28/12/18

متن، معنی اور نقد بنیادی مسائل و مباحث مضمون نگار:۔ شاکر علی صدیقی







متن، معنی اور نقد
 
بنیادی مسائل و مباحث
   شاکر علی صدیقی
تنقیداصلاً عربی لفظ’نقد ‘سے مشتق ہے۔اس کے لغوی معنی کھرے اور کھوٹے میں امتیاز کرنا ہے۔ حالانکہ لفظ’ نقد‘ادبی اصطلاح میں رائج ہونے سے قبل مختلف معانی پر مستعمل تھا۔ ’لسان العرب، القاموس المحیط،القاموس الجدید،بیان اللسان ،المنجد،اور مصباح اللغات‘ نے مختلف النوع معنی بیان کیے ہیں : نقد کے معنی سکہ کا پرکھنا،اسی مادۂ ’نقد ‘سے تنقاد اور تنقد کے معنی بھی درہم یا دینار یعنی سکہ کو پرکھنے کے ہیں۔ نقد کے معنی کسی کو رقم دینا، اور اسی مادۂ نقد سے انتقد کے معنی ’لینا ‘بھی ہیں۔نقد کے معنی انگلی سے اخروٹ میں سوراخ کرنا، تاکہ معلوم ہو سکے کہ اخروٹ کیسا ہے۔نقد کے معنی کسی چیز پر گہری نظر ڈالنا۔ نقد کے معنی سانپ کا ڈسنا بھی ہے۔نقد کے معنی عیب جوئی کے بھی ہیں۔ بحیثیت مجموعی لفظ’نقد‘ مختلف النوع معانی پر دلالت کرتا ہے،جس کی تصدیق درج ذیل لغات سے ہوتی ہے۔المنجد میں ’نقد‘ کے معنی یہ درج ہیں کہ :
’’نقد (ن) نقدا و تنقادا۔ الدراھم: در اہم پرکھنا۔ الکلام : کلام کی خوبی و برائی ظاہر کرنا۔ نقد فلانا و بفلان الثمن : قیمت نقد ادا کرنا۔ نقد در ھما : دینا۔ الطائر الفتح او الحب : پرندہ کا چونچ مارنا۔ الرجل الشیی و الی الشیی بنظرہ : چپکے چپکے دیکھنا یا تکنا۔ نقدتہ الحیۃ : سانپ کا ڈسنا ۔ النقاد : روپیے پرکھنے والا، تنقید کرنے والا، ایک چھوٹی قسم کی بھیڑوں کا چرواہا۔‘‘1
قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی’بیان اللسان‘ میں نقد کے معنی لکھتے ہیں :
’’ نقد ‘ :وہ چیز جو ہاتھ کے ہاتھ دی جائے،روپیہ،پرکھنا، جانچنا،کسی کو کچھ نقد دینا،چھانٹ لینا،ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا، پرندہ کا چونچ مارنا،سانپ کا کاٹ لینا۔‘‘ 2
مولانا وحید الزماں قاسمی کیرانوی’القاموس الجدید‘ میں نقد کے ضمن میں رقمطراز ہیں :
’’ نَقَدَ:پرکھنا،نقد ادا کرنا،تنقید کرنا۔نقد:تنقید،نکتہ چینی،رقم،کرنسی۔‘‘ 3
مولانا عبد الحفیظ بلیّاوی’مصباح اللغات‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ :
’’ نقد: پرکھنا،کلام کے عیوب و محاسن کو ظاہر کرنا،چونچ مارنا،نقد ادا کرنا،چپکے چپکے نظر ڈالنا، سانپ کاڈسنا۔‘‘ 4
مذکورہ تمام لغوی معنی کی پیش کش سے مترشح ہوا کہ لفظ ’نقد‘ادبی اصطلاح میں رائج ہونے سے قبل مختلف النوع معنی پرمتحمل تھا۔لیکن اب جب بھی اس کا اطلاق کیاجاتا ہے تو اس سے مراد کسی چیز کے جانچنے اور پرکھنے کے ہی ہوتے ہیں،جس کوسید عابد علی عابد نے ان الفاظ میں واضح کیا ہے ،:
’’اس(نقد)کا ماخذ عربی لفظ ’غربال‘ ہے جس سے انگریزی کلمہ Garble برآمد ہوتا ہے۔ غربال کی اصل لاطینی ہے اور اس لاطینی اصل کا تعلق کلمہ Cret سے ہے۔ Cretکے معنی ہیں پھٹکنا، چھان پھٹک کرنا۔‘‘ 5
اردو والوں نے عربی لفظ’ نقد‘سے ہی’تنقید‘کا لفظ وضع کیا ہے۔اور یہی لفظ اردو میں عام طور پر مستعمل ہے۔حالانکہ بعض لوگوں کو لفظ ’تنقید‘کی صحت پر کلام ہے۔مثلاً نیاز فتح پوری اپنے مضمون ’اصول نقد‘ میں لکھتے ہیں کہ:’ اس فن (تنقید) کو جاننا ہے جسے انگریزی میںCriticism کہتے ہیں۔ اس کا ماخذ یونانی لفظ ہے جس کے معنی فیصلہ کرنے کے ہیں۔ اردو میں عام طور پر اس کا ترجمہ تنقید کیا جاتا ہے۔لیکن زیادہ صحیح لفظ ’نقد یا انتقاد‘ہے، جس کا مفہوم پرکھنا یا جانچنا ہے اور ہر وہ شخص جو یہ خدمت انجام دیتا ہے اسے نقادکہتے ہیں۔‘‘6 یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے مجموعۂ مضامین کانام’انتقادیات ‘ رکھا۔لیکن اس کتاب کے متن میں انھوں نے لفظ’ تنقید‘ کا بھی استعمال کیا ہے۔اردو میں سب سے پہلے تنقید کالفظ مہدی افادی نے(1910)میں استعمال کیا۔اور انھوں نے ’تنقید عالیہ‘کے نام سے ایک اصطلاح بھی وضع کی ہے، جب کہ اردو میں اس سے قبل لفظ ’تنقید‘ استعمال نہیں ہوتا تھا۔مثلاً اردو میں ادبی تنقید کے ابتدائی نقوش تقاریظ،دیباچوں،بیاضوں اور تذکروں میں ملتے ہیں، جن میں ہمیں تنقید کا لفظ نہیں ملتا۔یا اسی طرح محمد حسین آزاد،حالی،امداد امام اثر، اور شبلی نے اپنی تنقیدی تحریروں میں کہیں بھی لفظ’ تنقید‘ کا استعمال نہیں کیااور نہ ہی اپنے کو نقاد کہا ہے۔شبلی نے بھی لفظ تنقید کو موضوع قرار دیا، لیکن سید سلیمان ندوی کے یہاں(1933)میں اس لفظ کا کثرت سے استعمال ہوا ہے۔اور بعد میں ادبی اصطلاح کے طور پر یہی لفظ عمل میں رائج ہوا۔ بیسویں صدی نصف آخر کی چوتھی دہائی میں تنقید کا مترادف لفظ ’ پرکھ‘ کا بھی استعمال ہونے لگا۔ بقول شمس الرحمن فاروقی’تنقید کا مترادف ادب کی پرکھ اور نکتہ چینی کا لفظ بیسویں صدی کی نویں دہائی کے او اخر میں رائج ہوا۔‘آل احمد سرور نے بھی تنقید کے مترادف لفظ’’پرکھ‘‘ کو مناسب قرار دیا ہے۔ وہ رقمطراز ہیں :
’’میرے خیال میں اس (تنقید)کے لیے’ پرکھ‘ کالفظ سب سے زیادہ موزوں ہے۔ اس میں تعارف، ترجمانی، اور فیصلہ سب آجاتے ہیں۔‘‘7
بہرکیف اصطلاحی معنی میں تنقید ایک تجزیاتی عمل ہے، جس کے تحت شعر وادب کے محاسن و معائب کی توضیح اور قدر وقیمت کاتعین کیا جاتا ہے۔یعنی کسی ادبی فن پارے کا مطالعہ کرکے اس کے حسن و قبح کو مع اسباب وعلل پیش کرنا اور اس کے مقام یا معیار کا تعین کرنا ادبی تنقید کہلاتا ہے۔تنقیدی عمل ایک ایسا فکری نظام ہے جس کے ذریعے شعر وادب میں بتدریج ارتقا ہوتا ہے،اور تخلیق اور قاری کے مابین تفہیمی رشتہ قائم ہوتا ہے۔مشرق و مغرب کے ناقدین نے اپنے اپنے نقطۂ نظر،طریق کار، شرائط، اورادبی تصورات کے پیش نظر تنقید کی مختلف النوع تعریف پیش کی ہے۔مثلاً میتھو آرنلڈ (Matthew Arnold)کے نزدیک تنقید کا مقصد یہ ہے:
‘‘Dissemination of ideas, an unprejudiced and impartial effort to study and spread the best that is known and thought in the world’’ 8
آئی اے رچرڈس(I. A. Richards) تنقید کی تعریف میں لکھتے ہیں :
’’تنقید کا کام کسی مصنف کے کام کا تجزیہ،اس کی مدلل توضیح اور بالآخر اس کی جمالیاتی قدروں کے بارے میں فیصلہ صادر کرنا ہے۔‘‘ 9
انھوں نے حتمی طور پرتنقید کو فیصلہ قرار دیا ہے :
‘‘Judgment.Inits strictsense, criticism means judgment. The literary critic, therefore, is primarily an expert who uses his special faculty and training to examine the merits and defects of a piece of literary art or the work of a given author and pronounce a verdict upon it. The primary function of a literary critic is to arrive at and pronounce a meaningful judgment of value. The famous literary critic I. A. Richards says:‘ To set up as a critic is to set up as a judge of values.’’ 10
اس کے بعد وہ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ اس سے مقصود یہ ہے کہ اشیا کو اس کی حقیقی صورت میں منکشف کیا جائے؛ کیونکہ تاریخی ،سماجی اور نفسیاتی تناظرات غیر مادی ہوتے ہیں۔ٹی ایس ایلیٹ (T. S. Eliot)کہتے ہیں کہ :
’’مانتا ہوں کہ تنقید وہ شعبۂ فکر ہے جو یا تو یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ’شاعری کیا چیز ہوتی ہے؟ اس کے فوائد کیا ہیں؟ یہ کن خواہشات کی تسکین بہم پہنچاتی ہے؟ اشعار لکھے کیوں جاتے ہیں ؟ سنائے کیوں جاتے ہیں؟ شاعر شاعری کیوں کرتا ہے؟یا ان تمام باتوں کے متعلق علم و آگہی کے چند شعوری یا غیر شعوری مفروضات قائم کرکے نظم اشعار کی حیثیت متعین کرتا ہے۔‘‘ 11
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ :
‘‘Some creative writers are superior to others solely because their critical faculty is superior.’’ 12
والٹر پیٹر کے نزدیک تنقیدکی تین ذمے داریاں ہیں: 
‘‘To feel the virtue of the poet or the painter, to disengage it, to set it forth 150 these are the three stages of the critic’s duty.’’ 13
مذکورہ اقتباسات میں ہم نے دیکھا کہ تمام مغربی ناقدین کی بیان کردہ تنقید ی تعریفوں کا مشترک عنصر شعر وادب کی جانچ پرکھ ہے۔اور یہی عنصر تنقید کی روح ہے۔آئی اے رچرڈس کی یہ شرط کہ جمالیاتی قدروں کے متعلق فیصلہ کرنا،یہ ان کا مخصوص تنقیدی نقطۂ نظر اورطریق کا ر ہے۔یعنی تنقید اس کی پابند نہیں کہ وہ محض یاخالص فن پاروں کے جمالیاتی عناصر کی تشریح اور توضیح کرکے اس کی قدروں کو اساس بناکر عظمت کا تعین کرے۔ہاں یہ ادبی مطالعے کا ایک تخصیصی پہلو ہے، لازمی ہرگز نہیں۔اس طرح کے اصولوں کو ہم امتیازی یا تخصیصی اصول کہہ سکتے ہیں۔میتھو آرنلڈ اور ٹی ایس ایلیٹ نے جن بنیادی پہلوؤ ں کی نشان دہی کی ہے ، وہ غیر معمولی ہے ۔ کیونکہ تنقید اصلاً متن اور قاری کے درمیان رابطے کا کام انجام دیتی ہے۔اور شعر فہمی کی اس سطح تک رہنمائی کرتی ہے،جہاں تک عام قاری کی رسائی تنقیدی کارفرمائی کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ اسی طرح والٹر پیٹر اور یوری لوٹمان نے بھی نہایت اہم نکات کی نشاندہی کرکے تنقید کے صحیح مصرف کی وضاحت کی ہے۔ 
اردو ناقدین نے بھی تنقید کی مختلف تعریفیں پیش کی ہیں۔مثلاً آل احمد سرور بڑی وضاحت سے لکھتے ہیں کہ:
’’تنقید کا کام فیصلہ ہے،تنقید دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کر دیتی ہے،تنقید وضاحت ہے، صراحت ہے، ترجمانی ہے،تفسیرہے،تشریح ہے،تحلیل ہے،تجزیہ ہے۔ تنقید قدر ہی نہیں متعین کرتی ہے، ادب اور زندگی کو ایک پیمانہ دیتی ہے،تنقید انصاف کرتی ہے، ادنیٰ اور اعلیٰ،جھوٹ اور سچ،پست و بلند کے معیار قائم کرتی ہے۔تنقید ہر دور کی ابدیت اورابدیت کی عصریت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ تنقید ادب میں ایجاد کرنے اور محفوظ رکھنے دونوں کا کام انجام دیتی ہے۔ وہ بت شکنی بھی کرتی ہے اور بت گری بھی۔‘‘ 14
مذکورہ اقتباس میں آل احمد سرور نے ناقدین کے تنقیدی کارناموں کے پیش نظر تنقید کی خصوصیات کو ضبط تحریر کیا ہے۔جس سے یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں کہ تنقید کے دو بنیادی کام ہیں اول کسی بھی طریق سے متن کے محاسن و معائب کی وضاحت کرنا۔دوم اس کے مقام کا تعین کرنا۔دوسرے یہ کہ انھوں نے تنقید کی دونوں جہتوں کی طرف اشارہ کیا ہے، یعنی نظری اور عملی تنقید کے عوامل کی نشان دہی بھی کی ہے۔عبد المغنی نے بھی اپنے مضمون ’جدید ادبی تنقید کے مسائل ‘ میں تنقید کو انھیں دو کاموں کے لیے مختص کیا ہے۔وہ رقمطراز ہیں :
’’تنقید کا کام ادب کی تفہیم و تشریح اور اس کی قدر و قیمت کی تعیین ہے۔‘‘ 15
ابوالکلام قاسمی تنقید کے متعلق لکھتے ہیں : 
’’ادبی تنقید شعر و ادب کی پرکھ اور اس کی اہمیت اور قدر و قیمت کو سمجھنے اور سمجھانے کا نام ہے۔ تنقید کے دائرہ کار میں تعریف و تحسین بھی شامل ہے اور فن پارے کے نقائص کی نشان دہی بھی۔‘‘ 16
در اصل تنقید کا بنیادی مقصد شعر فہمی اور اس کا تعین مراتب ہے، نہ کہ تحسین اور تنقیص۔ لیکن شعر فہمی کا عمل ہمیں ان دونوں میں سے کسی ایک نہ ایک خانہ میں ضرور داخل کر تا ہے۔ اس لیے محض فن پارے کے محاسن و معائب کی نشان دہی تنقید نہیں، بلکہ اس کے اسباب و علل کی وضاحت بھی تنقید کے لیے لازمی ہے۔مثلاً کسی ناقد نے ایک شعر کو اچھا کہا اور دوسرے کوخراب ، تو یہ بیان تنقیدی نہیں بلکہ ذاتی ہوگا یا تاثراتی ،کیونکہ جب تک اس کی وضاحت نہ ہو کہ شعر کو کن بنیادوں پر اچھا اور براکہا گیا ہے ، دوسرے لفظوں میں کہہ سکتے ہیں کہ بغیر دلیل کے کوئی فیصلہ دوسرو ں کے لیے قابل قبول نہیں ہو سکتا ہے۔اس لیے بیشتر ناقدین نے اس شرط کو لازمی قرار دیا ہے۔مثلاً ابوالکلام قاسمی نے بھی آگے چل کر یہی شرط لگا ئی ہے کہ’اس عمل (تنقید)میں تحسین کے ساتھ تنقیص کے مراحل بھی آتے ہیں۔مگر نہ تو تحسین بلا دلیل ہونی چاہیے اور نہ تنقیص بغیر کسی نقص کی نشان دہی کے۔‘‘ 17مرزاخلیل احمد بیگ کے الفاظ میں :
’’تنقید کا منصب و مقصد ادب میں سماج کو ٹٹولنا نہیں ،بلکہ اس جمالیاتی حظ سر خوشی (Aesthetic Pleasure) کو بیان کرنا ہے جو کسی ادبی فن پارے کوپڑھنے کے بعد حاصل ہوتی ہے۔کسی ادبی فن پارے یا نظم کو پڑھنے کے بعد قاری ایک نوع کے جمالیاتی تجربے(Aesthetic Experience)سے گزرتا ہے اس تجربے کا بیان ہی ’تنقید‘ ہے۔‘‘ 18
خلیل احمد بیگ کی یہ تعریف منطقی ہے۔کیونکہ ناقد ادبی فن پارے کے جمالیاتی حظ سے سروکار تو ضرور رکھتا ہے۔مگر اس کا کام یہیں پر ختم نہیں ہوتا،بلکہ وہ اس سے آگے بڑھ کر فن پارے کی اکائیوں کو اپنے تجزیاتی مطالعے کے ذریعے مربوط کرکے فن پارے کے اجزا کو کلیت کی صورت میں پیش کرتا ہے اور پھر اس کے بعد کوئی مجموعی نتیجہ برآمد کرتا ہے۔تو پھر یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ جمالیاتی تجربے کے بیان پر ہی تنقید محض کا قفل لگا دیا جائے؟وحید اختر نے اپنے مضمون’تخلیق وتنقید‘ میں بڑی بصیرت افروز بحث کی ہے اورتنقید کی غرض و غایت کے اعتبار سے اس کے دو بنیادی کام بتائے ہیں، وہ دونوں کام یہ ہیں : 
’’تنقید کا ایک کام تو یہ ہے کہ وہ کسی زبان کے ادبی سرمائے کو سامنے رکھ کراس کا گہرا مطالعہ کرکے نقد کے اصول اخذ کرے۔ یہ اصول کسی حالت میں مطلق،جامد اور آخری نہیں ہو سکتے۔ ان کو بدلتے ہوئے رجحانات اور تقاضوں کے ساتھ بدلنا پڑتا ہے۔ کسی ایک دور کے بنائے ہوئے اصول اور معیار ہر دور پر صادق نہیں آسکتے۔ 133133. اسی کے ساتھ(دوسرا کام یہ ہے کہ)تنقید ایک دور کے ادب کے لیے تخلیق کی روشنی میں بنائے ہوئے معیاروں اور پیمانوں سے ادب کی قدر وقیمت متعین کرنے کا کام بھی کرتی ہے، لیکن قدر متعین کرنے کا کام فروعی ہے،اصل منصب نقاد کا یہی ہے کہ وہ اپنے دور کے ادب اور ادبی معیاروں کا عرفان عام کرے۔تفہیم شعر میں مدد دے، قدر کا تعین اور محاکمہ اضافی اور ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘ 19
وحید اختر نے اپنے مذکورہ بیان میں تنقید کے مقاصد اور اس کی دونوں جہتوں کے اصول و ضوابط اور طریق کا ر کو بڑے سلیقے سے کم لفظوں میں پیش کر دیا ہے۔ یعنی نظری تنقید کی غرض و غایت اور اصولوں کے بننے و بگڑنے کے بنیادی اسباب کی طرف بھی اشارہ کر دیا ہے ،نیز عملی تنقید کی کلیدی حیثیت اور اس کی مرکزیت کا تعین بھی۔ اسی طرح فاروقی بھی تنقید کی دونوں شاخوں کے طریق کار کو سامنے رکھ کر اس کی تعریف میں لکھتے ہیں:
’’یہ دو کام کرتی ہے۔اول تو یہ خارجی دنیا کے اہم ترین مظہر، یعنی ادب کو بیا ن کرنے کے لیے ایسے الفاظ تلاش کرتی ہے جن کا استعمال درستی اور صحت بیان کے لیے ناگزیر ہو۔ یہ اس لیے کہ جو الفاظ نا گزیر ہوں گے ان میں حقیقت کا شائبہ یقیناًہو گا، کیونکہ ہر وہ لفظ جسے نظر انداز کیا جا سکے یا جس کی ضرورت ایسی نہ ہو کہ اسے پس پشت ڈالنا ممکن ہو ، یقیناًاس شے سے نزدیک ترین تعلق نہ رکھتا ہوگا جسے بیان کیا جا رہا ہے۔تنقید دوسرا کام یہ کرتی ہے کہ صحیح ترین بیان کی تلاش کے ذریعے ایسے اصول دریافت یا مرتب کرتی ہے جس کی روشنی میں صحیح بیان تک پہنچنے میں مدد ملتی ہے۔پہلا کام عملی تنقید اور دوسرا نظریاتی تنقید کے ذریعے انجام پاتا ہے۔‘‘ 20
وحید اختراور شمس الرحمن فاروقی کے مذکورہ اقتباسات نظری اور عملی تنقید کی خصوصیات اور امتیازات کو سمجھنے میں بے حدمعاون ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ ان دونوں کے اقتباس میں جہتی حدود و امکانات اور بنیادی مقدمات کا بھی سراغ ملتا ہے،جس کی روشنی میں نظری اورعملی تنقید پر با معنی بحث کی جا سکتی ہے۔
مذکورہ تمام مباحث کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ تنقید در اصل قاری کو فن پارے سے متصل کرنے کا ایک فکری اور عملی نظام ہے۔ قاری اور متن کے ما بین نقادحائل ہو کر اس کے تفہیمی مراحل کی دریافت کا وہ جواز تلاش کرتا ہے ، جس کی بدولت وہ متن معنو یت اورتحسینیت یامعیوبیت کی کیفیت سے متصف ہوا ہے۔ 
نظری تنقید کے بنیادی مباحث
نظری تنقید ادبی اورتنقیدی پیمانوں کی اصول سازی کرتی ہے۔یعنی جب کو ئی تنقیدی معیار ادب کی تعریف،اس کی توصیف اور ان سے مربوط مقاصد کے اجزا کی مختلف النوع جہتوں سے تشریح /توضیح یا اصول سازی کرے تو اسے نظری تنقید کہتے ہیں۔ بہ الفاط دیگر نظری تنقید ادب کے اوصاف،امتیازات اور مقاصد کے اجزا کی اصولی توضیحات سے عبارت ہے۔بقول عبادت بریلوی :’’نظری تنقید میں اصولوں کی بحث ہوتی ہے‘‘21 نظریاتی تنقید میں شعر وادب کے تعلق سے کوئی خیال یا نظریہ پیش کیا جاتا ہے۔مثلاً فن کار یا فن پارے کو کیسا ہونا چاہیے؟ اور کیا نہیں ہونا چاہیے؟۔ نظری تنقید میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ ادب اور اس کی ادبیت کیاہے؟، اس کا فن کیا ہے؟، وہ کیوں کر پیدا ہوتا ہے؟اس کی اہمیت اور ضرورت کیا ہے؟ اور اس کا فن کاری سے کیا تعلق ہے؟ اور مستزاد یہ کہ شعر وادب کے مسائل کی نشان دہی،ان کے حل،اور عصری تقاضوں کے پیش نظر اصولوں کی شکل میں نئی تجویزیں پیش کرنے کو نظری تنقید کہتے ہیں۔بقول فاروقی :
’’نظریاتی تنقید ایسے اصول وضع یا دریافت کرتی ہے جن کی روشنی میں مخصوص فن پاروں پر معنی خیز اور بامعنی اظہار خیال ہو سکتا ہے۔ یعنی اگر نظریاتی تنقید نہ ہو تو بقیہ تنقید، جسے آسانی کے لیے عملی تنقید کہا جاسکتا ہے، وجود میں نہیں آسکتی۔‘‘ 22
سلیم اختر نے بڑی وضاحت کے ساتھ نظریاتی تنقید کے ان مباحث کاذکر کیا ہے جن سے نظریا تی تنقید اپنا بنیادی سروکار رکھتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ :
’’نظری تنقید اصول سازی سے عبارت ہے۔اس میں ادب اور فن سے وابستہ مسائل و مباحث کا جائزہ لیتے ہوئے ادبی قدروں کی چھان پھٹک سے تخلیقی معائیر کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ ادب کیا ہے؟ تنقید کی کیا اہمیت ہے؟ اس کا تخلیق سے کیا رشتہ ہے؟ نقاد کا منصب کیا ہے؟ مختلف اصناف کے فنی حسن و قبح کے تعین کے لیے رہنما اصولوں کی تشکیل و تحلیل۔ یہ اور اسی نوع کے دیگر سوالات اور متنوع مسائل کے جوابات مہیا کرنا نظری تنقید کا کام ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان تمام وجوہات پر تنقید بھی اسی میں شامل ہے۔ بہ الفاظ دیگر نظری تنقید، تنقید پر تنقید کا نام ہے۔‘‘ 23
مذکورہ دونوں اقتباسات سے معلوم ہوا کہ نظریاتی تنقید ایسے اصول و ضوابط وضع کرتی ہے جن کی روشنی میں کسی مخصوص فن پاروں پر بامعنی اور معنی خیز اظہار خیال کیا جا سکے۔اگر نظریاتی تنقید کا وجود نہ ہو تو پھر عملی تنقید وجود میں نہیں آسکتی ہے۔عملی تنقید کے پس پشت کوئی نہ کوئی تنقیدی شعور/ نظریہ ضرور کار فرما رہتا ہے۔یہ الگ مسئلہ ہے کہ ان اصولوں کی ماہیت سے ہم شعوری طور پر با خبر ہوں یا بے خبر۔مثلاً جب آپ کے سامنے کوئی ادبی متن پیش کیاجاتا ہے،تو فوراً آپ کا تنقیدی ذہن اس متن کو یا اس متن کے بعض حصوں کو نظم یا نثر کے خانوں میں ضرور تقسیم کرتا ہے۔تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ آپ نے کن پیمانوں پر نظم و نثر کی تفریق کی ہے؟اور پھر مزید آپ اس نثر و نظم کی اصنافی اقسام کن اصولوں پر کرتے ہیں؟ کہ یہ قصیدہ ہے، یہ مثنوی ہے، یہ مرثیہ ہے، یہ غزل ہے، یہ قطع ہے، یہ رباعی ہے، یہ پابند نظم ہے، یہ نثری نظم ہے۔ یا اسی طرح یہ داستان ہے،یہ ناول ہے،یہ افسانہ ہے،یہ ڈرامہ ہے، یہ انشائیہ ہے، یہ خط ہے، یہ رپورتاژ ہے۔ یہی نہیں بلکہ پھر آپ کہتے ہیں کہ یہ تشبیب کے اشعار ہیں ،یہ گریز کے اشعار ہیں یہ مدحیہ اشعار ہیں، اور یہ دعائیہ اشعار ہیں۔اور اس پرمستزاد یہ کہ اس شعر میں فلاں حسن ہے اور اس شعر میں فلاں قبح۔ تو یقیناً آپ کے اس فیصلے میں نظریاتی تنقید کارفرما ہے۔اور آپ نے کسی نہ کسی فکری نظام کی روشنی میں ادبی متن کے تخصیصی صفات کا تعین کیا ہے۔لہٰذا کسی فن پارے کو اچھا، بہت اچھا، کم اچھا ،یا خراب ، بہت خراب ،کم خراب کا تعین کسی نظریۂ شعر کی روشنی میں ہی کیا جا سکتا ہے۔یعنی نظریۂ قرات کے بغیر کسی فن پارے کے متعلق کوئی فیصلہ یا تجزیہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔بقول فاروقی ’’کسی نظریۂ ادب کے بغیر کسی فن پارے کے ظاہری اور ہئیتی خواص کا بیان بھی ممکن نہیں،چہ جائے کہ اس کے ظاہری صفات اور اس کے فنی اقداری پہلوؤں پر اظہار خیال یا تنقید ممکن ہو۔آئی اے رچرڈس (I.A.Richards) کا قول ہم جلد سوم میں پڑھ چکے ہیں کہ’یہ فیصلہ کہ کوئی متن عمدہ ہے،زندگی کا عمل ہے۔ اس کے محاسن کا معائنہ اور بیان نظریے کا عمل ہے۔‘یعنی یہ معائنہ اور بیان ممکن ہی نہیں ہے اگر نظریہ (Theory)نہ ہو‘‘24 اسی نظریۂ قرات کی تشکیل،توضیح،تعبیر،تخصیص کو نظری تنقید کہتے ہیں۔تمام قرات میں مخصوص نظریۂ قرات کی شمولیت ناگزیر ہے۔ با الفاظ دیگر ہر عملی تنقید میں نظری تنقید کا وجود لازمی ہے۔ بقول ابوالکلام قاسمی :
’’تنقیدی نظریہ کا کو ئی بھی عملی اطلاق ، نظریے اور اطلاق کی مکمل ہم آہنگی کے بغیر ممکن نہیں۔ کسی نظریے ، نقطۂ نظر اور نظام فکر کے بغیر اطلاقی تنقید ہوا میں معلق ہو کر رہ جاتی ہے۔‘‘ 25
آل احمد سرور نے اپنے مضمون ’ تنقید کیا ہے‘ کی غرض و غایت پر بڑی معنی خیز بحث کی ہے۔ اور تنقید کا مترادف لفظ ’پرکھ‘ کو مناسب قرار دے کر ’ کسوٹی/ معیار‘ کی ضرورت پر بھی روشنی ڈالی ہے۔یعنی ہر چیز کے پرکھنے کی ایک خاص کسوٹی یا معیار کا تعین لازمی ہے۔نظری تنقید اسی کسوٹی کو وجود بخشتی ہے۔ یعنی ہم کسی فن پارے یا فن کار کو کن پیمانوں ،اصولوں ، طریقوں،معیاوں پر پرکھیں گے۔ اس لیے عملی تنقید کے لیے نظری تنقید مشروط ہے۔ بقول آل احمد سرور :
’’پرکھ کے لفظ کے ساتھ ہمارے ذہن میں ایک معیار یا کسوٹی آتی ہے۔نقاد کے ذہن میں ایسا ایک معیار ضروری ہے۔‘‘ 26
جب تنقید کا مقصد شعر و ادب کی جانچ و پرکھ ہے، اس کی عظمت اور اہمیت کا پتہ لگانا ہے،مستزاد یہ کہ اس پر کوئی درست رائے قائم کرنا ہے۔ تو پھر ہمیں کچھ رہنما اصول اور میزان چاہیے، جن کو حاصل کرنے کے لیے نظری تنقید کا سہارا لینا لازمی ہوگا۔ یعنی جب تک ہمیں اس کا ہی علم نہیں کہ ادب کیا ہے؟، ادب کو کیا ہونا چاہیے،اسے کن اوصاف کا حامل ہوناچاہیے، اس کا مقصد کیا ہے، تو ہم اس وقت تک عملی تنقید نہیں کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نظری تنقیدمیں اصول سازی کی جاتی ہے،اور پھر انہیں اصولوں کا اطلاق ادب پارے پرکرکے کوئی رائے قائم کی جاتی ہے۔کلیم الدین احمد اصول تنقید کی عدم واقفیت پر مبنی ادبی مطالعات کو تنقید کے بجائے رائے زنی قرار دیتے ہیں۔وہ رقمطراز ہیں :
’’اصول تنقید سے عدم واقفیت میں فن پاروں کا تجزیہ کرنا، ان کی قدر وقیمت کا اندازہ کرنا،ان کے حسن صورت کو سمجھنا،ان کو دوسرے فن پاروں سے ملانا،آرٹسٹ کے دماغ میں سمانا ناممکن ہے۔جو بات بھی کہی جائے گی وہ تنقید نہ ہو گی ، رائے زنی ہو گی۔‘‘ 27
اب یہ سوال قائم ہوتا ہے کہ نظری تنقید کن بنیادوں اور کن وسائل سے ادبی اصولوں کو وضع کرتی ہے؟ کیا وہ ادبی فن پاروں کو سامنے رکھ کر اصول بناتی ہے؟ یاپھر باہر سے ادب پر اصول چسپاں کیے جاتے ہیں ؟ نظری تنقید کا جہاں تک بنیادی تعلق ہے تو وہ ادبی کارناموں کو سامنے رکھ کرہی اصولوں کی تشکیل کرتی ہے۔جیسا کہ ارسطو نے یونان کے مثالی فن پاروں کی روشنی میں ادبی اصول مرتب کیے۔ مثلاً ارسطو نے ہومر کی رزمیہ نظموں میں دیکھا کہ اس کے اجزائے ترکیبی تمہید،اصل بیان،اور نتیجہ سے مربوط ہیں، تو اس نے رزمیہ شاعری کو انھیں تینوں اصولوں سے مشروط کیا۔یہاں تک ایک طویل زمانہ تک رزمیہ شاعری انہیں تینوں عناصر کی پابند رہی۔ یا اسی طرح ہمارے تذکرہ نگاروں نے جس درجہ کی بھی شعر و ادب کی عملی تنقید پیش کی ہے، جن کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ یقیناً ان کے اس عمل کے پیچھے ایک مروجہ تصور شعر موجود تھا، جس کی روشنے میں ان لوگوں نے کلام کی اصلاحیں ،انتخاب شعراور اشعار کی معیا ر بندی کی کوششیں کیں۔ اگر چہ اس دور میں منظم طور پر ادبی اصول سازی کا کوئی رویہ ہمیں دستیاب نہیں ہوتا،لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے پاس اشعار کی جانچ پرکھ کا کوئی پیمانہ نہ تھا، پیمانہ ضرور تھا اور یہ انھوں نے اپنے متقدمین و معاصرین کے مخصوص شعر وادب کو سامنے رکھ کر ہی وضع کیا تھا۔ جیسا کہ میر نے’ نکات الشعرا‘ کے آخری صفحہ پر اصول شعر کے جن نکات کو پیش کیا ہے وہ اس کی عمدہ دلیل ہے۔ یا اسی طرح حالی نے ’مقدمہ شعر و شاعری‘کے پہلے حصے میں اور’ یادگار غالب‘میں غالب کے کلام کا جائزہ لینے سے قبل اصول سازی کی ہے۔ اسی طرح امداد امام اثر نے ’کاشف الحقائق‘ میں شاعری کے اصو ل وضع کیے ہیں۔شبلی نے ’شعر العجم اور موازنہ انیس و دبیر ‘ میں ادبی اصولوں کی شیرازہ بندی کی کوشش کی ہے۔یا ہمارے عہد میں شمس الرحمن فاروقی نے میر کے کلام کو پرکھنے کے لیے ’شعر شور انگیز‘ کی جلدوں میں اصول نقد و شعر کی شیرازہ بندی کی ہے۔مذکورہ سبھی اصولوں کا بنیادی جواز یہی ہے کہ ان میں سے بیشتر اصول مخصوص فن پاروں سے ہی نکالے گئے ہیں۔وہ اصول جو مخصوص فن پاروں سے اخذ کیے جائیں انھیں استخراجی اصول کہا جاتا ہے۔ کلیم الدین احمد کا یہ قول کہ’نقاد ادبی کارناموں سے اصول فن اخذ کرتا ہے۔‘ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔کیونکہ جو اصول ادبی فن پاروں کے پیش نظر وضع کیے جاتے ہیں ،ان میں غلطی کے امکانات بہت کم رہتے ہیں،بلکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ بہت حد تک غلطی سر زد ہی نہیں ہوتی ہے۔ اور دوسروں کے لیے اس طرح کے اصول قابل قبول بھی ہوتے ہیں۔احتشام حسین نظری تنقید کے متعلق لکھتے ہیں :
’’عملی تنقید نظریاتی تنقید کا استعمال ہے۔شعر و ادب کو جانچنے کے لیے یہ نظریے، شعر و ادب کو جانچنے اور پرکھنے کے دوران میں پیدا ہوئے ہیں اور کہیں سے بن کر نہیں آئیں ہیں۔‘‘ 28
دوسری جگہ سید احتشام حسین کامزید وضاحتی بیان دیکھیے :
’’ تنقید کے اصول ادب کے اندر سے ہی وضع کیے گئے ہیں ، اگر وہ باہر سے ادب پر لادے جائیں تو انھیں تنقید (نظری تنقید )نہیں کہا جا سکتا ہے۔‘‘ 29
شعر وادب کی جانچ پرکھ،اچھے اور برے،کھرے اور کھوٹے میں تمیز کی طاقت تنقیدی پیمانہ رکھتا ہے۔اور ان پیمانوں کی تشکیل نظریاتی تنقید کرتی ہے۔اور پھر انھیں پیمانوں کی روشنی میں شعر وادب کی عملی تنقید کی جاتی ہے۔اور یہ اصول انھیں فن پاروں سے خارج کیے جاتے ہیں۔آل احمد سرور اپنے مضمون ’شاعری اور نثر‘ میں لکھتے ہیں :
’’ادبی تخلیق تنقید کے پیچھے چلتی ہے اور اس کی روشنی میں اپنے اصول اور قواعد و ضوابط متعین کرتی ہے۔‘‘ 30
لیکن یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ کوئی بھی مصنف اصول ونظریات کی روشنی میں اپنی تخلیق کو پائے تکمیل تک نہیں پہنچاتا، کیونکہ خالق کے پاس اپنی تخلیق کا ایک انتخابی شعور اور تنقیدی نظریہ ہوتا ہے، جس کی رہبری میں وہ اپنے فن پارے کو تخلیق کرتا ہے۔بقول شمس الرحمن فاروقی’ہر تخلیق اپنے اندر تنقید کا عنصر بھی رکھتی ہے،چاہے بالقوہ، چاہے بالفعل۔‘‘ 31ٹی ایس ایلیٹ کے نزدیک تو سب سے اعلیٰ اور ارفع تنقید وہ ہے جو مصنف خود اپنی تخلیق پر کرتا ہے ،وہ لکھتے ہیں کہ’ایک مصنف کی اپنی تصنیف کے سلسلے میں محنت شاقہ کا بڑا حصہ تنقیدی محنت کا ہوتا ہے۔ یعنی چھاٹنے،جوڑنے، تعمیر کرنے، خارج کرنے،صحیح کرنے، جانچنے کی محنت، یہ اذیت ناک محنت جتنی تنقیدی ہوتی ہے اتنی ہی تخلیقی ہوتی ہے۔میں تو یہاں تک کہوں گا کہ ایک تربیت یافتہ اور ہنر مند مصنف جو تنقید اپنی تصنیف پر کرتا ہے وہ بے حد اہم اور اعلیٰ درجے کی تنقید ہے۔‘‘32 وحید اختر نے بھی لکھا ہے کہ ’تخلیق نظریے یا اصول کو سامنے رکھ کر نہیں وجود میں آتی، بلکہ نظریے اور اصول تخلیق کے بعد ظہور میں آتی ہیں‘33 اس عمل سے واضح ہے کہ ادبی نظریات اس وقت تک معرض وجود میں نہیں آسکتے ہیں، جب تک کہ شعر وادب سامنے نہ ہو۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے مختلف موقعوں پر اس بات کو دہرایا ہے کہ :
’’بہت ساری نظریاتی تنقید مخصوص فن پاروں کے ہی حوالے سے بات کرتی ہے۔‘‘ 34
’’تنقیدی نظریات فن پاروں کی روشنی میں مرتب ہوتے ہیں۔‘‘ 35
’’نظریاتی تنقید کا اگر کوئی جواز ہے تو یہی ہے کہ وہ فن پارے کے اصل وجود سے بحث کرتی ہے۔‘‘ 36
مخصوص فن پاروں سے وضع کردہ اصولوں کے متعلق فاروقی یہ سوال خود قائم کرتے ہیں کہ ان اصولوں کی صحت کا کیا جواز ہے، یعنی یہ کیسے تسلیم کر لیا جائے کہ جو فن پاروں کے پیش نظر اصول مستنبط کیے گئے ہیں وہ درست ہیں ، اگر اس کا جواز فن پاروں کا سامنے ہونا ہے، تو پھر یہ کیسے ثابت ہوگا کہ یہ فن پارے صحت مندہیں یا غیر صحت مند؟ 37 اپنے قائم کردہ سوال کا جواب وہ یوں دیتے ہیں کہ نظریات چو ں کہ ایسے فن پاروں سے مستنبط کیے گئے ہیں جن کی خوبی مرور ایام کے ذریعے مسلم ہو چکی ہے۔ یعنی امتداد زمانہ نے ان کی عظمت یاخوبی کے تاثر کو کم نہیں کیا ہے لہٰذا ان نظریات کو صحیح کہنا ہی پڑے گا۔‘‘38 فاروقی کے اس بیان سے یہ نکتہ سامنے آیا کہ تسلیم شدہ فن پاروں ہی سے اصول اخذ کیے جاسکتے ہیں ، اور ان کے تسلیم شدہ ہونے کی دلیل یہ ہو گی کہ مرور ایام کے ذریعے ان فن پاروں کی خوبیوں اور عظمتوں کو قبول کرلیا گیاہو۔ 
شعر و ادب کی جانچ پرکھ کے بعض اصول استقرائی ہوتے ہیں۔ مثلاً ہمارے اردو ادب میں ابتداً مرثیے کی کوئی ہیئت مخصوص نہیں تھی،بلکہ مختلف ہیئتوں میں مرثیے تخلیق کیے گئے۔لیکن میر ضمیر کے بعد یہ قرار پا لیا گیاکہ مرثیہ کی مخصوص ہیئت مسدس ہی ہوگی۔ مرثیے کی ہیئت کے لیے مسدس کا تعین۔یا اسی طرح مرثیے کے موضوعات،کرداروں کے اعمال و افکار، عادات و اطواراور جغرافیائی خصوصیات کو خالص ہندوستانی تسلیم کرلیا گیا ہے۔ یا اسی طرح اردو شعر و ادب کی مختلف اسمائے اصناف کا تعین بہ اعتبار خواص وغیرہ۔ لہٰذا اس طرح کی معیار بندی کو استخراجی نہیں بلکہ استقرائی کہا جائے گا۔یعنی شعر وادب کی معیار بندی کے وہ اصول جو مثالی ادب پاروں سے اخذ کیے جائیں ،وہ استخراجی اصول کہلائیں گے، اور شعر و ادب کی وہ معیار بندی جو تسلیم شدہ حوالوں کی بنیاد پرہمارے ناقدین کے مابین قرار پا جائے، اسے استقرائی اصول کہیں گے۔ 
شعر و ادب کی جانچ پرکھ کے لیے بعض تخصیصی اور ترجیحی اصول سازی بھی ہوتی ہے۔اس طرح کی معیار بندی کو ہم امتیازی اصول کہہ سکتے ہیں۔آج ادبی تنقید کے منظر نامے پر بہت سی تنقیدی جہتوں /طریق کاروں کاتصرف نظر آتا ہے۔ہر جہت اپنا مخصوص نظریہ رکھتی ہے۔اور وہ اسی روشنی میں شعر وادب کا امتیازی مطالعہ کرتی ہے۔ وہ اس طرح کہ ادب کی صفات ،امتیازات اور خصوصیات کا تعین اپنے مقاصدی حصول کے زیر اثر وضع کرتے ہیں۔مثلاً جمالیاتی ناقدین کے یہاں اپنا مخصوص تنقیدی نظام ہے۔ترقی پسندوں کے یہاں ان کاذاتی تصور ادب ہے۔لسانیاتی ناقدین کا تنقیدی معیار علاحدہ۔ ہیئتی نقادوں کے یہاں ادب کی تعریف اور اس کو پرکھنے کا پیمانہ منفرد۔ان تمام مکتبۂ فکر کے انفرادی اور امتیازی ادبی اور تنقیدی تصورات ہیں، جن کو ہم بلا تامل امتیازی اصول کہہ سکتے ہیں۔ہاں یہ نکتہ ملحوظ خاطر رہے کہ خانہ بند طریق نقد شعر و ادب کے مطالعے کا کلی حربہ /تجربہ نہیں، بلکہ یہ جزوی حیثیت کا متحمل ہوتا ہے۔حالانکہ نقاد کو خانہ بند نہیں ہونا چاہیے،تاکہ ادب کے مطالعے میں یک رخا پن پیدا نہ ہو۔ بقول آل احمد سرور’اردو میں تنقید اچھی اچھی لکھی گئیں، مگر صحیح تنقید جس کا راستہ بال سے زیادہ باریک ہے اسی وجہ سے زیادہ ترقی نہ کر سکی،(کیونکہ ) مختلف ٹولیوں نے اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا‘‘ 39 یہ حقیقت ہے کہ خانہ بند ناقدین نے اپنے طبقاتی نقطۂ نظر کی تنگ دامنی کے باعث اردو تنقیدکو خاصا نقصان پہنچایا۔
امتیازی اصولوں کاادبی نظریہ دائمی نہیں ہوتا بلکہ وقتی ہوتا ہے ،کیونکہ ادب تغیر پذیر ہے اور ادبی تخلیق اپنے مخصوص عہد کی غماز ہوتی ہے اور نظریات اپنے وقت کے تقاضوں کے پیش نظر تشکیل پاتے ہیں۔ اس لیے یہ ضروری نہیں کہ آج کے وضعاتی اصول کل کے لیے بھی کارگر ہوں۔کیونکہ بقول کلیم الدین : ’ہر زمانہ اپنی نظر الگ ر کھتا ہے اور اسی نظر سے وہ نئے اور پرانے ادب کو دیکھتا ہے۔اس کا تجزیہ کرتا ہے۔ اس کی خامیوں اور برائیوں کا پتہ لگاتا ہے۔‘ 40 مثلاً ترقی پسندوں کے نظریات آج عام طور پر قابل قبول نہیں، کیونکہ ان کا تعلق جس دور کے تقاضوں سے تھا وہ قصۂ پارینہ ہو گیا۔ اور مستقبل بدل گیا حال میں ، کل جو حال تھا آج وہ ماضی میں تبدیل ہو گیا۔ اس لیے آج کے نظریات نے قدیم یعنی ماضی کے تصورات کو ڈھانپ لیا،جس کے بعض نقوش آج بھی نظر آتے ہیں۔لیکن اس ضمن میں ممتاز حسین کے اس قول کی بہت اہمیت ہے کہ ’نیا مذاق سخن ،پرانے مذاق سخن ہی کی گود سے پیدا ہوتا ہے۔‘‘ 41
اس لیے یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ نظری تنقید کی اساس ،مقصد کی تکمیل پر ہی استوار کی جاسکتی ہے۔ یعنی نظریہ سازنقاد اپنے یا اپنے نقطۂ نظرسے اصول تنقید وضع کرتے ہیں،لیکن اس طرح کے اصول نہ استخراجی ہوتے ہیں اور نہ استقرائی، بلکہ امتیازی ہوتے ہیں،کیونکہ بعض نظریہ ساز نقاد کا ادبی مطمح نظر خالص ادبی ہوتا ہے اور بعض کا افادی۔ ان دو شقوں کی بھی مختلف اقسام ہیں ، جس کی متعدد مثالیں ہماری اردو تنقید میں دبستانوں کی شکل میں ملتی ہیں۔اس لیے نظریہ ساز ناقدین کے تنقیدی اصول ایک دوسرے کے اکثر متخالف اور متضاد ہوتے ہیں۔ اور یہ کبھی یکساں ہو بھی نہیں سکتے ۔ہاں اگر نقطۂ اتصال پیدا ہو بھی جائے تو یہ کلی نہیں بلکہ جزوی ہوتا ہے۔کیونکہ ہر دور کے کچھ ادبی تقاضے مخصوص ہوتے ہیں،جس کا اثر شعوری اور غیر شعوری طور پر ادب پر پڑتا ہے۔ جب ادب اپنے دور کے تقاضوں سے متاثر ہے ، تو تنقید بھی لازماً متاثر ہوگی۔اسی بنیاد پر ٹی ایس ایلیٹ کاخیال ہے کہ ’ یہ بات واضح رہے کہ ہر نسل اپنا ایک نیا نقطۂ نظر رکھتی ہے،اور یہ نقطۂ نظر نقاد کی تحریروں میں شعوری طور پر ظاہر ہوتا ہے‘‘ 42 نیز بقول محمد حسن :
’’نظریے خود بدلتے ہوئے سماجی تقاضوں کے ہاتھوں ٹوٹتے پھوٹتے رہتے ہیں۔ آج کا نظریہ کل کے لیے قابل قبول نہیں۔کل کے نظریے آج ہم یکسر رد کر چکے ہیں ، یا ان میں ایسی ترمیم و تنسیخ کی ،کہ ان کی شکل و صورت بدل گئی۔‘‘ 43
بقول آل احمد سرور :
’’میں ادبی اصولوں کو اٹل نہیں سمجھتا نہ ادب میں مطلق العنانی اور آمریت کا قائل ہوں۔ میرے نزدیک تجربوں کی ادب میں ہمیشہ ضرورت ہے۔اور تخلیق میں اختراع اور جدت کی ہمیشہ قدر کرنی چاہیے،مگر ہر تجربہ پر ایمان نہیں لانا چاہیے133.. ادب میں انفرادیت/ خارجیت، اور عصریت تینوں کا میں قائل ہوں اور تینوں کو ایک دوسرے کی ضد نہیں سمجھتا۔‘‘ 44
یہ جاننا بھی بہت ضروری ہے کہ نظریات کیوں کر بنتے اور بگڑتے ہیں ؟نظریات کے بننے اور بگڑنے کا جہاں تک بنیادی تعلق ہے وہ فن پاروں پر موقوف ہے۔جب ایک دور کی مسلمہ تہذیب، ثقافت اور روایت نئے دور کے عصری مسائل اور تقاضوں کو اپنے اندر ضم کرکے تازہ دم ہوتی ہے ،تو پھر سابقہ رویوں میں بھی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔انھیں تبدیلیوں کے زیر اثر ادب بھی متاثر ہوتا ہے،یہ ادبی تاثر نظریات پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ جس کے باعث از سر نو اصولوں کی شیرازہ بندی کرنے کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اس عمل سے ہر دورمیں نظریہ ساز ناقدین کے تین طبقے وجود میں آتے ہیں۔ ایک طبقہ وہ ہوتا ہے جو خالص ماضی پرست ہو جا تاہے، دوسرا طبقہ جدید یت پسند ہوجاتا ہے، تیسرا طبقہ ماضی اور حال دونوں کو ساتھ رکھ کر توازن پیدا کرنے کوشش کرتا ہے۔مثلاً مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد مغربیت کا تسلط ہوا۔ تو ہمارے اردو ناقدین کو عصری تقاضوں کے پیش نظر از سر نو ادبی اصول سازی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ حالی نے مغرب کی پیروی کا اعلان کیا،لیکن شبلی نے مشرقیت کو مضبوطی سے تھامے رکھا،جب کہ امداد امام اثر نے مشرق و مغرب دونوں کی پیروی کی وکالت کی۔ایک عرصہ کے بعد ترقی پسندیت کا دورآیا، تو پھرایک طبقہ ماضی پرست ہوا، دوسرا طبقہ روایت کا مخالف ہوا، اور تیسرے طبقے نے ماضی اور حال دونوں کے اقدار کو قبول کیا۔کچھ ہی سالوں کے بعد نیا رجحان سامنے آیا،تو پھر اسی طرح کے تین طبقے پیدا ہوئے۔ یہ سلسلہ ہمیشہ چلتا رہتا ہے۔مذکورہ بحث کو میں نے طول اس لیے دیا ،تا کہ نظریات کے بننے اور بگڑنے کی اساس کو سمجھنے میں آسانی ہو۔نیز یہ بھی واضح ہو جائے کہ نظریات کتاب کے اوراق کی طرح آناً فاناً بدلتے نہیں ہیں، بلکہ کتاب کے صفحات پر پڑے ہوئے ہندسہ کی طرح ہیں، جس کا وجود آگے اور پیچھے کے ہندسہ کی وجہ سے ہے۔ کہنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ماضی کی پہچان مستقبل سے ہوتی ہے اور مستقبل کی پہچان حال سے ہوتی ہے اور حال کی پہچان ماضی اور مستقبل دونوں سے ہوتی ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ ماضی کے ادبی نظریات کو چھوڑ کر حال کے ادبی نظریات کو سمجھا جاسکے؟ اس لیے اپنے اپنے وقت کے ناقدین مذکورہ تینوں طبقوں کے نظریہ ساز ناقدین کے اصولوں کا تجزیہ، تقابل،فیصلہ،اور ان تینوں مراحل سے پیدا شدہ مسائل اور میلانات کی دریافت ، ترمیم و تنسیخ ، رد وقبول میں سرگرداں رہتے ہیں۔بعض ناقدین فکری تنوع کے عالی ظرف سے معریٰ ہوکر محض خانہ بند تصورات کے تلے دب کرفن پاروں کو دیکھتے اور پرکھتے ہیں،پھر نتیجتاً ادبی امکانات پرعصبی پردہ اس قدر حائل ہوتا ہے کہ گردش لہو صحت مندی سے بعد اختیار کر لیتی ہے جس کی وجہ سے آج یہ مشکل در پیش ہے کہ اردو تنقید میں نظریات کا غلبہ ہے،لیکن ان میں سے بیشتر نظریات ہمارے ادب کے لیے کار آمد نہیں ،کیونکہ ان کے رشتے ادبی نظریہ سازی کے بجائے شخصی نظریہ بازی سے علاقہ رکھتے ہیں۔اوریہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اگر شعر وادب کی جانچ و پرکھ غیر ادبی پیمانوں سے کی جائے گی تو اس کے نتائج منفی اور گمراہ کن ثابت ہو ں گے۔بقول شمس الرحمن فاروقی’تنقیدی نظریات کا تفاعل یہ ہے کہ وہ فن پارہ اور غیر فن پارہ میں تفریق و تمیز کرتے ہیں اور ان کے سہارے ہم فن پاروں کی وضاحت اور تعیین مراتب بھی کر سکتے ہیں۔‘‘45 فاروقی نے یہی بات دوسری جگہ بڑی عمدگی سے لکھی ہے کہ’نظریاتی تنقید کا سب سے پہلا کام یہ ٹھہرا کہ وہ فن پارے کی پہچان فن پارے کے حوالے سے متعین کر سکتی ہے۔‘‘ 46
عملی تنقید کے بنیادی مباحث
عملی تنقید کسی خاص تصور نقد یعنی مخصوص یا معینہ اصول و ضوابط،خصوصیات،صفات اور امتیازات کی روشنی میں فن پارے کو جانچتی اور پرکھتی ہے۔ یہ نت نئے طریقے، اسلوب اور تناطر سے فن پارے کو پرکھ کر اس کی تفہیم، توضیح اور تجزیے کے ذریعے متن کوسمجھنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ فن پارے کی تہہ در تہہ میں اتر کر اس کی باریکیوں کا پتہ لگاتی ہے،تاکہ مزید دریافتیں موصول ہوں۔عملی تنقید کا براہ راست تعلق چونکہ متن کے دونوں پہلوؤں یعنی مواد اور ہیئت سے ہوتا ہے اس لیے وہ اصل متن کوموضوع بحث رکھ کراس کے محاسن و معائب کو مع اسباب وعلل پیش کرتی ہے۔ بہ الفاظ دیگرعملی تنقید شعر وادب کامطالعہ اس طرح کرتی ہے کہ متن کی افہام و تفہیم اور مراتب فن کے گنجلک پن،ابہام و اشکال کے امکانات کسی حد تک معدوم ہو جاتے ہیں۔اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ عملی تنقیدقاری کو یوں بیدار کرتی ہے کہ اس کی کی فہم و بصیرت اور لطف اندوزی میں قدرے اضافہ ہوتاہے۔مشرق و مغرب کے اہم ناقدین نے عملی تنقید کی تعریف اور اس کے جواغراض و مقاصد بیان کیے ہیں ان کو درج ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔آئی اے رچرڈس کے مطابق :
’’عملی تنقید نظم کا تجزیہ، نظم میں استعمال کیے گئے الفاظ، بحر، اوزان،آہنگ، کیفیات ، ماحول ، کشش اور معانی و مطالب ان ہی سب باتوں کا نام ہے۔‘‘ 47
رابرٹس(Mark Roberts) اور راڈوے(Allan Rodway)دونوں نے غیر عصبیت کی شرط لگا کر فن پارے کا بغور مطالعہ کرنے کو عملی تنقید کہا ہے۔ان دونوں نے اپنے مشترکہ مضمون’عملی تنقید ‘ (Practical Criticism)میں عملی تنقید کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :
’’عملی تنقید کسی ادب پارے کو غور سے اور بغیر کسی تعصب کے پڑھنے کا نام ہے۔عملی تنقید کے ذریعے شاعری کو نا شاعری اور اچھی شاعری کو خراب شاعری سے ممیز کیا جا سکتا ہے۔‘‘ 48
پہلی جنگ عظیم کے پندرہ سال بعد آئی اے رچرڈس کی کتاب (Practical Criticism) 1929میں منظر عام پر آئی، اور اسی کتاب نے (مخصوص)عملی تنقید کی بنیاد ڈالی، اس نوع کی عملی تنقید کرنے والوں میں ایف آر لیوس(F.R.Leavis)،ولیم ایمپسن( Sir William Empson)، ولیم کے ( William K.)،اورالین ٹیٹ(Allan Tate)وغیرہ کے نام خاصے قابل ذکر ہیں۔اس میں ادب پارے کو منفرداکائی کی حیثیت سے پرکھنے کی کوشش اور عام طور پر فن پارے کے لفظی پیکر اور محاورات پر خاص توجہ صرف کی جاتی ہے۔ اس فکرکے بیشتر ناقدین مواد کے برعکس ہئیت کو اپنا خاص موضوع نقدبناتے ہیں۔اور مواد کے طور پر فکر ،لہجہ،احساس اور مقصد کو بھی مد نظر رکھتے ہیں۔ لیکن یہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ صرف اور صرف یہی عملی تنقید نہیں ہے ، بلکہ ہر وہ مطالعہ ،تجزیہ ، تعین قدر اور فیصلہ عملی تنقید ہے جو اپنے تسلیم شدہ اصولوں کی روشنی میں کیا جائے۔ بعض لوگوں کو عام طور پر یہی سمجھنے میں غلط فہمی ہوئی کہ انگریزی میں آئی اے رچرڈس اور اردو میں کلیم الدین احمدعملی تنقید کے موجد ہیں۔اس کا بنیادی سبب یہ رہا کہ ہمارے ذہن میں عملی تنقید کا مفہوم واضح نہیں تھا۔اور ہم اس سے قبل (Practical Criticism) جس کا اردو ترجمہ عملی تنقید کیا گیا،کے نام سے اور اس کی اصطلاح سے بالکل نا واقف تھے۔ اس لیے ہم نے عملی تنقید کو انگریزی میں آئی اے رچرڈس اور اردو میں کلیم الدین احمد کے سر باندھ دیا۔ حالانکہ ابتدئے افرینش سے ہی تنقید کی دونوں قسمیں وجود میں آچکی تھیں۔ کلیم الدین سے بہت پہلے ہمارے کلاسیکی ادب کے دیباچے،تقاریظ، اور تذکروں میں بھی عملی تنقید ملتی ہے، یہی نہیں بلکہ منظم طور پر’ آب حیات، کاشف الحقائق،مقدمہ شعر و شاعری،حیات سعدی، یاد گار غالب، شعر العجم اور موازنہ انیس و دبیر ‘میں عملی تنقید کے عمدہ ہی نہیں بلکہ مثالی نمونے موجود ہیں۔اگر ہم خود اپنے ناقدین کی عملی تنقید کی تعریفات پر غور کرتے تو یہ بات پیدا نہیں ہوتی۔جب آئی اے رچرڈس خود ہی کہتا ہے کہ’ عملی تنقید نظم(شاعری) کا تجزیہ، الفاظ،بحر ، اوزان، آہنگ، کیفیات ، ماحول،کشش اور معانی و مطالب ان ہی سب باتوں کا نام ہے‘ تو پھر یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ ادب موجود تھااور اس کے تفہیمی وسائل موجود نہیں تھے۔اب دیکھیے کہ ہمارے اردو ناقدین نے عملی تنقید کے متعلق کیا لکھا ہے۔ عبادت بریلوی عملی تنقید کے متعلق رقمطراز ہیں :
’’عملی تنقید اس کو کہتے ہیں جس میں کوئی نقاد انھیں بنائے ہو ئے (معینہ ) اصولوں کی روشنی میں کسی وقت کے ادب اور آرٹ کے کسی مخصوص شاہکار کو دیکھتا ہے ،پرکھتا ہے اور ان کا جائزہ لیتا ہے۔‘‘ 49
یوسف تقی کے نزدیک عملی تنقید فن پارے کی جراحی کا عمل ہے، جس کے ذریعے نقاد شعرو ادب کی نشتر زنی کرتا ہے۔انھوں نے عمل جراحی کی اصطلاح خوب وضع کی ہے،جس میں عملی تنقید کے تمام اغراض و مقاصد اور طریق کار سبھی کچھ سمٹ آئے ہیں ،نشتر زنی کا بنیادی مقصد ہی یہی ہے کہ عمل جراحی کے ذریعے فاسد مادے کو نکال دیا جائے تاکہ صحت مند عناصر مزید مضرات کی طرف نہ بڑھیں۔وہ لکھتے ہیں :
’’عملی تنقید تو ایک جراحی کا عمل ہے، جس میں نقاد خصوصی طور پر اپنی پسند و ناپسند کو بالائے طاق رکھ کر اپنی فکر و نظر اور علم کے وسیلے سے فن پارے کی نشتر زنی کرکے اس کے محاسن و معائب آشکار کرتا ہے۔‘‘ 50
عبدالمغنی نے عملی تنقید کو تبصرہ،تجزیہ، اور تعین قدر کا بہترین ذریعہ بتایا ہے۔وہ عملی تنقید کے لیے ان الفاظ کو مشتق کرتے ہیں :
’’عملی تنقید وہ ہے جس میں ادب اور تنقید کے اصول و تصورات اور نظریات و افکار کا اطلاق ادبی تخلیقات کے نمونوں پر کیا جاتا ہے۔ اور تجزیہ و تبصرہ کرکے بتایا جاتا ہے کہ یہ نمونے کن اوصاف اور اقدار و معیار کے حامل ہیں۔اور تاریخ ادب میں ان کی کیا قیمت و حیثیت متعین ہوتی ہے۔‘‘ 51
سلیم اختر کے خط قلم سے عملی تنقید کی تعریف دیکھیے :
’’جب نظری تنقید (یا کسی اور ذریعہ )سے وضع کردہ ضوابط وقوانین کی روشنی میں ادبی تخلیقات کے حسن وقبح کو اجاگر کیا جائے تو وہ عملی تنقید کہلاتی ہے۔‘‘ 52
مذکورہ تعریفات سے واضح ہو ا کہ شعر و ادب کا وہ مطالعہ جو اپنی مخصوص شعریات سے عبارت ہو عملی تنقید ہے۔ تو یہ پھر کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ بیسویں صدی کے یہ دونوں ناقدین عملی تنقید کے موجد ہیں ؟ ہاں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ انگریزی میں آئی اے رچرڈس اوراردو میں کلیم الدین احمدعملی تنقید کے ایک مخصوص اور نئے طریق کار کے موجد ہیں۔ 53 اس لیے ان دونوں کو ایک نئے طریق کار کا موجدین کہا جاسکتا ہے۔ نہ کہ عملی تنقید کاموجدین !
بہر کیف نیاز فتح پوری کے نزدیک عملی تنقید کے تین مقاصد ہیں:اول تشریح ،دوم حکم،سوم تعین مراتب۔ تشریح سے ان کی مراد یہ ہے کہ زیر تنقید موضوع کے خارجی حال واحوال سے باخبر ہونا۔یعنی ناقد ، مصنف کے سوانحی حالات و واقعات سے واقفیت رکھتا ہو۔اگر چہ ایک طرح سے دیکھا جائے تو کسی فن پارے کو جانچنے اور پرکھنے کے لیے مصنف کے سوانحی حالات و واقعات سے واقفیت لازمی نہیں۔ کیونکہ متن کی توضیحات اور نہ ہی متن فہمی میں اس طرح کاعمل معاون ہے۔ کیونکہ زیر تنقید متن ہی تفہیم و تعبیر اور تعین قدر کے لیے کافی و شافی ہے۔ہاں اگر مصنف کے متنی سیاق تک رسائی مقصود ہو تو پھر اس کا مطالعہ مناسب ہے، لیکن یہ عمل لازمی نہیں بلکہ اضافی ہوگا۔حکم سے ان کی مراد یہ ہے کہ ناقد کسی فن پارے پر کوئی رائے قائم کرنے کے لیے ذاتی میلان یاانفرادی ذوق کو بنیاد نہ بنائے ،بلکہ اس کی مخصوص شعریات کی روشنی میں ہی فن پارے پر کوئی حکم نافذ کرے۔ نیاز فتح پوری کا یہ نکتہ غیر معمولی ہے۔عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ ناقد اپنی ذاتی پسند وناپسند کے لحاظ سے فن پارے پرجب کوئی حکم لگاتا ہے، تووہ فن پارہ تاثراتی بیان کے باعث تعمیمات کا شکار ہوجاتا ہے۔ جو دوسروں کے لیے قابل قبول نہیں ہوتا۔جیسا کہ غزل پر حالی،عظمت اللہ اور کلیم الدین نے اپنی اپنی آرا صادر کیں،جس کو صاحب علم وفن نے کسی بھی درجہ میں قبول نہیں کیا۔انھیں نقظوں کے پیش نظر شمس الرحمن فاروقی نے اپنی مشہور کتاب ’شعر شور انگیز‘جلد چہارم میں دوران عملی تنقید غیر معمولی بات کہی ہے :
’’تنقید کے سلسلے میں بنیادی بات یہی ہے کہ نقاد کو چاہیے کہ وہ متن کو متن ہی کے اصول و قوانین کی روشنی میں پڑھے،اپنے مفروضات کی روشنی میں نہیں۔ اور متن کے جو اصول و قوانین وہ دریافت کرے ان کاپورا پورا ثبوت متن سے مل سکتا ہو133133133 یہ نہ کرنا چاہیے کہ ادب/متن کے بارے میں رائے پہلے قائم کرلی جائے اور پھر اسی کو ادب/ متن میں تلاش کیا جائے(یعنی ادب/متن کو اس ارادے کے ساتھ پڑھا جائے کہ ہم نے جو رائے پہلے سے قائم کر رکھی ہے، اسی کی صداقت کے ثبوت ہم ادب/ متن میں تلاش کریں گے)‘‘ 54
عام طورپر ہوتا یہی ہے کہ ہم اپنی ذاتی ترجیحات اورتخصیصات کو فن پارے میں تلاش کرتے ہیں،جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر کامیابی ملی ،تو پھر کیا کہنا !تعریف ہی تعریف،تحسین ہی تحسین،عظمت ہی عظمت۔ اور اگر کہیں ناکامی ہاتھ آئی، توپھر کیا پوچھنا! معائب کی زنبیل ہی کھو ل دی جاتی ہے۔اس نوع کی مثال اکثر خانہ بند، مکتبی تنگ نظر اور متشدد ناقدین کے یہاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ہر تحریک، دبستان یا رحجان کچھ عرصہ کے بعد خانہ بند ، مکتبی نظر اور متشدد بن جاتا ہے۔ اس طرح کی تنقید سے ایک نقصان تو یہ ہوتا ہے کہ تنقید کا معیار گرجاتا ہے اور دوسرے یہ کہ تخلیق کار ناقد کی دہلیز پراسی طرح جا گرتا ہے،جس طرح عوامی مشاعرے کا شاعر اپنی واہ واہی اور شہرت کی خاطر ادبی سطح سے گر کر عوامی سطح پر آجاتاہے۔ تیسرا نقصان یہ ہوتا ہے کہ عام قاری شعر وادب کی حقیقی مسرت، بصیرت اور آگہی سے بہرہ ور نہیں ہوتا ہے۔
بہر حال نیاز فتح پوری کے نزدیک تنقید کا تیسرا مقصد تعین مراتب ہے۔ انھوں نے کسی فن کار/ فن پارہ کے تعین قدر کے عمل کو نقاد کے فرائض میں شمار کیا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ ناقد جب کسی فن یا فن کار کی عظمت کا تعین کرتا ہے تو یہ عمل ایک طرح سے حاصل مطالعہ کی حیثیت رکھتا ہے۔کیونکہ ناقد کی حیثیت متن اور قاری کے مابین رابطے کی سی ہوتی ہے۔اس لیے وہ کسی تخلیق یا تخلیق کار کواپنے تنقیدی مراحل کی تجزیاتی جہت سے گزار کر منصہ شہود پر لاتا ہے۔لہٰذا تنقیدی مطالعے کاعین مقصد مصنف اور قاری کو ہم رکاب کرنا ہوتاہے، تاکہ قاری اس کے رموز واسرار،عظمت اقدار،اورادبی منظر نامے میں اس کی قدر قیمت کوخود سمجھ سکے اور دوسروں کو سمجھا بھی سکے،لیکن یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب اس کا یہ تنقیدی عمل اس کے مخصوص نظری ادب اور شعری نظام کے تابع ہو۔اگر اس کے برعکس معیار نقد وضع کیا گیا تو پھر یہ مطالعہ دوسروں کے لیے قابل قبول نہیں ہو سکتاہے۔اسی لیے ہمیشہ عملی تنقید کے عواقب نظریات کارفرما رہتے ہیں،اب اگر یہ نظریات تسلیم شدہ ،اور ادبی تقاضوں کے ترجمان ہیں، تو دوسروں کے لیے علی الرغم اس کے مطالعے اور فیصلے قابل قبول ہوں گے۔
ہاں ایک اہم اور ضروری نکتہ یہ ہے کہ یہ لازم نہیں کہ ناقد دوران مطالعہ جو معنی اخذ کرے وہ منشائے مصنف ہی ہوں۔اور یہ بھی ممکن نہیں کہ پہلی قرات میں متن سے پورے معنی یا حتمی معنی برآمد ہو سکیں۔ ہا ں یہ ممکن ہے کہ دوسری قرات یا دوسرا قاری ان معنی میں توسیع یا مختلف معنی برآمد کرے۔یہ بات قابل غور ہے کہ پچھلی چند دہائی قبل مغرب کے زیر اثر یہ تصور عام ہوا کہ تخلیق منظر عام پر آتے ہی اپنے خالق سے آزاد ہوجاتی ہے۔ یہ نظریہ کسی طرح درست نہیں۔ جس کی دلیل یہ ہے کہ تخلیق کار نے جن خیالات ،تصورات اور تناظرات میں متن کو تخلیق کیا ہے وہ ہمیشہ اس میں پیوست اور باقی رہیں گے۔مصنف جب بھی اپنے خیالات کی پیش کش میں الفاظ کا انتخاب کرتا ہے ، تو اس کا ایک حقیقی مفہوم ہوتا ہے ، بلکہ یو ں کہا جا سکتا ہے کہ مفہوم ہی کی بنیاد پر الفاظ کا تعین ہوتا ہے۔پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ متن مصنف سے آزاد ہے؟ اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ متن اپنے مصنف سے آزاد ہے ،تو اس سے بڑا مسئلہ یہ پیدا ہو گا کہ ناقد کی تصرفانہ کاوشیں یکسر مہمل اور لغو ہوں گی، کیونکہ جب تخم ہی ناقص/خیالی ہے تو اس کی نشو ونما اور برگ و بار سبھی کچھ ناقص / خیالی ہوں گے۔ ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب ہم کسی فن پارے کا مطالعہ کرتے ہیں تو مصنف کے خیالات کی ان جہتوں کو بھی دریافت کرلیتے ہیں، جہاں تک مصنف کے ذہن کی بھی رسائی نہیں تھی،لیکن اس کے باوجود ہمارا یہ سفر ہمیشہ تخلیق کارکی ذہنی کار کردگی سے علاحدہ اور آزاد نہیں ہوسکتا ہے۔اس لیے بلا خوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ متن کبھی بھی مصنف سے آزاد نہیں ہو سکتا ہے۔
بہر کیف بحیثیت مجموعی عملی تنقید اپنی معینہ کسوٹی اور اپنے مخصوص طریق کار سے شعر و ادب کو جانچتی اور پرکھتی ہے۔ یہ تجزیہ اور تحلیل کرکے اس کی قدر و قیمت کا تعین کرتی ہے۔ عملی تنقید ہمیں یہ بتاتی ہے کہ کسی فن پارے کا موضوع کیا ہے،اس کی ادبی حیثیت کیاہے،اس کے تخلیقی محرکات کیا ہیں ، اس میں کتنی گہرائی اور وسعت ہے، موضوع کو جس سانچے میں ڈھالا گیا ہے وہ کس حد تک مناسب اور موزوں ہے،اس کی تکنیک کیا ہے، اسلوب کیسا ہے، غرض جملہ جوابات مہیا کرتی ہے۔عملی تنقید شعر وادب کا وسیع اور عمیق مطالعہ کرتی ہے۔یہ فن پارے کی لفظ بہ لفظ قرات پر زور دیتی ہے۔ یہ براہ راست متن کو پیش نظر رکھتی ہے۔اور دوسرے متون سے اقتضاً مقابلہ و موازنہ کرکے اس کی اچھائی اور برائی کو سامنے لاتی ہے۔یہ شعر وادب کا غیر جانب دارانہ مطالعہ کرنے کے بعد دیگر فن پاروں کے درمیان درجہ بندی کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ یہ اپنے طرز مطالعہ اور طریق کار کے لحاظ سے خالص توضیحی اور تجزیاتی تنقید ہے،جس کا مقصد اولاً ادب کی ادبی حیثیت کی شناخت ہے۔ یہ ان خارجی معلومات اور فروعی چیزوں سے اپنا دامن بچاتی ہے جن سے ادب کا براہ راست رشتہ قائم نہیں ہوتا ہے۔ اس کا مدعا یہی ہے کہ ادب کا اس طرح مطالعہ کیا جائے کہ قاری کی فہم وبصیرت اور لطف اندوزی میں اضافہ ہو۔مجموعی طور پرعملی تنقید فن پارے کے ممکنہ مفاہیم تک رسائی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔اس لیے بلاتامل کہا جا سکتا ہے کہ عملی تنقید ایک شفاف آئینہ ہے جس میں فن پارے کے ممکنہ خد وخال اظہر من الشمس ہوتے ہیں۔لہٰذا عملی تنقید فن پاروں کو سمجھنے اور اس کے حسن و قبح کو پرکھنے اور اس کی قدر وقیمت کے صحیح تعین کے لیے ایک عمدہ اور موثر عملی نظام ہے۔ مذکورہ مباحث کی روشنی میں بحیثیت مجموعی کہا جاسکتا ہے کہ نظری اور عملی تنقید کی ہم آہنگی کے بغیر ادبی تنقید کا وجود محال ہے۔ میں اپنی بات کو شمس الرحمن فاروقی کے اقتباس سے مستعار لے کر مکمل کرتا ہوں :
’’نظریہ بے روح ہے اگر وہ فن پارے کی وضاحت اور تعین قدر کے لیے کارآمد نہ ہو،اور محدود و مشکوک ہے اگر وہ کسی ایک فن پارے یاچند ہی فن پاروں سے آگے نہ بڑھ سکے۔ تنقید اگر ایک طرف ادبی نظریات کی روشنی میں فن پارے سے بحث کرتی ہے، تو دوسری طرف فن پارے کے حوالے سے ادبی نظریات پر بحث کرتی ہے۔ان دونوں عوامل میں سے کسی ایک کو نظر انداز کرنا،یا اسے کم اہم قرار دینا،ایسی بائیسکل پر سوار ہونا ہے جس کا ایک پہیہ ٹوٹ کر الگ ہو چکا ہے۔‘‘ 55
حوالے اور حواشی
.1 لوئیس معلوف، المنجد، مترجم : مولانا عبد الحفیظ بلیاوی (لاہور: مکتبۂ قدوسیہ، 2009)،918
.2 قاضی زین العابدین، بیان اللسان (کراچی : دارالاشاعت، مارچ2007)،839
.3 مولانا وحید الزماں قاسمی کیرانوی، القاموس الجدید (لاہور : ادارۂ اسلامیات، جون1990)904
.4 مولانا عبد الحفیظ بلیاوی، مصباح اللغات (لاہور: مکتبہ قدوسیہ، جولائی 1999)861-62
.5 سید عابد علی عابد، اصول انتقاد ادبیات (لاہور : مجلس ترقی ادب، 1966)،2
.6 نیاز فتح پوری، اصول نقد، مشمولہ’ اردو تنقید : منتخب مقالات‘ مرتبہ : حامدی کاشمیری (دہلی : ساہتیہ اکادی،1997)،52
.7 آل احمد سرور، تنقید کیا ہے (دہلی : مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، 2011)159
8. http://www.victorian-era.org/Victorian-authors/matthew-arno ld- function -of -criticism. html, Accessed on : 17-09-2017
.9 بحوالہ سید عبد اللہ، اشارات تنقید، (دہلی : کاک آفسیٹ پرنٹرس،2002)،10
10. http://salirickandres.altervista.org/introduction-to-literary-criticism/Accessed on : 17/09/2017
.11 بحوالہ کلیم الدین احمد، ادبی تنقید، مشمولہ ’ اردو تنقید: منتخب مقالات‘ مرتبہ : حامدی کاشمیری (دہلی : ساہتیہ اکادمی، 1997) 81
12. The Literary Criticism of T.S. Eliot New Essays, Edited by David Newton-De Molina, Bloomsbury, London, New York, 2013, p.12
13. http://salirickandres.altervista.org/introduction-to-literary-criticism/ Accessed on: 17/09/2017
.14 آل احمد سرور، تنقید کیا ہے (دہلی : مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ،2011)،151-52
.15 عبد الغنی، تنقید مشرق، (دہلی : اردو بک فاؤنڈیشن،1987)،72
.16 ابو الکلام قاسمی، معاصر تنقیدی رویے (علی گڑھ : مسلم ایجوکیشنل پریس،2007)،7
.17 ایضاً :10 
.18 مرزا خلیل احمد بیگ، ادبی تنقید کے لسانی مضمرات (علی گڑھ : ایجوکیشنل بک ہاؤس،2012)،11
.19 وحید اختر، تخلیق و تنقید، مشمولہ ’اردو تنقید: منتخب مقالات’ مرتبہ : حامدی کاشمیری (دہلی : ساہتیہ اکادمی، 1997)، 224-25
.20 شمس الرحمن فاروقی، تنقیدی افکار ( دہلی : قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،2004)،1-2
.21 عبادت بریلوی، اردو تنقید نگاری (دہلی : سود لیتھو پریس، 1970)،44
.22 شمس الرحمن فاروقی، تنقیدی افکار (دہلی : قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،2004)،8-9
.23 سلیم اختر، تنقیدی دبستان (دہلی : اے پی آفسیٹ پریس،2003)،21
.24 شمس الرحمن فاروقی، شعر شور انگیز’ تمہید جلد چہارم‘ (دہلی : قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،2008)،44 
.25 ابو الکلام قاسمی، معاصر تنقیدی رویے (علی گڑھ : مسلم ایجوکیشنل پریس،2007)،7
.26 آل احمد سرور، تنقید کیا ہے (دہلی : مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، 2011)،159
.27 کلیم الدین احمد، اردو تنقید پر ایک نظر (پٹنہ : بک امپوریم، سبزی باغ،2010)،12
.28 سید احتشام حسین، تنقید اور عملی تنقید (لکھنؤ : اترپردیش اردو اکادمی، 2005)،29
.29 ایضاً : 14
.30 آل احمد سرور، پہچان اور پرکھ (دہلی : مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، 1990)،25
.31 شمس الرحمن فاروقی، تنقیدی افکار (دہلی : قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،2004)،24
.32 ٹی ایس ایلیٹ، تنقید کا منصب، مشمولہ ’ایلیٹ کے مضامین ‘ مترجمہ : جمیل جالبی (دہلی : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، 2007)264-265 
.33 وحید اختر، تخلیق و تنقید ۔ مشمولہ اردو تنقید : منتخب مقالات‘ مرتبہ : حامدی کاشمیری (دہلی : ساہتیہ اکادمی،1997) 315
.34 شمس الرحمن فاروقی، تنقیدی افکار (دہلی : قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،2004)،8
.35 ایضاً : 14
.36 ایضاً : 31
.37 مذکورہ سوال اصلاً قارئین کے ذہنوں میں پیدا ہو سکتا تھا اس لیے اس کی وضاحت کی گئی ہے
.38 شمس الرحمن فاروقی، تنقیدی افکار (دہلی : قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،2004)10
.39 آل احمد سرور، تنقید کیا ہے (دہلی : مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ،2011)، 145
.40 کلیم الدین احمد، اردو تنقید پر ایک نظر (پٹنہ : بک امپوریم، سبزی باغ،2010)،11
.41 ممتاز حسین ، تنقید کے چند بنیادی مسائل، مشمولہ ’تنقیدی نظریات، حصہ اول ‘ مرتبہ : سید احتشام حسین (لکھنؤ : اترپردیش اردو اکادمی،2009)،227
.42 ٹی ایس ایلیٹ، تجربہ اور تنقید، مشمولہ ’ایلیٹ کے مضامین‘ مترجمہ : جمیل جالبی (دہلی : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، 2007)،271
.43 محمد حسن، نظریاتی تنقید، مشمولہ ’اردو تنقید : منتخب مقالات‘ مرتبہ : حامدی کاشمیری (دہلی : ساہتیہ اکادمی،1997)،201
.44 آل احمد سرور، نئے اور پرانے چراغ (لکھنؤ : ادارۂ فروغ اردو زبان،1978)، 9-11
.45 شمس الرحمن فاروقی، تنقیدی افکار (دہلی : قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، 2004)،23
.46 ایضاً : 31 
.47 بحوالہ ترنم مشتاق، عملی تنقید : اصول و عمل (کلکتہ : نیو ایشین پرنٹرس،1999)،12
.48 بحوالہ فضیل جعفری، کمان اور زخم (مالے گاؤں: جوز پبلی کیشنز،1986)،247
.49 عبادت بریلوی ، اردو تنقید نگاری (دہلی : سود لیتھو پریس،1970)،44
.50 یوسف تقی، مشمولہ ’عملی تنقید : اصول و عمل ’مصنفہ : ترنم مشتاق (کلکتہ : نیو ایشین پرینٹرس،1999)، پشت سرورق سے ماخوذ
.51 عبد المغنی، تشکیل جدید (پٹنہ : ڈی آرٹ پریس،1976)،74
.52 سلیم اختر، تنقید دبستان (دہلی : اے پی آفسیٹ پریس،2003)،21
.53 اس پر تفصیلی بحث نظریات کے تغیر میں کی جا چکی ہے۔
.54 شمس الرحمن فاروقی، شعر شور انگیز، جلد چہارم( دہلی : قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،2008)،213
.55 شمس الرحمن فاروقی، شعر شور انگیز ’تمہید‘ جلد چہارم (دہلی : قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،2008)،46
v
Shakir Ali Siddiqui
K- 66, Second Floor, Chinar Apartment, Batla House
Jamia Nagar, Okhla, New Delhi-110025
Mobile:- 9891579220 







قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے


’مثنوی معنوی‘ مولانا رومی کے چند اہم اردو تراجم کا جائزہ مضمون نگار:۔ مغیث احمد




مثنوی معنوی

مولانا رومی کے چند اہم اردو تراجم کا جائزہ



مغیث احمد



ساتویں صدی ہجری اسلامی تاریخ میں کئی لحاظ سے اہم ہے، اس عہدمیں اہل اسلام کو گوناگوں آزمائشوں کا سامنا رہا،مثلا؛ صلیبی جنگیں، منگولوں کے حملے اور مسلم حکمرانوں کی آپسی ناچاقی وغیرہ۔ یہ وہ اسباب تھے جو مسلم اقوام کے لیے طوفان نوح ثابت ہورہے تھے۔ علاوہ ازیں علماکے آپسی اختلافات سے متاثر قوم جہاں پژمردگی کے عمیق غار میں غرق ہورہی تھی وہیں بے راہ روی کا شکار ہوکر عمل سے عاری ہوتی جارہی تھی۔ ایسے پرآشوب عہد میں مولانا رومی کی آمد ہوتی ہے، جوایک پژمردہ اورحالات و حوادث کی ستائی ہوئی لاچارقوم کے دلوں میں نئی امنگ، نیا جوش اور امید کی ایک نئی قندیل روشن کرنے کا کام کرتے ہیں۔
مولانا جلال الدین رومی جو ’خداوندگار‘ کے خطاب سے سرفراز تھے،’مولاناے روم‘،’مولانا رومی‘ یا ’مولوی رومی ‘جیسے کئی ناموں سے یاد کیے جاتے ہیں۔ تقریبا تمام تذکرہ نگاروں نے آپ کوحضرت ابوبکرصدیقؓ کی اولاد سے بتایا ہے۔وہ ایک جید عالم دین، محدث، فقیہ اور مفسر قرآن ہونے کے ساتھ ایک عظیم مفکر اوربلندپایہ صوفی شاعر بھی تھے جن کے آثار کا بیشتر ذخیر نظمیہ پیرائے میں آج بھی مقبول عام ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ عام روش کے خلاف مولانا نے ضرورت شعری کے مطابق اپنا تخلص ’خاموش‘، ’خموش‘یا ’خمش‘ استعمال کیا ہے۔آپ کے آثار میں ’کلیات شمس یا دیوان کبیر‘ جو فارسی، عربی اور ترکی میں کہی گئیں مولانا کی 3500 غزلیات اور 2000 رباعیات کے علاوہ رزمیہ نظموں، قصیدوں، قطعات و ملمعات پر مشتمل ہے۔’فیہ ما فیہ‘ مولانا کے ملفوظات پر مشتمل ہے جبکہ’مجالس سبعہ‘ ان کے خطبات اور ’مکتوبات‘مولاناکے خطوط کا مجموعہ ہے۔
مولانا کا سب سے اہم شاہکار ان کی شہرۂ آفاق’مثنوی معنوی‘ہے جو 6بسیط دفاتر پر مشتمل تقریبا 26ہزار اشعار کو محیط ہے،جس میں اخلاق و عقائد کی باتیں نہایت پرکشش اور دلچسپ پیرائے میں بیان کی گئی ہیں۔’ مثنوی معنوی‘دراصل عملی حرارت پیداکرنے والی ایک ایسی چنگاری ہے جواپنی ابتدائے تخلیق سے تاہنوز پیہم سلگ رہی ہے اور ہرشخص اپنی فہم و فراست کے مطابق اس سے حرارت حاصل کررہا ہے۔یہ جہاں عمل سے عاری مردہ قوموں کے لیے صورعمل ہے وہیں پریشان حال قلوب کے لیے متاع مسکّن بھی ہے۔اس کااصل امتیازاس کی یہی روحانی فکر ہے، جو اپنے اندر معانی کا ایک ایساسمندرسمیٹے ہوئے ہے جس کی گہرائی کا اندازہ لگاناممکن نہیں۔’مثنوی معنوی‘ درحقیقت جوش و جذبہ، ہمت و حوصلہ، جدو جہد اور متواترمحنت کی جیتی جاگتی مثال ہے،یہ کسی خاص خطہ، قوم یا مذہب تک محدود نہیں بلکہ ابدی و آفاقی ہے اور زمان و مکان کے حصار سے صدہا صدی اور ہزارہا ہزار فرسنگ کے فاصلہ پر ہے۔
’مثنوی معنوی‘ اپنی سادگی، صفائی، سلاست و روانی، منقولات و معقولات، نصیحت آمیز جملوں، تلمیحات و استعارات اور دلچسپ واقعات و تمثیلات کی وجہ سے عوام و خواص میں ہمیشہ سے مقبول رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ آغاز تصنیف سے آج تک کے دانشوران نے مختلف زبانوں میں اس کے تراجم و شروحات لکھ کر اس میں موجود معانی کے سمندر سے چشمے بہائے ہیں۔اس تعلق سے ’مثنوی معنوی‘ کی کچھ اہم شروحات کا ذکر ’کشف الظنون‘ میں آیاہے جسے علامہ شبلی نے اپنی کتاب ’سوانح مولانا روم‘ میں شامل کیا ہے۔نیکولسن نے اپنے نسخہ کے مقدمہ میں ہندو ایران سے شائع ہونے والی اردو و دیگر شروحات و تراجم کا ذکر کیا ہے۔ آربری نے بھی اپنی کیٹلاگ کی جلد2 اور جلد 6 کے صفحہ 301-4پر اردو اور’مثنوی معنوی‘ کی دوسری قدیم ترین ایشیائی مطبوعات کا ذکر کیا ہے۔
ویسے تو’مثنوی معنوی‘ کے تراجم و شروحات کی تعداد متعدد زبانوں عربی، انگریزی، ترکی،روسی، اطالوی، جرمن، فرانسیسی، اسپینی، سندھی، بنگالی، کشمیری، فارسی اور اردو وغیرہ میں سیکڑوں ہیں، جن کی اگرصرف فہرست تیار کریں تب بھی یہ مضمون ناکافی ثابت ہو،چہ جائیکہ سبھی تراجم کا جائزہ لیا جائے۔ اس لیے سردست ’مثنوی معنوی‘ کے چند معروف اردو تراجم و شروحات کا ذکر کیا جارہے، بعد میں موقع کی مناسبت سے پھر کبھی کسی دوسری زبان کے تراجم پر بحث کی جائے گی۔
تذکروں کے مطابق مولانا کے انتقال کے بعد ایک طویل عرصہ تک ان کی ’مثنوی معنوی‘ کی تشریح و توضیح پر تشفی بخش توجہ نہیں دی گئی اور ایک طویل عرصہ تک یہ کتاب اہل علم و معرفت کی بے توجہی کاشکار رہی،مگر اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ’مثنوی معنوی‘ کی تشریح وتوضیح سے متعلق سب سے پہلی کاوش خود مولانا کے فرزند ارجمند سلطان ولد اور مولانا کے ایک شاگرد خاص احمدرومی کی شکل میں دکھائی دیتی ہے۔گاہے بہ گاہے اس ’مثنوی معنوی‘ کا ذکر فارسی کے معروف شعراو مصنّفین مثلا علاء الدولہ کی ’رسالہ اقبالیہ‘، خواجو کرمانی، حافظ اور شاہ نعمت اللہ وغیرہ کے ذریعہ آتا رہا، مگر تعطل کی اس دبیز پرت کو نویں صدی ہجری اور اس کے بعد کے معروف مفکرین ملاحسین واعظ کاشفی کی ’لب لباب مثنوی‘، کمال الدین حسین خوارزمی کی ’جواھرالاسرار‘ اور’ کنوزالحقایق فی الرموز و الدقائق‘، ملایعقوب چرخی، مولانا عبدالرحمن جامی، مصطفی بن شعبان سروری، ابراہیم ددہ قونوی، شاہدی ددہ بیانگر اور گیارہویں صدی ہجری کے شیخ اسماعیل انقروی (جنھیں اسماعیل ددہ بھی کہا جاتا ہے)کی ’فاتح الابیات‘، عبداللطیف عباسی گجراتی کی ’لطایف معنوی‘، خواجہ ایوب لاہوری کی ’اسرار الغیوب‘، ولی محمد اکبرآبادی کی ’شرح مثنوی‘ اور عبدالعلی لکھنوی کی ’بحرالعلوم‘کے ذریعہ بتائی گئی اس بات سے انکار نہیں کہ ’مثنوی معنوی‘ کے اولین شارحین دیار غیرسے تعلق رکھتے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ’مثنوی معنوی‘ پر سب سے زیادہ کام برصغیر اور ایران میں ہی ہوا ہے جس کی روش پر چل کر دیگر مقامات پر مختلف محلی زبانوں مثلا سندھی، ہندی، پنجابی، بنگالی اور کشمیری وغیرہ میں کام ہوا۔عبدالحسین زرین کوب لکھتے ہیں:
’’ در خارج از حوزۂ یاران قونیہ ۔۔۔ تا مدت ھا بعد از وفات وی مجال انتشار چندانی نیافت۔ بدون شک فرصت و مھلتی لازم بود تا خلفای مولانا بہ نشر مثنوی در خارج از حوزۂ مجالس یاران وی راضی و مصصم گردند۔‘‘1؂
شروحات و تراجم کی اس طویل فہرست میں کچھ تراجم تو ایسے ہیں جو مثنوی کے کچھ حصوں یا کچھ دفاتر تک محدود ہیں،کچھ ایسے بھی ہیں جنھیں مثنوی کی شرح نہیں بلکہ معاون شرح کہہ سکتے ہیں،کچھ شرحوں میں مثنوی کے مختلف الجہات موضوعات میں سے کسی ایک موضوع پر ہی بحث ہے، کچھ کتابیں صرف حواشی یا حل لغات پر جاکر ختم ہوجاتی ہیں اور کچھ تراجم ایسے ہیں جو اپنے آپ میں مکمل توہیں لیکن اتنے مفصل ہیں کہ ان کا پڑھنا کافی وقت طلب ہے پھر دشواری یہ بھی ہے کہ اس کے سبھی اجزا آسانی سے دستیاب نہیں ایسے ہی کچھ ترجمے مکمل ہیں مگراتنے مختصر ہیں کہ اس سے مفہوم کی تشنگی برقرار رہتی ہے، کچھ ترجموں پر قدامت کا رنگ غالب ہے اور کچھ ترجمے بدقسمتی سے دست برد زمانہ کی نذر ہوچکے ہیں یا ہورہے ہیں، کچھ ترجمے ایسے بھی ہیں جو صرف تراجم کی فہرست میں شامل ہیں مگر ابھی تک ان کا سراغ نہیں لگ سکا ہے۔اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں یاتو ان کے چاہنے والے نہیں رہے یا جن ہاتھوں میں رہے وہ انھیں شائع کرنے سے قاصر رہے یا اس میں انھیں دلچسپی کی کوئی چیزنہیں دکھائی دی۔ زیر نظر مضمون میں ان تمام خوبیوں، خامیوں اور وجوہات کو مدنظررکھ کرکچھ تراجم کا مطالعہ کیا جارہا ہے۔
’مثنوی معنوی‘ کے مترجمین کی فہرست بہت طویل ہے، جومختلف زبانوں میں منظوم و منثور شکل میں جزئی یا کلی طور پرلکھی گئی ہیں،اس میں سے کچھ تراجم دستیاب ہیں تو کچھ کمیاب و نایاب، کچھ تراجم بہت مقبول ہیں تو کچھ مطالعہ سے کافی دور۔آنے والے صفحات میں ان تراجم کا ذکر کیا جارہاہے جو کبھی اپنے یا بعد کے زمانے میں مقامی، قومی یا بین الاقوامی سطح پر مشہور و مقبول رہی ہیں، سبھی کا تفصیل سے جائزہ لینا وقت طلب امر ہے، البتہ ان کا سرسری طور پر نام لکھنے کے بعد جن تراجم کے بارے میں کچھ اہم معلومات فراہم ہوسکی ہیں ان پر مختصر تبصرہ کیا جارہا ہے، تاکہ ’’مثنوی معنوی‘‘ کے کچھ اہم تراجم کا تعارف ہوجائے اور مستقبل میں مولانا اور ’’مثنوی معنوی‘‘ فہمی کے لیے چراغ راہ ثابت ہوسکے۔
1۔پیراہن یوسفی
’پیراہن یوسفی‘ اردو زبان میں ’مثنوی معنوی‘ کامکمل ترجمہ ہے جس کے مولف محمد یوسف علی شاہ بن محمد جلال الدین خان ملقب بہ بانکی میاں چشتی نظامی زنبیل شاہی گلشن آبادی ہیں، مترجم نے 1193 ہجری مطابق 1779 میں اپنے پیرومرشدعبدالرحیم شاہ درویش شاہجہان آبادی کی ایما پر پایۂ تکمیل کو پہنچایا،ممکن ہے یہ ترجمہ1947 سے قبل بھی شائع ہواہو مگر دستیاب نسخہ کے سرورق پرسال اشاعت 1366ہجری مطابق 1947 رقم ہے۔
’پیراہن یوسفی‘ منظوم ترجمہ ہے جودراصل شاہ عبدالرحیم شاہ درویش شاہجہانپوریؒ کے لفظی ترجمہ سے استفادہ کے بعدلکھا گیاہے، جیساکہ خود پیراہن یوسفی کے مصنف رقمطراز ہیں:
’’واضح ہو کہ اس فقیر پر تقصیر کمترین بندگان درگاہ محمد یوسف علی شاہ ولد محمد جلال الدین خان ملقب بانکے میاں چشتی نظامی زنبیل شاہی گلشن آبادی واقع ملک مالوہ نے بہ رہبری عنایت ایزدی و بہ دعائے مرشدی و مولای و عاشق پاکباز معشوق بے نیاز مست الست قلندر زبردست رحیم ہرگدا و شاہ جناب عبدالرحیم درویش شاہجہانپوری مدظلہم اللہ تعالیٰ کے ترجمہ لفظی مثنوی مولانا جلال الدین رومی معنوی قدس سرہ میں کوشش کی، نام اس کا پیراہن یوسفی ترجمہ مثنوی معنوی رکھا۔‘‘2؂
ترجمے کا آغاز کچھ اس اندازسے ہوتا ہے ؂
بشنو از نے چون حکایت میکند
وزجدائیہا شکایت می کند
سن لو نے سے کیا حکایت کرتی ہے
اور جدائی سے شکایت کرتی ہے
کز نیستان تا مرا بہ بریدہ اند
از نفیرم مردو زن نالیدہ اند
جب سے کاٹا ہے نیستان سے مجھے
مردوزن روئے ہیں نالے سے مرے
سینہ خواہم شرحہ شرحہ از فراق
تابگویم شرح درد اشتیاق
پارہ پارہ کردے سینے کو فراق
تاکہوں میں شرح درد اشتیاق
ہرکسی کو دور ماند از اصل خویش
باز جوید روزگار وصل خویش
جو رہا ہے دور اپنی اصل سے
ڈھونڈتا ہے پھر زمانہ وصل سے3؂
’ پیراہن یوسفی‘ چھ جلدوں میں ہے جو متن کے ساتھ شائع ہوئی ہے،اس میں متن اور منظوم ترجمہ ایک ساتھ چلتا ہے۔ ترجمہ پر قدامت کا رنگ غالب ہے اس کے باوجودسلیس، رواں اور قابل فہم ہے۔یہ کتاب انتہائی خستہ اور بوسیدہ حالت میں دہلی یونیورسٹی کی سینٹرل لائبریری میں موجود ہے، جس کے سرورق پر گردوغبار کا انبار ہے اور ابتدائی صفحات کرم خوردہ ہوتے جارہے ہیں، ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ بوسیدہ کتابوں کے ساتھ وہاں کے لائبریری انتظامیہ کا رویہ دانستہ یا نادانستہ طورپر افسوسناک ہے۔ اگربروقت اس کی حفاظت کا خاطرخواہ انتظام نہیں ہوا توممکن ہے کچھ برسوں بعد یہ نسخے نایاب یا ندارد کی فہرست میں شامل کردیے جائیں۔
2۔شجرۂ معرفت
یہ اردو زبان میں ’مثنوی معنوی‘ کا منظوم ترجمہ ہے جسے غلام حیدرکوپا مؤی متخلص بہ حیدرنے کیا ہے،یہ ترجمہ پہلی بار 1298ہجری میں شائع ہواتھا اور اس کا ساتواں ایڈیشن 1343ہجری میں مطبع نولکشورلکھنؤ سے شائع ہوا، جس سے اس کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
’شجرۂ معرفت‘ دراصل مکمل ترجمہ نہیں بلکہ ’مثنوی معنوی‘ کے منتخب اشعار کا ترجمہ ہے،علاوہ ازیں اس کے اندر متن کی نقل کا التزام بھی نہیں کیا گیا ہے بلکہ صرف ’مثنوی معنوی‘ کے کچھ منتخب اشعار کا اردو منظوم ترجمہ ہے،دوران ترجمہ کہیں کہیں متن کے مافیہ کی بہتر ترجمانی کے لیے حاشیہ نویسی سے بھی کام لیا گیا ہے۔دفتر اول کا پہلا عنوان ’نے نامہ‘ کا آغاز کچھ اس طرح ہوتا ہے ؂
بشنو از نے چون حکایت می کند
وز جدائیہا شکایت می کند
سن کہ کیا کرتی حکایت ہے یہ نے
ہجر سے کرتی شکایت ہے یہ نے
کز نیستان تا مرا ببریدہ اند
از نفیرم مرد و زن نالیدہ اند
جب سے کاٹا ہے نیستاں سے مجھے
ہے جہاں نالیدہ میرے درد سے
سینہ خواہم شرحہ شرحہ از فراق
تا بگویم شرح درد اشتیاق
پارہ پارہ سینہ ہو اندر فراق
تا کہوں میں اس سے درد اشتیاق4؂
’شجرۂ معرفت‘ میں کل 616صفحات ہیں، مگر ابتدائی صفحات گردش زمانہ کی نذر ہوچکے ہیں،راقم کا یہ تبصرہ ساتویں اشاعت کے نسخہ کو پیش نظر رکھ کر کیا جارہا ہے جس پر قیمت مذکور نہیں، غالبا وہ صفحات غائب ہوچکے ہیں۔یہ نسخہ بہت قدیم اور بوسیدہ حالت میں دہلی یونیورسٹی کی سینٹرل لائبریری میں موجود ہے۔ جو قارئین کو فائدہ پہنچانے کی بجائے اس بات کا حقدار ہے کہ اسے نظرثانی کرکے زیورطباعت سے گزارا جائے تاکہ اسے نئی زندگی ملے اور آنے والی نسلیں اس سے محروم نہ ہونے پائیں،ساتھ ہی شارح مرحوم کی وہ منشاجو انہوں نے اپنے مقدمہ میں بیان کیا ہے کہ ؂
جو کرے اس نظم پہ میری نگاہ
دے دعا وہ مجھ کو ہر شام و پگاہ5؂
کو بروئے کار لاسکیں اورتاکہ ان کی محنت و اخلاص کاعمل تادیر قائم رہ سکے۔
3۔کشف العلوم
مولانا محمد ہدایت علی لکھنوی نے 1300ہجری میں اردو نثر میں یہ ترجمہ لکھا، جسے 1308ہجری میں مولانا محمدابراہیم شاہجہانپوری نے اس کی تصحیح کے بعد مطبع گلزار ابراہیم مرادآباد سے 1308ہجری میں شائع کرایا۔
’’کشف العلوم‘‘ صرف ترجمہ نہیں بلکہ ایک مکمل شرح ہے جو چھ جلدوں میں ہے۔یہ شرح بہت جامع ہے اور اپنی قدامت کے باوجود بھی بہت اہمیت کی حامل ہے۔اس کا ترجمہ بہت مختصر مگر جامع اور متن کے مافیہ کا مکمل ترجمان نظر آتا ہے۔
بطور مثال ’نے نامہ‘ کے چند ابتدائی اشعارمع ترجمہ یہاں پیش کیے جارہے ہیں ؂
بشنو از نَے چون حکایت میکند
وزجدائیہا شکایت می کند
بانسری سے سن کہ جو حکایت کرتی ہے اور جدائیوں سے شکایت کرتی ہے۔
کز نیستان تا مرا ببریدہ اند
از نفیرم مردو زن نالیدہ اند
جب سے نیستان سے مجھے کاٹا ہے، میری درد انگیز آواز سے مردوزن نالاں ہیں۔
سینہ خواہم شرحہ شرحہ از فراق
تابگویم شرحِ دردِ اشتیاق
میں اپنے سینہ کو چاہتاہوں کہ درد فراق سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے جب میں درد اشتیاق کی شرح کروں۔
من بہر جمعیتی نالان شدم
جفت خوشحالان و بدحالان شدم
میں ہرجماعت کے ساتھ نالاں ہوا، ہمراہ خوش حالوں اور بدحالوں کے رہامیں۔
ہرکسی از ظنِّ خود شد یار من
از درون من نَجُست اسرارِ من
جو کوئی اپنے گمان سے میرا یار ہوا، مگر اس نے میرے دل کی بات نہ ڈھونڈی۔
سِرِّمن از نالۂ من دور نیست
لیک چشم و گوش را آن نور نیست
میرا بھید میرے نالہ سے الگ نہیں ہے، مگر آنکھ اور کان کو ادراک نہیں ہے۔
تن زجان و جان زتن مستور نیست
لیکن کس را دیدِ جان دستور نیست
تن جان سے اور جان تن سے پوشیدہ نہیں، مگر کسی کو اس کا دیکھنا دستور نہیں ہے۔ 
آتش ست این بانگ نای و نیست باد
ہرکہ این آتش ندارد نیست باد
آگ ہے یہ آواز بجانے والے کی ہوا نہیں ہے، جو کوئی یہ آگ نہ رکھے اس کا نہ ہونا اچھا ہے۔ 
آتش عشق ست کاندر نَیْ فتاد
جوشش عشق ست کاندر مَیْ فتاد
عشق کی آگ ہے جو نے میں رکھی گئی ہے، جوش عشق کا ہے جو شراب میں رکھا گیا ہے۔ 
نَے حریفِ ہرکہ از یاری بُرید
پردہایش پردہایی ما درید
نے اس شخص کی غمخوار ہے جو یار سے جدا ہو، اس کے پردے نے ہمارا پردہ پھاڑا۔‘‘6؂
’کشف العلوم‘بہت بسیط شرح ہے، اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’مثنوی معنوی‘ کی اردو شرح ’بوستان معرفت‘ کے مصنف مولوی عبدالمجید خان بن عبدالرحیم خان نے بھی اس سے خاطرخواہ استفادہ کیاہے اور نہ صرف اپنے مقدمہ میں بلکہ اپنی پوری شرح میں اس کے قصیدہ خواں نظرآتے ہیں۔یہ کتاب ایوان غالب کے فخرالدین علی احمد ریسرچ اسکالر لائبریری میں نہایت ہی نازک اور بوسیدہ حالت میں ہے کہ’اس کو چھوتے ہوئے ڈرلگتاہے‘۔ مگر اس شرح کی سبھی جلدیں دستیاب نہیں، ممکن ہے دوسری لائبریریوں میں موجود ہو۔
4۔بوستان معرفت
یہ اردو ترجمہ ہے جسے مولوی عبدالمجید خان بن عبدالرحیم خان حافظ آبادعرف پیلی بھیت نے کیا ہے، یہ ترجمہ 1332-34ھ کے درمیان مطبع منشی نولکشورلکھنؤ سے شائع ہوا تھا۔ مترجم مرحوم اس ترجمہ کے آغاز و اختتام کے سال کے بارے میں بیان کرتے ہوءْے لکھتے ہیں ؂
’بوستان معرفت‘ ہے نام اور تاریخ بھی
ابتدا تحریر کی اس کے بلاشک و گمان
ختم کی تاریخ جانو ’چشمۂ نہربہشت‘ 
مختصر مرغوب از بس دلپذیرد داستان7؂
مترجم مرحوم نے ’بوستان معرفت‘ سے 1309ہجری اور ’چشمۂ نہر بہشت‘ سے 1310ہجری کی تاریخ نکالی ہے۔موصوف نے اپنے مقدمہ میں ان دو شروحات کا ذکرکیا ہے جن سے خوشہ چینی کرکے اپنے اس ترجمہ کے کام کو انجام دیا ہے، لیکن چونکہ انھیں ان دونوں تراجم سے حسب توقع فائدہ حاصل نہیں ہوسکا، اس لیے مایوسی کے عالم میں ان دونوں شارحین کا گلہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’’امابعد فراغت نشان عبدالمجید خان ولد عبدالرحیم خان ساکن حافظ آباد عرف پیلی بھیت گزارش گرہے کہ درینولا اس خاکسار کو شوق مطالعہ مثنوی شریف کا پیدا ہوا جو کہ یہ کتاب مشکل ہے۔ حاجت شرح کی معلوم ہوئی چنانچہ بعد تلاش ایک شرح فارسی کی مصنف المشہور فی المشارق والمغارب جناب مولوی عبدالعلی صاحب مرحوم المقلب بہ بحرالعلوم دستیاب ہوئی اور کچھ اجزا شرح اردو موسوم ’کشف العلوم‘ کے جو مرادآباد میں (اس کے بعد کی عبارت غالبا ’شائع ہوئی‘ ہے جو محوہوچکی ہے)کیا کہوں جیسی عید مجھ کو ہوگئی اگر عید رمضان کہوں تو بجا ہے اور اگر عید قرباں تو روا لیکن وائے قسمت بعد معائنہ وہ کیفیت ہوئی جیسے سعدی نے گلستان میں حکایت ایک بھوکے پیاسے مسافر گم شدہ کی لکھی ہے، جس نے ایک تھیلی پائی اور گندم بریاں سمجھ کے خوش ہوا۔ جب کھولی تو مروارید دیکھ کے کیسا مایوس ہوا۔ اب اگرچہ شرح بحرالعلوم مروارید پر آب سے مملو و مشحون ہے مگر کس کام کی، وہ آب تو نہیں جس سے میری خاطر عطشان ریان ہو، نہ ایسی جس سے میری طبیعت جوعان شبعان ہو یا اور کسی کی خارجی تقریریں طول طویل تو ہیں مگر نفس مطلب شعر کی کوئی سبیل نہیں، شرح کیا متن سے بڑھ کے ہیں۔‘‘
جب نظر ان کے سویدائے رقم پر کیجیے
کہتے ہیں بس بس ذرا چپکے ہی سے رکھ دیجیے8؂
اس مختصر تبصرہ سے ’ شرح بحرالعلوم ‘اور ’کشف العلوم‘ کی حقیقت و حیثیت پر خاطرخواہ روشنی پڑجاتی ہے لیکن ’بوستان معرفت‘ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتاہے کہ مترجم مرحوم نے مذکورہ بالا دونوں شارحین کے تعلق سے قدرے ضیق نظری اور خودسرائی سے کام لیا ہے جیسے مثنوی کے ابتدائی اشعار پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ؂
بشنو از نے چون حکایت می کند
از جدائیھا شکایت می کند
کزنیستان تا مرا ببریدہ اند
از نفیرم مردوزن نالیدہ اند
اس کا ترجمہ لکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ؂
’’مولاناؒ ہر کسی کو مخاطب فرماکے تحریص و تحریض تلاش و جستجو اصل و مبدا کی جو بموجب ’نفخت فیہ من روح‘ کے ذات پاک حضرت باری عز اسمہ کی ہے فرماتے ہیں اور بایراد لفظ ’نے‘ اس معنی کو اس ایما سے جتاتے ہیں کہ ذرا نے کی طرف تو متوجہ ہو اور اس کی صورت و صدا پر کان لگا کیسی حکایت و شکایت کررہی ہے کہ جب سے مجکو نیستان سے جو مرا منبت و ماوا ہے اور اصل و نژاد جدا کیا ہے اس کی یاد میں ایسے درد و سوز صادق کے ساتھ نالاں ہوں جس کے اثر سے تمام مرد و زن موثر ہوکے زار و گریان ہوتے ہیں، بس اے مخاطب خبردار ہو بڑے حیف کی بات ہے کہ نے جو ایک چوب خشک بیجان ہے اپنی اصل کی مہاجرت سے ایسے نالے سوزناک کرے کہ آپ بھی روئے اور ان کو بھی رولائے تو انسان اشرف المخلوقات ہوکے ایسا غافل و عاطل رہے اور اپنی اصل کی طرف رجوع نہ کرے۔حالانکہ فرمایا خداوند عزوجل نے ’منہ المبدأ و الیہ المآب‘ جو کہ اہل اللہ اور کاملین ہرچیز سے عبرت و خبرت حاصل کرتے ہیں اور راز و اسرار نکالتے ہیں مولانا نے ’نے‘ سے یہ بات پیدا کی۔‘‘9؂
اس کے بعد’ الخلاف‘ کے عنوان سے ’کشف العلوم‘ اور’شرح بحرالعلوم‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’واضح ہوکہ شرح فارسی جو حضرت بحرالعلوم کی ہے اور اردو مرادآبادی جس کا نام کشف العلوم ہے دونوں میں وزجدائیہا مع واو عطف بلکہ شرح اردو میں ’وزنفیرم‘ بھی بالعطف لکھا ہے اور میں نے دونوں جگہ بعض کتب میں واو نہیں پایا نہ مجکو واو پسند ہے، اول میں تو مجکو عطف سے تفسیر زیادہ پسند تھی یعنی وہ حکایت کیا ہے جدائیوں کی شکایت ہے اور دوسرے میں عطف کرنے سے دونوں مصرعے شرط ہوکے متعلق رہ جائیں گے اور جزا نہیں ہے نہیں پھر کیسے صحیح ہوگا۔فارسی کی شرح میں ’نے‘ سے مراد مرد کامل اور قلم اور خود نے اور ذات مولاناؒ سے لے کر طول طویل تقریریں لکھی ہیں اور شارح اردو(کشف العلوم کے مولف) تو ان کے خوشہ چین ہی ہیں مگر میں اتنے ہی معنی لکھنا چاہتا ہوں جو ذات شعر سے پیدا ہوں اور طالب معنی سمجھ لے کہ یہ کیا تھوڑا ہے، نہ یہ کہ شرح کو تلاش معنی میں اٹھائے اور دیکھے اور فورا رکھ دے کہ مشکل ہے اور پھر دیکھنے کا قصد بھی نہ کرے نہیں، بڑوں کی بڑی باتیں ہوتی ہیں، کہاں تک اپنی طبیعت گھٹائیں اور اس کا زور نہ دکھائیں۔‘‘10؂
دوسرے شعر کے ترجمہ اور تشریح کے ذیل میں فرماتے ہیں ؂
سینہ خواھم شرحہ شرحہ از فراق
تابگویم شرح شوق و اشتیاق
اس کا ترجمہ لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
’’یہ بھی قول ’نے‘ کا ہے، کہتی ہے جیسا کہ میرا سینہ شوق و اشتیاق وطن و ماوا سے سوراخ سوراخ ہورہا ہے ایساہی کوئی سینہ پارہ پارہ درد فراق سے چاہتی ہوں تا مناسب اپنے سمجھ کے اس سے شرح شوق و اشتیاق کی بیان کروں،ورنہ جیساکہ کہا ہے،‘‘11؂شعر ؂
گفتن از زنبور بی حاصل بود
با یکی در عمر خود ناخوردہ نیش
اس کے بعد’ الخلاف‘ کے عنوان سے شرح بحرالعلوم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’شارح فارسی لکھتے ہیں یا یہ مقولہ ’نے‘ کا ہے جوانسان کامل مراد ہے یا مقولہ مولوی کا ہے اور معنی دونوں کی طرف سے یہ ہے کہ اپنے سنیے کو پارہ پارہ فراق و ہجر سے چاہتا ہوں کہ درد طلب سے کسی وقت خالی نہ ہو تا طالبوں کے سامنے شرح درد اشتیاق کی کروں اور اسی کے مقلد شارح اردو کے ہیں انتہی اول تو یہ کہ احتمالات مجکو خوش نہیں آتے جس میں کہنے والا کہہ سکتا ہے‘‘
او خویستن گم ست کرا رھبری کند
’’جب ایک بات کو مستقل ہوکے جان لیا، بھرپایاکیا،اپناشک ظاہر کرنا دوسرے کو شک میں ڈالنا ’نے‘ کا لفظ کیا کم ہے جو مرادی معنی ڈھونڈھتے پھریں، میں نے تو خاص اسی لفظ ’نے‘ کو بموجب یک درگیر محکم گیر کے اختیار کیاہے اور امید ہے کہ اخیر تک مع ربط سیاق کلام کے نباہ دوں گا، نہ مثل ’گاہے چنین گاہے چنان‘ کے کبھی کچھ کہہ دیا کبھی کچھ کہہ دیا اور معنی بھی ذرا غور کے قابل ہیں کہ سیاق و سباق کلام سے مربوط ہیںیا نہیں،اس واسطے کہ ہمیشہ قاعدہ یہ ہے کہ دکھیا اپنا دکھ کہنے کے واسطے دکھیا کو ڈھونڈھتا ہے نہ از خود دکھیا بنتاہے کہ دکھ سننے والوں کو سنائے، چنانچہ میری فہم میں یہی بات شرح کے معنی سے مترشح ہے اور جو خود ہی ایک اعتراض لکھا ہے مجھے کیا غرض، کیا خوب حضرت سعدی نے فرمایاہے ؂
مرا از آنچہ کہ پروانہ خویشتن بکشد12؂
غرض پوری شرح اسی طرح کے غیرضروری مباحث پر مبنی ہے، ہرشعر کے بعد اس حل لغت بیان کرتے ہیں اور پھر مذکورہ بالا دونوں شارحین کو ہدف تنقیص بناتے ہیں اور خودسرائی کرتے ہیں، لیکن ان سب باتوں سے قطع نظر ’’بوستان معرفت‘‘ کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
’بوستان معرفت‘ نہ صرف ایک ترجمہ ہے بلکہ مکمل شرح بھی ہے جس کا مطالعہ ’مثنوی معنوی‘ کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔مترجم موصوف سب سے پہلے حل لغات کرتے ہیں، پھر المعنی کے ذیل میں شعر کا ترجمہ وتشریح کرتے ہیں اور پھر الخلاف کے ذیل میں مذکورہ بالا دونوں شرحوں سے اپنے ترجمہ تشریح کا تقابل کرتے ہیں۔
10۔الہام منظوم
یہ اردو زبان میں منظوم ترجمہ ہے، جسے عاشق حسین سیماب صدیقی اکبرآبادی اور مولوی فیروزالدین نے باہمی تعاون سے تین سال کی انتھک کوششوں کے بعدپایۂ اتمام کو پہنچایا اور بعد میں مولوی فیروزالدین نے نظرثانی کرکے 1347ھ سے 1350 ھ کے درمیان میں لاہور سے شائع کروایا۔ترجمہ کو لکھنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے خود مترجم مولوی فیروزالدین مرحوم رقمطراز ہیں:
’’مثنوی مولیٰنا رومؒ کے اردو منظوم و منثور ترجمے گو پہلے سے موجود تھے۔ مگر اول تو اکثر ناتمام اور پھر منظوم ترجمہ تو باعتبار فن غالبا شمار کے بھی قابل نہ تھا۔ لہذا میری دیرینہ آرزو تھی کہ کوئی باکمال صاحب حال اس کام کو انجام دے۔ چنانچہ سب سے پہلے میں نے جناب امیرمینائی مرحوم کی خدمت میں یہ تحریک پیش کی تو ضرورت اور خیال کو انھوں نے پسند کیا مگر اپنی ضعیفی کو کام کی گرانباری کا متحمل نہ پایا۔ آخر رفتہ رفتہ میری نگاہ انتخاب جناب شیخ عاشق حسین سیماب صدیقی الوارثی اکبرآبادی پر پڑی۔ جو شعرائے عصر میں ایک استادانہ درجہ و رتبہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ معقول معاوضہ پر انھوں نے ترجمہ شروع کیا۔ مگر کام ہمت شکن اور صبر آزما ہونے کے علاوہ تنہا حضرت سیماب کے بس کا نہ تھا۔اگر خدا مجھے استقلال و استطاعت عطا نہ فرماتا تو یہ لٹیا مدت کی ڈوب چکی ہوتی۔ آخرکار یہ ترکیب کی گئی کہ وہ ترجمہ کرتے اور میں اسے لفظا لفظا قال سے حال میں لانے کی زہرہ گداز کوشش کرتا۔ جب کہیں تین سال کی متواتر و مسلسل دیدہ ریزی اور دماغ سوزی کے بعد یہ چیز تیار ہوئی۔ جو آپ کے سامنے ہے۔‘‘13؂
’الہام منظوم‘ مکمل ترجمہ ہے جو چھ جلدوں میں ہے۔اس کی زبان نہایت ہی سادہ، سلیس اور رواں ہے، اس ترجمہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اپنے عہد کی دوعبقری شخصیات نے مل کربڑی عرق ریزی کے بعد اس کام کو انجام دیا ہے۔ اس کتاب کا آغاز منظوم مقدمہ سے اس طرح شروع ہوتا ہے ؂
اللہ اللہ ہے عجب یہ مثنوی
حال و قال مولوئ معنوی
مثنوی یہ اہل دل کی جان ہے
سربسر عرفان ہی عرفان ہے
اس کے ہرنقطے میں سو اسرار ہیں
ایک مرکز میں ہزار انوار ہیں
اس کا ہرہر لفظ معنی خیز ہے
ہرجھلک آئینۂ تبریز ہے
ہے شریعت اور طریقت کا وصال
قال کم ہے اور زیادہ تر ہے حال14؂
مقدمہ کے بعد’توفیق ترجمہ کی مناجات‘، ’ترجمہ اشعار حضرت وقار فرزند دوم مولانا روم‘ اور ’سب تصنیف مثنوی مرقومۂ حضرت وقار‘ کے عنوان سے منظوم تمہیدات ہیں، پھر اس کے بعد دفتر اول کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے۔ یہ منظوم ترجمہ متن کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ ترجمہ بھی کچھ اس مہارت سے کیا گیا ہے کہ ہر شعر اپنے آپ میں تشریح بھی ہے۔ شعر کا منظوم ترجمہ پڑھتے چلے جائیں، شعر کا مطلب مفہوم ذہن میں متصورہوتا چلا جاتا ہے جواپنے آپ میں ایک غیرمعمولی امرہے اور مترجمین کی فنکارانہ مہارت کی غمازی کرتی ہے، بطور مثال مثنوی معنوی کے چندابتدائی اشعار کے ترجمے پیش کیے جارہے ہیں ؂
بشنو از نے چون حکایت می کند
وز جدائیہا شکایت می کند
سن تو کیا کرتی ہے باتیں بانسری
بس شکایت کررہی ہے ہجر کی
کز نیستان تا مرا ببریدہ اند
از نفیرم مرد و زن نالیدہ اند
جب سے کاٹاہے نیستاں سے مجھے
مردو و زن روتے ہیں میرے شور سے
سینہ خواہم شرحہ شرحہ از فراق
تا بگویم شرح درد اشتیاق
پارہ پارہ کردے سینہ جب فراق
تب کہیں ہو شرح درد اشتیاق15؂
ترجمہ کے بعد کچھ مشکل الفاظ کی ضروری توضیح بھی بیان کی گئی ہے۔ کسی بھی دفترکو دیکھیں پورے ترجمہ میں یہی انداز ہے جو اپنے آپ میں اہم ہے۔مثال کے طور پر دفترسوم میں قوم سبا میں تیرہ پیغمبروں کے آنے کا واقعہ اس طرح بیان کیاگیا ہے ؂
سیزدہ پیغمبر آنجا آمدند
گمرہان را جملہ رہبر می شدند
تیرہ پیغمبر وہاں نازل ہوئے
گمرہوں کی رہبری کے واسطے
کہ ہلا نغمت فزوں شد شکر گو
مرکب شکر ار بخسبد حرِّکو
شکر افزونی نعمت کا کرو
شکر کا گھوڑا جو سوئے ایڑدو
شکر منعم واجب آمد در خرد
ورنہ بکشاید درخشم ابد
شکر حق از راہ دانش ہے روا
ورنہ پھر غصے کا در کھل جائے گا
ہین کرم بینید و این خود کس کند
کز چنین نعمت بشکری بس کند
دیکھے یہ انعام اور ایسا کرے
شکر کم کون ایسی نعمت کا کرے
سر بہ بخشد شکر خوابد سجدۂ
پا بہ بخشد شکر خواہد قعدۂ
سرملاہے، شکر کا سجدہ کرو
پاؤں بخشے، شکر میں قعدہ کرو16؂
’الہام منظوم‘ ابھی تک کے منظوم اردو تراجم میں سب سے زیادہ قابل قدر ہے۔اس کے نسخے ہندوستان کے کئی لائبریریوں میں موجود ہیں لیکن دور حاضر میں اس کی اشاعت نہ ہونے کے سبب کمیاب ہوگیا ہے۔یہ ترجمہ جہاں فارسی ادب کا بیش بہا سرمایہ ہے وہیں اردو ادب سے وابستہ طلبا و اساتذہ کے لیے بھی غیرمعمولی ادبی سرمایہ ہے۔
5۔کلید مثنوی
’کلید مثنوی‘ مولانا اشرف علی تھانوی(1280-1362ہجری)کی تحریر و تقریر پر مبنی اردو زبان میں سب سے مبسوط اور ضخیم شرح ہے جو 1325ھ سے 1334ھ کے درمیانی برسوں میں مکمل ہوکر کانپور سے شائع ہوئی تھی، مگر شومیِ قسمت سے بعد میں اس کے نسخے تتربتر ہوگئے، جسے بعد میں سعودعلی نے ڈاکٹر عبدالحی عارفی کی ایما پرسبھی منتشر جلدوں کو یکجا کرکے دوبارہ شائع کروایا۔عہدحاضر میںیہ شرح دستیاب ہے، جو ہندوپاک کے کچھ مطابع سے شائع ہورہی ہیں۔شرح ’کلیدمثنوی‘پر راقم کا مفصل مضمون زیر اشاعت ہے،اس لیے یہاں رقم کرنے سے احتراز کیا جارہاہے۔
7۔مراۃ المثنوی
قاضی تلمذ حسین کی تالیف ہے جو اعظم پریس حیدرآباد، دکن سے 1352ہجری مطابق 1933میں شائع ہوئی تھی۔یہ کتاب جیساکہ اپنے نام سے ظاہر ہے ’مثنوی معنوی‘ کومتعارف کرانے کے لیے واقعتاآئینہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسے پڑھ کرقاری کے ذہن میں خود بخود ’ مثنوی معنوی‘ کے پڑھنے کا رجحان پروان چڑھنے لگتا ہے۔
’مرأۃ المثنوی‘ چار جلدوں میں ہے، ہرجلد کا نام اس کے موادکی رعایت کرتے ہوئے رکھا گیا ہے،پہلی جلد کا نام ’یواقیت القصص‘ ہے جو ’ مثنوی معنوی‘ میں مذکور حکایات پر مشتمل ہے، دوسری جلد ’دررالحکم‘ ہے جس میں ’مثنوی معنوی‘ کے حقائق و معارف کا بیان ہے۔ تیسری جلد ’جواہر القرآن‘ ہے، جس میں ’مثنوی معنوی‘ میں مذکور قرآنی آیات کے مفاہیم بیان کیے گئے ہیں اور چوتھی جلد ’لآلی السنن‘ ہے، جس میں کلام نبوی ؐ کی مفاہیم پر مبنی اشعار کی نشاندہی کی گئی ہے۔
’مرأۃ المثنوی‘ دراصل ’ مثنوی معنوی‘ کے اشعار کا انتخاب ہے جیسے ’ مثنوی معنوی‘ میں اگر کسی بات کی تمثیل میں کئی اشعار آئے ہیں تو ان میں سے صرف ایسے اشعار کو لیا گیاہے جن سے اصل حکایت کی کماحقہ ترجمانی ہوجاتی ہے۔ باقی مماثل مثالوں کو حذف کردیاگیاہے جیسے مثنوی شریف کی پہلی حکایت میں ہے ؂
چون خرید او را و برخوردار شد
آن کنیزک از قضا بیمار شد
’’جب اس نے اس کو خرید لیا اور کامیاب ہوگیا، وہ لونڈی تقدیر سے بیمار ہوگئی‘‘17؂
مندرجہ بالا اشعار سے متعلق دو مثالیں مزید پیش کی گئی ہیں لیکن چونکہ نفس حکایت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے اس لیے انھیں اس مجموعے میں شامل نہیں کیا گیا ہے اور وہ اشعار یہ ہیں ؂
آن یکی خرداشت پالانش نبود
یافت پالان، گرگ خررا در ربود
کوزہ بودش، آب می نامد بدست
آب را چون یافت، خود کوزہ شکست
’’ایک شخص کے پاس گدھا تھا، اس کا پالان نہ تھا، اس نے پالان پالیا تو، گدھے کو بھیڑیا لے گیا؛ اس کے پاس پیالہ تھا، پانی ہاتھ نہ آیا، جب پانی پایا خود پیالہ ٹوٹ گیا۔‘‘18؂
کچھ ایسے اشعار جو دراصل واقعہ کے اجمال کی تفصیل ہیں، ایسے اشعار کو بھی ترک کردیا گیا ہے۔ اسی طرح بعض تفصیلات کو اختصار سے بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور کہیں کہیں ان جملہ تفصیلات کو ہی حذف کردیا گیا ہے لیکن جو اشعار حذف کیے گئے ہیں ان میں سے زیادہ تر اشعار اس مجموعہ کے دوسرے حصہ ’دررالحکم‘ میں شامل کرلیے گئے ہیں۔اسی طرح مثنوی شریف میں مذکور کئی ایسی حکایتیں جو مختلف مقامات میں ٹکڑوں میں بکھری ہوئی ہیں انھیں ایک جگہ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
مولف کی دوسری کتاب ’صاحب المثنوی‘ ہے، جو معارف پریس، اعظم گڑھ، یوپی سے متعدد مرتبہ شائع ہوچکی ہے۔ ’صاحب المثنوی‘کو ’سوانح عمری مولانا جلال الدین رومی‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے لیکن اس کتاب کا اصل نام ’ صاحب المثنوی‘ ہی ہے۔ویسے تو مولانا رومی کی سوانح پر درجنوں کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں،علامہ شبلی نعمانی نے سب سے پہلے اردو زبان میں مولانا روم کی سوانح لکھی لیکن علامہ شبلی کی ’سوانح مولاناروم‘ میں سوانح پر کم ’مثنوی معنوی‘ کی خصوصیات پر زیادہ زور دیا گیاہے، علامہ شبلی کے اسی گوشے کو پورا کرنے کے لیے قاضی تلمذ حسین نے ’صاحب المثنوی‘ کو رقم کیاجس میں انھوں نے مولانا کی سوانح پر خاطر خواہ بحث کی ہے۔ یہ کتاب کافی پہلے لکھی گئی مگر بدقسمتی سے شائع نہ ہوسکی بعد میں مولف مرحوم کے وارثین سے دستیا ب ہوئی اور مولانا علی میاں ندوی مرحوم کے توسط سے دارالمصنفین نے اسے خریدا اور زیورطباعت سے آراستہ کیا۔
’صاحب المثنوی‘آٹھ فصول پر مشتمل ہے، فصل اول میں مولانا کے آبا و اجداد، مولانا کا نسب، شجرہ، وطن وغیرہ کا ذکر ہے، فصل دوم : اتمام الکمال، مولانا کا حلب کے مدرسہ حلاویہ میں قیام، حلب سے دمشق کو روانگی، قونیہ میں مستقل قیام، مشاغل وغیرہ۔فصل سوم: قران النیرین، حضرت شمس تبریز، قونیہ میں آمد وغیرہ کا ذکر ہے۔ فصل چہارم میں مولانا کی جانشینی، حضرت حسام الدین چلپی وغیرہ کا ذکر ہے۔ فصل پنجم میں ازواج و اولاد کا بیان ہے، فصل ششم میں شمائل و خصائل، رنگ، لباس وغیرہ بیان ہے۔ فصل ہفتم میں محاسن و اخلاق، صلح جوئی و صلح پسندی، حلم و تواضع، عفوودرگزر وغیرہ کا بیان ہے جبکہ فصل ہشتم میں کمالات باطنی،پابندی شریعت،نماز، روزہ، شب بیداری،استغراق، آزمائش، فقروفاقہ، تقویٰ، اشاعت اسلام، کرامات، امداد اہل اسلام، سماع، رباب، مولاناکا سلسلہ بیعت، انضباط کاملہ و حوالہ جات کا ذکر ہے۔ ’’صاحب المثنوی‘‘ کوبجا طور پر مولانا کی سوانح پرجامع کتاب کہی جاسکتی ہے جومولانا رومی کے حالات زندگی کے تقریباً سبھی گوشوں پر خاطرخواہ مواد فراہم کراتی ہے۔
11۔ جواہرالعلوم اردو ترجمہ و مختصر شرح مثنوی مولانا روم
مولانا ابومحمد مخدوم زادہ نے مولانا نذیر احمد عرشی اور قاضی سجاد حسین کے تراجم سے استفادہ کرکے اس شرح کو مکمل کیا ہے اور اس شرح کے شروع میں پیش لفظ کے بعد مولانا قاضی سجاد کے مقدمہ کو جو مولانا روم کے حالات و کوائف پر مشتمل ہے، شامل کیا ہے۔ 888صفحات پر مشتمل یہ شرح ایک ہی جلد میں مکمل ہے اور بہت مختصر بھی ہے،اس میں مثنوی شریف کی فارسی ابیات نہیں ہیں، صرف شروع میں چند ابیات شامل ہیں۔ پہلی نظر میں یہ شرح کوئی اردو کی کتاب معلوم ہوتی ہے جس میں مثنوی شریف کے عنوانات میں کسی اردو کتاب کے عنوان کی طرح ہی اردو میں رقم کیے گئے ہیں، جیسے: بانسری کی آواز کی حقیقت، دوست کی جدائی انسان کو بے سہارا کردیتی ہے، ایک بادشاہ اور لونڈی کا قصہ، بادشاہ کا لونڈی پر عاشق ہوکر اسے خریدنا، لونڈی کی شدید بیماری اور علاج میں طبیبوں کی ناکامی وغیرہ.شارح موصوف نے اس شرح کے مقدمہ میں اس کی وجہ تالیف بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: 
’’جواہر العلوم کی وجہ تالیف مثنوی مولانا رومؒ کے جواہر کو عام کرنے کے علاوہ ’مفتاح العلوم‘ اور ’کلید مثنوی‘ جیسی بھاری بھرکم شروحات سے اپنی کم قوت خرید کے سبب مستفید نہ ہوسکنے والے احباب کو بہرہ مند کرنا ہے۔‘‘19؂
موصوف آگے لکھتے ہیں:
’’امید ہے ہماری یہ کاوش اہل علم اور صوفیا کرام کے حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی۔‘‘20؂
یہ کتاب مشتاق بک کارنر، الکریم مارکیٹ، اردو بازار، لاہور، پاکستان سے شائع ہوئی جس کا سال اشاعت کا ذکر نہیں ہے۔ 
12۔اظہار المنظوم ترجمہ منظوم و شرح مثنوی مولانا روم
سید شاہ محمد اظہار اشرف اشرفی جیلانی کامنظوم اردوترجمہ اور منثور تشریح ہے،یہ صرف دفتر اول کا ترجمہ و تشریح ہے جو چار جلدوں پر مشتمل ہے۔اس شرح کے مقدمہ میں سیدمحمد محمود اشرف اشرفی لکھتے ہیں:
’’حضور شیخ اعظمؒ نے ایک دفتر کے چاروں حصوں کے ترجمہ و شرح کا کام اپنی علالت و ضعف کے دوران اپنی تمام مصروفیات کے باوجود دس مہینے سے بھی کم مدت میں مکمل کرلیا۔‘‘21؂
موصوف آگے لکھتے ہیں :
’’ دوسرے دفتر کاکام شروع ہواتھا کہ مرض نے شدت اختیار کرلیا جس کے سبب ترجمہ و شرح کا کام پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔‘‘ 22؂
اس ترجمہ کی تکمیل میں کئی افراد کی کاوشیں رہی ہیں جن میں پروفیسر طلحہ رضوی برق اور پروفیسر محمد حسین احمد صاحبان نے اس مسودہ پر نظرثانی کرکے اس کی لفظی و ادبی نزاکتوں کو درست کیاہے اور مفتی شہاب الدین اشرفی نے اس کے معنوی مفاہیم کونظر ثانی کیاہے، جب کہ مترجم موصوف کے مریدمولانا غلام محبوب سبحانی اشرفی نے اسے شائع کرایاہے۔ یہ ترجمہ ایک علمی کاوش کہے جانے کاحقدارہے۔یہ شرح ’الاشرف اکیڈمی، اے۔63، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔25 سے شائع ہوئی ہے۔ 
مذکورہ بالا تراجم و شروحات اور تلخیصات کے علاوہ مختلف زمانوں میں متعدد حضرات نے اپنی اپنی وسعت مطالعہ، فراغت اوقات اوررغبت کی بنیاد پر ’مثنوی معنوی‘ کے ترجمے کیے، جن میں سے کسی نے صرف دفتر اول کا ترجمہ کیا تو کسی نے فقط دفتر پنجم یا ششم کا، کسی نے منظوم ترجمہ کیا تو کسی نے منثور۔ ایسے مترجمین کی تعداد بھی درجنوں میں ہے جن میں سے کچھ مترجمین یا ان کے شاہکارکے نام اختصار کے ساتھ یہاں پیش کیے جارہے ہیں مثلا’قصیدۂ معجزہ‘، عبداللہ دہلوی کا ’ترجمہ مثنوی‘، منشی مستعان علی کا ’باغ ارم‘، الٰہی بخش کاندھلوی(1245ھ) کا ’فیض العلوم‘، شاہ مشتاق کا ’ترجمہ مثنوی‘، عباداللہ اختر (م1883) کا ’ ترجمہ مثنوی مولانا روم‘، محمد حسین فقیر دہلوی (م1315ہجری)کا ’کتاب مرقوم‘، پیرزادہ محمد حسین عارف مہی کا ’عقد گوہر‘ (موسوم بہ موتیوں کا ہار)، مولانا اشرف علی تھانوی کا ’رونمائے مثنوی‘، مظفر نبی کا ’نالۂ مضطر‘ یا ’تحفۂ مضطر‘، مولوی محمد بشیر صدیقی فاضل علی پوری کا ’کشف المفہوم‘، محمد دین شاہ قادری سروری سیالکوٹی کا ’ترجمہ منظوم مثنوی‘، عبداللہ خان عسکر رئیس لدھیانوی کا ’شرح حقیقی: ترجمہ مثنوی معنوی‘، عبداللہ عسکری کا ’مشرح؍شرح و منظوم ترجمہ مثنوی مولانا روم‘، رازی کا ’بحرالعلوم‘، مفتی جلال الدین احمد امجدی کی ’گلدستہ مثنوی یا گلزار مثنوی‘، مولانا غلام دستگیر(1882-1961)کا’حکایات مثنوی مولانا روم: ترجمہ‘، میرولی اللہ ایبٹ آبادی بن مولوی سلطان میر (م 1964)کا ’شرح مثنوی‘، خورشید انور جیلانی (م1383ھ) کا ’ترجمہ مثنوی‘، علامہ ابوصالح محمد فیض احمد اویسی رضوی کا ’صدائے نوی‘، بیداربخت آغا (م 1983)کا ’مفتاح العلوم‘، مولانا برکت علی کا ’خلاصۂ مثنوی‘، عبدالواحد،شاعر اہل چیتا گانگ کا ’ترجمہ مثنوی معنوی‘، عبدالحمید خان حمید ملیح آبادی اخترراہی کا ’ترجمہ مثنوی معنوی‘، شفیعی عہدیپوری کا ’ریاض العلوم‘، ’گلزار مثنوی‘، سید امام علی شاہ کا ’ترجمہ منظوم مثنوی‘، چودھری محمد افضل خان کا ’ترجمہ مثنوی مولانا روم‘، سید مظاہرحسین امروہوی کا ’ترجمہ اردو مثنوی‘، مقبول جہانگیرکی ’شرح مثنوی شریف‘، مولوی محمدکا ’بوستان معرفت‘، عبدالحمید خان حمید ملیح آبادی کا ’ترجمہ مثنوی شریف‘ ، مولانا احمد حسن کانپوری کا ’حاشیہ مثنوی‘،عبداللہ دہلوی کا ’ترجمہ مثنوی مولانا روم‘، شاہ غلام غوث معروف بہ غوثی شاہ اکبرآبادی کا ’کنزمکتوم‘، عارف خان برنی کا ’ترجمہ مثنوی‘، شرکت نثار کا ’رموز معرفت‘ وغیرہ ہیں۔یہ وہ تراجم ہیں جو عام نہیں ہیں مگر ملک و بیرون ملک کی متفرق لائبریریوں میں محفوظ ہیں۔24؂
مذکورہ بارہ تراجم و شروحات اردو زبان میں ہیں، ان کے علاوہ عربی، ترکی، انگریزی، سندھی، بنگالی اورکشمیری میں بھی ترجمے ہوئے جن کی تعداد کافی ہے۔ فارسی زبان میں بھی ’’مثنوی معنوی‘‘ پر بہت کام ہواہے۔ اس طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ’’مثنوی معنوی‘‘ کی شروحات کا جو سلسلہ مولانا کے فرزند سلطان ولد اور احمد رومی نے شروع کیا تھا، اسے علاء الدولہ، خواجو اور شاہ نعمت اللہ نے آگے بڑھایا اور کاشفی، خوارزمی، ملایعقوب، جامی،انقروی اور بحرالعلوم جیسے محققین نے اسے اوج ثریا پر پہنچایا اور اس وقت سے تاحال مولانا رومی کے شیدائی مسلسل ’’مثنوی معنوی‘‘ کی شرح و بسط میں مصروف ہیں اور امید ہے کہ مستقبل میں بھی یہ عمل جاری رہے گا۔
حوالہ جات
1۔ پلہ پلہ تا ملاقات خدا، عبدالحسین زرین کوب، انتشارات علمی، تہران، 1384خورشیدی، ص۔225
2۔ پیراہن یوسفی، محمد یوسف علی شاہ گلشن آبادی، مطبع منشی نولکشور، 1947 ، ص۔2
3۔ ایضا،ص۔5
4۔ شجرۂ معرفت، غلام حیدرکوپامؤی، مطبع منشی نولکشور، 1343ہجری، ص۔6
5۔ ایضا
6۔ کشف العلوم، دفتر اول، مولانا محمد ہدایت علی لکھنوی بہ تصحیح محمد ابراہیم شاہجہانپوری، مطبع گلزار ابراہیم، مرادآباد، 1308ہجری
7۔ بوستان معرفت، مولوی عبدالمجید خان بن عبدالرحیم خان،مطبع نولکشورلکھنؤ، 1310ہجری، دیباچہ، ص۔3
8۔ ایضا، ص۔2-3 9۔ ایضا، ص۔4 10۔ ایضا، ص۔5
11۔ ایضا 12۔ ایضا
13۔ الہام منظوم، دفتراول، سیماب اکبرآبادی؍مولوی فیروز الدین دہلوی،لاہور، 1928،ص۔التماس ناشراز مولوی فیروز الدین 
14۔ ایضا،ص۔الف 15۔ ایضا،ص۔1 16۔ ایضا، دفترسوم،ص۔282
17۔ ترجمہ مثنوی معنوی، قاضی سجاد حسین، الفیصل ناشران و تاجران کتب، لاہور، 2006، دفتر اول، ص۔36
18۔ ایضا
19۔ جواہرالعلوم اردو ترجمہ و مختصر شرح مثنوی مولانا روم، مولانا ابومحمد مخدوم زادہ، مشتاق بک کارنر، الکریم مارکیٹ، اردو بازار، لاہور، پاکستان، (سال اشاعت ندارد)، مقدمہ 
20۔ ایضا
21۔ اظہارالمنظوم، مقدمہ، شیخ اعظم حضرت علامہ سید شاہ محمد اظہار اشرف اشرفی جیلانی، (سال اشاعت ندارد)، مقدمہ
22۔ ایضا 23۔ مقدمہ ترجمہ تاثیر صاحب
24۔ شرح مثنوی معنوی، شاہ داعی شیرازی، مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان، 1985،ص3-20



Moghees Ahmad
Guest Faculty, Dept of Persian
Jamia Millia Islamia
New Delhi - 110025
Mob: 9891567738







قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

تازہ اشاعت

تاریخ تمدن ہند، مصنف: محمد مجیب

  اردو دنیا۔ اکتوبر 2024 فن تعمیر آٹھویںصدی تک مندر کے نقشے اور اس کے لازمی اجزا کا تعین ہوگیا تھا۔ اس کے بعد تعمیری سرگرمی کا ایک دور ...