غواصی
کا شمار گولکنڈہ کے سربرآوردہ اور ممتاز شعرا میں ہوتا ہے۔ انھوں نے مختلف اصناف
سخن میں طبع آزمائی کرکے اپنی شعری صلاحیتوں اور ادبی توانائیوں کا مظاہرہ کرکے
شعراےدکن میں اپنا ایک منفرد مقام بنایا۔ غواصی کی شہرت ان کی معروف و مشہور
مثنویوں، سیف الملوک و بدیع الجمال اور طوطی نامہ وغیرہ کے سبب ہوئی۔ اس کے ساتھ
ہی وہ ایک اعلیٰ درجے کے غزل گو بھی تھے۔ علاوہ ازیں انھوں نے چند قصائد و مراثی
اور رباعیاں بھی تحریر کیں۔ غواصی کی غزلوں میں ہندستانی معاشرت کا عکس نظر آتا
ہے۔ عورت کے زیورات و ملبوسات اور مجموعی طور پر اس کی زندگی کے احوال کو غواصی نے
عمدگی سے پیش کیا ہے۔ غواصی نے اپنی تشبیہات اور استعارات کو اپنے کلام میں برتا
جس سے ان کے کلام میں چاشنی پیدا ہوگئی۔
قومی
کونسل کے زیراہتمام بہت ہی اہم اور نادر علمی، ادبی اور سماجی شخصیات کے مونوگراف
شائع ہوکر منظرعام پر آچکے ہیں۔ اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے غواصی کا مونوگراف شائع
کیا گیا ہے جسے محترمہ سیدہ جعفر نے تیار کیا ہے۔ مصنفہ نے اسے کئی عناوین میں
تقسیم کرکے غواصی کے تمام حالات کو قلم بند کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اس کے تحت
شخصیت اور سوانح، غواصی کی شعری کاوشیں، تنقیدی جائزہ اور انتخاب کلام اہم ہیں۔
اس
مونوگراف کے پہلے باب میں غواصی کی شخصیت اور سوانح سے متعلق ان تمام گوشوں کو
اجاگر کیا گیا جن کی وجہ سے غواصی اردو ادب، خاص طورسے دکنی ادب میں اپنی شناخت
رکھتے ہیں۔ ساتھ ہی غواصی کے ہم عصروں کی مختصر مگر کارآمد معلومات بھی شامل ہے۔
دوسرے
باب میں غواصی کی شعری کاوشوں کاتحقیقی و تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے اور ان کے
کلام کی خوبیوں اور خامیوں پر ایک محققانہ اور ناقدانہ تجزیہ پیش کیا گیا۔ تیسرے
باب میں مجموعی طور سے ان کے کلام کا ایک عمومی جائزہ لیا گیا ہے جس میں ان کی مثنویاں
مینوستونتی، سیف الملوک و بدیع الجمال، طوطی نامہ اور غواصی کی غزلوں، قصائد،
رباعی وغیرہ پر بڑی عالمانہ اور بصیرت افروز باتیں کی گئی ہیں۔
اس
مختصر سے مونوگراف میں غواصی کی تمام خدمات کا مفصل جائزہ ممکن نہیں تھا لیکن اس
کے باوجود مصنفہ تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالنے میں کامیاب رہی ہیں اور انھوں نے اس
بات کا خاص خیال رکھا ہے کہ ان کی زندگی کا کوئی پہلو اچھوتا نہ رہ جائے۔
آخر
میں غواصی کی مثنویوں، قصائد، غزل اور رباعی وغیرہ کے اشعار بطور نمونہ پیش کیے۔
ان اشعار کا اگر تجزیہ و تعارف پیش کیا جاتا تو معلومات میں مزید اضافہ ہوتا لیکن
ایسا نہیں کیا گیا۔ اس کے باوجود مونوگراف کی معنویت اپنی جگہ مسلم ہے جسے اردو
ادب میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے اور حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔
محترمہ
نے بڑی محنت و لگن سے غواصی کا سوانحی خاکہ اور ان کی خدمات کا جائزہ پیش کیا ہے۔
اس کے علاوہ ان کی کئی کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انھوں نے گیان چند جین کے اشتراک سے
’تاریخ ادب اردو‘ ابتدا سے 1700 تک بھی لکھی ہے جسے قومی کونسل نے شائع کیا ہے۔ اس
کے علاوہ من سمجھاون، یوسف زلیخا، تنقید اور اندازِ نظر اور فراق گورکھپوری وغیرہ
پر ان کی ترتیب و تصنیف منظرعام پر آچکی ہیں۔ سیدہ جعفر جامعہ عثمانیہ حیدر آباد
اور سنٹرل یونیورسٹی آف حیدرآباد میں پروفیسر اور صدر شعبہ کے فرائض بھی انجام دے
چکی ہیں۔ وہ ایک وسیع المطالعہ اور صاحب اسلوب ادیبہ تھیں۔اس طرح غواصی (مونوگراف)
ہر اعتبار سے ایک کامیاب مونوگراف ہے۔
کتاب : غواصی (مونوگراف)
مصنفہ: سیدہ جعفر
صفحات: 140
قیمت: 82 روپے
سنہ اشاعت: 2016
ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
مبصر: ارشاد قمر،نئی دہلی
کتاب : غواصی (مونوگراف)
مصنفہ: سیدہ جعفر
صفحات: 140
قیمت: 82 روپے
سنہ اشاعت: 2016
ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
مبصر: ارشاد قمر،نئی دہلی