3/12/18

ہندوستانی موسیقی میں پرانے فلمی نغموں کا مقام. مضمون نگار: نثار احمد





ہندوستانی موسیقی میں پرانے فلمی نغموں کا مقام

نثار راہی
موسیقی کا شمارفائن آرٹ میں کیا جاتا ہے اور دنیا میں بے شمار لوگ موسیقی سنتے اور سر دُھنتے آرہے ہیں۔ کچھ لوگ (کہ جن میں عمر رسیدہ زیادہ ہوتے ہیں) ہندوستانی کلاسیکی موسیقی بہت شوق سے سنتے ہیں اور ملک کا نوجوان طبقہ انگریزی اور ہندی پاپ میوزک کا شوقین ہے۔ دیکھا جائے تو موسیقی ہندوستانیوں کے دلوں اور خون کی رگوں میں رچی بسی ہے کیونکہ صوبوں اور ریاستوں میں دیہات کے لوگ لوک گیت اور لوک سنگیت بڑے شوق سے سنتے ہیں۔ کرناٹک، بنگال اور کشمیر کے لوک گیت اور سنگیت وہاں جب بجتے سنائی دیتے ہیں تو کانوں میں جیسے رس گھولتے ہیں۔
لیکن..... بڑی اہمیت ہے ہمارے پرانے فلمی گانوں کی چالیس سے لے کر ستر کی دہائی تک یعنی چالیس سال کے عرصے میں بننے والی فلموں سے نکل کر جو گانے آئے تھے وہ آج بھی بہت لوگوں کے دل و دماغ پر راج کررہے ہیں بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ برصغیر میں بے شمار لوگوں کو فلموں کے پرانے گانوں کا دیوانگی کی حد تک شوق ہے اور کیوں نہ ہو کہ ان پرانے گانوں میں کیا نہیں ہے۔ ان میں بھرپور نغمگی ہے، سرور ہے، مستی ہے، اور اس سے بھی آگے یہ کہ وہ دماغ کو تناؤ سے چھٹکارا دلا کر سکون عطا کرتے ہیں اور میں تو یہ بھی کہوں گا کہ پرانی فلموں کے گانوں کی یہ موسیقی دماغ کا علاج بھی ہے۔ شائقین کے لیے تو یہ موسیقی جادو ہے۔
اس دنیا میں یہ ایک جادو ہی تو ہوگیا کہ فلموں کی اس موسیقی کا جنم ہوا۔ نہ جانے کہاں کہاں سے بڑے Genius موسیقار آئے اور فلموں کے لیے گانے بناتے گئے۔ وہ لوگ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں اچھے اچھے گانے بناتے گئے۔ خصوصاً پچھلی صدی کی پچاس سے ستر کی دہائی کا ایک دور تھا کہ اس دور میں جہاں اچھے موسیقار آئے وہیں بہت اچھے گلوکار بھی ممبئی آئے اور گانے بنتے ہی چلے گئے۔ اچھے گانوں کی تعداد کچھ کم نہیں ہے، ہزاروں میں ہے۔ ہر گانہ اپنی جگہ لطف و سرور دیتا ہے۔ 
شروع کے موسیقاروں میں انل بسواس، حسن لال بھگت رام، پنکج ملک، آرسی بورال، کھیم چند پرکاش اور سجاد حسین وغیرہ تھے۔ آگے آنے والوں میں کچھ اور زیادہ Genius نوشاد علی، غلام محمد، شنکر جے کشن، ایس ڈی برمن، اوپی نیر، سی رام چندر، مدن موہن، خیام، ہنس راج بہل، سلیل چودھری، وسنت دیسائی، ہیمنت کمار، روشن، ناشاد، چترگیت، آرڈی برمن، لکشمی کانت پیارے لال وغیرہ آئے۔
یہ موسیقار لوگ تھے جنھوں نے بے شمار خوبصورت گانوں کی بارش کی جس سے ہلکی پھلکی موسیقی سننے والے شرابور ہوئے۔ ان موسیقاروں میں کون بڑا ہے اور کون چھوٹا یہ کہنا مشکل ہے کیونکہ خوبصورت گانے ان سبھی نے بنائے۔ پھر بھی تین یا چار موسیقار ایسے ہیں جنھیں فہرست میں اوپر رکھنا پڑتا ہے۔ پہلا نام تو موسیقار نوشاد ہی کا ہے جن کے سنگیت میں ہندوستانی کلاسیکی موسیقی یعنی راگ راگنیوں کی دھوم ہے۔ اب راگ راگنیوں والے گانوں اور ان کے موسیقاروں کو تو فہرست میں اوپر ہی رکھا جائے گا کیونکہ راگ اور راگنیاں ہندوستانی موسیقی کی روح ہیں۔ اچھی دُھن ان ہی سے بنتی ہیں جو لازوال ہیں۔ موسیقار ایس ڈی برمن کے بیشتر گانے بنگال اور آس پاس کے پہاڑی صوبوں کی لوک دھنوں پر مبنی ہیں۔ پھر آئیے موسیقار جوڑی: شنکر جے کشن پر جنھوں نے نہ صرف ہندوستانی اور انگریزی کلاسیکی موسیقی پر بے شمار گانے بنائے بلکہ ملک کے لوک گیتوں اور انگریزی پاپ موسیقی سے بھی فیض حاصل کیا اور بہترین دھنیں بنا کر عوام کے دل جیت گئے۔ اب آئیے موسیقار اوپی نیر پر جن کی موسیقی ذرا الگ قسم کی ہے اور جنھوں نے کئی فلموں میں آشا بھوسلے کی آواز لے کر گانوں میں جادو سا بھر دیا تھا۔ لتا منگیشکر کی آواز کے بغیر وہ بہت کامیاب ہوئے۔ ان کے گانوں کی Rhythm میں بڑی مستی ہے۔ انھوں نے پنجابی لوک سنگیت سے فیض حاصل کیا۔ اوپی نیر نے ایک بار وودھ بھارتی ریڈیو پر پروگرام دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستانی فلموں کے موسیقاروں کی فہرست میں سے تیسرے نمبر پر آنے سے انھیں کوئی نہیں روک سکتا۔ بلاشبہ دو بڑے تو نوشاد اور شنکر جے کشن ہوئے لیکن تیسرے نمبر پر ایس ڈی برمن اور اوپی نیر میں سے کسی ایک کو لانے میں میں خود ناکامیاب ہوا ہوں کیونکہ دونوں کی ٹکر یا اہمیت برابر کی ہے۔ تیسرے نمبر پر اگر میں ایس ڈی برمن کو لاتا ہوں تو اوپی نیر کے ساتھ ناانصافی ہوجائے گی اور اگر اوپی نیر کو تیسرے نمبر پرلاتا ہوں تو ایس ڈی برمن کے ساتھ ناانصافی ہوجائے گی۔ یہ فیصلہ تو آپ کیجیے لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ فیصلہ تو آپ بھی نہیں کرپائیں گے۔
مندرجہ بالا چار موسیقاروں کے بعد فہرست میں پھر کسی کو بھی لاتے رہیے، سب ایک جیسی قابلیت کے لوگ ہیں اور بڑے اچھے ہیں۔ جیسے ہیمنت کمار، غلام محمد، ہنس راج بہل، مدن موہن، سی رام چندر، خیام، سلیل چودھری، روشن، جے دیو، این دتا (فلم سادھنا فیم)، وسنت دیسائی (جھنک جھنک پائل باجے فیم) وغیرہ۔ سب ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ ان کو فہرست میں اوپر رکھو یا نیچے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سب برابر کے درجے کے ہیں اور سبھی بہت لائق اور شاندار ہیں۔ میں عموماً تین موسیقاروں کو اپنے موڈ کے حساب سے سنتا ہوں۔ زیادہ شنکر جے کشن کو، پھر اوپی نیر کو۔ اور جس دن نوشاد کی موسیقی سننے کا زبردست موڈ ہو تو پھر نوشاد ہی نوشاد کو سنتا ہوں اور تب لگتا ہے کہ نوشاد سے بڑا کوئی نہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری پرانی فلموں کی موسیقی کا بادشاہ نوشاد ہی ہے۔ ششی کپور نے ایک بار کہا تھا کہ سب میں بہتر شنکر جے کشن ہیں۔ کوئی شک نہیں۔ وہ بہترین ہیں مگر نوشاد لاجواب ہیں اور اوپی نیر کسی سے کم نہیں۔ اس بحث سے یہ ثابت ہوا کہ تیسرے نمبر پر رکھے جانے لائق اوپی نیر ہی ہیں۔ ہاں جب کبھی موڈ ایس ڈی برمن کو سننے کا ہو تو سب دھرے رہ جاتے ہیں اور بڑے میاں کا جادو لتا منگیشکر کی آواز میں سر چڑھ کر بولتا ہے۔ ذرا پیئنگ گیسٹ، ابھیمان، عشق پر زور نہیں، دیوداس اور منزل (دیوآنند والی) کے گانے سن کر دیکھیے تو پتہ لگ جائے گا کہ موسیقی کے راجاؤں میں ایک بڑے راجہ ایس ڈی برمن صاحب بھی ہیں۔
ابھی تک میں نے ان موسیقاروں کے ’گانوں کی‘ بات نہیں کی ہے۔ اب کروں گا تو سوچنا پڑے گا کہ سب میں پہلے یعنی سب سے ٹاپ پر کون سا گانا آتا ہے لیکن یہ کام بھی مشکل ہے کیونکہ بے شمار پرانے گانوں کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ اس سلسلے میں گانوں پر آگے بات کرنے سے قبل اگر ہم گلوکاروں پر تھوڑی سی بات کرلیں تو بہتر ہوگا۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں مرد گلوکاروں میں کے ایل سہگل، پنکج ملک، محمد رفیع، منّاڈے، مکیش، طلعت محمود، ہیمنت کمار، سی ایچ آتما، کشور کمار اور مہندر کپور سرفہرست ہیں۔ وہیں خواتین گلوکاروں میں لتا منگیشکر، آشا بھوسلے، گیتادت، شمشاد بیگم، ثریا، نورجہاں اور مبارک بیگم اہم ہیں۔ خواتین گلوکاروں میں لتا منگیشکر اور مرد گلوکاروں میں محمد رفیع سب سے بہتر ہیں۔ بے شک سہگل صاحب اونچی چیز ہیں اور دیگر ساری آوازوں سے الگ ہٹ کر ہیں۔ مگر سچ یہ ہے کہ محمد رفیع ان سے بازی مار لے گئے۔ سہگل کے سننے والے بہت ہی کم ہیں جبکہ رفیع کا دیوانہ ہر کوئی ہے۔ انھوں نے ہر رنگ اور ہر موڈ کے گانے گائے ہیں۔ دراصل سہگل کا مقابلہ کسی سے نہیں کیا جاسکتا کہ واقعی وہ بہت اونچی چیز ہیں۔ سی ایچ آتما اور پنکج ملک بھی خاص موڈ میں سننے کی چیز ہیں لیکن یہ تینوں آج کے وقت میں پیچھے رہ گئے جبکہ لتا منگیشکر، محمد رفیع اور مناڈے سدابہار ہیں۔ خصوصاً لتا منگیشکر اور محمد رفیع کی آوازیں امر ہوچکی ہیں اور ممکن ہے کہ ایک ہزار سال بعد بھی سنی جائیں۔
اب گانوں پر بات کرتے ہیں ۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ لتا منگیشکر کے کون سے گانے بہترین ہیں۔ سب ایک سے ایک اچھے۔ وہ سیب اور آم کے باغ کے لدے ہوئے پھلو ں کی طرح ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ لتا جی نے فلم ’اُڑن کھٹولہ‘ میں اپنی بہترین آواز دی ہے۔ مورے سیاں جی اتریں گے پار... میرا سلام لے جا... حال دل میں کیا کہوں... ڈوبا تارا امیدوں کا سہارا چھوٹ گیا... وغیرہ۔ اس کے بعد فلم ’ناگن‘ کے گانے اور ناگن کے بعد فلم ’امر‘ کے گانے جو نوشاد ہی نے بنائے۔ ان کے اچھے گانوں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ میں گناتے گناتے تھک جاؤں گا۔ چند کے نام سن لیجیے: اے دل ناداں (رضیہ سلطان)، بول ری کٹھ پتلی (کٹھ پتلی)، تونے ہائے میرے زخم جگر کو چھو لیا (نگینہ)، محفل میں جل اٹھی شمع (نرالا)، آجاؤ تڑپتے ہیں ارماں (آوارہ)، جو میں جانتی بسرت ہیں سیاہ (جوگن) سیاں پیارا ہے اپنا ملن (دو بہنیں)، پیاسی ہرنی بن بن ڈولے (دو دل)، رجنی گندھا پھول تمھارے (رجنی گندھا)، میرے پھولوں سے بھی پیار (ناستک)، آجا رے میں تو کب سے کھڑی اس پار (مدھومتی) وغیرہ۔ لتا منگیشکر کے گانوں میں سوز بھی ہے، سنجیدگی بھی ہے، مستی بھی ہے اور ان میں انگڑائیاں لیتی مدھ بھری جوانی بھی ہے۔
اسی طرح محمد رفیع کے اچھے گانے بھی بے شمار ہیں جو گنائے نہیں جاسکتے۔ آپ سنتے ہی رہتے ہیں۔
مندرجہ بالا موسیقاروں کے گانوں میں خاص بات یہ ہوتی تھی کہ دُھنوں اور گانوں میں دل کو چھو لینے والی نغمگی تو ہوتی ہی تھی، سازوں کا بہترین جوڑ (سنگت) ہوتا تھا۔ گانا شروع ہونے سے پہلے کے ساز اور پھر مکھڑا گائے جانے او رانترا آنے سے قبل کے ساز اور ان کی آواز سے نکلی دُھن لاجواب ہوتی تھی۔ نہ جانے کیسے انھوں نے گانے کے شروع میں اور درمیان میں اتنے بہترین ساز بجائے کہ بہترین دھن بن گئی۔ یہ کام بہت مشکل تھا۔ سازوں میں کہیں ڈھیر سارے وائلن تو کہیں گٹار، کہیں مینڈولن، کہیں ستار، کہیں سرود، کہیں اکارڈین، کہیں جل ترنگ، کہیں طبلہ، کہیں کانگو ڈرم، کہیں بونگو ڈرم، کہیں پیانو، کہیں سیکسافون، کہیں ٹرمپیٹ اور نہ جانے کیا کیا۔ ان سازں کا سنگت اتنا لاجواب ہوتا تھا کہ یہ وہی قابل اور عظیم موسیقار کرسکتے تھے کہ جن کے نام میں نے اوپر گنائے۔ ہر کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔ آپ شنکر جے کشن کا گانا ’بول ری کٹھ پتلی‘ اور فلم اناڑی‘ کے سارے گانے سن کر دیکھیے کہ گانے کے شروع میں اور پھر اندر سازوں سے دھن بجانے میں شنکر جے کشن کا جواب نہیں تھا۔ گانوں میں سازوں کی دُھنیں ان سے اچھی شاید کسی دیگر نے نہیں دیں۔ گانوں کے شروع میں اور اندر بہترین ساز بجانے میں اوپی نیر کا مقام دوسرا ہے۔ ان کے ساز ہی تو دل و دماغ میں مستی پیدا کرتے ہیں۔ ممبئی کی لوکل ٹرین میں ایک زمانے میں پیسے مانگنے والے دو مٹھے بجا کر بڑی پیاری کھٹ کھٹ کی آواز نکالتے تھے۔ اس آواز کا استعمال اوپی نیر نے کئی گانوں میں، خصوصاً نائٹ کلب کے ڈانس کے گانوں میں استعمال کیا اور کئی گانوں میں انھوں نے سارنگی بھی خوب بجوائی ہے۔ فلموں کے موسیقار لوگ نہ جانے کہاں کہاں سے ساز اور آواز لائے جن کا انھوں نے اپنے گانوں میں استعمال کیا۔ اس طرح کے تجربے اور اتنے پیارے پیارے گانے اور کہاں مل سکتے ہیں۔ شاید کہیں نہیں۔ ایک گانے میں سب کچھ ہوتا ہے۔ پیارے ساز، پیاری دُھن اور پیاری آواز جو سننے والوں کے جذبات کو ٹچ کیے بغیر نہیں مانتی۔ جیسے کہ فلم ’سیما‘ کا شنکر جے کشن کا بنایا اور محمد رفیع کا گایا گانا ’کہاں جارہا ہے تو اے جانے والے‘ جیسے فلم ’بسنت بہار‘ کا منّا ڈے کا گانا ’سر نا سجے کیا گاؤں میں‘ آج کی ٹیکنالوجی کے زمانے میں ساز تو بڑے اچھے اچھے آگئے ہیں مگر ان سے نغمگی، سرور اور مستی پیدا کرنے والا کوئی نہیں۔
فلمی موسیقاروں کے کئی گانے راگ اور راگنیوں پر بھی مبنی ہیں۔ انھوں نے گانوں میں جابجا راگ بھیروں، راگ یمن اور دیگر کچھ راگوں کا خوب استعمال کیا ہے۔ نوشاد کی فلم ’بیجوباورا‘ اور شنکر جے کشن کی فلم بیشتر گانے ہندوستانی کلاسیکی موسیقی پر ہی مبنی ہیں۔ ایسے گانوں میں بلا کی نغمگی ہے جو دل کو چھو لیتی ہے۔ فلمی گانوں کو مؤثر بنانے میں بولوں یعنی شاعری کی بڑی اہمیت ہے۔ چنانچہ جیسے شاندار گانے شکیل بدایونی، مجروح سلطان پوری، ساحر لدھیانوی، شیلندر، راجندر کرشن، حسرت جے پوری، راجہ مہدی علی خاں، کیفی اعظمی، جاں نثار اختر، قمر جلال آبادی، اور ایس ایچ بہاری وغیرہ نے بڑی کثرت سے مندرجہ بالا موسیقاروں کے لیے لکھے ویسے پھر کسی نے نہیں لکھے۔ پرانے گانوں کی کشش میں جہاں موسیقاروں کی قابلیت کو دخل ہے وہیں مندرجہ بالا شاعروں اور گیت کاروں کابھی بڑا Contribution ہے۔
پرانے فلمی گانوں کے شائقین ہندوستان، پاکستان اور دیگر ممالک میں بے شمار ہیں۔ ایسی موسیقی کو نظرانداز کرنا مناسب نہیں۔ ہندوستان میں بہت سے کلب ایسے ہیں جو کبھی کبھی پرانے فلمی گانوں کو نئے گلوکاروں کی آواز میں جب کبھی پیش کرتے ہیں تو بے شمار شائقین ان گانوں پر سر دھنتے ہیں۔ وہ گانے شائقین کے لیے ہماری پرانی فلموں کے موسیقاروں اور گائکوں کا بہت بڑا تحفہ ہیں۔

Nisar Rahi (Advocate)
P-44, B.D.A Colony
Teela, Jamal Pura
Bhopal - 462001 (MP)





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

1 تبصرہ:

  1. قومی کونسل نے ایک ویکیپیڈیا شروع کیا تھا۔ جس میں بعد میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔اگر ان مضامین کو اسی کے تحت ویکی کی شکل میں پیش کر دیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ ایک بڑے سرکاری ادارے کی ویب سائٹ نہ ہو کر کے بلاگ پر مضامین شائع کیے جائیں گے اس کے شایان شان نہیں۔

    جواب دیںحذف کریں