12/5/17

نصابِ تعلیم میں انسانی اقدار کی تلاش! از ڈاکٹر مشتاق احمد

عہد حاضر میں عالمی برادری کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا انسانی سماج مختلف اقسام کے تشدد کا شکار ہے اور اس تشدد کی آگ نے یقیناً ہمارے سماج کی صالح وتعمیری اقدار کو شکست وریخت سے دوچار کردیا ہے اور اس کے اسباب پر جب ہم سنجیدگی سے غور وفکر کرتے ہیں تو ہہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ عصر حاضر میں بچوں کی تعلیم کے لیے جو نصاب مرتب کیا گیا ہے اس میں تحفظ انسانیت، اخلاقیات، سماجی مساوات، انصاف پسندی ، اجتماعی شعور اور اسلاف کے کردار وعمل کے اسباق کا فقدان ہے۔ اسکولوں اور کالجوں میں جو تعلیم دی جارہی ہے وہ طلبا کو صرف انفرادی زندگی جینے اور ان کو اپنی منزل تک پہنچانے کا راستہ دکھاتی ہے۔ ہمارا نصاب بچوں کو یہ سبق نہیں سکھاتا کہ ان کے اوپر ملک وقوم کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں، بالخصوص ہندوستان جیسے جمہوری نظام والے ملک میں اگر طلبا کے کردارو افکار میں تضاد رہتا ہے تو وہ کبھی بھی اجتماعی شعور کے مالک نہیں بن سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہماری نئی نسل سماج اور ملک کی بات تو دور وہ اپنے خاندان بلکہ اپنے والدین کے تئیں بھی حساس نہیں ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج نہ صرف مغرب بلکہ مشرقی ممالک میں بھی اولڈ ایج ہوم کا تصور فروغ پارہا ہے۔ ہندوستان جہاں کبھی ’شرون‘ پیدا ہوتا تھا، یہاں بھی اپنے ماں باپ کو اولڈ ایج ہوم پہنچانے والوں کی تعداد لاکھوں میں پہنچ گئی ہے۔

واضح ہوکہ بچوں کی معاشرت کا آغاز خاندان کے اندر ہوتا ہے پھر سماجی روابط کے ساتھ ساتھ اس میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ بچوں کو سماجی یا انسانی رشتوں کا درس اپنے ماں باپ، بھائی بہن اور اساتذہ سے ملتا ہے۔ اس بات پر تمام ماہرینِ تعلیم اور ماہرین علم نفسیات اتفاق رکھتے ہیں کہ بچوں کی نشو ونما میں اس کی بنیادی تعلیم کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ بنیادی تعلیم اس کے ذہن کو زرخیزی عطا کرتی ہے اور ثانوی تعلیم اس کے شعور کو پختگی بخشتی ہے، جب کہ کالج کی تعلیم اس کے اندر غور وفکر کرنے کی قوّت عطا کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ تعلیم کے ان مراحل میں نصاب کو کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے کہ بچے اپنے نصاب کے سہارے ہی درجہ بہ درجہ سفر طے کرتے ہیں۔ ہم اس حقیقت سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ انسان کے شعوری فروغ کا محور ومرکز تعلیم ہے، ایسی صورت میں اگر تعلیم کے اندر ہی انسانی ہمدردی اور سماجی شعور کے درس کا فقدان ہوگا تو آخر بچوں کے اندر کس طرح تعمےری فکر ونظر پیدا ہوگی۔ ایک عظیم فلسفی اور ماہر تعلیم سر ہینری واٹسن (1556-1639)نے بچوں کی تعلیم کے لیے خاکہ نصاب کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بڑی کارآمد بات کہی تھی کہ تعلیم کا مطلب ہے کہ طلبا کے اندر چھ  خوبیاں پیدا کی جائیں۔ (1) بچوں کو اپنا مذہب اور اپنی تہذیب سکھائی جائے، (2) اس کے اندر تجسس پیدا کیا جائے، (3) اس کے کردار کو مثالی بنایا جائے، (4) اس کے اندر انسانیت کا جذبہ پیداکیا جائے، (5) اس کے اندر قوتِ فیصلہ پیدا کی جائے اور (6) اس کو اخلاقیات کا سبق پڑھایا جائے۔ واضح ہوکہ واٹسن نے یہ بات 1626 میں کہی تھی اور اس وقت کے تعلیمی نصاب میں مذکورہ اسباق کو شامل کرنے کی انھوں نے وکالت کی تھی۔ اگر ہم ان اسباق پر غور وفکر کریں تو یہ عقدہ بہ آسانی اجاگر ہوتا ہے کہ واٹسن نے تعلیمی نصاب میں جن اجزا کی شمولیت کو لازمی قرار دیا ہے ان میں مذہب اور اخلاقیات بھی شامل ہیں، لیکن افسوس ہے کہ عصرِ حاضر میں ہم نے اپنے تعلیمی نصاب کو مذہب اور اخلاقیات کے اسباق سے کوسوں دور رکھا ہے۔ نتیجہ ہے کہ ہماری تعلیم حروف شناسی اور ڈگریوں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں تشدد کے واقعات میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے ، انسان دوستی کا چراغ بجھتا جارہا ہے اور تحفظ انسانیت کا شعور ختم ہوتا جارہا ہے۔ غرض کہ موجودہ تعلیم کی روشنی سے ایوان انسانیت میں روشنی کی بجائے تاریکی پھیلتی جارہی ہے۔ اسی طرح شوپنہار نے بھی اپنی کتاب ’پریرگا‘ (Parerga) میں اپنے فلسفہ تخلیق، نظریہ حیات انسانی اور جہدالبقا پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ بات کہی ہے کہ ”انسان کی زندگی اسی وقت صحت مند اور صالح عقل سلیم کی آئینہ دار بن سکتی ہے جب بچپن میں اس کی آبیاری صحت مند قدروں سے کی جائے۔“ بلا شبہ جب تک تعلیم کے ذریعے صالح انسان نہیں پیدا کیے جائیں گے اس وقت تک انسانی معاشرہ تحفظِ انسانیت کا گہوارہ نہیں بن سکتا۔ آج باہری دنیا کی بات تو چھوڑیے اب اسکول اور کالج کے احاطے بلکہ کلاس روم میں بھی غیر انسانی فعل کے واقعات رونما ہونے لگے ہیں۔ چند سال قبل امریکہ کے ایک اسکول میں ایک طالب علم نے اپنے دس ساتھیوں کو گولیوں سے بھون ڈالا تھا جب کہ ہندوستان میں چنئی کے ایک اسکولی طالب علم نے اپنی استانی کو ہی محض اس لیے گولی مار دی کہ اس نے سبق یاد نہیں کرنے پر اس کو کلاس میں کھڑا کردیا تھا۔یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ کاش ہم نے بہت پہلے اردو کے ایک دانش ور شاعر اکبر الٰہ آبادی کے اس شعر کی روشنی میں اپنے اسکول وکالج کے نصاب کو ترتیب دیا ہوتا تو شاید کم از کم ہمارے ملک ہندوستان کی اسکولی تعلیم کے نصاب میں انسانی اقدار کے اسباق کا فقدان نظر نہیں آتا۔ اکبر الٰہ آبادی نے نصابوں میں انسانی اقدار اور اخلاقیات کے اسباق نہ ہونے پر اپنی ناراضگی اور فکر مندی کا اظہار یوں کیا تھا: 
ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں

اور اکبر الٰہ آبادی نے انسان کی زندگی میں علم کی کیا اہمیت ہے اس پر بھی روشنی ڈالی تھی: 
سب جانتے ہیں علم سے ہے زندگی کی روح
بے علم ہے اگر تو وہ انساں ہے ناتمام
بے علم وہنر ہے جو دنیا میں کوئی قوم
نیچر کا اقتضا ہے کہ بن کر رہے غلام

واضح ہوکہ انسان دو ذرائع سے علم حاصل کرتا ہے، ایک علم بالوحی ہے یعنی مذہبی کتابوں کے ذریعے علم حاصل کرنا، دوسرا علم بالسعی یعنی انسان اپنے معاشرے اور اسلاف کے کردار وعمل کے مشاہدات وتجربات سے حاصل کرتا ہے۔ ہم مذہبی کتابوں میں تو کوئی تبدیلی نہیں کرسکتے جب کہ علم بالسعی میں تغیر زمانہ کے مدِنظر تبدیلی لاسکتے ہیں۔ تمام مذاہب میں تعلیم کو انسانی زندگی کی بقا کا ضامن بتایا گیا ہے۔ مذہب اسلام میں قرآن وسنت کی تعلیم کو فرض قرار دیا گیا ہے اور قرآن وسنت کا علم انسان کو نہ صرف اس کے مقصد حیات سے واقف کراتا ہے بلکہ اسے انسانی حقوق وفرائض سے بھی آشنا کراتا ہے۔ سناتن دھرم یعنی ہندو مذہب تعلیم کا مفہوم کائنات کو سمجھنے اور انسان بننے کی تلقین کرتا ہے۔ عیسائی، سکھ، بودھ اور جین مذہب کی کتابوں میں تعلیم کا مفہوم ایک مکمل انسان کی تعمیرو تشکیل بتائی گئی ہے۔ انگریزی لفظ ’ایجوکیشن‘ (Education) جو لاطینی لفظ Educere سے مشتق ہے کے معنی بچوں کی ہمہ جہت پرورش ہے۔
تعلیمی نصاب کی تاریخ تقریباً تین سو سالہ سفر طے کرچکی ہے اور اس راہ منزل کے سنگ میل کومینس، پستالوزی، روسو، ہربارٹ، واٹسن، مارگریٹ مالیان، فریڈریک فروبیل، ماریا مانٹیسری، سرسیّد، مہاتما گاندھی، مولانا ابوالکلام آزاد، سرو پلی رادھا کرشنن، رابندر ناتھ ٹیگور، مسز اینی بیسنٹ اور ڈاکٹر ذاکر حسین جیسے ماہرین تعلیم نے خاکہ نصاب کی اہمیت وافادیت پر بھرپور روشنی ڈالی ہے اور بالخصوص بنیادی تعلیم کے نصاب کو اخلاقی تعلیم سے آراستہ وپیراستہ کرنے کی وکالت کی ہے۔ بچوں کے لیے بنیادی تعلیم کے طریقۂ کار کے موجد فریڈریک فروبیل جس نے جرمنی میں K.Gیعنی کنڈر گارٹن اسکول کی بنیاد رکھی تھی، اس نے بچوں کی ذہنی نشو ونما میں اخلاقی اسباق اور کھیل وثقافت کو لازمی جزو قرار دیا تھا۔ اسی طرح نرسری اسکول کے موجد مارگےریٹ ملیان نے بچوں کے اندر سماجی شعور پیدا کرنے کی وکالت کی ہے اور مانٹیسری اسکول کی موجد ماریا مانٹیسری جس نے 1907 میں اٹلی میں ایک مانٹیسری اسکول قائم کیا تھا، اس نے بھی بچوں کے لیے طریقہ تعلیم ترتیب دیتے وقت بچوں کی متوازن نشوونما اور ان میں خود انضباطی صفت پیدا کرنے اور ان کے حواس خمسہ کی صحیح تربیت کے اسباق کی شمولیت کو لازمی بتایا ہے۔ ہمارے ملک ہندوستان میں جب پہلا کانونٹ اسکول لوریٹا کانونٹ 1874 میں قائم ہوا تو اس کے نصاب میں بھی اخلاقی اسباق کی اہمیت تسلیم کی گئی۔ بعدہٗ رابندرناتھ ٹیگور اور مسز اینی بیسنٹ نے بھی مشترکہ طور پر اسکولی نصاب ترتیب دیا اور پرائمری تعلیم کے خطوط واضح کیے۔ مہاتما گاندھی نے 1937میں جو اپنا تعلیمی تصور پیش کیا اس میں بھی اخلاقی تعلیم کی وکالت کی اور جب ڈاکٹر ذاکر حسین کی صدارت میں ایک تعلیمی کمیٹی تشکیل دی گئی تو اس کی رپورٹ میں بھی جو بنیادی تعلیم سے متعلق سفارشیں کی گئی تھیں ان میں بھی دستکاری، جسمانی اور اخلاقی اسباق کو شامل کرنے پر زور دیا گیا تھا۔ اس کے بعد بھی پرائمری تعلیم کے لیے کھیر کمیٹی (1939)، سارجنٹ رپورٹ (1944)، سکینڈری ایجوکیشن کمیشن (1953)، کوٹھاری کمیشن(1966) اور نئی تعلیمی پالیسی(1986) میں بھی بنیادی تعلیم کے نصاب میں انسانی اقدار اور سماجی ومذہبی اخلاقیات کی تعلیم پر زور دینے کی تلقین کی گئی تھی اوران تمام سفارشات کا مقصد صرف یہ تھا کہ تعلیم کے ذریعے ایک صالح فرد پیدا کیا جائے تاکہ اس کی تعمیری فکر ونظر کی بدولت ایک مثالی معاشرہ تشکیل پا سکے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین نے 20 اکتوبر 1962 کویونیورسٹی آف جموں وکشمیر کے جلسہ تقسیم اسناد سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:

”تعلیم کا مقصد نمو پذیر ذہن اور تمدنی اشیا کے درمیان، جن میں روز مرہ استعمال کی چیزیں، سماجی جماعتیں، جمالیات، ادبی اور تکنیکی کامیابیاں، فلسفہ اور مذہب جیسی چیزیں جو ماحول میں تشکیل پاتے ہوئے ذہن کی تجسیم ہوتی ہیں، شامل ہیں۔ تعلیم نئی نسلوں اور پیڑھیوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ اپنی کامرانیوں میں زندہ رہنے والے لوگوں اور ان لوگوں کے درمیان رابطہ ہے جن کے لیے کامرانیاں تفہیم کا ایک ذریعہ ہے۔ تعلیم مزید تخلیق کے لیے ایک مہمیز ہے، تکمیل اور خود افروزی کی رہنما ہے۔“    (اعلیٰ تعلیم- ڈاکٹر ذاکر حسین، مترجم مسعودالحق، ص131-132)

پروفیسر ہچینگ(Hutchings) جس نے امریکہ کے تعلیمی نظام میں ایک بڑا انقلاب پیدا کیا ، نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ’ یونیورسٹی آف یوٹوپیا‘ میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ کسی بھی ملک وقوم کی تقدیر تعلیم کے ذریعے ہی بدلی جاسکتی ہے، لیکن تعلیم اسی وقت با مقصد اور انسانی برادری کے لیے فلاح وبہبود کی ضامن بن سکتی ہے جب اس کا تعلیمی نصاب صحت مند فکر ونظر کا درس دیتا ہو۔ اسی طرح ڈاکٹر المہرسٹ (Elmhirst) کا خیال ہے کہ علم بے کار ہے اگر وہ پُراسرار جتھے یا گروہ کے نجی فیصلے میں رہتا ہے۔ علم میں نجات دلانے والی توانائی اور زندگی بخشنے والی قوت صرف اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ سماجی زندگی اور انسانی شعور کے اسباق سے لبریز ہوتی ہے۔

بلاشبہ تعلیم کا ایک واضح اخلاقی تصور ہے جو انسان کے اندر حقیقی سماجی شعور کو بیدار کرنے کا وسیلہ بنتا ہے اور انسانی معاشرے کو حساس بناتا ہے اور یہی اجتماعی شعور ایک فرد کو انسانی معاشرے کے تحفظ کا علمبردار بناتا ہے لیکن یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب ہم بنیادی تعلیم سے ہی اپنے بچوں کے اندر انسانی اقدار اور سماجی شعور کا چراغ روشن کریں گے۔ اس کے لیے طریقۂ تعلیم یعنی نصابی خاکہ کو مفید بخش نظریے کا حامل بنانا ہوگا۔ ڈاکٹر ذاکر حسین کی یہ بات حرف بہ حرف صداقت پر مبنی ہے:

”اگر تعلیم کا مقصد واقعی تعلیم دینا یعنی ذہن کی مکمل نشوونما میں مدد کرنا ہے اور ہماری قومی زندگی کو درپیش کارکردگی اور اخلاقی دیانت داری کے دو بڑے بحرانوں کے تدارک میں معاون ہونا ہے اور یہ مدد صرف تعلیم ہی کرسکتی ہے تو ہمارے تعلیمی اداروں کو اسکول سے یونیورسٹی تک سب کو فعال ذہنی کاموں کے مراکز، مشترکہ تجربات اور مشترکہ اقدار کی برادریاں بننا ہوگا۔ یہ سمجھانے کی غالباً ضرورت نہیں ہے کہ اسکول اور یونیورسٹی دونوں کے کاموں کی حدود، ان کی نوعیت اور ان کی اہمیت الگ الگ ہوگی۔ انھیں اپنے آپ کو مجہول تاثر پذیری کے بجائے خودرو فعالیت کے مراکز بنانے ہوں گے۔ معلومات کے محض حصول کے بجائے معلومات کے استعمال، انفرادی مسابقتی ولولوں کی بجائے خدمت کے سماجی تعاون کے جذبے کے مراکز مےں تبدیل کرنا ہوگا، ذہنی یک سمتی کی جگہ پر عملی انسانی ہمہ جہتی کو اپنانا ہوگا۔“ (خطبہ جلسہ تقسےم اسناد، اتکل ےونےورسٹی کٹک،6 دسمبر1959، مشمولہ کتاب اعلی تعلےم، ص55-56)

جب 1986 مےں نئی تعلےمی پالےسی تےار کی جارہی تھی تو اس مےں بھی موجودہ تعلےمی نصاب بالخصوص اسکولی نصاب میں بڑی تبدیلی کی وکالت کی گئی تھی اور مجوزہ تعلیمی پالیسی کے تحت بنیادی اسکول کے نصاب میں Ten core elements کو شامل کرنے کی تلقین کی گئی تھی اور تمام ریاستوں کی حکومتوں کو یہ ہدایت دی گئی تھی کہ اسکولی نصاب میں ان دس بنیادی اجزا کو خصوصی اہمیت دی جائے۔ یہاں ان دس بنیادی اجزا کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں جو مندرجہ ذیل ہیں:
(1) ہندوستان کا مشترکہ ثقافتی ورثہ
(2) ہماری آئینی اور دستوری ذمے داریاں
(3) قومی تشخص و وقار کے لیے اقدام
(4) ہندوستان کا مشترکہ تہذیبی ورثہ
(5) مساوات، مذہبی رواداری اور جمہوری اقدار کی پاسداریاںٍ
(6) مساوات مرد وزن
(7) تحفظ ماحولیات
(8) سماجی برائیوں اور رسومات کا خاتمہ
(9) چھوٹے خاندان کی اہمیت اور
(10) سائنسی رجحان کا فروغ

مذکورہ نصابی اجزا پر غور وفکر کیجیے تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ مجوزہ تعلیمی پالیسی بنانے والوں کو بھی درپیش یہی مسئلہ تھا کہ ملک کا موجودہ تعلیمی نصاب ناقص ہے اور اس میں ایک بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے مگر افسوس صد افسوس کہ اس نئی تعلیمی پالیسی کے نفاذ کے بعد بھی جو تعلیمی نصاب مرتب کیے گئے اس میں مذکورہ اجزا کی صد فیصد شمولےت نہےں ہوئی۔ دراصل آزادی کے بعد سے اب تک تعلےمی شعبے مےں تجربے ہی تجربے ہورہے ہےں۔ آزادی سے قبل میکالے کی تعلیمی پالیسی جس کا مقصد صرف اور صرف انگریزی حکومت کے لیے دفتری کلرک پیدا کرنا تھا اس نے ہم ہندوستانیوں کو تعلیم کے اصل مطالب ومقاصد سے کوسوں دور کردیا۔ آزادی کے بعد جمہوری نظام ہونے کی وجہ سے حکومت کا بدلنا تو فطری عمل ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ہم اچھی بری تمام چیزوں کو بدلنے کی کوشش شروع کردیتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ حکومت بدلنے کے ساتھ ساتھ پالیسیاں نہیں بدلنی چاہیے، بلکہ میرا مدعا صرف یہ ہے کہ جو پالیسی ملک وقوم کے مفاد میں ہو اس پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ یورپ کا ایک عظیم ماہر تعلیم رابرٹ موراں جس نے 1904 سے 1926 تک صرف اسکولی تعلیم پر تحقیق کی تھی، اس نے بھی یہ کہا تھا کہ ہندوستان میں جو تعلیم گروکل اور مدارس میں دی جاتی تھی وہ ایک انسان کو مکمل طور پر انسان بناتی تھی اور آج کی تعلیم انھیں حرف شناس بنارہی ہے۔ غرض کہ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے اسکولی نصابوں میں اخلاقی قدروں کی تعلیم پر زیادہ زور دینا چاہیے۔ اسکول انتظامیہ اور معلم اپنے طالب علموں کو ملک کی تہذیبی وراثت، عظیم رہنماﺅں کے کردار وعمل ، صوفیوں اور سنتوں کے پیغامات کے علاوہ مذہبی اسباق سے روشناس کرائیں۔ طالب علموں کو صرف اسکولی احاطے تک ہی مہذب رہنے کا سبق نہ سکھایا جائے بلکہ ان کے اندر قومی اور سماجی فرائض بالخصوص احساس تحفظ انسانیت پیدا کیا جائے۔ اگر اسکولی احاطے میں طلبا کو نسل پرستی، تشدّد، عدم رواداری اور تعصبات ومنافرت سے پرہیز کرنے کی تعلیم دی جائے تو ممکن ہے کہ ہمارے بچے منفی فکر کے دائرے سے باہر نکل کر تعمیری فکر ونظر کے علمبردار بن جائیں۔ ہندوستان کے ایک معروف سیاسی مفکر راج گوپالاچاری نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ ”اگر ہندوستان کے تمام لوگ اپنے اپنے مذہبوں، سماجی فرائض اور انسانی قدروں پر ایمان داری سے عمل کرنے لگیں تو ملک سے قتل وغارت گری، بدامنی اور فرقہ پرستی کا خاتمہ خود ہی ہوجائے گا۔

بلاشبہہ ہندوستان کی سماجی زندگی میں مذہب کو روح کی حیثیت حاصل ہے اور کیوں کر نہ ہو کہ یہاں رام اور کرشن کا جنم ہوا ہے جنھوں نے انسانی برادری کو آپسی بھائی چارہ اور امن کی تعلیم دی، گوتم بدھ اور مہابیر پیدا ہوئے جنھوں نے سماج سے اونچ نیچ اور بھید بھاﺅ کو مٹا کر ایک مساواتی سماج کا تصور دیا۔ مذہب اسلام کے پیشواﺅں اور صوفیوں نے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلیم کے پیغامات کو گھر گھر پہنچانے کا کام کیا اور ایک انسان کو دوسرے انسان سے محبت سے پیش آنے کا ابدی سبق سکھایا، گرو نانک جی نے ’نہ تو مسلمان نہ تو ہندو‘ کہہ کر سارے انسانوں کو ایک دوسرے کا احترام کرنے کا سبق پڑھایا۔ ایسے کثیر المذاہب، کثیر التہذیب وتمدن والے ملک میں اگر انسانیت دم توڑ رہی ہے اور ہمارا سماج تشدّد کا شکار ہے تو اس مسئلے پر سر جوڑ کر نہ صرف بیٹھنے کی ضرورت ہے بلکہ ملک کے تعلیمی نصاب کو اسباق فلاح بہبود وبشر کے اجزا سے مزین کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ تعلیم کے ذریعے ہی ہم اپنی معاشرتی بیماریوں کو دور کرسکتے ہیں۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں