30/4/25

شمس الرحمن فاروقی کے افسانوں کی تخلیقی زبان اور پس نو آبادیاتی مباحث، مضمون نگار: اقبال حسین

 اردو دنیا، فروری 2025

شمس الرحمن  فاروقی کی شخصیت اردو ادب میں ایک نابغہ روزگار کی ہے۔ اردو ادب میں ایسا کوئی ادیب نہیں ہے جو بیک وقت تنقید اور تخلیق  دونوں پر یکساں دسترس رکھتا ہو۔ فاروقی کی تنقید جس بلند پائے کی ہے اور ہم یہ بات بلا خوف و تر دید کہہ سکتے ہیں کہ نہ صرف اردو بلکہ ہندوستان کی دیگر زبانوں میں بھی  فاروقی جیسا ذی علم، ہوش مند اور اعلیٰ درجے کا ادبی ناقد فی زمانہ کوئی نہیں ہے۔  لیکن یہ بڑے کمال کی بات ہے کہ ادبی تنقید میں اتنے بڑے کارنامے انجام دینے کے باوجود فاروقی کی تخلیقات بھی اسی اعلیٰ پیمانے کی ہیں کہ ان کا بھی کوئی ثانی اردو  تو  اردو دوسری زبانوں میں بھی مشکل ہی سے ملے گا۔ تنقید اور تخلیق دونوں پر یکساں دسترس اپنے آپ میں ایک عجوبہ ہے چونکہ تخلیق ہمیشہ معروضی تنقید کے مخالف ہوتی ہے۔ چاہے وہ لا شعوری طور پر ہی کیوں نہ ہو۔ فاروقی کے ادبی تخلیقی سرمائے کو   پس نو آبادیاتی نظریے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ انھوں نے نوآبادیاتی اثرات کے تناظر میں نہ صرف اردو ادب کے ثقافتی اور ادبی ورثے کو دوبارہ دریافت کیا بلکہ اسے ایک جدید اور معروضی تنقید کے ذریعے عالمی ادب کے مساوی لا کھڑا کیا۔ فاروقی کا کارنامہ اس سے کہیں زیادہ ہمہ جہت ہے۔ ان کی تخلیقی اور تنقیدی کاوشوں نے اردو ادب کو نئی سمت اور شناخت عطا کی ہے، جو انہیں نہ صرف اردو ادب بلکہ عالمی ادبی تناظر میں بھی ایک منفرد مقام عطا کرتی ہے۔

فاروقی کے افسانے اور ان کا  شاہکار ناول ’ کئی چاند تھے سر آسماں ‘ اس امر کی روشن دلیلیں ہیں جس میں ان کا تخلیقی ذہن ان کے تنقیدی شعورکے ساتھ مل کر حقیقت کو ایک اکائی کی طرح پیش کرتا ہے اور ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ کسی مخصوص زمان و مکاں میں حقیقت کا کلی ادراک کس طرح کیا جاتاہے۔

شمس الرحمن فاروقی کا افسانوی مجموعہ ’سوار اور دوسرے افسانے ‘ 2001  میں پہلی بار ’ آج کی کتابیں ‘ کے تحت شائع ہوا ، اور   2003 میں دوبارہ ’ شب خون کتاب گھر‘ سے منظر پر آیا۔ اس مجموعے میں پانچ افسانے شامل ہیں اور ہر افسانہ اپنے پلاٹ، تھیم اور بیانیہ کے حوالے سے بے حد اہم ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا  نہ  ہوگا کہ فاروقی کے یہ افسانے اردو میں اپنی نوعیت کی بالکل منفرد  تحریریں ہیں۔

برصغر  میں نوآبادیاتی دور میں اردو زبان و ادب پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ مغربی فکر، انداز، اور اقدار نے مقامی زبانوں اور ادبی رویوں کو پسِ پشت ڈالنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں تخلیقی آزادی محدود ہو گئی اور مقامی ثقافتی ورثہ کمزور ہونے لگا۔ شمس الرحمن فاروقی نے اس صورت حال کا گہرا ادراک کیا اور اپنی تخلیقات کے ذریعے اردو ادب کو اس نوآبادیاتی دباؤ سے آزاد کرنے کی کوشش کی۔   نوآبادیاتی پس منظر کے حوالے فاروقی اس مجموعے کے دیباچہ میں لکھتے ہیں :

اٹھارویں صدی کو میں ہند اسلامی تہذیبی تاریخ کا زریں باب سمجھتا ہوں۔ اردو فارسی ادب، تصوف  علوم عقلیہ و نقلیہ، فنون حرب و ضرب، موسیقی، ان میدانوں میں اٹھارویں صدی والوں نے جو نئے نئے مضمار و بد اد ریافت کیے اور فتح کیے ، ان کی مثال پہلے نہیں ملتی، بعد میںملنے کا تو خیر کوئی سوال ہی نہیں۔ اور اٹھارویں صدی کی دہلی کا کوئی کیا حال لکھے۔ ہم لوگ چند شہر آشوبوں، چند ہجوؤں، تعصب اور کینہ پر بنی چند انسانوں کو تاریخ قرار دے کر اٹھارویں صدی کی دہلی کو زوال، انتشار، بدامنی، طوائف الملوکی، امیروں کی مفلسی اور غریبو ں کی فاقہ کشی کا شہر سمجھتے ہیں۔

(فاروقی، 24: 2003)

اٹھارویں صدی ہند اسلامی تہذیب کا ایک شاندار دور تھا، جہاں اردو، فارسی ادب، تصوف، اور علوم عقلیہ و نقلیہ کو عروج حاصل ہوا۔ دہلی اس وقت علم و فنون، موسیقی اور ادبی تخلقات کا مرکز تھی، جہاں میر،  سودا، مصحفی اور غالب جیسے شعرا نے اردو زبان کو بے مثال وسعت دی۔ غزل اور داستان جیسی اصناف نے زبان کی جمالیات کو مزید سنوارا۔

انگریزی زبان اور نوآبادیاتی نظام کی وجہ سے  اردو کے کئی الفاظ کے ساتھ ساتھ روایتی تحریری انداز بھی متروک  و معدوم ہوگئے  اور فارسی و عربی کی جگہ انگریزی اثرات نمایاں ہونے لگے۔ تہذیب کی روایتی روحانیت  اور سادگی کو مادیت اور صنعتی ترقی نے دبا دیا، جبکہ داستان اور غزل جیسی اصناف کی جگہ ناول اور نظم نے لینا شروع کیا۔ دہلی، جو کبھی تہذیبی اور ثقافتی عروج کا مرکز تھی، نوآبادیاتی تبدیلیوں کے باعث بدامنی، غربت، اور عدم مساوات کا شکار ہوگئی۔ تاہم، اس دور  میں شعرا اور ادبا نے اپنی تخلیقات میں ان تبدیلیوں کو محفوظ کیا، جو آج بھی تہذییی شناخت کا حصہ ہیں۔ نوآدیاتی  دلی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے تعلق سے غالب افسانہ کے بینی مادھو رسوا  کے مشاہدات کی ایک مثال کے  طور پر نیچے کے اقتباس ملاحظہ کیجیے :

چار مہینے میں نے ان مجلدات کو حرز جاں کی طرح سینت کر رکھا۔ نومبر 1862 کے آخری دن تھے جب میں بیل ڈاک قنوج، فرخ آباد، بیاور، کول، بلند شہر، غازی آباد، شاہدرہ، دلہائی ہوتا ہوا  بیس دن کی مسافت کے ہرج مرج جھیلتا ، غم والم اٹھاتا، دلی پہنچا۔ میں باڑہ ہند وراؤ کی ایک سرا میں اترا۔ معلوم ہوا کہ بلی ماروں کا علاقہ یہاں سے کچھ بہت دور نہیں۔ آہنی سڑک ابھی کانپور کے پاس سے بھی نہ گزری تھی، گو کہ اس کے آنے کے غلغلے تھے۔ میں نے بھی اب تک ریل کی سواری کی نہ تھی، اور نہ اس کا ارادہ تھا۔ لیکن دہلی کی ریل منزل میری سرائے کے پاس ہی تھی۔ وہاں کی چہل پہل ، لوگوں کی دھکا پلک، دھواں دھکڑ ، دْخان پھینکتے ہوئے آتشی انجنوں کا آنا جانا (اس لفظ سے میں کانپور میں آشنا ہوا)، مجھے یہ سب کچھ عجب وحشت انگیز، سا لگا۔‘‘

(فاروقی:43:2003)

افسانہ،بحیثیت ایک تخلیقی نثر کی صورت میں، صرف واقعات اور حادثات کے بیان تک محدود نہیں ہوتا؛ اس میں زبان کی تخلیقی تشکیل بھی بہت ہی  اہم ہوتی ہے (عالم189L2005)۔ پس نوآبادیاتی منظرنامے میں، لسانی تخلیق کا کردار بہت اہمیت رکھتا ہے۔ جب تک زبان میں تخلیقی جدت نہیں آتی، افسانہ ادب کی دنیا میں اپنے مقام کا دعویٰ نہیں کر سکتا، اور مصنف کو حقیقی تخلیقی نثر کے ایک فنکار کی حیثیت سے اعتبار حاصل نہیںہو سکتا۔  ادب کے  نا قدین  اور تخلیقی نثر کے مصنّفین کے درمیان فرق بنیادی طور پر نثر کے فن میں مہارت کا ہے۔اس تناظر میں، شمس الرحمٰن فاروقی کے افسانے  اپنے نثری انداز میں عمیق تبدیلیوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کی نثر  اس  دور کی تخلیق نو ہے جب اردو زبان میں  فارسی و عربی  کے اثرات کا انجذاب تھا۔ فاروقی کی نثر ایک ایسی روایت کا نیا عہد ہے، جو اردو زبان میں عربی و  فارسی زبان کے  اثرات  کے ساتھ ہی اپنے مقامی اظہار کو اجاگر کرتا ہے۔  ابتدائی اردو محاورے  اور ذخیرۂ  لغات پر  ان کا  گہرا اور عمیق علم ، جو اردو کی  روایتی قصہ گوئی سے جڑا ہوا ہے، اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ وہ پرانی زبان کے ذخیرے کو نئے مفہوم کے ساتھ جوڑنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ فاروقی کے نزدیک، الفاظ صرف جامد نہیں ہوتے، بلکہ ان کو تازہ دم اور موجودہ و تاریخی اہمیت سے ہم آہنگ کیا جاسکتاہے۔مثال کے طور پر، فاروقی کے ذریعے استعمال کیے گئے لفظ ’ادیب‘ ( جو جدید اردو میں  نوآبادیاتی اثرات کی وجہ سے ’مصنف‘ کے محدود معنی میں مستعمل ہے)  پر گہرائی سے غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ زبان کس طرح بدلتی ہے۔ یہ لفظ، جو اصل میں ’استاد‘ کے معنی میں استعمال ہوتا تھا، اب نوآبادیاتی اور ثقافتی تبدیلیوں کے اثرات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، اور اس سے پس نوآبادیاتی  شناخت اور ثقافتی بازیابی کے موضوعات ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ اسی طرح، ’سلمہ اللہ تعالیٰ‘  جیسے الفاظ، جو پہلے بزرگوں کے لیے ایک احترام کا اظہار تھا۔ مزید برآں، فاروقی ’غم کھانا‘  جیسے محاورے  کا استعمال اپنی نثر میں کرتے ہیں، جو قبل نوآبادیاتی زمانے میں ’انتظار کرنا‘ یا ’صبر کرنا‘ کے معنوں میں مستعمل  تھا اب جدید استعمال میں یہ الفاظ اور محاورے بالکل مختلف معنوں کے ساتھ ہیں، پھر بھی ان میں ایسی لچک موجود ہے جو انھیں مختلف سیاق و سباق میں دوبارہ استعمال کرنے کی گنجائش فراہم کرتی ہے۔

درج بالا  مثالیں فاروقی کی اس صلاحیت کو ظاہر کرتی ہیں کہ وہ ماضی اور حال کے درمیان پل بناتے ہوئے  پرانی نثر کو زندہ رکھتے ہیں اور زبان کو نوآبادیاتی اثرات اور ثقافتی مزاحمت کی روشنی میں نئے معنی فراہم کرتے  ہیں، تاکہ موجودہ سماجی اور سیاسی حقیقتوں پر تنقید کی جا سکے۔ ایسے اظہاروں کو دوبارہ حاصل کر کے، فاروقی زبان کی سہل پسندی اور سادگی کو رد کرتے ہیں، اور اس کے بجائے ایک زیادہ پیچیدہ اور کسی قدر تہہ دار لسانی ورثے کو اپنانا پسند کرتے ہیں، جو نوآبادیاتی تاریخ اور پس نوآبادیاتی شناخت کی پیچیدگیوں کو اجاگر کرتا ہے۔ پس نو آبادیاتی نظریات کے تحت یہ سوال اٹھنا واجب ہے کہ جب سادگی اور بے ساختگی نے زبان پر حکمرانی حاصل کر لی ہے تو کلا سیکی اور زیادہ رسمی نثری اسلوب کا استعمال کیوں کیا جائے؟ لیکن  شمس الرحمن فاروقی کے ذریعے قبل نوآبادیاتی دور کی کلاسیکی  اردو نثر کو دوبارہ زندہ کرنا محض ماضی کی بازیافت  کاعمل نہیں ہے، بلکہ یہ نوآبادیاتی ماضی کے ساتھ ایک شعوری تعامل اور تعلق کی استواری کا عمل ہے، جہاں زبان کو مزاحمت اور شناخت کی تعمیر کے  ایک ٹول(tool)کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ فاروقی کی نثر یہ ثابت کرتی ہے کہ زبان ایک ثقافتی جدوجہد کا میدان بن سکتی ہے، جہاں نوآبادیاتی ورثہ اور مقامی مزاحمت کا  آپس میں ٹکراؤ ہوتا ہے اور ماضی کے ’اعلیٰ‘ ادبی اشکال اور موجودہ زمانے کی بدلتی ہوئی زبان کے درمیان رابطے اور ترسیل کا عمل  شروع ہوتاہے (سعید 11:1202)۔

فاروقی کی مہارت صرف ان کی لفظیات  کے استعمال تک محدود نہیں ہے بلکہ ان کی نثری ساخت میں بھی عمیق تبدیلیاں دکھائی دیتی ہیں۔ ان کی کلاسیکی اور محاوراتی اردو کے درمیان توازن، فارسی اور عربی محاوروں کا استعمال، اور ان کے درمیان ایک پیچیدہ تعامل کو پس نوآبادیاتی حکمت عملی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کا نثری اسلوب مختلف زمانوں کی ادبی زبانوں کے درمیان ایک رابطے کی صورت اختیار کرتا ہے، جو نوآبادیاتی ورثے اور مقامی ثقافتی مزاحمت کے درمیان تناؤ کو اجاگر کرتا ہے، اور ماضی کی ’معیاری‘ ادبی روایات اور موجودہ دور کی عوامی زبانوں کے درمیان جاری جدوجہد کو بیان کرتا ہے(ناصر عباس111: 2024)۔

پس نوآبادیاتی نقطہ نظر کے مطابق، یہ صرف ایک اسلوبیاتی انتخاب نہیں بلکہ یہ زبان کی ایک ایسی طاقت کا اظہار ہے جو ثقافتی خودمختاری کے دعوے کے طور پر منتج ہے۔ فاروقی کی محتاط زبان کا استعمال، جیسے ’غم خانہ‘، ’ادیب‘ اور ’سلمہ اللہ تعالیٰ‘، ماضی اور حال کے درمیان ایک رابطے کو  جنم دیتا ہے۔ یہ رابطہ زبان کی نوآبادیاتی مسلطیت سے آزادی اور اس کے موجودہ ہندوستانی سماج میں اہمیت کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ وہ اپنی نثر کے ذریعے یہ ثابت کرتے ہیں کہ زبان نہ صرف نوآبادیاتی تاریخ کا ایک ریکارڈ ہے، بلکہ یہ ایک متحرک قوت بھی ہے جو پس نوآبادیاتی جدید یت کے عمل کو آگے بڑھاتی ہے۔

فاروقی کا پس نوآبادیاتی موقف ان کے اردو کے کلاسیکی ورثے سے گہرے تعلق اور اس کی جدید تشریحات کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے۔ وہ زبان میں پوشیدہ سیاسی طاقت کو سمجھتے ہیں اور اس کا استعمال ثقافتی تسلسل اور سماجی تنقید کے طور پر کرتے ہیں۔ ان کے افسانے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ زبان نوآبادیاتی تاریخ کا ایک ریکارڈ ہونے کے ساتھ ساتھ پس نو آبادیاتی تخیل کا ایک وسیلہ بھی ہو سکتی ہے۔ فاروقی کی نثر اس بات کی وضا حت کرتی ہے کہ زبان ایک ایسا میدان ہے جہاں نوآبادیاتی اثرات کے مابین جدوجہد اور شناخت کی تخلیق کی جاتی ہے۔

 سوار اور دوسرے افسانے‘ مجموعہ میں شامل افسانہ ’ آفتاب  زمیں‘  کا تجزیاتی محاکمہ کرتے ہوئے فاروقی کے استعمال شدہ لفظوں اور محاوروں کے تعلق سے خالد جاوید  لکھتے ہیں :

اس مضمون میں بیانیے کی دوسری خوبیوں کا ذکر (جزوی طور سے ہوتا ہی آیا ہے ) میں مختصر ا ً کرنے پر ہی اکتفا کروں گا۔ مثال کے طور پر فاروقی کے بیانیے میں ذخیرہ الفاظ ، روزمرہ اور محاورے کا استعمال اس دور کے تہذیبی، تاریخی اور یہاںتک کہ سیاسی صورت حال کی جیسی بھر پور انداز میں نمائندگی کرتے ہیں وہ صرف فاروقی کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا تھا۔ اس زبان نے بیانیہ کے آئینے کو کی طرح صاف و شفاف بنا دیا ہے مگر میں اپنی پرانی بات پر پھر بھی قائم ہوں کہ آئینے اور آپ کے درمیان جو خلا ہے اور اس خلا میں جو دھند ہے اس دھند میں ہی وہ بصیرت پوشیدہ ہے جو اٹھارہویں صدی کی دہلی اور لکھنؤ کی پوری تہذیب کو ہمارے حواس و ادراک کے لیے قابل گرفت بناتی ہے۔ اسی دھند سے ہی مصحفی کی ایک شبیہ بننا شروع ہوتی ہے۔’ آفتاب زمیں‘  اس کا  ہی افسانہ ہے  اور یہ اردو ادب میں پہلی بار ممکن ہوسکا ہے  کہ ایسی سچی اور خالص شبیہ  کہیں ابھرتی ہوئی نظر آتی ہو۔ خاص طور سے جب ہم زمان ومکاں کے ایک طویل فاصلے سے شبیہ کا نظارہ کررہے ہوں۔‘‘ (جاوید: 93: 2008)

شمس الرحمن فاروقی نے اپنی افسانہ نگاری میں اردو زبان کے بیانیہ امکانات کو وسیع کیا اور اسے ایک خودمختار ادبی زبان کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان کے افسانے گہری علامتوں، استعارات، اور کلاسیکی اسلوب کے ذریعے زبان کی طاقت کو ابھارتے ہیں  اور ان کا اسلوب مغربی اثرات سے آزاد، لیکن جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہے، جس نے اردو ادب کو ایک نئی سمت دی ہے۔ شمس الرحمن فاروقی کے افسانے اردو زبان کے جمالیاتی ورثے، کلاسیکی ادب، اور تاریخی شعور کو اجاگر کرتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں داستانوی عناصر، زبان کی نفاست، اور ماضی کی ادبی روایات کی بازیافت شامل ہیں، جو نوآبادیاتی اثرات کو رد کرتے ہوئے اردو ادب کو اس کی اصل شناخت فراہم کرتی ہیں۔ ان کا زیر بحث افسانوی مجموعہ اس بات کی بہترین مثال ہے، جس میں انھوں نے قبل نوآبادیاتی زمانے کے تہذیبی اور ادبی ورثے کو نہایت باریکی سے پیش کیا ہے۔ ان افسانوں کا بیانیہ برصغیر کی تہذیبی عظمت کو نمایاں کرتا ہے اور نوآبادیاتی بیانیے کو چیلنج کرتا ہے جو مقامی ادبی و تہذیبی تاریخ کے ورثے  کو اکثر کم تر ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

حوالے اور ماخذ

l              خالد جاوید: 2008،  ’ کہانی، موت اور آخری بدیسی زبان‘،  نئی دہلی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس

l              احمد دین: 2023، ’سر گزشت الفاظ‘ ، لاہور، عالمگیر پریس

l              ایڈورڈ سعید، 2009، ’ ثقافت اور سامراج‘، مترجم یاسر جواد،  اسلام آباد،  مقتدرہ قومی زبان

l              ایڈورڈ سعید، 2012، ’شرق شناسی‘، مترجم محمد عباس،  دہلی، البلاغ پبلی کیشنز

l              محمد منصور عالم، 2005، ’حریر دو رنگ: شمس الرحمٰن فاروقی شاعر و افسانہ نگار‘، نئی دہلی، رعنا کتاب گھر

l              شمس الرحمن فاروقی،  2003، ’سوار اور دوسرے افسانے‘، الٰہ آباد، شب خون کتاب گھر

l              شمس الرحمن فاروقی، 2003، ’ غالب افسانہ‘، مشمولہ سوار اور دوسرے افسانے، الٰہ آباد، شب خون کتاب گھر

l              شمس الرحمن فاروقی، 2003، ’سوار ‘، مشمولہ  سوار اور دوسرے افسانے، الٰہ آباد، شب خون کتاب گھر

l              شمس الرحمن فاروقی، 2003، ’ ان صحبتوں میں آخر‘، مشمولہ  سوار اور دوسرے افسانے، الٰہ آباد، شب خون کتاب گھر

l              شمس الرحمن فاروقی،2003، ’آفتاب زمیں‘، مشمولہ  سوار اور دوسرے افسانے، الٰہ آباد، شب خون کتاب گھر

l              شمس الرحمن فاروقی،2003، ’لاہور کا ایک واقعہ‘، مشمولہ  سوار اور دوسرے افسانے، الٰہ آباد، شب خون کتاب گھر

l              شمس الرحمن فاروقی،2011، ’اردو کا ابتدائی زمانہ‘، نئی دہلی،مکتبہ جامعہ لمٹیڈ

l              شمس الرحمن فاروقی،2020، ’ قبض زماں‘، نئی دہلی،عرشیہ پبلی کیشنز

l              شمس الرحمن فاروقی،،  2022، ’تنقیدی افکار‘، نئی دہلی، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان

l              گوپی چند نارنگ، 2004، ’ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘، نئی دہلی، قومی کونسل براے فروغ اردو زبان

l              ناصر عباس نیر، 2016،  ’اردو ادب کی تشکیل جدید: نو آبادیاتی اور پس نوآبادیاتی عہد کے اردو مطالعات‘، کراچی، اوکسفرڈ  یونیورسٹی پریس

l              ناصر عباس نیر، 2024،  ’مابعد نوآبادیات: اردو کے تناظر میں‘، لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز

 

Iqbal Husain

Research Scholar, Dept of Urdu

Jamia Millia Islamia

New Delhi- 110025

Mob.: 9871648568

iquebalhussain1982@gmail.com

 

امتیازعلی عرشی کی تدوینی خدمات، مضمون نگار: فیضان اشرف

 اردو دنیا، فروری 2025


کسی خاص متن کی بازیافت اور اس کی تصحیح وترتیب کے عمل کو تدوین کہتے ہیں۔ تدوین کے ذریعے قدیم متون کو گمنامیوں سے نکال کر ان کو مصنف کے اصل متن سے قریب سے قریب تر لانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کے مختلف نسخوں کا مقابلہ کرکے درست کیا جاتا ہے۔ اس میں مرتب کسی مصنف کی منتشر تخلیقات یا کسی تخلیق کے منتشر اجزا کی تصحیح و ترتیب کرکے جمع کرنے کی کوشش کرتے ہیں اوریہ کوشش بھی کرتے ہیں کہ کسی بھی قدیم متن کو اس انداز میں پیش کیا جائے کہ جیسا اس متن کو مصنف نے آخری مرتبہ لکھا تھا۔ ترتیب متن کا کام تحقیق و تنقید سے قدرے مختلف ہے اس میں فنی مہارت کے ساتھ دلچسپی کا ہونا بھی ضروری ہے۔یہ کام وہی انجام دے سکتے ہیں جن کو قدیم مخطوطات و متون سے دلچسپی ہو اور یہ دلچسپی ہمیں مکمل طور سے مولاناامتیاز علی عرشی کی تحریروں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔صابر علی سیوانی اپنی کتاب ـــتدوین متن کی روایت آزادی کے بعد‘ میں لکھتے ہیں:

ــ’’ان کا امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے اردو ادب کو تحقیق کے آداب و رموز سکھائے۔ تحشیہ و تدوین کا معیار قائم کیا اور صحت متن کواعتبار بخشا... عرشی صاحب نے اپنی تحقیقی کاوشوں سے ادب کو بیش بہا ادبی خزینے سے روشناس کرایا اور ان متون کوصحت متن کے ساتھ پیش کیا،جو نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔ــ‘‘ـ1

مولانا امتیاز علی عرشی نے پوری زندگی نادر مخطوطات اور کلاسیکی متون کی دریافت میں وقف کر دی۔ محنت و تجسس مولانا عرشی کا شیوہ تھا وہ اس وقت تک مطمئن نہیں ہوتے جب تک کہ کسی بھی متن کے تمام تر نسخوں کو ملاحظہ نہ کر لیں۔ تحقیق کی شرط اول کو کبھی فراموش نہیں کیا۔ اس لیے انھوں نے کبھی  قیاس آرائی اور افواہ پر یقین نہیں کیا بلکہ خود اس کی تصدیق کی۔ اس لیے ان کے اسلوب میں ہمیں ان کی محنت، تجسس، تخصیص نظر آتی ہیں۔ امتیاز علی عرشی کا تحقیقی دائرہ بہت وسیع ہے انھوں نے اردو زبان کے ساتھ ساتھ فارسی اور عربی زبانوں کی ادبیات پر بھی بیش بہا کارنامے انجام دیے ہیں۔

مولانا امتیازعلی عرشی کا شمار اردو تحقیق میں بحیثیت غالب شناس ہوتا ہے۔ انھوں نے غالب کے تعلق سے جو تحقیقی کارنامے انجام دیے ہیں، ان میں دیوان غالب (نسخہ عرشی)، مکاتیب غالب، انتخاب غالب، فرہنگ غالب قابل ذکر ہیں۔ مولانا امتیاز علی عرشی نے بحیثیت مدون جو پہلا مقبول ترین کارنامہ انجام دیا وہ ’مکاتیب غالب‘ ہے۔اس حوالے سے مشہور محقق رشید حسن خان لکھتے ہیںــ:

’’مکاتیب غالب کے ایک ایک خط کے ذیل میں مرحوم نے بیش قیمت معلومات سے بھرپور حواشی لکھے ہیں اور مقدمہ کتاب کو گنجینہ معلومات بنا دیا ہے۔‘‘2

مولانا امتیاز علی عرشی جب رامپور رضا لائبریری سے وابستہ ہوئے تو ان کی نظر غالب کے ان خطوط پر پڑی جوزمانے سے کتب خانے میں کاغذوں کے انبار میں دبے رکھے تھے۔ مولانا عرشی نے اس وقت کی ریاست رامپور کے چیف منسٹر کرنل بشیر حسین زیدی کے اصرار پر ان تمام خطوط کو جمع کرکے ان پر ایک مبسوط مقدمہ حواشی کے ساتھ مرتب کرکے 1937 میں شائع کیا۔ یہ سارے خطوط عرصہ دراز سے ردی کی مانند پڑے تھے لیکن مولانا امتیاز علی عرشی نے انھیں خطوط کے ذریعے غالب کی زندگی کے بعض ایسے پہلو واضح کیے جو کہ نہ صرف غالب کی نجی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ اس وقت کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی ماحول کو سمجھنے اور جاننے کے لیے کافی اہم ہیں۔               

ــ’ مکاتیب غالب‘ غالب کے ان خطوط کا مجموعہ ہے جو انھوں نے رامپور کے نواب یوسف علی خان اور ان کے جانشین نواب کلب علی خان کے نام تحریر کیے تھے۔ مکاتیب غالب میں خطوط کی کل تعداد115 اور مکتوب الیہم کی تعداد 6 ہے۔اور خطوط کے علاوہ اس میںایک قطعہ اورایک قصیدہ درج ہے۔ مکاتیب غالب دو حصوں پر منقسم ہے جس کے پہلے حصے میں کرنل بشیر حسین زیدی کی تقریب کے علاوہ مولانا عرشی کا 173 صفحات کا طویل ترین مقدمہ شامل ہے۔ دوسرے حصے میں خطوط شامل ہیں جن کی تعداد 117 ہے۔ مکاتیب غالب کے پہلے ایڈیشن میں مولانا عرشی نے غالب کے متعلق 10 عنوانات قائم کیے تھے اور جب اس کا دوسرا ایڈیشن 1943 میں شائع ہوا تو مولانا عرشی نے اس میں دو اور عنوانات کا اضافہ کیا۔ اس طرح مکاتیب غالب میں عنوانات کی کل تعداد 12 ہوگئی ہے۔

مقدمہ کا پہلا عنوان ’سرگزشت غالب‘ ہے جس میں غالب کے سوانحی کوائف،تعلیم،معاصرین سے ان کا تعلق، قرض، امراض، وفات، مدفن وغیرہ کو بہت ہی مفصل و محققانہ انداز میںپیش کیا ہے۔ دوسرا عنوان ’تصانیف‘ ہے جس میں مولانا عرشی نے غالب کی تمام تحریروں کا احاطہ کیا ہے جس میں غالب کی اردو فارسی کی کتابیں، دیوان اردو، دستنبو، کلیات فارسی، نامۂ غالب اور تاریخ سلاطین تیموریہ کا تحقیقی جائزہ پیش کیا ہے۔ تیسرے عنوان میں غالب کے شاگردں کا ذکر کیا ہے جن کا تعلق رامپور سے تھا۔چوتھے عنوان میں غالب کے کاروبار اور قرض وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔ پانچویں عنوان میں غالب کے انگریز تعلقات کا ذکر کیا ہے جس میں ان کو انگریزوں سے ملنے والی پینشن اور غدر کے وقت بگڑے حالات کا تذکرہ کیا ہے۔ چھٹا عنوان ’بہادر شاہ ظفر سے تعلقات‘، ساتواں عنوان’تعلقات رامپور‘، آٹھواں عنوان ’اصلاح غالب‘ کے نام سے قلم بند کیا۔ نویں عنوان میںغالب کی انشا پردازی پر بات کی گئی ہے۔ دسواں عنوان غالب کے عادات و خصائل پر مبنی ہے جس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ غالب کسی بھی خط کا جواب دینے میں عجلت سے کام لیتے تھے۔ شدت مرض اور زیادتی ضعف کے باوجود خط کا جواب جلد از جلد دینے کی کوشش کرتے تھے۔ مولانا امتیاز علی عرشی لکھتے ہیں:

’’خط کا جواب دینے میں میرزا صاحب بہت باضابطہ تھے۔ وہ یوں تو ہر خط کا جواب فوراـــــ لکھتے،اور غیراختیاری عذر کے علاوہ اور کسی عذر کے پیش کرنے کا کبھی موقع نہ آنے دیتے۔‘‘3

تحقیق و تدوین کے سلسلے میں ’دستور الفصاحت‘ مولانا امتیاز علی عرشی کی ترتیب کردہ کتابوں کی فہرست میں اہم مقام رکھتی ہے۔ دستور الفصاحت حکیم احد علی خان یکتا کی تصنیف ہے جس کا موضوع اردو زبان کی صرف و نحو، معانی، عروض اور قواعد اردو سے ہے۔دستور الفصاحت فارسی زبان میں ہے اور یہ کتاب انشاء اللہ خان انشا کی کتاب ’دریائے لطافت‘ سے پیش تر لکھی گئی تھی لیکن دریائے لطافت کے بعد شائع ہوئی۔اس سلسلے میں مولانا امتیاز علی عرشی لکھتے ہیں:

’’ اس کی تالیف کا کام انشا کی دریائے لطافت سے پہلے انجام پا چکا تھا۔جس کا سال اختتام 1222ھ (1807) ہے۔‘‘4

اور آگے لکھتے ہیں:

ــ’’اس لیے ہم پچھلے دلائل کی کمک پر کہہ سکتے ہیں کہ مصنف کی نظر میں دریائے لطافت کا نہ ہونا اس بنا پر تھا کہ یہ ابھی معرض وجود ہی میں نہیں آئی تھی۔‘‘5

دستور الفصاحت کے مقدمہ میں ارد و زبان کے آغاز و ارتقا، زبان کے مستند مراکز پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔ دستور الفصاحت میں مقدمہ کے بعد اس میں پانچ ابواب شامل ہیں۔پہلا باب چار فصلوں پر مشتمل ہے۔ جو فارسی زبان کے اصول و قواعد اورصرف و نحو سے متعلق ہے۔ دوسرا باب ایک تمہید اورچھ فصلوں پر مشتمل ہے جس میں اردو زبان کے قواعدو صرف سے بحث کی گئی ہے۔تیسرے باب میں ایک تمہید اور16 فصلیں ہیں اور یہ باب بھی اردو زبان و قواعد سے متعلق ہے۔ چوتھے باب میں 2 فصلیں ہیں جو عروض اور علم قافیہ سے متعلق ہیں۔ اس باب میں اردو اور فارسی کی بحروں پر بحث کی گئی۔پانچواں باب چار فصلوں پر مشتمل ہے۔ اس باب میں علم بیان، علم معانی اور علم بدیع پر بحث کی گئی ہے اور آخر میں ’خاتمہ‘ ہے جس میں ان شعرا کے حالات زندگی اور منتخب اشعار پیش کیے گئے ہیں جن کا کلام کتاب میں بطور مثال پیش کیا گیا ہے۔

دستور الفصاحت 125 صفحات کی کتاب ہے لیکن مولانا عرشی نے اس پر 117صفحے کافاضلانہ مقدمہ قلم بند کیا ہے جس میں فارسی اور اردو کے متعدد تذکروں کے متعلق اہم معلومات جمع کی ہیں۔ مولانا عرشی نے مقدمہ میں مصنف کے حالات زندگی پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ہی ساتھ نسخے کے سائز،اس کی ضخامت، اول و زائد اوراق، ہر صفحے میں سطروں کی تعداد،نسخے کا خط جیسے  اہم نکات کی وضاحت کی ہے۔ مولانا عرشی کی کاوش اور محنت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے کتاب کے آخر میں ایک ذیلی عنوان ’مآخذ حواشی‘ قائم کر کے ان فارسی اور اردو کے 59 مطبوعہ کتب و تذکروں کی تفصیلات درج کی ہے جن سے دستور الفصاحت کی تدوین کے دوران مدد لی۔ جس میں حمید اورنگ آبادی کا تذکرہ ’گلشن گفتار‘،میر تقی میر کا تذکرہ نکات الشعراء،سید فتح علی گردیزی کا تذکرہ ’تذکرہ ریختہ گویاں‘،قیام الدین قائم کا تذکرہ مخزن نکات وغیرہ کا نام شامل ہے۔

دیوان غالب نسخہ عرشی ‘مولانا امتیاز علی عرشی کا ماہر غالبیات کی حیثیت سے سب سے اہم کارنامہ ہے۔ یہ نسخہ غالب کے اردو کلام کا مجموعہ جسے تاریخی اعتبار سے تریب و تدوین کیا گیا ہے۔ دیوان غالب پہلی مرتبہ انجمن ترقی اردو علی گڑھ سے 1958 میں پہلی بار شائع ہوا۔ دیوان غالب میں مولانا عرشی کا ایک عالمانہ و فاضلانہ مبسوط مقدمہ تحریر کیا جس کی ضخامت 160 صفحات ہے۔ اس میں انھوں نے غالب کے حالات زندگی، غالب کی عربی اور فارسی زبان پر دسترس،غالب کی شاعری کی خصوصیات و عیوب پر تفصیل سے بات کی ہے۔ اس سلسلے میں مشہور محقق مالک رام اپنے مضمون تبصرہ دیوان غالب (نسخہ عرشی) میں لکھتے ہیں:

’’اردو دنیا کو مولانا امتیاز علی عرشی کا ممنون احسان ہونا چاہیے کہ برسوں کہ برسوں کی ریاضت کے بعد انھوں نے یہ کام مکمل کر لیا جس میں انھوں نے موضوع کے تمام گوشوں کو اجاگر کیا۔ سب سے پہلے 160 صفحات کا دیباچہ ہے اس میں انھوں نے حسب معمول پوری داد تحقیق دی ہے۔‘‘6

مولانا عرشی نے دیوان غالب کی ترتیب و تدوین میں متعدد نسخوں سے استفادہ کیا۔ ان سبھی نسخوں کا ذکر مولانا نے مقدمہ میں کیا ہے۔جس میں کچھ نام یوں ہیں: 1857 کا غالب کے ہاتھ سے لکھا ہوا نسخہ،نسخہ بھوپال، نسخہ شیرانی،گل رعنا ،نسخہ رامپور ،نسخہ حمیدیہ،نسخہ لاہور وغیرہ۔نسخہ غالب چار حصوں پر مشتمل ہے:گنجینہ معنی، نوائے سروش،یادگار نالہ باد آورد۔نسخہ عرشی میں غالب کا وہ تمام تر کلام  درج کیا گیا ہے جو ان کے نام سے اب تک شائع ہوتا رہا۔

دیوان غالب کا پہلے حصے ’گنجینہ معنی‘ میںغالب کے وہ تمام اشعار درج کیے گئے ہیں جو نسخہ بھوپال اور نسخۂ شیرانی میں تو موجود تھے ،لیکن 1833 میںترتیب کردہ دیوان سے مرزا غالب نے خارج کر دیا تھا۔ دوسرے حصے بعنوان ’نوائے سروش‘ میںغالب کا وہ کلام شامل ہے جسے مرزا غالب نے اپنی زندگی میں لکھوایا تھا اور اسے طبع کراکرکے لوگوں میں تقسیم کیا تھا۔ تیسرے حصے ’یادگارنالہ‘ میں وہ کلام درج کیا گیا ہے، جو دیوان غالب کے کسی بھی نسخے میں نہیں تھا، لیکن بعض نسخوں کے حاشیوں یا ان کے خطوط کے اندر یاغالب کے نام سے دوسروں کے بیاضوںاور ڈائریوں میں پایا گیا تھا اور یہ اشعار اخبارات و رسائل کے ذریعے لوگوں تک پہنچ چکے تھا۔ ’باد آورد‘کے حصے میں نسخہ عرشی زادہ کے ذریعے سے دریافت کلامِ غالب کوشامل کیا گیا ہے۔ ’بادآورد‘ کا حصہ ’دیوان غالب‘ نسخہ عرشی کے پہلے ایڈیشن، جو 1958 میں شائع ہوا تھا اس میں شامل نہیں تھا۔

مولانا امتیاز علی خان عرشی کا مغلیہ دور کے حوالے سے ایک اور اہم کارنامہ ’نادرات شاہی‘ کی تدوین و ترتیب ہے۔ یہ کتاب مغلیہ حکومت کے آخری دور کے فرمانرواں شاہ عالم ثانی کے ہندی،اردو اور فارسی کلام کا مجموعہ ہے۔جس کو خود بادشاہ شاہ عالم ثانی نے 1797 میں مرتب کروایا تھا۔ نادرات شاہی کو نواب کلب علی خان نے مشہور اردو شاعر داغ دہلوی کے توسط سے رامپور رضا لائبریری کے لیے خریدا تھا۔اس کتاب کا پہلا ایڈیشن 1944میں شائع ہوا۔حسب دستور اس میں بھی مولانا عرشی نے ایک محققانہ مقدمہ تحریر کیا جس میں شاہ عالم ثانی کی حالات زندگی،حسب ونسب،سخن گوئی وغیرہ کا ذکر بہت مفصل انداز میں پیش کیا ہے۔ اس حوالے سے صباح الدین عبد الرحمن لکھتے ہیں:

’’ عرشی صاحب کو نادر چیزیں ڈھونڈنکالنے کا فطری ملکہ ہے جنھیں وہ زیور اطاعت سے آراستہ کر کے اہل ذوق تک پہنچاتے رہتے ہیں۔ 1944 میں نادرات شاہی کی اشاعت ان کی جوہر سناشی کا نتیجہ ہے... اس کے شروع میں عرشی صاحب نے 62 صفحے کا جو مبسوط مقدمہ لکھا ہے،اسے پڑھنے کے بعدماننا پڑھتا ہے کہ ہندوستان کی تاریخ پر بھی ان کی نظر وسیع ہے۔‘‘7

تاریخ محمدی‘ میرزا محمد حارثی بدخشی دہلوی کی اہم ترین تاریخی کتاب ہے۔اس کتاب میںحارثی بدخشی نے10 ھ سے 1161ھ تک کے مشاہیر و علمی شخصیات کے مختصر حالات زندگی اور سنہ وفات درج کی ہیں۔ مولانا عرشی نے اس کتاب کی متن کی تصحیح کر کے اس پر حواشی لکھے۔ اس کتاب کا متن 142 صفحات پر محیط ہے لیکن حواشی187 صفحات تک پھیلے ہیں۔ مولانا عرشی نے تاریخ محمدی کو تمام تر تحقیقی و تدوینی اصولوں کا خیال رکھتے ہوئے تدوین کیا۔ عرشی صاحب کے تدوینی کارناموں میں تاریخ محمدی کو اہم مقام حاصل ہے۔

ترجمہ مجالس رنگین مشہور ریختی گو شاعر سعادت یار خاں رنگین کی فارسی کتاب کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ ترجمہ رامپور کے اخبار ’ناظم‘ میں 1942 میں قسط وار شائع ہوا تھا۔ مولانا عرشی نے اس کتاب کو حواشی کے ساتھ ترتیب دیا اور ساتھ ہی ان تمام تفصیلات کا بھی ذکر کیا جو اس کتاب کے وجود میں آنے کی وجہ بنیں۔ اس کتاب میں کل 62 مجالس ہیں اور مولانا عرشی نے اس کتاب کے عنوان پر بھی تفصیلی بات کی ہے۔جس میں انھوں نے یہ بتایا کہ اس کتاب کا نام مجالس رنگین کیسے پڑا۔

اردو کے مشہور قواعد نویس، داستان گو، شاعرو ادیب انشاء اللہ خان انشا کی مشہور غیر منقوط کتاب سلک گوہر کو تصحیح کے ساتھ پہلی مرتبہ 1948 میں رامپور سے مولانا عرشی نے شائع کیا۔یہ 36 صفحات پر مشتمل ایک مختصر داستان ہے۔ اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں ایک بھی نقطہ نہیں ہے۔لیکن یہی خوبی ہی شاید اس کی بے لطفی کی وجہ بنی۔پروفیسر گیان چند جین لکھتے ہیں:

’’اس کتاب کی اہمیت محض ’کوہ کندن و کاہ برآوردن‘ میں ہے۔بے نقط کی قید کی وجہ سے اس قدر بے لطفی پیدا ہو گئی ہے کہ پوری داستان کا پڑھنا تقریباََ محال ہو گیا ہے۔‘‘8

لیکن پھر بھی اپنی خاص نوعیت کی بنا یہ کتاب آج بھی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔سلک گہر کے علاوہ انشاہ اللہ خان انشا کی ایک اور مشہور داستان ’رانی کیتکی کی کہانی‘ ہے۔یہ ایک طبع زاد داستان ہے جس میں رانی کیتکی اور کنور اودے بھان کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔اس داستان کی خاص بات یہ ہے کہ یہ خالص ہندوستانی زبان میں لکھی گئی ہے۔ اس میں عربی اور فارسی کے الفاظ سے پرہیز کیا گیا ہے۔سب سے پہلے اس کتاب کو مولوی عبدالحق نے تصحیح متن کے ساتھ 1926 میں انجمن ترقی اردو اورنگ آباد کے رسالہ ’اردو‘ میں شائع کیا۔ اس کے بعد عبدالحق صاحب نے اس داستان کو کتابی صورت میں 1933میں اپنے مقدمہ کے ساتھ شائع کیا۔ مولانا امتیاز علی عرشی نے عبد الحق کے پہلے ایڈیشن اور رضا لائبریری میں رکھے دو اور مخطوطوں کا آپس میں مقابلہ کرکے درست کیا۔بقول گیان چند جین:

’’اسٹیٹ لائبریری رامپور میں داستان کے دو مخطوطے دریافت ہوئے ایک کتابی شکل میں ہے۔ دوسرا انشا کے ساتھ شامل ہے۔ان کی مدد سے مولانا امتیاز علی خان عرشی نے اسے از سر نو مکمل کیا۔‘‘ 9

مولانا امتیاز علی عرشی کی ایک اور اہم کارنامہ ’محاورات بیگمات ‘ہے۔ یہ کتاب مشمولہ اردو ادب، علی گڑھ، اشاعت جولائی، دسمبر1952 میں نامی پریس، لکھنؤ سے شائع ہوئی۔ مولانا عرشی نے اس کتاب کو خان آرزو کی نوادر الالفاظ اور سعادت یار خان رنگین کے دیوان ریختی کی مدد سے تیار کیا۔ اس کتاب میں کل صفحات 32 ہیں۔ دیوان ریختی کے آخر میں عورتوں کے مخصوص محاوروں اور الفاظ کی فہرست ہے۔ ان محاوروں کو خان آرزو نے اپنی کتاب نوادرالالفاظ میںشامل کیا۔ مولانا عرشی نے دیوان ریختی اور نوادرالالفاظ ان دونوں کتابوں کی تشریحات کو سامنے رکھ کر مزید تحقیقی حواشی کے ساتھ مرتب کیا۔

ارد و اور افغان‘ بھی مولانا عرشی کی تحقیق دسترس اور زبانِ اردو پر ان کی وسعتِ نظر کا ثبوت ہے۔ مولانا عرشی نے از قبل اس کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے جشن سیمیں میں 1942 میں بطور مقالہ ’اردو پر پشتو کا اثر‘ کے عنوان سے پڑھا تھا پھر اصلاح وو اضافے کے بعدمعارف کے تین شماروں میں 1949 میں ’اردو زبان کی بناوٹ میں افغانوں کا حصہ‘ کے عنوان سے شائع ہوا اور 1960 میں بروی پریس،پشاور سے کتابی صورت میں بعنوان ’اردو اور افغان‘ طبع ہوئی۔یہ کتاب لسانیات کے تعلق سے بہت اہم کتاب ہے اس کتاب میں ان تمام پشتو الفاظ کے بارے میں بات کی ہے جن کا اردو کی تشکیل میں اہم حصہ ہے۔مولانا عرشی اس بات کا بھی انکشاف کرتے ہیں کہ ماہرین لسانیات نے صرف فارسی، عربی، سنسکرت اور ترکی کو ہی اردو زبان کا پیش خیمہ بتایا لیکن پشتو زبان کو کسی نے بھی اہمیت نہیں دی۔اس کے علاوہ عربی اور فارسی زبان میں موجود 253 پشتو الفاظ کی بھی نشاندہی کی جو آج بھی بگڑی ہوئی شکلوں میں موجود ہیں۔یہ کتاب لسانیات کے ضمن میں اردو کی مستند اور اعلیٰ کتب میں شمار کی جاتی ہے۔

 اس کے علاوہ مولانا امتیاز علی خان عرشی کی دیگر غیر مطبوعہ کتابیں بھی ہیں جو ان کی وفات کے سبب منظر عام پر نہ آ سکیں؛ جیسے اشاریہ اودھ کیٹلاگ،انتخاب ناظم، خطاطی کی تاریخ،دیوان مومن۔مولانا عرشی کا انتقال اردو تحقیق و تدوین کے لیے بہت بڑا خسارہ تھا جس کی کمی شاید کبھی پوری نہیں ہو سکتی۔امتیاز علی عرشی کی تحقیقی کاوشیں اور ان کی لگن ،غیر مطبوعہ مخطوطات کی چھان بین اور ان کی تدوین و ترتیب میں انہماک نے اردو تحقیق کو مالا مال کیا ہے اور جہاں تک ان کی ذہنی انسیت کی بات کی جائے تو قطعاً ہر تحقیق جیسے حرف آخر نہیں ہوتی مگر عرشی کی ترتیب کردہ کتب یقینی طور پر آخری حوالے کا مقام رکھتی ہیں ۔کتابوں کی ترتیب میں انھوں نے ہمیشہ احتیاط سے کام لیا ہے اور ان کے یہاں اغلاط شماری بھی کم ہی ہے بلکہ بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے، یہ ان کے تحقیقی ذہن اور انتہائی احتیاط کی مثال ہے۔ امتیاز علی عرشی اپنی تحقیقات اور تدوینی خدمات کے آئینے میں ہمیشہ زندہ و جاوید رہیں گے۔

حواشی

1             تدوین متن کی روایت آزادی کے بعد: ڈاکٹر صابر علی سیوانی، محمد خالد تنویر پبلشر، حیدرآباد،2021،ص14

2             مشمولہ: ماہنامہ ـ’تحریک‘ نئی دہلی، جلد 92، اپریل 1981، ص 8

3             امتیاز علی عرشی(مرتب)، دیباچہ مکاتیب غالب،مطبوعہ قیمیہ، بمبئی، 1937، ص 108

4             دستور الفصاحت سلسلہ مطبوعات کتاب خانہ رامپور 1943، ص 27

5             ایضاً

6             مشمولہ ’نقوش‘ لاہور،شمارہ 101، نومبر1964،ص 166

7             مشمولہ: ماہنامہ ’تحریک‘ نئی دہلی، جلد 92، اپریل 1981، ص 17

8             اردو کی نثری داستانیں: پروفیسر گیان چند جی ، قومی کونسل برائے فروغ زبان اردو زبان،نئی دہلی،2002،ص370

9             ایضاً

 

Faizan Ashraf

Lal Bahadur Shastri Smarak P.G. College Anandnagar

Maharajganj - 273155 (UP)

Mob.: 9917284412

faizanashraf664@gmail.com

 

 

 

 

 

25/4/25

اردو نثر کے فروغ میں ناصر نذیر فراق کی ادبی خدمات، مضمون نگار: صابر ریاض خاص

 اردو دنیا، فروری 2025

اردو نثر کی ابتدا دکن سے ہوئی۔ وہاں ارتقائی مراحل طے کرنے کے بعد یہ شمالی ہند پہنچی۔1  شمالی ہندوستان میں نثر نویسی کا آغاز فضل علی خاںفضلی کی کتاب ’ دہ مجلس‘ سے مانا جاتا ہے۔2  ابتدائی دور میں اردو نثر عربی و فارسی الفاظ کے ساتھ مسجع ومقفیٰ عبارات میںڈوبی ہوئی تھی (مثال کے طور پر ملا وجہی کی’ سب رس‘)۔ فورٹ ولیم کالج کے ذریعے اردو نثر خاص کر داستان کو فروغ ملا۔داستان نویسی کے بعد اردو نثر ناول نگاری کے منازل طے کرتے ہوئے افسانہ نگاری تک پہنچی۔ ان افسانوی اصناف کے ساتھ ساتھ اردو نثر نے غیر افسانوی ادب میں بھی اپنے ارتقائی منازل طے کیے۔ مثلاً مضمون نگاری، انشائیہ نگاری، سوانح نگاری، خاکہ نگاری، خطوط نگاری اورسفرنامہ وغیرہ کے ذریعے اردو نثر کے ذخیرے میں اضافہ ہوا۔ اردو نثر نگاری کے فروغ میں متعدد فنکاروں نے اہم رول ادا کیے۔ مثال کے طور پر ملا وجہی (سب رس)، فضل علی فضلی (کربل کتھا)، میرامن (باغ و بہار)، انشاء اللہ خاں انشاء (رانی کیتکی کی کہانی)، رجب علی بیگ سرور (فسانہ عجائب)، سرسید احمد خاں (آثارالصنا دید و خطبات احمدیہ)، نذیراحمد (مراۃ العروس و توبۃ النصوح) اور پنڈت رتن ناتھ سرشار (فسانۂ آزاد) وغیرہ نے قابل قدر تخلیقی کام سرانجام دیے۔سر سید احمد خاں کے مضامین اور مرزا غالب کے خطوط نے اردو نثر کو عربی و فارسی زبان کے دقیق الفاظ سے پاک کر دیا۔ سرسید کی اصلاح پسندی اور سہل نثر نگاری کو حالی، شبلی اور نذیر احمد نے آ گے بڑھایا۔ نذیراحمد کی اصلاحی اور سجاد حیدر یلدرم کی رومانی کاوشوں کو آگے بڑھانے والوں میں ناصر نذیر فراق دہلوی کا نام بھی ہے۔ اردو ادب کی تاریخ میں حکیم خواجہ ناصر نذیر فراق دہلوی کو ان کی علمی و ادبی خدمات کے سبب ممتاز شمار کیا جاتا ہے۔ ان کی تحریریں قدیم دلّی کی ٹکسالی اردو کی عکاس ہیں۔ ان کی نثر نگاری پر قلم اٹھانے سے پہلے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان کے احوال کا مختصراً جائزہ لیا جائے۔

ناصر نذیر فراق 3ربیع الاوّل1282ھ بمطابق 16 اگست 1865 کو دہلی میں پیدا ہوئے۔3  حکیم خواجہ ناصر نذیر فراق دہلوی کا اصل نام ’نذیر‘ اور تخلّص ’فراق‘  تھا۔4  اپنے خاندانی دستور کے مطابق نام سے پہلے ’ناصر‘ لکھتے اور تحریر کی پیشانی (Header) پر’ہوالناصر‘ درج کرتے تھے :

’’فراق دہلوی جس خاندان کا وسیلہ پکڑتا ہے اس کے مورث سیدالسادات خواجہ سید محمدؐ ناصر حسینی عندلیب تخلص خواجہ میر درد دہلوی کے والد بزرگوار تھے آپ نے فرمایا میرے نام کو خدا نے قبول کر لیا ہے اور مجھ سے وعدہ کیا کہ تیری آل اولاد اور تیرے آستانہ کے غلاموں کے لیے لفظ ’ناصر‘ میں برکتیں رکھ دی گئیں جو اپنے نام کے ساتھ اسے شامل کرے گا یا اپنی کتاب یا خط کی پیشانی پر ’ہوالناصر‘ لکھے گا اسے وہ برکتیں دی جائیں گی... اسی یادگار میں ہم لوگ اپنی کتاب اور رسالوں اور خطوط پر ہوالناصر لکھا کرتے ہیں۔‘‘5

ناصر نذیر فراق کا تعلق علمی و ادبی خاندان سے تھا۔ ان کے والد کا نام ’سید محسن علی‘ اور ماں کا نام ’شمس النساء بیگم‘ تھا۔6 انھوں نے کتاب میخانۂ درد میں اپنا نسب نامہ قلم بند کیا ہے۔ جہاں ان کے والد ماجد کا نام سید محسن علی درج ہے۔ اردو ادب کے معروف و مقبول شاعر ’خواجہ میر درد‘ کی پوتی ’بی امانی بیگم صاحبہ‘ کی شادی ’مولوی ناصر جان صاحب محزون‘ سے ہوئی۔ ان سے بی عمدہ بیگم (فراق کی نانی) پیدا ہوئیں۔ چنانچہ ناصر نذیر فراق کا خواجہ میردرد سے خاندانی رشتہ ثابت ہوتا ہے۔7  ناصر نذیر فراق اور خواجہ میر درد کے رشتے سے متعلق شاہد احمد دہلوی (مدیر رسالہ ساقی) لکھتے ہیں:

’’حضرت فراق حضرت خواجہ میر درد کے نواسہ میں اور صحیح معنوں میں وارث الادب ہیں۔‘‘8

حکیم خواجہ ناصر نذیر فراق دہلوی کی ادبی زندگی کا آغاز نثر نگاری سے ہوا۔ انھوں نے اس کا ذکر اپنی تصنیف ’چار چاند‘ کے دیباچے میں اس طرح کیا ہے :

’’پچپن سال سے میری جاں دامِ نثر میں صید ہے۔‘‘9

ناصر نذیر فراق نے کثیر تعداد میں مضامین، ناول، افسانے اور انشائیے تخلیق کیے۔ ان کے مضامین ملک کے بیشتر رسائل میں شائع ہوتے تھے۔ فراق دہلوی رسالہ مخزن(1910) کے ابتدائی دور کے لکھنے والوں میں سے تھے۔ ان کے مضامین ’لال قلعہ کی ایک جھلک‘ کے عنوان سے رسالہ ساقی  میں قسط وار (1930-32) شائع ہوئے تھے۔ ان کے علاوہ ان کے مضامین خطیب (دہلی)، بہارستان، نظام المشائخ، عصمت، نیرنگ خیال، ادبی دنیا (لاہور) اور اس دور کے دوسرے مشہور و معروف رسائل میں بھی شائع ہوتے تھے۔ ان مضامین کے علاوہ ناصر نذیر فراق کی متعدد نثری تصانیف بھی ہیں۔ میخانۂ درد، مضامین فراق، دلّی کا اجڑا ہوا لال قلعہ، لال قلعہ کی ایک جھلک، سات طلاقنوں کی کہانیاں، سنجوگ یا دکن کی پری، چار چاند، دلّی میں بیاہ کی ایک محفل اور بیگموں کی چھیڑ چھاڑ، دردِ جانستاں، اختر محل اور المور کہا یا مرقع اردو وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

ناصر نذیر فراق کا تعلق اس عہد سے ہے جس میں کہانی اپنے داستانوی روپ کو بدل کر ناول کی شکل اختیار کر رہی تھی۔ یہ ناول اصلاحی و رومانی طرز پر لکھے جارہے تھے۔اردو نثر نگاری ناول کے ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے مختصر افسانہ کی جانب قدم اٹھا رہی تھی۔ فراق دہلوی کی تحریروں میں ناول اور افسانہ نگاری کے ابتدائی نقوش ملتے ہیں۔ان کے فن پاروں میں داستانوی اسلوب کا رنگ نمایاں ہے۔

بیسویں صدی کا ربع اول اردو ادب میں رومانی تحریک کے شباب کا زمانہ تھا۔ اس دور میں متعدد ادیبوں نے انشائیے لکھے۔ ناصر نذیر فراق نے بھی اپنے تخیل و تصور اور زور بیان کا ثبوت دیتے ہوئے انشائیے تخلیق کیے۔ ان کے نمائندہ انشائیوں کو یکجا کر کے کتابی شکل میں ’مضامین فراق‘ کے نام سے شائع کیا گیا۔ انشائیہ نگاری میں ان کی شان اور خوش بیانی کی عظمت کا اندازہ درج ذیل اقتباس کے ذریعے بخوبی لگایا جا سکتا ہے :

’’کوئل کی باتوں نے مور کے زخمی دل پر مرہم کا اثر دکھایا اوراس نے اپنی بپتا اس طرح شروع کی۔ حسن آباد میں عالم افروز نام ایک نازنین تھی،  جس کی خوبصورتی اس درجہ کی تھی کہ چاند سورج اس کے ناخنوں میں پڑے چمکا کرتے تھے۔ اس کا بوٹا سا قد، اٹھتی جوانی، سر سے پاؤں تک نور ہی نور تھی۔ریشمی لباس، پھولوں کا گہنا، ویسے تو طرح طرح کے زیور پہنتی تھی، مگر جھومر کا اور خاص کر جڑاؤ جھومر کا اُسے بڑا شوق تھا۔ اور جھومر اسے لگتا بھی ایسا بھلا تھا کہ جو دیکھتا اپنا کلیجہ پکڑ کر رہ جاتا۔‘‘10

ناصر نذیر فراق کا ایک انشائیہ بہ عنوان ’دلّی میں بیاہ کی ایک محفل اور بیگموں کی چھیڑ چھاڑ‘ ہے۔ اس میں انھوں نے ’خط کی تکنیک‘ کا استعمال کرتے ہوئے دلّی کی ایک شادی کا واقعہ بیان کیا ہے۔ اس میں شوخی، فلسفہ، طنز و مزاح،قدیم دلّی کے رسم و رواج، قلعۂ معلٰی کی بیگماتی زبان اور ان کی آپسی تکرار کا پیکر تراشا گیا ہے۔ فراق دہلوی نے اس فن پارے میں اپنی خوش اسلوبی اورقدیم دلّی کی ٹکسالی اردو کا مظاہرہ بڑے فنکارانہ انداز میں کیا ہے۔ اس کا ایک نمونہ درج ذیل اقتباس میں دیکھا جاسکتا ہے:

’’ایک دن حضرت بیگم اور حسن جہاں کا مجیٹہ ہو گیا۔ حضرت بیگم کے دل میں حسن جہاں بیگم کی طرف سے ناحق کا بخار تو بھرا ہی ہوا تھا۔ انھیں دیکھ کر ایک بیوی سے کہنے لگیں اے بوا رضیہ سلطان سنتی بھی ہو قلعہ کی بیگمیں بلّی کو نکٹِی کہا کرتی تھیں یہ چھوٹی ناک بھی کیا بُری معلوم ہوتی ہے …حسن جہاں کی ناک بھی چھوٹی تھی اور رنگ بھی ان کا ٹپکا پڑتا تھا سمجھ گئیں کہ پھبتی مجھ پر ہی ڈھالی گئی ہے۔ وہ بھلا کب چوکنے والی تھیں کہنے لگیں پھیکا شلجم تمباکو کے پنڈے سے تو ہر طرح اچھا ہوتا ہے اور مجھے بڑی ناک دیکھ کر گھن آتی ہے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سل کا بٹا کِسی نے چہرے پر دھر دیا ہے۔‘‘11

انشا پردازی علم ادب کا ایک فن ہے۔اس کے ذریعے فنکار اپنے علمی مشاہدات و تجربات کو مؤثر انداز میں تحریر کرتا ہے۔یہ فن پارے قاری کو محظوظ کرتے ہیں اور اس کے ذہن پر اپنا نقش چھوڑتے ہیں۔ ناصر نذیر فراق کی سب سے بڑی خوبی ان کی انشا پردازی ہے۔ وہ اپنے عہد کے معروف و مقبول انشاء پرداز تھے۔ فراق دہلوی کے بارے میں نیاز فتح پوری رقم طراز ہیں:

’’سید ناصر نذیر فراق دہلی کے مشہورانشاپرداز تھے۔‘‘12

فراق دہلوی کو تاریخی وحقیقی واقعات کی پیش کش پر دسترس حاصل تھی۔ان کے فن پاروں میں زبان کی چاشنی، روز مرہ کے استعمال اور ندرت اندازِ بیاں کے ذریعے حقیقی واقعات کا لطف اور بڑھ جاتا ہے۔ انھوں نے قاری کو عہد مغلیہ اور قدیم دلّی کی سماجی، سیاسی، معاشی، اخلاقی، تہذیبی و ثقافتی جھلکیاں اپنے مضامین کے ذریعے دکھائی ہیں۔ ’دلّی کا اجڑا ہوا لال قلعہ‘ اور ’لال قلعہ کی ایک جھلک‘ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ اقتباس ملاحظہ ہوں:

’’صاحب عالم (مرزا شاہ رخ) اٹھے اور اپنے دست مبارک میں وہ پنجرا لیا اور محل سرا میں تشریف لے گئے۔ آپ کی دادی شاہ عالم بادشاہ کی والدہ ماجدہ زندہ تھیں، وہ پنجرااُن کے سامنے لے جا کر رکھ دیا اور کہا دادی حضرت دیکھیے ہمارے لیے ایک شخص مصیبت پیٹ کرعنقا لایا ہے۔ بیگم نے پنجرا اٹھا کر چڑیا کو غور سے دیکھا اور مسکرا کر فرمایا نوج یہ عنقا نہیں ہے یہ تو موئی دو کوڑی کی پدڑی ہے۔‘‘13

لال قلعے کی ایک جھلک فراق دہلوی کی معروف و مقبول کتاب ہے۔ اس میں انھوں نے عہد مغلیہ اور قدیم دلّی کے واقعات بیان کیے ہیں۔ ان کی نثر نگاری کا کمال یہ ہے کہ تمام واقعات قاری کی آنکھوں کے سامنے چھا جاتے ہیں۔ شاہد احمد دہلوی کتاب ’لال قلعہ کی ایک جھلک‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’لال قلعہ کی ایک جھلک میں آپ نے (فراق) اپنے ادبی کمال کی جھلک دکھائی ہے۔‘‘14

ناصر نذیر فراق نے تاریخی حالات پر مبنی ایک ناول ’المور کہا یا مرقع اردو‘ لکھا۔ یہ ناول شرر کی تاریخی ناول نگاری کا چربہ نظر آتا ہے۔ شرر کی طرح المور کہا کے کردار، واقعات، مناظر اور سرزمین سب ایرانی ہیں۔ المور کہا سے متعلق عبدالقادررقم طراز ہیں:

’’اس مضمون کی ابتدا گو تاریخی حالات سے ہوئی ہے لیکن حضرت فراق کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ انجام میں عجیب عجیب خیالات بامحاورہ شیریں زبان اردو میں تین باب میں تقسیم ہو کر آئندہ اشاعت میں یکے بعد دیگرے ختم ہوںگے۔‘‘15

ناصر نذیر فراق کی متعدد کہانیوں میں تصوف کے رنگ بھی جا بجا دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ تصوف ان کا خاندانی سرمایہ ہے۔ انھوں نے تاریخی واقعات اور عشق کی مختلف واردات کے ذریعے اپنی تحریروں میں تصوف کا رنگ بکھیرا ہے۔ اس کا ثبوت درجہ درج ذیل نمونے سے بخوبی ملتا ہے :

’’حزن بھی عشق کے ساتھ جاتا تھا مگر حضرت یعقوب نے اسے روک لیا اور اس کے نام پر بیت الاحزان نام مکان بنا کر اس میں اسے ٹھیرایا اور اسّی برس تک اپنا کلیجہ اور دل جلا جلا کر اسے کھلاتے اور آنسوؤں کا خنک پانی پلاتے رہے... عشق دربار سے نکل کر حیران کھڑا ہوا تھا اور آنکھوں سے آنسو پڑے بہہ رہے تھے جو اس کی خوش قسمتی سے زلیخا وہاں آنکلی اور اس کی آنکھیں چارہو گئیں ۔‘‘16

سجاد حیدر یلدرم اور نیاز فتح پوری نے ترکی، عربی و انگریزی افسانوں اور ناولوں کے تراجم پیش کر کے اردو ادب کے دامن کووسعت بخشی۔ اسی زمانے میں میر ناصر علی، قاری سرفراز حسین، راشد الخیری اور حسن نظامی وغیرہ بھی اس طرف متوجہ ہوئے۔

سجاد حیدر یلدرم اور نیاز فتح پوری نے ترجمہ نگاری کے لیے جو راہ ہموار کی اس پر ناصر نذیر فراق نے بھی اپنے قدم اٹھائے۔ انھوں نے لفظی ترجموں کے بجائے آزاد ترجمے کیے۔ موقع ومحل کے لحاظ سے غیر ملکی فضا اور کرداروں کے نام بھی برقرار رکھے۔ ان کے افسانوں کے پلاٹ بعض طبع زاد ہیں اور کچھ عربی و فارسی ادب سے مستعار لیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر ’اختر محل‘ میں بادشاہ کا رات میں بھیس بدل کر نکلنا اور رعایا کے حالات دریافت کرنا ایسے پلاٹ عربی، فارسی اور سنسکرت ادب میں بخوبی ملتے ہیں۔ اختر محل ایک سبق آموز، نصیحت خیز اور اخلاقی قصہ ہے۔اس میں فراق دہلوی نے نذیر احمد کی اخلاقی و اصلاح پسندی کی پیروی کرتے ہوئے کہانی بیان کی ہے۔  درج ذیل اقتباس ملاحظہ ہو:

’’حسینہ بیگم نے سکینہ بیگم کو دیکھ کر منھ بنا لیا اور اس غریب سے یہ بھی نہ کہا کہ تو بیٹھ جا یہ آپ ہی بے حیائی سادھ کر جوتیوں کے پاس زمین پر بیٹھی…حسینہ بیگم کو اول تو جب سکینہ رانڈ اور محتاج ہوئی تھی اوسکی صورت سے نفرت ہو گئی تھی اس نے اپنے دل میں ٹھان لی تھی کہ میں حسین مرزا کی شادی کسی ایسے کھاتے پیتے ہوت والوں میں کروں گی جہاں میرا اور میرے بچے کا ارمان نکلے۔‘‘17

ناصر نذیر فراق نے سوانحی انداز میں ایک کتاب ’میخانۂ درد‘  1910 میں لکھی۔ اس میں انھوں نے خواجہ میر درد اور ان کے آبا و اجداد کے حالات تفصیل سے بیان کیے ہیں۔اس کتاب میں فراق دہلوی نے اپنے والد محترم کے ساتھ ساتھ والدہ محترمہ کا بھی شجرہ قلم بند کیا ہے۔ میخانۂ درد سے متعلق حکیم سید ناصر خلیق فگار رقم طراز ہیں:

’’حضرت خواجہ میر درد دہلوی قدس سِرہ العزیز اورآپ کے حسب نسب اورآل اولاد اور آپ کے سجادہ نشینوں اور شاگردوں اورآپ کے مشائخ کے حالات اورآپ کے ظاہری و باطنی کمالات جناب فضِیلت مآب مولانا حکیم خواجہ سیّد ناصر نذیر صاحِب فراق دہلوی مدظلّہ العالی نے مرقوم فرمائے ہیں۔‘‘18

 ناصر نذیر فراق کے ناولوں اور افسانوں کا مطالعہ کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ یہ فن پارے اس دور کے ہیں جس میں ناول اور افسانے اپنے ابتدائی مراحل طے کر رہے تھے۔ ان کے نثری کارناموں کو موجودہ فنی اصولوں پر پرکھنا صحیح نہیں ہے۔ اس زمانے کے بیشتر ناول نذیراحمد کی اخلاقی و اصلاحی اور سجاد حیدریلدرم کی رومانی ناول نگاری کے زیر اثر تخلیق کیے گئے۔ ان ناولوں میں پلاٹ، قصہ نگاری، کردار نگاری، منظر نگاری، زبان کی چاشنی و جادو بیانی، محاورات اور شعریت کا پرتو وغیرہ سب کچھ موجود ہے۔ لیکن فکر و فن کی گہرائی و عُمُق سے خالی ہیں۔ ناصر نذیر فراق کے ناولوں، افسانوں اور انشائیوں میں داستانوی اسلوب، زبان و بیان کی دلکشی، شاعرانہ انداز بیان، قدیم دلّی کی ٹکسالی اردو کی رنگینی، روزمرہ و محاوروں کا برجستہ استعمال، قلعۂ معلٰی کی بیگماتی زبان کا اور اعلٰی قسم کی انشاپردازی وغیرہ سبھی بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ بقول شاہد احمد دہلوی:

’’حضرتِ فراق کی جادو بیانی۔ ان کے سلیس بامحاورہ چھوٹے چھوٹے جملے اور دل میں کُھب جانے والی اردو کا کیا کہنا۔ صاحبِ طرز ہیں، قلعہ معلی کی بیگماتی زبان لکھنے میں اپنا جواب آپ ہیں، دہلی کی ٹکسالی نتھری ستھری زبان میں انشا پردازی کرتے ہیں اور نت نئی بات پیدا کرتے ہیں۔ عروس زبان کو ساری عمر سنوارتے رہے اور اس کو نکھ سے سکھ بنا دیا۔‘‘19

ناصر نذیر فراق کے انداز بیان کی لطافت، ادبی خدمات اور ان کے کارناموں کی عظمت کو حامد حسن قادری نے درج ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے :

’’میر ناصر نذیر فراق جس دلّی کی خود یادگار تھے، اسی دلّی کی یادگار ان کی زبان اور ان کی کتابیں ہیں۔ انھوں نے کوئی علم و فن کی کتاب نہیں لکھی۔ ان کا قلمی کارنامہ لطف بیان اور حسن بیان کے ساتھ دہلی کی تہذیب و تمدن کا آخری نمونہ پیش کرتا ہے۔ ان کے طرز تحریر کی داد ان کے ایک ہم پایہ اور ان سے بزرگ ادیب دیتے ہیں۔‘‘20

غرض ناصرنذیر فراق نے اردو نثر نگاری کو اپنے فن پاروں کے ذریعے وسعت بخشی۔ اردونثر نگاری کو اپنی انشا پردازی، فنی تخلیقات اور خوش اسلوبِ بیان سے آراستہ کیا۔ان کے مضامین، ناول،افسانے اور انشائیے اردو نثرکے ارتقا میں اہم کڑی ہیں۔ ان کی تحریریں قدیم دلّی کی تہذیب و ثقافت کا آئینہ ہیں اور اردو ادب میں خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ انھوں نے اردو زبان کو اپنے فنی کارناموں اور اسلوبیات کے ذریعے سجایا، سنوارا اور اس کی درستگی بھی کی۔فراق دہلوی کو ان کے فنی کارناموں،ادبی خدمات اور ادب لطیف کی وجہ سے اردو زبان و ادب میں تا قیامت یاد رکھا جائے گا۔

 حواشی

1             اردو کے اسالیب بیان: غلام محی الدین قادری زور، مکتبہ ابراہیمہ امدادباہمی، حیدرآباد،دکن1927، ص 15,16

2             سیرالصنفین(جلد اول): محمد یحی تنہا، ادارئہ اشاعت ادب میرٹھ، 1976، ص44

3             میخا نۂ درد: ناصر نذیر فراق دہلوی، جیدبرقی پریس، 1910، ص 236

4             چارچاند: ناصر نذیر فراق دہلوی، دلی پرنٹنگ ورکس، دہلی  1930، ص 4

5             ایضاً، ص 11

6             میخانۂ درد، ص229 

7             ایضاً، ص 229-30

8             چارچاند: ناصر نذیر فراق دہلوی، دلی پرنٹنگ ورکس، دہلی1930، ص2

9             ایضاً، ص 6

10          مضامینِ فراق: ناصر نذیر فراق دہلوی۔محبوب المطابع برقی پریس،دہلی،ص69

11          بیگموں کی چھیڑ چھاڑ: ناصر نذیر فراق دہلوی، شاہجہاں بک ایجنسی،دہلی۔ص27

12          رسالہ ساقی،دہلی، افسانہ نمبر، جولائی 1935

13          دلّی کا اجڑا ہوا لال قلعہ: ناصر نذیر فراق دہلوی، شاہجہاں بک ایجنسی،دہلی، ص11

14          رسالہ ساقی،دہلی، فروری1930، ص2

15          رسالہ مخزن، اگست 1912، ص47

16          کان ملاحت: ناصر نذیر فراق دہلوی،  رسالہ مخزن، جولائی1912، ص30

17          اختر محل: ناصر نذیر فراقدہلوی

18          میخانۂ دردسرِورق

19          چارچاند،ص3

20           داستان تاریخِ اردو: حامد حسن قادری، اے بی سی آفسیٹ پرنٹرز،دہلی 2007، ص868

 

Sabir Riyaz Khas

Department of Urdu, Aligarh Muslim University

Aligarh- 202002

Mob.: 9044277505

 

 

 

تازہ اشاعت

شمس الرحمن فاروقی کے افسانوں کی تخلیقی زبان اور پس نو آبادیاتی مباحث، مضمون نگار: اقبال حسین

  اردو دنیا، فروری 2025 شمس الرحمن   فاروقی کی شخصیت اردو ادب میں ایک نابغہ روزگار کی ہے۔ اردو ادب میں ایسا کوئی ادیب نہیں ہے جو بیک وقت تنق...