28/10/24

مضمون اور اس کا فن، ماخذ: اردو ادب میں مضمون کا ارتقا، مصنفہ: سیدہ جعفر

 اردو دنیا،اکتوبر 2024

مضمون کا آغاز

مضمون یا ’’اسّے‘‘(Essay) اپنی اصطلاحی شکل اور اپنے لفظی پیکر کے اعتبار سے مغرب کی دین ہے اور مغرب میں نثر کی ایک ممیز ادبی صنف تصور کیا جاتا ہے۔ فرانس میں مانیتں Montaigne(1571) نے اس کاآغازکیا تھا۔ اس صنف کی صورت گری اور تشکیل و نشوو نماکے مختلف محرکات رہے ہیں۔ زندگی کی بڑھتی ہوئی مصروفیت اور ہیئت اجتماعی کے مختلف شعبوں کی روز افزوں گہما گہمی نے طویل ادبی کارنامو ںکے مطالعے کی فرصت چھین لی۔ ’فرصت کا روبار شوق‘ کی کمی نے ’ذوق نظارہ جمال‘ کے نئے معیار اور نئے سانچوں کو متعارف کروایا۔ میقاتی رسالے اور اخبارات کی ترویج نے ’اسّے ‘ یا مضمون کی مانگ بڑھادی۔ قاری اب طویل وبسیط کارناموں کے بجائے اسّے  ادب پاروں کا متمنی تھا جن میں ایجاز و اختصار ، ادبی ذوق کی تسکین کے سامان ، فکر انگیزی اور زندگی کی مزاج شناسی موجود ہو اور مضمون یا اسّے  میں ان کی پذیرائی کے امکانات موجود تھے جس نے اس ادبی صنف کو مقبولیت عطا کی اور صنفی اہمیت تسلیم کروائی۔

مانیتں (Montaigne) ، Miechael De Montaigne (1533-1592)نے پہلے پہل اسّے نئے قسم کی تحریریں پیش کیں وہ عالمی انشائیہ کا موجد ہے ۔سیاسی زندگی سے سبکدوش ہونے کے بعد اس نے اپنے تجربات اور تاثرات نوٹس (Notes) کی شکل میں قلمبند کرنے شروع کیے جس وقت مانیتں یہ نوٹس لکھ رہا تھا اسے یہ گمان بھی نہیں گزرا تھا کہ وہ ادبیات عام میں نثر کی ایک نئی صنف متعارف کروارہا ہے۔ مانیتںنے اپنے ان نوٹس کو’ اے سیز (Essays) کے نام سے شائع کروایا اور یہ اتنے مقبول ہوئے کہ یورپ اور انگلستان میں ان کے چرچے ہونے لگے۔ اور مانتیں کے تتبع میں انگریزی اور دوسری زبانوں سے ’اسّے ‘لکھے جانے لگے۔

مضمون  کی اصطلاح

اسّے‘ کی اصطلاح اب ایک متعین صنف ادب کے لیے استعمال ہوتی ہے اس کا ماخذ ایک فرانسسی لفظ Assayہے جس کے معنیٰ سعی اور کوشش کے ہیں ۔ یہ قدیم فرانسسی لفظ Essaiسے ماخوذ ہے جس کا لاطینی ماخذ Exgagium(تولنا) ہے Exagereکوشش کرنا اور جانچنا کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔

(دی کنگ سائز آکسفورڈ ڈکشنری آف کرنٹ انگلش، ص 386)

انگریزی میں یہ لفظ املا کے تغیر کے ساتھ فرانسسی ہی سے لیا گیا ہے چاسر Chacer نے لفظ Assay استعمال کیا ہے لیکن تجربے اور جائزے کے معنیٰ ہیں۔ گائلز کے پاس یہ لفظ کوشش اور جدوجہد کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے لفظ ’اسّے‘ بطور فعل بھی برتا گیا ہے اور اس لفظ کے معنیٰ تجربہ کرنے کے ہیں۔ شیکسپیئر کی تخلیقات میں یہ لفظ Assayکی صورت میں فعل کے طور پر آیا ہے۔

اصطلاح کا استعمال

ابتدائی دور میں اسّے کی اصطلاح اسّے مضامین کے لیے استعمال ہوتی تھی جو بقول ارل آف برکن ہیڈ (Earl of Birken Head) اس اصطلاح کے ’مستحق‘ نہ تھے یعنی جن پر پوری طرح اس کا اطلاق نہیں ہوتا تھا جان لاک (John Lock)نے 1690 میں اس اصطلاح کو اپنی ضخیم فلسفیانہ کتاب کے لیے تجویز کیا تھا اور اس کا نام’ این اسّے کنسرنگ ہیومن انڈر اسٹانڈنگ 

(An Essay Concerning Human Understanding) رکھا۔ لیکن قاری کو شبہ ہوتا ہے کہ اس نے اپنے اٹھارہ سالہ گہرے مطالعے کے نتائج کو محض ایک جائزہ کہا تھا یا سنجیدہ مسائل میں الجھے رہنے والے ذہن کے لیے تفریح کی چیز سجھ کر اس کے لیے یہ نا م منتخب کیا تھا کیونکہ اسی سال اس نے دو سیاسی رسالے تصنیف کیے اور ان رسالوں کا نام اس نے’ ٹِری ٹائز آن سیول گورنمنٹ‘ (Trestise On Civil Government) رکھا۔ اٹھارویں صدی کے اکثر مصنفین نے جان لاک کی پیش کردہ مثال کی تقلید کی اور ’ایس اے‘کے نام پر اسّے  نثر پارے کا استعمال کیاجس میں کوئی قصہ بیان نہ کیا گیاہے۔جان ڈرائی ڈن (John Dryden) نے ادبی جمالیات( Literary Aesthtics) پر لکھے ہوئے سلسلے کے لیے یہ نام تجویز کیا ۔ پوپ (Pope)نے معاشرت پر تنقید کے مجمع کو’’ این اسّے آن مین‘‘( An essay on Man)کہا۔

مضمون بطور صنف ادب

مضمون یا اسّے کسی خاص موضوع کے بارے میں انشاپردازکے خیالات اور جذبات کے رد عمل کا پرتو ہوتا ہے ۔ یہ ایک ایسا ادب پارہ ہوتاہے جس میں بیک وقت فکر انگیزی خیال کی اعتمادی تاثرات کی دلفریب ترجمانی اسلوب کا نکھار اور تصور کی لطافت سب ہی عناصر سموئے ہوئے ملتے ہیں۔ مضمون ہمارے ذہن کو ایک خاص ذوق آگہی بخشتا اور ہمارے جذبات میں ایک انبساط پر ور تازگی اور تابناکی پیدا کرتا ہے ۔ خواہ اس کا موضوع ’ آرائش خم کا کل‘ ہو یا ـ’اندیشہ ہائے دور دراز‘ کی قبیل کا۔ مضمون کی صنف میں بڑی لچکداری اور اس کے موضوعات میں خاصی گہرائی اور وسعت ہے ۔ اس صنف ادب کے وسیلے سے بہت سے کام لیے گئے ہیں۔ کبھی یہ صنف سماجی اور ذہنی بیداری کے حربے کے طور پر استعمال ہوئی ہے تو کبھی اصلاحی اور افادی مقصد کی اشاعت کے لیے ۔ کبھی انسانی جذبات کی حسین اور رنگین مرقع کشی کے لیے۔ مضمون یا اسّے کے ذریعے سے مزاح اور ظرافت کی پھلجڑیاں بھی چھوڑی گئی ہیں اور طنز کے تیر بھی برسائے گئے ہیں لیکن ہر صورت میں مضمون کی صنف سے اس کا یہ مقصد وابستہ رہا ہے کہ وہ انسانی جذبات اور خیالات کی عکاسی کرے۔

مضمون کی ماہیت

مضمون کی ماہیت اس کی ٹکنک اور اس کے فنی خد و خال کے بارے میں بھی مختلف ادیبوں اورنقادوںنے مختلف تصورات اوراصول پیش کیے ہیں۔جی ای ہڈسن ( G.E Hudson) اپنی کتاب انگلش لٹریچر (English Literature) میں اسّے کی تعریف کرتے ہوئے لکھتا ہے:

’’اسّے  الفاظ کا مجموعہ نہیں ہوتا جو بغیر کسی مقصد کے باہم جوڑ دیے گئے ہوں ۔ اسّے  قصداً سوچا سمجھا اور آسان لیکن مربوط اصولوں کی مدد سے مناسب اندازمیں اس شخص، چیزیا خیال کے متعلق ایک جائزہ ہوتا ہے جو مضمون نگار کو دلچسپ اور اہم معلوم ہو‘‘۔

(جی ای ہڈسن۔ انگلش لٹریچر، باب چہارم، ص 227)

اوپر کے اقتباس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہڈسن کے خیال میں مضمون یا اسّے کو ایک خاص مقصد کی نمائندگی کرنی چاہیے ۔ اور یہ کہ اس کے کچھ مربوط اور منظم اصول بھی ہوں جن کی روشنی میں وہ کسی خاص شخص چیز یا خیال کا جائزہ لے سکے لیکن ایچ واکر(Hugh Walker) اس تصورسے اختلاف کرتاہے۔ اس نے اپنی کتاب انگلش اسیز اینڈ ایسیسٹس  (English Essays and Essayists) میں لکھا ہے کہ اسّے  (مضمون) ایک ایسی صنف ہوتی ہے جو باقاعدہ اور سخت اصولوں میں جکڑی ہوئی نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک آزاد قسم کی تحریر ہوتی ہے ۔ واکرنے اپنے اس خیال کی تائید میں ڈاکٹر جانسنکا قول بھی نقل کیا ہے ۔ لکھتاہے:

’’اسّے (مضمون)کیاہے اس سوال کے متعلق دو تصورات ہیں ایک تو یہ کہ وہ مختصر مضمون ہوتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ اسّے آزاد تحریر ہوتی ہے۔ موخر الذکر ڈاکٹر جانسن کا تصور ہے جو نہ صرف ایک عظیم انشا پرداز بلکہ خود ایک ممتاز ایسیسٹ بھی تھا۔ اس نے اسّے کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے کہ ’اسّے ‘ ذہن کی آزاد پیداوار اور ایک غیر تحلیل شدہ چیز ہوتی ہے نہ کہ باقاعدہ اور باضابطہ تحریر۔‘‘

(ایچ واکر۔ انگلش ایسیز اینڈ ایسیسٹس ۔باب اول، ص 1)

مضمون کی تعریف

’’آکسفورڈ ڈکشنری نے ان دونوں تعریفوں کو جوڑ کر اسّے کی فنی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ بتایا گیا کہ اسّے معقول طول کی ایک ایسی تصویر ہوتی ہے جس میں تکمیل کا احساس تشنہ رہ جائے ‘‘ یعنی یہ کہ کسی خاص موضوع پر انشا پرداز کے جذبات اور تاثرات ’اسّے ‘ کو ظاہر کرتا ہے ۔ اشیا کی نوعیت کے متعلق فیصلے صادر کرتا اور کوئی قطعی رائے دینا ’اسّے ‘ کے فرائض میں داخل نہیں۔‘‘ (دی آکسفورڈ انگلش ڈکشنری، ص 327)

مرے (Mure)بھی اسی خیال کاحامی ہے۔ نقادوں اور انشا پردازوں نے اسّے کی مختلف تعریفیں کی ہیں۔  ان تعریفوں میں اتنا اختلاف اور ایسی رنگا رنگی ہے کہ’ کثرت تعبیر‘نے اسّے کو’ خواب پریشاں‘ بنادیا ہے۔

’’ارل آف برکن ہیڈ (Earl of Birken Head)  نے آکسفورڈ ڈکشنری واکر اور جی ای ہڈسن کی تعریفوں کے برخلاف ہنڈرڈ بسٹ انگلش ایسیزمیں  (Hundred Best English Essaya) یہ بتایا ہے کہ اسّے آرٹ کا ایک ایسا طریقہ عمل ہے جو محض اس لیے ہوتا ہے کہ انشا پردازی اپنی یادگار باقی رکھے اور اس عمل میں ایسیسٹ کو ایسی ہی مسرت حاصل ہوتی ہے جیسی کسی دوسرے شخص کو اس کے باغ گھوڑوں اور دوستوں سے حاصل ہوسکتی ہے۔‘‘ (باب اول، ص 1)

ارل آف برکن ہیڈ نے اسّے کا جو تصور پیش کیا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس صنف کا مقصد محض مسرت بخشنا اور دلچسپی عطا کرناہے ۔ مصنفین اور نقادوں نے اسّے کی تعریف کے بارے میںاتنے متنوع خیالات کااظہارکیاہے کہ بقول ہنری ہڈس  (Henry Hudson) اگر ہم ان کے ذریعے سے اسّے کی صنف کو سمجھنے کی کوشش کریں تو تصورات کے اس اختلاف اورانشا میں اسّے کی ماہیت گم ہوتی نظر آتی ہے ۔

(ولیم ہنری ہڈسن۔انٹرو ڈکشن ٹو دی اسٹیڈی آف لٹریچر، ص331)

اس کا سبب ہڈ سن نے یہ بتایا ہے کہ اسّے  کے مواد اس کے موضوعات اس کے مقاصد اور اسا لیب میں اتنی ہمہ گیری اور بو قلمونی ہے کہ نقاد کے لیے یہ بہت مشکل ہوتا ہے ۔ کہ چند اصولوں اور ضوابط میں اس کے وسیع تصور کا احاطہ کرسکے۔

(انٹروڈکشن ٹو دی اسٹڈی آف لٹریچر،ص 331)

اپنی کتاب انٹروڈکشن ٹو دی اسٹڈی آف لٹریچر (Introduction to the Study of Literature)  میں ہڈسن نے اسّے  کی صنف کے بارے میں اپنے اس تصور کی وضاحت کی ہے ۔ ادب میں شاید ہی کوئی صنف اتنی متنوع اقدار کی حامل اور مابہ النزاع ہوگی جتنی کہ اسّے کی صنف ہے۔ (Usage) نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اسّے  کے لیے نثر کی بھی قید نہیں۔ (ایچ واکر: انگلش ایسیز اینڈ ایٹس، باب اول، ص 3)

یہ خیال غالباً اس لیے ظاہر کیا گیا ہے کہ انگریزی ادب میں لفظ اسّے  نثر سے پہلے نظم کے لیے استعمال ہوا ہے۔ انگریزی کے اولین مضمون نگار بیکن (Bacon)کے مضامین سے پہلے اسّے کا لفظ نظم کے لیے استعمال ہواتھا۔ مثال کے طور پر ہم اسّے آف اے پر نٹس ان دی ڈی وائن آرٹ آف پوئٹرک (Essay of a Prentice in the Devine Art of Poetric) کولے سکتے ہیں۔ اس کے بعد بھی اسّے کا لفظ نظموں کے لیے استعمال ہوتا رہا ۔ اٹھارھویں صدی میں اسّے آن کرئی ٹیسیزم (Essay on Criticism)اور انیسویں صدی میں اسّے آن مین (Essay on Man) اس کی عمدہ مثالیںہیں۔

’’بعض نقادوں کے خیال میں اسّے  یا مضمون ایک نہایت سہل اور سطحی صنف ادب ہے ۔ کریبل (Crable)کہتا ہے کہ اسّے لکھنا ان مصنفین کے لیے موزوں ہے جن کے پاس گہری معلومات اور ادب کا ذاتی جوہر موجود نہیں ہوتا۔

(ولیم ہنری ہڈسن۔این انٹرو ڈکشن ٹودی اسٹڈی آف لٹریچر،ص 34)

کریبل کے بر خلاف سان بیو (San Bue) اسّے کو ادب کی مشکل ترین صنف سمجھتا ہے اور اسّے نہایت محو کن اور خوشگوار اور ادب پارہ تصور کرتا ہے ۔ اس کے خیال میں اسّے کچھ سطحیت برداشت نہیں کر سکتا ۔ ایک اور نقاد اسمتھ (Smith)نے ارل آف برکن ہیڈ کی طرح اسّے کے خالص ادب ہونے پر زور دیا ہے ۔

 مندرجہ بالا تعریفوں سے زیادہ ایڈمنڈگوس (Edmund Gosse) کی یہ تعریف جامع اور قابل قبول معلوم ہوتی ہے جس میں اس نے ان تمام تصورات کا نچوڑ اور حاصل پیش کردیا ہے۔ لکھتا ہے۔ ’’اسّے معقول طریقے کا ایک نثری خاکہ ہوتا ہے جس میں قواعد اور ضوابط کی پابندی سے آزاد ہو کر سرسری انداز میں کسی شئے یا موضوع پر مختلف زاویوں سے روشنی ڈالتے ہوئے ذاتی خیالات اور احساسات کو دلنشیں پیرائے میں بیان کیا جاتا ہے۔‘‘

(اعجاز حسن: نئے ادبی رجحانات، ص 247)

مضمون کا طول

انسا ئیکلو پیڈیا آف برٹانکیکا میں اسّے  اور اس کے طول کے متعلق یہ لکھا ہے کہ یہ اوسط طول کا کمپوزیشن ہوتا ہے۔

(انسائیکلو پیڈیا۔انسا ئیکلوپیڈیا ایڈیشن 14، جلد8، ص 716)

ایچ واکر) (Hugh Walkerکاطول مختصرہونا ضروری نہیں سمجھتا۔اس کاکہناہے کہ ادب میںطویل انشائیے لکھے گئے ہیں جیسے جان لاک(John Locke) کا اسّے کنسرننگ ہیومن انڈر اسٹینڈنگ(An Essay Concerning Human Understanding) لیکن جی ای ہڈسن (G.E Hudson)لکھتا ہے کہ یہ دونوں تصانیف اسّے  کے طول کی سرحدوں سے آگے بڑھ گئی ہیں۔ جس طرح اسّے کی تعریف کے بارے میں ادیبوں اور نقادوں میں اختلاف رائے ہے اسی طرح اسّے  کے طول کے متعلق بھی نقاد متفق نہیںہیں۔ اسّے کی وسعت پر روشنی ڈالتے ہوئے انگلش لٹریچر میں ای وی ڈان) (E.V Don لکھتا ہے کہ اسّے کا موڈ اور اس کا موضوع اس کے طول کا تعین کرتا ہے ۔ اس نے طویل اسّے میں فرانسس بیکن (Francis Bacon 1561-1626) کے اسّے آف اڈورسٹی(Essay of Adversity)کا حوالہ دیاہے جو چارسو الفاظ پر مشتمل ہے۔ اور اس نے ڈی کوئنسی(De Quency)کے اسّے  مرڈر ایز اے فائن آرٹ (Murder As A Fine Art) کا تذکرہ کیا ہے جو 24ہزار الفاظ میں لکھا گیا ہے ۔ اور یہ بتانا چاہا ہے کہ اسّے کے طول کو ہم اصول اور قوانین کے ذریعہ سے مقرر نہیں کرسکتے۔ بلکہ اسّے کا مواد اور اس خاص موضوع پر مضمون نگار کے روشنی ڈالنے کا انداز اس کے طول کو گھٹاتااور بڑھاتا رہتا ہے۔  (ای وی ڈان: انگلش لٹریچر، باب 5، ص 167)

مضمون کا موضوع

اسّے کی تعریف اور اس کے طول کی بحث کے برخلاف مضمون یا اسّے  کے موضوع کے متعلق نقادوں اور انشا پردازوں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ان میں بڑی حد تک اتفاق رائے پایا جاتا ہے ۔ ڈبلیو ایچ ہڈسن اسّے  کے موضوع کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے۔ اسّے کا موضوع غیر محدود ہوتا ہے۔ایچ واکر (H.Walker)نے بھی  اسّے کے موضوع کو غیرمحدود اور وسیع بنایا ہے اور لکھا ہے۔ ’ ’ستاروں سے لے کر خاک کے ذروں اور امیبا سے لے کرانسان تک کوئی موضوع ایسا نہیں ہے جو کسی اسّے کا موضوع بحث نہ بن سکتا ہو‘‘۔ (A loose salley of mind unirregular undigested piece)نے بتایا ہے اس کو عدم تکمیل کا احساس اسّے  یا مضمون کے موضوع پر کوئی پابندی عائد نہیں ہوتی۔ مضمون نگار مواد اورعنوان کے انتخاب میں آزاد ہوتا ہے اور وہ چھوٹی سے چھوٹی یا عظیم سے عظیم حقیقت کو اپنے مضمون میں پیش کرسکتا ہے اس طرح دنیا کی کوئی بھی چیز مضمون کا موضوع بن سکتی ہے۔

 اسمتھ کا خیال ہے کہ :

’’دنیا ہر طرف موضوعات برسارہی ہے صرف انسان کو ہم آہنگ ہونے کی دیر ہے ۔‘‘

(اعجاز حسین: نئے ادبی رجحانات، ص 248)

مضمون کی قسمیں

مضمون یا اسّے کی مختلف قسموں اور اس کی جماعت بندی کے طریقوں کی وضاحت کرتے ہوئے ارک مک کالون Eric Mc Collon لکھتا ہے ۔

اسّے کی کئی قسمیں ہیں جن میں بڑا تنوع پایا جاتاہے۔ ان میں سب سے اہم یہ قسمیں ہیں:

-1      ادبی مضامین: اس میںانگریزی کے تمام عظیم ترین اسّے لکھنے والوںکی تحریریں شامل ہیں۔  بیکن، ایڈیسن، لیمپ ، ہیزلٹ اور لی ہنٹ کے مضامین سے لے کرحالیہ انشا پردازوں رابرٹ لینڈ ، جی کے چسٹرٹن اور میکس بیولر کے مضامین تک شامل ہیں ۔ ادبی انشائیہ نگار اس صنف کو اپنے ذاتی خیالات اور فلسفہ حیات سمجھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

.2       تنقیدی مضامین : اس عنوان کے تحت اشیا اور موضوعات کے  مطالعے آسکتے ہیں جیسے مکالمے کا مضمو ن جو لارڈ کلائیو پر لکھا گیا ہے۔ 

(ارک میک کالون۔اے ریفرنس کورس آن اسّے۔ رپورٹ اینڈ پرسی رائٹینگ، ص 26)

آگے چل کر ارک مک کالون نے صحافتی مضامین، سائنٹفک مضامین واقعاتی اور تاریخی مضامین وغیرہ کا ذکر کیا ہے ۔ مصنف نے مضامین کی جو تقسیم کی ہے اس میں مضمون کی تمام اہم قسمیں آگئی ہیں۔ مضمون میں چونکہ سماجی ، سیاسی ، تاریخی اخلاقی اور فلسفیانہ موضوعات پر روشنی ڈالی جاتی ہے اس لحاظ سے انھیں ارک مک کالون نے زمرو ںمیں تقسیم کیا ہے ۔ مرتب مقالہ نے باب آٹھ اور نو میں مضامین کی اسی طرح تقسیم کی ہے Hugh Walkerنے اس قسم کے مختلف موضوعات پر لکھے ہوئے مضامین کو ایک زمرے میں رکھا ہے ۔ اس طرح واکر نے مضامین کی صرف دو قسمیں بتائی ہیں۔ موخر الذکر کو وہ’ بہترین Par excellence’پاراگسی لنس‘ کہتا ہے اور اول الذکر کو’ عام‘ موضوعات سے متعلق تعبیرکرتا ہے۔

مضمون کی خصوصیات

ہمارے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی خصوصیات ہیں جو اسّے  یا مضمون کو دوسری تحریروں سے ممتاز بناتی ہیں۔ اسّے  یا مضمون کے اقتضا اور اس کی خصوصیات کی وضاحت کرتے ہوئے Virginia woolf ورجینیاو ولف لکھتی ہیں:

’’اسّے میں جو اصول کارفرما دکھائی دیتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ مسرت میںاضافہ کرے اسّے کو اسی مقصد کی تکمیل کرنی چاہیے ۔  اسّے اپنے پہلے لفظ ہی سے ہم پرایسا جادو کرے جو اس کے آخری لفظ ہی پرٹوٹے۔‘‘

(ورجینیا وولف۔ ماڈرن اسّے  (مضمون) کامن ریڈر، ص 267)

اس سے واضح ہوتا ہے کہ دلچسپی پیدا کرنا اور قائم کرنا اسّے کا پہلا فرض ہے ۔ مختلف اصناف ادب میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے مختلف عناصر سے کام لیا جاتا ہے۔ افسانہ اور ناول میں کہانی، نظم میں غنائیت اور اسّے  میں دلچسپی۔ دلچسپی کا فقدا ن اسّے کی موت ہے ۔ مضمون نگار دلچسپی قائم رکھنے کے لیے مختلف وسیلوں اور مختلف طریقوں سے کام لیتا ہے۔ کہیں اسلوب بیان کی دلکشی، کہیں خیالات و جذبات کی ندرت اور کہیں مزاح اور طنز کے ذریعے سے وہ قاری کی توجہ اپنی طرف مبذول رکھتا ہے۔

اسّے کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ ادیب کی شخصیت اس کے مذاق، جذبات اور تاثرات اور اس کے نظریہ حیات کی ترجمانی کرے اور اسّے  کے آئینے میں مضمون نگار کی ذات اس کے فن شعور اور ادبی مزاج کا عکس نمایاں طور پر دکھائی دے۔  اسّے  کی ان ہی خصوصیات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مانیتس Montiagne نے جو اسّے  کا باوا آدم سمجھا جاتا ہے لکھا ہے ’’میں اسّے  میں اپنی تصویر کھینچتا ہوں‘‘ اس بات کو پریچڈ Prichard ’ شخصیت کا اظہار‘کہتا ہے ۔ شخصیت کے اظہار کی وضاحت کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے اس سے کسی فن کار کی ذات بے نقاب ہوتی ہے۔ پریچڈ اپنی کتاب گریٹ ایسیز آف آل نیشنز Great Essays of All Nations میں لکھتا ہے :

’’اسّے اپنی اس خصوصیت میں شاعری سے مشابہ ہے۔  (ایف ایچ پریچڈ۔ گریٹ ایسیز آف آل نیشنس، ص 4)

   ڈبلیو ہڈسن کا کہنا ہے کہ اسّے  لازمی طور پر شخصی جذبات و خیالات کا اظہار ہوتا ہے اس کی دانست میں مضمون یا اسّے کا مرکزی تصور یہ ہے کہ وہ بحث کے دوران مضمون نگار کے ذہن اور اس کے کردار کو راست طور پر نمایاں کردے۔ الیگزنڈر اسمتھAlexender Smits نے بھی اسّے  میں داخلیت کی اہمیت پر زور دیا ہے ۔ ورجینیا وولف بھی ہڈسن اور اسمتھ کی ہم خیال ہے ۔

مضمون،مقالہ اور انشائیہ کا فرق

انگریزی ادب میں اسّے  رسمی اور غیر رسمی یعنی فارمل او ران فارمل ہوتا ہے۔ موخر الذکر کو Parexcellence کا نام دیا گیا ہے ۔ اردو میں مقالہ، مضمون انشائیہ اپنے ادبی مزاج اور بعض وقت موضوع کے اعتبار سے ایک دوسرے سے ممیز کیے گئے ہیں۔ وزیرآغا لکھتے ہیں کہ انشائیہ اس نثری صنف کا نام ہے جس میں انشائیہ نگار اسلوب کی تازگی اور نئے انداز فکر کا مظاہرہ کرتے ہوئے تخلیقی مفاہیم کو کچھ اس طرح گرفت میں لیتا ہے کہ انسانی شعور اپنے مدار سے ایک قدم آگے آکر نئے مدار کو وجود میں لانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ وزیر آغا نے انشائیہ کے خد و خال میں ورجینیا وولف لیوئس رابرٹ لینڈ اور بریسٹلے گارڈ وغیرہ کو انگریزی کے نمائندہ انشائیہ نگار بتاتے ہوئے انشائیہ اور مقالے کا فرق اس طرح واضح کیا ہے کہ مقالے کی نسبت انشائیے کا ڈھانچہ کہیں زیادہ لچکیلا elasticalہوتاہے اس میں مقالے کی سنگلاخ کیفیت موجود نہیں ہوتی۔

(ایف ایچ پریچڈ گریٹ ایسیز آف آل نیشن، ص 4)

 اکبر حمیدی انشائیے کے بارے میں اپنی کتاب ’جدید اردو انشائیے‘ میں لکھتے ہیں۔ انشائیہ میں پند و عظمت اور رشد و ہدایت کا رنگ غالب نہیں ہوتا۔ موزے تنگ کے الفاظ میں ’ادب کو پوسٹر نہیں بننا چاہیے‘۔  ادب میں سب سے زیادہ اہمیت اس لطف و مسرت کو حاصل ہوتی ہے جو ہم کسی ادب کے ذریعے اکتساب کرتے ہیں اور جس میں مقصدیت جاری و ساری ہوتی ہے۔ آگے چل کر تحریر کیا ہے:

’’انشائیہ نگار ان سب کو جتنے بڑے انداز میں جتنی زیادہ دلکشی سے جتنے زیادہ موثر اسلوب میں جتنے زیادہ نئے پن کے ساتھ کہے گا وہ اتنا ہی بڑا انشائیہ نگار کہلائے گا۔‘‘

(اکبر حمیدی: جدید اردو انشائیہ، ص 9، اکاری ادبیات پاکستان 1991)

 

ماخذ: اردو ادب میں مضمون کا ارتقا، مصنفہ: سیدہ جعفر، پہلی اشاعت: 2019، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

زبان اور زمینی صورت حال از شمیم طارق

 اردو دنیا، اکتوبر2024

س: زبانوں کی موت کی وجوہات کیا ہیں؟

ج: زبان اور بولیوں کی موت کی کئی وجوہ ہیں۔ بڑی وجہ یہ ہے کہ جب کسی زبان کو ایک طبقہ ’ان کا‘ اور ایک طبقہ صرف ’اپناسمجھنے‘ لگتا ہے یا عوام کی روزمرہ کی زندگی سے زبانوں اوربولیوں کا رشتہ ٹوٹ جاتاہے تو وہ مرجاتی ہیں۔ ایک زبان کو جب دوسری خاص طور سے ارباب اقتدار اور اکثریت کی زبان کی ’شیلی‘ سمجھ لیاجاتا ہے تب بھی یہی ہوتا ہے۔ زبانوں اور بولیوں کا تعلق معاشرے سے ہے، معاشرے سے ان کا تعلق باقی نہ رہے توان کا وہی حشر ہوتاہے جو پانی سے باہرمچھلی کا۔

س: زبان کو زندہ رکھنے کے لیے کون سا طریقہ اختیار کیا جانا چاہیے؟

ج: زبان کو زندہ رکھنے کے لیے اس کا معاشرے سے جڑارہنا اور زندہ زبانوں اور نفع بخش علوم کے الفاظ کا قبول کرتے رہنا ضروری ہے۔ اپنی شرط پر دوسری زبانوں کے الفاظ قبول نہ کرنے سے زبانیں سمٹنے اور مرنے لگتی ہیں۔

س: زبان کا تہذیب و ثقافت سے کیا رشتہ ہے؟

ج: ہر زبان کی صورت گری کسی خاص تہذیب و ثقافت کے ہی حوالے سے ہوتی ہے۔ ایسا نہ ہوتاتوانگریزی میںBig Pigکا اور اردو میں             ؎

رب کا شکر ادا کر بھائی

جس نے ہماری گائے بنائی

کا تصور نہ ہوتا۔ روسی، فرانسیسی ، انگریزی اور ہندوستان کی مختلف بولیوں کے ادب اور انداز بیان میں بھی اتنا فرق نہ ہوتا۔

س: کیا زبانوں کی موت سے انسانی وراثت کے تحفظ کا مسئلہ بھی جڑا ہوا ہے؟

ج: جی ہاں ! ایک زبان کا مرنا ایک تہذیب کا مرنا ہے۔ کسی بھی زبان یا بولی کے ختم ہونے سے انسانی وراثت کے تحفظ کا مسئلہ پیدا ہوتاہے۔ وہ زبان ہی ہے جو ثقافت و معاشرت کے ہر پہلو کو محفوظ رکھتی ہے۔

س: کیا کسی زبان میں خواندگی، سائنسی، سماجی مواد کی کمی سے زبان پر منفی اثرات پڑتے ہیں؟

ج: جی ہاں خواندگی کی شرح میں کمی یا سماجی و سائنسی علوم میں  دوری کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ اردو میں اُمّی شعرا کی ایک روایت ہے ، دوسری زبانوں کے بولنے والوں میں بھیTradition Oral کی  اہمیت ہے مگر بدلتے معاشرے اور مقبول ہوتے نئے نئے موضوعات کا حق ادا کرنا  بہتر خواندگی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ مثال کے طور پر مصنوعی ذہانت (AI) اور ڈیپ فیک فائدہ بخش بھی ہو سکتے ہیں اور نقصان دہ بھی مگر دونوں صورتوں میں یہ خواندگی کے ساتھ ہی مشروط ہیں۔ اب تو خواندگی میں  (Computer Literacy) بھی شامل ہے۔

س: اردو کا مستقبل کیا ہے؟

ج: اردو خالص ہندوستانی زبان ہے اور ہندوستان میں جو کچھ ہے وہ سب کچھ اردو میں ہے۔ اردو تحریر و تقریر میں  اس کا اظہار بھی کیا جا تارہا ہے۔ بعض ناواقف یہ کہتے نہیں تھکتے کہ اردو رسم الخط بدیسی ہے مگر وہ اس پر غور نہیںکرتے کہ اردو رسم الخط میں بعض حروف دوسری یا بدیسی زبانوں کے ضرور ہیں مگر ان کو اس درجہ ’ہندوستانیایا‘ جاچکا ہے کہ اب وہ ہندوستان  میں ہی بولے اور سمجھے جا سکتے ہیں مثلاً حرف ب عربی میں ہے مگر بھ کی آواز صرف اردو میں ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو بھابھی، بھار دواج، بھارگو۔۔۔ کیسے بولا جاتا۔ فارسی کامرغ اردو میں مرغااور مرغی بن گیا ہے ورنہ انڈاکہاں سے آتا؟ موجودہ دور میں اردو زبان کو ایک طرف توان سے خطرہ ہے جواس کو اور اس کے رسم الخط کو  ہندوستانی ہی تسلیم نہیں کرتے اور دوسری طرف ان سے بھی خطرہ ہے جو اردو شعبوں سے دور رہ کر اردو کی خدمت کرنے والوں کو حلیف نہیں حریف سمجھتے اور ان کے خلاف طرح طرح ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ ار دو کو ایک خطرہ ان سے بھی ہے جو مدارس، عصری دانش کدوں اور روزمرہ کے کاموں میں استعمال ہونے والی اردو کو خانوں میں تقسیم کرتے ہیں۔

س: زبان کی سطح پر جو بگاڑ پیدا ہورہا ہے اس کو روکنے کے لیے کون سی ترکیبیں استعمال کی جاسکتی ہیں؟

ج:  اردو کے مستقبل کا انحصار اردو بولنے والوں کے مستقبل اور غیرت پر ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ بے حسی اور بے غیرتی یا تمام الزامات دوسروں کے سر منڈھ کر خود کو بے قصور ثابت کرنے کی روش نے بھی اردو کے مستقبل پرسوالیہ نشان لگایا ہے۔

سب سے بڑی ضرورت تو یہ ہے کہ لفظوں کے تخلیقی استعمال سے معنی میں رونما ہونے والے فرق کو سمجھا جائے۔ غالب، شبلی، آزاد ، پریم چند، راجندر سنگھ بیدی اور ظ انصاری. یا پھر مشتاق یوسفی  ’خامہ بگوش‘ کی نثر کا بار بار مطالعہ کیا جائے۔واقعہ اورسانحہ کے فرق کو ذہن میں رکھاجائے۔ اچھی زبان بولنے اور لکھنے والوں کی مجلسوں میں شرکت کی جائے ایسے لوگوں کو مدعو کیا جائے جو زبان کی صحت کا خیال رکھتے  ہوئے صاف وسلیس زبان بولتے اور لکھتے ہیں۔

س: کیا کلاسیکیت، جدیدیت وغیرہ پر گفتگو سے زبان کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے؟

ج:  زبان کے سفراور دنیا میں ادبی رجحانات کے مقبول ونا مقبول ہونے کے بارے میں معلومات تو ضروری ہے اس لیے کلاسیکیت اور جدیدیت کے بارے میں جانکاری بھی بے فیض نہیں ہے۔ اس سے زبان کے بارے میں بھی علم ہوتا ہے کہ کلاسیکی ادب میں لفظ کو کس طرح استعمال کیا جاتا تھا اور جدیدیت نے ان میں کیا تغیرات پیدا کیے یا غلط العام اور غلط العوام میں کیا فرق ہے۔

س: آپ کے علاقے میںکتنے اردو میڈیم اسکول ہیں اور ان میں اساتذہ کی تعدا دکتنی ہے؟

ج: میں بھی (مہاراشٹر) سے تعلق رکھتا ہوں۔ یہاں پرائمری سے ڈاکٹریٹ تک کی اردو تعلیم کا انتظام ہے۔ امید ہے کہ حکومت کی نئی تعلیمی پالیسی کے تحت اردو میںتکنیکی اور پیشہ ورانہ کور سیز بھی شروع کیے جائیں گے مگر میں اردو اسکولوں اور اردو شعبوں کے معیار میں بہتری چاہتا ہوں۔

س: آپ کے علاقے میں کتنی لائبریریاں ہیں اور وہاں کون کون سے اخبارات و رسائل آتے ہیں؟

ج: لا ئبریریاں تو بہت تھیں۔ پہلے ان لائبریریوںسے اردو کو ’ٹاٹ باہر‘ کیا گیا پھر اردو لائبریریاں بند ہونا شروع ہوئیں۔ اس کے لیے حکومت اور میونسپل کارپوریشن ہی ذمے دار نہیں ہے۔ ملّی اداروں میں بھی اردو  کے گلے پر کند چھری رکھی گئی۔

س: آپ کے علاقے میں اردو سے جڑی ہوئی کتنی شخصیات ہیں، جن کی خدمات کا اعتراف علاقائی اور قومی سطح پر نہیں کیا گیا ہے؟

ج: کالی داس گپتا رضا ، علی سردار جعفری ، ظ انصاری۔۔۔ وغیرہ کے علمی ادبی کاموں کا کم زیادہ اعتراف ہوا مگر ڈاکٹر صفدرآہ، مانک ٹالا۔۔۔ وغیرہ کونظر انداز کیا جاتا رہا۔ اس خاکسار شمیم طارق کو توکوئی نہیں پوچھتا۔  ادیبوں کے مقدر اورمرتبے کا فیصلہ وہ کر رہے ہیں جن کے نامہ اعمال میں سازش،سفارش،گزارش اور خوشامد کے علاوہ کچھ ہے ہی نہیں۔اردو زبان وادب میں دلوں کو فتح کرنے کی طاقت آج بھی ہے مگر سازش کرنے والوں نے اس زبان کی زمینی صورت حال کوبگاڑا ہے۔

س : آپ کے ذہن میں فروغ اردو کے لیے کیا تجاویز اور مشورے ہیں؟

ج: گھر، محلے، شہر میں اچھے اردو پروگرام کیے جانے چاہئیں۔ ایک واقعہ میں سناؤں جس ادارے میں ڈائرکٹر کی حیثیت سے میں کام کرتا تھا، مہاراشٹر کے گورنر صاحب تشریف لائے۔ انھوں نے انگریزی میں تقریر کی۔ بچوں نے اردو میں گیت پیش کیے۔ گیت سن کر وہ اردو بولنے لگے۔ انھوں نے پوچھا ایسے اردو پروگرام ٹی وی پر کیو ںنہیں پیش کیے جاتے۔ اسی ادارے میں ایک سالانہ پروگرام ہوتا تھا۔ ایک صاحب اور ان کی بیگم نے پروگرام دیکھا تو اپنی بچی کو لے کر آئے کہ اس کو نویں یا دسویں کلاس میں داخلہ دیجیے، حالانکہ وہ کسی دوسرے اسکول کی نویں یا دسویں جماعت میں پڑھ رہی تھی۔

س: اردو رسم الخط کی بقا کے لیے کیا کوششیں کی جاسکتی ہی؟

ج:  اردو کی کتابیں نہیں بکتی تھیں مگر جب قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے میلہ لگانا اور کتابوں سے بھری گاڑی گھمانا شروع کیا تو کتابیں فروخت ہونے لگیں۔ 3 دن ،7دن یا 11 دن کے کیمپ لگائے جائیں تو اردو رسم الخط کو بڑے طبقے میں مقبول بنایا جا سکتا ہے۔ ہر عمر اور صلاحیت کے لوگ اردو رسم الخط سیکھ سکتے ہیں۔ وہ بھی سیکھ سکتے ہیں جو اردو اور اردو رسم الخط نہیں جانتے مگر اردو کی ادبی تقریبات کی صدارت کرتے ہیں۔

س: دوسری علاقائی زبانوں میں اردو کے فروغ کی کیا کیا صورتیں ہوسکتی ہیں؟

ج: ہندوستان کی علاقائی زبانیں اردو کے معاملے میں فراخ دل ہیں۔ بنگلہ، مراٹھی ، کنڑ،تیلگو،تمل کے بارے میں تو ہمیں علم ہے کہ یہ زبانیں اردو کے الفاظ کو استعمال کرتی ہیں۔ اردو رسم الخط سیکھنے میںبھی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ موجودہ ہندی کئی ریاستوں میںبولی جاتی ہے پہلے اردو ہندی میں بلاوجہ کی رقابت پیدا کر دی گئی تھی۔ اب یہ رقابت رفاقت میں بدلتی جارہی ہے۔ بنارس  ہندو یونورسٹی کے اردو اور ہندی شعبوں نے مل کر’ اردو اور ہندی کی ساجھی وراثت‘کے عنوان پر دو روزہ سمینار منعقد کیا تھا۔ یہ سلسلہ آگے بڑھ رہا ہے۔

س: کیا آپ کے اہل خانہ اردو جانتے ہیں؟

ج: بیٹی، بیٹا ،بہو، پوتیاں سب انگریزی میڈیم کی ہیں مگر سب اردو بولتی ہیں۔ بیٹے کو اردو رسم الخط پڑھنے میں دشواری ہوتی ہے مگر وہ بھی اردو ہی بولتا ہے۔

س: آپ کے بعد کیا آپ کے گھر میں اردو زندہ رہے گی؟

ج: ان شاء اللہ میرے مرنے کے بعد بھی بچے اردو سے اپنارشتہ باقی رکھیں گے۔ اردو میرے گھر میں بولی بھی جائے گی اور پڑھی بھی جائے گی۔

س: غیراردو حلقے میں فروغ اردو کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے؟

ج: غیر اردو داں حلقے میں اردو کو متعارف کرانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم انہیں یہ تاثر دیںکہ اردو ہندوستانی زبان ہے۔ اردو ہندوستان کی اکھنڈتا کی قائل ہے۔ یہ انتشار کا نہیں اتحاد کا درس دیتی ہے۔اس کے پروگرام ایسے ہوں کہ لوگ ان میں باربار شریک ہونے کی خواہش ظاہر کریں۔

س: ملکی سطح پر غیرسرکاری تنظیموں سے اردو کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں کس طرح سے مدد لی جاسکتی ہے؟

ج:  اچھے پروگرام ہوں گے تو امداد کرنے والے سامنے آئیں گے۔ ایسے افراد اور تنظیمیں ہیںجو پروگرام میں مدد دیتے ہیں مگر اب ہم شاید امداد حاصل کرنے کے بھی اہل نہیں رہ گئے ہیں جوشہرت پسند امداد دیتے ہیں وہ اسٹیج پر قبضہ کرتے ہیں اور اس سے فائدہ کے بجائے نقصان ہوتا ہے۔

س: سینٹرل اسکولوں اور نوودیالیہ میں اردو کی تعلیم کا کوئی معقول انتظام ہے؟

ج: نوودے ودّیالوں،سینٹرل اورکانوینٹ اسکولوں میں اردو معقول تعلیم کے انتظام کو ترس رہی ہے۔ اگر کہیں ہے بھی تو اس کو معقول اور معیاری بنائے جانے کی ضرورت ہے۔

زبان کے ارتقا اور اشاعت و مقبولیت میں اپنے پرائے کی تمیز کی ہی نہیں جانی چا ہیے۔یہ تمیز کرکے گروہ بندی تو کی جا سکتی ہے، کوئی تعمیری مقصد نہیں حاصل کیا جا سکتا۔ میںاردو میں لکھتا ہوں، کیا برا کرتا ہوں!جو لکھتا ہوں وہ پسند ہی کیاجاتا ہے۔ مجھے فخر ہے کہ میں نے کئی ایسے ادبی کام کیے ہیں جو دوسروں نے بھاری پتھر سمجھ کر چھوڑدیے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ نیک نیتی، محنت و تربیت اور فیض رسانی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ اسی لیے نقصان اٹھا کر بھی میںاردو کی خدمت کر رہا ہوں۔ جن کی سرشت میں ’شر‘ ہے، وہ شوشے چھوڑتے رہتے ہیں مگر منہ کی بھی کھاتے ہیں۔ شکر ہے کہ میں ان میں نہیں جو لاکھ ڈیڑھ تنخواہ یا لاکھ پچاس ہزار پنشن لیتے رہنے کے باوجود کچھ نہیں کر سکے۔ آج ان کی حیثیت نشان عبرت کی ہے۔

ہندوستان میں اردو کو جو نقصان پہنچا ہے یا پہنچ رہا ہے اس کے پس پردہ تعصب،لسانی پالیسی اور زبان کی بنیاد پر ریاستوں کی تشکیل پر تو ہماری نظر ہے مگر ہم اردو والے اپنی کوتاہیوں پر کبھی نظرنہیں کرتے۔ یونیورسٹیوں اور کالجوں کے اردو شعبوں میں اردو کے فروغ کی عملی تدابیر پر شاید ہی کبھی غور کیا جاتا ہے۔ آج عالم یہ ہے کہ ایک طبقے یا جماعت کو یہ احساس بلکہ دعویٰ تو ہے کہ وہ اردو میں ڈگری یافتہ ہے مگر بیشتر کو یہ احساس نہیں ہے کہ اردو میں ڈگری یافتہ ہونے کے باوجود وہ اسمٰعیل میرٹھی کی یا پریم چند کی یا فکر تونسوی کی طرح زبان لکھنے اور بولنے پر قادر نہیں ہیں۔ عام لوگ ’مصلّی‘ س سے اور قبرستان میں قبروں کے کتبے دیوناگری میں لکھنے لگے ہیں۔ ’ریختہ‘ والوں نے یہ احساس دلایا کہ اردو بولنے اور سیکھنے کی خواہش یا اردو کاگلیمر ان میں بھی ہے جو اردو رسم الخط نہیں پڑھ سکتے مگر اردو کے دوچار برگزیدہ استاذ اور تخلیق کار کے علاوہ بیشتر اسی کوشش میں رہے کہ اردو زبان، تہذیب، ادب اور روایت کو ان کے حوالے سے سمجھا جائے حالانکہ ان کا املا، جملہ غلط ہے اور وہ من جملہ بھی غلط ہیں۔ اچھی صحبتیں اور مجلسیں اجڑ گئیں، معیاری تقریبات کم ہی منعقد ہوتی ہیں جہاں کچھ سیکھنے کا موقع ملے۔ ایسے میں معاشرے سے اردو زبان وادب کا تعلق کیسے برقرار رہے گا؟ معاشرے سے زبان وادب کا تعلق برقرار نہ رہ سکے تو برا نتیجہ ہی برآمد ہوتا ہے۔ اردو کی خوش نصیبی یہ ہے کہ اس کو عوام نے زندہ رکھا ہے۔ نقصان پہنچایا ہے تو ان خود پسندوں نے جن کا کھلے عام یا ڈھکے چھپے دعویٰ ہے کہ اردو  ان سے ہے وہ اردو سے نہیں۔ میں ایک ادارے سے ڈائرکٹر کے طور پر وابستہ تھا۔ وہاں ایک اور صاحب تھے اور انتظامیہ نے ان کو سر پر بٹھارکھا تھا۔ انھوں نے اس ادارے کے اردو کردار کو ختم کردیا۔ میں احتجاجاً پہلے ہی اس سے الگ ہوگیا تھا ان کو باقاعدہ مورد الزام ٹھہراکرنکالا گیا۔

 

Shamim Tariq

Flat No: 27, 4th Floor, Marzban

Mansion Byculla

fruit Market

Mumbai- 400024 (MS)

 

تازہ اشاعت

مضمون اور اس کا فن، ماخذ: اردو ادب میں مضمون کا ارتقا، مصنفہ: سیدہ جعفر

  اردو دنیا،اکتوبر 2024 مضمون کا آغاز مضمون یا ’’اسّے ‘‘(Essay) اپنی اصطلاحی شکل اور اپنے لفظی پیکر کے اعتبار سے مغرب کی دین ہے اور مغ...