14/8/17

میر تقی میر از نثار احمد فاروقی: تبصرہ اسما، جامعہ ملیہ اسلامیہ


میرشناسی کے باب میں نثار احمد فاروقی نہایت اہم نام ہے۔میرتقی میرکی شخصیت و فن کے حوالے سے کتاب ’’میر تقی میر‘‘  کی اہمیت اس لیے دوبالا ہو جاتی ہے کہ اس میں پہلی مرتبہ میر کے مستند حالاتِ زندگی کو نہایت اختصارو جامعیت اور زمانی تسلسل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور میرکے فن اور تصانیف پر اس طرح روشنی ڈالی گئی ہے کہ تمام پہلوؤں کا احاطہ ہو سکے۔ساتھ ہی اس بات کا خاص اہتمام کیا گیا ہے کہ اس میں تنقیدی پہلو کم سے کم ہوں تاکہ کتاب کا مقصد مکمل طور پر واضح ہو سکے اور بچوں کو زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کی جاسکے۔جس کا اظہار کتاب کے ابتدائیہ میں صاحبِ کتاب اس طرح کرتے ہیں :”اس کتاب کا مقصد تنقید نہیں تعارف ہے ۔“

کتاب کا پہلا باب ’سوانح حیات ‘ کے عنوان سے ہے جس میں 60 ذیلی عناوین شامل ہیں۔اس کے ذریعے مصنف نے میر کے ابتدائی حالات، خا ندان، آباو اجداد، پیدائش،تعلیم و تربیت، ملازمت، ترک ملازمت، مختلف اسفار، دہلی پرحملوں کی روداد،میرکے آخری ایام کے حالات اور تصنیفات و تالیفات (جس میں غزل، قصیدہ ،مثنوی ،تذکرہ،آپ بیتی، دواوین اردو و فارسی) وغیرہ پر اس انداز سے روشنی ڈالی گئی ہے کہ میر سے متعلق تمام اہم گوشوں، واقعات وحالات تک بآسانی رسائی ہو جاتی ہے اور اس وقت کے سماجی و سیاسی پس منظر سے بھی آگاہی ہو تی ہے۔مصنف نے فرداً فرداًمیر کی تقریباً تمام تخلیقات کا ایک دو پیراگراف میں جائزہ لینے کی بھی سعی کی ہے۔

کتاب کا دوسرا باب ’میر کا فن ‘ کے عنوان سے 16 صفحے پرمشتمل ہے جس میں موصوف نے میر کے فن پر بحث کرتے ہوئے ان کی غزل گوئی کے مختلف پہلوؤں اور جہات کو اجاگر کیا ہے ساتھ ہی میر کے اہم اور مشہور اشعار کی تشریح کرتے ہوئے اپنی تنقیدی آرا سے بھی قارئین کو روشناس کرایا ہے۔مثلاًمیر کے فن پر گفتگو کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں :”ہمارے شعرائے متقدمین میں اکثریت ایسے شاعروں کی ہے جنھوں نے شاعری کو ایک فن یا صناّعی سمجھ کر برتا ہے۔ میر تقی میر نے شعر کو فن تو سمجھا ہے لیکن اپنی ذات کے اظہار کا وسیلہ بنایا ہے جس کے پردے میں اپنی آپ بیتی اور محسوسات بیان کرتے رہے:
کیا تھا شعر کو پردہ سخن کا       وہی آخر کو ٹھہرا فن ہمارا

 میرکی توجہ شعر کی ہیئت اور اس کی معنویت دونوں پر رہتی ہے جس کا اظہار میر کے مختلف شعر سے بھی ہو تا ہے۔ نثار احمد فاروقی نے مےر کے فن پر اشعار کی حوالے اوران کی تشریح و تحلیل کے توسط سے میر کی فن کارانہ عظمت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے اور ان کے اسلوب فن کی خوبیوں کو سراہتے ہوئے انھیں ’لفظوں کا مصور‘بھی تسلےم کیا ہے۔ میرکی شاعری پر اظہار ِخیال کرتے ہوئے مصنف نے میر کی شعری کائنات، اسلوب ِبیان، الفاظ و تراکیب، زبان و بیا ن اور شخصی کیفیتوں کو اس خوبی سے برتا ہے کہ وہ پورے ماحول کا آئینہ بن کر ہمارے سامنے آتی ہے جس سے میر کی شخصیت اپنی آب و تاب کے ساتھ جلوہ نما ہوتی ہے۔
 خدائے سخن میر تقی کا شمار بنیادی طور پر غزل گو شعرا میں ہوتا ہے۔ انھوں نے شاعری کی تقریباً تمام اصناف مےں طبع آزمائی کی لےکن ان کی شہرت کا ایوان ِ بلند غزل کے کیف آور اشعار پر قائم ہے جنھیں تیر و نشتر سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ میرکے فن نے اردو شاعری میں ان بلندیوں تک رسائی حاصل کر لی ہے جہاں تک کم ہی شاعروں کی پہنچ ممکن ہے۔یہی سبب ہے کہ خود مرزا غالب جیسے عظیم شاعر نے بھی میر کی استادانہ عظمت اور فنکارانہ صلاحیت کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں’ریختہ کا استاد‘ تسلیم کیا ہے۔ وہیں خاقانی ہند محمد ابراہیم ذوق نے میر کے کمالِ فن کو اس طرح سراہا ہے:
نہ ہوا پر نہ ہوا مےر کا انداز نصیب        ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا

اسی طرح میر کی عظمت کے معترف نواب مصطفی خان شیفتہ نے میر کے حوالے سے جو بھی کہاوہ لفظ و معنی دونو ں اعتبار سے قابل تسلیم ہے :”میر جیسے عظیم فن کار  روز روز پیدا نہیں ہوتے “۔ کتاب کا تیسرا اور آخری باب ’انتخاب کلامِ میر ‘کے عنوان سے تقریباً102 صفحات پر مشتمل میر کے دیوان اوّل کی غزلیات کے ایک نمائندہ انتخاب پر مبنی ہے جس میں میر کی غزلیں اپنے مختلف موضوعات و اسالیب کے ساتھ اپنی اہمیت و انفرادیت کا احساس دلاتی ہیں۔اس حصے میں ایسی غزلوں کو منتخب کےا ہے جو عام فہم اور سلاست سے پر ہےں جس مےں روانی ،سادگی اورلطافت پائی جاتی ہے۔
چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
چلتے ہو تو چمن کو چلیے ،سنتے ہیں کہ بہاراں ہے                            پات ہرے ہیں،پھول کھلے ہیں،کم کم بادو باراں ہے

الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا                         دیکھا ،اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا

آخر میں کتابیات کے عنوان سے ان کتابوں کی فہرست شامل ہے جو کتاب کی تیاری میں ممدو معاون ثابت ہوئی ہیں اور جس کا مقصد طالب علم کے لیے مزید تفصیلی مطالعے کا باعث ہے۔بحیثیت مجموعی یہ کتاب میر کی شخصیت اور فن کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوگی۔

اسما، ریسرچ اسکالر،جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی

1 تبصرہ:

  1. بہت خوب تبصرہ کسی حد قریب کتاب ہے پر مکمل نہیں ہے اس کے ہر عنوان پر تفصیلی بحث اس کے حسن کو حسین ترین پیرائے کا مظہر بنا دیتی۔۔
    نثار صاحب کے میریات میں چندے کارنامے ایک اہمیت کے حامل ہیں جب کہ نقد میر از سید عبد اللہ اور گوپی چند نارنگ کی کتاب ان کے علاوہ اور بھی کتابیں میریات میں وہ جگہ حاصل نا کر سکیں جو نثار صاحب کی کتابوں کو حاصل ہے۔۔

    میر کو نثار احمد فاروقی نے "لفظوں کا مصور"کہا ہے یہ جملہ کس عنوان میں درج ہے احمد فاروقی نے میر کے بارے میں کہا ہے کہ " میر نے دل اور دلی کے مرثیے" لکھے ہیں وغیرہ۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں