ڈاکٹر سرورالہدیٰ اردو کی ادبی دنیا میں ممتاز مرتب کی
حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ ان کی ترتیب دی ہوئی کئی کتابیں قارئین سے داد و تحسین
حاصل کر رہی ہیں۔ زیرِ نظر ’ کلیاتِ مضامینِ وحید اختر‘ بھی انھیں میں سے ایک ہے۔ یہ کلیات چھ جلدوں پر مشتمل ہے، جس کی آخری تین جلدیں زیرِ
تبصرہ ہیں۔ وحید اختر مشہور شاعر و نقاد تھے، انھوں نے شاعری کی زیادہ تر صنفوں
میں تبع آزمائی کی اور تواتر کے ساتھ مضامین بھی لکھے۔ جس کو جِلا دینے میں انجمن
ترقی اردو ہند کا پندرہ روزہ ادبی اخبار ’ہماری زبان‘ کا اہم حصہ ہے۔ جس میں موصوف
’ہمارا صفحہ‘ کے عنوان سے مختلف موضوعات پر مضامین تحریر کرتے تھے۔ پروفیسر وحید
اختر کے زمانۂ حیات میں ان کے مضامین پر مشتمل بس ایک ہی مجموعہ ’فلسفہ اور ادبی تنقید‘
شائع ہوسکا۔ ان کے بقیہ مضامین مختلف رسائل و جرائد میں بکھرے ہوئے تھے۔ جن کو
حاصل کرنے کے لیے ڈاکٹر سرورالہدیٰ کو جانکاہی و جاں سوزی کے مراحل سے گزرنا پڑا۔
انھی مضامین کو مرتب نے ترتیب دے کر ’کلیاتِ مضامین وحید اختر‘ کی چھ جلدیں بنائی
ہیں اور ’قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان‘ نے اہتمام کے ساتھ شائع کیا ہے۔
’کلیاتِ مضامین
وحید اختر‘کی چوتھی جلد میں کل بیس مضامین شاملِ اشاعت ہیں۔ جن میں سے پہلے چار
مضامین جدیدیت کی مختلف جہات پر روشنی ڈالتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
پہلا مضمون معلوماتی ہے۔ اس مضمون میں وحید اختر جدید یت
کو ترقی پسندی کی توسیع تو قرار دیتے ہیں لیکن دوسرے ناقدین کے برعکس اسے تہذیبی
مسائل سے وابستہ کرکے بھی دیکھتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ جدیدیت موضوع و مواد اور
پیش کش کی سطح پر صرف اور صرف حلقۂ اربابِ ذوق کی توسیع ہے۔ جہاں تک ترقی پسند
تحریک کا سوال ہے تو موضوع و مواد اور پیش کش کے انداز یعنی ہر دو سطح پر ترقی
پسندی اور جدیدیت میں بُعد کی صورت نمایاں ہے۔ دراصل وقت اور حالات کے تحت پرانی
تحریکات و رجحانات انجماد کا شکار ہوجاتی ہیں، ان کی جگہ پر نئے تہذیبی مسائل و
میلانات تازہ کار رویوں کو جنم دیتے ہیں۔ اس جلد میں تنقید کے مسائل پر کئی مضامین
میں گفتگو کی گئی ہے۔ جن پر مرتب نے تبصرہ کرتے ہوئے امداد امام اثر کی کتاب ’کاشف
الحقائق‘ اور ’مراة الحکما‘ کے حوالے سے تفصیلی باتیں کی ہیں۔ ان کے مطابق وحید
اختر نے تنقیدی مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے دوسرے بہت سے ناقدین اور ان کی کتابوں کا
حوالہ دیا ہے، وہیں امداد امام اثر اور ان کی کتابوں کو فراموش کر گئے ہیں۔ وہ
اپنی رو میں یہ بھی لکھ جاتے ہیں کہ اردو تنقید کی تاریخ میں ’کاشف الحقائق‘ کو
کسی نے معروضی اور نئی نظر سے دیکھا ہے تو وہ ناصر عباس نیر ہیں۔ میرے خیال میں ’کاشف
الحقائق‘ سے ناقدین کی اکثریت نے نہ صرف استفادہ کیا ہے بلکہ اس پر مباحث بھی قائم
کیے ہیں لیکن ان کی دوسری کتاب ’مراة الحکما‘ کی وہ اہمیت نہیں جو ’کاشف الحقائق‘
کی ہے۔ چناں چہ مرتب کا اصرار غیر ضروری ہے۔ وہ کسی بھی صورت میں اپنے مفروضے کو
دوسروں پر تھوپنے کا جواز نہیں رکھتے۔ اس جلد کے آخر میں ایسے مضامین شامل بھی ہیں
جن میں وحید اختر نے ہم عصر ادب، تصوف، وجودیت اور دوسرے اہم مسائل پر تفصیل کے
ساتھ روشنی ڈالی ہے۔
’
کلیاتِ
مضامین وحید اختر‘ کی پانچویں جلد میں شخصی مضامین اور اہم کتابوں پر تبصرے شامل
ہیں۔ جن ادبی شخصیتوں پر وحید اختر نے قلم اٹھایا ہے، ان میں احتشام حسین، سلیمان
اریب، سجاد ظہیر، مخدوم محی الدین، جیلانی کامران، شفیق فاطمہ شعریٰ، وقار لطیف،
کیفی اعظمی اور انور معظم وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر وہ ہیں جو ادبی دنیا
میں محتاجِ تعارف نہیں۔
وحید اختر نے غیر جانب دارانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے
کورے کاغذ پر اپنے قلم سے ایسا ہیولا بنایا ہے کہ ممدوحین کی تصویریں قارئین کے
ذہن پر ہوبہو نقش ہوجاتی ہیں۔ اس جلد کے دوسرے حصے میں مشہور و معروف شعرا و ادبا
کی کتابوں پر کئی چھوٹے بڑے تبصرے شامل ہیں۔ یہ تبصرے ایسے نہیں کہ طائرانہ نظر کے
حوالے کردیے جائیں بلکہ یہ سب ٹھہر کر اور
سمجھ کر پڑھنے کا تقاضا کرتے ہیں۔
’
کلیاتِ
مضامین وحید اختر‘ کی چھٹی جلد میں طویل و مختصر اکیس مضامین شامل ہیں۔ ان مضامین
کی اہمیت صرف اس لیے قائم نہیں ہوتی کہ ےہ سب وحید اختر کے قلم سے نکلے ہیں بلکہ
ان کی انفرادیت میں موضوع و مواد کے ساتھ وحید اختر کی تحریر کا منفرد انداز بھی
ہے۔ ان مضامین کی نوعیت کے بارے میں مرتب نے اپنے مقدمے میں کہیں کوئی اشارہ نہیں
کیا ہے۔ یہ بلاشبہ مختلف نوعیت کے مضامین ہیں، جن میں میر انیس کی وراثت، اقبال
اور انسان، غزل، اودھ اور مرثیے کی تہذیب، اردو نظم آزادی کے بعد: چند وضاحتیں اور
خواجہ میر درد: تصوف اور شاعری اہم ہیں۔ ان کے علاوہ وحید اختر نے مغربی تنقید کے
چند ناقدین میکس مولر، سیمون دا بوا اور برٹرینڈ رسل پر بھی اپنے خیالات کا اظہار
کیا ہے۔
ڈاکٹر سرورالہدیٰ نے ہر جلد کے آغاز میں ’مقدمہ‘ کے
عنوان کے تحت مضامینِ وحیداختر پر تفصیلی تبصرہ کیا ہے۔ میرے خیال سے مرتب کا یہ
عمل کارِ زیاں اور قارئین کو ان کے اصل منصب سے بھٹکانے اورغلط نتائج تک رسائی کے
سوا کچھ بھی نہیں۔ اس کا احساس خود مرتب کو بھی ہے۔ جس کا اظہار کرتے ہوئے انھوں
نے لکھا ہے :
”دیباچے کی موجودگی کتاب کی آزادانہ قرأت میں حائل ہوجاتی ہے“
(کلیاتِ مضامین
وحیداختر، ص: xxii، جلد: پنجم)
علاوہ ازیں ڈاکٹر سرورالہدیٰ نے اپنے مقدمے میں جتنے بھی
اقتباسات دیے ہیں، ان پر کوئی ایسا اشارہ موجود نہیں کہ یہ اقتباسات کلیاتِ وحید
اختر کی انھی جلدوں سے لیے گئے ہیں یا ان کا ماخذ کچھ اور ہے۔ اس کے باوجود ڈاکٹر
سرورالہدیٰ مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے وحید اختر کے مضامین کو جاں فشانی
کے ساتھ یکجا کیا اور انھیں چھ جلدوں میں ترتیب دے کر ادب کے قارئین کے حوالے کر
دیا۔ امید کی جانی چاہیے کہ قارئین وحید اختر کے مضامین کی روشنی میں ادب کو ایک
نئے زاویے سے دیکھنے اور پرکھنے کی کوشش کریں گے۔
ڈاکٹر عادل حیات
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں