19/6/17

مونوگراف شفیق جونپوری



کتاب کا نام:  شفیق جونپوری(پیپر بیک)
مبصر:   ڈاکٹر جسیم الدین

شفیق جونپوری کا شمار ان شعرا میں ہوتا ہے، جنھوں نے اردو شاعری کی آبرو بڑھائی ہے، وہ اپنے کلام کی خوبیوں کے لیے مشہور ہیں، جس نے بھی ان کا کلام ایک بار پڑھ لیا، اس کے دل میں آپ کے لیے جگہ پیدا ہوگئی۔ شفیق جونپوری غزل ونظم پر یکساں قدرت رکھتے تھے۔ ان کےتغزل میں جہاں گدگدی ہے، وہیں ان کی نظموں میں جوش وجذبہ، اخلاق ومروّت، ملت کا درد اور وطن کی محبت موجزن ہے۔ الفاظ کے برمحل استعمال اور مصرعوں کے دروبست کا توازن آپ کی شاعری کی خصوصیات ہیں۔ وہ خیال کو اس خوبی سے پیش کرتے ہیں کہ لفظ ومعنیٰ کا باہمی ربط شیر وشکر ہوجاتا ہے۔ شفیق جونپوری کی شاعری میں غمِ محبت ضرور ہے، لیکن یاس وناامیدی نہیں ہے، طلب اورمسلسل طلب وجستجو ان کی شاعری کے بنیادی عناصر ہیں۔ آپ کی شاعری جہاں سوئے ہوئے لوگوں کو جگاتی ہے، وہیں تھکے ہارے لوگوں کو نشاط وآسودگی بھی فراہم کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ شاعری میں جس شخص کا قد وقامت اتنا بلند ہو، ان سے آنے والی نسلوں کو روشناس کرانا بھی ازحد ضروری ہے۔
 اردوزبان وادب کی ترویج واشاعت میں سرگرم قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے اہم مقاصد میں شامل ہے کہ نابغٔہ زمانہ ادبا، شعرا اورقدآور شخصیات کے مونوگراف تیار کرائے جائیں تاکہ آنے والی نسل اپنے بزرگ شعرا وقابل قدر شخصیات سے آشنا رہے، مونوگراف چوں کہ اختصار کے ساتھ جامعیت بھی رکھتا ہے، اس لیے مصنف کے لیے یہ کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتا، محدود صفحات میں اس طرح کوائف بیان کیے جائیں کہ شخصیت اور کارنامے دونوں سے بھرپور آگہی حاصل ہو مونوگراف کا مقصد ہوتا ہے۔ کونسل کے معزز ڈائرکٹر پروفیسر ارتضیٰ کریم اس کام کے لیے قابل مبارکباد ہیں کہ انھوں نے شفیق جونپوری کا مونوگراف تیار کرنے کے لیے ایسی شخصیت کا انتخاب کیا جو کہ حسن انتخاب کا پرتو ہے۔ بلاشبہ ڈاکٹر تابش مہدی خود ہی قادرالکلام شاعر ہونے کے ساتھ عمدہ نثر نگار بھی ہیں، ان کی شاعری جہاں مقبول عام ہے، وہیں ان کی نثر نگاری بھی سحر انگیز ہے۔ آپ نے مقدمہ میں لکھا ہے:

’’شفیق جونپوری سے ہمیشہ عقیدت ومحبت رہی، میں نے شفیق جونپوری سے بہت کچھ سیکھا ہے، آج بھی ان کی شاعری کا بڑا حصہ میرے حافظے کی زینت ہے۔ شفیق جونپوری ہماری اردو تاریخ کے ان عظیم لوگوں میں ہیں جنھوں نے پرورشِ لوح وقلم بھی کی ہے اور نئی نسل کی ذہنی وفکری تربیت میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے، ایسے شعرا کے حالاتِ زندگی اور افکار وخیالات سے نئی نسل کو متعارف کرانا قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان جیسے عظیم ادارے کا قومی ولسانی فریضہ ہےیہ خوش آئند بات ہے کہ کونسل اس فریضہ کو بہ حسن وخوبی ادا کررہی ہے۔‘‘

 ڈاکٹر تابش مہدی نے نہایت جامعیت کے ساتھ اختصار کو ملحوظ رکھتے ہوئے شفیق جونپوری کی شخصیت اور شاعری جوکہ ایک بحر بے کراں ہے، اس کو کوزے میں بند کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔

مونوگراف میں مقدمہ کے بعد شفیق جونپوری کی شخصیت وسوانح، شفیق جونپوری کا نظریۂ شعر وادب، آج کا شعری وتنقیدی رویہ اور شفیق جونپوری اور اخیر میں ان کے نمونۂ کلام کو پیش کیا ہے۔ یقینا یہ مونوگراف ایک قابل قدر کاوش ہے، جس کے لیے جہاں کونسل کے سرگرم وفعال ڈائرکٹر پروفیسر ارتضیٰ کریم قابل مبارکباد ہیں، وہیں اس کے مصنف ڈاکٹر تابش مہدی بھی شکریہ کے مستحق ہیں کہ انھوں نے جامعیت کے ساتھ شفیق جونپوری کی شخصیت اور ان کی شاعری سے آشنائی کے لیے قارئین کو گراں قدر ادبی سرمایہ پیش کیا ہے۔ توقع ہے کہ اس ادبی شہ پارے کی علمی وادبی حلقوں میں پذیرائی ہوگی۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں