4/12/18

مرزا عبدالقیوم سے خصوصی ملاقات۔ عبد الحی






مرزا عبدالقیوم سے خصوصی ملاقات

عبد الحی

عبدالحی: پیدائش و خاندانی پس منظر پر روشنی ڈالیں:
مرزا عبدالقیوم ندوی: میرا پورا نام مرزا عبدالقیوم ندوی، والد کانام: مرزا گلزار بیگ،ہم تین بھائی اور چار بہنیں ہیں۔ میری پیدائش 15 اگست 1975 کو ملک کے تاریخی شہر اورنگ آباد (جسے مفکر اسلام مولاناسید ا بوالحسن علی ندوی نے’غرناطۂ ہند‘کہا ہے ) کے ایک محلہ نارے گاؤں میں ایک غریب کسان و مزدور کے گھرمیں ہوئی۔ والد صاحب ہمارے آبائی وطن کونبھے پھل (جو اورنگ آباد شہر سے 20کلو میٹر کی دوری پر ایک دیہات ہے )،1975میں قحط سالی کی وجہ سے شہرمیں روزگار کی تلاش میں آئے تھے۔میرے والدصاحب کو ایک فیکٹری میں ملازمت مل گئی۔
ع ح: ابتدائی تعلیم و تربیت پر گفتگو کریں۔
مرزا عبدالقیوم ندوی: میری ابتدائی تعلیم چوتھی جماعت تک ضلع پریشد مراٹھی اسکول نارے گاؤں میں ہوئی۔ جہاں اردوزبان میں ذریعہ تعلیم کا کوئی نظم نہیں تھا،ہاں مدینہ مسجد نارے گاؤں میں مکتب ضرور چلتا تھا جہاں میں پابندی سے جایاکرتا تھا۔ والد صاحب مرحوم، تبلیغی جماعت میں چالیس دن کے لیے گئے اور وہاں سے آنے کے بعد انھوں نے فیصلہ کیاکہ مجھے دینی تعلیم دلائی جائے،چنانچہ مجھے اسکول سے نکال کرمدرسہ عربیہ انوارالعلوم نگینہ مسجد،نواب پورہ اورنگ آبادمیں پہلی جماعت میں شریک کیاگیا۔ چوتھی جماعت سے پہلی جماعت میں بیٹھنا بڑا عجیب لگ رہا تھا،کیاکیاجائے مجبوری تھی، اردو نہیں آتی تھی۔ہاں ابتدائی تعلیم مراٹھی میں ہونے سے ایک فائدہ یہ ضرورہوا کہ ریاستی زبان مراٹھی ہونے کے سبب سے سرکاری دفاتر میں کام کرنے میں بہت آسانی ہوئی،گاؤں کی ہندومسلم مشترک آبادی، مذہبی تقریبات میں شرکت سے ہندوستانی تہذیب و تمدن،یہاں کے تہواروں اوررسم ورواج کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ 
ابتدائی دینی تعلیم مدرسہ عربیہ انوارالعلوم نگینہ مسجد میں ہوئی اور اعلی تعلیم کے لیے ملک کی عظیم دینی درسگاہ، اسلامی یونیورسٹی دارالعلوم ندوۃ العلماء میں 1993 میں گیا۔ وہاں سے 1998میں عا لمیت و فضیلت تک کی تعلیم مکمل کی۔ فراغت کے بعد کچھ مہینے پونا میں مشہور ماہر تعلیم،انیس چشتی کی تربیت میں رہا، جہاں ’’تحریک پیام انسانیت‘‘ فورم کے تحت غیر مسلموں کے درمیان کام کرنے کا موقع ملا۔
ع ح: کتابوں کی فروخت کے کاروبار میں کس طرح آئے؟ 
مرزا عبدالقیوم ندوی: 31 ؍ دسمبر 1999 کو مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ کا انتقال ہوا۔اورنگ آباد میں ایک تعزیتی جلسہ منعقد کیا گیاتھا،جس میں پونہ سے انیس چشتی اور ناگپور سے مفسر قرآن مولانا عبدالکریم پاریکھ تشریف لائے تھے۔محترم انیس چشتی صاحب نے میرا تعارف مولانا پاریکھ سے کرواتے ہوئے کہا کہ یہ لڑکاابھی ابھی ندوۃ العلما سے فارغ ہوا ہے اور کچھ ماہ میری تربیت میں بھی رہاہے۔ آپ کے پاس اگر کچھ کام ہو تو اسے دیجیے، اس پر مولانا پاریکھ نے کہا کہ ٹھیک ہے،میرے پاس ایک کام ہے،جو تمھارے لائق ہے وہ یہ کہ میری جو درس قرآن کی کیسیٹس ہیں انھیں تحریری شکل میں شائع کرنا ہے اور تم ایک ندوی عالم ہو اور یہ کام بخوبی انجام دے سکتے ہو، ایسا کرو میں جب ناگپور پہنچ جاؤں مجھ سے رابطہ کرنا اور ساتھ ہی انھوں نے اپنا کارڈ دیا۔
میں نے کچھ دنوں کے بعد مولانا سے رابطہ کیا۔ انھوں نے مجھے درس قرآن کی اپنی کچھ کیسیٹیں بھیجیں اور ایک خط لکھا کہ آپ اس کو ٹیپ ریکارڈ کی مدد سے کتابی شکل دواور ذیلی سرخیوں کے ساتھ کتابچہ کی شکل میں مجھے بھیجو۔ اگر تمھارا کام پسند آگیاتو باقی کام بھی تمھیں دے دوں گا۔ میں نے مولانا کا وہ کام کردیا جو انھیں بہت پسند آیا انھوں نے مجھے معاوضہ یا تحفہ کے طورپر اپنی مطبوعات جس کی قیمت آٹھ ہزار روپے تھی بھیجوادیں۔میں نے سائیکل پر دو تھیلوں میں کتابیں رکھیں اور نکل پڑا۔ 
یقین جانیے یہ میری زندگی کا پہلا تجربہ تھا۔میں ایک ایسے وقت میں مولانا کی کتابیں فروخت کررہا تھا جس وقت کہ ایک پوسٹ کارڈ پر اگر کوئی مولانا سے ان کی مطبوعات کی فرمائش کرتاتو وہ بھیج دیتے تھے۔
ابتدا میں مسجدوں کے باہرنماز کے بعد کپڑا بچھاکر کبھی مسجد کے صحن میں اور کبھی سائیکل پر ہی میں دکان لگاتا تھا۔میرا معمول تھا کہ میں ہر جمعہ کو شہر کی جامع مسجد میں کسی پیڑ کے نیچے دکان لگا کر بیٹھ جاتااور آواز لگا کر کتابیں فروخت کرتا تھا۔ یہ میرا بڑاکامیاب تجربہ رہا، جامع مسجد میں ہزاروں لوگ نماز پڑھنے آتے ہیں،شروع شروع میں کچھ ہفتوں تک کسی نے میری طرف توجہ نہیں کی، آہستہ آہستہ لوگ میرے ارد گرد جمع ہونے لگے اور اپنے ذوق کی کتابیں خریدنے لگے۔ اس میں ایک کام میں نے یہ کیا کہ لوگوں کو ادھا رکتابیں دینا شرو ع کیں، کیونکہ اکثر لوگ پیسے لانا بھول جاتے تھے،میں ان سے کہتا کوئی بات نہیں آئندہ ہفتہ دے دینا۔ایک اور کام میں نے یہ بھی کیا کہ میں لوگوں سے کہتاصاحب میں آپ کے مکان، دکان یا آفس پر آجاتاہوں اور آپ وہاں پیسے دے دیجیے۔ جب میں وہاں جاتاتو کتابوں کی تھیلی بھی ساتھ رکھ لیتا اور مزیدانہیں کتابیں دکھاتا تو اکثر لوگ کتابیں خرید لیتے۔ کچھ دنوں کے بعد میں نے گھروں پر کتابیں لے جانا شروع کی جہاں گھرکی خواتین بھی کتابیں خریدنے لگیں۔مجھے چند ہی مہینوں میں لوگوں کا ذوق اور پسند معلوم ہوگئی او ر جب بھی میرے پاس نئی کتابیں آتیں میں انہیں فون کردیاکرتا کہ صاحب آپ کے موضوع و دلچسپی کی کتابیں آئی ہیں دیکھ لیجیے یا میں آتا ہوں۔
ایک اور تجربہ یہ کیا کہ اورنگ آباد شہر اردو کا بہت بڑا مرکز ہے۔ یہاں بہت سارے اردو ہائی اسکول و کالج ہیں۔ میں نے وہاں جاناشروع کیا، ابتدا میں بڑی شرمندگی اور اجنبیت سی محسوس ہوتی تھی۔آہستہ آہستہ یہ مسئلہ بھی حل ہوگیااورمیں اساتذہ کو کتابیں دکھانے لگا،یہاں بھی میں نے یہ کیاکہ ان سے کتابوں کے پیسے نہیں مانگے بلکہ میں کہتاجب آپ کی تنخواہ آجائے اس وقت دے دیں۔ میں مہینہ کی ابتدائی تاریخوں میں اسکولوں میں جاتا سابقہ ادھاری لیتا اور پھر انھیں نئی کتابیں دے دیتا۔ ہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ میں ان سے درخواست کرتا کہ اپنے دوست احباب،رشتہ داروں کو بھی بتائیے یامجھے ان کا پتہ وفون نمبردیجیے میں انھیں کتابیں دکھاؤں گا، اس سے وہ خوشی خوشی بتادیا کرتے اور اپنے طورپربھی میرا تعارف اپنے دوست احباب سے کرواتے رہتے۔ 
دو سال تک میں سائیکل پر گھوم پھرکرکتابیں فروخت کرتا رہا، میں روزانہ تقریباً 25تا30کلو میٹر سائیکل پر گھوم کر کتابیں فروخت کرتا تھا اور اس کے بعد میں نے ایک گاڑی خریدی اور اس پر کتابیں بیچنا شروع کیا۔ جس سے میرا کاروبار خوب بڑھنے لگا۔ اب مجھے شہر کا ذوق اور مزاج معلوم ہوگیاتھا اس لیے جب نئی کتابیں آتیں میں لے کر ان کے پاس چلاجاتا۔ لوگ بہت خوش ہوتے اور مجھے دعائیں دیتے اور کہتے کہ،ہاں بھئی مجھے اس کتاب کی بہت دنوں سے تلاش تھی۔بزرگوں او رخواتین نے مجھے بہت دعائیں دیں کہ انہیں ان کی پسند کی کتابیں گھربیٹھے مل جاتی تھیں۔
میں نے یہ محسوس کیاکہ لوگوں کے پاس دکانوں پر جاکر کتابیں خریدنے کے لیے فرصت نہیں ہے اس لیے میں کتابیں لے کران کے پاس پہنچ جاتا تھا،یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ہوم سروس دینا شروع نہیں کی تھی۔میں شہر میں ہونے والے ہر چھوٹے بڑے ادبی، سماجی، ملی،سیاسی جلسوں، میٹنگوں، نشستوں، کانفرنسوں،سمیناروں میں اپنی کتابوں کی دکان لگایاکرتا تھا۔ لوگوں کو اتنا یقین ہوگیا تھاکہ آج جہاں پروگرام ہورہا ہے وہاں مولانا مرزاعبدالقیوم ندوی ضرور ہوں گے،اس لیے وہ فون پر مجھ سے دریافت کرتے کہ پروگرام شروع ہوا یا نہیں۔ اخبار والے،پولیس والے مجھ سے پوچھتے کہ مہمان کون کون ہے،کس کی تقریر ہوئی بلکہ یہاں تک کہ کس نے کیا کیابولااور خاص بات کیاتھی۔ شہر میں میری پہچان ’’کتاب والے مولانا‘‘کے نام سے ہوگئی۔ 
ابتداء میں Mobile Book Service کے نام سے دکان چلاتا تھا۔ کوئی مستقل دکا ن نہیں تھی بس Call me میرا طریقہ کار تھا۔ لوگ مجھے موبائل پر فون کرتے تھے۔یہ اس وقت کی بات ہے جب موبائل پر بات کرنا ہے توایک منٹ کے لیے آٹھ (8)روپیے لگتے تھے۔ 2006میں میں نے Mirza World Book House کے نا م سے دکان شروع کی۔ جس دن دکان کا افتتاح تھا یقین کریں تین سو(300)سے زیادہ لوگ موجود تھے۔ یہ دراصل میری پانچ سال کی محنت اور لوگوں سے رابطوں کی بنا پرتھا۔ کئی دنوں تک لوگ دکان کھولنے پر مجھے مبارک باد دیتے رہے۔ 
ع ح: آپ کے خیال میں کن موضوعات پر کتابیں زیادہ فروخت ہوتی ہیں ؟
مرزا عبدالقیوم ندوی:سماجی، معاشرتی، تاریخی موضوعات پرزیادہ کتابیں فروخت ہوتی ہیں۔ میں اپنے تجربات کی روشنی میں کہہ سکتاہوں کہ کسی بھی دکان دار کو یا کتب فروش کو خود پہلے کتابوں کا شوق ہوناچاہیے،وہ خود کتابیں پڑھتا ہواس کا مطالعہ وسیع ہو اسے ہر موضوع پر تقریباً سو پچاس کتابوں کے نام معلوم ہوں یا اس نے وہ کتابیں پڑھی ہوںیا ان کے بارے میں جانتاہو۔کتابیں لوگ خریدتے نہیں بلکہ آپ کوایک سیلز مین کی طرح کتابوں کی مارکیٹنگ کرنی ہوگی،اس کی خوبیاں کچھ اس اندازسے بیان کرنی ہوں گی کہ وہ کتاب خریدنے پر مجبور ہوجائے یا وہ آپ کی دکان پر اپنی مطلوبہ کتابوں کی لسٹ لے کرآئے اور وہ کتابیں آپ کے پاس نہ ہوں تو آپ اسے واپس نہ جانے دیں بلکہ اس کی مطلوبہ فہرست سے ملتی جلتی کتابیں اسے دکھائیں۔ 
ع ح: کیا یہ بات درست ہے کہ اردو میں سب سے زیادہ کاروبار مذہبی کتابوں سے ہی ہوتا ہے۔؟
مرزا عبدالقیوم ندوی: ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ آج بھی ملک میں زیادہ ترمذہبی کتابیں ہی فروخت ہوتی ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اول تو یہ کہ مسلمانوں کی آبادی کسی نہ کسی مکتب فکر سے منسلک ہے او رسال بھر ملک میں جلسے،جلوس، اجتماعات منعقد ہوتے رہتے ہیں جہاں مقرر ین و واعظین اپنے وعظ وبیان میں اپنے اپنے مسلک و مکتب فکرکی کتابوں کا تذکرہ کرتے ہیں، سامعین کو کتابوں کی اہمیت یا مصنف کے بارے میں بتاتے ہیں جس سے کہ ان کے اندر کتاب پڑھنے یا خریدنے کا شوق وجذبہ پیدا ہوتاہے۔ اس لیے مذہبی کتابیں زیادہ فروخت ہوتی ہیں،مگر افسوس کے ساتھ کہناپڑتا ہے کہ ان میں اکثریت چند کتابوں پر ہی قناعت کرتے ہیں یا اپنے اپنے مسلک و مکتب فکر کے مصنّفین کی کتابیں خریدتے وپڑھتے ہیں۔ 
دوسری بات میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ادبی کتابیں زیادہ کیوں نہیں فروخت ہوتی ہیں تو اس کی میری نظر میں چندوجوہات ہیں۔ادبی کتابوں کو ہم نے بہت محدود کردیا ہے،ادبی کتابوں کے خریدنے اور پڑھنے کا رجحان صرف ضرورت کے تحت کیاجارہاہے اور وہ ضرورت یہ ہے کہ صرف امتحانات کی حد تک ہی ان کتابوں سے مدد لی جاتی ہے۔ حال یہ ہے کہ جو کتابیں کالج و یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہیں طلبا کتابیں نہ پڑھتے ہوئے نوٹس، گائیڈ جیسی کتابوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ادب نما، شعورفن، تنقیدی زو ایے جیسی کتابوں کو پڑھ کر بی اے، ایم اے اور نیٹ،سیٹ کے امتحانات دیے جارہے ہیں۔ اصل کتابوں سے رجوع کا رجحان بہت کم ہوگیاہے۔ 
ع ح: موجودہ دور میں ناشرین کتب اورتاجرحضرات کو کیامشکلات پیش آرہی ہیں؟
مرزا عبدالقیوم ندوی: موجودہ دور میں ناشرین کتب او رتاجر حضرات کو جو پریشانیاں لاحق ہیں، یقیناًوہ تشویش کا باعث ہیں۔کاغذکی گرانی نے ناشرین کی کمرتوڑ دی ہے۔ قیمتوں میں اضافہ کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے۔
ناشرین حضرات، تاجر وں اور عام لوگوں میں فرق نہیں کررہے ہیں،جس رعایت پروہ کتابیں تاجروں کو دیتے ہیں اسی رعایت پر عام لوگوں کو بھی دے رہے ہیں۔ دونوں میں کوئی تال میل نہیں ہے۔دونو ں کے اپنے اپنے مسائل ہیں۔ایک بات یہ ہے کہ دونوں موجودہ کاروباری نظام سے دور ہیں۔انگریزی اور ہندی کے بڑے ناشرین اور تاجرین میں ایک طرح کا تال میل ہے۔بڑے بڑے ناشرین عام گاہک کو کتاب نہیں دیتے ہیں۔ انھوں نے ملک بھرمیں ریاستی سطح پر یا بڑے بڑے شہروں میں اپنی کتابوں کی ایجنسیاں دے رکھی ہیں۔ اگرکوئی عام آدمی یا چھوٹے تاجر حضرات ان سے براہ راست کتابیں منگواتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں کہ فلاں تاجر کوہم نے اپنی کتابوں کی ایجنسی دے رکھی ہے،آپ ان سے خریدیں۔ جبکہ اردو ناشرین و تاجرین میں اس طرح کا کوئی تال میل نظرنہیں آتاہے۔ اس میں نقصان دونوں کا بھی ہے۔
اس سلسلے میںیہ کہنا چاہوں گا کہ اردو کے ناشرین و تاجرین یہ طے کرلیں کہ ہم انگریزی او رہندی ناشرین کی طرح کام کریں گے،جس طرح وہ اپنی ایجنسیاں دیتے ہیں ہم بھی دیں گے۔اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ ناشرین ایک ریاست میں یا ایک ضلع میں کسی ایک دوکاندار ہی کو اپنی ایجنسی دیتے ہیں توان سے کاروبار کرنے میںآسانی ہوگی۔ تاجر حضرا ت کا یہ فائدہ ہوگا کہ انہیں سب کی کتابیں اسٹاک رکھنے کی ضرورت نہیں رہے گی،وہ تمام ناشرین کی کتابیں رکھنے کی بجائے آپسی تال میل کے تحت جیسے آرڈر آئیں گے وہ شہر کی متعلقہ ایجنسی سے کتاب منگواکر گاہک کو دے سکیں گے۔ 
ع ح: کتابوں کے تئیں بیداری پیدا کرنے سے متعلق آپ مختلف پروگراموں کاانعقاد کرتے رہے ہیں ؟ ہمیں یہ بتائیں کہ ان پروگراموں سے کتنے فائدے ہوئے؟
مرزا عبدالقیوم ندوی: کتابوں کے تئیں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے جو طریقہ کارمیں نے اپنایا ہے وہ بالکل انوکھا اوراپنی نوعیت کاپہلا علمی تجربہ ہے۔ میں نے شہر کے مختلف اسکولوں میں طلباء کے درمیان مفت ’گلک‘ (وہ ڈبہ جس میں بچے پیسے جمع کرتے ہیں) Piggy Bank تقسیم کیے،اس کا طریقہ کار یہ رہتاہے کہ میں اسکول چلاجاتا ہوں تمام طلباء کوجمع کردیاجاتاہے۔ ان کے سامنے کتابوں کی اہمیت، مطالعہ کے فائدے اور زندگی میں بچت کیسے کی جاتی ہے اس پرشہر کی کسی علمی و مشہور شخصیت کوبات کرنے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔ تقریر کے بعدوہ ’گلک‘بچوں میں تقسیم کردی جاتی ہیں اور ان سے کہاجاتاہے کہ روزانہ جو پیسے آپ کو جیب خرچ کے لیے والدین دیتے ہیں ان میں سے کچھ نہ کچھ روزانہ ’گلک‘میں ایک ماہ تک جمع کرنا ہے۔ ایک مہینے کے بعد آپ کے اسکول میں کتابوں کی نمائش لگے گی اس وقت اس میں جمع رقم کتابیں خریدنے کے کام آئے گی۔ 
یقین جانیے میرا یہ تجربہ اتنا کامیاب رہا کہ بچوں نے ’گلک‘ میں سو روپیے،دوسو روپیے جمع کرلیے تھے جس کی انھوں نے کتابیں خریدیں۔ اس طرح میں نے اورنگ آبادکے مختلف اسکولوں میں 37000’گلکیں‘ تقسیم کی۔
ع ح: نئی نسل میں مطالعے کا شوق کس طرح پیدا کیاجاسکتاہے؟ 
مرزا عبدالقیوم ندوی:دیکھیے موجودہ دور مارکیٹنگ کا دور ہے،ہر چیز تیزی سے بدل رہی ہے۔’’جو نظر آتا ہے وہی بکتا ہے‘‘لوگوں کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ کتابوں کی دوکانوں پر جاکر کتابیں دیکھیں اور پھر خریدیں۔آج اسکولوں وکالجوں میں مطالعے کا ذوق تقریباً ختم ہوگیاہے،طلباء پر درسی کتابوں کااتنا بوجھ ہے کہ ان کے پاس غیر درسی کتابیں پڑھنے کے لیے وقت ہی نہیں ہے۔اس لیے ضروری ہوگیا ہے کہ اسکول انتظامیہ اور اساتذہ کے تعاون سے اسکولوں میں ایسے پروگرام منعقدکیے جائیں جس سے طلبا میں غیر درسی کتابیں پڑھنے کا رجحان پیدا ہو۔ دوسرے یہ کہ موجود ہ نسل تیزی کے ساتھ سوشل میڈیاکی زدمیں آرہی ہیں،پہلے گھروں میں کتابیں پڑھنے پڑھانے کاماحول تھا،گھرکے بڑے بزرگ،والدین کتابیں خود پڑھتے تھے جن کو دیکھ کر گھر کے چھوٹے بچے بھی کتابیں پڑھنے کی کوشش کرتے تھے، آج تقریباًگھروں سے وہ ماحول ختم ہوگیاہے۔ نہ گھروں میں ماحول ہے اور نہ اسکولوں میں اساتذہ کتابیں پڑھتے نظرآتے ہیں، اکثریت موبائل کے عشق اور سوشل میڈیا کی زلف گرہ گیر کی اسیر نظرآتی ہے۔ آخر بچوں میں پڑھنے کا شوق کیسے پیدا ہوگا۔ گھراور اسکول میں ہمیں ویسا ماحول فراہم کرناہوگا تبھی ہم نئی نسل کوکتابوں سے جوڑسکتے ہیں۔ خود پسندی پر محمول نہ فرمائیں تو مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ میں نے اپنی دوکان کے توسط سے ادبی اور نصابی کتابوں کی بڑی تعدادقارئین سے متعارف کروائی ہے۔ مخلصین تو یہ کہہ کر میرا حوصلہ بڑھاتے ہیں کہ ادبی کتابیں اتنی بڑی تعداد میں کسی اسٹال پر کبھی دیکھنے میں نہیں آئیں۔مجھے یہ کہنے میں فخرمحسوس ہوتاہے کہ آج کئی گھروں میں چھوٹی چھوٹی لائبریاں قائم ہوگئی ہیں۔ لیکن بہرحا ل اس میں قارئین کا تعاون بھی اشد ضروری ہے۔
ع ح:کتاب میلے سے اردو زبان و ادب کا فروغ ہوتا ہے؟ آپ کیا کہتے ہیں؟ 
مرزا عبدالقیوم ندوی:جی بالکل درست، کتاب میلوں سے اردو زبان و ادب کو فروغ ملتا ہے، لوگوں کو بیک وقت،ایک ہی مقام پر لاکھوں کتابیں نظر آتی ہیں، لوگ آتے ہیں،شوق سے کتابیں خریدتے ہیں، طلبااساتذہ کے علاوہ بھی لوگ آتے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ کتابوں کے مستقبل اوراردوزبان و ادب کے وجود وبقاء کے لیے کتاب میلے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میرا اپناتجربہ ہے کہ صرف کتاب میلے منعقد کرنے سے کام نہیں چلے گا،بلکہ کتاب میلوں کو کامیاب بنانے کے لیے، مقامی ادبی انجمنوں،اردواسکولوں، کالجوں کے ساتھ جولوگ اردوسے وابستہ ہیں یا جن کی معاش اردو سے جڑی ہوئی ہے۔ ان پر سخت محنت کرنی ہوگی،تبھی جاکر کتاب میلے کامیاب ہوسکتے ہیں۔میں یہاں یہ بات بھی بتا تا چلو ں کہ 2014میں اورنگ آباد میں جو کتاب میلہ ہواتھا میں اس کا کوآرڈینٹر تھا،جس میں صرف نودن میں ایک کروڑ روپے سے زائد کی کتابیں فروخت ہوئی تھیں،جو ایک ریکارڈہے۔اس کے لیے اورنگ آبادکی تنظیموں، جماعتوں اور اردو سے محبت کرنے والوں نے مسلسل دو ماہ تک محنت کی تھی۔ 
ع ح: اسکول کی سطح پربچوں کو کس طرح کتابوں کی جانب مائل کیاجاسکتاہے؟
مرزا عبدالقیوم ندوی: بہت آسان ہے،بچے اسکول میں پڑھنے،لکھنے اور سیکھنے کے لیے ہی آتے ہیں، اس لیے کتابیں کیسے پڑھی جاتی ہیں،کیا،کب اور کیسے پڑھنا چاہیے یہ بھی انھیں سیکھنا ہوگا۔ بچوں کو غیر درسی کتابوں کا بھی مطالعہ کرناچاہیے اس طرف ہماری توجہ بہت کم ہے۔ اس کے لیے میرا طریقہ کار یہ رہاہے کہ میں بین المدارس، تقریری، تحریری مقابلے منعقد کرتا ہوں، وقتاً فوقتاً سیرت، تاریخی و مختلف شخصیات کی زندگی پرلکھی کتابوں میں سے سوالات کا انتخاب کر کے کوئزمقابلے کا انعقاد کیا جاتا ہے، جن کتابوں میں سے سوالات لیے جاتے ہیں طلباء کوان کتابوں کو خریدنالازمی ہوتاہے۔ تاکہ وہ کتابیں پڑھ کر جوابات دیں سکے۔ ان پروگراموں سے بہت فائدہ ہوتا ہے،طلباء میں غیردرسی کتابوں کے تئیں دلچسپی پیداہوتی ہے۔ اسی طرح میں ہر دو چارمہینے میں شہر کے اسکولوں میں کتابوں کا اسٹال لگاتاہوں،جہاں طلباکے معیارو استعداد کی کتابیں رکھی جاتی ہیں،جیسے قومی کونسل کی مطبوعات، مکتبہ جامعہ کا بچوں کا ادب ودیگر اداروں کی کتابیں۔اس سے بہت فائدہ ہوتا ہے، بچوں میں خرید کر کتابیں پڑھنے کا رجحان پیداہوتاہے۔
ع ح:موجودہ دورمیں کتابوں کاکاروبا رکس حدتک منافع بخش ہے؟
مرزا عبدالقیوم ندوی: کافی حدتک فائدہ مند ہے، آج جدیدتکنیک کی وجہ سے کتابوں کی اشاعت میں آسانی ہوگئی ہے، پہلے کے مقابلہ میں خرچ بھی کم آرہا ہے۔ کتابیں بڑی دیدہ زیب چھپ رہی ہے اور پھر یہ کتابوں کا کاروبارہے،روزانہ کی ضرورت کی چیز نہیں ہے، روز بروز ناشرین کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، شہروں میں بھی نئی نئی کتابوں کی دوکانیں کھل رہی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ صحیح ڈھنگ سے مارکیٹنگ کی جائے، نئے نئے موضوعات پر کتابیں شائع کی جائیں تو یہ کاروبار مزید منافع بخش ہوسکتاہے۔
بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ اردو کتابوں کا سب سے زیادہ مارکیٹ جنوبی ہند میں ہے،جس میں مہاراشٹر،آندھرا،کرناٹک کے علاقے اردو کتابوں کے لیے بڑے زرخیز ہیں۔ جنوب میں اردوکے فروغ کے لیے بے لوث اوران تھک کوششیں جاری ہیں۔برخلاف اس کے شمال میں اردوکتابوں کا کاروبار کسی حد تک مذہبی کتابوں پر چل رہا ہے۔برا مت مانیے شمال میں اس کے لیے زوردارکوشش نظرنہیںآتی۔ 
ع ح: نئی نسل کی اردو سے بڑھتی دوری پر آپ کیا کہیں گے؟
مرزا عبدالقیوم ندوی: نئی نسل کی دوری صرف اردو زبان کی حد تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ مسئلہ ہر علاقائی زبان کو درپیش ہے۔مراٹھی،ہندی، گجراتی،تمل ودیگر علاقائی زبانوں کے ساتھ یہی کچھ ہورہاہے۔ لیکن مہاراشٹر میں آج لاکھوں بچے اردو میڈیم سے تعلیم حاصل کررہے ہیں،یہاں اردو کے فرو غ کے لیے حکومت کا بھی تعاون حاصل ہے،پورے ملک میں مہاراشٹرواحد ایسی ریاست ہے جہاں سب سے زیادہ اردو میڈیم کے پرائمری اسکول، ہائی اسکول اورجونئیرکالجزہیں۔اگرچہ کہ یہاں بھی اب عام مسلمان انگریزی اسکولوں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلوا رہے ہیں،مگرایک بات قابل ذکر ہے کہ وہ ایک سبجکٹ اردو کا ضرور رکھتے ہیں،ساتھ ہی یہاں مسجدوں میں مکتب کا نظام بہت اچھا ہے،جہاں بچوں کو تعلیم اردو میں دی جاتی ہے،جس کی وجہ سے مہاراشٹر کے 80%بچے اردو پڑھنا لکھنا جانتے ہیں۔ 
ع ح: بچوں کے رسائل کو اسکولوں اور بچوں تک پہنچانے کے لیے کون سی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے ؟
مرزا عبدالقیوم ندوی: ایک منظم تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔سب سے پہلے تو بچوں کویہ معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے لیے ان کے معیار کا کوئی اردو رسالہ شائع ہوتاہے۔ جسے پڑھ کر انہیں اپنے نصاب تعلیم اور آئندہ زندگی میں فائدہ ہوگا۔رسالہ دیدہ زیب ہونا چاہیے، قیمت بھی کم ہو،مواد اورمعلومات کا معیار ان کے نصاب سے مناسبت رکھتاہوتو یقین جانیے بچے خوشی خوشی ان رسائل و جرائد کو خریدیں گے۔صرف رسالے چھاپ کر رکھ دینے سے یا چند کاپیاں اسکول کے پرنسپل کو بھجوانے سے کام نہیں چلے گا،اسی طرح کتابیں او رسائل دوکانوں پر رکھنے سے بھی کام نہیں چلے گا۔اس کے لیے ہمیں طلبا کے بیچ جاناہوگا۔ ان پر رسالوں کی اہمیت واضح کرنی ہوگی، ان سے بھی اس میں لکھنے کے لیے ترغیب دلانی ہوگی۔ 
کونسل سے شائع ہونے والا ’ماہنامہ بچوں کی دنیا‘ کو میں نے ایک سال کے مختصرعرصہ میں مہاراشٹرکے ہرگاؤں وشہرمیں پہنچا دیا تھا،اس کے لیے میں ایک ایک اسکول گیا،کئی بار اسکول میں رسالہ کا تعارف کرانے کی اجازت انتظامیہ اوراساتذہ کی طرف سے نہیں ملتی تھی۔ میں چھٹی کے بعداسکول سے باہر سڑک کے کنارے کھڑے ہوکر آوازلگاکر بچوں میں رسالہ کا تعارف کراتا تھا۔ اسکول انتظامیہ کی اپنی بہت ساری مجبوریاں ہوتی ہیں جس کے سبب وہ اسکول میں مارکیٹنگ کی اجازت نہیں دیتے ہیں اور نہ ہی اسکول میں رسالوں کو بیچنے کی اجازت دیتے ہیں۔ ایسی صورت میں،میں اسکول کے باہر کینٹین یا چھوٹی موٹی کھانے پینے کی جودکانیں ہوتی ہیں ان پر رسالہ رکھ جاتاتھا،جہاں سے بچے انٹرول میں رسالہ خرید لیتے تھے۔ 
ع ح: بچوں کے لیے نکل رہے رسائل کے مزاج اورمعیار سے آپ کس حد تک مطمئن ہیں؟ 
مرزا عبدالقیوم ندوی: کافی حد تک مطمئن ہوں، بچوں کے لیے کام کرنا بڑا مشکل کام ہے، خصوصاََ جب ان کے لیے لکھنا ہویا ان سے گفتگو کرنی ہوتو بڑی دقت پیش آتی ہے۔ معیار،مواداور ایسے مضامین جس سے طلبا میں دلچسپی پیدا ہو ایسے مضامین کی تعداد میں اضافہ ان رسائل کے لیے ضروری ہے،سب سے پہلے تو چھپائی اچھی ہو، کاغذ عمدہ ہواور قیمت بھی مناسب ہوتو طلبا یقیناًرسائل خریدتے ہیں۔ لیکن ایک بات ضرور ہے کہ ’بچوں کی دنیا ‘جیسے رسائل شائع کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے،جب تک حکومت کی سرپرستی حاصل نہیں ہوتی اس وقت تک معیاری اوردیدہ زیب چھپائی ممکن نہیں۔ ظاہر سی بات ہے جب مدیران معیار اور چھپائی پر زیادہ دھیان دیں گے تو لاگت میں اضافہ ہوگا جو طلباء کی قوت خرید سے باہر ہوگا۔ 
ع ح:اردو زبان کے فروغ کے لیے آپ کے پاس کیا تجاویز ہیں؟
مرزا عبدالقیوم ندوی: اردو عوامی زبان ہے، اسے عوامی سطح پر لانا ہوگا، اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے جوسمینار منعقدکیے جارہے ہیں سب سے پہلے ان کی تعداد کم ہونی چاہیے کیونکہ جو اردو کی کانفرنسوں پر سالانہ کروڑوں روپیے خرچ ہورہاہے اور نتائج کچھ بھی نہیں ہیں۔ا ن سمیناروں میں کیا ہوتاہے ؟کون تقریریں کرتا ہے؟وہی ہمیشہ ہمیشہ کے چہرے جنہیں سنتے زمانہ ہوگیا اور اب تو زبان و ادب بہت آگے نکل چکے ہیں۔
اردو زبان کو فروغ دینے کے لیے ہمیں عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اردو زبان کے فروغ کے لیے سب سے بڑی ذمے داری توان لوگوں پرعائد ہوتی ہیں جن کی روزی روٹی اردو زبان سے وابستہ ہے،انہیں سامنے آنا ہوگا۔ اردو کو پہلے اپنے گھرسے شروع کرنا ہوگا،بعد میں باہرکے لوگوں سے آپ توقع رکھ سکتے ہیں،آج المیہ یہ ہے کہ90%وہ لوگ شمال میں اردو کی روزی روٹی کھارہے ہیں اور صورتِ حال یہ ہے کہ ان کے گھروں میں ان کے علاوہ کسی اور کواردو پڑھنی بھی نہیں آتی ہے۔ وہ اپنی اولادوں کو غیر اردو اسکولوں میں تعلیم دلارہے ہیں۔
چند تجاویزات:
سب سے پہلے ان لوگوں کو جمع کیاجائے جو اردو کے لیے زمینی سطح پر بے لوث کام کررہے ہیں۔جن کا مقصدصرف اردو زبان کی نشر واشاعت اور اس کا استحکام ہے۔ان کی خدمات کااعتراف اوران کے ذریعہ کیے گئے کاموں کو سراہا جائے،انھیں اعزا ز واکرام سے نوازا جائے۔ اردو آج کل VIP ہوتی جارہی ہے،اسے پھر عوامی بنانا ہوگا۔ ملک کے مختلف حصوں میں چھوٹے چھوٹے علاقائی کتاب میلے منعقد کیے جائیں۔یہ کہنا کہ بچے پڑھتے نہیں،بچوں پر الزام ہے۔آپ ایسے مواقع فراہم کیجیے کہ وہ پڑھیں اور یہ اسی صورت میں ہوسکتاہے کہ آپ پہلے خود پڑھنے کی عادت ڈالیں، گھر، اسکول، کالج میں پڑھنے کاماحول بنائیں۔ طلبا میں کتابوں کا تعارف،مصنّفین کا تعارف، ادیبوں، شاعروں، عظیم شخصیتوں کی آپ بیتیوں کا تذکرہ یا پھر ا ن کی ولادت یا یومِ وفات پر ان کی تخلیقات کاتعارف کرانا،لائبریوں سے یا بازار سے حسب گنجائش کتابیں خریدنے کے لیے انھیں تیار کرنا ضروری ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے سرپرستوں اور اساتذہ کومیدان عمل میںآنا ہوگا۔ اس سلسلے میں،میں نے ہزاروں کتابیں خصوصاً’بچوں کی دنیا‘کے وہ شمارے جو عظیم شخصیتوں پر شائع ہوئے تھے،جیسے فروری میں مولانا ابوالکلام آزادی کی یوم پیدائش پر شائع شمارہ،اکتوبر مہاتما گاندھی، سرسید، اے پی جے عبدالکلام وغیرہ پر خصوصی شمار ے بڑی تعداد میں تقسیم کیے تھے۔
ع ح:ہمارے قارئین کے لیے کوئی پیغام یا مشورہ؟ 
مرزا عبدالقیوم ندوی: اردو زبان و ادب کے تحفظ و بقا کے لیے نئے قاری کا ہونا ضروری ہے اور یہ پیدا ہوگا نئی نسل سے جو اسکولوں،کالجوں،یونیورسٹیوں میں پروان چڑھ رہی ہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ مصنّفین کی تخلیقات کو، کالم نگاروں کے کالموں کو،ادیبوں کی نگارشات اور شاعروں کی شاعری کو خود ان کے اہل خانہ تک پڑھنے سے قاصر ہیں۔جب آپ کا ادب،آپ کی شاعری،آپ کے مضامین آپ کے خاندان والوں کو متاثر ومتوجہ نہیں کرسکتے ہیں تو آپ دوسروں سے کیسے توقع وابستہ کرسکتے ہیں کہ وہ پڑھیں گے۔؟ 
آخری بات: میری روح کانپ جاتی ہے جس وقت میں یہ سوچتاہوں کہ ان کروڑوں کتابوں کا کیا ہوگا،جو ملک کے مختلف کتب خانوں میں موجود ہیںیا دوکانوں اور گھروں پر ذخیرہ ہیں۔ اس کے علاوہ آئندہ جو کتابیں شائع ہوں گی ان کا مستقبل کیاہوگا۔ اگر ہم نے آج سے ہی اس کے لیے کوئی ٹھوس لائحہ عمل نہیں بنایا توڈر ہے کہ یہ ساری کتابیں،سارے علم کے موتی کہیں ضائع نہ ہوجائیں۔

Dr. Abdul Hai
ahaijnu@gmail.com
Mirza Abdul Qayyam Nadwi
Mirza World Book House, Qaisar Colony
Aurangabad - 431001 (MS)


Mob.: 9325203227



قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

2 تبصرے:

  1. میں ڈائریکٹر، مدیر صاحب اور نائب ایڈیٹر عبدالحئ صاحب کا مشکور و ممنون ہوں کہ انہوں نے اس ناچیز کو اس لائق سمجھا کہ اس سے انٹرویو لیا جائے. شکریہ.

    جواب دیںحذف کریں
  2. میں ڈائریکٹر، مدیر صاحب اور نائب ایڈیٹر عبدالحئ صاحب کا مشکور و ممنون ہوں کہ انہوں نے اس ناچیز کو اس لائق سمجھا کہ اس سے انٹرویو لیا جائے. شکریہ.

    جواب دیںحذف کریں