور گھوڑا سرپٹ دوڑاتے ہوئے سیکڑوں کوس نکل گئے۔ جاتے جاتے قریب شام متصل ایک باغ کے پہنچے ، چونکہ خستہ بہت ہوگئے تھے، چاہا کہ آج شب کو اس باغ میں آرام لوں، صبح پھر روانہ ہوں گا، اس ارادہ پر دروازہ باغ کا تلاش کرنے لگے۔ مگر چہار جانب ڈھونڈھادر باغ کا کہیں پتا نہ پایا۔ آخر امر مجبور و ناچار ہوکر گھوڑ ے کو ایڑ لگائی۔ گھوڑا طرارہ بھر کے دیوار باغ کو پھاند گیااور قاسم اندر باغ کے پہنچے۔جاتے ہی باغ میں ایسی ہوائے سرود خنک آئی کہ ان کا دل باغ باغ ہوگیا اور  ماندگی سفر بھول گئے۔‘‘11

ان دونوںاردو ترجموں میںزبان و بیان کا فرق ہمیں صاف طور پر دکھائی دیتا ہے۔ جہاں ایک طرف جلال لکھنوی نے مشکل اور دقیق الفاظ و محاورات کا استعمال کیا ہے تو وہیں شیخ تصدق حسین نے صاف، سادہ اور سلیس زبان کا استعمال کر کے داستان کومزید دلکش بنا دیا ہے۔ اور اس طرح نہ صرف داستان میں دلچسپی برقرار رہتی ہے بلکہ قاری نثر کی روانی میں بہتا چلا جاتا ہے۔اسے اکتاہٹ کا احساس نہیں ہوتا۔

داستان بالا باخترکے اہم کرداروں میںسیارہ بن عمر، شاہزادہ بدیع الزماں، سینی ،شاہزادہ خاور سپاہ، ملک قاسم، امی سعید،بختیارک،مالک اڑدر،ماہ لقا،ملکہ شمہ خونریز، قوت شاہ، ملکہ گیتی افروز(لقاے بے بقا کی بیٹی)، مہروند عیار، حمزہ ایلچی،دل فگار، زمرد شاہ، باختر، عمر، اسد، امیر بلا خان، خواجہ جادوگر، نمبیرہ حمزہ، مریخ جادوگر وغیرہ ہیں۔ اس داستان کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں کئی ملکوں کی نشاندہی کی گئی ہے اس میں ملک اصفہان، چین، ترکستان، ملک صفوانیہ،ملک جالندریہ، ملک بر بر اورشہر زبیدہ وغیرہ کا ذکر آیا ہے۔

شیخ تصدق حسین کے ترجمے کی متعدد خوبیاں ہیں۔ انھوں نے اردو کے انداز واسلوب کو پیش نظر رکھا ہے۔ تاکہ نثر کا حسن اور داستان کی جمالیات کو بہتر طور پر اردو کے قالب میں منتقل کیا جاسکے۔یہی وجہ ہے کہ ایک عبار ت کا ترجمہ کرتے وقت شیخ تصدق حسین جلال پر فوقیت لے جاتے ہیں۔ تقابلی مطالعہ پیش نظر نہیں ہے مگر بطور تعارف یہ باتیں بھی پیش نظر رہنی چاہیے۔

دونو ں ترجموں کو سامنے رکھ کر کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں زبان و بیان کا نمایاں فرق نظر آئے گا۔ جلال کی زبان مقفیٰ و مسجع ہے جب کہ شیخ تصدق حسین کی زبان میں سلاست وروانی ہے۔ایسی صورت میں داستان کو پڑھنے کا ایک الگ لطف ملتا ہے۔ جلال نے زبان وبیان کے خارجی پہلوئوں کو اختیار کیا ہے جسے عرف عام میں لکھنوی انداز کہا جاسکتا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے ترجمہ کرتے وقت زبان و وبیان پر اس طرح توجہ نہیں دی جیسا کہ شیخ تصدق حسین نے دی۔ جلال لکھنوی نے فارسی لفظیات کو برتنے سے گریز نہیں کیا ہے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شیخ تصدق حسین کے ترجمے کو پڑھ کر اکتاہٹ کا احساس نہیں ہوتا ہے جب کہ جلال کے ترجمے میں یہ خوبی کم پائی جاتی ہے۔جلال کو شعری اظہار میں جو مرتبہ حاصل ہے وہ نثر میں نہیں ہے۔ اس داستان کا مطالعہ کرنے والوں کا یہ ایک عمومی احساس ہے۔ سہیل بخاری نے لکھا ہے کہ:

’’مصنف اگر چہ زبان اردو کے ماہر اور اعلیٰ پایہ کے شاعر ہیں، لیکن ان کی نثر کو ان کی شاعری سے کوئی نسبت نہیں ہے، عبارت پر فارسی کے ترجمہ کو اثر صاف نمایاں ہے۔ او ر اگرچہ روز مرے اور محاورے پر ان کی خاص توجہ ہے پھر بھی بیان میں کوئی دل کشی نہیں ہے۔ فارسی کی ترکیبوں کے علاوہ لفظوں اور فقروں کی ترتیب بھی فارسی ہی کی ہے۔ اور جہاں فارسیت سے ہٹ کر عبارت میں روانی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اسلوب کا توازن قائم نہیں رہ سکا ہے۔12

مجموعی طور پرجلال لکھنوی کی ادبی خدمات کا دائرہ وسیع ہے۔ایک اہم شاعر کے طور پر ان کی حیثیت مسلم ہے۔ جیسا کی پہلے ہی عرض کیا گیا ہے کہ شاعری کے ساتھ خصوصاً زبان و لغت پر ان کی گہری نگاہ تھی۔یہ بات داستان کے ترجمے سے واضح ہوجاتی ہے کہ جلال کو اپنے قدیم سرمایے سے بھرپور واقفیت تھی۔

حوالے

1        رسالہ نگار،راز یزدانی،ص،15،مارچ1953

2        جلال لکھنوی: سوانح حیات ، کلام پر تنقید مع انتخاب کلام، پروفیسر محمد حسن،ص159

3        اردو داستان تحقیقی و تنقیدی مطالعہ، ڈاکٹر سہیل احمد بخاری، ص278

4        اردو کی نثری داستانیں ،گیان چند جین،ص698

5        اردو کی نثری داستانیں:گیان چند جین،ص،697-98

6        ساحری، شاہی، صاحب قرانی داستان امیر حمزہ کا مطالعہ جلد اول:نظری مباحث ،شمس الرحمن فاروقی،ص445

7        بالا باختر ،منشی نولکشور،ص1

8        بالاباختر ،شیخ تصدق حسین،ص1

9        داستان بالاباختر ، جلد اول،جلال لکھنوی،ص 1،2

10      ایضاً،ص2۔3

11      بالاباختر،شیخ تصدق حسین،ص4

12      اردو داستان تحقیقی و تنقیدی مطالعہ،ڈاکٹر سہیل بخاری، ص279

 

Mohd Saeed Akhtar

613/P-18(kha-514)Near Zainab Masjid Millat Nagar Dhal Faizullah Ganj

Lucknow- 226020 (UP)

mohdsaeedakhtarr@gmail.com

 

28/2/25

کے آصف کا فلمی سفر، انارکلی سے مغل اعظم تک، مضمون نگار: منتظر قائمی

 اردو دنیا، جنوری 2025

دنیا میں کوئی بھی شاہکار اپنی تخلیق سے قبل جزوی طور پر وجود میں آچکا ہوتا ہے اور وہ اس بات کی بشارت دے دیتا ہے کہ عنقریب کوئی ایک ایسی شے کا وجود ہونے والا ہے جو انسان کی عقل کو متحیر و ششدر، تخیل کو حیران و پریشان، فکر کو غلطاں و پیچاںاور فن کو پابوسی و قدم بوسی پر مجبور کردیتا ہے۔ میر عطا حسین تحسین نے اگر ’نو طرز مرصع‘کو ’ قصہء چہار درویش ‘ نہیں بنایا ہوتا تو کوئی میر امن اردو نثر کو ’باغ و بہار‘ کیسے بناتا۔ کوئی شیخ سعدی نہیں ہوتا تو جلال الدین رومی اور حافظ و خیام کہاں سے آتے۔ اگر دہلی میں مغل حکمراںنصیر الدین بیگ محمد خان ہمایوں کا تقریباً سترہ ایکڑ میں پھیلا ہوا مقبرہ تعمیر نہ ہوتا تو شاہ جہاں کبھی اپنی بیگم ممتاز کی یاد میں تاج محل جیسا شاہکار دنیا کو نہ دے پاتا۔ اسی طرح اگر امتیاز علی تاج  نے ’ انارکلی‘ جیسا لازوال ڈرامہ نہ تحریر کیا ہوتا تو کریم الدین آصف ’ مغلِ اعظم‘ جیسی ایک شاہکار  اور لازوال فلم دنیا کو نہیں دے پاتا۔

امتیاز علی تاج کے اس فن پارے پر ’مغلِ اعظم ‘ فلم بننے سے قبل ہی اس ڈرامے پر تین متعدد فلم سازوں نے فلم بنا ڈالی تھی لیکن جس طرح کی جاندار، شاندار، شاہی جاہ و حشم اور تمکنت والی فلم کا خواب کے آصف نے دیکھا ویسا آج تک کسی نے نہیں دیکھا۔ ایسے خواب فقط شہنشاہ ہی دیکھتے ہیں جو خواب کو زمین پر اتارتے اتارتے فقیر یا درویش ہو جایا کرتے ہیں۔ تاج محل کو تعمیر ہونے میں اگر بائیس برس لگے اور مغلیہ سلطنت نے اپنے خزانے لٹا دیے تو آصف نے بھی ’مغلِ اعظم‘ جیسے عظیم کارنامے کو پورا کرنے میں چودہ برس لگا دیے اور آصف بھی اس فلم کو بناتے بناتے فقیر اوردرویش ہوگیا۔

آصف نے مغلِ اعظم‘ کے علاوہ نہ کوئی اور خواب دیکھا اور نہ کوئی خواب پالااور اس دوران اس عظیم خواب کی تکمیل میں جو رخنے اور اڑچنیں آئیں اس کے نتیجے میں’پھول‘،’ محبت اور خدا‘،’ بھگت سنگھ‘ اور’ کلیو پیٹرا‘ جیسی فلمیں بن گئیں۔اس دوران آصف اپنے واحد خواب ’مغلِ اعظم‘ کی تعبیر تلاش کرنے میں کبھی بھی غافل نہیں رہے اور نہ ہی کسی اور فلم کو بنانے کا ایساعظیم، جاہ و حشمت اور شاندار خواب پالا۔سوتے جاگتے ایک دیوانے کی طرح وہ ذرہ برابر بھی نہ تو اپنے عزم مصمم سے ایک انچ پیچھے ہٹے اور نہ ہی اس نے ’ مغلِ اعظم‘ کو بنانے کا ارداہ ترک کیا۔یہ فلم آصف کی زندگی اور کیریئر کے لیے گویا ایک ایسی فلم تھی جو اگر نہ بنائی گئی تو گویا آصف کی زندگی رائیگاںاور عزم بے معنی ہو کر رہ جاتا۔ کہا جاتا ہے کہ آصف نے اس فلم کے پیچھے اپنا پورا کیریئر داؤں پر لگا دیا وہ بہت سگریٹ پیتے تھے اور ایک وقت آیا جب وہ اُدھارکی سگریٹ پینے لگے۔ آصف نے ممبئی میں نہ تو اپنا گھر بنایا اور نہ ہی کبھی کوئی گاڑی خریدی اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس فقیر منش انسان نے دونوں ہی اشیا تادم مرگ کرائے پر رکھی شاید وہ درویشی کے ان جلی حروف میں حد درجہ اعتماد رکھتا تھا کہ یہ دنیا ایک سرائے فانی ہے انسان یہاں خالی ہاتھ آیا ہے اور ہاتھ خالی ہی جائے گا بس اس کے اعمال و افعال ہی اس کو زندہ رکھیں گے۔ اس بابت جب ان سے پوچھا گیا کہ بمبئی میں آپ اپنا گھر کیوں نہیں بناتے تو اس دیوانے کا جواب یہ تھا کہ’ میں یہاں فلمیں بنانے آیا ہوں گھر بنانے نہیں آیا ہوں‘۔

کے آصف نے ’مغل اعظم ‘ کاخواب غلام ہندوستان میں دیکھا اور اس کو آزاد ہندوستان میں پورا کیا  یعنی ـیہ فلم تو اسی وقت تشکیل پانے لگی تھی جب ’پھول‘ کی شوٹنگ کے دوران معروف فلم ساز کمال امروہوی نے ایک دن امتیاز علی تاج کا لازوال ڈرامہ ’ انارکلی‘ کی کہانی سنائی۔اس کے بعد جیسے آصف کو اپنا جہاں، اپنی منزل، اپنی تلاش، اپنی آرزو اور اپنی جستجو ہی مل گئی جس کے لیے اسے قدرت نے بنایا تھا۔ کمال امروہوی اور کے آصف دونوں کی تعلیم بہت کم تھی لیکن دونوں ہی فن کاروں میں ادب اور فلم پرزبردست دسترس اوریقین تھا۔ کے آصف کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی فلموں میں اداکاروں کے سامنے خود اداکاری کر کے بتاتے تھے۔آصف بلا کا جادوگر تھا کسی بھی رئیس کے سامنے اگر وہ اپنی کہانی کی منظر کشی پیش کر دے تو وہ اس کی کہانی سے متاثر ہوئے بغیر رہ ہی نہیں سکتاتھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے ایک دن موقع محل دیکھ کر اپنے خواب کو مشہور فلم اسٹوڈیو ’ مہالکشمی‘ کے مالک شیراز علی حکیم سے بیان کر ڈالا۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حکیم صاحب فلم میں پیسہ لگانے کو راضی ہو گئے۔آصف اور شیراز علی کا مزاج ایک جیسا تھاجو بھی کام کرنا ہے انتہائی اعلیٰ درجے کا کرنا ہے۔اس دور میں کہانیوں کا بادشاہ سعادت حسن منٹو بھی بمبئی کی فلمی رعنائیوں میںگم تھا اس نے ایک جگہ آصف کی تعریف کرتے ہوئے اس کے کہانی سنانے کے فن کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ :

’’ کہانی سنانے کے دوران وہ مداری پن کرتا ہے یعنی حسبِ ضرورت واقعات کے اتارچڑھاؤکے ساتھ خود بھی چڑھتا اترتا رہتا ہے۔ابھی وہ صوفے پر ہے چند لمحات کے بعد وہ اس کی پشت کی دیوارپر، دوسرے لمحے اس کے سر کے نیچے ہے  اور ٹانگیں اوپر ہیںاور دھم سے نیچے فرش پر۔ اس کے فوراً بعد وہ کرسی پر اکڑوں بیٹھا ہے مگر پھر فوراً اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کوئی آدمی  ووٹ حاصل کرنے کے لیے تقریر کر رہا ہے۔‘‘

فلم ’پھول‘ 1944میں ریلیز ہوئی اور اس کے بعد 1945میں کے آصف نے مغل اعظم فلم کا آغاز کر دیا۔ یہیں سے اس فلم کو بنانے کی جدو جہد کا بھی آغاز ہو جاتا ہے جتنی دلچسپ اور حیران کن یہ فلم ہے اس کے بننے کی کہانی بھی اس سے کم دلچسپ نہیں ہے۔کہانی، اسٹار کاسٹ، کاسٹیوم، سیٹ، رقص، موسیقی، مکالمہ، ہدایت کاری اور اداکاری غرض کہ کسی بھی پہلو پر آصف نے کہیں کوتاہی یا سمجھوتہ نہیں کیا۔فلم کے ہر ایک شعبے پر دل کھول کر دولت لٹائی مگر اس فلم کے ریلیز ہوتے اس پر اتنی پریشانیاں، افتاد، آپسی نااتفاقیاں اور مالی دشواریاں آئیںکہ ایسا لگا کہ اب آصف کی کشتی غرقاب ہو جائے گی اور وہ ناچاہتے ہوئے کسی مالدار شخص کی دہلیز پر دم توڑ دے گا مگر آصف کسی کے آگے جھکا نہیں۔وہ ایک ایسا درویش یا فقیر تھا جس کے کشکول میںبعض دفعہ ایک کھوٹا سکہ بھی نہیں ہوتا تھا لیکن اس کا ہمالیائی ارادہ دنیا فتح کرنے والا تھا۔’مغلِ اعظم‘فلم میں پیسہ لگانے والوں میں بامبے ٹاکیز کے مالک شیراز علی حکیم سے لے کرشاپور جی پولن جی مستری جیسے بڑے تاجروں کا نام شامل ہے۔

شیراز علی حکیم سے ابھی آصف نے’ مغلِ اعظم‘ بنانے کا قول و قرار کیا ہی تھا کہ اسی وقت بامبے اسٹوڈیو فروخت ہو رہا تھا جب یہ بات حکیم صاحب تک پہنچی تو انھوں نے بامبے اسٹوڈیو خرید کر آصف کے حوالے کر دیا۔ بارہ اکتوبر 1945کو جب اس فلم کی شوٹنگ کا شاہانہ انداز میں شُبھ مہورت ہو رہا تھا اس وقت اکبرِ اعظم کے رول میں چندر موہن،مہارانی جودھا بائی کے روپ میں درگا کھوٹے، شہزادہ سلیم کے رول میں سپرو اور انارکلی کے طور پر نرگس کو سائن کیا گیا تھا۔فلم کی کہانی میں بھی آصف نے اپنے انداز ِ فکر ونظر کے اعتبار سے تھوڑی بہت تحریف کی تھی یعنی ڈرامہ انارکلی کی کہانی سے کچھ اجزا نکال کر کچھ نئے اجزا  کا اضافہ کر دیا۔سید امتیاز علی تاج کے شہرۂ آفاق ڈرامے’ انارکلی‘ میں اکبر، سلیم، بختیار (سلیم کا بے تکلف دوست)رانی، انارکلی،  ثریّا، دل آرام اور زعفران جیسے کردار موجود ہیں جبکہ فلم میں بختیار کے کردار کی جگہ درجن سنگھ اور دل آرام کی جگہ پر بہار کا اضافہ کیا گیا ہے۔ 

 فلم کو مزید پرکشش اور مربوط بنانے کے لیے اس کہانی میںپلاٹ، کردار، مکالمے وغیرہ میں حسبِ ضرورت تبدیلی کیے گئے۔ابتدائی فلم یعنی 1951 سے قبل والی ’مغلِ اعظم‘ میں انارکلی کے رول میں نرگس اور بہار کے طور پر وینا کو منتخب کیا گیا مگر جیسے ہی ہندوستان کو آزادی حاصل ہوئی اور ملک تقسیم ہوا اور اس کے بعد جو خونیں واقعات رونما ہو ئے اس نے تاریخِ انسانیت کو لرزاں، حیراں اور پریشاں کر دیا۔اس عالمِ بے سروسامانی میں بہت سے خانہ بدوش ہجرت کر کے پاکستان سے ہندوستان اور ہندوستان سے پاکستان چلے گئے۔ کپور خاندان اور چوپڑہ خاندان جیسے نہ جانے کتنے ہی خاندان سرحد کے اُس پار سے اِس پار بے سرو سامانی کے عالم میں آئے اسی طرح سعادت حسن منٹو، شیراز علی حکیم، جوش ملیح آبادی اور آصف کے ماموں نذیراحمد خاں بمبئی کو خیر باد کہہ کر پاکستان آباد کرنے چلے گئے۔ اس عظیم سانحے کا اثر نہ صرف یہ کہ نوجوان آصف کے ذہن و دل پر ثبت ہوا بلکہ اس کے خواب بھی ریزہ ریزہ ہو کر بکھر گئے۔ کیونکہ کے آصف جب بمبئی آئے تو اپنے ماموں نذیر جو اس وقت فلموں میں ایکٹر تھے انھیں کے یہاں ٹھہرے اور ان کے ماموں نے آصف کو فلموں میں ڈریس سپلائی کرنے والے ایک ٹیلر کے یہاں سلائی وغیرہ کا کام سیکھنے کے لیے رکھ دیا۔یہیں سے آصف کو اپنی منزل کا پتہ اور راستہ مل گیا۔ آصف فلموں کے شیدائی تو تھے ہی مگر اسی بہانے ان کو فلموں کی ایکٹنگ،شوٹنگ اور میکنگ کو بہت قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع مل گیا اور آصف کے فن کو بال و پر عطا ہو گئے۔ آزادی کے بعد جیسے ہی ملک تقسیم ہوا تو آصف کے ماموں نذیراحمد خان نے بمبئی چھوڑ کرپاکستان جانے کا فیصلہ کر لیا حالانکہ اس وقت تک نذیر ایک کامیاب اداکار کے طور پر انڈسٹری میں اپنے پیر جما چکے تھے۔آصف کے پاس بھی موقع غنیمت تھا کہ وہ پاکستان چلا جاتا مگرکے آصف کو تو ایک ایسے ہندوستان کی تعمیر و تشکیل کرنا تھا جو ہزار زخم کھانے کے بعد، قتل و خون کے دریا سے گزرنے کے بعد بھی اپنی دیرینہ صلحِ کل کی روایات، مساوات، اخلاقیات و نظریات پر باقی رہ سکے۔ حالات کے سامنے سرنگوں ہونا تو آصف کے مزاج کا حصہ ہی نہیں تھا۔ آزادی اور بٹوارے کے بعد بھی وہ جس طرح کے ہندوستان کا خواب اپنی آنکھوں میں بسائے پھر رہا تھا وہ چاہتا تھا کہ دیگر سیکولر مزاج اور امن پسند شہری بھی اس کے خواب میں شامل ہو جائیں کیونکہ آصف کے خوابوں والے ہندوستان کی تکمیل تو بس بمبئی فلم انڈسٹری میں ہی ہو سکتی تھی۔ آصف تو ایک ضدی مزاج انسان تھا ایک دفعہ جس کام کو اس نے ٹھان لیا تو بس اسے ہر حال میں ممکن بنا کر ہی دم لینے والوں میں سے تھا۔ابھی ’مغلِ اعظم‘ کی شوٹنگ ہوئے دیر بھی نہیں ہوئی تھی کہ بٹوارہ سامنے ایک دیوار بن کر کھڑا ہو گیا اور فلم متاثر ہو گئی۔شوٹنگ روکنی پڑ گئی اور اتنی شاہانہ فلم جس پر پانی کی طرح پیسا لگا ہو وہ تقسیم کے خونیں سیلاب میں غرقاب ہوتی ہوئی دکھائی دینے لگی۔ جب آگ اور خون کا یہ دریا اپنی طغیانی پر پہنچنے کے بعد کچھ تھما تو آصف نے اپنے خوابوں کی کشتی پھر سے دریا میں اتاری۔اپنے ریزہ ریزہ خوابوں کو سمیٹتے ہوئے پھر سے تنکا تنکا جوڑنا شروع کیا اور کئی برس سے آنکھوں میں بند پڑے خواب کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش اور جستجو میں غرق ہو گیا۔

 ملک کی آزادی اور تقسیم کے خونیں مناظر کے بعد آصف نے فلم’مغلِ اعظم‘ کی اسکرپٹ پر نظر دوڑائی تو وقت اور حالات اس بات کے متقاضی تھے کہ اب کہانی میں خاطر خواہ تبدیلی کی جائے جس سے ملک کی تقسیم سے پیدا ہونے والے گہرے زخموں کا نفسیاتی علاج اس طرح کیا جائے کہ دوقوموں کے درمیان وہی پرانا اعتماد اور وقار پھر سے بحال ہو جائے۔جہاں ایک طرف آصف کہانی میں کچھ تبدیلی کر رہے تھے وہیں کچھ پرانے اداکاروں نے آصف کا ساتھ چھوڑ دیا۔ قسمت کی ستم ظریفی یہ ہوئی کہ اکبِراعظم کا کردار نبھانے والے چندر موہن اچانک اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور تو اور شہزادہ سلیم کا رول اداکرنے والے سپرو بھی اپنی پرانی چمک دمک کھو کر اب معاون اداکار کے بطور فلموں میں نظر آنے لگے تھے۔فلم کی ایک چوتھائی شوٹنگ بھی ہو چکی تھی جو لوگ فلموں کے مختلف مراحل سے واقف ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ایسے نازک وقت میں قدم پیچھے کھینچنے کا مطلب خود کو کتنے طرح کے خسارے میں مبتلا کرنا ہے۔اکبرِاعظم اور شہرزادہ سلیم دونوں ہی اگر اپنی چمک دمک کھو دیں تو فلم میں بچتا ہی کیا ہے۔کوئی اور ہوتا تو اپنے ہی خواب کو اپنی آنکھوں کے سمندر میں غرقاب کردیتااور فلم سازی سے توبہ کر لیتا مگر آصف نے دل پر پتھر رکھ کر اپنے تخلیق کردہ نامکمل مجسمے کو بڑی ہی نامرادی اور مایوسی کے ہتھوڑے سے توڑ ڈالااور ایک نیابت تراشنے کے بارے میں سوچنے لگا۔کولمبس کے مانند وہ اپنی کہانی کے کرداروں کی تلاش میں نکل پڑااور ایک مقام پر اسے اپنے وقت کے عظیم اداکار پرتھوی راج کپور میں اکبر ِاعظم تلاش کرلیا، مہہ جبیں عرف مدھوبالا میں انارکلی اور شہنشاہ جذبات دلیپ کمار المعروف یوسف خان میں شہزادہ سلیم کو دریافت کر لیا۔ اب ان سب کو لے کر دوبارہ فلم کی شوٹنگ شروع کی اور جب فلم مکمل بن کر سامنے آئی تو دیکھنے والے نے آصف کے ہندوستان کی وہ عبارت پڑھ لی جو آزادی اور بٹوارے کے بعد ہندوستان کی پیشانی پر آصف نے جلی حروف میں تحریر کیا تھا وہ یوں بیاں کی :

’’میں ہندوستان ہوں، ہمالیہ میری سرحدوں کا نگہبان ہے، گنگا میری پوِترتا کی َسوگندھ، تاریخ کی ابتدا سے میں اندھیروں اور اجالوں کا ساتھی ہوں اور میری خاک پر سنگِ مرمر کی چادروں میں لپٹی یہ عمارتیںدنیا سے کہہ رہی ہیں کہ ظالموں نے مجھے لوٹا اور مہربانوں نے مجھے سنوارا، نادانوں نے مجھے زنجیریں پہنا دی اور میرے چاہنے والوں نے انھیں کاٹ پھینکا۔میرے ان چاہنے والوں میں ایک انسان کا نام جلال الدین محمد اکبر تھا‘‘

ایسا نہیں ہے کہ امتیاز علی تاج کے ڈرامے پر آصف نے کوئی پہلی مرتبہ فلم بنانے کی ٹھانی بلکہ آصف سے پہلے بھی اس کہانی پر کئی فلمیں بن چکی تھیں۔نند لال جسونت لانے 1953میں ’ انارکلی‘ کے نام سے فلم بنا ڈالی۔زیادہ تر فلم سازوں نے محبت کی اس لازوال داستان کو ہی اپنی کہانی کا مرکز بنایا مگرکریم الدین آصف نے مغلیہ سلطنت کے عظیم شہنشاہ اکبرکو مرکز میں رکھ کر کہانی کے در و بست اس طرح سنوارے کہ انارکلی اور شہزادہ سلیم کے عشق کی داستان بھی رنگینی اختیار کر لے۔ڈرامے میں ان تبدیلیوں کے لیے اس نے اپنے وقت کے مشہور و معروف قلم کاروں کی ایک ٹیم لگا دی جس میںکمال امروہی،وجاہت میرزا چنگیزی، احسن رضوی اور امان صاحب جیسے لوگ شامل تھے۔اس کے علاوہ خودآصف بھی اس مکالمہ نگاری کی ٹیم کا حصہ تھے۔ان سب کی مشترکہ کوششوں سے فلم کی جو کہانی نکل کر باہر آئی اسے اگر ایک الگ ہی قسم کی کہانی کہاجائے تو مبالغہ آرائی نہیں ہوگی جس نے مغلیہ تاریخ کے بہت سے حقائق کو چیلنج کیا ہے۔شہزادہ سلیم، انارکلی، بہار، درجن سنگھ، سنگ تراش جیسے لازوال کردارتو تاریخ کی کترنوں سے نکل کرعوامی حافظے کا ایک ایسا حصہ بن گئے کہ جس کے نقوش کو مٹانا آسان نہیں ہے۔اس مرکب کہانی میں لیلیٰ مجنوں کی افسانوی داستان، رادھا کرشن کی پریم کتھا،راجہ دشرتھ کا کیکئی کو وچن،جہاں گیر کا انصاف،مہابھارت، الف لیلیٰ اور ہماری اساطیری کہانیوں کی زیریں لہریں ہمارے اوپر اس قدر اثر انداز ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں کہ ایسی کہانی بننے والا ابھی تک کوئی دوسرا شخص پیدا ہی نہیں ہوا ہے۔کہانی کی پرتوں کو اجاگر کرتے ہوئے راجکمار کیسروانی اپنی کتاب ’داستانِ مغلِ اعظم‘ میں ایک جگہ کہتے ہیں کہ :

’’ اوپر اوپر سے یہ ایک سہہ رخی عشقیہ داستان ہے جس میں باقاعدہ عاشق (شہزادہ سلیم) معشوق (انارکلی) اور رقیب  (بہار) جیسے کردار ہیں، لیکن کہانی میں اکبرِ اعظم کے کردار کوکہانی کے مرکز میں لا کر آصف نے کہانی کو ایک نیا نہج دے دیا ہے۔ محبت کی اس داستان میں نسلوں کی سناتن جد و جہد، ایک شہنشاہ کی شہنشاہ بن کر ہر چیز کو دیکھنے کی مجبوری اور ماں کی مامتا پر مہارانی جودھابائی کا مہارانی کے عہدے کو نچھاور کرتے جذبات، کہانی کو اپنے مقامِ عروج پر لے جاتے ہیں۔

 کے آصف نے امتیاز علی تاج کا شہرۂ آفاق ڈرامہ ’ انارکلی‘ کی کہانی کو ایک ایسی کہانی کے روپ میں تبدیل کیا جس میں مرکزی کردار انار کلی کی جگہ اکبرِ اعظم کو فوقیت دی اور تمام تر کہانی اسی کے ارد گرد تخلیق کی۔اس وقت کے دیگر ہدایت کاروں نے انارکلی بنائی جب کہ اسی کہانی پر آصف نے ’ مغلِ اعظم‘ بنائی جو ایک ایسی لازوال کہانی بن گئی جس کے بعد کوئی دوسری عشقیہ داستان جچتی ہی نہیں۔اگر چہ اس عہد کی عکاسی کے لیے اردو فارسی زبان کا خوب استعمال کیا گیا ہے جو کسی بھی صورت میں فلم بین پر قطعاً گراں نہیں گزرتی بلکہ عام فلم بین اس زبان کی چاشنی سے خوب لطف اندوز ہوتا ہے۔ فارسی اور اردو کے الفاظ و تراکیب، مثلاً تخلیہ، جنبش مکن، بنام تاجدارِ ہندوستان،ملکہء ذیشان، زینتِ تختِ ہندوستان مہارانی جودھابائی، شہزادہ نورالدین محمد سلیم وغیرہ عام قاری کے ذہن و دل پر نقش ہو جاتے ہیں۔ہر چند کہ یہ بڑے ہی ثقیل الفاظ و تراکیب ہیں لیکن مناظر میں استعمال ہو کر یہ اپنے معنی و مفہوم خود بہ خود بتا دیتے ہیں۔ اس فلم کا ایک ایک مکالمہ آج بھی عوام کے درمیان گردش کر رہا ہے۔کس مکالمہ نگار نے کون سا مکالمہ تحریر کیا ہے اس کابھی کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ہاں اس کی اسکرین پلے سے متعلق کئی دلچسپ معلومات ضرور ملتی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ فلم کے ایک سین میں جب انارکلی کو زندہ دیوار میں چنوانے کا منظر لکھا جارہا تھا تو آصف نے سب کو کہا کہ کوئی ایسا مکالمہ تحریر کریں کہ جس سے کم الفاظ میں ساری باتیں کہہ دی جائیں تو سب اپنے اپنے انداز میں مکالمہ لکھ کر لائے آصف صاحب بہت ہی دلچسپی کے ساتھ سب کے ڈائیلاگ سن رہے تھے۔ آخر میں جب وجاہت مرزا کا نمبر آیا تو ان سے آصف نے پوچھا کہ آپ کیا لکھ کر لائے ہیں۔مرزا نے اپنے پاندان سے ایک پرچی نکالی اور کہا کہ اس منظر میں انارکلی محض ایک جملہ ادا کرے گی۔ سین کی وضاحت کرتے ہوئے وجاہت مرزا نے کہا کہ انارکلی پہلے شہنشاہ اکبر کو سلام کرے گی اور کہے گی

انارکلی:  یہ ادنیٰ کنیز جلال الدین محمد اکبر کو اپنا خون معاف کرتی ہے۔

اس جملے پر پورے کمرے کا ماحول مشاعرے جیسا ہو گیا ہر طرف سے داد و تحسین کی صدا بلند ہوئی اور سب نے اسی ڈائیلاگ پر اپنی ہامی بھر دی۔فلم کی کہانی کا انجام بھی بڑا دلچسپ ہے جس میں انارکلی کو زندہ دیوار میں چنے جانے کا حکم دیا جاتاہے مگر اکبر اپنے لاڈلے شہزادے سے تمام تر اختلافات کے باوجود، انارکلی کی شکل سے نفرت کے باوجود اس کی سزا میں تخفیف کر دیتا ہے اور اسے حکم دیا جاتا ہے کہ انارکلی مغل سلطنت کی خفیہ سرحدوں کو پار کر کے کہیں اور چلی جائے  اور یہ راز کہ انارکلی زندہ ہے ہمیشہ کے لیے ایک راز ہی رہ جائے تاکہ اس بات سے شہزادہ سلیم مطمئن ہو جائے کہ انارکلی  مر چکی ہے۔اکبر کے کردار کو عظیم اور اعلیٰ قدروںکا ایک  بڑا کردار بنا نے کے لیے آخر میں اکبر انارکلی سے کچھ اس طرح مخاطب ہوتا ہے کہ :

اکبر:      انارکلی ! جب تک یہ دنیا قائم رہے گی تم  لفظِ محبت کی آبرو بن کر زندہ رہو گی... اور مغلوں کی تاریخ تمھارا یہ احسان یاد رکھے گی کہ تم نے بابر اور ہمایوں کی نسل کو نئی زندگی دی۔ لیکن ہم تمھیں ایک گم نام زندگی کے سوا کچھ بھی نہیں دے سکتے۔ہم مجبور ہیں۔ بخدا ہم محبت کے دشمن نہیں اپنے اصولوں کے غلام ہیں، ایک غلام کی بے بسی پر غور کروگی تو شاید تم ہمیں معاف کر سکو۔‘‘

حواشی

1        راج کمار کیسوانی، داستانِ مغل اعظم(ہندی)، منجُل پبلشنگ ہاؤس، بھوپال، 2020

2        امتیاز علی تاج، انارکلی، اتر پردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، 1997(تیسرا ایڈیشن

3        مغلِ اعظم(فلم)، ہدایت کار  کے آصف، 1960

 

Muntazir Qaimi

Dept of Urdu

Fakhruddin Ali Ahmad Govt P G College

Mahmudabad (Awadh)

Sitapur - 261203 (UP)

Mob.: 8127934734

muntazirqaimi@gmail.com

تازہ اشاعت

اکبر الہ آبادی کی شاعری میں مشرق کا تصور، مضمون نگار: امیرحسن

  اردو دنیا، جنوری 2025 تجھے ہم شاعروں میں کیوں نا اکبر معتبر سمجھیں بیاں ایسا کہ دل مانے زباں ایسی کہ سب سمجھیں اکبر الہ آبادی دنیائ...