28/11/18

منیر شریف کی چھوٹی بڑی درگاہوں کی تاریخی اہمیت۔ مضمون نگار۔ مہتاب جہاں






منیر شریف کی چھوٹی بڑی درگاہوں کی تاریخی اہمیت

مہتاب جہاں

2014  میں پٹنہ جانے کا اتفاق ہوا۔ پٹنہ ویسے تو کئی بار گئی ہوں مگر اس دفعہ کئی مشہور و معروف جگہوں کی زیارت کی اور پٹنہ کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ان معروف جگہوں میں بہار شریف، پھلواری شریف، نالندہ کے کھنڈرات، پٹنہ یونیورسٹی،پٹنہ کالج، مخدوم جہانیاں کا مقبرہ جسے مخدوم کنڈ بھی کہاجاتا ہے۔ کماؤ، گول گھر، تارا منڈل یہ تمام جگہیں دیدنی ہیں اور بہارکی تاریخ میں اہم حیثیت سے جانی اور پہچانی جاتی ہیں، ایک جگہ جس نے اپنی طرف ایک خاص وجہ سے توجہ مبذول کرائی وہ مقدس و پاک جگہ تھی۔’منیر شریف‘ اور اس میں واقع چھوٹی اور بڑی درگاہیں۔ چھوٹی درگاہ کو دیکھ کر ایک عجیب و غریب کیفیت اور ایک ہیبت کا عالم طاری ہوتا ہے۔اس عمارت کی عظمت کو سلام کرنے کو جی چاہتا ہے۔ یہ پُرشکوہ عمارت اپنے پورے وقار کے ساتھ اس سرزمین پر ایستادہ ہے۔ اور یہ دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے اور آنکھیں خیرہ کہ کوئی پرسان حال نہ ہونے کے باوجود یہ عمارت صحیح و سالم ہے۔ اس عمارت کی خوبصورتی دل کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور اس عمارت کاجلال و دبدبہ نگاہوں سے پوشیدہ نہیں ہوتا۔ شاید اس کی وجہ وہ پاک روحیں ہیں،جو اس میں دفن ہیں۔ میں دہلی کی رہنے والی ہوں اور یہاں بے شمار مغلیہ اور سلاطین دور کی عمارتیں اپنی پوری شان و شوکت سے دہلی و ہندوستان میں اپنے جلوے بکھیر رہی ہیں۔ خاکسار کو کئی طرح کی عمارتیں دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ مگر نہ جانے کیوں جب بھی بہار جاتی ہوں۔منیرشریف جائے بغیر نہیں رہ سکتی۔ گھنٹوں اس عمارت کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملتا ہے۔ایک بے حد پرسکون اور ویران جگہ پر واقع یہ عمارت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ کھڑی ہے۔ آس پاس آبادی بھی بسی ہوئی ہے جس نے عمارت کے اطراف کو کافی غلاظت اور گندگی سے آلودہ کیا ہوا ہے۔مگر پھر بھی یہ پاکیزہ جگہ ایک عجیب سا تاثر دل پر چھوڑتی ہے۔یہ عمارت پٹنہ سے 25-30 کلومیٹر مغرب میں نیشنل ہائی وے پر واقع ایک تاریخی شہرمیں ہے جو عہد وسطیٰ میں کافی اہمیت کا حامل رہا ہے۔مگر اس عمارت اور اور منیر شریف کے بارے میں بات آگے بڑھانے سے پہلے یہ لازمی معلوم ہوتا ہے کہ پہلے اس کے تاریخی پس منظر پر نگاہ ڈالی جائے۔
منیر شریف کا تاریخی پس منظر:

صوبہ بہار میں اسلامی حکومت کا آغاز محمد بن بختیار خلجی کی فتوحات سے ہوا۔ لیکن بعض واقعات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ محمد بن بختیارخلجی سے پہلے مسلمانوں نے یہاں قدم جمانا شروع کردیے تھے۔ مقامی روایات کے مطابق منیر کو پہلے سلطان محمود غزنوی کے سپاہیوں نے فتح کیا تاریخ سالار مسعود غازی سے ظاہر ہوتا ہے کہ محمود غزنوی کی وفات سے دو سال پہلے اس کا لشکر اُس کے بھانجے سالار مسعود غازی کی ماتحتی میں ہندوستان آیا۔ مسعود نے سترکھ کے مقام پر قیام کرکے مشرقی علاقوں پر چڑھائی کی۔اکثر راجاؤں نے اکٹھا ہوکر مقابلہ کیا۔ لیکن ان میں بعض ایسے تھے جو پہلے سے سلطان محمود سے تعلق رکھتے تھے۔ اور بعض کا خیال تھا کہ ایک بھاری لشکر مسعود کی مدد کے لیے غزنی سے روانہ ہونے والا ہے۔ بہرحال مسعود نے اکثر راجاؤں کو شکست دے کر ان کی متحد طاقت کو ختم کردیا۔ لیکن بالآخر وہ خود بھی قتل ہوا ور بہرائچ میں دفن ہوا اور اس کے بعد تقریباً 160 سال تک سلاطین غزنین کا کوئی لشکر اس طرف نہیں آیا۔ جن مقامات پر مسعود غازی کے سپاہیوں نے جنگ کی۔اور مقتول ہوکر مدفون ہوئے۔ عام طور سے ایسے علاقے گنج شہیداں کے نام سے مشہور ہیں۔ کڑہ مانکپور کے اطراف، غازی پور، سیوان( ضلع سارن) اور ان کے علاوہ خاص قصبہ منیر میں ایسی جگہ موجود ہے جہاں اس واقعہ کی یادگار میں سالانہ میلاد ہوا کرتا ہے۔ جو ’غازی میاں کے میلے‘کے نام سے مشہور ہے۔منیر کے مخدوم زادوں کے سفینوں سے معلوم ہوتا ہے کہ 1178 میں حضرت تاج فقیہ اور قطب سالار نے راجہ منیر کو شکست دے کر منیر پر قبضہ کیا قطب سالار کا مزار منیر سے دو میل پورب میں موضع مہدواں میں مسجد کے پیچھے میدان میں واقع ہے اس جنگ میں جو مسلمان شریک تھے ان میں 25 آدمیوں کے نام بھی سفینوں میں مذکور ہیں ان سفینوں کی رو سے حضرت تاج فقیہ اور قطب سالار کے آنے سے پہلے ایک مسلمان مومن عارف منیرمیں رہتا تھا جس کو راجہ منیر سخت اذیتیں دیتا تھا۔ مومن نے اس راجہ سے تنگ آکر مدینہ کی راہ لی اور وہاں جاکر حضرت تاج فقیہ کو اپنا حال بیان کیا۔ حضرت تاج فقیہ جن کا اصل وطن خلیل الرحمن ( ہبرون) تھا وہ ایک گروہ کو لے کر غزنی ہوتے ہوئے منیر پہنچے اور راجہ منیر سے جنگ کرکے منیر پر قابض ہوگئے۔ بہرحال اس زمانے میں مومن عارف یا کسی مسلمان کا منیر کا باشندہ ہونا اس طرح ہوسکتا ہے کہ مسعود غازی کے ساتھیوں میں سے کسی نے شایدمنیر آکر سکونت اختیار کرلی ہواور اس کی نسل میں مومن عارف، تاج فقیہ اور قطب سالارکے زمانے میں منیر کا باشندہ تھا۔
منیر اور مخدوم شرف الدین احمد:
مخدوم شرف الدین کی حیثیت صوبہ بہار میں ایک روحانی بادشاہ جیسی ہے محمد تاج فقیہ کی اولاد نے اسلام کی تبلیغ اور خدمت خلق کا جو نمونہ پیش کیا ہے اس میں اس جیسی جامع اور منظم تحریک کی مثال برّ صغیر پاک و ہند میں منفرد ہے اس خاندان نے جو خاندان مخدوم کے نام سے مشہور و موسوم ہے 1608-1178 تک یعنی چار سو تیس سال تک تبلیغ اشاعت دین اور خدمت خلق کا سلسلہ بہت ہی پامردی،تڑپ اور بصیرت کے ساتھ جاری رکھا اور اس کے بعد بھی یہ سلسلہ قائم رہا۔ شرف الدین احمد کی بدولت مشرقی ہندوستان اور بہارمیں دین اسلام کو تقویت حاصل ہوئی۔
انھوں نے صرف اپنی تقریری صلاحیت سے ہی کام نہیں لیا بلکہ تحریر کے ذریعہ بھی تبلیغ اور درس و تدریس کو ملفوظات اور مکتوبات کی شکل میں پھیلایا اسلامی مسائل اور دوسری چیزوں کو جہاں اس کی وضاحت کی اشد ضرورت تھی آپ نے اس کا م کو انجام دینے کی سعی قوی کی۔ ان کی تصانیف اسلامی تاریخ کا بیش بہا خزانہ ہیں۔ آپ کی کل 35تصانیف بتائی جاتی ہیں ان میں مکتوبات صدی، مکتوبات، ملفوظات، فارسی کتاب آداب المریدین، مکتوبات دو صدی مکتوبات تین صدی، مکتوبات جوابی اور ملفوظات میں معدن المعانی و خوان پُر نعمت وغیرہ اہم و مشہور ہیں۔ مخدوم شرف الدین کو تعبیر گوئی پر بھی پورا ملکہ حاصل تھا اس کا ثبوت ہمیں معدن المعانی میں تعبیر خواب کے ایک خاص باب کے حوالے سے ملتا ہے۔شیخ شرف الدین احمد ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کا خاندان علم وا دب کا گہوارہ تھا۔ آپ شاعر بھی تھے۔ اور مشرف آپ کا تخلص تھا۔ آپ کے فالنامے، فقیری نسخے، اور دوہے اور ریختہ گوئی کے اسلوب قابلِ رشک ہیں۔ شرف الدین احمد کی والدہ بی بی رضیہ بہت ہی عبادت گزار اور بزرگ خاتون تھیں۔ مخدوم شرف الدین نے ابتدائی تعلیم گھر پرہی پائی۔ آپ نے 29 برس کی عمر میں اپنے استاد ابوتوامہ سے کلام پاک کی تفسیر، حدیث، فقہ، فلسفہ اور ریاضی کی تعلیم مکمل کی۔دوران تعلیم ریاضت و مجاہدہ میں مشغول رہے۔ اور علم تصوف کا بھی مطالعہ کیا جسے انھوں نے اپنے مکتوبات میں تحریر کیا ہے۔ دور ان تعلیم ہی آپ کی شادی ان کے استاد مکرم کی بیٹی سے ہوگئی۔ دوران تعلیم آپ گھر سے دور تھے اور جتنے خطوط بھی گھر سے آتے آپ نے ایک بھی نہیں کھولا، مگر جب فراغت پائی تو ان تمام موصولہ خطوط کو کھولا تو اس میں ان کی والدہ کی موت کی خبر تھی اس خبر سے آپ دل برداشتہ ہوکر گھر پہنچے مگر وہاں قلیل مدت کے لیے ہی رکے کیونکہ آپ کا دل بے قرار تھا۔اور آپ کو اس کے مداوے کے لیے ایک عابد و زاہد کی تلاش تھی اس تلاش کی بنا پر آپ حضرت نظام الدین اولیا اور شیخ نجیب الدین فردوسی کے پاس بھی پہنچے اور بیعت لی۔ اور وہاں سے رخصت ہوکر گھر کو روانہ ہوئے۔ مگر راستہ میں جب آپ ضلع آرہ کے بہیا کے جنگل میں پہنچے تو ان پر عجیب کیفیت طاری ہوگئی اور آپ گریبان چاک کرکے جنگل میں نکل گئے۔ آپ کے بھائی نے جنگل میں بہت ڈھونڈا مگر وہ ناکام گھر واپس لوٹ گئے۔ کہا جاتا ہے کہ آپ نے تیس برس جنگلوں میں عبادت کی جن میں بارہ سال بہیا کے جنگل اور کئی سال راج گیر کے علاقوں میں رہے۔ راج گیر پہاڑوں کے دامن میں ہرابھراجنگل سے بھرا ایک بے حد خوبصورت اور صحت افزا مقام ہے۔اس مقام کی اپنی ایک تاریخ و اہمیت ہے۔راج گیر کا اصل نام راج گری ہے یعنی بادشاہوں کی رہائش گاہ۔ مہابھارت کے زمانے میں اس جگہ کو گرب راج کہا جاتا تھا۔ یہ تاریخی شہر ادیان ہند کامرکز تھا۔اجات شترو کا دارالحکومت اور جین مذہب کی تبلیغ کا بھی مرکز تھا۔ اور گوتم بدھ نے بھی اپنی زندگی کے آخری ایام یہیں گزارے۔ آخر میں یہاں برہمنوں کی ایک آبادی بس گئی۔ بدھ مذہب کی پہلی تاریخی کونسل یہیں منعقد ہوئی تھی۔یہاں کئی گرم پانی کے چشمے ہیں جن میں مخدوم کنڈسب سے مشہور ہے یہیں پر شیخ شرف الدین احمد کا حجرہ بھی ہے۔ اس وجہ سے بھی یہ جگہ بہت اہمیت کی حامل ہے۔آپ نے ساٹھ برس تک بہار شریف میں تبلیغ اسلام کی۔ آپ کی روحانیت، شہرت اور اہلیت و درویشی کا حال سن کر سلطان محمد تغلق نے بہار شریف میں ایک خانقاہ تعمیرکرائی اور پرگنہ راج گیر بھی ایک فرمان کے ذریعہ نذر کیا تاکہ اس سے خانقاہ کے اخراجات اس کی آمدنی سے پورے ہوسکیں۔مگر مخدوم صاحب کو یہ پسند نہیں آیااور انھوں نے اس کو لوٹادیا۔آپ کے والد یحییٰ منیری نے بھی بختیار خلجی کو اپنے والد تاج فقیہ کی فتح کردہ حکومت منیر حوالہ کردی تھی۔ یعنی آپ کا خاندان گویا فقیری میں بادشاہ تھا۔ آپ کی منکسرالمزاجی کا یہ عالم تھا کہ آپ نے اپنے ملفوظات میں اکثر خود لکھا ہے کہ میں تواسلام کے لائق بھی نہیں ہوں اور کئی جگہ خود کو بدبخت اور ذلیل وغیرہ بھی تحریر کیا۔ غرور اور ظاہرداری سے آپ کو سخت نفرت تھی۔ آپ کا لباس بے حد سادہ اور غذا میں صرف خشک روٹی، چاول، یا کھچڑی کھایا کرتے تھے۔آپ کا وصال 782ھ بروز جمعرات نماز عشاء کے وقت ہوا اور آپ نے تقریباً 121 سال عمر پائی۔
منیرشریف کی چھوٹی بڑی درگاہیں:
ان درگاہوں اور منیر سے متعلق اہم معلومات ہمیں انگریزی زبان میں مستند تحریروں کے حوالے سے ملتی ہیں ان میں سے سب سے پہلے 1812-14 میں بکانن (Buchanan) کی تیار کردہ پٹنہ اور گیا سے متعلق رپورٹ ملتی ہے۔ اس کے کچھ مدت بعد جنرل کننگھم (Cunninghim) نے اور اس کے بعد بلاک (Bloch) نے 1902 میں آثار قدیمہ کے تعلق سے رپورٹیں تھیں جن مین ضخیم کننگھم کی تھی۔اس کے بعد1924 میں مولوی حمید قریشی نے بہار اور اڑیسہ کے تحفیظ شدہ آثار سے متعلق فہرست مرتب کی جس میں منیر کی درگاہوں کا تفصیل سے ذکر ہے۔ 1927 میں L.S.S.O.Malleyکے گزیٹئیرز(Gazetteer)کے نظرثانی شدہ ایڈیشن کی بھی اشاعت ہوئی۔ حافظ شمس الدین منیری نے بھی ایک طویل مضمون میں منیر کی تاریخ اور آثار قدیمہ کے بارے میں مفصل بیان کیا ہے۔ جو 1930 میں تحریر ہوا۔ 1963میں ڈی۔آر۔پاٹل کی کتاب بہ عنوان Autiquarian Remains in Bihar)جس میں منیر کی تاریخی معلومات فراہم ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ سید حسن عسکری اور قیام الدین احمد نے بھی منیر کی عہد وسطیٰ کی تاریخ کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ 1973 میں قیام الدین احمد کی ایک کتاب Corpus of Arabic & persian inscription of Biharکے عنوان سے شائع ہوئی جو بہت تفصیلی اور تحقیقی کتاب ہے۔
بڑی درگاہ:
یہ درگاہ منیر شریف کے دیگر مقدس مقامات میں خاص طور سے متبرک ہے۔ یہ تالاب سے متصل مرتفع ٹیلہ پر مشرق کی جانب واقع ہے اس کے روضہ کا احاطہ وسیع ہے اور دیواروں کی حدبندی کی ہوئی ہے اس میں دو بڑے دروازے ایک جانب مغرب اور دوسرا شمال کی طرف ہے مشرقی جانب ایک مسجدہے جو پہلے تین عالیشان گنبدوں کی بنی ہوئی تھی چند سال ہوئے موجودہ صاحب سجادہ کے اہتمام سے نئے طریقے سے تعمیر ہوئی ہے۔ جس کے بیچ کا دروازہ اپنی اصلی حالت پر ہے اس کے آگے ایک صحن ہے۔ اترکی طرف ایک سنگی دالان اور حجرہ ہے صحن سے متصل حضرت مخدوم کے وضو کرنے کا چبوترہ ہے۔ بیچ احاطہ میں ایک چبوترے پر حضرت ولی اعظم سلطان المخدوم حضرت شاہ یحییٰ منیری قدس سرّہٗ کا مزار اقدس ہے۔ آپ کے قریب آپ کی والدہ ماجدہ اور والد محترم اور عم محترم کے مزارات ہیں۔ ایک چھوٹے احاطے میں ملک کے ممتاز بزرگ حضرت مخدوم جہاں شاہ شرف الدین احمدکی اہلیہ محترمہ اور دو صاحبزادیاں مدفون ہیں۔ حضرت مخدوم کے زیرپائین آپ کے بڑے صاحبزادے حضرت مخدوم جلیل الدین احمد منیری فردوسی کا مرقد مبارک ہے۔ آپ کے دوسری جانب حضرت شاہ ہدایت اﷲ منیری رحمۃ اﷲ علیہ اور آپ کی شریک حیات کا اور آپ سے متصل حضرت مولانا شمس الدین مازندرانی مدفون ہیں۔وغیرہ
مغربی دروازے کے قریب تاج الدین کھانڈ گاہ کا مزار ہے جو سلطان محمود غزنوی کے خاندان کے ایک رکن تھے۔ حضرت مخدوم کے خاندان کے بیشتر افراد اسی احاطے میں دفن ہیں شمالی پھاٹک کے باہر ایک کھلی ہوئی مسجد ہے، جس کو شاہان دہلی کے کئی بادشاہ کے دو خواجہ سراؤں نے تعمیر کرایا تھا۔ اور حسب وصیت یہیں سپرد خاک بھی ہوئے مسجد سے متصل اس زمانے کے دو کمرے ہیں اس سے کچھ دور ایک سنگی مجسمہ ہے جسے وہاں کے عوامی لوگ شہدول یا سادول کے نام سے پکارتے ہیں۔یہ قدیم زمانے کی یادگار ہے۔ دراصل یہ مجسمہ ایک شیر کاہے جو ایک ہاتھی کے بچہ کو اپنے پیروں کے بیچ لیے ہوئے ہے بقول مولوی حمید قریشی کے یہ بڑی درگاہ راجہ منیر کا قلعہ تھی جس کا ثبوت یہ مجسمہ ہے جو درگاہ کے دروازہ پر ایستادہ ہے۔اور اسی کے آثار کا ایک نشان یا حصہ ہے اس کے علاوہ مقامی روایتوں کے مطابق بھی اسے امام تاج فقیہ کے ذریعہ قلعہ کی فتح کی ایک یادگارکے طور پر بیان کیا جاتا ہے وغیرہ۔ اس درگاہ کے احاطہ میں سیکڑوں پختہ مزارات اولیا اور شاہزادوں کے ہیں اور جابہ جا قناتی مسجدیں بھی ہیں۔ بڑی درگاہ کے احاطہ کو اس کے سائبان اور مسجد کو دوسری بار ابراہیم خان کانکر مغل امیر جو کہ صوبہ گجرات کا صوبہ دارتھا۔ 1014ھ میں تعمیر کرایا تھا۔
چھوٹی درگاہ:
یہ وہ جگہ ہے جہاں حضرت سلطان المخدوم شاہ یحییٰ منیری رحمۃ اﷲ علیہ کے خاندان کے ممتاز بزرگ حضرت قطب الاقطاب مخدوم امام یزید الملقب بہ شاہ دولت منیریؒ آرام فرما ہیں۔ یہ مقبرہ آپ کے مرید ابراہیم خاں کانکر صوبہ دار گجرات نے تعمیر کرایا ہے۔
تعمیر روضہ کا جب خیال ہوا تو حضرت سے آپ کی زندگی ہی میں اس کی اجازت طلب کی۔ حضرت نے فرمایا کہ میرے بزرگوں نے آسمان کا سایہ اختیار کیا ہے، مجھے اس کی ضرورت نہیں۔انھوں نے کہا مجھے تعمیر کی اجازت دی جائے تاکہ میں بھی مرنے کے بعد اس میں دفن کیا جاؤں۔ اس طور پر اس عالیشان عمارت کی بنیاد پڑگئی۔ ابراہیم خاں کانکر بہت غریب تھے۔ آنحضرت کی سفارش سے عبدالرحیم خان خاناں نے ان کو گجرات میں جگہ دی، ابراہیم خاں کانکر اپنی دلاوری اور حسن خدمت سے معزز ہوکر شاہی ملازمت تک بلند ہوئے اور توزک جہانگیری کی تحریر کے مطابق عہد جہانگیری میں دلاور خاں کے خطاب سے سرفرازکیے گئے اور تمام عمر کاٹھیاوار اور گجرات میں خدمت جلیلہ انجام دیتے رہے۔ گجرات ہی میں انہوں نے روضہ اور تالاب کا خاکہ تیار کیا، اور تنگر قلی خاں بدخشانی ماہر تعمیرات کو اس نقشہ اور لوازمہ ٹھیک کرنے پر مامور کیا، یہ عالیشان مقبرہ سرتاپا سنگ چنار کا بنا ہوا ہے۔ صوبہ کی اور عمارتوں میں یہ عالیشان اور بہت خوبصورت عمارت ہے۔ 58 فٹ مربع اور دو فٹ اونچے چبوترہ پر واقع ہے۔ باہر کی چہار دیواری،252 فٹ چوڑی اور دس فٹ اونچی ہے۔ چاروں کو نے پر بارہ پہل کی برجیاں ہیں، جنوب مشرق کی جانب جو برجی ہے اس کے دوتلے پر نہایت نفیس پتھر کی جالیاں ہیں، جس حصہ پر مقبرہ ہے وہ باہر سے 34 فٹ 8 انچ مربع ہے اور اس کے چاروں طرف 11 فٹ 8 انچ چوڑا برآمدہ ہے۔ برآمدہ کی چھت اعلیٰ قسم کی سنگ تراشی اور نقاشی کا نمونہ ہے۔ چھت میں جابہ جا آیات قرآنی بھی کندہ ہیں۔اس سنگ تراشی کا مقابلہ فتح پور سیکری کی بہترین سنگ تراشی اور نقاشی سے کیا جاسکتا ہے۔ اندر سے مقبرہ 13فٹ مربع ہے اور ہر طرف چار بڑے ستون ہیں۔ ستونوں کے درمیان نہایت پتلی دیوارہے۔ محراب کی جالیوں پر عربی خط میں اﷲ کافی لکھا ہوا ہے۔اور ستونوں کے برایکٹ پر پتھرکی سلیاں رکھ کر اس کو ہشت پہل پھر دائرہ بنایا گیا ہے۔
مقبرہ کے اندر کی قبروں میں بیچ کی قبرحضرت مخدوم شاہ دولت منیریؒ کی ہے۔ پائین کی دو قبروں میں پورب کی قبر آپ کی اہلیہ محترمہ کی اور پچھم بانیِ مقبرہ ابراہیم خان کانکر کی ہے۔
ابراہیم خاں کا انتقال 1028ھ میں ہوا۔ اور حسب و صیت اندرون مقبرہ اپنے محترم پیر کے پہلو میں دفن ہوئے۔
شمال اور مغرب کی طرف پتھر کے ستونوں پر کھلی ہوئی گیلریاں ہیں۔ پچھم والی گیلری کے وسط میں ایک خوشنما لداؤ چھت کی شاندار مسجد ہے۔ اس میں ایک کتبہ ہے جس کی اول دو سطروں میں آیات قرآنی اور آخر سطر میں سنہ تعمیر 1028ھ۔1618 کندہ ہے۔ قطعۂ تاریخ ؂
چوں این عالی بنائے کعبہ تمثیل جہاں آرا
بفیض صانع قادر تمامی اقتضا کردہ
دل عاصی ہمہ جست از خرد سال بنائے او
خرد گفتا جو ابراہیم بیت اﷲ بنا کردہ
1028ھ
قطعۂ تاریخ کا ترجمہ:جب اس عالی شان عمارت کی بنیاد دنیا کو سجانے والے کعبہ کی طرح خدا کے فیض سے رکھنے کی خواہش ظاہر ہوئی ہے تو اس نافرمان اور گنہگار دل نے عقل سے اس کو بنانے کی تاریخ تلاش کی توعقل نے کہا جیسے ابراہیم نے بیت اللہ (کعبہ )کی بنیاد رکھی ہے۔اس جملے کے اعداد میں تاریخ تعمیر پو شیدہ ہے۔ 
مسجد کے سامنے ایک چپوترہ پر حضرت مخدوم شاہ مبارک حسین عرف شاہ دھومن منیریؒ ، آپ کے والد ماجد آپ کے جدامجد اور بھی خاندان کے بزرگوں کے مزارات ہیں۔ مقبرہ سے دکھن جانب ایک صفہ عالی پر آپ کے دو صاحبزادے حضرت مخدوم شاہ فرید الدین احمد محمد ماہرو فردوسی منیری و حضرت مخدوم شاہ محمد علیؒ اور آپ کے سجادگان حضرت شاہ قطب الدین احمد فردوسی منیری و حضرت شاہ امجد حسین چشتی النظامی الفردوسی المنیری، حضرت سید شاہ ابوالظفرفرید الدین احمد فردوسی منیری حضرت سید شاہ ابولفرح فضل حسین قادری منیری اور حضرت سید شاہ دولت علی محمد امان اﷲ فردوسی منیری اور بھی خاندان کے بہت سے حضرات آسودہ خاک ہیں۔
مقبرہ کے پورب جانب حضرت شاہ اعظم علی عرف فردوسی بھیکن منیری المتوفی 1270ھ ابن حضرت سید شاہ ابوالفرح شاہ لطف علی فردوسی منیری حضرت شاہ نظام الدین منیری 1297ھ، حضرت سید شاہ خلیل الدین احمد جوش منیری، حضرت شاہ اولاد علی زاہدی الفردوسی المنیری المتوفی 1307ھ اور حضرت سید شاہ احتشام الدین حیدر المتخلص یہ مشرقی منیری اور بہت سے لوگوں کے مزارات ہیں۔
مسجد کے دکھن جانب سائبان میں ایک زمین دوز کمرہ ہے جس میں جانے کے لیے زینے بنائے گئے ہیں۔ درگاہ سے تالاب کے طرف جانے کے لیے ایک سنگی دروازہ ہے۔ جنوب مغرب گوشہ پر ایک خوبصورت کمرہ اور جنوب مشرق گوشہ پر ایک ناغول (چھت دا ر زینہ) ہے۔ جس کی دیوار اعلیٰ قسم کے پتھرکی جالدار بنائی گئی ہے۔ تالاب کی طرف دو ناغول ہیں جوبہت خوب ہیں۔ مقبرہ سے شمال کی جانب عظیم الشان صدر پھاٹک ہے جو 5 فٹ 9 انچ چوڑا ہے، طرز تعمیر مغلیہ ہے۔ پھاٹک کے دونوں طرف ہشت پہلو خوبصورت برجیاں ہیں، جن پر جانے کے لیے زینے بنے ہوئے ہیں۔ دروازہ کے باہر 30فٹ لمبا اور 12فٹ چوڑا خوبصورت سنگی چپوترہ ہے۔ صدر پھاٹک پر تین کتبے ہیں جن میں دو عربی میں اور ایک فارسی میں ہے۔
چو درین روضۂ مقدس شاہ
روئے زینت نہادہ براتمام
سال تاریخ من از او جستم
خردم بہر این خجستہ مقام
بدعا لب کشودہ گفتا
در دولت کشادہ باد دوام
1028ھ
قطعۂ تاریخ اشعار کا ترجمہ:جب بادشاہ کے اس مقد س روضہ(باغ)نے اس سر زمین کو زینت بخشی ہے یعنی جب اس عمارت کی تعمیر مکمل ہوئی تو میں نے عقل سے اس کی تاریخِ تعمیر دریافت کی تو عقل نے اس مبارک مقام کے واسطہ اپنے لب کھولے اور کہا اس دولت و حکومت کے دروازے ہمیشہ کھلے رہیں۔اسی مصرعہ میں تاریخ تعمیر پوشیدہ ہے یعنی 1028ھ۔1618ء۔
تالاب کے چاروں طرف دو دو گومتیاں بنائی گئی تھیں۔ پچھم اور پورب کی گومتیاں ابھی قائم ہیں۔ اُتّر کی گومتیاں بہت شکستہ ہوچکی ہیں۔ دکھن کی منہدم ہوگئی ہیں۔ تالاب میں جانے کے لیے چاروں طرف سے زینے بنائے ہیں اور اس کے دکھن بلندی پر گورنمنٹ کا پُرفضا ڈاک بنگلہ ہے۔
غرض منیر شریف کی یہ دونوں درگاہیں بے حد مقدس اور عہد مغلیہ کی شاندار یادگار ہیں۔
مآخذ:
1۔ تاریخ بہار : چند مقالات، ندیم گیا، خدابخش اورینٹل لائبریری پٹنہ، اشاعت1994
2۔ ارض بہار اور مسلمان : عبدالرقیب حقانی، خدابخش اورینٹل پبلک لائبریری پٹنہ2012
3۔ آثار منیر :تصنیف سید شاہ مراد اﷲ منیری، خدابخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ شاعر اول 1948 اشاعت دوم 2010 

Mehtab Jahan
Dept of Persian
Delhi University
Delhi - 110007






قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں