8/5/17

ہندوستان اور بیرونی ممالک میں اردو زبان و ادب کا منظر نامہ


خواجۂ خواجگان کی چوکھٹ، سلاطین و فرمان روا کی کار گاہ عمل، رشیوں اور منیوں کا آستانہ، شاعر و ادیبوں کا فکری گہوارا، فن کاروں و دستکاروں کی نمائش گاہ۔ جس دہلی نے تاریخ کے اوراق ہی نہیں ان گنت ابواب پر اپنے ایسے دستخط ثبت کیے کہ جس کی سیاہی آج تک روشن ہے۔ دہلی جس نے ایک ایسی تہذیب کو جنم دیا جہاں جمنا کے تٹ پر بنسی کی آواز کے ساتھ اذان کی آواز بھی گونجی، اسی تٹ پر گوپیوں نے اشنان بھی کیے اور مُلاّ وضو بھی بناتے رہے۔ گیان دھیان کے ساتھ چِلّوں اور ہوَن کے ساتھ مراقبے نے ہم آہنگ ہو کر دنیا کو کثرت میں وحدت کا پیغام دیا اور اپنی ایک الگ زبان تشکیل دی۔ ایسی زبان جس کی ساخت عرب سے لی گئی قواعد فارس و اصفہان سمیت سنسکرت سے کچھ الفاظ بھاکا کے لیے تو کچھ دراوڑی کے بِرج کے تحفے بھی قبول کیے اور علاقائی بولی ٹھولی کو بھی صیقل کرکے اسے مرصع و مسجع بنا ڈالا اور نام اردو رکھ دیا۔ وہ اردو جس کے خمیر میں خسرو کی پہیلیوں اور کہہ مکرنیوں کی ساحرانہ کشش ہے اور صوفیوں و ولیوں کی خود فراموشی بھی۔ وہ اردو جس کے اشعار ولیوں کی درگاہوں، صوفیوں کے تکیوں، مے خانے کی دیواروں، مساجد کے محرابوں، بادشاہوں کے درباروں سے ہوتے ہوئے پارلیامنٹ کے ایوانوں میں بھی نہایت فخر کے ساتھ بولی، سنی اور سمجھی جاتی ہے۔ آج یہاں دہلی میں اسی زبان کا عالمی جشن ہے جس کی میزبانی قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کر رہی ہے اور ساری دنیا سے میکشانِ اردو زبان و ادب اس سمینار میں شریک ہو رہے ہیں۔فروری اور مارچ کا مہینہ، دہلی میں ادبی بہار کا سیزن ہوتا ہے۔خوشگوار اور پر فضا موسم کے سائے میں ادبی رونق کا چہار جانب چکا چوند کا سماں، اپنی خاموش زبان سے دعوت نظارۂ ادب دیتا نظر آیا۔ 2017 کا مارچ بھی اسی روایت کی پاسداری کرتا ہوا گزرا۔ شہر کی جملہ ادبی و تہذیبی سرگرمیوں کے درمیان قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے زیر اہتمام18,17اور19مارچ کو عالمی اردو کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس میں زبان و ادب سمیت تہذیبی سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں افتتاحی پروگرام دہلی کے مشہور پانچ ستارہ اشوک ہوٹل میں منعقد کیا گیا جب کہ 18اور 19مارچ کے تمام پروگرام لودھی روڈ پر واقع اسکوپ کمپلیکس کے خوبصورت آڈیٹوریم میں انعقاد پذیر ہوئے۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائرکٹر پروفیسر ارتضیٰ کریم کی قیادت میں منعقد ہونے والے اس عالمی سمینار کا عنوان تھا ’ہندوستان اور بیرونی ممالک میں اردو زبان و ادب کا منظر نامہ‘ اور اس موضوع پر کناڈا، برلن، جرمنی، ایران، سعودی عرب، انگلینڈ، ماریشس، قطر، ترکی، دبئی، امریکہ اور ازبیکستان کے تئیس سے زیادہ سفیر زبان و ادب اور ملک کی تقریباً ہر ریاست سے اردو کے دانشور و اسکالرز نے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے پر مغز مقالے پیش کیے۔ اردو زبان اسی ملک میں پیدا ہوئی اور یہیں پلی بڑھی، یہ ملک کے ہر طبقے کی زبان ہے۔ اردو انسانوں کے درمیان محبت کی زبان ہے۔ یہ ملک گنگا جمنی تہذیب کا علمبردار ہے اور اردو اسی تہذیب کی ترجمان ہے۔ ان خیالات کا اظہاروزیر مملکت برائے فروغ انسانی وسائل ڈاکٹر مہیندر ناتھ پانڈے نے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی چوتھی عالمی اردو کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے اپنی افتتاحی تقریر میں کونسل کے کاموں کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ یہ نہایت خوشی کا موقع ہے کہ قومی اردو کونسل نے اپنی کانفرنس میں پوری اردو دنیا کی اہم شخصیات کو اکٹھا کرلیا ہے جو یقیناً اردو زبان کے لیے خوش آئند ہے۔ میں اس کانفرنس میں شریک تمام مندوبین کا حکومتِ ہند کی جانب سے استقبال کرتا ہوں اور کانفرنس کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر اُدت راج نے کہا کہ اردو ہندوستان کی اپنی زبان ہے اور اس زبان کو کسی مذہب سے جوڑنا اردو کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ سابق وزیر اور ممبر پارلیمنٹ جناب سید شاہ نواز حسین نے اس موقعے پر کہا کہ موجودہ سرکار کے تحت اردو کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہوگی۔ کیوں کہ ہماری سرکار ملک کے تمام شعبوں میں ترقی کی خواہش مند ہے۔ اردو کے فروغ کو ایک تحریک بنا دینے کی ضرورت ہے۔ قومی اردو کونسل اور تمام اردو والوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اردو کو ہر گھر میں پہنچانے کا نظم کریں۔ میں برسراقتدار پارٹی کا ترجمان بنایا گیا ہوں لیکن اردو کا پیدائشی ترجمان ہوں اور اس کی فلاح و بہبود نیز ترقی کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتا ہوں۔ اس سے قبل قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر پروفیسر ارتضیٰ کریم نے سبھی مہمانوں کا استقبال کیا اور عالمی اردو کانفرنس کی غرض و غایت پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے وزیر موصوف سے 3 مارچ کو یومِ اردو منانے کی منظوری دینے کی بھی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ کانفرنس میں شرکت کرنے والے کئی لوگوں کی یہ خواہش ہے کہ یہ کانفرنس ملک کے باہر بھی ہونی چاہیے۔ اس سلسلے میں انھوں نے سرکار سے مدد کی درخواست کی۔ پروفیسر ارتضیٰ کریم نے اسکولوں میں کونسل کی طرف سے اردو اساتذہ مہیا کرانے کی بھی یقین دہانی کرائی۔ پروگرام کا باضابطہ آغاز وزیر مملکت برائے فروغ انسانی وسائل ڈاکٹر مہیندر ناتھ پانڈے، ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر اُدت راج، سابق ممبر پارلیمنٹ سید شاہ نواز حسین، پروفیسر شمس الرحمن فاروقی، اسرار الحق قاسمی، پی اے انعامدار وغیرہ نے شمع روشن کرکے کیا۔

کانفرنس کا کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے نامور ناقد و محقق پروفیسر شمس الرحمن فاروقی نے اردو کی تاریخ پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اردو کے پچہتر فیصد الفاظ سنسکرت سے لیے گئے ہیں۔ اردو کے نامور فکشن نگار سید محمد اشرف نے اس موقعے پر کہا کہ اردو کا بنیادی مسئلہ اردو کی تعلیم و تدریس ہے۔ انھوں نے سرکار سے درخواست کی کہ حکومت کو اس سمت میں کونسل کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنی چاہیے۔

افتتاحی اجلاس کے بعد کناڈا سے تشریف لائے جاوید دانش نے قدیم صنف ’داستان گوئی‘ کی وساطت سے بیرون ملک رہنے والے لوگوں کی جذباتی کیفیت کو نہایت ڈرامائی انداز میں پیش کر کے ایک سماں باندھ دیا۔ افتتاحی تقریب کے آخری مرحلے میں ممبئی سے تشریف لائے رحمان علی اور ان کے ہمنواﺅں نے اردو کے معروف شعرا کے کلام کو اپنی ساحرانہ آواز میں پیش کرکے سامعین کو مسحور کر دیا۔

قومی اردو کونسل کی عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے دن صدارتی خطاب کرتے ہوئے الہ آباد یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر رتن لال ہانگلو نے کہا کہ اردو زبان پوری دنیا میں رابطے کی سب سے بڑی زبان ہے۔ اسی زبان نے پورے ملک کو جوڑ رکھا ہے۔ قومی اردو کونسل قابل ستائش ہے کہ اس نے نہایت اہم موضوع ’’ہندوستان اور بیرونی ممالک میں اردو زبان کا منظرنامہ‘‘ پر اس عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ موجودہ دور اردو زبان کی ترقی کا دور ہے اور ہمیں نئی تحقیق کے ساتھ ساتھ علاقائی تاریخ اور ادب پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ کانفرنس کے دوسرے دن کے دوسرے اجلاس میں سب سے پہلا مقالہ جرمنی سے تشریف لائے ڈاکٹر دویہ راج امیا نے پیش کیا۔ ان کے علاوہ دہلی یونیورسٹی کے ڈاکٹر ساجد حسین، ڈاکٹر فرزانہ اعظم لطفی (ایران)، ڈاکٹر ہاجرہ بانو (مہاراشٹر)، جناب فہیم اختر (برطانیہ)، ڈاکٹر مشتاق احمد (دربھنگہ) اور پروفیسر نعمان خان (بھوپال) نے اپنے مقالے پیش کیے۔ اس اجلاس کی مجلس صدارت میں پروفیسر ہانگلو کے علاوہ رانچی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر شین اختر، دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر چندر شیکھر، پروفیسر زماں آزردہ (کشمیر)، پروفیسر حبیب نثار(حیدرآباد) اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضا حیدر شامل تھے۔ پروفیسر شین اختر نے کہا کہ ہندوستان میں اگر مسلمان نہ بھی آتے تب بھی اردو زبان زندہ رہتی۔ یہ زبان اسلامی، ایرانی، ہندی اور دیگر تہذیبوں کے میل جول سے بنی تھی۔ نظامت ڈاکٹر اشفاق عارفی نے اپنے خوبصورت انداز میں انجام دی۔

 کانفرنس کے دوسرے دن کونسل کے ڈائرکٹر پروفیسر ارتضیٰ کریم نے ملک اور بیرون ملک سے تشریف لائے سبھی مہمانوں کا استقبال کیا۔ سمینار کے پہلے اجلاس کا آغاز جناب فیروز بخت احمد کے مقالے سے ہوا۔ اس اجلاس میں ماریشس کی تاشیانہ شمتالی، ترکی کے جناب سائی ناتھ وتھال چاپلے، ماریشس کے جناب آصف علی عادل نے مقالے پڑھے۔ اس سمینار کی صدارت پروفیسر ناشر نقوی، جناب مشتاق احمد نوری، ریحان خان (دبئی)، جناب امتیاز احمد کریمی نے کی۔ جب کہ نظامت کے فرائض جویریہ قاضی نے انجام دیے۔ صدارتی خطبے میں ناشر نقوی نے قومی اردو کونسل سے درخواست کی کہ وہ قومی بہادری ایوارڈ یافتہ بچوں کے حوالے سے کتابوں کی اشاعت کا اہتمام کریں۔ امتیاز احمد کریمی اور جناب مشتاق احمد نوری نے اپنے صدارتی خطبے میں اردو اور نئی نسل کے حوالے سے اظہارِ خیال کیا۔ ریحان خان (دبئی) نے بھی اردو کی موجودہ صورتِ حال پر روشنی ڈالی۔

ظہرانے کے بعد تیسرا اجلاس پروفیسر فاروق بخشی، پروفیسر بیگ احساس، پروفیسر سید سجاد حسین، پروفیسر شبنم حمید اور مہمانِ خصوصی ڈاکٹر ظہیر آئی قاضی کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس کی نظامت ڈاکٹر قمر تبریز نے کی۔ اس اجلاس میں محترمہ وفا یزداں منش (ایران)، جناب مہتاب قدر(جدہ)، جناب محمد امان اللہ ایم بی (چنئی)، معصوم عزیز کاظمی (گیا)، محترمہ جمیلہ (ماریشس) اور ڈاکٹر رجب درگن (ترکی) نے مقالے پڑھے۔ ڈاکٹر ظہیر آئی قاضی نے بے حد پرمغز گفتگو کی اور اردو کی بنیادی تعلیم کو درپیش مسائل پر بھی روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ بنیادی تعلیم مادری زبان میں حاصل کرنے والا اپنے ملک اور تہذیب سے جڑا ہوتا ہے۔ اردو تا قیامت زندہ رہنے والی زبان ہے۔ مجلس صدارت کے دیگر اراکین نے بھی اظہارِ خیال کیا۔ اس سیشن کے بعد اردو کی ہم عصر ادبی و لسانی صورتِ حال پر ایک مباحثے کا انعقاد کیا گیا جس کی نظامت محترمہ وسیم راشد نے کی۔ بحث کا آغاز معروف فکشن نگار پروفیسر حسین الحق نے کیا۔ اس مباحثے میں پروفیسر شریف حسین قاسمی، پروفیسر قدوس جاوید، پروفیسر غضنفر علی اور امریکہ سے تشریف لائے جناب افروز تاج نے حصہ لیا۔ مباحثے کے بعد ایک شاندار مشاعرے کا انعقاد کیا گیا جس میں ملک اور بیرونِ ملک کے شعرائے کرام نے معیاری کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔

مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل عزت مآب پرکاش جاوڈیکر نے قومی اردو کونسل کے زیراہتمام منعقدہ عالمی اردو کانفرنس کے اختتامی اجلاس میں کہا کہ ہر زبان بہت پیاری ہوتی ہے اور اردو تو بہت ہی پیاری اور میٹھی زبان ہے۔ یہ کسی خاص مذہب نہیں بلکہ سب کی زبان ہے۔ بہت سی ہندوستانی زبانوں کے میل جول سے ایک ہندوستانی بھاشا وجود میں آئی جس کا نام اردو ہے۔ امیر خسرو کے کلام سے جو کچھ بھی وجود میں آیا ہے وہ آج تک ہم پڑھتے اور سنتے ہیں۔ اردو میں زیادہ سے زیادہ تعلیمی مواد فراہم کیا جانا بہت ضروری ہے کیوں کہ اگر ہندوستانی زبانوں میں نصاب نہیں تیار ہوگا تو اس زبان میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے کہاں سے آئیں گے۔ انھوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اردو میڈیم اور ہندوستانی زبانوں کے اسکول بند ہورہے ہیں۔ ان اسکولوں کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ہمارے ذہنوں پر انگریزی کا بھوت سوار ہے۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ انگریز جب ملک سے چلے گئے تو انگریزی زبان ہمارے اندر اور زیادہ شدت سے داخل ہوگئی۔ لوگ یہ سوچنے لگے ہیں کہ بغیر انگریزی کے ترقی ممکن نہیں ہے۔ جب کہ بنیادی تعلیم مادری زبان میں ہونی چاہیے۔ انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ عبرانی بولنے والوں کی تعداد بہت کم ہے لیکن سائنس، میڈیکل، انجینئرنگ اور دیگر علوم و فنون کا سارا مواد عبرانی زبان میں موجود ہے۔ وزیر محترم نے عالمی یومِ خواتین کے موقعے پر شائع ہونے والے قومی اردو کونسل کے نئے مجلے ماہنامہ ’خواتین دنیا‘ اور دو حصوں پر مشتمل نئی کتاب ’اردو صحافت کے دو سو سال‘ کا بھی اجرا کیا۔ محترم پرکاش جاوڈیکر نے قومی اردو کونسل کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ اردو کی ترقی کے لیے ٹھوس تجاویز پیش کریں تو حکومت ان پر سنجیدگی سے غور کرے گی اور ان تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ اٹھارہ ملکوں سے آئے ہوئے مندوبین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انھو ں نے کہا کہ اردو کو صرف ہندوستان نہیں بلکہ بیرونی ممالک میں بھی فروغ دینے کی کوشش کی جائے گی۔ انھوں نے اس موقعے پریہ بھی کہا کہ میں تمام زبانوں کا احترام کرتا ہوں۔

واضح رہے کہ سہ روزہ عالمی اردو کانفرنس کا افتتاح اشوک ہوٹل میں 17 مارچ کو کیا گیا تھا۔ اس کے بعد کے سارے اجلاس اسکوپ آڈیٹوریم لودھی روڈ نئی دہلی میں منعقد کےے گئے۔ سہ روزہ عالمی کانفرنس میں پر کناڈا سے تشریف لائے جاوید دانش نے اردو کے حوالے سے کچھ تجاویز پیش کیں۔ انھوں نے حکومت اور کونسل کے تعاون سے امریکہ، لندن، دوحہ(قطر) میں غالب چیئر کے قیام کی تجویز رکھی اور ڈیجیٹل دنیا میں اردو کو اور زیادہ بہتر اور موثر بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ ہندوستانی سفارت خانوں میں اردو سینٹرز کے قیام اور اردو کتب و رسائل کی فراہمی کی بھی تجویز رکھی۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر پروفیسر ارتضیٰ کریم نے عزت مآب پرکاش جاوڈیکر جی کی اردو دوستی کے جذبے کو سلام کیا اور یہ واضح کیا کہ قومی اردو کونسل کی ترقی کا سفر ان کی سرپرستی میں جاری ہے اور آئندہ بھی ان کی سرپرستی میں قومی کونسل ترقی کی نئی عبارتیں رقم کرے گی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ وزیرمحترم اردو کی ترقی کے لیے اتنے فکرمند ہیں کہ خود اردو زبان سیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ اس موقعے پرغیر ملکی مندوبین کو مرکزی وزیر محترم پرکاش جاوڈیکر،ڈاکٹر ظہیرآئی قاضی اور جناب احتشام عابدی کے ہاتھوں مومنٹو اور توصیفی اسناد بھی دی گئیں۔

اختتامی اجلاس سے قبل مقالات کا سیشن ہوا جس کی صدارت ظہیر آئی قاضی، پروفیسر اخترالواسع، ظہورالاسلام جاوید، پروفیسر عین الحسن، خواجہ عبدالمنتقم، قاسم خورشید اور معصوم عزیز کاظمی نے کی اور نظامت کے فرائض نہایت خوش اسلوبی سے جناب حقانی القاسمی نے انجام دیے۔ اس موقعے پر محترمہ زینب سعیدی (ایران)، نند کشور وکرم (دہلی)، خاقان قیوم جو(ترکی)، احمد اشفاق (قطر)، شہاب الدین احمد (قطر)، ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری (میرٹھ)، ڈاکٹر ایم سعیدالدین (چنئی) نے اپنے پرمغز مقالات پڑھے اور عالمی سطح پر اردو کی مجموعی صورتِ حال کا جائزہ پیش کیا۔ اردو کے مسائل اور متعلقات کے حوالے سے پرمغز گفتگو ہوئی۔ مقالہ خوانی کے بعد ’شامِ افسانہ‘ کا انعقادکیا گیا جس میں ہندوستان کے ممتاز افسانہ نگاروں نے اپنے افسانے پیش کیے۔اس کانفرنس میں ہندوستان کی بیشترریاستوں کے ممتاز قلم کاروں اور دانشوروں کے علاوہ دہلی کی تینوں جامعات کے طلبہ اور معززینِ شہر نے شرکت کی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں