18/8/25

پنچ تنتر کے اردو تراجم، مضمون نگار: سید اسرارالحق سبیلی

 اردو  دنیا، اپریل 2025


عالمی ادب میں کچھ کتابیں ایسی لا فانی اور شاہ کار ہوتی ہیں،جن کا کوئی بدل نہیں ہوتا۔ایسی کتابیں اخذ و ترجمے کے توسط سے پورری دنیا میں پڑھی جاتی ہیں۔ جیسے فارسی میں سعدی کی گلستاں وبوستاں،فردوسی کا شاہ نامہ،مولانا روم کی مثنوی معنوی،عربی میں الف لیلہ ولیلہ اور سنسکرت میں پنچ تنتر وغیرہ۔یہ کتابیں گویا بین الاقوامی سطح پرادبی وعلمی ورثے کا درجہ رکھتی ہیں،اور قوموں کے درمیان علمی وفکری ہم آہنگی کا ذریعہ ہیں۔

ڈاکٹر خوشحال زیدی کے بقول ہندوستان کی بیشتر زبانوں میں ادبِ اطفال کی بنیاد پنڈت وشنو شرما کی ’پنچ تنتر‘ سے پڑی۔وشنو شرمانے اسے جانوروں کی زبانی کہانیوں کی شکل میں پیش کیا۔پنچ تنتر کی تصنیف کا مقصد دلچسپ کہانیوں کے ذریعے اخلاق و حکمت کی تعلیم دینا تھا۔ ڈاکٹر خوشحال زیدی نے ڈاکٹر ہری کرشن دیوسرے کے حوالے سے اس کی وجہِ تصنیف یوں بیان کی ہے:

’’ جنوبی ہندوستان کے روپا نگر میں امر کیرتی راجہ راج کرتا تھا۔اس کے چار بیٹے تھے۔چاروں ہی بے وقوف اور جاہل تھے۔

انھیں پڑھانے کے لیے کئی طریقے آزمائے گئے، مگر سب بے سود ثابت ہوئے۔آخر کاریہ ذمے داری پنڈت وشنو شرما کو سونپی گئی کہ وہ ان راج کماروں کو  راج کاج کے طریقے سکھائیں اور انھیں اخلاقیات کی تعلیم دیں۔وشنو شرما نے جانوروں کی وساطت سے انسانی خصوصیات،سماجی رشتوں اور انسانی پیچیدگیوں کی تشریح و توضیح کی۔یہ کہانیاں اتنی دلچسپ ہیں کہ آج بھی اسی ذوق وشوق سے پڑھی جاتی ہیں۔‘‘1

’’کلیلہ و دمنہ‘ کے مقدمہ میں مذکو ر ہے کہ اس کتاب کو ہندوستان کے فلسفی اور معلم بیدبا نے وقت کے بادشاہ دبشلیم کے لیے لکھا تھا۔جب کہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ’پنچ تنتر‘کسی ایک شخص کی تخلیقی کاوش نہیں ہے،بلکہ اس کی جڑیں نامعلوم زمانوں تک قدیم ہندوستان کے اجتماعی لا شعور میں ہیں،اور ’پنچ تنتر‘ ہندوستان کے تین مقبول اور قدیم ادبی فن پاروں:پنچ تنتر،ہِتو اپدیش اور سرت ساگر کا منتخب مجموعہ ہے۔

ڈاکٹر مرضیہ عارف کے بقول ڈاکٹر ہرٹل کا دعویٰ ہے کہ’پنچ تنتر‘آج اپنے حقیقی روپ میں موجود نہیں ہے۔یہ بنیادی طور پر’تانترائیکا‘ نام کی ایک قدیم کتاب کی بعض کہانیوں،داستانوں اور روایتوں کا مجموعہ ہے۔اس کی اصل کتاب دو سو قبل مسیح کشمیر میں تالیف کی گئی تھی،جس کا ایک قلمی نسخہ دکن لائبریری پونا میں محفوظ ہے۔بیش تر ریسرچ اسکالر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اصل کتاب ایک طرح کے سیاسی اور سماجی نصاب کی شکل میں نوعمر شاہ زادوں کے لیے لکھی گئی تھی،لیکن اس کے ضائع ہو جانے کے بعد یادداشتوں کی بنیاد پر از سرِ نو پنچ تنتر مرتب کی گئی۔ اس میں بعض کہانیاں پرانی کتاب کی اور کچھ نئی شامل کی گئی ہیں،جو ظاہر ہے کہ اپنی اصل سے مختلف ہے۔ایک روایت کے مطابق ’’پنچ تنتر‘‘ کو مرتب کرنے والے ودیا پتی کا زمانہ تین سو سال قبل مسیح ہے۔دوسری روایت کے مطابق وشنو کرمان کے سر اس کتاب کو لکھنے کا سہرا بندھتا ہے۔ 

اب رہی بات کہ یہ کس زبان میں لکھی گئی؟بعض لوگوں نے اسے کشمیری زبان میںبتایا ہے،اور اس کا ایک نسخہ دکن لائبریری پونے میں محفوظ بتایا ہے۔بعض نے پراکرت بھی بتایا ہے۔یہ ممکن ہے کہ اس کا ہند کی دوسری زبانوں میں ترجمہ ہوا ہو۔اسی طرح بیدبا ودیا پتی کا ترجمہ ہو،اور یہ نام کے بجائے صفت ہو،اور اصل نام وشنو شرما یا وشنو کرمان ہو۔

پنچ تنتر‘ ادبِ عالیہ کا وہ شاہ کار ہے،جس کا ترجمہ فارسی،عربی،ترکی اور عبرانی سمیت دنیا کی تقریباََ پچاس بڑی زبانوں میں ہو چکاہے۔خسرو اول نوشیرواں عادل کے عہدِ حکومت(531-578ء)میں سنسکرت زبان میں لکھی گئی پنچ تنتر کا سب سے پہلا ترجمہ پہلوی زبان میں ماہر حکیم برزویہ نے کیا۔برزویہ نے اصل کتاب پر مزید کہانیوں اور واقعات کا اضافہ کیا،اور کتاب پر ایک مقدمہ لکھا،جس میں اس نے اپنے احوال اور حصولِ کتاب  کے لیے ملکِ ہند کو روانگی،ہند میں قیام اور واپسی کے احوال لکھے ہیں۔ اس پہلوی ترجمے کو عباسیوں کے عہد ِ حکومت میں فارسی نژاد نامور ادیب و انشا پرداز عبد اللہ ابنِ مقفع (106-143 ء)نے ’کلیلہ و دمنہ‘ کے نام سے عربی میں منتقل کیا،اور اس میں مزید چار فصلوں کا اضافہ کیا۔ بقولِ فلپ کے۔ہِتِی ’کلیلہ و دمنہ‘ ہم تک پہنچنے والی قدیم ترین ادبی عربی تخلیق ہے۔اصل سنسکرت اور اس کا پہلوی ترجمہ ناپیدہوجانے کے باعث تمام تراجم کی بنیاد اسی عربی ترجمے پر ہے۔

ابنِ مقفع کے عربی نسخے سے کئی تراجم دوبارہ فارسی میں ہوئے،جن کو سامنے رکھ کر حسین واعظ کاشفی نے’انوارِ سہیلی‘ مدون کی۔جلال الدین اکبر کی ایما پر ابوالفضل نے کلیلہ و دمنہ کے دستیاب نسخوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انھیں سادہ اور عام فہم زبان میں نئی ترتیب کے ساتھ فارسی کا جامہ پہنایااور اس کا نام’’عیارِ دانش ‘‘ رکھا۔

اردو میں عیارِ دانش کے کئی ترجمے ہوئے،لیکن زیادہ شہرت شیخ حفیظ الدین احمد کے ترجمے ’خردِ فردا‘کو ملی، جو 1805 میں فورٹ ولیم کالج کلکتہ سے چھپی۔ اسی طرح دکن میں کلیلہ و دمنہ کے کئی تراجم ہوئے۔دکنی زبان کے کئی ادبا،شعرا اور صوفیا نے پنچ تنتر کے مختلف اقتباسات اور کہانیوں کا دکنی زبان میں ترجمہ کیا۔اسی طرح فورٹ سینٹ جارج کالج مدراس کے تحت محمد ابراہیم بیجا پوری نے 1823 میں فارسی ’انوارِسہیلی‘ کا تر جمہ دکنی زبان میں کیا۔2

دکنی زبان میںپنچ تنتر نے نہ صرف ادب کو کافی فروغ دیا،بلکہ دکنی بیانیہ ادب پر بھی گہرا اثر چھوڑا۔اس نے کہانی سنانے کی مقامی روایت کو تقویت دی،اور اخلاقی سبق کے ذریعے لوگوں کی تربیت کی۔

پنچ تنتر‘ کے اردو مترجمین میں سید حیدر بخش حیدری، ڈپٹی نذیر احمد،محمد حسین آزاد، مولوی ظہیرالدین، مولوی فیروزالدین اور محمد عبد الغفور نساخ کا نام بھی آتا ہے۔

شکنتلا دیوی کی مرتَبہ’پنچ تنتر‘ کا ایک اردو ترجمہ ڈاکٹر اطہر پرویز نے کیا تھا،جو 1963میں اردو گھر علی گڑھ سے شائع ہواتھا۔اس کی زبان بچوں کے لیے بہت آسان اورعام فہم ہے،اور تر جمہ کے بجائے اصل کہانی کا گمان ہوتا ہے۔

عربی ’کلیلہ و دمنہ‘ کا براہ ِ راست اردو ترجمہ حیدرآباد کے ایک عالم و فاضل مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی نے 2011 میں مکمل کیا۔2014  میں یہ ترجمہ دوسو تیس صفحات پر مشتمل قبا گرافکس حیدرآباد نے شائع کیا ہے،جو ہندوستان کے مختلف شہروں کے کتب خانوں میں دستیاب ہے۔

اس ترجمے کا پیش لفظ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی حفظہ اللہ نے تحریر کیا ہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ کلیلہ و دمنہ زبان و ادب کو سیکھنے سکھانے اور حاکم و محکوم کو اپنے اپنے دائرے میں دور اندیشی کی تعلیم دینے میں ایک نمایاں اور کامیاب کتاب ہے۔انہوں نے مترجم کی ان الفاظ میں ستائش کی ہے:

’’ابنِ مقفع کے ادبی شہ پاروں کو اردو کا قالب دینے میں مترجم نے بڑی کوشش کی ہے۔ترجمہ میں امکانی حد تک سلاست و روانی پیدا کرنے کی سعی کی گئی ہے،لیکن ظاہر ہے کہ دوسری زبان میں ادب کا وہی معیار باقی رکھنا جو اس کتاب میں ہے جس سے ترجمہ کیا جارہا ہے،بڑی دقت اور مزاولت کا طالب ہے،تاہم مترجم قابلِ ستائش ہیں کہ انھوں ادب کے اس مرغزار کی سیر کی اور اپنے اردو داں بھائیوں کے لیے اپنی مادری زبان میں اس کی عکاسی کی۔3

جب یہ بات قابلِ تسلیم ہے کہ پنچ تنتر کا اصل نسخہ ناپید ہے،اور اس کا پہلا فارسی ترجمہ ماہر طبیب برزویہ نے کیا جو فارسی اور سنسکرت دونوں زبانوں پر یکساں قدرت رکھتا تھا۔اسی طرح فارسی ترجمہ سے ابنِ مقفع نے عربی میں ترجمہ کیا ہے،جو فارسی کا ماہر انشاپرداز، اس کے اصول وآداب کا واقف کار اور اس پر مکمل قدرت رکھتا تھا۔اس کی مادری زبان فارسی تھی۔اسی طرح وہ پہلوی اور یونانی زبان سے بھی واقف تھا۔وہ دوسری صدی ہجری کے ابتدائی نصف حصے میںبصرہ میں پلا بڑھا۔وہ عربی زبان سے اچھی طرح واقف تھا، اور عربی کا نامور ادیب شمار کیا جاتا ہے۔

آج  جب عربی نسخہ ہی ہمارے سامنے اصلی صورت میں موجود ہے،اور اس کا مکمل اردو ترجمہ بھی موجود ہے تو ہمیں اسی کو بنیاد بنا کربات کرنی چاہیے، جیسا کہ فارسی مترجم برزویہ نے اپنے مقدمہ میں تفصیل سے بیان کیا ہے کہ ہندوستانی فلسفی بیدبا نے ہندوستانی بادشاہ دبشلیم کے لیے یہ کتاب لکھی تھی، جو سکندر رومی کے جانشیں کے بعد ملکِ ہند کا بادشاہ بنا تھا،اور اقتدار میں آنے کے بعد نہایت سرکش اور ظلم وستم کا خوگر بن گیا تھا۔بیدبا نے اس کی اصلاح اور اس کو راہِ راست پر لانے کے لیے یہ کتاب ترتیب دی،بلکہ کتاب لکھنے سے پہلے بادشاہ سے ملاقات کرکے اور اپنے علم و حکمت اور اخلاق و آداب سے اس کو متاثر کیا،جس کی بناپر بادشاہ نے اس کو اپنا وزیر مقرر کر لیا،اوربیدبا سے یہ کتاب لکھنے کی خواہش کی۔برزویہ کے مقدمہ میں مذکور ہے کہ دبشلیم بیدبا سے مخاطب ہو کر کہتا ہے:

’’میں چاہتا ہوں کہ تم میرے لیے ایسی فصیح و بلیغ کتاب لکھ ڈالو،جس میں تم اپنے قوائے فکر کو استعمال کرو،جوظاہراً سیاستِ عامہ اور اس کی اصلاح پر مشتمل ہو،باطنی طور پر اس میں بادشاہوں کے اخلاق، ان کے رعایا پر حکم رانی کے انداز،رعایا کی بادشاہ کی تابع داری اور اس کی خدمت گزاری جس سے خود میں اور دیگر لوگ بہت سی ان ہلاکت خیزیوں اورتباہیوں سے بچ جائیں،جس کی ضرورت بادشاہ کے مصائب میں پڑ جانے کے وقت ہوتی ہے۔یہ کتاب میرے بعد سالہا سال یادگاررہے...بیدبا! تم نہایت صائب الرائے اور بادشاہوں کے معاملات میں اطاعت گزار واقع ہوئے ہو۔میں نے یہ چیز تمہارے اندر پرکھ لی ہے۔میری خواہش ہے کہ تم ہی اس کتاب کو ترتیب دو،اس میں تم اپنے قوائے فکرو عمل کو بروئے کار لائو۔اپنے تئیں پوری ان تھک کوشش کرو۔اس سلسلہ کی پوری جدوجہد کرو۔یہ کتاب حقائق، طنزومزاح، لہوولعب اورحکمت و فلسفہ پر مشتمل ہونی چاہیے۔‘‘4

بیدبا نے یہ کتاب اپنے شاگرد کے تعاون سے ایک سال میں مکمل کی۔بیدبا اپنے شاگرد کو کتاب املاء کراتا تھا۔بیدبا اپنے شاگرد کو کتاب کی غرض و غایت بتاتے ہوئے کہتا ہے:

’’ بادشاہ کی شرط کے مطابق اسے تفریح ِ طبع اور علم و حکمت دونوں کا مجموعہ بنادے... وہ اور اس کا شاگرد بادشاہ کے اس مطالبہ پر غورو فکر کرنے لگے۔ان کی عقل نے انھیں یہ رہ نمائی کی کہ ان کا کلام دو جانوروںکی زبان میں ہو۔جانوروں کی گفتگوکو وہ کھیل کود،تفریحِ طبع اور مزاح و مذاق کی جگہ رکھیں۔خود ان دونوں کی گفتگو حکمت ہو۔حکیم اور دانش ور اس کتاب میں حکمت پر توجہ دیں،جانوروں اور مزاح و مذاق کو چھوڑ دیں، اور یہ سمجھ لیں کہ اس کتاب کا مقصود بھی یہی ہے،اور عوام اس کتاب کی جانب دو جانوروں  (لومڑی:کلیلہ اور دمنہ)کی باہم گفتگو سے متعجب ہو کر متوجہ ہوں۔‘‘5

 ان اقتباسات سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ بیدبا نے یہ کتاب صرف شہ زادوں اور راج کماروں کے لیے نہیں لکھی تھی،بلکہ تفریحِ طبع کے ساتھ ساتھ بادشاہ اور رعایا کے درمیان خوش گوار تعلقات،اور ایک دوسرے کا پاس و لحاظ رکھنے، علم و حکمت اورفلسفہ و دانش کی باتوں سے اپنے ذہن و دماغ کو روشن و منور کرنے کے لیے لکھی تھی۔اس کی ضرورت نہ صرف شہ زادگان کو،بلکہ حکمرانِ وقت اور عوام و خواص کو بھی ہے۔ مذکورہ اقتباسات اور مقدمۂ کتاب کی روشنی میں ڈاکٹر ہری کرشن دیوسرے اور ڈاکٹر خوشحال زیدی کی باتوں کی تصدیق نہیں کی جا سکتی ہے کہ پنچ تنتر راج کماروں کو راج کاج کے طریقے سکھانے اور انھیں اخلاقیات کی تعلیم دینے کے لیے تصنیف کی گئی تھی۔

یہ اور بات ہے کہ نفسیاتی طور پربڑوں کے مقابلے میں بچے جانوروں میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ ان کی یہ دلچسپی دائمی ہے،اور آج تک برقرار ہے۔ آج بھی بچے جانوروں اورپرندوں پر مشتمل کہانیاں، کومکس، کارٹون اور سیریلس بڑی دلچسپی سے پڑھتے،سنتے اور دیکھتے ہیں۔بچوں کی اسی دلچسپی اور شوق وذوق کے پیشِ نظر ہر دور میں پنچ تنتر کی کہانیاں بچوں کے نصاب میں شامل کی جاتی رہی ہیں۔

غرض ’پنچ تنتر‘سنسکرت ادب کی ایسی شاہ کا اور مقبولِ عالم تصنیف ثابت ہوئی کہ اخذ و ترجمہ کے ذریعے جس کے فیض کا سلسلہ صدیوں سے جاری و ساری ہے،اور اس کے علوم و معارف،فکرو فلسفہ اور حکمت و موعظت سے روشنی حاصل کرنے والوں کا دائرہ زمان و مکاں کی قیود سے آزادوسیع سے وسیع تر ہے۔

حواشی

.1            ڈاکٹر خوشحال زیدی: اوردو میں بچوں کا ادب۔مکتبہ جامعہ لمیٹڈ دہلی، 1989،ص:154-155، بحوالہ:ہری کرشن دیوسرے۔بچوں کا عالمی ادب۔ماہ نامہ آج کل نئی دہلی، جنوری 1979

.2            ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ:دکھنی نثرپارے۔بحوالہ:ادبِ اطفال کے چند گوشے،از:ڈاکٹر سید اسرارالحق سبیلی۔ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی 2021،ص:78

.3            مولانا خالد سیف اللہ رحمانی۔کلیلہ و دمنہ(اردو)پیشِ لفظ۔ قباگرافکس حیدرآباد، 2014، ص:7

.4            مفتی محمد رفیع الدین حنیف قاسمی۔کلیلہ و دمنہ(اردو)۔قبا گرافکس حیدرآباد، 2014، ص:47-48

.5            حوالہ ٔ سابق،ص:49

 

Dr. Syed Asrarul Haque Sabeeli

Asst. Professor & Head,Dept. of Urdu,

Govt. City College(A) Nayapul

HighCourt Road,                                              

Hyderabad-500002  (Telangana)

syedasrarulhaque@gmail.com

 

14/8/25

اردو ناول نگاری میں خواتین کا حصہ، مضمون نگار: ابوبکر عباد

 اردو دنیا، اپریل 2025

تقریباً مردوں کے دوش بدوش ہی خواتین نے بھی ناول نگاری کی ابتداکی۔ بس یہی کوئی دس بارہ برسوں کے فاصلے سے، کہ ڈپٹی نذیر احمد نے اپناپہلا ناول مراۃ العروس 1869میں لکھا اور رشیدالنسا نے 1881 میں۔ یہ ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی، سماجی، تہذیبی اور تعلیمی زوال اور جہالت و توہم پرستی کے عروج کا زمانہ تھا۔ مرد اساس معاشرے میں ہر سطح پر ان کی برتری کا تسلط تھا، خواتین کی حیثیت ثانوی تھی اوران کی تعلیم و تحفظ کی صورت حال مردوں سے کہیں زیادہ بدتر۔ لیکن اس اعتبار سے یہ عہد نیک شگون اور خیر کا حامل قرار پایا کہ اس میں ابھرنے والی بعض سیاسی تحریکوں اور جدید تعلیم کے اثر سے نظام زندگی اور طرز فکر میں مثبت تبدیلیاںآنی شروع ہوئیں، ایک نئے دور کے آغاز کی بنیاد پڑی۔سماجی اور ادبی زندگی کو نئی جہت بخشنے میں اس تاریخی تبدیلی کے آغاز و ارتقامیں سیاسی و سماجی تحریکوں اور قدیم و جدید تعلیم ونظریات کی آمیزش کے فروغ کے ساتھ ساتھ ایک اہم رول فکشن بالخصوص ناولوں کا بھی رہا ہے۔

اس حوالے سے اردو کے ابتدائی ناولوں میں ڈپٹی نذیر احمد کے’ مرأۃ العروس‘، ’توبۃ النصوح‘، ’ایامیٰ‘ اور علامہ راشدالخیری کے’ صبح زندگی‘، ’شام زندگی‘ اور ’شب زندگی‘ وغیرہ کو نمایاں مثال کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے۔ ان ناولوں کی بنیادی جہتوں میں سے ایک جہت عورتوں کی تعلیم وتربیت اور تعظیم و توقیر کی طرف توجہ مبذول کرانااور اصلاح معاشرہ کی کامیابی میںان کے حقوق کی بحالی اور سرگرمی عمل کی شراکت کو یقینی بنانا تھا۔ ان دونوں حضرات کے بعد خواتین کے تعلیمی اور خانگی مسائل پر جن ادیبوں نے بطور خاص توجہ دی ان میں مردوں کے مقابلے خواتین کی تعداد کثیر، قابل ذکر اور لائق تعریف ہے۔ چنانچہ بیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں یا کہیے ربع اول میں تعلیم یافتہ خواتین کی ایک ایسی جماعت سامنے آئی جس نے اپنی تحریروں کے ذریعے عورتوں کے مسائل پر سنجیدگی سے غور کرنے اور ان پر ہونے والی زیادتیوں کی وجوہ کو دکھانے کی کوششیں کیں،ساتھ ہی ان کے حقوق کی بازیابی کے لیے ایک رجحان پیدا کرنے اور اسے ایک محاذ کی صورت قائم کرنے میں کافی حد تک کامیابی حاصل کی۔ اس رجحان سازی کے آغاز میں لاہور سے نکلنے والے ’تہذیب نسواں‘، علی گڑھ سے شائع ہونے والے ’خاتون‘ اور دہلی سے جاری ہونے والے ’عصمت‘ جیسے اخبار و رسائل کی اشاعت وفروغ اور عورتوں کی بعض انجمنوں مثلاً ’مدرسۃ النسواں(1906) وغیرہ کے قیام کو بھی بنظر تحسین و توصیف دیکھنا چاہیے۔ تعلیم بالخصوص مغربی تعلیم کے زیر اثر خواتین کی روایتی سوچ و فکرمیں جدت پیدا ہوئی، انھوں نے قدیم طرز زندگی کا رخ موڑنے کی کوششیں کیںاور جلسوں، سیاسی تحریکوں اور ادبی مشاغل میں حصہ لینا شروع کیا۔ خواتین کی ان تمام جدو جہد کے ذرائع میں سب سے اہم، زیادہ کنونسنگ، دیرپا اور اثر انگیز ذریعہ ناول نگاری قرار پایا، کہ دوسرے تحریکی اور علمی و ادبی وسائل کے مقابلے اس صنف میں دلچسپی، تجسس، ترغیب، تحرک، فکری تنزیہ،ذہنی ترفع اور روحانی آسودگی جیسے عناصر زیادہ اور دیرپا ہوتے ہیں۔ ناول کے یہ وہ عناصر ہیں جوذہنی تبدیلی، انفرادی و اجتماعی شخصیت کی تشکیل،سماج کی تعمیر اور معاشرے کی ترقی میں اپنے کردار مستحکم،متواتر اور موثر طریقے سے ادا کرتے ہیں۔

اردو میں خواتین ناول نگاری کی تاریخ رشید النسا کے ناول ’اصلاح النساء ‘ سے شروع ہوتی ہے۔ رشید النساء کے بعد محمدی بیگم کا نام آتا ہے اور پھر خواتین ناول نگاروں کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ اس فہرست میں اکبری بیگم، نذر سجاد حیدر،عباسی بیگم،بیگم صغرا ہمایوں، ا۔ض حسن بیگم، بیگم شاہنواز، ضیا بانو،طیبہ بیگم،حجاب امتیاز علی،والدہ افضل علی،صالحہ عابد حسین اور پھر رضیہ سجاد ظہیر، عصمت چغتائی اور قرۃ العین حیدر وغیرہ سے لے کر آج اکیسویں صدی کے ربع اول تک خواتین ناول نگاروں کا سلسلۃ الذہب موضوعاتی تنوع، اسلوب سازی اورفکری ارتفاع کی روشن مثال کی صورت ناول کی دنیا کوثروت مند بنارہا ہے۔

رشید النساعظیم آباد کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد شمس العلماسید وحید الدین چیف جسٹس تھے اور بھائی ’کاشف الحقائق‘ والے شمس العلما سید امداد امام اثر۔سو، انھیں علمی و ادبی مجلسوں اور مذاکروں اور مشاعروں والا ماحول ملا۔گھر کی الماریاں مختلف علوم و فنون اور متعدد زبانوں کی کتابوں سے آراستہ تھیں اور صحبتیں روشن خیالی اور جدید مباحث سے معمور۔ عورتوں کی تعلیم و اصلاح کا آغاز انھوں نے یوں کیا کہ پہلے تو رشتہ دار لڑکیوں کو گھر میں پڑھانا شروع کیا اور پھر لڑکیوں کا باضابطہ ایک مکتب قائم کیا۔ لہٰذا رشیدالنسا کو بہار میں تعلیم نسواں کا پہلا علمبردار کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

 رشید النسا کو ناول لکھنے کا خیال خواتین کی اصلاح کرنے،انھیں غلط رسم و رواج سے نجات دلانے اور ان کی زندگی کو کامیاب اور بامقصدبنانے کے لیے آیا۔ حیرت نہ کیجیے کہ انھوں نے یہ ناول ایک فرضی نام سے چھے مہینے میں مکمل کرلیا تھا لیکن تیرہ برسوں تک ردی کی مانند پڑا رہا۔ جب ان کے لڑکے محمد سلیمان لندن سے بیرسٹر بن کر آئے تو انھوں نے والدہ سے ان کے ناول کے بار ے میں پوچھا :

’’ ۔۔۔ آپ جو کتاب لکھتی تھیں وہ کہاں ہے؟میں نے کتاب نکال کر دے دی۔برخوردار موصوف نے اول سے آخر تک اس کو پڑھ کر کہاکہ نہایت افسوس ہے ایسی عمدہ کتاب اتنی مدت تک وہیں ہی پڑی رہی۔۔۔۔۔ اب اس کو ضرور طبع کرنا چاہیے۔۔۔۔ برخوردار محمد سلیمان نے مطبع قیصری میں خود جاکر چھپنے کے لیے اس کتاب کو دے دیا۔‘‘ (دیباچہ اول (1894)،اصلاح النساء، اشاعت 2000،ص 6،گلشن اقبال، کراچی)

واضح رہے کہ یہ ناول ابتدائی اشاعتوں میں بغیر دیباچے کے والدہ محمد سلیمان کے نام سے شائع ہوتا رہا تھا۔1994کی اشاعت میں اس کا پہلا دیباچہ رشید النسا نے لکھا۔  بعد کی اشاعتوں میں دوسرا دیباچہ ثریا قرنی اور تیسرا سید قیصر امام نے تحریر کیا۔مصنفہ نے ناول کا مقصد یوں بیان کیا ہے جس سے ناول کا موضوع و مافیہ پوری طرح سے نمایاں ہوجاتا ہے:

’’ اللہ تعالیٰ کی درگاہ میں بڑی عاجزی سے یہ دعا مانگتی ہوں کہ یا اللہ اس کتاب سے میری رشتہ مند لڑکیوں اور ہم وطن اور ملک کی عورتوں کو فائدہ پہنچا۔ اور ان کے توہمات اور ان کے بد خیالات کو رفع فرمااور ان کے برے عقائد کی اصلاح کر۔آمین۔چونکہ اس کتاب میں عورتوں ہی کی اصلاح مقصود ہے اس لیے اس کا نام ’اصلاح النساء‘رکھا گیا۔‘‘ (ایضاً)

رشید النسا کے بعد خاتون ناول نگاروں میں مسز مولوی سراج الدین کا نام گو کہ فراموش کردہ لیکن اہم ہے۔ ان کا ناول ’ناول دکن‘ کے عنوان سے رسالہ ’خاتون ‘کے 1905کے شماروں میں قسط وار شائع ہوا، بالکل پنڈت رتن ناتھ سرشار کے فسانۂ آزاد کی طرح، جوابتداً اودھ اخبار کی اشاعتوں میں1878سے 1879 تک شائع ہوتا رہاتھا۔اس ناول کی تخلیقی فضا اور اس کے کرداروں میں مسز مولوی سراج الدین نے مشرق و مغرب کی تہذیب اور قدیم و جدید تعلیم کے عناصر و اثرات کے امتزاج کو سلیقے سے پیش کیا ہے۔

صغریٰ ہمایوں مرزا کی پیدائش حیدرآباد میں ہوئی۔ والدمعروف سرجن اورنظام حیدر آباد کی فوج میں کیپٹن کے عہدے پر فائزتھے۔  والدہ عربی فارسی کی عالمہ اور ادبی ذوق کی حامل تھیں۔صغریٰ نے گھر پر ہی اردو فارسی کی تعلیم حاصل کی تھی۔ سولہ سال کی کم عمری میں ان کی شادی مشہور بیرسٹر ہمایوں مرزا سے کی گئی۔ بیگم صغریٰ ہمایوں مرزا نے ہندو مسلم اتحاد،پردہ سسٹم کی خرابیوں، گائے کے ذبیحے پر پابندی اور قومی یونیورسٹی کی ضرورت جیسے موضوعات پر متعدد مضامین، چھے سفرنامے اور چودہ ناول لکھے جن میں سے ’مشیر نسواں‘، ’سرگزشت ہاجرہ‘ اور’ موہنی‘ کو بڑی شہرت ملی۔ انھوں نے حیا نام سے شاعری بھی کی۔ دو جلدوں میں ان کا سفر نامۂ یورپ خاصا اہم ہے۔ انھیں حیدرآباد کی پہلی خاتون ناول نگار ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ ان کا ناول ’مشیر نسواںیا زہرہ‘ کے نام سے 1906میں شائع ہواجس میں قدیم و جدید تہذیبی زندگی اور انگریزی طرز حیات کی عکاسی کے ساتھ روشن خیالی کے فروغ اور بے جا رسومات سے گریز کو کہانی کے مرکز میں رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ انھوں نے اپنے ناول ’موہنی‘ میں طلاق اور دوسری شادی جیسے معاملات کوبھی بحث کا موضوع بنایا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ناول کی فضا خاصی پر اسرار، متصوفانہ قسم کی ہے۔

محمدی بیگم دارالعلوم دیوبند کے تعلیم یافتہ مولوی سید ممتاز علی دیوبندی کی اہلیہ،مشہور ڈرامہ نگار امتیاز علی تاج کی والدہ،رسالہ ’تہذیب نسواں ‘ کی ایڈیٹر اور حافظ قرآن تھیں۔ انھوں نے اپنے شوہر سے عربی فارسی پڑھی اور پھر انگریزی، ہندی اور حساب سیکھے۔ انھوں نے اپنے رسالے تہذیب نسواں میں جبری نفقہ، طلاق، تعدد ازدواج اور پردہ کی مخالفت میں بہت سے مضامین شائع کیے۔ یوں محمدی بیگم کو ہندوستان کی پہلی مسلم فیمنسٹ اور پہلی خاتون ایڈیٹر کہا جاناچاہیے۔محمدی بیگم نے مختلف موضوعات پر تقریباً درجن بھر کتابیں لکھی ہیں۔ ان میں سے تین کو ناول کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔ ’شریف بیٹی(1908) چھپن صفحات پر مشتمل چھوٹا سا ناول ہے۔ اہم اور حیرت کی بات یہ ہے کہ خلاف رواج اس قصے یا ناول کامرکزی کردار ایک غریب لڑکی ہے۔ناول میں غریب لڑکیوں کی تعلیم اور سلیقہ شعاری کے حصول کو مرکزی موضوع بنایاگیاہے۔’ ناول ’صفیہ بیگم‘ میں بچپن کی منگنی کے عبرتناک انجام کو دکھایا گیاہے اور یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ لڑکپن میںبچوں کے رشتے دراصل لڑکے اور لڑکی دونوں کے لیے زبردستی کی شادی کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔ صفیہ بیگم‘ 1913 میں شائع ہونے والا نوابواب پر مشتمل ننانوے صفحات کا مختصر سا ناول ہے، اس ناول میں بد چلن، جاہل اور ایسے لڑکوں سے شادی کے خلاف والدین کو اکسایا گیا ہے جسے لڑکی پسند نہ کرتی ہو۔ مرکزی کردار صفیہ کی آخری وصیت کے عنوان سے قائم کیے گئے باب کا یہ اقتباس دیکھیے :

’’میری آخری التجا یہ ہے کہ تم اپنی اولاد کے بیاہ شادی میں جان توڑ چھان بین کرو۔ یہ چھان بین جس طرح ذات اور نسب کی کی جاتی ہے اسی طرح علم کی، صحت جسمانی کی، عادات کی، چال چلن کی، مزاج کی، کیفیت کی، اخلاق کی اور سب سے زیادہ لڑکی کی رضامندی کی کی جائے۔ ‘‘

(صفیہ بیگم،دارالاشاعت پنجاب، 1913ص،98)

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ناول کا ہر باب کسی نہ کسی شعر سے شروع ہوتا ہے۔بالکل مرزا محمد ہادی رسوا کے ’امراؤ جان ادا‘ کی طرح۔

 والدہ افضال علی کا اصل نام اکبری بیگم تھا۔لیکن مرد اساس معاشرے کے جبر اور تب کی مروجہ روایت کی مجبوری کے باعث انھوں نے اپنا پہلا ناول ’گلدستۂ محبت‘ عباس مرتضیٰ کے فرضی مردانہ نام سے شائع کروایااور بعد میں والدہ افضال علی کے قلمی یا کنیتی نام سے لکھنے لگیں۔ انھوں نے چار ناول لکھے : ’گلدستۂ محبت‘، ’شعلۂ پنہاں ‘، ’عفت نسواں‘ اور ’گوڈر کا لال‘۔ ناول ’گوڈر کالال ‘ کے بارے میںقرۃ العین نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ پہلی بار یہ 1907میں شائع ہوا۔ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ :

’’گوڈر کا لال چھپتے ہی دھوم مچ گئی۔بہت جلد اس نے نئی مڈل کلاس مسلم عورتوں کی بائبل کی حیثیت اختیار کرلی۔ لڑکیوں کو جہیز میں دیا جانے لگا۔ اس کے قارئین کونہ یہ معلوم تھا کہ’ والدہ افضال علی‘ کون ہیں اور نہ یہ کہ انھوں نے اس ناول کا پس منظر اور کردار کہاں سے حاصل کیے ہیں۔‘‘

(کار جہاں دراز ہے، ممبئی، 1977،ص،156)

ستائیس ابواب اور سات سو اٹھائیس صفحات پر مشتمل یہ ایک ضخیم ناول ہے۔پہلے یہ تین الگ الگ حصوں اول، دوم اور سوم کے طور پر شائع ہوا،بعد ازاں تینوں حصے ایک ساتھ شائع ہوئے۔ اس ناول کی اہمیت اس اعتبار سے بھی ہے کہ اکبری بیگم نے معاشرے میں رائج برائیوں اور گھریلو مسائل کو موضوع بنانے کے علاوہ اس ناول کے ذریعے پردے کی مخالفت کی ہے اور غالباً پہلی بار مسلم لڑکیوں کے لیے مخلوط تعلیم کی وکالت کی ہے۔

نذر سجاد حیدر اردو کے پہلے افسانہ نگار(بعض قول کے مطابق)سید سجاد حیدر یلدرم کی اہلیہ اور مشہور فکشن نگار قرۃ العین حیدر کی والدہ تھیں۔ انھوںنے متعدد مضامین اور مختصر کہانیوں کے علاوہ کئی ایک ناول بھی لکھے ہیں۔یہ آزادی نسواں اور تعلیم نسواں جیسی تحریکوں کی اہم رکن بھی رہی ہیں۔نذرسجاد حیدر کے پہلے ناول ’اخترالنساء بیگم ‘ کو مولوی ممتاز علی نے ‘ نول کشور پریس لاہور سے 1911میں شائع کروایا تھا۔ اس ناول میں جہالت، غلط رسم و رواج اور توہم پرستی کی مخالفت کے ساتھ عورتوں کی تعلیم و تربیت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ماقبل ناولوں کے مقابلے اس ناول کی ہیروئن خاصی ترقی پسند اور روشن خیال ہے چنانچے وہ جگہ جگہ جرأت مندانہ قدم اٹھاتی رہتی ہے۔کہنا چاہیے کہ اس پر سرسید تحریک کا اثر کافی حد تک نمایاں ہے۔اختر النساء بیگم کے علاوہ ان کے چھے ناول : حرماں نصیب، آہ مظلوماں،جاں باز، ثریا، نجمہ ‘اور ’مذہب اور عشق‘ خاصے مقبول رہے ہیں۔ان تمام کو قرۃ العین حیدر نے ’ہوائے چمن میں خیمۂ گل ‘ کے نام سے مرتب کرکے اڑتالیس صفحات کے بے حد معلوماتی دیباچے کے ساتھ یکجا شائع کردیا ہے۔

فخرالنسا بیگم کا نام ان کے ناول ’افسانۂ نادر جہان‘ پر اس طرح لکھا ہوا ہے۔ طاہرہ بیگم الملقبہ بہ نواب فخرالنسا نادر جہاں بیگم۔ دو سو چونسٹھ صفحات پر مشتمل مذکورہ ناول منشی نول کشور لکھنؤ سے 1917میں شائع ہوا۔ اس ناول میں بھی تب کے ادبی رواج کے مطابق غلط رسم و رواج کی مذمت، تعلیم نسواںکی اہمیت، لڑکیوں کی سلیقہ شعاری اور امور خانہ داری کی بحث کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ساتھ ہی مردوعورت کے حقوق اور مساوات کے پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔یہ ایک مسلسل ناول ہے جس میں کہیں بھی کوئی فصل یا باب قائم نہیں کیا گیا ہے۔ بیانیے کو کسی حد تک مسجع اور مقفی بنانے کی کوشش کی گئی ہے، تاہم ناول روز مرہ،محاورے اور عمدہ زبان کی آمیزش سے دلچسپ ہوگیا ہے۔

طیبہ بیگم نواب عمادالملک بہادر کی صاحبزادی تھیں، بلگرام میں پیدا ہوئیں، گھر پر ہی ایک مولوی صاحب سے اردو فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی، بعد ازاں حیدرآباد کے اسکول میں مشہور سیاست داں مسزسروجنی نائیڈو کے ساتھ انگریزی وغیرہ کی تعلیم پائی اور پھر 1894میں مدراس یونیورسٹی سے بیچلر کی ڈگری حاصل کرکے پہلی مسلم خاتون گریجویٹ بنیں۔ ڈاکٹر مرزا کریم خان خدیو جنگ بہادر سے شادی کرنے کے بعد آگے کی تعلیم موقوف کردی۔ عورتوںکی تعلیم اور اصلاح معاشرہ کے جذبے کے تحت انھوں نے حیدرآباد میں آٹھ اسکول بنوائے اور’لیڈیز ایسوسی ایشن ‘ کے نام سے ایک انجمن قائم کی۔ انھوں نے ’انجمن خواتین اسلام ‘کا چارج بھی سنبھالا جسے بیگم رقیہ سخاوت حسین نے عورتوں کی تعلیم، آزادی اور ہنر کے حصول کے لیے قائم کیا تھا۔طیبہ بیگم خدیو جنگ نے ہندوستانی لوک کہانیوں اور لوک گیتوں پر بھی کام کیا ہے۔ انھوں نے دو ناول تحریر کیے ہیں: ’حشمت النسا‘ اور ’انوری بیگم‘۔ انوری بیگم کو انھوں نے 1905 میںمکمل کیا تھا اور 1909میں شائع کیا، تاہم اس کی سرکاری اشاعت ان کے انتقال کے بعد 1922میں ہوئی۔ان ناولوں میں بھی تعلیم نسواں اور معاشرتی صورت حال کو مرکزی محور بنایاگیا ہے۔ دونوں ناولوں کی خوبی یہ ہے کہ ان میں حیدرآباد کا رہن سہن، وہاں کی تہذیب و ثقافت،بود وباش اور حیدرآباد کی خواتین کی زندگیاں آئینے کی مانندشفاف نظر آتی ہیں۔

عباسی بیگم مشہور فکشن نگار حجاب امتیاز علی کی والدہ تھیں۔ وہ اپنے عہد کی اہم خاتون مدیر، نظم نگار،مکتوب نگار اور ناول نگار تھیں۔ان کا ناول ’زہرا بیگم‘1929میں شائع ہوا۔اس میں ایک تعلیم یافتہ خاندان کی لڑکی کا فسانۂ درد والم بیان کیا گیا ہے  جسے اس کے والدین نے دولت کی لالچ میں شادی کرکے اسے زندہ درگور کردیا۔عباسی بیگم نے اپنی تحریروں میںسماج بالخصوص مسلم معاشرے کی خرابیوں کو بیان کرکے انھیں دور کرنے کی کوشش کی ہے۔

حجاب امتیاز علی حیدرآباد کے ایک معزز خاندان کے فرد سید محمد اسماعیل کی صاحب زادی تھیںلیکن ان کی پیدائش 1908میں مدراس میں ہوئی۔یہ ہندوستان کی پہلی اور دنیا کی دوسری مسلم خاتون پائلٹ تھیں۔ان سے دوسال قبل یعنی 1934میں آذربائیجان کی مسلم خاتون زلیخا سید مامدووانے اپنا پائلٹ کا لائسنس حاصل کیا تھا۔ حجاب کو کم عمری سے ہی لکھنے پڑھنے کا شوق تھا۔ان کی پہلی کہانی نو برس کی عمر میں شائع ہوئی اور انھوں نے اپنا پہلا اور اردو کا اہم رومانی ناول ’ میری ناتمام محبت‘بارہ سال کی عمر میں لکھ لیا تھا۔ پہلے یہ حجاب اسماعیل کے نام سے لکھتی تھیں۔1930میں ان کی شادی اردو کے مشہور ڈرامہ نگار اور اسکرپٹ رائٹر امتیاز علی تاج سے ہوئی تو حجاب امتیاز علی نام سے لکھنے لگیں۔ حجاب امتیاز علی کا تحریری عرصہ ساٹھ برسوں کو محیط ہے۔ انھوں نے سگمنڈ فرائڈ کا گہرا مطالعہ کیا تھا جس کے اثرات ان کی تحریروں میں نمایاں ہیں، خاص طور سے ان کے ناول ’اندھیرا خواب ‘ اور ’پاگل خانہ‘ اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔ان کے یادگار ناولوں میں’ظالم محبت‘، وہ بہاریں یہ خزائیں‘،’موم بتی کے سامنے ‘ اور ’سیاح عورت‘ شامل ہیں۔ حجاب امتیاز علی اپنے رومانی فکشن کے حوالے سے مستحکم اور مستند  شناخت رکھتی ہیں۔ان کی شہرت ڈائری نگار، مکتوب نگار اور مضمون نگارکی حیثیت سے بھی ہے۔ان کے ناول و افسانے کی دنیا ایسی سحرانگیز ہوتی ہے کہ قاری اس میں کھو سا جاتا ہے۔ بالعموم ان کی کہانیاں عورت، رومان، فطرت اور نفسیات کے تانے بانے سے تیار ہوتی ہیں۔ان کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ انھوں نے اردو ناول کو چند خوبصورت اور یادگار کردار دیے ہیں جیسے: ڈاکٹر گار،سر ہارلی،دادی زبیدہ،روحی، جسوتی اور حبشاں زوناش وغیرہ۔

صالحہ عابد حسین کا تعلق ایک بڑے علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔یہ خواجہ الطاف حسین حالی کی پڑپوتی،ممتاز عالم خواجہ غلام الثقلین کی بیٹی، خواجہ غلام السیدین کی بہن اور معروف دانشور سید عابد حسین کی اہلیہ تھیں۔صالحہ عابد حسین نے سیرت و سوانح، ڈرامے، خطوط، مضامین، تراجم،آپ بیتی،بچوں کے ادب اور افسانوںکے ساتھ ساتھ آٹھ عدد ناول بھی لکھے ہیں : عذرا، آتش خاموش، راہ عمل، قطرہ سے گہر ہونے تک، یادوں کے چراغ، اپنی اپنی صلیب،الجھی ڈور، گوری سوئے سیج پر اور ساتوں آنگن۔ان کے ناولوں میںمشرقی عورتوں کے مسائل، ان کی طرز فکر اور ان کے جذبات و احساسات کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ان کے یہاں تہذیبی، ثقافتی، معاشرتی اور گھریلو رشتوں کی رنگا رنگی ہے۔ رشید احمد صدیقی کے انشائیوں کی مانند ان کی تحریروں میں بھی علی گڑھ جگہ جگہ سانس لیتا ہوا نظر آتا ہے۔

ان سب کے علاوہ ابتدائی خواتین ناول نگاروں کی ایک طویل فہرست ہے جس میں ب۔ سدید(بیاض سحر)، ا۔ ض حسن(روشنگ بیگم)،ضیا بانو(فغان اشرف، فریب زندگی، انجام زندگی)،حمیدہ سلطان مخفی(ثروت آرا بیگم)، بیگم شاہنواز(حسن آرا بیگم)، ظفر جہاں بیگم (اختری بیگم)، خاتون اکرم (پیکر وفا)، فاطمہ بیگم منشی فاضل (صبر کا پھل) اور خاتون (شوکت بیگم) وغیرہ کے نام اہم ہیں۔ ان سبھوں نے اپنے اپنے وقت میںتعلیمی، اصلاحی، افادی اورمقصدی ناول لکھ کر اردو ناول نگاری کی بھرپور خدمت کی،ایک نئے سماج اور بہتر معاشرے کی تعمیر میںہاتھ بٹایااور فکشن کے فن اور زبان و اسلوب کی توسیع میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔

 

Abu Bakar Abbad

Dept. of Urdu

Delhi University

Delhi- 110007

bakarabbad@yahoo.co.in

 

13/8/25

ادب پر اساطیر اور مہماتی قصوں کا اطلاق، ماخذ: اردو ہندی فکشن میں اساطیر،مصنف: ناز قادری

 اردو دنیا، اپریل 2025


وہ تہذیبیں زیادہ تخلیقیت اور بارآوری کی حامل ہوتی ہیں جن کے پاس اساطیر کا بیش بہا خزانہ ہوتا ہے۔ ادب و فنون کے علاوہ کئی دیگر علومِ انسانیہ پر اساطیری بصیرت کے گہرے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔ دراصل یہ علامتیں ہیں یا یہ کہا جائے کہ ثقافتی علامتیں ہیں۔ دنیا کی مختلف ثقافتوں کے مطالعے میں اساطیری علامتوں کی خاص اہمیت ہے۔ کیونکہ کوئی تہذیب خلا میں پیدا نہیں ہوتی بلکہ ایک انسانی کُرے اور ایک خاص جغرافیائی وحدت میں وہ نشو و نما پاتی ہے۔ ہم نہ صرف یہ کہ اساطیری مطالعے سے ان تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے انسانی گروہوں کی افتاد طبع، ان کی اخلاقیات، ان کی ذہنی زندگی اور ان کے نظریات و عقائد کا پتہ لگا سکتے ہیں بلکہ تہذیبی مطالعے سے بھی ہم ان اساطیری جڑوں تک پہنچ سکتے ہیں جن کا ایک وسیع پس منظر ہوتا ہے اور جو تخیلاتی پیداوار ہونے کے باوجود انسان کا ایک محل اور ہمیشہ قائم رہنے والی معنویت ہوتی ہے۔ انور صدیقی نے اشاریت کی تہذیبی بنیادوں کے ذیل میں علامتوں کی تخلیق کو ثقافتی عمل قرار دیتے ہوئے ان کے اساطیری رشتے کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے:

اشاروں اور علامتوں کی تخلیق و تزئین ایک تہذیبی عمل ہے۔ کسی تہذیب کی ترقی پذیری یا انحطاط کا مطالعہ اس خاص تہذیب کی اشاریت کے بغیر نامکمل رہتا ہے۔ علامتیں ثقافت کی روح کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔ بڑے شاعروں کی طرح تہذیبیں بھی اشاروں میں بولتی ہیں اور اپنے عزائم، اپنے احساس کے سارے اضطراب اور وجدانی مطالبوں کا اظہار علامتوں میں کرتی ہیں اور روحِ تہذیب کی صورت گری کا نام شاعری ہے۔

دنیا کی مختلف تہذیبوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر تہذیب اپنی افتادِ طبع، مزاج اور عقائد کے اعتبار سے علامتیں اور اساطیر وضع کرتی ہے اور جب اس تہذیب پر کسی دوسری تہذیب کی پرچھائیاں پڑنے لگتی ہیں یا وہ غروب ہونے لگتی ہے تو پہلے ایک خاموش اور غیرمحسوس تبدیلی اس کے بطون میں دبے پاؤں رینگ آتی ہے۔اس تبدیلی کا اظہار سب سے پہلے فنونِ لطیفہ میں نئی ابھرنے والی علامتیں کرتی ہیں... وہ تہذیبیں جن کی دیومالائیں اور اساطیر ہیں بہترین خلاق تہذیبیں ہیں۔ تصویروں اور تمثالوں میں سوچنے والی تہذیبیں اسی انداز سے سوچنے والے فنکارو ںکی طرح بڑی پر عظمت ہوتی ہیں۔ کائنات کی میکانکی توجیہ، تشریح یا میکانکی نظریہ کبھی کسی بڑے ادب یا بڑی تہذیب کو جنم نہیں دے سکتا۔ 1

لیوی اسٹراس نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف Structural Anthropology میں لوک کہانی، اسطوری کہانی کی جڑوں تک پہنچنے کی سعی کی ہے۔ بنیادی طور پر اس کا یہی خیال ہے۔ ہر ثقافت کی بنیاد اس کے نظامِ اساطیر میں دستیاب ہے۔ اس طریقے سے وہ انسانی ذہن کی جڑوں تک پہنچتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ قدیم تہذیبی نظاموں میں رائج اوہام، رسومات، تہوار اور تقریبات ایک مربوط سماجی نظم و ضبط کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ لیوی اسٹراس نے The Savage Mind میں متھ کو محض خیالی پرواز سے موسوم نہیں کیا بلکہ  اسے a kind of thought ایک خیال، ایک پیغام سے تعبیر کیا ہے جس کی اساس halfway between precepts and concepts کے عناصر پر ہے۔ گوپی چند نارنگ نے اپنی تصنیف ’ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘ میں لیوی اسٹراس کے اس خیال کی ان لفظوں میں وضاحت کی ہے کہ:

متھ ایک طرح کا پیغام ہے جو اس ثقافت کے افراد کے لیے ہے جس ثقافت میں وہ متھ رائج ہے۔ مزید یہ کہ جب تک کوئی ثقافت وحدانی رہتی ہے۔ متھ میں تبدیلی نہیں ہوتی، لیکن جب اس میں دوسرے اثرات کے در آنے سے مختلف پرتیں پیدا ہوتی ہیں تو متھ میں بھی تبدیلیاں نمودار ہوجاتی ہیں۔ تاہم متھ کا اصل پیغام نہیں بدلتا بلکہ  یہ وہی رہتا ہے۔ 2

قبائلی بصیرت

اساطیر کے بارے میں اس خیال سے اب کم ہی متفق ہیں کہ بصیرت یا محسوسات سے یہ بے بہرہ ہوتے ہیں۔ قبائلی انسان جس طور پر علامتوں میں سوچتا تھا اور جس طور پر کائنات فطرت اور وجود کے پیچھے مخفی اسرار تک پہنچنے کی جستجو کرتا تھا اس کا اظہار اساطیری کہانیوں میں ہوا ہے۔ قبائلی انسان ان اساطیر اور سورماؤں کی کہانیوں (لیجنڈ) میں انکشاف کے طور پر ان حقائق کو پیش کرتا تھا۔ ان کے محسوسات اور ان کے جذبات بھی فطرت ہی کی طرح بے میل اور شفاف  تھے۔ صنعتی تہذیب کے تحفظات نے ان کے تخیل کی آزادروی پر حدبندیاں قائم نہیں کی تھیں۔ کانٹ بھی یہی کہتا ہے کہ انسانی ذہن کوئی مجہول آئینہ نہیں ہے جس کا کام ہی ہر اس چیز کا عکس مہیاکرنا ہے جو اس کے سامنے موجود ہوتا ہے بلکہ انسانی ذہن ایک فعال قوت ہے جو کسی چیز کا عکس مہیا نہیں کرتا بلکہ اپنے طور پر اس حقیقت پر اثرانداز بھی ہوتا ہے یعنی اس حقیقت کو ایک نئی شکل بھی مہیا کرتا ہے جس کا ہم ادراک کرتے ہیں۔ اس معنی میں قبائلی انسان کے علامتیانے کا عمل نہ تو مہمل اور لایعنی ہے اور نہ طفلانہ childish۔ اس عمل کے پیچھے ان کے اپنے میلانات ہوتے ہیں جو اپنے طور پر ’صداقت‘ کا تعین کرتے ہیں۔ یعنی ان کی سچائیاں ان کے ذ ہنی اور ثقافتی تناظر کی کوکھ سے برآمد ہوتی ہیں۔ جن کے کوئی ایک معنی نہیں ہوتے جیسا کہ علامت کے کوئی ایک معنی نہیں ہوتے بلکہ علامتی تصورات ہمیشہ بڑھتے اور پھیلتے ہیں وہ جامد اور ساکن نہیں ہوتے جس طرح عموماً لغوی معنی اور مفاہیم ہوتے ہیں۔

اساطیر اور تمثیل allegory

اساطیر کی ایک تمثیلی جہت بھی ہوتی ہے۔ اس معنی میں اس کی تشکیل استعارے کی مرہون ہوتی ہے۔ استعارہ حقیقت کو ایک نئے معنی مہیا کرنے کا نام ہے۔ وہ حقیقت کو رد نہیں کرتابلکہ حقیقت کے اور دوسرے بہت سے نام ممکن ہیں۔ ان ممکنات پر سے وہ پردہ اٹھاتا ہے۔ جس طرح تمثیلی قصہ یا داستان دورانِ محض میں واقع ہوتی ہے اسی طرح اساطیری کہانی میں بھی زمان کا تعین ناممکنات میں سے ہوتاہے۔ اساطیر کی تمثیلی تشریحات بھی کی جاتی رہی ہیں۔ ان کے اندر کارفرما علامتی اور استعاراتی معنی کو بھی بحث کا موضوع بنایا جاتا رہا ہے۔ پروفیسر عتیق اللہ نے اپنی اہم تالیف ’ادبی اصطلاحات کی وضاحتی فرہنگ‘ میں تمثیل (allegory) کے ضمن میں اسطور اور تمثیل، اسطور اور اجتماعی حافظہ، اسطور اور اخلاقی اصول سازی، اسطور اور قوتوں کی نمائندگی پر تجزیاتی بحث کرتے ہوئے لکھا ہے:

انسان نے اپنی بیش بہا اور فطری تمثیلی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا کر ان اشیا کو حرکت میں بدل د یا جو مجہول تھیں۔ انھیں محجرّ کردکھایا جو مجرد تھیں یا محض کیفیات و اوصاف سے جن کا تعلق تھا۔ ان جانوروں اور اشیا کو زبان دے دی گئی جو غیرناطق تھیں۔ آہستہ آہستہ اساطیر نے انفرادی اور اجتماعی حافظے میں اپنی جڑیں گہری کرلیں۔ اعادے اور تکرار، نیز زمانہ بہ زمانہ فاصلوں میں اضافے کے باعث ان کی اصلیتیں بھی تبدیل ہوتی رہیں اور مختلف قوموں، قبیلوں اور فرقوں میں ان کی حیثیت اخلاقی رہ نما کی ہوگئی۔ بعد ازاں یہود نے سب سے پہلے اسطور پر ضرب لگائی تاہم اسطوری دانش کا فیضان جاری رہا۔ مذاہب نے انھیں خرافات کا نام دیا لیکن ان سے اپنے اصول بھی وضع کیے۔ اس طور پر اساطیر کی علامتی معنویتوں میں اضافہ ہوتا گیا اور اب وہ محض ایسے مظاہر  میں بدل گئے ہیں جو انسانی حقائق اور قوتوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ 3

اسطور کی علامتی توضیح

جیسا کہ اس سے قبل یہ عرض کیا جاچکا ہے کہ اسطوری کہانیاں اور اسطوری کردار محض خیالی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ استعارے اور علامت کی طرح ان کی دو سطحیں ہوتی ہیں۔ ظاہری سطح پر جس معنی سے ہم دوچار ہوتے ہیں معنی کا وہ محض ایک پہلو بلکہ ایک جھلک (flash) ہوتی ہے۔ جب کہ اصل معنی اس کے نیچے اور نیچے ہوتے ہیں۔ وہ بھی اس معنی میں اضافی ہوتے ہیں کہ علامتی معنی کی خاصیت ہی اس کا حرکی کردار ہے۔ وہ کسی ایک تصور پر قانع نہیں ہوتی اور نہ متوازیت کے معنی میں دونوں معنی ایک دوسرے کے برابر ہوتے ہیں۔ اکثر پہلی پرت کے معنی کو دوسری پرت کے معنی رد بھی کرتے ہیں۔ قبائلی انسان کی علامتیت پر سب سے پہلے وائکو (Vico) نے دانشورانہ نوعیت کی روشنی ڈالی تھی، وائکو ہی کے خیالات کی توسیع بشریات اور نفسیات کے علما کی جدید ترین تحقیقات میں ملتی ہیں۔ علوم کے ان میدانوں میں وائکو کو کئی اعتبار سے بنیاد گزار کہا جاتا ہے۔ ارنسٹ کیسرر نے بھی اپنی تصنیف Philosophy of Symbolic Forms میں زبان اور اسطور کے ماخذ پر بحث کرتے ہوئے ان کی علامتی معنویت کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔ اس کی نظرمیں زبان اور علامت نے ایک ہی زمین سے نمو پائی ہے۔ (two diverse shoots from the some parent stem) گویا علامتی تشکیل میں دونوں کا محرک ایک ہی ہے۔ وہ واضح لفظوں میں یہ کہتا ہے کہ علامتیں انسانوں کی ضروریات اور مقاصد کے مطابق اپنی شکل بناتی ہیں۔ علامت میں کسی حقیقت کا کوئی پہلو نہیں ہوتا بلکہ وہ خود حقیقت ہوتی ہے۔ علامت میں موضوع اور معروض کے درمیان ایک اندر ہی اندر رواں شناخت کی صورت ہوتی ہے۔ یعنی علامت موضوع اور معروض کے مابین ایک ’مقامِ ملاقات meeting place ہے۔ کیسرر نے شعری اظہار اور سائنس کی زبان کے تعلق پر جو بحث کی ہے۔ ڈبلیو۔ ایم۔ اربن نے اپنی تصنیف Language and Reality میں اسطور کو بنیاد بنایا ہے۔ لیکن کہیں کہیں کیسرر سے اختلاف بھی کیا ہے۔ وہ مابعدالطبیعیات کو علامتی زبان کے طور پر اخذ کرتا ہے جو سائنس اور فن کی علامتی زبانوں کے درمیان رابطے کا کام کرتی ہے۔ نارتھروپ فرائی نے کیسرر اور سوزان کے لینگر کے اساطیری علامتی نظام کے تصور کو اپنی تصنیف The Anatomy of Criticism میں بحث کا موضوع بنایا ہے۔ کیسرر اور لینگر نے شاعری اور متھ کے فرق کو بنیاد بنایا تھا جب کہ فرائی دونوں کے انضمام پر زور دیتا ہے۔

اسطور اور دوسرے علوم و مکاتب

اساطیر بہ یک وقت کئی علوم پر اثرانداز ہوئے ہیں۔ اساطیر کی علامتی جہتوں سے کئی جدید علوم نے اپنی تحقیقات میں مدد لی ہے۔ تحلیل نفسی اساطیری مفاہیم کو خصوصی طور پر آفاقی نفسی تصادمات کے مظہر کے طور پر اخذ کرتی ہے جس کی بہترین مثال ایڈی پس کامپلیکس کی ہے۔ سی۔ جے۔ یونگ نے محض اساطیر کے مطالعے ہی کو بنیاد بنا کر اپنے تصورات قائم نہیں کیے بلکہ خوابوں، مذہب اور فن کی مثالوں سے آر کی ٹائپ کا تصور قائم کیا۔ جسے وہ آفاقی تشکیلی عملیے کی بنیاد قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہتا ہے کہ یہ عملیہ Process ہی اساطیر کی تشکیل و تعمیر کرتا ہے۔ تہذیبی بشریات کی رو سے اساطیر سوسائٹی کی یک جہتی اور ہم آہنگی کو مستحکم کرنے کی سب سے بڑی طاقت اور ذریعہ ہوتے ہیں۔ درخیم نے سماجی مطالعات میں اساطیر کو اجتماعی ضمیر کا مظہر کہا ہے۔ یہ وہ اصول اور شعائر ہوتے ہیں جن سے روشنی اخذ کرکے افراد سماجی بنتے ہیں اور جو صنعتی دور سے پہلے اور بعد کی سوسائٹیوں میں مضبوط رشتہ قائم کرنے میں معاون ہوتے ہیں۔ فرانسیسی مارکسی فلسفی جیورجس سوریل کی تصنیف Reflection on Violence (1907) میں وہ عصری سیاست اور سماجی واقعات کو طاقتور اساطیر کے طور پر اخذ کرتا ہے۔ (جیسے عام ہڑتال)۔ اس قسم کے اساطیر لازماً عوامی سیاسی عمل کے لیے تحریک کا باعث بننے والے جذبات کومشتعل کرتے ہیں۔

لیوی اسٹراس ساختیاتی بشریات میں سوسیئر کی نشانیات کی تھیوری پر اساس رکھتا ہے۔ وہ اساطیر کو نشانیاتی نظام کے طور پر مانتا ہے۔ وہ ان اصولوں کی تحقیق کرتا ہے کہ کس طرح ایک اسطور دوسرے اسطور کے قالب میں ڈھل جاتا ہے۔ بعد ازاں رولاں بارتھ نے بھی اسطور کو اپنے تجزیے میں ایک اوزار کے طور پر استعمال کیا۔ اس طرح اس نے اسطور اور عصری تہذیب کے باہمی ربط کو حوالہ بنایا ہے۔ اسٹراس کا کہنا ہے کہ نشان sign اسطور کو مجسم کرتا ہے اور مجرد تصورات کو ایک خاص اظہار کی صورت بخشتا ہے۔

اسطور اور نفسیات

سگمنڈ فروئڈ وہ پہلا نفسیات داں ہے جس نے اپنی تحقیقات اور نفسیاتی تجربات و نتائج کو مستحکم کرنے کے لیے اساطیر سے جابجا کام لیا ہے اس سلسلے میں اس کی معرکۃ الآرا تصنیف The Interpretation of Dreams کا خاص مقام ہے۔ وہ کہتا ہے کہ بچے میں اپنی ماں کے لیے زبردست دبی کچلی خواہش ہوتی ہے۔ باپ اس کی راہ میں ایک ایسی رکاوٹ ہوتا ہے جسے وہ ہٹا کر ماں پر پورا اختیار چاہتا ہے۔ اسے وہ Oedipus Complex کہتا ہے۔ اسی طرح لڑکی کے اندر بھی باپ کے لیے اسی قسم کی نفسی خواہش ہوتی ہے جسے فروئڈ Electra Complex کے نام سے موسوم کرتا ہے۔ اس مظہرے Phenomenonکو خوابوں،  اساطیر، پریوں کی کہانیوں، لوک قصوں اور حتیٰ کہ لطائف میں دیکھا جاسکتا ہے۔ فروئڈ نے Oedipus اور Electra جیسے کردار اساطیر ہی سے اخذ کیے تھے۔ وہ کہتا ہے کہ:

Myth was the distorted wish- dreams of entire people

اساطیر تمام انسانوں کے ٹوٹے پھوٹے خواہش بیز خواب ہیں۔

اسی بنا پر فروئڈ کا خیال ہے کہ خواہش کی راہ میں رکاوٹ کے باعث بچہ باپ سے بغاوت پر آمادہ ہوتا اور اسے قتل کرنے کے درپے بھی ہوجاتا ہے اور ایڈی پس کی طرح اپنی ماں کو لے کر فرار بھی ہوسکتا ہے۔

جے۔ اے۔ ایٹکنسن کی مرتبہ ’ڈکشنری آف سائیکلوجی‘ میں ایڈی پس کامپلیکس کی وضاحت کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ:

The child's repressed desires for sexual intercourse with the parent of the opposite sex. Originally Freud used the term Odepus Complex to refer the boy's desire for the mother, and the term Electra Complex to refer to the corresponding  desire of the girl for the father. More recently, psychoanalysts  use Oedepus  Complex to refer to both sexes. 4

ترجمہ:مرد بچے کی اپنے مخالف جنس والدین کے ساتھ جنسی عمل کی شدید خواہش۔ بنیادی طور پر فروئڈ نے ایڈی پس کامپلیکس کی اصطلاح کو صرف مرد بچے کی اس خواہش کو مدنظر رکھ کر کیا تھا جو وہ ماں کے تعلق سے رکھتا ہے اور الیکٹرا کامپلیکس کو اسی معنی میں لڑکیوں کی اس خواہش سے وابستہ کیا جس کا مرکز باپ ہوتا ہے۔ جدید ترین نفسیات داں اب دونوں یعنی لڑکی اور لڑکے کے لیے ایڈی پس کامپلیکس کی اصطلاح ہی استعمال کرتے ہیں۔

فروئڈ نے یہ اصطلاح سوفوکلیز کے شہرۂ آفاق المیہ ’ایڈی پس دی کنگ‘ سے لی تھی جس میں ایڈی پس کے ذریعے نادانستہ طور پر اس کے باپ کا قتل ہوجاتا ہے اور پھر وہ اپنی ماں سے شادی کرلیتا ہے۔ اسطوری ادوار ہی میں نہیں عہد وسطیٰ اور اس کے بعد کے شہنشاہیت کے زمانوں میں بھی فاتح بادشاہ مفتوح ملکاؤں سے شادی کرلیا کرتے تھے۔ ایڈی پس بھی لاعلمی میں باپ کے قتل اور ماں سے شادی کرکے ایک عمومی سماجی اخلاقی قانون کی خلاف ورزی کربیٹھتا ہے جو بالآخر اس کے لیے بہت بڑے عذاب کا سبب بھی بنتا ہے۔

ایڈی پس کے بارے میں یہ اسطوری کہانی مشہور ہے کہ تھیبیس کے بادشاہ لایوس (Lauis) کا بیٹا تھا۔ اس کی ماں کا نام ملکہ جو کاسٹا تھا۔ لایوس کے ایک گناہ کی پاداش میں اسے یہ بشارت دی گئی تھی کہ اس کی موت اس کے بیٹے کے ہاتھوں ہوگی۔ برسوں تک وہ اپنی بیوی سے فاصلہ بنا کے رکھتا ہے لیکن ایک روز نشے کے عالم میں وہ مجامعت کربیٹھتا ہے۔ ایڈی پس اسی کا ثمر تھا۔ ایڈی پس کے پیدا ہونے پر لایوس اس کے پاؤں چھید کر اسے دور ایک پہاڑ پر مرنے کے لیے پھینک دیتا ہے۔ ایک چرواہے کی نظر اس پر پڑجاتی ہے وہ اسے کورنتھ کے بادشاہ پولی بس کے سپرد کردتیا ہے جو لاولد تھا۔ چونکہ ایڈی پس کا پیر مخدوش تھا۔ اس لیے وہ اس کا نام ایڈی پس رکھتا ہے جس کے معنی سوجے ہوئے (متورّم) کے ہوتے ہیں۔ بڑے ہوکر اس کی جنگ تھیبیس کے بادشاہ لایوس (اس کے باپ) سے ہوتی ہے جو مارا جاتا ہے اور ایڈی پس لاعلمی میں اپنی ماں سے شادی کرلیتا ہے۔ جو کاسٹا کے بطن سے دو لڑکے اور دو لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اسی اثنا میں تھیبیس میں پلیگ کی بیماری پھیل جاتی ہے۔ ہزاروں انسانوں کی موت واقع ہوتی ہے۔ لایوس، کریون، کو ڈیلفی کے مندر بھیجتا ہے۔ غیب سے یہ جاننے کے لیے کہ اس تباہی کی وجہ کیا ہے۔ یہ کس گناہ کی پاداش میں آسمانی عتاب نازل ہوا ہے، ٹائیرے سس (Tiresias) نامی ایک بزرگ ایڈی پس کو گناہ گار بتاتے ہیں۔ ایڈی پس کے لیے یہ خبر ناقابلِ برداشت تھی۔ وہ اپنی آنکھیں پھوڑ لیتا ہے اور تھیبیس کو چھوڑ کر در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ جو کاسٹا خودکشی کرلیتی ہے۔    ایڈی پس کی بیٹی ایٹی گنی اس کا ساتھ دیتی ہے۔ ایتھنس کے قریب کولونس کے مقام پر اس کی موت واقع ہوتی ہے۔ ایتھنس کے باشندوں کے لیے ایڈی پس کی موت کی خبر ایک خوش شگونی کے مترادف تھی۔ اس کی موت پر عوامی جشن منائے جاتے ہیں۔

فروئڈ نے ایڈی پس کی طرح الیکٹرا کی اصطلاح بھی یونانی اسطور سے حاصل کی ہے۔ الیکٹرا، اگامینن کی بیٹی تھی جو مائی سینائے Mycenae کا بادشاہ تھا۔ الیکٹرا کے معنی ہیں ’آگ‘ چمک یا بجلی۔ جب اگامینن ٹرائے کی جنگ سے لوٹا تو اس کی بیوی اپنے عاشق ایگس تھس Aegisthus کے ساتھ مل کر اسے قتل کردیتی ہے۔ الیکٹرا کو ایگس تھس کے قاتلانہ ارادوں سے واقف تھی وہ اس کے ظلم سے اپنے بھائی اوریس ٹس Orestus کو بچا کر انھیں وہاں سے دور روانہ کردیتی ہے۔ برسہابرس کے بعد اوریس ٹس مائی سینائے لوٹتا ہے۔ دونوں بہن بھائی باپ کی قبر پر ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔

لیوی بروہل اور جے۔ سی۔ یونگ کے اسطوری تصورات فروئڈ کے مقابلے میں زیادہ مثبت اور تخلیقی ہیں۔ بروہل بھی اسطور کو پس منطقی Pre-logical ذہانت کی اختراع مانتے ہوئے ایک ایسے طریق فکر سے منسوب کرتا ہے جو قدیم انسانوں میں عمومیت کا درجہ رکھتی تھی۔ حتیّٰ کہ موجودہ زمانوں میں جہاں جہاں قبائلی گروہ اپنے اپنے حدود میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ ان کے یہاں بھی سوچنے کا یہ ڈھنگ عام ہے۔ ان کی اس سوچ میں ایک mystical participation سرّی شمولیت کی جھلک کا بھی تجربہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ لوگ موضوع اور معروض کو ایک ہی وحدت میں دیکھتے اور سوچتے ہیں۔ یونگ نے اساطیر ہی سے ’اجتماعی لاشعور‘ کا تصور اخذ کیا۔ اسی طرح اس کے آر کی ٹائپس (archetypes) کے تصور کی جڑیں بھی اساطیری نظام ہی میں پیوست ہیں۔ آر کی ٹائپس بنیادی قماشات ہیں۔ وہ ان کا رشتہ اساطیر‘ پریوں کی کہانیوں اور خوابوں سے جوڑتا ہے۔ جو تمام انسانوں کی سائیکی میں مشترک ہیں۔

اسطور اور مذہب

اسطور کے بارے میں بڑی آسانی کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کی ایک حیثیت قبائلی مذہب کی ہے۔ وہ سارے مذاہب جن کی جڑیں مشرق وسطیٰ میں ملتی ہیں یا ہندوستان میں یا ایران کے زرتشتوں کے یہاں کسی نہ کسی پہلو سے ان کی اسطورسازی میں اساطیری روایت کا دخل ضرور ہے۔ اساطیر کی ایک شکل دیوی دیوتاؤں کی صورت میں دستیاب ہے۔ دوسری ان کی ماورائی اور مابعدالطبیعیاتی متعلقات سے وابستہ ہے۔ بعض رسومیات جو محض اساطیری ثقافت سے منتقل ہوتی ہوئی چلی آرہی  ہیں اصولی طور پر مذہبی شعائر سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کی بنیاد محض ثقافت میں جمی ہے۔ مختلف انسانی سماجوں میں کئی انقلاب آفریں تبدیلیاں واقع ہونے کے نیز سائنس اور منطق کی سطح پر ترقیات کی نئی منازل چھونے کے باوجود ان مذہبی رسومات و عقائد کا سلسلہ برقرار ہے بالخصوص جن کی کوئی عقلی بنیاد نہیں ہے۔ جیمس فریزر نے ابتدائی انسانوں کے سماجی رسوم، موسمی تقریبات، شکست و فتح کے جشن وغیرہ کے بارے میں بحث کرتے ہوئے اسطور کو قدیم ترین مذہبی شعور سے تعبیر کیا ہے۔ اسطوری تہذیبوں کے بعد جن مذاہب نے نشو و نما پائی ان کی علامتی نمائندگیوں میں اساطیر کی حیثیت ایک عظیم ماخذ کی ہے۔ وہ فطرت جو اسطور میں پوری طرح غالب اور محیط ہے مذاہب میں اس کی جگہ انسان لے لیتا ہے۔ انسانی اخلاقیات کی ایک ایسی دنیا تشکیل پاتی ہے جہاں عبادات، زندگی گزارنے کے طریقے، جرم و سزا کے قوانین، ماورائی دنیا کے طلسماتی تناظر کی غیرعقلی بنیاوں کو اسطور سے جوڑا جاسکتا ہے لیکن انھیں عقائد کا درجہ دینے کے باعث کسی سند کی ضرورت نہیں ہے۔ متھ کو بھی کسی سند کی ضرورت نہیں ہے لیکن انھیں عقلی سطح پر شک کی نظر سے دیکھنے کے باوجود اور کبھی کبھی مسترد کرنے کے باوجود ان سے علامتی رشتے کو قائم رکھنا بنی نوع انسان کی مجبوری ہے۔

برٹانیکا کے مطابق عہدنامہ قدیم میں اسطوری مواد کافی ہے۔ بشریات کے ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ یہ اسطوری تھیم قدیم یونانی، چینی اور ہندوستانی اساطیری فکر کے سلسلوں سے مناسبت رکھتے ہیں۔ یہود نے مذہبی سطح پر سب سے پہلے ان پر ضرب لگائی۔ کیونکہ ان قصص کی کوئی صداقت بیز بنیاد نہیں تھی۔ اسطوری دیوی دیوتاؤں کے ایک بڑے حصے کی شکلیں فطرت سے اخذ کی گئی ہیں یا فطرت کی بنیاد پر ان کی تشکیل ہوئی ہے جیسے ہوا کے دیوتا (یا خدا)، پانی، سیلاب، تباہی، سورج، چاند، وغیرہ کے دیوتاؤں کا ایک سلسلہ ہے جو مصر، بابل و نینوا، چین، یونان اور ہندوستان وغیرہ کے اساطیر کی نظاموں میں مشترک قدر کا حکم رکھتا ہے۔ جن مذاہب کی بنیادیں مشرق وسطیٰ میں ملتی ہیں وہ کئی سطحوں پر اسطور مخالف ہیں۔ عہدنامۂ جدید میں بھی اسطور کو godless اور مضحک بتایا گیا ہے۔ اسلام نے اسطور کو کبھی حوالہ نہیں بنایا بلکہ اسطور سازی میں بت ساز ی کا شائبہ بھی ہے اس لیے اسلام اساسی طور پر اسطور مخالف مذہب ہے۔ بعض ضمنی مماثلتوں کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اسلامی شعائر کی تشکیل و ترکیب میں اسطوری بصیرت اور اسطوری تجربے کا کوئی دخل ہے۔ مثلاً وہ علامتی مخلوق جسے جِنّ کہا گیا ہے اور جس کا استعمال اکثر اِنس (انسان) کے ساتھ ملتا ہے۔ کوئی اسطوری تخلیق نہیں ہے۔ جیسا کہ برٹانیکا کا خیال ہے:

Islam is  emphasis on the transcendence of God, as attested in the Quran, similarly allows little room for mytheological stories. The activities of the supernatural beings known as 'Jinn' however are acknowledged even by official Islam besides being prominent in popular belief (as in the Thousand and One Nights); and other mythological themes, for example motifs relating to the and of time (eschatology), also figure in Islamic religion.5

ترجمہ:خدا کے ماورائی یا انسانی تجربے سے پرے جو قرآنی تصور ہے وہ کسی قدر اسطوری کہانیوں سے میل کھاتا ہے۔ اسلام ’جن‘، جیسی فوق الفطری مخلوق کا اقرار کرتا ہے علاوہ اس کے جسے ایک مقبول عام عقیدے کے طور پر ’ایک ہزار ایک رات‘ نام کی داستان میں نمایاں طور پر جگہ دی گئی ہے۔ دوسری مثال کے طور پر آخرت (یا روز قیامت) سے متعلق تصورات کا بھی اسطوریاتی موضوعات سے تعلق ہے۔ مذہبِ اسلام میں ان کا بھی خاص مقام ہے۔

اس سے قبل کئی جگہ یہ عرض کیا جاچکا ہے کہ عقائد کو کسی سند کی ضرورت نہیں ہوتی۔ سماوی الفاظ کی تفاسیر کا سلسلہ روزِ قیامت تک جاری رہے گا کیونکہ سماوی الفاظ کی غیرمحدود معنویت اور وسیع تر علامتیت کی فہم و شرح کے لیے انسانی ذہن کی حدود اور صلاحیت ناکافی ہے۔ وہ تفاسیر جو سو دوسو برس یا ہزار برس پہلے لکھی گئی تھیں۔ موجودہ ادوار میں قلم بند کی گئیں تفاسیر کے مقابلے میں کافی محدود اور مخصوص ہیں۔ مختلف نت نئے علوم اور تحقیقات کی روشنی میں تفاسیر کا معنوی کُرہ بے حد وسیع ہوا ہے۔ جہاں تک برٹانیکا کے مرتبین کے بعض اسلامی تصورات کے سلسلے میں خیالات ہیں اس کا ایک بڑا سبب  یہ ہے کہ وہ اسلام کو بھی تحریف شدہ عیسائیت کے مقابلے پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں کیونکہ عیسائیت نے جب روم و یونان میں اپنے قدم مضبوطی سے جمائے تو ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ اسطور شکنی تھا۔ انھوں نے اسطور کو خرافات کا نام ضرور دیا لیکن اسطوری تناظر سے اپنی تفاسیر کو ثروت مند اور معتبر بنانے کی سعی بھی کی، جیسا کہ پروفیسر عتیق اللہ نے ’عہد بزنطینی‘ کے تحت یہ واضح کیا ہے کہ:

یونانِ قدیم کی تہذیب اور اس کے آثار، فنونِ لطیفہ، فلسفہ اور دیگر علوم، اساطیر اور اساتین (سورما) وغیرہ کو رومیوں نے مشرف بہ روم اور بعد ازاں مشرف بہ مسیح تو کرلیا تھا مگر یونانی روح کی بالادستی بڑی حد تک قائم رہی۔ چوتھی صدی عیسوی میں جب شہنشاہِ قسطنطین نے مسیحیت قبول کرلی تب بزنطینیوں کو یونانی فکر و فن، کفر و الحاد بہ الفاظِ دیگر خرافات کا مجموعہ نظر آنے لگا۔ ایک ایسی عظیم ترین تہذیب کو چشم زدن میں تہس نہس کر دینا آسان نہ تھا جس کی تاریخ ماضی میں کئی صدیوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ ہر عمل کے برابر ہی اس کا ردِّعمل ہوتا ہے۔ ضدیں،باہمی تناقض کے باوجود ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتی ہیں اور آخری شمار میں کسی ایک واحدے میں ضم ہوجاتی ہیں یا ان کی خلقی original  صورتیں یکسر بدل چکی ہوتی ہیں۔ 6

اس تجزیے کے بعد وہ یہ بتاتے ہیں کہ کس طرح عیسائیت کو اسطور کے سامنے سپر ڈالنی پڑی؟ اور عقیدے کے اِس تصادم کے بعد عیسائیت میں مسلسل ضمنی اور نمایاں تبدیلیاں واقع ہوتی رہیں؟ روحانیت، مادیت میں ضم ہوتی چلی گئی۔ سائنس کے نت نئے کائناتی تصورات اور تحقیقات نیز مادّی آسائش کو عبادات و اخلاقی احکامات پر ترجیح دی جانے لگی۔ پروفیسر عتیق اللہ نے اِس مسئلے کو بھی موضوعِ بحث بنایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

داخلی سطح پر یونانی فکر کی صلابت اور حرکیت، اسطوری، ذہنی و دانش ورانہ حریت، صداقت کی تلاش و تحقیق اور استنباطِ نتائج کے طریق ہائے کار کے معنی آہستہ آہستہ مسیحی ضمیر کا حصہ بننے لگتے ہیں۔ بعد ازاں جس کے اثمار قرونِ وسطیٰ کی موخر صدیوں سے رونما ہوتے ہیں۔ پروٹسنٹ فرقے کا قیام، کلیسائے روم کی مرکزیت کا کم زور پڑنا، مشرقی بنیادی مسیحی روح سے انحراف اور اس مغربیت کی ترویج جس کا مصدر اصلاً یونانی دانش کی حیاتیات تھی نیز حضرت ِ عیسیٰ اور حضرت مریم کا ایک مجسم اسطور کی شکل اختیار کرلینا ایسے واضح نشانات ہیں جو یونانی فکر کی بالیدہ ساختوں کا ثبوت فراہم کرتے ہیں بیسویں صدی تک آتے آتے مسیحی عقیدے کے معنی صرف مسیح پر ایمان کے ہوگئے۔ خدا پر اس کا یقین ہو یا نہ ہو مسیح پر ایمان ہی ایک عیسائی کے لیے کافی ہے۔7

حواشی

1   انورصدیقی: ساخت و شناخت، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی 1993

2  گوپی چند نارنگ ’ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات، ایجوکیشنل ہاؤس دہلی، 1993 ص 115

3             پروفیسر عتیق اللہ ’ادبی اصطلاحات کی وضاحتی فرہنگ‘، اردو مجلس دہلی 1996، ص 127

4             A Dictionary of Psychology, ed. J. A. Atkins & others, IV edition, 1987

5             Encyclopaedia of Britanica Vol. 24

6             پروفیسر عتیق اللہ، ادبی اصطلاحات کی وضاحتی فرہنگ، اردو مجلس 1996، ص 345

7             -do-

 

ماخذ: اردو ہندی فکشن میں اساطیر،مصنف: ناز قادری، پہلی اشاعت: 2021، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

 

تازہ اشاعت

پنچ تنتر کے اردو تراجم، مضمون نگار: سید اسرارالحق سبیلی

  اردو  دنیا، اپریل 2025 عالمی ادب میں کچھ کتابیں ایسی لا فانی اور شاہ کار ہوتی ہیں،جن کا کوئی بدل نہیں ہوتا۔ایسی کتابیں اخذ و ترجمے کے تو...