اردو دنیا، فروری، 2025
اردو زبان و ادب کے ارتقائی سفر پر نظر ڈالی جائے تو ہم
پاتے ہیں کہ ادب کی مختلف اصناف کا کسی نہ کسی دور میں غلبہ رہا ہے۔ دکن کے ادبا
نے جہاں مثنویوں کو اپنے ذوق سخن کے لیے منتخب کیا وہیں مرثیے کو بھی عروج بخشا۔
اس کے بعد مرثیے کو انیس و دبیر نے بلندیوں تک پہنچا دیا۔ سودا اور ذوق جیسے شعرا
نے قصیدے میں طبع آزمائی کی اور اسے عروج عطا کیا۔ شمالی ہند میں ہی مثنوی کو میر
حسن جیسا قادر الکلام شاعر ملا جس نے اس صنف کو بلندیوں تک پہنچایا۔
ترقی پسندوں نے نظم کو اپنی تحریک کا آلہ کار بنایا
اور اس صنف نے بہت فروغ پایا۔ جدید دور میں مشرق کے تتبع میں نظم کی ہیئت کے ساتھ
بہت سے تجربات کیے گئے اور اس کے بندھن ڈھیلے کرتے کرتے اسے بالکل آزاد ہی کر دیا
گیا۔ ردیف ،قافیہ اور بحر کو سرے سے نکار دیا گیا۔ یہ وہی دور ہے جب غزل کی
گردن بے تکلفی سے اڑانے کی بات کہی گئی اور اسے بے وقت کی راگنی اور نیم وحشی صنف
قرار دیا گیا۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ قلی قطب شاہ سے لے کر آج تک اردو ادب کی
مقبول ترین اور چہیتی صنف سخن کی بات کی جائے تو سب کی زبان پر برجستہ غزل کا نام
آتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ غزل کی روایت ہر دور میں زندہ رہی ہے۔ جیسے
جیسے وقت گزرتا رہا اردو ادب کی دوسری اصناف اپنی مقبولیت کھوتی رہیں لیکن غزل کی
مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا۔ غزل کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ جو لوگ
اردو زبان نہیں جانتے وہ بھی اس کے شیدائی ہیں۔دنیا کے ہر خطے میں آپ کو غزل کے
چاہنے والے مل جائیں گے۔بر صغیر ہندو پاک میں تو غزل کا ہر کوئی دیوانہ ہے۔
راجستھان جیسا خشک سال علاقہ بھی اس کے جادو سے خود کو نہ بچا سکا۔ راجستھان کا ایک
بہت خوبصورت شہر، شہر آفتاب یعنی جودھپور بھی غزل کی آبیاری میں ہمیشہ پیش
پیش رہا ہے۔ جودھپور سے تعلق رکھنے والے شعرا کی ایک طویل فہرست ہے۔ اس فہرست میں
ایک نام بہت نمایاں ہے اور وہ نام ہے ایم اے غفار راز۔
ڈاکٹر ضیا نے اپنی تصنیف ’مارواڑ میں اردو‘ میں ان کا
تعارف پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’جناب ایم اے، غفار راز کا شمار جودھپور کے برگزیدہ
شعرا میں ہوتا ہے۔ آپ کے کلام کی عظمت کا لوہا ہندوستان کے بڑے بڑے شعرا اور ناقدین
نے مانا ہے، جن میں کمار پاشی، مخمور سعیدی، سالک عزیزی، کالی داس گپتا رضا، کے ڈی
خان مونس، شین کاف نظام، نامور سنگھ، ندا فاضلی، افتخار امام صدیقی، موہن لال
کول،اثر اجمیری اور راہی شہابی کے نام شامل ہیں۔راز جودھپوری کی پیدائش 14 نومبر
1931کو جودھپور میں ہوئی۔ آپ کے والد جناب عبد المغنی مہا راجہ امر سنگھ والی جو
دھپور کے سیلون انچارج تھے۔ آپ کی ابتدائی تعلیم جناب ننھے خاں، پھر ان کے
صاحبزادے عبدالباری تنہا اور شرف الدین یکتا کی نگرانی میں ہوئی۔ حالانکہ آپ گھریلو
حالات کی وجہ سے تعلیم مکمل نہیں کر سکے لیکن ادبی سنگت نے آپ کے اندر ایسی رنگت
بھر دی جس کی وجہ سے آپ فن شاعری میں ماہر ہوئے۔طبیعت موزوں تھی ہی لہٰذا کسی
استاد کی اصلاح کے محتاج نہیں رہے اور ’وقت ہی شاگرد اپنا، وقت ہی استاد ہے‘کی طرز
پر حالات نے آپ کو سب کچھ سکھا دیا۔ زندگی جینا بھی اور تصویر شاعری میں رنگ
بھرنا بھی۔‘‘
کسی بھی شعر یا غزل کا محاسبہ ہم مختلف زاویوں سے کر
سکتے ہیں۔ فنی اعتبار سے کسی غزل یا شعر کے محاسن و عیوب پر تنقید کی جا سکتی ہے یا
اس کے مرکزی خیال کی اہمیت، ندرت اور انداز بیان کی خصوصیات سے بحث کی جا سکتی ہے۔
شاعر کے کلام میں اس کی شخصیت کے مظاہر تلاش کیے جا سکتے ہیں تو اس کی سوچ و فکر،
خیالات اور مختلف موضوعات کے تعلق سے اس کا نقطئہ نظر کیا ہے اس پر بھی غور کیا جا
سکتا ہے کیونکہ ہر شاعر کا اپنا نقطۂ نظر ہوتا ہے جو اس کے کلام میں دانستہ اور
نادانستہ طور پر شامل ہو ہی جاتا ہے۔ مضامین کی ندرت، پرانے مضامین کو نئے اور
انوکھے انداز میں پیش کرنا، نئی اصطلاحات وضع کرنا اور شعر میں کسی مضمون کو کس
طرح سے باندھا گیا ہے ان سب کی بنیاد پرکسی شاعر کے کلام کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
شمس الرحمن فاروقی انھیں علمیاتی اور وجودیاتی تصورات میں منقسم کرتے ہیں۔ راز
صاحب کی شاعری میں یہ دونوں خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ یعنی ان کی شاعری وجودیاتی
تصورات اور علمیاتی تصورات کی کسوٹی پر پوری اترتی ہے۔
راز صاحب کے کلام کا بیشتر حصہ ایسی غزلوں پر مشتمل ہے
جس میں انھوں نے چھوٹی بحروں پر غزل کی بنیاد رکھی ہے۔ در حقیقت کم الفاظ اور چھوٹی
بحر میں معنی خیز بات کہنا کسی ہنر سے کم نہیں ہے اور یہی اردو غزل کا خاصہ بھی
ہے۔ جو بات مقرر ایک طویل تقریر کے ذریعے کہتا ہے وہی بات شاعرمحض ایک شعر کے ذریعے
زیادہ موثر انداز میں کہہ دیتا ہے۔ راز صاحب کو یہ ہنر بخوبی آتا ہے ؎
آپ اکثر وہ بات کہتے ہیں
جو نہ کہنے کی بات ہوتی ہے
ہم تو یوں بھی یقین کر لیتے
کس لیے آپ نے قسم کھائی
اف یہ کیسا ستم ہو گیا
درد پہلے سے کم ہو گیا
رازصاحب کے کلام کا ایک نمایاں وصف ’الفاظ کی تکرار‘ بھی
ہے۔ وہ اپنے اشعار میں الفاظ کو مکرر استعمال کرتے ہوئے ان کے حسن کو ہی دوبالا نہیں
کرتے بلکہ اس سے معنویت بھی پیدا کرتے ہیں۔چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
راز توبہ، میری آج توبہ
نذر جام و سبو ہو گئی ہے
اس شعر کے پہلے مصرعے میں لفظ’توبہ‘ کی تکرار محض تکرار
نہیں ہے بلکہ معنی خیز بھی ہے اور یہی اس مصرعے کا حسن ہے۔وہ توبہ کرتے ہوئے اپنی
گذشتہ توبہ کی بات کر رہے ہیںجوکہ جام و سبو کی نذر ہو گئی ؎
منزل ہے میری دور، مجھے دور ہے جانا
بھیگی ہوئی پلکوں سے نہ اب مجھ کو صدا دے
مندرجہ بالا شعر کے پہلے مصرعے میں لفظ ’دور‘ کی تکرار
ہے۔اس لفظ کے ذریعے جہاں انھوں نے یہ واضح کیا ہے کہ ان کی منزل دور ہے وہیں وہ
دوبارہ اسی لفظ کے ذریعے سے یہ بھی بتا رہے ہیں کہ انھیں اس منزل تک پہنچنا بھی
ہے۔اسی طرح ایک شعر اور ہے ؎
جو خود ہی راز اپنی راہبر ہو
وہی دیوانگی، دیوانگی ہے
اس شعر میں لفظ ’دیوانگی‘ کی تکرار وضاحت کے لیے
استعمال کی گئی ہے یعنی یہ بتایا ہے کہ اصل دیوانگی کسے کہتے ہیں۔ وہیں مندرجہ ذیل
شعر پر بھی غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اس میں لفظ ’مشکل‘ کی تکرار دراصل ’تقریباً
ناممکن امر‘ کی جانب اشارہ کرنے کے لیے استعمال کی گئی ہے ؎
راز اس دور میں مشکل ہے بہت مشکل ہے
میر و غالب سا کوئی دوسرا پیدا ہونا
راز صاحب کے کلام میں ایک قسم کی کشش پائی جاتی ہے اور
اس کی وجہ ان کی سادہ بیانی ہے۔ وہ بہت ہی آسان اور عام فہم الفاظ کا
استعمال کرتے ہوئے مضمون کو موثر طریقے سے بیان کرنے پر قدرت رکھتے ہیں۔ ان کے یہاں
دقیق الفاظ کا استعمال متروک ہے۔ وہ سامعین اور قارئین کی علمی لیاقت کا امتحان نہیں
لیتے ہیں بلکہ بڑی سادگی، برجستگی، نرمی اور آہستگی کے ساتھ اپنی بات اس
انداز سے کہہ جاتے ہیں کہ اشعار سیدھے دل میں اتر جاتے ہیں ؎
آئو ہم بیچ کی نکالیں راہ
آپ اور تو کے بیچ میں تم ہے
اس شعر میں کتنی سادگی کے ساتھ انھوں نے ایک بہت ہی معنی
خیز بات چند الفاظ میں بیان کردی ہے۔ ان کے اسی انداز میں بیان کے کچھ اور نمونے دیکھیے ؎
دیکھ کر مجھ کو تو مسکراتا ہے کیوں
کیا تیری اور میری جان پہچان ہے
ایک تم ہی نہیں ہو پریشاں فقط
راز دنیا ہی ساری پریشان ہے
سب ہمیں سے کہہ رہے ہیں عشق سے باز آئیے
کیوں نہیں لیتا ہے کوئی ان کو سمجھانے کا نام
یہ نہ ہونا چاہیے جو منھ میں آیا کہہ دیا
بات کرنی چاہیے انساں کو انساں دیکھ کر
پہلے شعر کے دوسرے مصرعے میں شاعر کا یہ کہنا کہ ’’کیا
تیری اور میری جان پہچان ہے‘‘ وہیں دوسرے شعر میں شاعر کو خود یہ کہتے ہوئے تسلی دینا
کہ تم اکیلے نہیں بلکہ ساری دنیا ہی پریشان ہے، معصومیت سے پر ہے۔ اسی طرح تیسرے
شعر کا دوسرا مصرع ’ کیوں نہیں لیتا ہے کوئی ان کو سمجھانے کا نام‘ تو بالکل بچوں
کی سی سادگی اور معصومیت کا مظہر ہے۔ عموما جب بچوں کو ڈانٹا یا سمجھایا جاتا ہے
تو ان کی یہی شکایت ہوتی ہے کہ صرف مجھے ہی کیوں نصیحت کی جا رہی ہے یا مجھ پر ہی
تنبیہ کیوں کی جا رہی ہے اس کو بھی تو کچھ کہو۔ اسی طرح چوتھے شعر میں ’ جو منھ میں
آیا کہہ دیا‘ جیسے عام سے محاوراتی جملے
کے عمدہ استعمال سے بڑی سادگی کے ساتھ ایک عمدہ پیغام پیش کیا ہے۔
راز نے غالب کے کئی مضامین کو بھی اپنے اسی انداز میں
سادگی کے پیکر میں ڈھال کر پیش کرنے کی سعی کی ہے مثلاً غالب کا ایک شعر ہے ؎
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
اسی
مضمون کو راز نے اس انداز سے باندھا ہے
؎
درد دل بڑھ گیا حد سے جب دوستو
درد ہی درد دل کی دوا ہو گیا
راز کے یہاں انداز بیان ہی سادہ نہیں ہے بلکہ بہت سے
مضامین بھی سادہ اور عام ہیں لیکن ان کو نظم کرنے کا انداز ان کو خاص بنا دیتا ہے۔
آل احمد سرور کہتے ہیں کہ’’غزل کا آرٹ اشاروں کا آرٹ
ہے اور یہ اشارے بڑی بڑی داستانوں کو اپنے اندر سموے ہوئے ہیں۔ ‘‘ یہ حقیقت ہے کہ
ردیف و قافیہ کے علاوہ اشارے اور کنایے میں کسی موضوع کا بیان ہی شعر کو نثر سے
ممتاز کرتا ہے۔ اچھی شاعری انسانی جذبات اور کیفیات کی مرصع کاری کا کام بھی بخوبی
انجام دیتی ہے۔راز کی شاعری میں یہ خوبیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ ایک شعر دیکھیے ؎
بارہا ایسا ہوا ہے کہ تیری بزم سے میں
اُٹھ کے جاتا ہوں مگر لوٹ کے آ جاتا ہوں
اس شعر میں شاعر نے اپنی قلبی کیفیت یعنی قلب کی بے چینی
اور اضطراب کی بہترین عکاسی کی ہے۔ ایک شعر اور دیکھیں ؎
نہ ملا کوئی بھی مفہوم سمجھنے والا
اشک بن کے میری آنکھوں میں سوالات رہے
یہ حقیقت ہے کہ ہر شاعر کا اپنا اسلوب ہوتا ہے۔ یہ
اسلوب اس کی شناخت قائم کرنے اور اسے دوسروں سے ممتاز کرنے میںمعاون ہوتا ہے۔ ہم دیکھتے
ہیں کہ ایک ہی موضوع کو بہت سے شاعر اپنے اشعار کے ذریعے پیش کرتے ہیں اور ان سب
کا جداگانہ انداز بیان ہی ان کے شعر میں جدت اور تاثر پیدا کرتا ہے۔ راز بھی اس
بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہتے ہیں ؎
یہ طلبگار نہیں قافیہ پیمائی کی
شاعری آپ سے اسلوب نیا مانگے ہے
انھوں نے بھی اپنی شاعری میں روایتی مضامین کو جگہ دی
ہے لیکن اپنے انداز میں،جس وجہ سے ان کے اشعار میں تازگی پیدا ہو گئی ہے۔بقول
مخمور سعیدی ’’ راز کی غزل فکر کی تازگی لیے ہوئے ہے اور نئی لفظیات کی بھی حامل
ہے۔‘‘
نشاط عیش و مسرت سے کھیلنے والو
غم حیات سے نسبت نہیں تو کچھ بھی نہیں
ذرا سنبھال کے رکھنا تو اپنی توبہ کو
ہر ایک موڑ پہ زاہد شراب خانہ ہے
میری بربادیوں پہ ہنسنے
والو یہ حقیقت ہے
بنا غم کے تو کوئی صاحب عرفاں نہیں ہوتا
اسلوب میں الفاظ کی ترتیب اوران کے انتخاب کا سلیقہ بنیادی
اہمیت رکھتا ہے اور اسی پر اسلوب کا دارومدار بھی ہے۔سوئفٹ، اسلوب کی تعریف میں
کہتا ہے کہ ’’صحیح لفظ، صحیح جگہ پر‘‘۔ الفاظ کا انتخاب، ان کی ترتیب اور ان کا
باہمی ربط و تعلق ہی موضوع اور معنی کو جنم دیتا ہے اور یہی کسی جملے یا شعر کا
خاصہ ہے۔راز کا بھی اپنا اسلوب ہے۔ وہ بہت مدھم اور نرم لہجے میں اپنی بات کہتے ہیں
لیکن وہ جو کہتے ہیں اس کی گونج بہت تیز سنائی دیتی ہے ؎
تعلقات بڑھانا تو سہل ہے لیکن
تعلقات نبھانا بہت ہی مشکل ہے
الفت کا اپنی اثر دیکھتا ہوں میں
جو بات ہے ادھر وہ ادھر دیکھتا ہوں میں
غالب کے خطوط پڑھتے ہوئے اس امر کی صداقت کا احساس
ہوجاتاہے کہ انھوں نے یقینا مراسلے کو مکالمہ بنا دیاہے۔
لیکن یہ سب کچھ شعر کے ساتھ اس طرح گنتھا ہوا ہے کہ قاری
کو پڑھنے میں مزہ دیتا ہے۔ یہاںجو بات سب سے اہم ہے وہ یہ کہ اس سب کے باوجود، ان
کے اشعار سادگی اورشائستگی کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیتے اور چھوٹی بحروں کا
ساتھ بھی ہمیشہ قائم رہتا ہے۔بقول طرب میرٹھی ’’راز کا سب سے نمایاں وصف ان کی
سادہ مزاجی اور سادہ بیانی ہے۔‘‘
غزل کے لغوی معنی حسن و عشق کی باتیں کرنا بھی مانا
جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جس شعر میں حسن و عشق اور عاشق و معشوق کا تذکرہ ہو
اسے خالص غزل کا شعر کہا جاتا ہے۔ راز کے یہاں بھی خالص غزل کے اشعار کثرت سے
موجود ہیں۔ اس طرح کے اشعار میں شاعر مختلف صنعتوں کا استعمال کرتے ہوئے انھیں خوب
صورت اور پر لطف بناتا ہے۔ اس ضمن میں راز صاحب کے یہاں بھی خوب صورت تشبیہات و
استعارات کا استعمال ملتا ہے۔ان کی تشبیہات آس پاس کی موجودات سے ہی جنم لیتی ہیں
خصوصاً قدرتی مناظر اور قدرتی اشیا سے وہ شبیہ حاصل کرتے ہیں اور شعر میں نگینے کی
مانند جڑ دیتے ہیں۔ ان کے اشعار میں لفظوں کا عمدہ انتخاب اوران کی بہترین ترتیب
سے شعر میں وہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ قاری اور سامع متاثر ہوئے بنا نہیں رہ پاتا۔اس
ضمن میں کمار پاشی لکھتے ہیں کہ ’’ ایم اے غفار راز غزلیہ شاعری کی روایت کے
پاسدار ہیں۔ یہ امر باعث مسرت ہے کہ اردو مرکز سے دور رہ کر بھی انھوں نے کلاسیکی
غزل سے اپنے ذہنی اور جذباتی رشتے کو قائم رکھا ہوا ہے۔ فنی نکات پر گرفت مضبوط
اور طبیعت رواں ہو تو ڈھلے ڈھلائے مصرعے ہاتھ باندھے سامنے آجاتے ہیں۔‘‘
طول شب فراق کی اف ری سیاہیاں !
اکثر گماں ہوا تیری زلف دراز کا
اس شعر میں راز صاحب نے ’شب فراق کی طوالت ‘ کو معشوق کی
سیاہ زلف کی لمبائی سے تشبیہ دی ہے۔ شب کو زلف سے تشبیہ دینا عام بات ہے مگر ’طول
شب فراق‘ اور ’زلف دراز‘ کی مشابہت الگ لطف پیدا کر رہی ہے۔ پھر پہلے مصرع میں ’اف
ری!‘ کے اضافے سے جو تاثر پیدا ہو رہا ہے
وہ شعر کے حسن میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔
اسی طرح دوسرے مصرع میں لفظ ’اکثر‘ بھی اس مصرع کو پر لطف اور موثر بنا رہا
ہے۔
راز صاحب نے یوں تو بہت سے روایتی اور غیر روایتی
استعارات سے اپنے اشعار کو مزین کیا ہے۔ان میں گھر، کمرہ، کھڑکی،زاہد،شراب خانہ، ریت،
سوکھے پتے، برف، ندی، پہاڑ وغیرہ شامل ہیں۔
زندگی بن کے پہاڑوں سے اترنے کے لیے
برف کا جسم تھا ہر لمحہ پگھلتا ہی رہا
کھڑکی کی نگاہوں میں ہیں کمرے کے مناظر
مشرق میں تو مغرب کی ہوا آتی نہیں ہے
مگر استعارات کے ضمن میں ایک بات اور قابل غور یہ ہے کہ
ان کے اشعارمیں آپ کو گھر کا استعارہ جابجا دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ ان کا محبوب ترین
استعارہ ہے۔ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ ان کا
تعمیراتی کام ٹھیکیداری سے جڑائو ہونا ہو۔
دوسری صنعتوں کا استعمال بھی وہ بڑی چابک دستی کے ساتھ
کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر تلمیح کے اشعار دیکھیں ؎
کب اپنے غلاموں سے کوئی پیار کرے ہے
یہ بات تو یوسف کا خریدار کرے ہے
حسن نادم بھی ہے اور مغرور بھی
نور بھی ہے کبھی شعلہ طور بھی
متضاد الفاظ کے استعمال سے بھی شاعر اپنے اشعار میں حسن
پیداکرتے ہیں۔ راز کے یہاں بھی یہ روایت پائی جاتی ہے ؎
کیا کہیں دے گئی کیا تیری اک نظر
مرہم زخم بھی دل کا ناسور بھی
واللہ کیا ادا ہے میرے دل نواز کی
سلجھائے اپنے گیسو تو الجھا دیا مجھے
مضامین کے اعتبار سے بھی راز صاحب کی شاعری تازگی لیے
ہوئے ہے۔ ان کا شمار جودھپور کے ان شعرا میں کیا جاتا ہے جنھوں نے اس سرزمین میں
حقیقت پسندانہ شاعری کی ابتدا کی۔ ان کے یہاں محض خام خیالی نہیں ہے۔ وہ انسان کی
ترقی کے حامی ہیںلیکن اس کے ساتھ ساتھ کردار کی پاکیزگی اور ذہن کی سادگی کوبھی از
حد ضروری گردانتے ہیں۔
شاعر حساس طبیعت کا مالک ہوا کرتا ہے۔ وہ اپنے معاشرے
کے حالات سے آنکھیں نہیں چرا سکتا۔ رازنے بھی اپنے معاشرے میں جو دیکھا اور محسوس
کیا اس کواشعار کا جامہ پہنا کر آئینے کی شکل میں معاشرے کے سامنے رکھ دیا ؎
اے راز جودھپور کے لڑکے شریر ہیں
اس شہر میں نہ شیشہ گری کی دکان کر
ریل پیل کتنی ہے شہر میں مگر لوگوں
کاٹنے کو دوڑے ہے زندگی کا سوناپن
راز صاحب کے شعری مجموعے ’خوشبوئوں کا سفر‘ کے مقدمے میں
شین کاف نظام رقم طراز ہیں کہ ’’ہمارا معاشرہ علم سے زیادہ عبرت حاصل کرنے والا ہے
اور عبرت ممانعت و ممنوعات کے راستے کھولنے والی چیز ہے۔ ان اور ایسی دوسری وجوہ
سے ہمارے یہاں شاعری میں Quatability کو
مستحسن سمجھا جانے لگا،اقوال زریں کے منظوم بیان کو شعری معراج تصور کیا جانے لگا
اور
Pseudo-Philosophicalباتوں کو شاعری کی دلیل
سمجھا جانے لگا۔‘‘ ایم اے غفار راز کے کلام میں بھی آپ کو ایسی شاعری کے نمونے
جابجا دیکھنے کو ملتے ہیں ؎
سر نیاز جھکا بھی لیا تو کیا حاصل
خلوص دل سے عبادت نہیں تو کچھ بھی نہیں
ڈاکٹر ضیا اپنی تصنیف ’مارواڑ میں اردو میں‘ رقم طراز ہیں
کہ ’’ر از صاحب کے یہاں روایت سے محبت کے ساتھ ساتھ جدیدیت سے بھی الفت نظر آتی
ہے، آپ روایت کی محبت میں اتنے بھی غرق نہیں ہیں کہ جدیدیت کے جلوے نظر ہی نہ آئیں
اور جدیدیت کے جلووؤں میں اس قدر گم نہیں ہیں کہ روایت کا راستہ ہی بھول جائیں،
دونوں ہی چیزوں کا احترام اور اعتراف آپ کے یہاں پایا جاتا ہے۔‘‘ اس ضمن میںکے .ڈی.
خان مونس اجمیری فرماتے ہیں: ’’ کلاسیکی ادب کا انھوں نے ہمیشہ دل سے احترام کیا
مگر عصری رجحانات سے روگردانی بھی مناسب نہیں سبھی، روایت کے امین بنے رہے مگر روایت
پر ہی قناعت نہیں کی۔‘‘
رازصاحب کے
کلام میں جہاں ایک اور روایتی رنگ دیکھنے کو ملتا ہے جس میں زاہد و واعظ پر لعن
تعن ہے، دیر و کعبہ اور شراب خانہ ہے اورشاعر غم عشق کا حریص نظر آتاہے تو وہیں
بعد کے دور کی شاعری میں ایک نمایاں تبدیلی دیکھنے کو ملتی ہے۔اس ضمن میں شین کاف
نظام لکھتے ہیں کہ ’’بہت ممکن تھا کہ راز ایسے ہی موضوعات کے اسیر ہو کر رہ جاتے لیکن
شکر کا مقام ہے کہ انھوں نے لکیر کا فقیر بننے کی بجائے اپنے تخلیقی راستوں کو
کھلا رکھا۔اسی کھلے پن نے ان کی شاعری کو ان کے ہم عصروں سے مختلف بھی کیا اور
ممتاز بھی۔‘‘
شام کی سیڑھیاں چڑھ کر سورج
رات کے گھر میں اتر جاتا ہے
مردہ جسموں سے لپٹ کر کوئی روئے کب تک
پھوٹ کر روئیں اگر جسم کوئی زندہ ملے
زندگی تجھ سے ملاقات نہیں ہوتی ہے
شام کے بعد بھی اب رات نہیں ہوتی ہے
یوں تو ملنے کو ہریک موڑ پہ مل جاتی ہے
زندگی تجھ سے مگر بات نہیں ہوتی ہے
کوئی مجھ کو سمجھ نہیں پایا
کیا میں راز خط ہڑپا ہوں
مخمور سعیدی بھی اس تبدیلی کی جانب نشاندہی کرتے ہوئے
کہتے ہیں کہ ’’ ابتدا میں وہ غزل کی سال خوردہ روایات کی گرفت میں تھے لیکن آہستہ
آہستہ انھوں نے فکروفن کے عصری تقاضوں کو پہچانا اور ان سے اپنا رشتہ استوار کیا۔
اب ان کی غزل فکر کی تازگی لیے ہوئے ہے اور نئی لفظیات کی حامل بھی ہے۔ راز صاحب
نے جدید لب و لہجے کو فیشن کے طور پر اختیار نہیں کیا ہے بلکہ ان کے یہاں یہ عمل
فطری طور پر نموپذیر ہوا ہے۔
راز صاحب کی جدید شاعری میں نئے مضامین ہیں، فکر کی
تازگی ہے، لفظیات کی جدت ہے اور استعارات میں نیاپن ہے۔ ان کے اشعار کسی رواں دواں
دریا کی مانند ہیں کہ جس میں کہیں کوئی اٹکائو اور بھٹکائو نہیں ہے بلکہ ایک
خوبصورت نظارہ ہے اور کانوں کو بھلی لگنے والی موسیقیت ہے۔ان کے کلام میں یہ تبدیلی
دراصل دانستہ طور سے کی گئی سعی نہیں ہے بلکہ فطری طور پر نمودار ہوئی ہے، یہی وجہ
ہے کہ ان کے اشعار مصنوعی نہیں لگتے بلکہ قاری کو متاثر کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔
بقول راہی شہابی ’’ راز کی شاعری ایک صاحب فکرونظر کے مشاہدات و محسوسات کی آئینہ
دار ہے۔انھوں نے اردو کلاسیکی اسلوب کو دور حاضر کے مسائل کا ذریعہ بنایا۔ اس آمیزش
نے ان کی شاعری کے حسن کو دوبالا کر دیا ہے۔‘‘
غزل جذب و خیال، متنوع موضوعات کا حیرت کدہ اور جہانِ
معانی کا آئینہ خانہ ہے۔ غزل میں زندگی کی سی وسعت ہے جس طرح زندگی اپنے اندر
تمام موسم، رنگ واقعات،جذبات، تحریکیں، چہرے، نظریے اور رویے سمو لینے پر قادر ہے۔
اسی طرح غزل بھی ان سب عناصر کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہے۔ پیکر تراشی اس ضمن میں
شاعر کو بہت معاونت کرتی ہے۔پیکر شاعری کا وہ طاقتور لسانی عنصر یا اظہارکی موثر
صورت ہے جو شاعر کے اندرون کوقاری یا سامع کے سامنے مکمل اور موثر طور پر منکشف
کردیتی ہے کیونکہ اس سے تصور و خیال کی چلتی پھرتی تصویریں آنکھوں کے سامنے آجاتی
ہیں۔ شاعر کا نصب العین اپنے اندرون کا اظہار ہوتا ہے اس لیے پیکر کو شاعر کی شخصیت
کا آئینہ بھی کہا جاسکتا ہے۔راز صاحب کے یہاں بھی پیکر تراشی کے نمونے دیکھنے کو
ملتے ہیں۔
مذہب کے تعلق سے رازصاحب کا تصوربہت سیدھا اور صاف
ہے۔ وہ اپنے ظاہر و باطن کی صفائی پر دھیان دینے کی بات کرتے ہیں ؎
یہ دیر و کعبہ کی باتیں ہیں بعد کی اے راز
میں اپنے دل کے نگر کا مطالعہ کر لوں
انھیں ذات، برادری اور رنگ و نسل کی بنیاد پر انسانوں کی
تقسیم گوارا نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں
؎
انسان کو جو ذات کے خانوں میں بانٹ دے
ہوگا خدا مگر وہ ہمارا خدا نہیں
حالانکہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ذات اور نسل کو صرف
انسانوں کی پہچان کا ذریعہ بتایا ہے۔ اس کی بنیاد پر کسی کی تذلیل یا خود پر فخر
کرنا بے وقوفی ہے۔ خدا کی نظر میں افضل اور اعلی شخص وہ ہے جو متقی اور پرہیزگار
ہے۔وہ خدا میں یقین رکھتے ہیں تبھی کہتے ہیں ؎
جو لوگ خدائی کا کیا کرتے تھے دعویٰ
ملتا ہی نہیں ان کا کہیں نام و نشاں تک
وہ اپنا محاسبہ کرنے اور غور و فکر کرنے کی جانب توجہ
بھی دلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ دنیا میں ہماری ذلت
اور پستی کی وجوہات کیاہیں ورنہ ہمارے عقبی بھی تو اسی دین کے پیروکار تھے جنھیں
اللہ تعالیٰ نے دنیا بھر کی عزت اور بڑی بڑی حکومتوں سے نوازا تھا۔
ہم کیوں ذلیل و خوار ہیں ہے سوچنے کی بات
وہ ہم نہیں رہے، کہ ہمارا خدا نہیں
راز صاحب کے اشعار میں زندگی کا فلسفہ بھی دیکھنے کو
ملتا ہے۔یہ فلسفہ بہت سیدھا سادہ ہے۔ وہ ایک دردمند دل رکھتے ہیں اس لیے انھیں دنیا
کے سود و زیاں کی پرواہ نہیں ہے بلکہ ان کی نظر میں تو زندگی کا مقصد دوسروں کی
مدد کرنا ہے۔ وہ انسان اور انسانیت کی فلاح و بہبودی کا جذبہ دل میں رکھتے ہیں۔انھیں
سب سے محبت ہے چاہے وہ دوست ہو یا دشمن
؎
وہ عقل بھی اے راز بھلا عقل ہے کوئی
محدود رہی جو فقط سودوزیاں تک
زندگی ہے دوسروں کے غم میں کام آنے کا نام
شمع کی مانند جلنے اور پگھل جانے کا نام
مجھ کو تجھ سے الفت ہے تجھ کو مجھ سے نفرت ہے
وہ تیری کہانی ہے یہ میری کہانی ہے
راز صاحب کے کلام کا ایک اور خاصہ ہے ان کے اشعار میں
ہندی زبان کے الفاظ کا خوب صورت استعمال۔ ہندی الفاظ کے استعمال سے وہ اپنے شعر کو
نہ صرف خوبصورت بناتے ہیں بلکہ اسے معنویت بھی عطا کرتے ہیں۔
اردو شاعری میں ایسے شعر کہنے کی روایت رہی ہے جس میں
شاعر اپنی یا اپنے کلام کی تعریف خود بیان کرتا ہے۔ اسے تعلّی کہا جاتا ہے۔ تو آئیے
چلتے چلتے راز صاحب کے چند وہ خوبصورت اشعار بھی دیکھتے چلیں جو تعلّی کی شکل میں
ہیں ؎
کتنے لوگوں کے دلوں پر ہے حکومت ان کی
راز صاحب تو مقدر کے سکندر نکلے
نہ ہو کیوں کر غزل پہ ناز اپنی
میرا انداز ہے میرا بیاں ہے
ابر و انور قول و بیکس رمزی و قاضی کبیر
مرحبہ کہنے لگے مجھ کو غزل خواں دیکھ کر
Akmal Naim Siddiqui
Partap Nagar
Jodhpur- 342003 (Rajasthan)
Mob.: 9413844624
vedandquraan@gmail.com