28/11/18

علامہ شبلی اور ملا واحدی ,مضمون نگار: محمد الیاس الاعظمی






علامہ شبلی اور ملا واحدی
محمد الیاس الاعظمی


محمد ارتضیٰ معروف بہ ملا واحدی (1888-1976) دہلی کے رہنے والے اردو کے ممتاز اہل قلم تھے۔ دہلی کی ٹکسالی زبان لکھتے تھے۔ 88 سال عمر پائی اور 70 سال تک لکھتے رہے یہی وجہ ہے کہ تحریروں کا ایک بڑا ذخیرہ یادگار چھوڑا ہے۔ خواجہ حسن نظامی (1878-1955) سے عقیدت مندانہ مراسم قائم ہوئے تو ان کے اشتراک سے 1909 میں دہلی سے رسالہ نظام المشائخ جاری کیا جسے وہ پچاس برس تک نکالتے رہے۔ دہلی میں 1947 کے فسادات سے دل برداشتہ ہوکر ہندوستان کو خیرباد کہہ کر پاکستان کی راہ لی، جس وقت انھوں نے ہجرت کی اس وقت وہ آٹھ رسائل اور ایک اخبار کے مدیر تھے۔ اسی پر دیوان سنگھ مفتون (1890-1975)نے کہا تھا کہ واحدی کوچہ چیلان کو رسالوں اور اخباروں کا قبرستان بنا کر گئے۔1 حالانکہ ان کی زبان پر یہ نوحہ تھاکہ : 
تذکرہ دہلی مرحوم کا نہ چھیڑ اے دوست 
نہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہرگز
ان کے لکھنے پڑھنے کا آغاز نوجوانی اور طالب علمی میں ہوا۔ بے شمار مضامین و مقالات، انشائیے اور خاکے لکھے ان کے علاوہ ان کی متعدد کتابیں میر ے زمانے کی دلی، دلی کا پھیرا، دلی جو ایک شہر تھا، میرا افسانہ، سوانح خواجہ حسن نظامی، حیات سرور کائنات، تاثرات وغیرہ شائع ہوئیں، ان میں میرے زمانے کی دلی بہت مشہور ہوئی، ان کے اخباری کالموں کا مجموعہ تاثرات بھی قابل ذکر ہے جسے حکیم محمد سعید دہلوی نے مرتب کرکے شائع کیا۔ ملا واحدی نے دلی اور دلی والوں پر بائیس تےئس برس تک لکھا۔ دہلی سے متعلق ان کی کتاب ’ناقابل فراموش لوگ اور ناقابل فراموش باتیں‘ خدا جانے شائع ہوئی یا نہیں۔ اسی طرح ’تاثرات‘ کا ایک اور ضخیم مجموعہ مرتب کیا تھا غالباً اس کی اشاعت کی بھی نوبت نہیں آئی۔ اخیر دور میں اپنی خودنوشت میرا افسانہ اپنے بچوں کے لیے لکھی جو نامکمل رہی۔ ان کی وفات کے بعد ان کے بچوں نے اسے سائیکلو اسٹائل کراکے تقسیم کیا، جسے مشہور محقق مالک رام (1906-1993) نے اپنے رسالہ تحریر دہلی (جولائی ستمبر 1878) میں شائع کیا۔ 2015میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کراچی نے اس کا ایک خوب صورت ایڈیشن شائع کیا ہے۔ راقم کے پیش نظر یہی جدید اشاعت ہے۔ 
ملا واحدی کے بارے میں گذشتہ سطور میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ دراصل ان کی آپ بیتی ’میرا افسانہ‘ سے ماخوذ ہے۔ البتہ ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ ’میرا افسانہ‘ میں انہوں نے ان بزرگوں اور احباب کا بھی ذکر کیا ہے جن سے رسالہ نظام المشائخ کے توسط سے روابط قائم ہوئے، ان میں ایک اہم نام علامہ شبلی کا بھی ہے۔ 
دور طالب علمی میں ملا واحدی کی نصابی کتابوں سے طبیعت اچاٹ ہوئی تو غیر درسی کتابوں کا مطالعہ کرنے لگے اور پھر اس کی ایسی چاٹ لگی کہ تعلیم ادھوری رہ گئی، اس دور میں انھوں نے جن اساطین علم و ادب کا مطالعہ کیا، اس میں ایک اہم نام علامہ شبلی کا نعمانی کا بھی ہے۔ 2
1908 میں علامہ شبلی (پیدائش: 4جون 1857، وفات: 18نومبر 1914) نے خواجہ حسن نظامی کو لکھا کہ میں تھک گیا ہوں، آرام کرنا چاہتا ہوں چنانچہ خواجہ صاحب نے انھیں دہلی بلا لیا۔ اس پوری مدت میں ملا واحدی ان کے ساتھ مقیم رہے۔ 3 ملا واحدی نے اس واقعہ کا ذکر اپنی آپ بیتی میں اس طرح کیا ہے: 
’’نظام المشائخ کے اجرا کے بعد سب سے پہلے مولانا شبلی نعمانی ہمارے ہاں تشریف لائے اور تقریباً مہینہ بھر ٹھہرے تھے۔ خواجہ حسن نظامی کو مولانا شبلی نے کسی خط میں لکھا تھا کہ کام کرتے کرتے تھک گیا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ مہینہ بھر کے لیے کہیں باہر چلا جاؤں۔ خواجہ صاحب نے جواب دیا کہ کہیں نہ جائیے یہاں تشریف لے آئیے۔ سکون کا پورا بندوبست کر دیا جائے گا۔ مولانا نے یہ تجویز اس شرط پر منظور فرمائی کہ آپ صرف قیام کا انتظام کریں، طعام کا انتظام میرا باورچی کرے گا، باورچی کو لاؤں گا۔‘‘ 4
واحدی صاحب نے تاثرات میں بھی ’علامہ شبلی کی یاد‘ کے عنوان سے اس واقعہ کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ: 
’’علامہ شبلی نعمانی ایک دفعہ دلی تشریف لائے اور خواجہ حسن نظامی کے ہاں مہینہ بھر ٹھہرے۔ خواجہ صاحب اس زمانے میں نواب بڈھن کے کمرے میں رہتے تھے جو اعظم خاں کی حویلی (دہلی) کے سامنے تھا، کمرہ کیا پورا دیوان خانہ تھا۔ کمرے سے متصل نواب بڈھن کی محل سرا تھی۔ نواب غلام نصیرالدین عرف نواب بڈھن رئیس شیخوپورہ برناوہ ضلع میرٹھ نے کمرہ اور محل سرا د ونوں خواجہ صاحب کے سپرد کرکے رکھے تھے۔ رسالہ نظام المشائخ کی ابتدا اسی کمرے سے ہوئی تھی، جو میں نے اور خواجہ صاحب نے جاری کیا تھا۔‘‘ 
خیر یہ 1908 کی بات ہے، نظام المشائخ کے اجرا سے سوا سال پہلے کی، مگر میں اس کمرے اور محل سرا میں آنے جانے لگا تھا۔‘‘ 5
ضیاء الدین احمد برنی (1890-1969) مصنف عظمت رفتہ نے علامہ شبلی کے اس سفر کا سال 1909 لکھا ہے، 6 اور مولانا سید سلیمان ندوی نے 1914 7 چونکہ کسی اور مقام پر اس سفر کا ذکر نہیں ملتا اس لئے قیاس ہے کہ ملا واحدی ہی کا بیان کردہ سنہ درست ہے۔ علامہ شبلی نے 1914 میں بھی دہلی کا ایک سفر کیا تھا۔ ممکن ہے اس سفر میں بھی خواجہ حسن نظامی سے ملاقات ہوئی ہو لیکن تصوف پر تقریر کا واقعہ 1908 ہی کا ہے جیسا کہ ملا واحدی نے صراحت سے لکھا ہے۔ 
ملا واحدی چونکہ علامہ شبلی کے قیام دہلی میں ان کی مجالس کے حاضر باشوں میں تھے اس لیے انھوں نے علامہ کو قریب سے دیکھا تھا، ان کے معمولات تصنیف و تالیف کے بارے میں لکھتے ہیں: 
’’میں نے دیکھا کہ علامہ شبلی صرف آٹھ بجے سے دس بجے تک لکھنے کا کام کرتے ہیں اور دس بجے کے بعد یا اخبار رسالے اور کتابیں پڑھتے ہیں، یا لوگوں سے ملتے جلتے ہیں، آٹھ سے دس بجے تک کے لیے ہدایت تھی کوئی آئے ، مت آنے دو، اور کچھ ہوجائے مت خبر کرو۔‘‘ 8
علامہ شبلی کے دوسرے سفر دہلی میں بھی جو 1913 میں ہوا تھا ان کا یہی معمول رہا، ملا واحدی لکھتے ہیں: 
’’دوسری دفعہ غالباً 1913 میں علامہ شبلی دلی تشریف لائے اور حکیم اجمل خاں کے ہاں قیام فرمایا، وہاں بھی آٹھ سے دس (بجے) تک وہ تخلیہ کرتے تھے اور ان کے قریب پرندہ پر نہیں مار سکتا تھا۔ 
علامہ شبلی کی تمام معرکۃ الآرا تصانیف دو گھنٹے روزانہ لکھنے کی کرامات ہیں۔ دو گھنٹے سے زیادہ لکھنا ان کے نزدیک حرام تھا اور دوگھنٹہ پابندی سے لکھنا فرض۔ اسے وہ سفر و حضر میں نباہتے تھے۔ باقی اوقات میں کبھی کھانا بھی پکا لیتے تھے۔ پکانے کا غالباً شوق تھا اور کھانا کھانا بھی جانتے تھے۔‘‘ 9
علامہ شبلی نے خواجہ صاحب سے یہ شرط رکھی تھی کہ طعام کا انتظام وہ خود کریں گے۔ اس کی تفصیل پیش کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں: 
’’خواجہ صاحب نے نواب بڈھن کی پوری محل سرا مولانا کے سپرد کردی جہاں وہ باورچی سے آگ ضرور سلگواتے تھے اور چپاتیاں پکواتے تھے، باقی سالن اپنے ہاتھ سے پکاتے تھے۔‘‘ 10
اس محل سرا میں خواجہ حسن نظامی کی خواہش پر علامہ شبلی نے تصوف کے موضوع پر تقریر کی جسے چند لوگوں نے مل کر نقل کیا اور جسے نظام المشائخ دہلی کے 1909 کے کسی شمارے میں شائع کیا گیا۔ نظام المشائخ کا یہ شمارہ راقم کو اب تک دستیاب نہیں ہوسکا ہے اس لیے تصدیق نہیں کی جاسکی کہ وہ خطبہ خطبات شبلی میں شامل ہے یا نہیں؟ 
مولانا سید سلیمان ندوی نے اس خطبہ سے خواجہ حسن نظامی کے متاثر ہونے کا ذکر کیا حیات شبلی میں مولوی اکرام اللہ خاں (م: 16جنوری 1952) ایڈیٹر کانفرنس گزٹ علی گڑھ کے حوالہ سے کیا ہے اور لکھا ہے کہ: 
’’تقریر کے بعد خواجہ صاحب نے کہا کہ اگر تصوف قالی چیز ہوتی تو میں آج آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لیتا۔‘‘ 11
ضیاء الدین احمد برنی جو اس خطبہ کے سامعین میں تھے اپنی کتاب ’عظمت رفتہ‘ میں لکھتے ہیں: 
’’تقریر سے قبل ہم میں سے بہت سوں کا خیال تھا کہ چونکہ علامہ صوفی منش بزرگ نہیں اس لیے تصوف جیسے موضوع پر ان کی تقریر بالکل خشک ہوگی، لیکن جب انھوں نے تقریر ختم کی تو سب کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اور میں نے کم سے کم یہ محسوس کیا کہ علامہ تو چھپے رستم ہیں۔ معلوم ہوتا تھا کہ جنید یا بایزید بسطامی کے پایہ کا کوئی درویش ہے جو تصوف کے رموز و نکات کے دریا بہائے چلا جا رہا ہے۔ تقریر کے بعد جس عقیدت مندی سے حاضرین نے ان کے ہاتھ چومے وہ سماں آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے۔‘‘ 12
تاثرات میں ایک جگہ ملا واحدی نے منصف مزاج مستشرقین کا ذکر کیا ہے، اس میں علامہ شبلی کا ایک قول نقل کیا ہے: 
’’ بعض منصف مزاج مستشرقین یورپ حضورؐ کی زندگی کے وہ محاسن اور کمالات بیان کرجاتے ہیں کہ بڑے بڑے ذی علم مسلمانوں کی نظر ان تک کم جاتی ہے۔ بقول علامہ شبلی نعمانی راکھ کے ڈھیر میں سونے کے ذرے نکال لیتے ہیں، منصف مزاج ہی نہیں متعصب مستشرقین نے بھی صف انبیاء کا ہیرو حضوؐر ہی کو قرار دیا ہے۔‘‘ 13
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملا واحدی نے شبلی کی تحریروں کو بڑے غور سے پڑھا تھا، مگر حوالہ نہیں دیا ہے کہ انہوں نے یہ قول کہاں سے نقل کیا ہے۔ 
تاثرات کا ایک عنوان ’مولانا ابوالکلام کی یاد‘ ہے۔ اس میں انھوں نے مولانا ابوالکلام آزاد سے اپنی ملاقاتوں کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ ان سے پہلی ملاقات کان پور ریلوے اسٹیشن پر ہوئی تھی۔ دوسری ملاقات کی تفصیل میں علامہ شبلی کا بھی ذکر ہے۔ لکھتے ہیں: 
’’ندوۃالعلماء کا دلی میں اجلاس تھا جس کی صدارت کرنے مصر سے علامہ رشید رضا آئے تھے۔ مولانا شبلی، مولوی حبیب الرحمن شروانی اور مولانا ابوالکلام آزاد اور خدا معلوم کتنے بڑے بڑے علما مطبع مجتبائی میں مقیم تھے۔ مولانا ابوالکلام کا کمرہ مولانا شبلی اور مولوی حبیب الرحمن کے کمروں کے درمیان تھا۔ ایک طرف مولانا شبلی دوسری طرف مولوی حبیب الرحمن شروانی، صرف دو ہی شخص ایسے تھے جن سے شاید ابوالکلام متاثر رہے ہوں۔ لیکن میں اور خواجہ حسن نظامی کئی مرتبہ مولانا شبلی اور مولانا حبیب الرحمن شروانی کے پاس گئے۔ مولانا ابوالکلام کو ایک مرتبہ بھی ان دونوں کے کمروں میں قدم رکھتے نہیں دیکھا۔ شام کے وقت سب علما ٹکڑیاں بنا کر صحن میں بیٹھا کرتے تھے۔ اس وقت مولانا ابوالکلام بھی باہر نکلتے تھے اور مولانا شبلی اور مولوی حبیب الرحمن کے ساتھ بیٹھتے تھے۔ میری دوسری ملاقات مولانا ابوالکلام سے اسی شام کی مجلس میں ہوئی۔‘‘ 14
ندوۃالعلما کا وہ اجلاس جس کی صدارت علامہ رشید رضا نے کی تھی وہ تو لکھنؤ میں منعقد ہوا تھا اور مطبع مجتبائی دہلی میں تھا۔ راقم یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ملا واحدی جو خود اس اجلاس میں شریک تھے انہیں کیسے التباس ہوا اور اس کی حقیقت کیا ہے؟ ندوہ کا 1910 کا اجلاس دہلی میں ہوا تھا غالباً ملا واحدی اور خواجہ حسن نظامی اس میں شریک ہوئے ہوں اور 1912 کے لکھنؤ اجلاس میں بھی شریک رہے ہوں اس وجہ سے دونوں کی روداد بیان کرنے میں لکھنؤ اور دہلی میں شبہہ ہوگیا ہو۔ البتہ ملا واحدی نے اس کے بعد مولانا ابوالکلام آزاد کی عربی دانی اور خطابت کا جو ذکر کیا ہے اسے سید صاحب نے بھی حیات شبلی میں قلم بند کیا ہے۔ ملا واحدی لکھتے ہیں: 
’’علامہ رشید رضا نے خطبہ لکھا نہیں تھا، علامہ برجستہ بولے تھے۔ مولانا محمد فاروق چریاکوٹی (استاد مولانا شبلی) کے ذمہ تھا کہ ترجمہ کریں گے، مگر ترجمہ کرنے لگے تو متبحر عالم ہونے کے باوجود سٹ پٹا گئے، مولانا شبلی نے فوراً مولانا ابوالکلام کو اشارہ کیا۔ مولانا اگلی صف سے اٹھے اور اسٹیج پر پہنچے اور حاضرین سے کہا کہ الگ الگ فقروں کا ترجمہ نہیں کروں گا۔ صاحب صدر کی تقریر ختم ہونے دیجیے پوری تقریر کا ترجمہ ایک ساتھ کردوں گا۔ چنانچہ تیئس سالہ ابوالکلام نے ایسا مربوط ترجمہ سنایا کہ بوڑھے اور متبحر علما کو متحیر کر دیا۔‘‘ 15
ملا واحدی کے اس اقتباس سے جہاں مولانا آزاد کی عربی دانی کا اندازہ ہوتا ہے وہیں پہلی بار یہ بات سامنے آتی ہے کہ علامہ رشید رضا کی تقریر کے ترجمہ کی ذمہ داری مولانا فاروق چریاکوٹی کے ذمہ تھی۔ 
ملاواحدی کے ان چند اقتباسات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف علامہ شبلی سے ملے تھے، ان کی تحریروں کو بغور پڑھا تھا بلکہ ان سے متاثر بھی تھے۔ 
حواشی 
(1) تاثرات ص 22 (2) ایضاً، ص 21
(3) عظمت رفتہ ص 265 (4) میرا افسانہ ص 68
(5) تاثرات ص 46 (6) عظمت رفتہ ص 261
(7) حیات شبلی ص 748 (8) تاثرات ص 46
(9) ایضاً، ص 47 (10) میرا افسانہ ص 68
(11) حیات شبلی ص 748 (12) عظمت رفتہ ص 266 
(13) تاثرات ص 102-3 (14) ایضاً، ص 258
(15) ایضاً ص 259


Dr. Mohd Ilyas Azmi
Shaesta Manzil, 641, Ghulami Kapura
Behind Awas Vikas
Azamgarh- 276001 (UP)
Mob.: 9838573645




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں