30/11/18

اردو کی اولین نسائی آواز: رشیدۃ النساء بیگم. مضمون نگار:۔ رخسار پروین





اردو کی اولین نسائی آواز: رشیدۃ النساء بیگم

رخسار پروین


1857 کی جنگ آزادی جسے غدر کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے برصغیر ہند و پاک کا ایک عظیم واقعہ ہے جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی اور اس جنگ آزادی میں مغلوں کی آٹھ سو سالہ حکومت کا خاتمہ ہو گیا جس کے سبب عوام و خواص کی زندگی بے حد متاثر ہوئی اور ہندوستانیوں کے زوال کا آغاز ہوا۔ انیسویں صدی کے ہندوستانی سماج کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستانی سماج اپنی بے حسی اور بے عملی کے سبب تنزلی کا شکار اور مغربی سماج اپنی بیداری کے سبب ترقی کی راہ پر گامزن ہوا۔ غرض یہ کہ انیسویں صدی کا زمانہ ہندوسان کی مفلوک الحالی کا زمانہ تھا۔ اس دور کے ہر طبقے کی حالت ابتر تھی، اس سماج کا ہر طبقہ مرد ہو یا عورت، بداخلاقی، جہالت، بدعنوانی اور ریاکاری کا مرقع تھا۔ بے حیائی، غلط رسم و رواج غرض یہ کہ تمام طرح کی برائیاں اس عہد میں رائج تھیں۔ جہالت کا دور دورہ تھا اور تعلیم محض امیروں اور رئیسوں کی جاگیر تھی۔ غریب اور نچلے طبقے خصوصاً عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے کا حق نہیں تھا۔ اگر اس دور کی عورت کا تصور کیا جائے تو گھر کی چار دیواری میں مقید علم و عقل سے بے بہرہ اور زندگی کے مسائل سے بے خبر اور محض دوئم درجے کی مخلوق نظر آتی ہے۔ سماج میں ہندو مسلم خواتین ذلت و رسوائی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھیں۔ ان کو مرد اساس سماج میں اپنے کوئی حقوق حاصل نہ تھے۔ مردوں کو دیوتا بنا کر پوجنا، ان کی خواہشات پوری کرنا اور ان کے مرنے کے بعد ستی ہو جانا (یعنی چتاؤں کے ساتھ جل جانا) ہی ان کی قسمت تھی۔ا یک طرف جہیز کی لعنت نے جہاں اس کی زندگی کا دائرہ تنگ کیا وہیں ستی کی رسم نے عورت سے جینے کا حق بھی چھین لیا۔ بیوہ عورت کی زندگی تمام رنگوں اور خوشیوں سے خالی تھی اور بے چارگی کی زندگی اس کا نصیب بن جاتی تھی۔ نہ وہ دوسری شادی کر سکتی تھی اور نہ کسی کی شادی اور خوشیوں میں شامل ہو سکتی تھی۔ غریب خاندان کی عورتیں محنت، مزدوری کر کے گھر کے اخراجات پورے کرتیں اور مرد محض مے نوشی اور جواخوری میں بدمست رہتا اور اس کے باوجود بھی وہ عورتوں پر ظلم و ستم کرنے کے لیے آزاد تھا گویا کہ یہ اس کا عینی حق تھا۔ ڈاکٹر تاراچند ’’تاریخ تحریک آزادی ہند‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ولیم برفورس لندن کی پارلیمنٹ میں جون 1813 کی رپورٹ میں ہندوستان کے متعلق کہتا ہے:
’’ہمارا مذہب ارفع و اعلیٰ پاکیزہ اور اچھا ہے ان (ہندوستانیوں) کا مذہب رکیک، عیاشانہ اور ظالمانہ ہے.... اس دوران (1793 سے 1813) جو کچھ سنا اور پڑھا ہے اس نے ہندوستان کے متعلق برے خیالات میں اضافہ کر دیا ہے۔‘‘
(تاریخ تحریک آزادی ہند، از ڈاکٹر تاراچند، جلد دوم، صفحہ206) 
اس طرح مختلف تاریخ نگاروں نے اس دور کی عورتوں کے حالات اور ان کے مسائل کی تصویر کشی کی ہے۔ ڈاکٹر تارا چند خود لکھتے ہیں:
’’ان (ہندوستانی مردوں) کے نزدیک عورت کھیلنے کے لیے ایک گڑیا تھی اور انسان کی شہوت کو آسودہ کرنے کا ایک ذریعہ، وہ اپنی خود انفرادی شخصیت رکھنے والی ہستی نہ تھی۔ اس لیے صحیح محبت کی چیز نہیں بن سکتی تھی۔‘‘(جلد اول، صفحہ274)
عورت کے ہر عمل اور سوچ پر مرد کی اجارہ داری ہوتی تھی اور یہی نہیں بلکہ تعلیم شعور و آگہی حاصل کرنے کو عورتوں کی آوارگی اور بدکرداری سے جوڑا جاتا تھا۔ اس دبی کچلی بے چاری عورت کی زندگی کا واحد مقصد محض بچے پیدا کرنا اور بچوں کی تربیت کرنا تھا۔ اس وقت بال وواہ (cky fookg) کی رسم عام تھی- ہوش سنبھالنے سے پہلے بے چاری بچے سنبھالتی نظر آتی تھی۔ عورت کے منفی روپ اور اس کے متعلق یک طرفہ تصورات انیسویں صدی تک محدود رہے اور کیا پتہ کب تک محدود رہتے لیکن 1857 کے انقلاب کے بعد انگریزوں نے برصغیر ہند و پاک پر باقاعدہ قبضہ کر لیا اور یہ ایسا انقلاب اور اتنا بڑا سانحہ تھا کہ اس سے پہلے رونما نہ ہوا تھا۔ چنانچہ آہستہ آہستہ زمانے میں نئے تغیرات، نئی تہذیب، نئے حالات، نئی شورش، نئے احکامات اور نئی مشکلات رونما ہوئیں۔ یہ بہت بڑی تبدیلی تھی اور ایک بڑے انقلاب کا پیش خیمہ بھی۔ اس جنگ آزادی کے بعد ہندوستان میں جدید مغربی تہذیب و تمدن کا آغاز ہوا اور زندگی نے اس نئے ماحول میں نئی کروٹ بدلنی شروع کی۔
چنانچہ حالات کے تقاضے کے تحت اور بدلتے ماحول کا سامنا کرنے کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت تھی اور چونکہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے لہٰذا اس ضرورت نے ایسی پرآشوب گھڑی میں بہت سی عظیم شخصیات و رہنماؤں کو جنم دیا جنھوں نے اس بدلتے ہوئے ماحول کو محسوس کیا اور نئے حالات سے نپٹنے کے لیے مختلف تجاویز کیں اور قوم کو نئی راہوں پر گامزن کیا۔ ان رہنماؤں میں سرسید احمد خاں، راجہ رام موہن رائے، دیانند سرسوتی، ایشور چندودیا ساگر، گاندھی جی اور ولزلی کے نام قابل ذکر ہیں جنھوں نے اپنی مساعی سے اصلاحی تحریکوں کو جنم دیا اور ملک و قوم میں شعور و بیداری پیدا کی۔راجہ رام موہن رائے نے ’’ستی‘‘ کی رسم کے خلاف آواز اٹھائی تو دیانند سرسوتی نے ہندو مذہب کے احیاء کے لیے اپنے خیالات و نظریات کا اظہار کیا۔ سرسید نے تعلیم نسواں کا نعرہ بلند کیا اور ہندوستان کی شناخت قائم رکھنے کے لیے عورتوں کی تعلیم اور شعور و بیداری پر زور دیا۔ اسی طرح ایشور چندو دیا ساگر نے بیوہ عورتوں کی دوبارہ شادی کرانے کی پرزور حمایت کی اور مہاتما گاندھی اور وویکانند نے عورتوں کی آزادی کی بات کی اور ’’بال وواہ‘‘ یعنی کم عمر میں لڑکیوں کی شادی کی مخالفت بھی کی ۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان رہنماؤں نے اپنی اصلاح کے ذریعہ ہندوستان میں پھیلی ہوئی ایسی تمام برائیوں کو ختم کرنے کی کوشش کیں اور ان میں شعور و بیداری کا احساس پیدا کیا۔
اس طرح مختلف تحریکوں نے ہندوستان میں تعلیمی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی تبدیلیاں پیدا کیں اور آہستہ آہستہ انگریزی تہذیب و تمدن نے معاشرے کو تیزی سے تبدیل کرنا شروع کر دیا۔ عورتوں کے حقوق آزادی اور تعلیم نسواں وقت کی اہم ضرورت بن کر ادب کا موضوع بنے۔ 
سرسید تحریک کے ایک اہم رکن مولوی نذیر احمد نے سب سے پہلے عورتوں کے حوالے سے ایسے ادب کا آغاز کیا جس میں عورتوں کی تعلیم و تربیت کے متعلق بات کی جائے۔ چنانچہ اسی مقصد کے حصول کے لیے انھوں نے 1869 میں اپنا پہلا ناول ’’مراۃ العروس‘‘ لکھا جس میں اصغری اور اکبری کے حقیقی کرداروں کے ذریعہ عورتوں کی اصلاح کا کام لیا گیا۔ حالی نے ’’مجالس النساء‘‘ دو جلدوں میں لکھی اس کے علاوہ بھی بہت سے ناول لکھے گئے جن میں عورتوں کی تعلیم، مشہور و معروف علوم کے متعلق بنیادی باتیں، خواتین کے مسائل و توہمات اور رسم و رواج کی اصلاح پر خصوصی توجہ دی گئی۔
بلاشبہ یہ اردو کے اولین قصے تسلیم کیے جاتے ہیں جس میں عورتوں کے مسائل پیش کیے گئے اور اصغری و اکبری اور مریم زمانی جیسے نسائی کرداروں پر ان کی عمارت تعمیر کی گئی۔ خصوصاً نذیر احمد کے ناولوں نے عورتوں کی تعلیم وتربیت اور اصلاح میں نہایت اہم رول ادا کیا جس نے آگے چل کر عورتوں میں بھی ایک نئی بیداری اور شعور پیدا کیا جس کی بنیاد پر ان میں اظہار کی مختلف پنہاں صورتیں نمایاں ہوئیں۔ اور اب عورتوں نے خود بھی اپنے مسائل باقاعدہ طور سے پیش کرنے شروع کر دیے۔ چنانچہ نذیر احمد نے عورتوں کی وکالت کا جو کام شروع کیا اسے اب خود عورتوں نے شروع کر دیا جس کے ذریعہ نئے نئے مسائل و موضوعات نمایاں ہوئے اور مختلف قصے اردو ادب کی زینت بنے۔
اردو ادب میں بہ حیثیت خاتون ناول نگار رشیدۃ النساء بیگم نے اپنا ناول ’’اصلاح النساء‘‘ پیش کیا۔ یہ پٹنہ صوبہ بہار سے تعلق رکھتی تھیں۔ رشیدۃ النساء اردو کی پہلی باقاعدہ ناول نگار تسلیم کی جاتی ہیں۔ انھوں نے اردو ادب کا پہلا معاشرتی، اصلاحی اور مقصدی ناول لکھا جو کہ 1894 میں منظر عام پر آیا ۔مصنفہ نے اس ناول کے دیباچے میں ذکر کیا ہے کہ اس کا مسودہ تیرہ برس یوں ہی پڑا رہا۔ اس لحاظ سے اس کا سن تصنیف1881 شمار کر سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ زمانہ ایسا تھا جہاں عورتوں کا پڑھنا لکھنا معیوب سمجھا جاتا تھا اس لیے ان کے لیے اپنی کہانیوں کو چھپوانا ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔ خاص طور سے مسلم معاشرے کی شہزادیوں کے لیے نام ہی کیا آواز تک کا پردہ ہوا کرتا تھا۔ ایسے ماحول میں انھوں نے پہلے پہل لکھنا شروع کیا اور ’’اصلاح النساء‘‘ میں اپنا تعارف اصل نام کے بجائے اس طرح کرایا ہے: ’’والدہ محمد سلیمان بنت سید وحیدالدین خاں و ہمشیرہ امداد امام اثر‘‘ بعض محققین نے ان کا دوسرا نام خدیجۃ الکبری بھی بیان کیا ہے۔ رشیدۃ النساء اردو کے مشہور و معروف محقق امداد امام اثر کی بہن تھیں۔
’’اصلاح النساء‘‘ مسلم گھرانوں میں پھیلی برائیوں اور مسلمان خواتین کی اصلاح کے لیے ہی تحریر کیا گیا۔ یہ ایک مقصدی ناول ہے جس کا خاص مقصد مسلم معاشرے میں پھیلی ہوئی غلط اور لغو رسم ورواج توہمات اور روایات و حکایات کی اصلاح و انسداد تھا۔ بلاشبہ یہ ناول مولوی نذیر احمد کے ناول ’’مراۃ العروس‘‘ سے متاثر ہو کر اور اس کی پیروی میں لکھا گیا لیکن اس ناول کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں عورت کی جدوجہد کو گھر کی چار دیواری تک محدود نہیں رکھا گیا بلکہ عورتوں کی بیداری اور حقوق کی بھی بات کی گئی ہے۔ نذیر احمد کے اعتراف میں ایک جگہ رشیدۃ النساء لکھتی ہیں:
’’اللہ مولوی نذیر احمد کو عاقبت میں بھی بڑا انعام دے۔ ان کی کتاب پڑھنے سے عورتوں کو بڑا فائدہ پہنچا۔ جہاں تک ان کو معلوم تھا انہوں نے لکھا اور اب جو ہم جانتے ہیں اس کو انشاء اللہ تعالیٰ لکھیں گے۔ جب اس کتاب کو لڑکیاں پڑھیں گی تو مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ سب اصغری ہو جائیں گی۔ شاید سو میں سے ایک اپنی بدقسمتی سے اکبری رہ جائے تو رہ جائے۔‘‘
بے علمی کے سبب مسلم معاشرے میں غلط رسم و رواج، شرک و بدعت اور بری رسومات وروایات پیدا ہو چکی تھیں ان سے خواتین کا طبقہ زیادہ شکار ہو رہا تھا۔ خصوصاً مسلمان گھرانوں کی عورتیں گمراہی کی حد تک جا پہنچی تھیں۔ اس وقت سماج میں جو بدلاؤ ہو رہے تھے خصوصاً نئی تعلیم، ٹکنالوجی اور نئی روشنی کی بدولت سماج میں جو تبدیلی ہو رہی تھی اس سے مرد طبقہ تو براہ راست مستفیض ہو رہا تھا لیکن عورتیں جو گھر کی چاردیواری میں مقید تھیں اس نئی روشنی سے بے خبر تھیں ان کو یہ موقع نہ ملا تھا۔ لہٰذا رشیدۃ النساء بیگم نے عورتوں کے تمام مسائل اور خامیوں پر مبنی ناول ’’اصلاح النساء‘‘ لکھ کر ان عورتوں کی اصلاح کی کامیاب کوشش کی۔ غالباً رشیدۃ النساء نے نذیر احمد کی طرز پر ہی اپنے ناول میں مقصدیت کو پیش نظر رکھا اور کرداروں کو بھی اپنے مقصد کے مطابق دو حصوں میں تقسیم کر دیا یعنی خیر و شر کے زمرے میں، ایک حصہ بے انتہا خوبیوں کا مالک بن گیا اور دوسرا سراسر خامیوں سے لبریز۔ ایک طبقہ ترقی پسند اور دوسرا رجعت پسند بن کر سامنے آیا۔ مثلاً امتیاز الدین کی والدہ اور گھر والے فرسودہ رسوم و روایات کو حقارت کی نگاہوں سے دیکھتے جبکہ دوسری طرف بسم اللہ کا خاندان ہر طرح کی بدعات و شرک میں مبتلا ہوتا ہے۔ چونکہ مصنفہ کو رجعت پسندی کو غلط اور برا ثابت کرنا ہے اسی لیے انھوں نے یہ نقشہ کھینچا ہے کہ بسم اللہ اور اس کی والدہ زمانے بھر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد اور اپنے ہاتھوں پیدا کیے ہوئے برے اور ناخوش گوار حالات سے گھبرا کر بالآخر شر سے خیر کی جانب مراجعت کرتی ہیں۔ رشیدۃ النساء بیگم کا کہانی لکھنے کا یہ انداز نذیر احمد کے جیسا ہی ہے۔ یہاں اس قصے کے کرداروں کے نام بھی نذیر احمد کے انداز بیان سے کافی مماثلت رکھتے ہیں، مثال کے طور پر محمد واعظ، اشراف النساء وغیرہ۔ ان بنیادی خامیوں کے باوجود بھی رشیدۃ النساء کا یہ ناول فنی طور پر نذیر احمد کے ناولوں سے کہیں زیادہ بہتر درست اور بھروسے کے لائق ہے کیونکہ مولوی نذیر احمد کے ناولوں میں محض سادہ و سپاٹ قصے اور وعظ و نصیحت کے علاوہ کسی طرح کی کوئی تہذیبی و معاشرتی منظر کشی نہیں ملتی جبکہ رشیدۃ النساء کے یہاں اس زمانے کی مکمل منظر کشی خصوصاً نسوانی زندگی کے ہر پہلو کی ماہرانہ و فنی طور پر زور بیان اور قوت مشاہدہ کے ساتھ منظر کشی کی گئی ہے جس کی داد دیے بغیر قاری آگے نہیں بڑھ سکتا۔ علی الخصوص یہ ان کی فنی مہارت اور قوت مشاہدہ کا بہترین نمونہ ہے اور اسی سے متاثر ہو کر اردو کے مشہور و معروف نقاد پروفیسر وقار عظیم نے نذیراحمد کے ناول ’’مراۃ العروس‘‘ پر رشیدۃ النساء کے قصے ’’اصلاح النساء‘‘ کو فوقیت دی ہے۔
’’اصلاح النساء‘‘ اس دورکا ایسا ذخیرہ و گنجینہ ہے جس میں زمانے کی خصوصاً عورتوں کی تمام اوہام اور رسوم و روایات کا ذکر مکمل طور پر پیش کیا گیا ہے۔ رشیدۃ النساء کی گھریلو زندگی پر بہت گہری نظر تھی اور اسی لیے انھوں نے اس ناول میں اپنے مشاہدات و تجربات سے پورا پورا فائدہ اٹھایا ہے اور بہترین منظر کشی کی ہے اور کردار نگاری و جزئیات نگاری کی ایسی شاندار مثال پیش کی ہے کہ نذیر احمد کا ناول بھی اس کے سامنے پھیکا نظر آتا ہے۔ انھوں نے کرداروں کو ایک اچھا نمونہ بنا کر پیش کیا ہے۔ نذیر احمد کے کردار آئیڈیل، غیر حقیقی اور جامد ہوتے ہیں جبکہ رشیدۃ النساء کے کردار حقیقت پر مبنی اور سماج کے جیتے جاگتے افرادہیں۔ امتیاز الدین کا کردار ہیرو کا ہے اور عورتوں کے کردار میں بسم اللہ اور وزیرن پوری کہانی میں چھائی ہوئی ہیں۔ دوسری جانب لاڈلی اور سردار دلہن کے کردار کے ذریعہ انھوں نے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کی ہے اور انھیں کرداروں نے اس ناول کو کامیابی سے سرفراز کیا ۔ ان کے کرداروں میں زندگی کی حرکت اور چہل پہل ملتی ہے۔ اسی طرح نچلے طبقے کے مختلف کردار ہیں جو اس ناول کی رونق ہیں جن کے ذریعہ کہانی اپنے انجام تک پہنچتی ہے مثلاً دھوبن، مامائیں، چوڑی والی، پنڈت اور ملا، کمہارن، تیلن باجے والی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ناول کا سب سے اہم اور پُرجوش کردار وزیرن کا ہے جس کے ذریعہ مصنفہ نے اس عہد میں پھیلی ہوئی غلط رسومات، توہمات اور واہیات رسموں کی بھرپور عکاسی کی ہے۔ یہ کردار خرافات، بیہودہ باتوں، واہیات رسموں، ٹونہ ٹوٹکے اور تعویذ گنڈوں کے امید و بھروسے زندہ نظر آتا ہے۔ ناول میں وزیرن کا کام غیر تعلیم یافتہ اور توہم پرست عورتوں کو بہکا کر جھوٹے فقیروں و پیروں کے پاس لے جا کر ان سے پیسے حاصل کرنا ہے۔ لہٰذا اس کردار کے ذریعہ مصنفہ نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ کہ کس طرح غریب جاہل عورتوں کو بہلا پھسلا کر انھیں غلط رسومات میں مبتلا کر دیا جاتا تھا جس کی انھوں نے مذمت بھی کی ہے اور اصلاح بھی۔ وہ ترقی پسند خیال کی حامل تھیں اور سماج میں پھیلی برائیوں کو دور کرنا چاہتی تھیں۔ عورتوں کو تعلیم یافتہ بنانا چاہتی تھیں تاکہ وہ جہالت اور فرسودہ رسومات سے خود کو بچا سکیں کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ ہمارے معاشرے کی عورتوں میں موجود ان تمام خرابیوں اور برائیوں کا اصل سبب ان میں تعلیم کی کمی ہے جس کی وجہ سے معاشرہ غلط عقائد و نظریات اور غلط رسومات و توہم پرستی میں مبتلا ہوتا جا رہا ہے۔ لہٰذا انہیں برائیوں کو دور کرنے کے لیے وہ عورتوں کو تعلیم یافتہ کرنا چاہتی تھیں اور اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئیں اور رشیدۃ النساء کے انہیں تعلیمات نے عورتوں اور لڑکیوں میں جہالت سے دور رہنے اور تعلیم کے حصول کی ایک جرأت و دلیری کے ساتھ ساتھ حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔
’’اصلاح النساء‘‘ میں رشیدۃ النساء نے جہیز پر بھی لعن طعن کی ہے اور اس کی پرزور مخالفت کی ہے جو اس زمانے کے لحاظ سے ایک عورت کے لیے بہت ہی دلیرانہ اور جرأت مندانہ قدم تھا، لیکن انھوں نے کسی کی پرواہ کیے بغیر اپنا قلم اٹھایا اور تیکھا طنز کیا۔اس کے علاوہ دیگر فرسودہ رسومات و روایات اور شرکت و بدعت پر بھی گہرا طنز کیا ہے۔ علاوہ ازیں زمانے میں پھیلی دیگر برائیوں اور بہت سی حرکتوں کو غیر اسلامی قرار دے کر پند و نصیحت کے ذریعہ اصلاح کی مکمل کوشش کی ہے مثال کے طور پر ایک گیت کے کچھ بول پیش کیے جا رہے ہیں جو شادی بیاہ کے موقع پر گائے جاتے تھے جس میں شرک کے کلمات جابجا ملتے ہیں اور اس پر کتنی خوبی سے انھوں نے طنز و اصلاح کی ہے:
اللہ میاں کا چہرا رنگ بھرا
میں تو دیکھت ہوں گی نہال
اے بے نیاج مجھ پر رحم کرو
کچھ رحم کرو کرم کرو
میرے پروردگار مجھ پر رحم کرو
کوٹھے بیٹھے اللہ میاں
چھجّے بیٹھے اللہ میاں
پھر سہرا باندھے اللہ میاں
کنگنا باندھے اللہ میاں
اس دور میں یہ گیت شادی کے موقع پر گایا جاتا تھا اور اس کے خلاف کسی کو بولنے کی جرأت نہ ہوتی تھی لیکن مصنفہ کا یہ کمال ہے کہ انھوں نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ دھیمے لہجے میں ایک کردار کے ذریعہ اس کی یوں مذمت کی ہے اور لوگوں کی اصلاح کی ہے۔ ناول کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ یہ طبقۂ نسواں کی اصلاح سے تعلق رکھتا ہے۔ اس میں عورت کے مختلف رنگ و روپ، منفی و مثبت افکار و نظریات کے پیش نظر مصنفہ نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ بغیر تعلیم یافتہ عورت گھر اور سماج کوجہنم بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی اس لیے عورت کا تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ جہالت و گمراہی کے سبب جب عورت برائیوں میں گھر جاتی ہے تو اس کے زیر سایہ پرورش پانے والی نسل بھی اسی سے متاثر ہو کر ایک برے معاشرے کی تشکیل کرتی ہے۔ چنانچہ انھیں عیوب و نظریات کے پیش نظر انھوں نے اپنا یہ اصلاحی اور مقصدی ناول اصلاح النساء لکھا جس کے ذریعہ معاشرے کی عورتوں کی اصلاح ہو اور وہ صحیح راہ پر گامزن ہو سکیں۔
مختصراً یہ ناول ’’اصلاح النساء‘‘ اپنے عہد کی معاشرتی حقیقت پر مبنی ہے۔ ہر چند کہ اس کی بنیاد نذیر احمد کے ناولوں پر رکھی گئی اور اس کی اتباع میں لکھا گیا لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ناول نذیر احمد کے ناولوں سے زیادہ معتبر و مؤثر ہے۔ ’’اصلاح النساء‘‘ گویا طبقۂ خواتین کے پندو نصیحت اور اصلاح و شعور کا ایک مؤثر سبب بنا۔ یہ ناول اس عہد کی بہترین تخلیق ہے جس میں مصنفہ نے علم ، شعور و آگہی کی اہمیت او رعظمت کو عیاں اور آشکار کرنے کی جدوجہد کی ہے۔ اس طرح رشیدۃ النساء بیگم نے اپنے اس ناول کو مشعل بنا کر عورتوں میں علم کی روشنی پھیلانے کی سعی کی اور علم کے فائدے و نقصانات پر بھی روشنی ڈالی ہے چنانچہ پہلی مصلح خاتون ہونے کا سہرا انہیں کے سر ہے۔

Rukhsar Parveen
Research Scholar
Department of Urdu

University of Allahabad -211002 (U.P)




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں