اتساہتِ بیکل
اتساہ
سے لبریز بیکل نے جب ’نغمہ و ترنم‘ کا راگ الاپا اورکومل مکھڑے نے بیکل گیت سنائے
تب گاؤں کے باسیوں کو یقین ہوگیا کہ ”اپنی دھرتی چاند کا درپن“ ہے۔ ’لہکے بگیا مہکے
گیت‘کے ذریعے انھوں نے ہندی میں ’وجے بگل‘ بجایا۔ ”مٹی، ریت اور چٹان‘ سے اپنی شاعری
کا خمیر تیار کرنے والے بیکل نے ’رنگ ہزاروں خوشبو ایک ‘سے اردو شاعری کو معطر
کردیا۔ جب ’پروائیاں‘ چلیں تو اس کی سوندھی سوندھی خوشبوکھیتوں اورکھلیانوں میں تحلیل ہوکر ’موتی اگے دھان کے کھیت‘کی صورت میں دیہات کو
نایاب تحفہ دے گئی۔توشۂ عقبیٰ، تحفۂ بطحا، نغمۂ بیکل، موجِ تسنیم، جام ِگل، نشاط ِزندگی اور نور کی برکھا وغیرہ ان کے
اخروی سرمائے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ بیکل نے دین و دنیا میں بیک وقت
سرخروئی حاصل کی۔ تاہم ان کی بدنصیبی یہ رہی کہ ان کے جیتے جی ناقدین نے ان پر
توجہ نہ دی۔ نیز وہ اس کے خواہاں بھی نہیں رہے۔ نام ونمود اور ادبی سیاست سے کوسوں دور رہے۔
”میں توایک کسان ہوں۔ محنت اور لگن سے ادب کی دھرتی پر کشت قلم سے شعری فصل
اگاتارہاہوں، یہ کبھی بھی نہیں سوچاکہ بازار ِنقد وتبصرہ میں کس بھاؤ میری گاڑھی کمائی
جائے گی“1 خیر غالب جیسا عظیم شاعر بھی اپنی زندگی میں اس سے محروم رہا۔ لمبے عرصے تک نظیر اکبرآبادی کو تو قابل التفات
ہی نہیں گرداناگیالیکن جب وقت کا غبار ہٹا تو یہ دونوں شاعری کی دنیا میں موضوعاتی واسلوبیاتی سرخیل ٹھہرے۔
لودھی
محمد شفیع خان 1928 کو رمواپور، اترولہ
تحصیل ضلع بلرام پورکے ایک زمین دار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام لودھی محمد
جعفرخان اوروالدہ کابسم اللہ بی بی تھا۔ بچپن سے ہی شعر وشاعری سے شغف تھا۔ سوشلسٹ
تحریک سے جڑنے کی پاداش میں انھیں جیل بھی جانا پڑا۔ محمد شفیع خان 1945 میں جب
وارث پیا کی درگاہ دیوا گئے توشاہ حافظ پیارے میاں نے کہا ”بیدم گیا، بیکل آیا“ اسی وقت سے انھوں نے خود کو بیکل وارثی سے موسوم کرلیا۔ 1952کوگونڈہ میں ایک انتخابی پروگرام ہوا جس میں
جواہر لعل نہرونے شرکت کی تھی۔ اس موقع پر بیکل وارثی نے اپنی نظم ’کسان بھارت کا‘
پیش کی تو نہرو جی نے کہا ”یہ ہمارا اُتساہی شاعر ہے“۔ اس کے بعد سے ہی وہ بیکل
’اتساہی‘ ہوگئے۔ نہروجی کا کہاصد فی صدصحیح نکلا۔ ملک و ملت کے تئیں جو ان کا
اتساہ اور جذبہ تھا ،وہ مرتے دم تک قائم رہا۔ 1976 میں بیکل اتساہی پدم شری ہوگئے۔ 1986 میں کانگریس نے ان کی خدمات کودیکھتے ہوئے
انھیں راجیہ سبھا کی رکنیت دی۔ 2015 میں
انھیں یوپی کے سب سے بڑےایوارڈ ’یش بھارتی‘سے نوازاگیا۔ 3؍دسمبر 2016 کو بیکل
اتساہی نے سب کو بیکل چھوڑدیا۔
بیکل ہمہ جہت شخصیت کے مالک
تھے۔گنگاجمنی تہذیب کے روشن مینار تھے۔ وضع قطع میں صوفی مشرب اور حافظ ملت کے
مرید خاص تھے۔ مذہب ومسلک کی سرحد سے بے نیاز ہندستانی تہذیب وثقافت اور ہم آہنگی
کے حسین سنگم تھے۔ ان کا مزاج قلندرانہ تھا۔ دوستی سب سے تھی مگر بیر کسی سے نہ
تھا۔ زمین دار گھرانے سے تعلق ہونے کے باوجود مزدوروں اورکسانوں سے حد درجہ لگاؤ تھا۔
درد مند دل سوز وگداز سے پُر تھا۔ اردو کے دو عظیم شاعر اصغر گونڈوی اور جگر مرادآبادی
سے گہری وابستگی تھی۔ ان کی صحبت نے ان کے فکر وفن کو جلا ضرور بخشی تاہم وہ ان کی تقلید سے
محفوظ رہے۔ آٹھویں جماعت سے ہی جگر اور اصغرکی
صحبت میسر تھی۔ 1944 میں انھوں نے اپنا پہلا کلام اصغر گونڈوی کو سنایا جس کا مطلع
تھا:
نظاروں
کے لیے ویرانہ جب آباد ہوتاہے جنوں
میں اشتیاق دید بے بنیاد ہوتا ہے
بیکل
اتساہی قدیم روایات کے امین اورجدید اقدار کے حامل تھے۔ تقریباً سات دہائی تک
آسمانِ شعر وسخن پر جلوہ فگن رہے۔ اس
دوران بے شمار غزلیں، نظمیں، نعتیں، دوہے اور گیتیں کہیں۔ ایک درجن سے زائد ان کے
شعری مجموعے شائع ہوئے۔ انھوں نے اپنی طویل عمر میں اردو کی تین بڑی تحریکات
ورجحانات کے وجودو عدم کو دیکھا۔ ان کے سامنے بہت سی تحریکیں عدم کو سدھار گئیں
لیکن اس کے باوجود انھوں نے خود کو ان سے وابستہ کیا اور نہ ہی متاثر ہوئے۔ البتہ
استفادہ ضرور کیا۔ بیکل کے ذہن وفکر نے ہمیشہ اردو کا راگ الاپا۔ اپنی شاعری کے
ذریعے لوگوں کے دلوں میں اس کی عظمت رفتہ بحال کرنے کی کوشش کی۔ جنگ آزادی اور
قومی یک جہتی میں اردو کی شراکت کوواضح کیا:
گھرا
طوفان میں جب بھی وطن، آوازدی میں نے ہوئی
انسانیت جب بے کفن، آواز دی میں نے
میں
اردو ہوں، مجھی سے عظمت فصل بہاراں ہے خزاں
نے رخ کیا سوئے چمن، آوازدی میں نے
بیکل کے شعری سفر کے ہونٹوں پربے پناہ تجربوں کاتبسم اور کڑواہٹ نظر آتی ہے۔ چونکہ انھوں نے غلامی کی زندگی، آزادی کی جد وجہد اورپھر آزاد ہندستان کوبہت قریب سے دیکھا تھا۔ انگریزوں، زمین داروں اور ساہوکاروں کا ظلم بھی محسوس کیا تھا۔ اس لیے ان کی شاعری کسانوں، مظلوموں اور مزدوروں کا نقیب بن کر ان میں ہمت وحوصلے کا دیپ جلاتی رہی۔ جب وہ ایوان بالا میں پہنچے تو وہاں بھی ان کی فریاد رسی کی۔ بیکل نے بلاتفریق مذہب وملت کسانوں اوربے کسوں کی مسیحائی کی۔ ان کی بے جان آواز میں روح پھونک دی۔ ان کی ٹوٹی پھوٹی اوربے ہنگم آواز کو سر تال دے کرنغمۂ سرمدی بنادیا۔ اس طرح ان کی شاعری میں پورا ہندستان جاگزیں ہوگیا۔ بیکل کی شاعری میں تخیل وتفکر کے مابین ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ فن امیجری بھی منتہائے کمال پر ہے۔ اردوکے ساتھ ہندی کے سبک الفاظ اس طرح مدغم ہیں کہ ان میں ایک طرح کی شیرینی پیدا ہوگئی ہے۔ فراق گورکھپوری رقم طراز ہیں:
”بیکل کے وہاں جن الفاظ کا تصرف ہے اس میں علامات کی بہتات کم اورخیال کا بہاؤ زیادہ ہے۔ ان کے فکر وفن میں کچھ اس طرح کی وابستگی ہے کہ کلام میں ہندی اور اردو کے حسین سنگم سے یکجہتی کا رنگ پھوٹ نکلا ہے۔ بیکل کی غزلوں میں بھی زندگی اور کائنات کے تمام محرکات موجود ہیں۔زندگی اورسماج کے نازک رشتوں کے بنیادی اورافادی پہلوؤں کی تفسیر ہے۔فن کے نئے معیار کی جمالیاتی اورفکری قدروں کے احساس میں جذباتی اور ذہنی عناصر کی رنگ آمیزی ہے۔ نئے عنوان، ندرت اور ہیئت کے حسین تجربوں کی فنی حیثیت کا تعین ہے۔ روایتی قدروں کے صالح عناصر کو اس رنگ سے استعمال کیا ہے کہ شعری شعور میں افادی پہلو اورتفہیم کی جلوہ گری معلوم ہوتی ہے۔ رومان اورفکر کے دونوں پہلوؤں کوآئینہ بنا کر زندگی کے خوش رنگ خاکے بنائے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ پہلے شاعر ہیں کہ جس نے فن امیجری کو صحیح طورپر معنی صرف کیا ہے۔ ابہام کو ایک نئی جہت سے روشناس کیا۔ فرسودہ طلسم کو توڑ دیا۔ تمثیلی اعجاز کا حسین راستہ تراشا، موسیقیت اورجمالیاتی پہلوؤں پر توجہ دی۔ اگر ان کا کلام رہ گزار شاداب کہاجائے تو ان کے گیت اور غزلیں رہ گزار حیات میں منزل نو کے امین بن سکتے ہیں۔“2
بیکل نے شاعری کی تمام اصناف پر طبع آزمائی کی۔ تاہم وہ بنیادی طور پر نظموں اور گیتوں کے شاعر ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان کی غزلیں بھی بہت دل کش ہیں۔ انھوں نے غزل کے حسن وعشق اور تقاضے کا لحاظ رکھتے ہوئے عصر حاضر کے مطالبات کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ زمانے کی نیرنگیوں اور نت نئے مسائل نے غزل میں حسن وعشق کے ساتھ ساتھ ان مسائل کو بھی سمونے کی کوشش کی جن سے غزل کا دائرہ وسیع ہوا۔ بیکل نے اردو غزل کی رائج لفظیات سے انحراف کرکے ایک نیا رنگ وآہنگ بخشا۔ غزل کی نازکی اور شائستگی کو برقرار رکھتے ہوئے انھوں نے زبان کی سطح پر بھی تجربہ کیا۔ عربی وفارسی الفاظ کی جگہ خالص ہندی کے سبک وشیریں الفاظ کو شعوری طور پر استعمال کیا اور انھیں ہندی تہذیب سے ہم آہنگ کرکے دوآتشہ بنادیا۔ ”بیکل صاحب نے اپنی غزلوں اورگیتوںمیں صنف غزل کی رائج لفظیات کے بجائے عوامی کہاوتوں اور لوک روایت سے لفظیات اور ترکیب کشید کی ہیں، ان کو بیکل صاحب کی انفرادیت کے طور پر دیکھاجاسکتا ہے اورخود غزل کے نئے لہجے کی پہچان کے طور پر بھی“۔3 بیکل نے غزل کو گیت کا رنگ وروپ دے کر اسے ایک دیہی حسن بخشا ہے۔ انھوں نے ہندی الفاظ کے استعمال سے اشعار میں حسن اور نغمگی دونوں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان دونوں کو دوقالب اور ایک جان قرار دیا ہے اور اردوکے ساتھ ہورہی نا انصافی پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ذیل کے اشعار دیکھیں:
ان دونوں کی ایک ہی ماں ہے دو قالب ہیں ایک ہی جاں ہے پھر بھی اردوکو ہندی کی لوگ کہیں سوتیلی ہے
میری زباں ہر دل کی زباں ہے، کومل کومل حسن بیاں ہے برسوں تک یہ خسرو کی انگنائی میں کھیلی ہے
اس کا لہجہ چنچل چنچل روپ کا درپن جیوت کی جھل جھل میری غزل کی بحر نہ دیکھو، یہ تو میر کی چیلی ہے
آگئیں یاد کٹھور کی بتیاں برسے نین دھڑک گئیں چھتیاں پردیسی
اب بھیج دے پتیاں برہن آج اکیلی ہے
طنز کی تیغ مجھی پر
سبھی کھینچے ہوں گے
آپ
جب اورمرے اور نگیچے ہوں گے
بیکل
اتساہی چوں کہ گاؤں کےاس ماحول کے پروردہ ہیں جہاں کبیر، تلسی، جائسی اورنظیر
اکبرآبادی کی نظمیں لوگوں کی زبان زد تھیں۔ اٹھتے بیٹھے سوتے جاگتے ان کی شاعری
کانوں میں رس گھول جاتی۔ چناں چہ ان کی نظمیں، دوہے اور کویتائیں بیکل کی سائیکی
کا حصہ بن گئیں، جو لاشعوری طورپر شعری سفر میں ان کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئیں اور
وہ ان ہی کی ڈگر پر چل نکلے۔ نظیر نے اردو شاعری کے موضوعات میں جو سیندھ لگائی
تھی بیکل بھی اسی راہ سے اندر داخل ہوگئے۔ نظیر کے تعلق سے احتشام حسین کا یہ
جملہ’’نظیر درحقیقت ایک اہم قومی شاعراورمبلغ انسانیت کے پیامبر ہیں“۔4 بیکل پر
بھی ہوبہو صادق آتا ہے۔ ان دونوں نے حب الوطنی، قومی یک جہتی، ہندستانی دیومالائی
اور اساطیری عناصر کو کثرت سے موضوع سخن بنایا اور اردو شاعری کو تصویر گنگ وجمن
کا آئینہ دار بنایا۔ مناظر فطرت، قومی ہم آہنگی، ہولی، دیوالی، رام، کرشن، نانک
وغیرہ پر ان دونوں نے خوب نظمیں کہیں۔ بیکل کی ایک نظم ’دلی‘ہے جس میں دلی کی پوری
تاریخ وتہذیب سمٹ آئی ہے۔ اس کے علاوہ ہریانہ اوراترپردیش کو بھی انھوں نے اپنی
نظموں میں بسادیاہے۔
ہندستان
کی تہذیبی وثقافتی، سماجی اور لسانی روح تو گاؤں میں بستی ہے۔ جہاں کی صبح وشام میں
مسجد کی اذانیں اور مندروں کے گھنٹے صاف سنائی دیتے ہیں۔ مختلف قسم کے رسم ورواج،
گیت اور راگ راگنیا دیکھنے اور سننے کو ملتی ہیں۔ کھیتوں میں لہلہاتی فصلیں،
باغیچوں میں تناور درخت اور ندی تالاب فطرت کی چغلی کھاتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود
بہت سے شعراکو ان میں حسن نظر نہیں آتا۔ وہ ان سے نظریں چراکر نکل جاتے ہیں۔ اس کی
وجہ شاید نقادوں کی سرد مہری رہی ہے۔ چوں کہ اس طرح کے موضوعات برتنے والے شعرا کو
عوامی یا بازاری کہہ کر انھیں ادب میں کوئی مقام نہیں دیاجاتا۔ اس لیے شعوری طور
پر وہ ان موضوعات سے صرف نظر کر لیتے ہیں۔ تاہم بیکل کی حساس طبیعت نے نام ونمودکی
پرواہ کیے بغیر ان بے جان موضوعات کو از سرِ نو زندہ کرنے کا بیڑااُٹھایا۔اس کے
لیے انھوں نے غزل کے علاوہ نظموں اور گیتوں کا سہارا لیا اور اردو زبان کو کسانوں،
کھیتوں، کھلیانوں اور جھوپڑیوں میں بسادیا:
یہ شہر کے باسی کیا جانیں ، کیا روپ ہے گاؤں کے پنگھٹ کا
کیا عشق ہے لاج کی الہڑ کا، کیا حسن ہے
موہ کے نٹ کھٹ کا
شرمائی سی ماتھے کی بندیا، اٹھلائی سی پاؤں کی پائیلیا
السائی سی آنکھوں میں نیندیا، بے سدھ وہ سرکنا گھونگٹ کا
بیکل دیہی جمالیات کے شاعر ہیں۔ جو کھیت کھلیان، رسم ورواج اور لوک کہاوتوں کو شعری
پیکر میں ڈھالتے چلے جاتے ہیں۔ ان کے یہاں گاؤں کا تصور اتنا گہراہے کہ ان کی شاعری
میں یہ لفظ ایک الگ حسن پیدا کردیتا ہے۔گاؤں کی کہاوتیں جیسے داہنی آنکھ کا پھڑکنا
نیک شگون مانا جاتاہے، اس کو کتنی خوبصورتی سے باندھاہے:
رات
بھر گاؤں دل کا سلگتا رہا، زندگی آسروں میں دہکتی رہی
چاند بیٹھا منڈیروں پہ گلتا رہا چاندنی چھپروں سے ٹپکتی رہی
راہ میں آنے والے کی بیٹھی ہوئی عمر کا لمحہ لمحہ
پگھلتا رہا
ڈاکیہ تار پڑھ کر سناتا رہا، دا ہنی آنکھ بیکل پھڑکتی رہی
حد
تویہ ہے کہ کھیتوں، کھلیانوں اور کسانوں کے اس شاعر پر ترقی پسند نقادوں نے بھی
توجہ نہیں کی۔ حالاں کہ بقول سجاد ظہیر اور علی سردار جعفری ”ترقی پسندی کے جوکا م
ترقی پسندوں کوکرنا چاہیے، وہ بیکل اتساہی نے بہت پہلے کر دکھایا۔ جس میں مزدوروں
کسانوں کی آواز اردو زبان کے پرچم تلے اٹھائی ہے“5۔ ان کا منشور ہی دبے کچلے لوگوں، مزدوروں اور
کسانوں کی آواز بننا تھا۔ یہ اشعار دیکھیں:
اب
تو گیہوں نہ دھان بوتے ہیں اپنی قسمت کسان بوتے ہیں
گاؤں کی کھیتیاں اجاڑ کے ہم شہر جاکر مکان بوتے ہیں
فصل تحصیل کاٹ لیتی ہے ہم مسلسل لگان بوتے ہیں
بلاشبہہ
مشاعرہ اردو زبان کی توسیع کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ بستی بستی قریہ قریہ ناخواندہ
عوام تک اردو زبان کی شیرینی پھیلانے میں اس کا اہم رول ہے۔ بیکل نے بھی مشاعروں
کے ذریعے عوام کے دلوں میں اس کی شیرینی اور حلاوت کو رچانے بسانے کا کام کیا۔ بدلے میں انھیں مشاعرے کا شاعر قراردے کر نقادوں
نے صرفِ نظر کرلیا۔ ”ان حضرات نے یہ نہیں سوچاکہ اردوزبان کی توسیع واشاعت کی
ارتقائی منزلوں میں مشاعروں کوذریعہ بنا کرغیراردوداں حلقوں تک اردو کو پہنچانے
میں اوراردوکا دل دادہ بنانے میں جو محنت اورمشقت کی ہے کیا کلاسیکل، جدیدیت مابعد
جدیدیت، تجریدیت، ساختیات و ترقی پسند لوگوں نے یہ کام کیاہے؟“۔ 6 تاہم ان کی یہ
بدنصیبی کہیے یا خوش نصیبی کہ انھوں نے خود کوادبی سیاست سے دور رکھا اورنقادوں کی
خوشامد نہیں کی۔ جس کے سبب ادب میں انھیں وہ مقام نہ ملا جس کے وہ حق دار تھے۔
انھوں نے اخلاص کے ساتھ اردو زبان گاؤں کی روح میں بسایا۔ اردو شاعری کی لفظیات میں
ہندی، اودھی اور برج الفاظ کا اضافہ کیا۔ ہندستانی لوک روایت سے استفادہ کرکے
گیتوں کو جدید رنگ وآہنگ بخشا۔ چناں چہ یہ کہنا بجا ہے کہ انھوں نے گیتوں کے دم
توڑتے ہوئے سامراج کو استحکام بخشا۔ اس حوالے سے ڈاکٹر ظ ۔انصاری لکھتے ہیں:
”بیکل کی زنبیل میں اودھی اوربرج کے گیتوں کا، دوہوں اور
چوپائیوں کا، بھوجپوری، پدو، کبیتاؤں کا ایسا رنگ برنگا خزانہ ہے کہ اللہ دے اوربندہ لے۔ وہ
ان کی طلب میں گاؤں گاؤں نہیں پھرے، اسے پیشہ نہیں بنایا، پبلسٹی نہیں کی، یہ گیت
ان کی طلب صادق دیکھ کر خود ہی آئے، زنبیل بھرتے گئے۔ بیکل غزلوں کو لوک گیتوں کی،
گیت کو غزلوں کی چاشنی دے کر ایساآمیزہ تیار کرتے ہیں جوزود ہضم بھی ہواورپرکیف بھی“۔7
بیکل
نے اپنے مجموعے ’موتی اُگے دھان کے کھیت‘ میں اربابِ نقدونظر کے سامنے یہ سوال قائم
کیاہے کہ اردو شاعری کے نصاب میں تمام اصناف سخن شامل ہیں تاہم نعت اور گیت کو اس
میں شامل کیوں نہیں کیا گیا۔ حالاں کہ یہ
بھی اردو شاعری کی اہم اصناف ہیں۔ چناں چہ اربابِ ادب کو اس پرغور کرنے کی ضرورت
ہے۔
بیکل
نے اپنی پوری زندگی اردو شاعری کی آبیاری میں گزاردی اورکسانوں کے سُر میں تال
ملاکران کے اندر اتساہ پیدا کیا۔ غزل کے شہر میں گیتوں کا گاؤں بسانے، گاؤں والوں کے
من میں غزل کا رس گھولنے، کھیتوں، کھلیانوں اور پگڈنڈیوں سے اردو شاعری کو آشنا کرانے
اور انجمن انجمن گنگنانے والا ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا۔
بیکل ترا پگ پگ نام یہاں، اتساہی ترے سب کام یہاں
تری
بھور یہاں تری شام یہاں پھر کاہے پھرے بھٹکا بھٹکا
حواشی
(1) بیکل اتساہی۔ مٹی،
ریت، چٹان، ص 17 ہریانہ اردو اکادمی، 1992
(2)فراق گورکھپوری،
مٹی ریت چٹان، ص 11,12 ہریانہ اردو اکادمی 1992
(3)پروفیسر ابوالکلام
قاسمی۔مقدمہ ’موتی اُگے دھان کے کھیت‘،بیکل اتساہی، ص 10،کاک آفسیٹ پرنٹرس
دہلی،2002
(4)سید احتشام حسین۔
ذوق ادب اور شعور،ص144، اترپردیش اردو اکادمی لکھنو،2014
(5) بیکل اتساہی، موتی
اگے دھان کے کھیت، ص8 کاک آفسیٹ پریس دہلی 2002
(6) ایضاص7-8
(7) بیکل اتساہی، رنگ
ہزاروںخوشبوایک،ص 11-12، اردواکادمی دہلی، 1989
Imteyaz
Rumi,
Room No.: 34, Mahi Hostel, JNU,
New Delhi - 110067
Room No.: 34, Mahi Hostel, JNU,
New Delhi - 110067
Mob.:
9810945177
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں