اردو دنیا، فروری 2025
شمس الرحمن
فاروقی کی شخصیت اردو ادب میں ایک نابغہ روزگار کی ہے۔ اردو ادب میں ایسا
کوئی ادیب نہیں ہے جو بیک وقت تنقید اور تخلیق
دونوں پر یکساں دسترس رکھتا ہو۔ فاروقی کی تنقید جس بلند پائے کی ہے اور ہم
یہ بات بلا خوف و تر دید کہہ سکتے ہیں کہ نہ صرف اردو بلکہ ہندوستان کی دیگر
زبانوں میں بھی فاروقی جیسا ذی علم، ہوش
مند اور اعلیٰ درجے کا ادبی ناقد فی زمانہ کوئی نہیں ہے۔ لیکن یہ بڑے کمال کی بات ہے کہ ادبی تنقید میں
اتنے بڑے کارنامے انجام دینے کے باوجود فاروقی کی تخلیقات بھی اسی اعلیٰ پیمانے کی
ہیں کہ ان کا بھی کوئی ثانی اردو تو اردو دوسری زبانوں میں بھی مشکل ہی سے ملے گا۔
تنقید اور تخلیق دونوں پر یکساں دسترس اپنے آپ میں ایک عجوبہ ہے چونکہ تخلیق ہمیشہ
معروضی تنقید کے مخالف ہوتی ہے۔ چاہے وہ لا شعوری طور پر ہی کیوں نہ ہو۔ فاروقی کے
ادبی تخلیقی سرمائے کو پس نو آبادیاتی
نظریے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ انھوں نے نوآبادیاتی اثرات کے تناظر میں نہ صرف
اردو ادب کے ثقافتی اور ادبی ورثے کو دوبارہ دریافت کیا بلکہ اسے ایک جدید اور
معروضی تنقید کے ذریعے عالمی ادب کے مساوی لا کھڑا کیا۔ فاروقی کا کارنامہ اس سے
کہیں زیادہ ہمہ جہت ہے۔ ان کی تخلیقی اور تنقیدی کاوشوں نے اردو ادب کو نئی سمت
اور شناخت عطا کی ہے، جو انہیں نہ صرف اردو ادب بلکہ عالمی ادبی تناظر میں بھی ایک
منفرد مقام عطا کرتی ہے۔
فاروقی کے افسانے اور ان کا شاہکار ناول ’ کئی چاند تھے سر آسماں ‘ اس امر
کی روشن دلیلیں ہیں جس میں ان کا تخلیقی ذہن ان کے تنقیدی شعورکے ساتھ مل کر حقیقت
کو ایک اکائی کی طرح پیش کرتا ہے اور ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ کسی مخصوص زمان و
مکاں میں حقیقت کا کلی ادراک کس طرح کیا جاتاہے۔
شمس الرحمن فاروقی کا افسانوی مجموعہ ’سوار اور دوسرے
افسانے ‘ 2001 میں پہلی بار ’ آج کی کتابیں
‘ کے تحت شائع ہوا ، اور 2003 میں دوبارہ
’ شب خون کتاب گھر‘ سے منظر پر آیا۔ اس مجموعے میں پانچ افسانے شامل ہیں اور ہر
افسانہ اپنے پلاٹ، تھیم اور بیانیہ کے حوالے سے بے حد اہم ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو
بے جا نہ
ہوگا کہ فاروقی کے یہ افسانے اردو میں اپنی نوعیت کی بالکل منفرد تحریریں ہیں۔
برصغر میں
نوآبادیاتی دور میں اردو زبان و ادب پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ مغربی فکر، انداز،
اور اقدار نے مقامی زبانوں اور ادبی رویوں کو پسِ پشت ڈالنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے
میں تخلیقی آزادی محدود ہو گئی اور مقامی ثقافتی ورثہ کمزور ہونے لگا۔ شمس الرحمن
فاروقی نے اس صورت حال کا گہرا ادراک کیا اور اپنی تخلیقات کے ذریعے اردو ادب کو
اس نوآبادیاتی دباؤ سے آزاد کرنے کی کوشش کی۔
نوآبادیاتی پس منظر کے حوالے فاروقی اس مجموعے کے دیباچہ میں لکھتے ہیں :
اٹھارویں صدی کو میں ہند اسلامی تہذیبی تاریخ کا زریں
باب سمجھتا ہوں۔ اردو فارسی ادب، تصوف
علوم عقلیہ و نقلیہ، فنون حرب و ضرب، موسیقی، ان میدانوں میں اٹھارویں صدی
والوں نے جو نئے نئے مضمار و بد اد ریافت کیے اور فتح کیے ، ان کی مثال پہلے نہیں
ملتی، بعد میںملنے کا تو خیر کوئی سوال ہی نہیں۔ اور اٹھارویں صدی کی دہلی کا کوئی
کیا حال لکھے۔ ہم لوگ چند شہر آشوبوں، چند ہجوؤں، تعصب اور کینہ پر بنی چند
انسانوں کو تاریخ قرار دے کر اٹھارویں صدی کی دہلی کو زوال، انتشار، بدامنی، طوائف
الملوکی، امیروں کی مفلسی اور غریبو ں کی فاقہ کشی کا شہر سمجھتے ہیں۔
(فاروقی،
24: 2003)
اٹھارویں صدی ہند اسلامی تہذیب کا ایک شاندار دور تھا،
جہاں اردو، فارسی ادب، تصوف، اور علوم عقلیہ و نقلیہ کو عروج حاصل ہوا۔ دہلی اس
وقت علم و فنون، موسیقی اور ادبی تخلقات کا مرکز تھی، جہاں میر، سودا، مصحفی اور غالب جیسے شعرا نے اردو زبان
کو بے مثال وسعت دی۔ غزل اور داستان جیسی اصناف نے زبان کی جمالیات کو مزید
سنوارا۔
انگریزی زبان اور نوآبادیاتی نظام کی وجہ سے اردو کے کئی الفاظ کے ساتھ ساتھ روایتی تحریری
انداز بھی متروک و معدوم ہوگئے اور فارسی و عربی کی جگہ انگریزی اثرات نمایاں
ہونے لگے۔ تہذیب کی روایتی روحانیت اور
سادگی کو مادیت اور صنعتی ترقی نے دبا دیا، جبکہ داستان اور غزل جیسی اصناف کی جگہ
ناول اور نظم نے لینا شروع کیا۔ دہلی، جو کبھی تہذیبی اور ثقافتی عروج کا مرکز تھی،
نوآبادیاتی تبدیلیوں کے باعث بدامنی، غربت، اور عدم مساوات کا شکار ہوگئی۔ تاہم،
اس دور میں شعرا اور ادبا نے اپنی تخلیقات
میں ان تبدیلیوں کو محفوظ کیا، جو آج بھی تہذییی شناخت کا حصہ ہیں۔ نوآدیاتی دلی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے تعلق سے
غالب افسانہ کے بینی مادھو رسوا کے
مشاہدات کی ایک مثال کے طور پر نیچے کے
اقتباس ملاحظہ کیجیے :
چار مہینے میں نے ان مجلدات کو حرز جاں کی طرح سینت کر
رکھا۔ نومبر 1862 کے آخری دن تھے جب میں بیل ڈاک قنوج، فرخ آباد، بیاور، کول،
بلند شہر، غازی آباد، شاہدرہ، دلہائی ہوتا ہوا
بیس دن کی مسافت کے ہرج مرج جھیلتا ، غم والم اٹھاتا، دلی پہنچا۔ میں باڑہ
ہند وراؤ کی ایک سرا میں اترا۔ معلوم ہوا کہ بلی ماروں کا علاقہ یہاں سے کچھ بہت
دور نہیں۔ آہنی سڑک ابھی کانپور کے پاس سے بھی نہ گزری تھی، گو کہ اس کے آنے کے
غلغلے تھے۔ میں نے بھی اب تک ریل کی سواری کی نہ تھی، اور نہ اس کا ارادہ تھا۔ لیکن
دہلی کی ریل منزل میری سرائے کے پاس ہی تھی۔ وہاں کی چہل پہل ، لوگوں کی دھکا پلک،
دھواں دھکڑ ، دْخان پھینکتے ہوئے آتشی انجنوں کا آنا جانا (اس لفظ سے میں کانپور
میں آشنا ہوا)، مجھے یہ سب کچھ عجب وحشت انگیز، سا لگا۔‘‘
(فاروقی:43:2003)
افسانہ،بحیثیت ایک تخلیقی نثر کی صورت میں، صرف واقعات
اور حادثات کے بیان تک محدود نہیں ہوتا؛ اس میں زبان کی تخلیقی تشکیل بھی بہت ہی اہم ہوتی ہے
(عالم189L2005)۔ پس نوآبادیاتی منظرنامے میں، لسانی تخلیق کا کردار بہت اہمیت
رکھتا ہے۔ جب تک زبان میں تخلیقی جدت نہیں آتی، افسانہ ادب کی دنیا میں اپنے مقام
کا دعویٰ نہیں کر سکتا، اور مصنف کو حقیقی تخلیقی نثر کے ایک فنکار کی حیثیت سے
اعتبار حاصل نہیںہو سکتا۔ ادب کے نا قدین
اور تخلیقی نثر کے مصنّفین کے درمیان فرق بنیادی طور پر نثر کے فن میں
مہارت کا ہے۔اس تناظر میں، شمس الرحمٰن فاروقی کے افسانے اپنے نثری انداز میں عمیق تبدیلیوں کی نمائندگی
کرتے ہیں۔ ان کی نثر اس دور کی تخلیق نو ہے جب اردو زبان میں فارسی و عربی
کے اثرات کا انجذاب تھا۔ فاروقی کی نثر ایک ایسی روایت کا نیا عہد ہے، جو
اردو زبان میں عربی و فارسی زبان کے اثرات
کے ساتھ ہی اپنے مقامی اظہار کو اجاگر کرتا ہے۔ ابتدائی اردو محاورے اور ذخیرۂ
لغات پر ان کا گہرا اور عمیق علم ، جو اردو کی روایتی قصہ گوئی سے جڑا ہوا ہے، اس بات کو ثابت
کرتا ہے کہ وہ پرانی زبان کے ذخیرے کو نئے مفہوم کے ساتھ جوڑنے کی بھرپور صلاحیت
رکھتے ہیں۔ فاروقی کے نزدیک، الفاظ صرف جامد نہیں ہوتے، بلکہ ان کو تازہ دم اور
موجودہ و تاریخی اہمیت سے ہم آہنگ کیا جاسکتاہے۔مثال کے طور پر، فاروقی کے ذریعے
استعمال کیے گئے لفظ ’ادیب‘ ( جو جدید اردو میں
نوآبادیاتی اثرات کی وجہ سے ’مصنف‘ کے محدود معنی میں مستعمل ہے) پر گہرائی سے غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ
زبان کس طرح بدلتی ہے۔ یہ لفظ، جو اصل میں ’استاد‘ کے معنی میں استعمال ہوتا تھا،
اب نوآبادیاتی اور ثقافتی تبدیلیوں کے اثرات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، اور اس
سے پس نوآبادیاتی شناخت اور ثقافتی بازیابی
کے موضوعات ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ اسی طرح، ’سلمہ اللہ تعالیٰ‘ جیسے الفاظ، جو پہلے بزرگوں کے لیے ایک احترام
کا اظہار تھا۔ مزید برآں، فاروقی ’غم کھانا‘
جیسے محاورے کا استعمال اپنی نثر میں
کرتے ہیں، جو قبل نوآبادیاتی زمانے میں ’انتظار کرنا‘ یا ’صبر کرنا‘ کے معنوں میں
مستعمل تھا اب جدید استعمال میں یہ الفاظ
اور محاورے بالکل مختلف معنوں کے ساتھ ہیں، پھر بھی ان میں ایسی لچک موجود ہے جو
انھیں مختلف سیاق و سباق میں دوبارہ استعمال کرنے کی گنجائش فراہم کرتی ہے۔
درج بالا مثالیں
فاروقی کی اس صلاحیت کو ظاہر کرتی ہیں کہ وہ ماضی اور حال کے درمیان پل بناتے
ہوئے پرانی نثر کو زندہ رکھتے ہیں اور
زبان کو نوآبادیاتی اثرات اور ثقافتی مزاحمت کی روشنی میں نئے معنی فراہم
کرتے ہیں، تاکہ موجودہ سماجی اور سیاسی حقیقتوں
پر تنقید کی جا سکے۔ ایسے اظہاروں کو دوبارہ حاصل کر کے، فاروقی زبان کی سہل پسندی
اور سادگی کو رد کرتے ہیں، اور اس کے بجائے ایک زیادہ پیچیدہ اور کسی قدر تہہ دار
لسانی ورثے کو اپنانا پسند کرتے ہیں، جو نوآبادیاتی تاریخ اور پس نوآبادیاتی
شناخت کی پیچیدگیوں کو اجاگر کرتا ہے۔ پس نو آبادیاتی نظریات کے تحت یہ سوال
اٹھنا واجب ہے کہ جب سادگی اور بے ساختگی نے زبان پر حکمرانی حاصل کر لی ہے تو کلا
سیکی اور زیادہ رسمی نثری اسلوب کا استعمال کیوں کیا جائے؟ لیکن شمس الرحمن فاروقی کے ذریعے قبل نوآبادیاتی
دور کی کلاسیکی اردو نثر کو دوبارہ زندہ
کرنا محض ماضی کی بازیافت کاعمل نہیں ہے،
بلکہ یہ نوآبادیاتی ماضی کے ساتھ ایک شعوری تعامل اور تعلق کی استواری کا عمل ہے،
جہاں زبان کو مزاحمت اور شناخت کی تعمیر کے
ایک ٹول(tool)کے
طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ فاروقی کی نثر یہ ثابت کرتی ہے کہ زبان ایک ثقافتی
جدوجہد کا میدان بن سکتی ہے، جہاں نوآبادیاتی ورثہ اور مقامی مزاحمت کا آپس میں ٹکراؤ ہوتا ہے اور ماضی کے ’اعلیٰ‘
ادبی اشکال اور موجودہ زمانے کی بدلتی ہوئی زبان کے درمیان رابطے اور ترسیل کا
عمل شروع ہوتاہے (سعید 11:1202)۔
فاروقی کی مہارت صرف ان کی لفظیات کے استعمال تک محدود نہیں ہے بلکہ ان کی نثری
ساخت میں بھی عمیق تبدیلیاں دکھائی دیتی ہیں۔ ان کی کلاسیکی اور محاوراتی اردو کے
درمیان توازن، فارسی اور عربی محاوروں کا استعمال، اور ان کے درمیان ایک پیچیدہ
تعامل کو پس نوآبادیاتی حکمت عملی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کا نثری اسلوب
مختلف زمانوں کی ادبی زبانوں کے درمیان ایک رابطے کی صورت اختیار کرتا ہے، جو
نوآبادیاتی ورثے اور مقامی ثقافتی مزاحمت کے درمیان تناؤ کو اجاگر کرتا ہے، اور
ماضی کی ’معیاری‘ ادبی روایات اور موجودہ دور کی عوامی زبانوں کے درمیان جاری
جدوجہد کو بیان کرتا ہے(ناصر عباس111: 2024)۔
پس نوآبادیاتی نقطہ نظر کے مطابق، یہ صرف ایک اسلوبیاتی
انتخاب نہیں بلکہ یہ زبان کی ایک ایسی طاقت کا اظہار ہے جو ثقافتی خودمختاری کے
دعوے کے طور پر منتج ہے۔ فاروقی کی محتاط زبان کا استعمال، جیسے ’غم خانہ‘، ’ادیب‘
اور ’سلمہ اللہ تعالیٰ‘، ماضی اور حال کے درمیان ایک رابطے کو جنم دیتا ہے۔ یہ رابطہ زبان کی نوآبادیاتی
مسلطیت سے آزادی اور اس کے موجودہ ہندوستانی سماج میں اہمیت کو دوبارہ حاصل کرنے
کی کوشش کے طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ وہ اپنی نثر کے ذریعے یہ ثابت کرتے ہیں کہ
زبان نہ صرف نوآبادیاتی تاریخ کا ایک ریکارڈ ہے، بلکہ یہ ایک متحرک قوت بھی ہے جو
پس نوآبادیاتی جدید یت کے عمل کو آگے بڑھاتی ہے۔
فاروقی کا پس نوآبادیاتی موقف ان کے اردو کے کلاسیکی
ورثے سے گہرے تعلق اور اس کی جدید تشریحات کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے۔ وہ زبان میں پوشیدہ
سیاسی طاقت کو سمجھتے ہیں اور اس کا استعمال ثقافتی تسلسل اور سماجی تنقید کے طور
پر کرتے ہیں۔ ان کے افسانے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ زبان نوآبادیاتی تاریخ کا ایک ریکارڈ
ہونے کے ساتھ ساتھ پس نو آبادیاتی تخیل کا ایک وسیلہ بھی ہو سکتی ہے۔ فاروقی کی
نثر اس بات کی وضا حت کرتی ہے کہ زبان ایک ایسا میدان ہے جہاں نوآبادیاتی اثرات
کے مابین جدوجہد اور شناخت کی تخلیق کی جاتی ہے۔
’سوار اور دوسرے
افسانے‘ مجموعہ میں شامل افسانہ ’ آفتاب
زمیں‘ کا تجزیاتی محاکمہ کرتے ہوئے
فاروقی کے استعمال شدہ لفظوں اور محاوروں کے تعلق سے خالد جاوید لکھتے ہیں
:
اس مضمون میں بیانیے کی دوسری خوبیوں کا ذکر (جزوی طور
سے ہوتا ہی آیا ہے ) میں مختصر ا ً کرنے پر ہی اکتفا کروں گا۔ مثال کے طور پر
فاروقی کے بیانیے میں ذخیرہ الفاظ ، روزمرہ اور محاورے کا استعمال اس دور کے تہذیبی،
تاریخی اور یہاںتک کہ سیاسی صورت حال کی جیسی بھر پور انداز میں نمائندگی کرتے ہیں
وہ صرف فاروقی کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا تھا۔ اس زبان نے بیانیہ کے آئینے کو کی
طرح صاف و شفاف بنا دیا ہے مگر میں اپنی پرانی بات پر پھر بھی قائم ہوں کہ آئینے
اور آپ کے درمیان جو خلا ہے اور اس خلا میں جو دھند ہے اس دھند میں ہی وہ بصیرت
پوشیدہ ہے جو اٹھارہویں صدی کی دہلی اور لکھنؤ کی پوری تہذیب کو ہمارے حواس و
ادراک کے لیے قابل گرفت بناتی ہے۔ اسی دھند سے ہی مصحفی کی ایک شبیہ بننا شروع ہوتی
ہے۔’ آفتاب زمیں‘ اس کا ہی افسانہ ہے
اور یہ اردو ادب میں پہلی بار ممکن ہوسکا ہے کہ ایسی سچی اور خالص شبیہ کہیں ابھرتی ہوئی نظر آتی ہو۔ خاص طور سے جب
ہم زمان ومکاں کے ایک طویل فاصلے سے شبیہ کا نظارہ کررہے ہوں۔‘‘ (جاوید: 93: 2008)
شمس الرحمن فاروقی نے اپنی افسانہ نگاری میں اردو زبان
کے بیانیہ امکانات کو وسیع کیا اور اسے ایک خودمختار ادبی زبان کے طور پر پیش کیا
ہے۔ ان کے افسانے گہری علامتوں، استعارات، اور کلاسیکی اسلوب کے ذریعے زبان کی
طاقت کو ابھارتے ہیں اور ان کا اسلوب مغربی
اثرات سے آزاد، لیکن جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہے، جس نے اردو ادب کو ایک نئی سمت
دی ہے۔ شمس الرحمن فاروقی کے افسانے اردو زبان کے جمالیاتی ورثے، کلاسیکی ادب، اور
تاریخی شعور کو اجاگر کرتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں داستانوی عناصر، زبان کی نفاست،
اور ماضی کی ادبی روایات کی بازیافت شامل ہیں، جو نوآبادیاتی اثرات کو رد کرتے
ہوئے اردو ادب کو اس کی اصل شناخت فراہم کرتی ہیں۔ ان کا زیر بحث افسانوی مجموعہ
اس بات کی بہترین مثال ہے، جس میں انھوں نے قبل نوآبادیاتی زمانے کے تہذیبی اور
ادبی ورثے کو نہایت باریکی سے پیش کیا ہے۔ ان افسانوں کا بیانیہ برصغیر کی تہذیبی
عظمت کو نمایاں کرتا ہے اور نوآبادیاتی بیانیے کو چیلنج کرتا ہے جو مقامی ادبی و
تہذیبی تاریخ کے ورثے کو اکثر کم تر ثابت
کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
حوالے اور ماخذ
l خالد
جاوید: 2008، ’ کہانی، موت اور آخری بدیسی
زبان‘، نئی دہلی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس
l احمد
دین: 2023، ’سر گزشت الفاظ‘ ، لاہور، عالمگیر پریس
l ایڈورڈ
سعید، 2009، ’ ثقافت اور سامراج‘، مترجم یاسر جواد، اسلام آباد،
مقتدرہ قومی زبان
l ایڈورڈ
سعید، 2012، ’شرق شناسی‘، مترجم محمد عباس،
دہلی، البلاغ پبلی کیشنز
l محمد
منصور عالم، 2005، ’حریر دو رنگ: شمس الرحمٰن فاروقی شاعر و افسانہ نگار‘، نئی دہلی،
رعنا کتاب گھر
l شمس
الرحمن فاروقی، 2003، ’سوار اور دوسرے
افسانے‘، الٰہ آباد، شب خون کتاب گھر
l شمس
الرحمن فاروقی، 2003، ’ غالب افسانہ‘، مشمولہ سوار اور دوسرے افسانے، الٰہ آباد،
شب خون کتاب گھر
l شمس
الرحمن فاروقی، 2003، ’سوار ‘، مشمولہ
سوار اور دوسرے افسانے، الٰہ آباد، شب خون کتاب گھر
l شمس
الرحمن فاروقی، 2003، ’ ان صحبتوں میں آخر‘، مشمولہ سوار اور دوسرے افسانے، الٰہ آباد، شب خون
کتاب گھر
l شمس
الرحمن فاروقی،2003، ’آفتاب زمیں‘، مشمولہ
سوار اور دوسرے افسانے، الٰہ آباد، شب خون کتاب گھر
l شمس
الرحمن فاروقی،2003، ’لاہور کا ایک واقعہ‘، مشمولہ سوار اور دوسرے افسانے، الٰہ آباد، شب خون
کتاب گھر
l شمس
الرحمن فاروقی،2011، ’اردو کا ابتدائی زمانہ‘، نئی دہلی،مکتبہ جامعہ لمٹیڈ
l شمس
الرحمن فاروقی،2020، ’ قبض زماں‘، نئی دہلی،عرشیہ پبلی کیشنز
l شمس
الرحمن فاروقی،، 2022، ’تنقیدی افکار‘، نئی
دہلی، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان
l گوپی
چند نارنگ، 2004، ’ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘، نئی دہلی، قومی کونسل
براے فروغ اردو زبان
l ناصر
عباس نیر، 2016، ’اردو ادب کی تشکیل جدید:
نو آبادیاتی اور پس نوآبادیاتی عہد کے اردو مطالعات‘، کراچی، اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس
l ناصر
عباس نیر، 2024، ’مابعد نوآبادیات: اردو
کے تناظر میں‘، لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز
Iqbal Husain
Research Scholar, Dept of Urdu
Jamia Millia Islamia
New Delhi- 110025
Mob.: 9871648568
iquebalhussain1982@gmail.com