26/5/17

ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم کی صورتِ حال


طلبا کی تعداد کے لحاظ سے چین اور امریکہ کے بعد ہندوستان کا اعلیٰ تعلیمی نظام دنیا کاتیسرا بڑا اعلیٰ تعلیمی نظام ہے۔ تاہم چین کے برعکس ہندوستان کی اعلیٰ تعلیم و تحقیق کی بنیادی زبان عمومی طور پر انگریزی ہے جس سے اس کی وسعت دوسری زبانوں میں کی ہوئی تحقیق کے مقابلے بڑھ جا تی ہے لیکن دوسری طر ف یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندوستان میں صرف 11 فیصدعوام کو اعلیٰ تعلیم تک رسائی حاصل ہے۔ اس کے برعکس چین میں 20 فیصد لوگوں تک اعلیٰ تعلیم کی رسائی ہے۔ ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم کے اہم اداروں میں یونیورسٹیاں اور ان سے منظور شدہ/ ملحقہ کالج شامل ہیں۔ فی الوقت ہندوستان میں حکومت سے منظور شدہ تقریباً 769 یونیورسٹیاں ہیں۔ ان میں 47 مرکزی یونیورسٹیاں، 123ڈیمڈیونی ورسٹیاں،14اوپن یونیورسٹیاں اور 353 ریاستی سطح کی یونیورسٹیاں ہیں۔ ریاستی یونیورسٹیوں کے اپنے الحاق شدہ کالج ہیں جہاں گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن سطح تک کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ہندوستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کے رجحان سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا ملک جلد ہی چین کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کا سب سے کثیر آبادی والا ملک بن جائے گا نیز ہندوستان معیشت کے میدان میں 7-8 فیصد سالانہ کی اوسط ترقی (Gross Domestic Product) کی رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں متوسط طبقے کے درمیان اعلیٰ تعلیم کی مانگ میں اگلے دس برسوں میں 500ملین سے زائد لوگوں کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ہندوستان کے تعلیمی نظا م بالخصوص اعلیٰ تعلیمی نظام کا اصل موقف طبقہ اشرافیہ کی خدمت /مدد فراہم کرنا تھا۔ آزاد ہندوستان میں اعلیٰ تعلیمی نظام کا موقف بدل چکا ہے۔ اب اسے عوام کی معاونت اور فلاح و بہبود کوپیش نظر رکھ کر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ بالخصوص ابھرتے ہوئے نئے تکنیکی منظر نامے کے پیشِ نظر ہمارے تعلیمی نظا م میں جدید کاری اور تبدیلی لازمی ہوگئی ہے۔

جب ہم اعلیٰ تعلیم میں تبدیلی کے سیاق و سباق پر غور کرتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ہمارا تعلیمی نظام ایک غیر معمولی تبدیلی کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ اس کی اصل وجہ ہماری بڑھتی ہوئی معیشت و ڈیمو گرافک تبدیلی ہے۔ ہندوستان سال 2020تک دنیا کی سب سے بڑی مڈل کلاس آبادی والے ملک کے ساتھ ایک بڑی معیشت بن کر ابھرے گا۔ گذشتہ دس برسوں میں اہم پیش رفت کے باوجود ہندوستانی اعلیٰ تعلیمی نظام متعدد چیلنجوں کا سامنا کر رہا ہے۔ ان میں سب سے بڑا چیلنج طلب اور فراہمی کے درمیان ایک طویل خلا کا ہونا ہے۔ ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم میں داخلوں کی شرح ( 16فیصد ) دوسرے ہم پلہ ممالک کے نسبتاً کم ہے۔ جب کہ چین میں اعلیٰ تعلیم میں داخلوں کی شرح 26فیصد اور برازیل میں36 فیصد ہے۔ ہمارے یہاں فی الوقت اعلیٰ تعلیم کی دستیابی مانگ کے مطابق نہیں ہے۔ جب کہ ہماری حکومت 2020تک مجموعی داخلے (Gross Enrolment Rate) کی شرح کو 18فیصد سے بڑھاکر 30 فیصد تک لے جانا چاہتی ہے۔ اس ضمن میں دوسری سب سے بڑی مشکل ہمارے یہاں تعلیم کا کمزور معیارہے۔ دراصل ہمارا اعلیٰ تعلیمی نظام معیار کے متعدد مسائل مثلاً اساتذہ کی سخت قلت، غیر معیاری تدریس، فرسودہ اور زمانے سے مناسبت نہ رکھنے والا نصاب ‘ تدریسیات کی عدم احتسابی، معیار کی عدم ضمانت (Ineffective quality assurance) اور تعلیم و تحقیق کو الگ الگ نہ کیے جانے(Segregation of Education and Reserach) جیسے مسائل سے گھرا ہواہے۔

 تحقیق میں جدت کا فقدان اور ان سے وابستہ دیگر بندشیں بھی ہماری مشکلوں میں مزید اضافہ کرتی ہیں۔ ہمارے یہاں تحقیق میں داخلوں کی شرح اچھی نہیں ہے نیز اعلیٰ معیار کے محققین کا فقدان ہے۔ بین الکلیاتی اور کثیر شعبہ جاتی کام کرنے والوں کو بھی مواقع حاصل نہیں ہوتے۔ ہمارے ریسرچ اسکالروں میں ابتدائی مرحلے کے تحقیقی تجربے کی کمی بھی محسوس کی جاتی ہے۔ ان سب کے علاوہ ہندوستان میں جدّت طرازی کے لیے کمزور ماحولیاتی نظام‘ تحقیق کرنے والوں کو صنعتی سرپرستی حاصل نہ ہونا جیسی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نیز ہندوستان کی مکمل آبادی کو یکساں ترقی اور مواقع تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ نیز سماجی و معاشرتی یکسانیت نہیں ہونے کے سبب ہندوستان کی آبادی ڈیموگرافی کی سطح پر کئی حصوں میں منقسم ہے۔ دوسری طرف کثیرالابعاد عدم مساوات- (Multi-Dimensional Inequality) کے سبب ملک کے وسیع جغرافیائی حصے و طبقے میں پھیلی ہوئی مکمل آبادی کو اعلیٰ تعلیم تک رسائی حاصل نہیں ہے۔

’ہندوستان میں اقتصادی ترقی‘ -2920  سال کے نوجوانوں کی کثیر آبادی ‘ موجودہ بین الاقوامی صورت حال ‘ وسیع تر عالمی عوامل اور تعلیم کی عالم گیریت وغیرہ وہ عوامل ہیں ‘ جو اگلے 10برسوں میں ہندوستان کے تعلیمی نظام کو نہ صرف متاثر کریں گے بلکہ یہ تحقیق کے لیے مالیہ (فنڈ کی فراہمی ) کی شرائط کو اس قدر بدل دیں گے کہ تعلیمی ادارے ایک تجارت و صنعت کی حیثیت حاصل کرلیں گے۔ ہندوستانی معیشت میں اضافے کے سبب 2025 تک ملک کی کثیر نوجوان آبادی کے درمیان ثانوی و اعلیٰ تعلیم کی مانگ میں خاصا اضافہ ہوگا۔ قیاس یہ ہے کہ ثانوی اعلیٰ تعلیم کی مانگ اس حد تک بڑھ جائے گی کہ مانگ کے مطابق فراہمی مشکل ہوگی۔ثانوی و اعلیٰ تعلیم کے خواہاں وہ لوگ ہوں گے جو حکومت کی مالی معاونت کے بغیر اپنے تعلیمی اخراجات کو بخوبی برداشت کر سکیں گے۔

دراصل معیشت یا گھریلو پیداوار کے اضافے سے ثانوی و اعلیٰ تعلیم کی مانگ میں اضافہ ہونا لازمی ہے۔ یہ شرح اضافہ خصوصاً ان ممالک میں اور زیادہ بڑھ جاتی ہے جن ملکوں میں گھریلو پیداوار (GDP) کی شرح پہلے سے کمزور ہوتی ہے۔ ہندوستان کی مضبوط ہوتی ہوئی معیشت میں پہلی نسل کے تعلیم یافتہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم تک رسائی کا مطالبہ کرے گی۔ آئندہ 10برسوں میں یہاں تقریباً ڈھائی کروڑ خاندان (Household) ایسے ہوں گے جن کی آمدنی 10لاکھ روپے سالانہ سے تجاوز کر جائے گی۔ ظاہر ہے یہ طبقہ اس قابل ہو گا کہ اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم پر ہونے والے اخراجات کو بخوبی برداشت کرسکے گا۔ تا ہم یہ ترقی نا ہموار ہوگی۔ نتیجتاً سب سے بڑی چنوتی یہ ہوگی کہ ہمارے یہاں ایک طرف وہ طبقہ ہوگا جن کے پاس بہتر زندگی کے مواقع میسر ہوں گے۔ دوسری طرف وہ لوگ ہوں گے جن کی بہتر زندگی تک رسائی حاصل نہیں ہوگی۔ پرائمری اندراج کی شرح میں بڑی کامیابی حاصل کرنے کے باوجود بھی آﺅٹ آف اسکول ( Out of School) بچوں کی تعداد افریقی ملکوں کے مقابلے ہمارے یہاں سب سے زیادہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان کی 69فیصد آبادی آج بھی اپنے اوپر 100روپیہ روزانہ سے کم خرچ کرتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ عالمی بینک نے ہندوستانی معیشت کو دوہری معیشت کے زمرے میں رکھا ہے۔

ہندوستان ثانوی تعلیم کے حصول کی خواہاں آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ فی الحال ہندوستان کی نصف آبادی سے زیادہ کی عمر ابھی اوسطاً 25 برس سے کم ہے۔ OECDکی ایک رپورٹ کے مطابق 2020 تک دنیا بھر میں 25-34سال عمر والے 20کروڑ لوگ کسی نہ کسی یونیورسٹی سے فار غ التحصیل ہوں گے۔ ان میں 40فیصد چین اور ہندوستان سے ہوں گے۔ اس طرح ہندوستان اور چین عالمی طور پر باصلاحیت لوگوں (Global Talent Pool) کے ایک بڑے تناسب کی نمائندگی کریں گے۔

2020تک ہندوستان میں 4کروڑ لوگ اعلی تعلیم کے لیے کوشاں ہوں گے جو موجودہ تعداد سے تقریبا ڈھائی گنا زیادہ ہوگا۔ گذشتہ دہائی میں ہمارے یہاں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں نمایاں ترقی رونما ہوئی ہے۔ اب ہندوستان اعلیٰ تعلیم فراہم کرنے والے اداروں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک اور طلبا کی تعداد کے لحاظ سے دوسرا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔ تاہم اپنی مثالی ترقی کے باوجود اعلیٰ تعلیم میں مجموعی داخلہ تناسب (Gross Enrolment Number) کے لحاظ سے ہندوستان ابھی بہت پیچھے ہے۔ یعنی یہاں داخلے کاتناسب ابھی بھی 20فیصد تک ہی ہے جب کہ عالمی داخلہ تناسب 30فیصدسے تجاوز کر چکا ہے۔ مجموعی داخلہ تناسب کی سطح پر جب ہم اپنا موازنہ اپنے پڑوسی ملک چین یا برازیل سے کرتے ہیں تو اپنے آپ کو ان ممالک کی صف میں نہیں پاتے۔ 2010کی رپورٹ کے مطابق چین اور برازیل میں مجموعی داخلہ تناسب بالترتیب 26فیصد اور 36فیصدتھا۔

فی الحال ہندوستان میں تقریباً 3کروڑ طلبا و طالبات ثانوی سطح کے اداروں میں اندراج کراچکے ہیں۔ اس حساب سے ہمیں 2020تک 800یونیورسٹیوں اور 40000 کالجوں کی ضرورت ہوگی۔ اتنی تعداد میں یونیورسٹیوں اور کالجوں کا قیام وہ بھی اتنی کم مدت میں ایک دشوار مرحلے کے ساتھ مالی اخراجات کے بوجھ کو بڑھانے والا ہدف ہے۔ اس لیے حکومت نے اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے جرأت مندانہ منصوبہ بنایا ہے جس میں پرائیویٹ و بیرونی تعلیمی اداروں کو فروغ دینا اور ان کے قیام میں آنے والی رکاوٹوں کو آسان کرنا شامل ہے۔ ہندوستان میں ثانوی اور اعلیٰ سطح کی تعلیم فراہم کرنے والے اداروں کی درجہ بندی تین قسموں میں کی جاسکتی ہے (1) یونیورسٹی اور یونیورسٹی سطح کے ادارے،(2)کالج،(3)ڈپلوما فراہم کرنے والے ادارے۔ اسی طرح فنڈ کی فراہمی کی سطح پر ان اداروں کو تین زمرے میں رکھا جاسکتا ہے :

ہندوستان میں اعلیٰ تعلیمی ادارے
ادارے کی نوعیت/ تعداد                                     مرکزی      ریاستی      پرائیویٹ    کل تعداد
یونیورسٹی اوریونیورسٹی  سطح کے ادارے              152         316         191         659        
 کالج                                                                669         13024    19930    33023
ڈپلوما دینے والے ادارے                                      0             3207       9541     12748
داخلوں کی فیصد                                               %2.6       %38.6    %58.9    %100
 (ماخذ :بھارت میں اعلیٰ تعلیم :بارہویں پنچ سالہ منصوبہ اور اس کے آگے ، ارنٹ اینڈ نیگ )

دراصل یونیورسٹیوں سے الحاق شدہ کالج ہندوستان کے اعلیٰ تعلیمی نظام کا اہم و مضبو ط ڈھانچہ ہیں۔ طلبا کی ایک وسیع تعداد انھیں ریاستی یونیورسٹیوں سے الحاق شدہ سرکاری اور غیر سرکاری کالجوں میں اعلیٰ تعلیم کے لیے اپنا رخ کرتی ہے۔یہ تمام کالج کسی نہ کسی یونیورسٹی سے ملحقہ ہوتے ہیں۔ انھیں اپنی ڈگری دینے کااختیار حاصل نہیں ہوتا۔ ہندوستان میں الحاق شدہ کالج بڑی تعداد میں ہیں۔ جہاں ملک کے 90فیصد سے زیادہ انڈر گریجویٹ طلبا 70فیصد پوسٹ گریجویٹ اور 17فیصد ڈاکٹریٹ کے طلبا مندرج ہیں۔ بعض یونیورسٹیوں میں الحاق شدہ کالجوں کی تعداد 1000تک پہنچ چکی ہے۔ الحاق شدہ کالجوں کی اتنی بڑی تعداد کا نظم و نسق اور کوالٹی کنٹرول ایک چیلنج ہے۔ کچھ کالجوں کو چھوڑ کر اکثریت میں معیار کا فقدان ہے۔ اس طرح ریاستی یونیورسٹیاں اپنی مختلف سرگرمیوں کے ذریعے ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم کی فراہمی میں ایک اہم کردار نبھاتی ہیں۔ یہ تمام یونیورسٹیاں اپنی متعلقہ ریاستی حکومتوں کے ذریعے مالی امداد حاصل کرتی ہیں۔ یونیورسٹیوں کی مالی امداد کی رقم مختلف ریاستوں میں مختلف نوع کی ہیں۔ لیکن صحیح صورت حال یہ ہے کہ گذشتہ 20برسوں سے ریاستی یونیورسٹیوں کی مالی امداد میں خاصی کمی آئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کالجوں سے حاصل شدہ فیس اور حکومت کی مالی امداد سے ریاستی یونیورسٹیاں تدریسی عملے اور غیر تدریسی عملے کی تنخواہیں دینے کے علاوہ نیا کچھ نہیں کر پاتیں۔ اکثر یونیورسٹیوں میں تدریس اور اکتساب کے لیے درکار لازمی ڈھانچے دستیاب نہیں ہیں۔ ان اداروں میں استعداد رہتے ہوئے بھی تحقیق کی طرف کوئی مائل نہیں ہو پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر طلبا کا لجوں کی بجائے یونیورسٹیوں میں داخلے لینا پسند کرتے ہیں۔ ریاستی یونیورسٹیوں کا زیادہ تر وقت ان سے منسلک کا لجوں میں داخلے اور امتحانات کا نظم ونسق سنبھالنے میں ہی ختم ہو جاتا ہے۔

دوسری طرف نج کاری کے سبب ثانوی تعلیم کے فروغ میں ریاستی حکومتوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے پرائیوٹ سیکٹر کی طرف سے نت نئے کالجوں کا قیام عمل میں آ رہا ہے۔ نجی شعبے اعلیٰ تعلیم کے میدان میں بڑی تیزی سے اپنا جال بچھا رہے ہیں۔ آج ثانوی سطح کے تقریباً 59فیصد طلبا انھیں اداروں میں مندرج ہیں۔ فی الحال پرائیوٹ یونیورسٹیوں کا قیام بڑی تیزی سے عمل میں آ رہا ہے اور ہر سال اس میں تقریباً 40فیصد کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم کو درپیش مسائل کو چار زمروں میں رکھا جاسکتا ہے۔

(1)تدریس اور اکتساب کا کمزور معیار،
(2) فراہمی او ر طلب میں خلا،
(3)نا ہموار ترقی اور مواقع تک رسائی،
(4) تحقیق اور جدت طرازی کی کمی۔ 

صحیح معنوں میں ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم کو درپیش سب سے بڑا چیلنج اساتذہ کی شدید کمی ہے۔ مختلف رپورٹوں کے سامنے آنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ 30-40 فیصد اساتذہ کے عہدے خالی پڑے ہیں۔ زیادہ تر اساتذہ کو موجودہ تعلیمی چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی ٹریننگ نہیں دی گئی ہے۔ ان کے علاوہ تدریس اور اکتساب سے جڑے ہوئے دوسرے مسائل اس طرح ہیں:

٭      فرسودہ اور غیر لچک دار نصاب اور کورس کے مواد اور مہارت کی ترقی میں Employer کی غیر موجودگی، نیز بین الکلیاتی تعلیم کے لیے بہت کم مواقع

٭      ہماری تدریسیات اور اندازۂ قدر (Assessment) کا انحصار کم و بیش رٹ کر یاد کرنے (Rote Learning) اورInput کی بنیاد پر ہونا، طلبا کو تنقیدی سوچ کے لیے راغب نہ کرنا‘ تجرباتی استدلال‘ مسئلہ کوحل کرنے اور باہمی تعاون کے ساتھ کام کرنے نیز ایک وسیع تناظر و بین الکلیاتی مہارتوں ( Skills Transversal) کے مواقع حاصل نہ ہونا۔

٭     طلبا اور اساتذہ کا تناسب میں کافی فرق ہونا۔ دراصل تدریسی عملے کی کمی اور زیادہ سے زیادہ طلبا کے داخلے کے دباﺅ سے طلبا و اساتذہ کا تناسب بگڑ جاتا ہے۔

٭      تحقیق و تدریس کی علیحدگی : طلبا کو ابتدائی مرحلے کی تحقیقی تجربے کی کمی۔

٭     ایک غیر موثر کوالٹی اشورینس (معیار کی ضمانت ) کا نظام، اور ریاستی و مرکزی اداروں، طلبا اور دیگر Stakeholders کی طرف سے احتساب کا مکمل فقدان۔

ان ہی اسباب کی وجہ سے نہ صرف ہندوستان میں بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں Low Employability گریجوٹس کی تعداد روز بہ روز بڑھتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف ہمارے ملک میں گریجویشن کے بعد اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے لیے نا کافی سہولیات اورلازمی بنیادی ڈھانچا کا نہ ہونا۔
(بحوالہHigh University enrolment, low graduate employment’, British Council with the Economist Intelligence Unit 2014)

ہندوستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروںبشمول مایہ ناز اعلیٰ تعلیمی اداروں بالخصوص الحاق شدہ کالجوں اور سرکاری یونیورسٹیوں میں یہ مسئلہ ایک عام سی بات ہے۔ گذشتہ دہائی میں 7فیصد سے زائد اوسط اضافے کی شرح کے باوجود ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم کا مجموعی داخلہ تناسب (GER) بہت کم ہے۔ بعض اندازوں کے مطابق ہندوستان 2020تک اعلیٰ تعلیم میں 30فیصد تک مجموعی داخلے کے ہدف اگر حاصل بھی کر لیتا ہے تو اس صورت میں ہماری یونیورسٹیوں کے پاس اتنی گنجائش نہیں ہوگی کہ ثانوی تعلیم سے مزین ان تمام طلبا کو داخلہ دے سکیں۔ اس پس منظر میں فاصلاتی نظام تعلیم کی اہمیت و افادیت بڑھ جاتی ہے۔ اعلیٰ تعلیم کی اس اضافی مانگ کو پورا کرنے کا یہ واحد طریقہ ہوگا جس کے ذریعے ہم مختلف پروگراموں کی شروعات یونیورسٹیوں میں کر سکتے ہیں۔ ثانوی درجے تک تعلیم یافتہ طلبا کی اتنی بڑی تعداد کے لیے یونیورسٹیوں میں داخلہ کو یقینی بنانا ایک دشوار کن عمل ہوگا۔ ادھر یونیورسٹیوں اور کالجوں میں مانگ کے مطابق مختلف النوع پروگراموں کی کمی کے سبب انجینئرنگ، ٹیکنیکل اور ایم بی اے گریجویٹس کی طلب میں خاصی کمی آئی ہے۔

ملک کے تمام خطوں اور ریاستوں میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کا نیٹ ورک ہونے کے باوجود ہندوستان کی مختلف ریاستوں کے درمیان بالخصوص شہری اور دیہی علاقوں کے اداروں میں بڑا فرق ہے۔ یہ فرق کثیر الجہت عدم مساوات کے سبب ملک کے مختلف علاقوں، با لخصوص دیہی و شہری آبادی، امیر و غریب اقلیت اور اکثریت، مرد وں اور عورتوں کے درمیان اندراج کی شرح میں اور بھی نمایاں ہو جاتا ہے۔ اس صورت حال میں شمولیتی ترقی کو ہندوستانی تعلیمی اصطلاحات میں ترجیح دینی ہوگی۔ متوسط طبقے میں غیر معمولی ترقی کے ساتھ ہمارے طلبا کے پروفائل میں بھی نمایاں تبدیلی آئے گی جس کے لیے ہماری یونیورسٹیوں کو تیار ہونا ہوگا۔

ہندوستان میں اعلیٰ معیار کے محققوں کی خاصی کمی ہے۔ پی ایچ ڈی اور تحقیقی خطوط پر کام کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ چین کی 30,000اور امریکہ کی 0 25,00 پی ایچ ڈی اسناد کے مقابلے ہندوستان میں صرف 4500پی ایچ ڈی اسناد سائنس و انجینئرنگ کے شعبوں میں ہر سال دی جاتی ہیں۔ ہندوستان میں تدریس و تحقیق کا شعبہ منظم طور پر علیحدہ علیحدہ ہے۔ ہمارے یہاں ان تعلیمی اداروں کی واضح اکثریت دکھائی پڑتی ہے، جہاں طلبا کو تحقیقی تجربات سے مشاہدہ کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ نتیجتاً مستقبل میں وہ اپنے آپ کو تحقیق کی طرف راغب نہیں کر پاتے۔
(بحوالہ: The Future of Higher Education and Opportunities for International Cooperation: British Council)

 یہ وہ تمام دشواریاں و رکاوٹیں ہیں جن کے سبب ہمارے اعلیٰ تعلیمی ادارے عالمی رینکنگ میں اپنا مقام بنانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے ہیں۔ یہاں ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ مندرجہ بالا چیلنجز کے حل کے لیے 12واں پنج سالہ منصوبے کالائحہ عمل بنایا گیا اور بہت حد تک اس پر عمل آوری بھی ہوئی۔ یعنی ہمیں بہتر کار کردگی حاصل کرنے کے لیے ان تھک کوشش کرنی ہوگی تاکہ ہر شعبے میں امتیازی مقام حاصل کر سکیں۔ ا س کے لیے ہمیں اپنے تدریس و آموزش کے معیار کو بلند کرنا ہوگا۔ نیز آموزش کے نتائج (Learning outcomes) پر خصوصی توجہ دینی ہوگی۔ تدریس کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے فیکلٹی کی ترقی نیز تدریس و اکتساب میں ہو رہے نئے تجربات و رجحانات سے اساتذہ کی واقفیت و شمولیت لازمی ہے۔ تحقیق و تعلیم کے درمیان جو فرق ہے اس کو ختم کرنا ہوگا اور اُسے ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم کرنا ہوگا بلکہ انھیں ایک دوسرے کے لیے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ تحقیق و تعلیم کے معیار کی بہتری کے لیے بین الاقوامی اشتراک کے رجحان کو فروغ دینا ہوگا۔ تحقیق میں جد ت و ندرت کے لیے صنعت اور تحقیقی اداروں کے درمیان بہتر روابط و شمولیت لازمی ہوگی۔ نیز تمام تحقیقی و تعلیمی اداروں کے نیٹ ورک کو ایک Consortiumکے ذریعے جوڑنا ہوگا۔

بہتر تو یہ ہوگا کہ تعلیم عامہ کے بجٹ کو بڑھایا جائے۔ کم از کم دوسرے ہم پلہ ممالک انڈونیشیا، سری لنکا کے قومی تعلیمی بجٹ کے مساوی کیا جائے۔ تاکہ ملک کے طول و عرض میں اعلیٰ تعلیم کے لیے تمام جدید سہولیات سے مزیّن نئے ادارے کھولے جا سکیں۔ ساتھ ہی ساتھ موجودہ تعلیمی اداروں کی صلاحیت پیمائی (Scaling Capacity) کی جائے۔ انجینئرنگ اور دوسرے ٹیکنیکل کالجوں کے قیام کی جو ایک دوڑ لگی ہے اس پر روک لگائی جائے اور ان ہی کالجوں کے قیام کی اجازت دی جائے جو معیار پر کھرے اترتے ہوں۔ لچک دار اور ہنر سکھانے والے (Skill based Learning) کورسز فراہم کرنے والے اداروں کو مالی تعاون دیا جائے۔ نیز ان اداروں کی طرف لوگوں کو راغب کیا جائے جو ہماری معیشت کی ضروریات کے مطابق کورسوں کا انعقاد کر رہے ہوں تاکہ نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔ صحیح معنوں میں ہندوستان کے اعلیٰ تعلیمی نظام کو بین الاقوامی معیار کا بنانے کے لیے کئی سطحوں پر کام کرنے کی ضرورت ہوگی۔

مختصر یہ کہ ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم مجموعی طورپر بہت اعلیٰ معیار کی نہیں ہے۔ لہٰذا ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے معیار کو بلند کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں کا معیار اداروں کے ذاتی وسائل مثلاً انسٹی ٹیوٹ کے آخری صفحے پر درج کی ہوئی تفصیلات، فیکلٹی کی تعلیمی ڈگریاں،لائبریری میں کتابوں اور رسالوں کا ذخیرہ، ایک انتہائی جدید (Ultra-modern) کیمپس میں سمٹ کر رہ گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کئی کمیٹیوں اور ماہرین ِتعلیم نے ہمارے تعلیمی نظام کو درپیش مسائل مثلاً تعلیم یافتہ عوام کی بے روزگاری میں اضافہ، طلبا کی عدم حوصلہ افزائی، کیمپس میں بڑھتی ہوئی بدامنی و نظم وضبط کی کمی، انتظامیہ کے بار بار بدلنے سے درپیش رکاوٹیں، معیار کی کمی وغیرہ کی طرف نشاندہی کی ہے اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ جو کچھ پڑھایا جا رہا ہے اس کی معنویت (Relevance) پر سوالیہ نشان قائم کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست داں اور پالیسی ساز ہمارے تعلیمی نظام میں مکمل تبدیلی کی ضرورت محسو س کرتے ہیں۔ ہاں! آزادی کے طویل سفر کے بعد ہندوستان ایک مضبوط قوم و ملک کی شکل میں ابھر رہا ہے لیکن اپنے آپ کو مکمل طور پر ترقی یافتہ ملک کی صف میں کھڑا کرنے اور ایک مضبوط ہندوستان کی تعمیر کے لیے ہمیں تعلیمی نظام پر خصوصی توجہ دینی ہوگی۔ اس مقام و حیثیت کے حصول کے لیے سب سے بڑی طاقت ہمارے انسانی وسائل ہیں؛ جنھیں معیاری تعلیم مہیا کر کے ان کابہتر سے بہتر استعمال کرنا ہوگاکیوں کہ تعلیم ہی قوم کی بقا کا واحد ذریعہ ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں