3/12/18

عصمت چغتائی ’چوتھی کا جوڑا‘کے آئینے میں. مضمون نگار:۔ غزالہ فاطمہ





عصمت چغتائی ’چوتھی کا جوڑا‘کے آئینے میں

غزالہ فاطمہ



اردو کے افسانوی ادب میں عصمت چغتائی ایک بڑا نام ہے۔ جسے منٹو کا نسائی قالب بھی کہا گیا۔مگر عصمت کی اپنی ایک شناخت ہے۔عصمت چغتائی نے اپنے افسانوں میں جس بے باکی سے جنس کو موضوع بنایا اس نے اس عہد کو حیران کر دیاکیوں کہ اس سے قبل خواتین صرف اخلاقی اور اصلاحی ادب کی طرف ہی مائل تھیں۔قدامت پسند مسلم گھرانے عورتوں کی تعلیم کو آوارگی سمجھتے تھے۔ عصمت نے اصلاحی اور تبلیغی دور میں اس قدر بے باکی سے لکھا تو انھیں شہرت بھی خوب ملی اور وہ لوگوں کے لعن طعن کا شکار بھی ہوئیں۔لیکن اس سے ان کی مقبولیت میں کمی نہ آئی بلکہ ان کی شہرت میں اضافہ ہی ہوااور ساتھ ہی ساتھ انھوں نے خواتین قلم کاروں کو اظہار کے نئے امکانات سے آشنا بھی کیا۔
اردو افسانہ نگاری میں عصمت چغتائی کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ ’’چوتھی کا جوڑا ‘‘ان کا شاہکار افسانہ ہے۔اس کے علاوہ بھی انھوں نے کئی اہم افسانے لکھ کر اپنے فن کے جوہر دکھائے ہیں۔متوسط مسلم گھرانوں کے لڑکے اور لڑکیوں کی زندگی ان کے فکشن کااہم موضوع رہا ہے۔ وہ اس طبقے سے گہری واقفیت رکھتی ہیں۔اپنے ہم عصروں کے مقابلے ان کا دائرہ محدود ضرور ہے لیکن ان کو فن پر کمال قدرت حاصل ہے۔ ان کے یہاں فنّی پختگی ہے، روایت سے بغاوت ہے ۔ عصمت نے افسانہ نگاری کے ذریعے سماج اور معاشرے کی حقیقت پسندانہ عکاسی کی ہے۔ان کے یہاں سماج کی ناہمواری ،ذہنی غلامی،رجعت پسندی،توہم پرستی،مذہبی تعصب،ظلم و استحصال اور طبقاتی کشمکش کے خلاف احتجاج ملتا ہے۔ان کی تخلیقات میں جنسی اور نفسیاتی حقائق کا بے باکانہ تخلیقی اظہار ملتا ہے۔عصمت چغتائی کو مغربی مفکروں ، دانشوروں اور ادیبوں سے گہری مناسبت تھی۔
عصمت چغتائی نے جس دور میں لکھنا شروع کیا اس دور میں ایک نئی روش کا آغاز ہونے کے ساتھ ادیبوں میں حقیقت پسندی کا رجحان عام ہو رہا تھا۔جنس عصمت کا پسندیدہ موضوع تھا۔انھیں متوسط طبقے کی جنسی زندگی کے بارے میں گہری معلومات ہے اور وہ جسے بڑی بے باکی سے اپنے افسانوں میں پیش کر دیتی ہیں۔جس کی وجہ سے اہل زمانہ نے ان پر لعنت و ملامت بھی کی ۔ فحش نگاری کے الزام میں ان پر مقدمے بھی چلے اور ان افسانوں نے اپنی اشاعت کے ساتھ زمانہ میں تہلکہ مچا دیا تھا۔تل، گیندا،لحاف ،بھول بھلیاں،عصمت کی بدنام کہانیوں میں شامل ہیں۔ عصمت کی کہانیاں ہی نہیں بلکہ اپنی تیزی و طراری اور تیکھے پن کی وجہ سے خود عصمت بھی بہت بدنام ہوئیں کیونکہ منٹو کی طرح عصمت بھی سماج کو آئینہ دکھاتی ہیں۔سماج میں پھیلی ہوئی بُرائیوں اورعیبوں کو آشکار کرنا چاہتی ہیں تاکہ ان کا علاج کیا جاسکے۔ایک جگہ عصمت خود بھی لکھتی ہیں۔’’جب زخم میں مواد بھر جائے تو اس پر پٹیاں باندھنے سے بہتر ہے کہ نشتر لو اور جراحی شروع کر دو۔‘‘
عصمت چغتائی کا افسانہ ’’چوتھی کا جوڑا‘‘ ہندوستانی سماج کے غربت زدہ طبقے کی محرومیوں کی جیتی جاگتی تصویر ہے ۔اس افسانے میں بڑا درد و کرب نمایاں ہے۔ہمارے سماج کے نچلے طبقے میں غریب ماں باپ کے لیے سب سے بڑا مسئلہ جوان ہوتی ہوئی لڑکیوں کی شادی کا ہے۔ان کی شادی کے لیے لڑکا ڈھونڈنا ایک مشکل امر ہوتا ہے۔یہ مسئلہ خاص کر ان لوگوں کے لیے ہے جو غریب ہیں اور بیٹی کے لیے لمبا چوڑا جہیز نہیں دے سکتے۔ بیٹیوں کی شادی کی فکر میں ماں باپ کا دن کا چین اور رات کی نیند حرام ہو جاتی ہے۔وہ مسلسل کوشش کیے جاتے ہیں۔لیکن جب کوئی مناسب رشتہ نہیں ملتا تو ناچار قسمت کے مارے تھک ہار کر امید کا دامن چھوڑ دیتے ہیں۔ادھر لڑکی بڑھتی عمر کے ساتھ احساس کمتری کا شکار ہوتی جاتی ہے اور دولہے کے انتظار میں اپنی جوانی کے حدود سے گزر جاتی ہے۔اسے اپنا مستقبل تاریک اور ڈراؤنے خواب کی طرح خوف زدہ کرتا رہتا ہے۔ ماں باپ کا بڑھاپا دن بہ دن انھیں قبر تک لے جانے کے لیے بے تاب رہتا ہے ۔ان کے صبر اور استقلال کا باندھ ٹوٹتا ہوا نظر آتا ہے۔وہ اس بے رحم سچائی سے منھ چھپا کر کسی غیبی طاقت سے مدد کی امیدلگائے بیٹھے رہتے ہیں۔لیکن کسی کو کیا پتا کہ زندگی کس قدر بے رحم ہے خاص طور سے غربت کے مارے ماں باپ کی جو بیٹیوں کے والدین بھی ہیں۔
یہ کہانی ایک ایسے خاندان کی ہے جس کی سرپرست بی اماں ہیں جن کے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے۔ان کے انتقال کے بعد گھر کی کفالت کی ذمہ داری بی اماں کی ہے۔ ان کی دو جوان لڑکیاں کبریٰ اور حمیدہ ہیں۔بی اماں کی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ اور مقصد کبریٰ کی شادی ہے۔کبریٰ ڈری ،سہمی ،خاموش طبیعت کی معمولی شکل و صورت والی لڑکی ہے۔والد کے انتقال کے بعد اس کے لیے شادی کا کوئی پیغام نہ آیا اس کے انتظار میں اس کی عمر تیزی سے گزر رہی تھی۔امیدیں ختم ہو رہی تھیں۔تبھی بی اماں کے منجھلے بھائی کا لڑکا راحت پولس کی ٹریننگ کے لیے ان کے گھر میں قیام کرنے کے لیے آتا ہے تو ان کی امیدیں اس سے وابستہ ہو جاتی ہیں ۔وہ اپنا زیور بیچ کر گھر ٹھیک کرواتی ہیں اور راحت کے رہنے کا انتظام بھی کرتی ہیں:
’’اسی وقت اماں نے کانوں کی چار ماشہ کی لونگیں اتار کر منھ بولی بہن کے حوالے کیں کہ جیسے تیسے کر کے شام تک تولہ بھر گوکھرو،چھ ماشہ سلمہ ستارہ اور پاؤ گز نیفے کے لیے ٹول لادیں۔باہر کی طرف والا کمرہ جھاڑ پونچھ کر تیار کیا۔تھوڑا سا چونا منگا کر کبریٰ نے اپنے ہاتھوں سے کمرہ پوت ڈالا۔کمرہ تو چٹّا ہو گیا مگر اس کی ہتھیلیوں کی کھال اڑ گئی ۔اور جب وہ شام کو مسالہ پیسنے بیٹھی تو چکّر کھاکر دوہری ہو گئی۔ساری رات کروٹیں بدلتی گزری۔ایک تو ہتھیلیوں کی وجہ سے ،دوسرے صبح کی گاڑی سے راحت آرہے تھے۔‘‘
(افسانہ ’’چوتھی کا جوڑا‘‘)
بی امّاں تواس قدر گھبرائی ہوئی تھیں کہ مانو راحت ان کے گھر بارات لے کر آرہا ہو۔وہ خوش تھیں کہ اللہ نے ان کی دعا سن لی ایسا لگتا ہے جیسے دروازے پر بارات کھڑی ہو۔حمیدہ نے اپنی ماں اور آپا کی دلی کیفیت کو سمجھتے ہوئے فجر کی نماز میں سر بسجود ہو کر دعائیں مانگی۔
’’اللہ !میرے اللہ میاں!اب کے تو میرے آپا کا نصیبہ کھل جائے۔میرے اللہ میں سو رکعت نفل تیری درگاہ میں پڑھوں گی۔‘‘
یہ ایک چھوٹی بہن کی اپنی بڑی بہن کے لیے سچّے دل سے نکلی ہوئی دعا تھی۔کبریٰ اپنے جذبات کو ظاہر نہ ہونے دیتی تھی کیوں کہ وہ شرم و حیا کی ماری لڑکی تھی اورزبان کھولنے سے قاصر تھی۔لیکن دل ہی دل میں وہ خوش تھی۔ کب سے اپنے دولہے کا انتظار کر رہی تھی اب انتظار کی گھڑی ختم ہونے کا وقت تھا۔راحت آیا سیویوں اور گھی ٹپکتے پراٹھوں کا ناشتہ کرکے بیٹھک میں چلا گیا۔ راحت کی روز خوب خاطر مدارات ہوتی۔اس کی خاطر تواضع کے لیے وہ لوگ روکھا سوکھا کھاکر روز راحت کو مزہ دار اور اچھے سے اچھا کھانا کھلاتیں۔ان سب میں بی اماں کا چھوٹا موٹا جو زیور موجود تھا سب بک گیا،مگر مہمان نوازی میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔ان کی اس غربت کے حالات کا بیان عصمت نے اس طرح کیا ہے:
’’جس راستے کان کی لونگیں گئی تھیں اسی راستے پھول پتہ اور چاندی کی پازیب بھی چل دی اور ہاتھوں کی دو چوڑیاں بھی جو منجھلے ماموں نے رنڈاپا اتارنے پر دی تھیں۔روکھی سوکھی خود کھاکر آئے دن راحت کے لیے پراٹھے تلے جاتے کوفتے،بھنا پلاؤ مہکتے۔خود روکھا سوکھاسانوالہ پانی سے اتار کر وہ ہونے والے داماد کو گوشت کے لچھے کھلاتیں۔‘‘
بی اماں یہ سب اپنی بیٹی کے بہتر مستقبل کے لیے کر رہی تھیں۔آخر کو ان کا ہونے والا داماد ہے ۔مصلحت کا تقاضا یہی ہے کہ جس شجر کا پھل کل کوکھانا ہو اس کی آبیاری تو آج ہی سے کرنی پڑتی ہے۔بی اماں سوچتی ہیں کل کو راحت ان کا اپنا ہو جائے گاجو کمائے گاان کی بیٹی کے ہاتھ پر ہی تو رکھے گا۔اس پر مسرت خیال سے ہی ان کو تقویت ملتی ہے۔اتنی خاطر مدارت کرنے کے بعد بھی جب راحت کی کوئی رضامندی ظاہر نہیں ہوتی تو بی اماں اپنی منھ بولی بہن کو بلا کر مشورہ کرتی ہیں تو وہ صلاح دیتی ہیں کہ حمیدہ راحت سے ہنسی مذاق کرے ۔بہنوئی کی طرح اس سے چھیڑ چھاڑ کرے۔ بی اماں کا نسخہ کامیاب ہوتا ہے اور راحت دن کا زیادہ تر وقت گھر پر گزارنے لگتا ہے اور کسی نہ کسی بہانے سے حمیدہ کو آوازیں دیتا رہتا ہے۔وہ حمیدہ کو چھیڑتا ہے اور اسے غلط نظروں سے دیکھتا ہے۔حمیدہ کو یہ سب برا تو لگتا ہے لیکن وہ اپنی بہن کی خاطر یہ سب برداشت کرتی رہتی ہے۔راحت کی بیباکیاں بڑھتی جاتی ہیں اور بی اماں اور ان کی منھ بولی بہن بہت خوش ہوتی ہیں کہ اب بات بن جائے گی لیکن نہ راحت کچھ کہتا ہے اور نہ اس کے گھر سے کوئی پیغام آتا ہے ۔آخر کار بی اماں اپنے توڑے گروی رکھ کر مشکل کشا کی نیاز دلاتی ہیں۔محلے کی لڑکیاں اور عورتیں آتی ہیں ۔کبریٰ شرما کر مچھروں والی کو ٹھری میں بیٹھ جاتی ہے۔مولوی صاحب کا دم کیا ہوا ملیدہ حمیدہ کو دیا جاتا ہے کہ راحت کو کھلا آئے۔ مجبورو لاچار حمیدہ اپنی بہن کے لیے وہاں جاتی ہے ۔اس واقعے کا بیان عصمت نے اس طرح کیا ہے۔
’’یہ....یہ ملیدہ۔‘‘اس نے اچھلتے ہوئے دل کو قابو میں رکھتے ہوئے کہا...اس کے پیر لرز رہے تھے۔جیسے وہ سانپ کی بانہی میں گھس آئی ہو۔اور پھر پہاڑ کھسکا...اور منھ کھول دیا۔وہ ایک قدم پیچھے ہٹ گئی۔مگر دور کہیں بارات کی شہنائیوں نے چیخ لگائی جیسے کوئی ان کا گلا گھونٹ رہاہو۔کانپتے ہاتھوں سے مقدس ملیدے کا نوالہ بنا کر اس نے راحت کے منھ کی طرف بڑھادیا۔ ایک جھٹکے سے اس کا ہاتھ پہاڑ کی کوہ میں ڈوبتا چلا گیا...نیچے تعفّن اور تاریکی کے اتھاہ خار کی گہرائیوں میں اور ایک بڑی سی چٹان نے اس کی چیخ کو گھونٹ دیا۔نیاز کے ملیدے کی رکابی ہاتھ سے چھوٹ کر لالٹین کے اوپر گری اور لالٹین نے زمین پر گر کر دوچار سسکیاں بھریں اور گل ہو گئی۔صبح کی گاڑی سے راحت مہمان نوازی کا شکریہ ادا کرتا ہوا روانہ ہو گیا۔اس کی شادی کی تاریخ طے ہو چکی تھی اور اسے جلدی تھی۔‘‘
راحت جو مہان نوازی کا شکریہ ادا کر کے جا چکا ہے ۔اصل میں ناشکرے پن کی مثال ہے ۔وہ ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ ان کے گھر میں بن بلائے مہمان کی طرح پڑا رہا اور آخر میں ان سب کاچین و سکون لے کر چلا گیا۔اس کا چلے جاناجہاں بی اماں کی تمنّاؤں کا خون تھا وہیں حمیدہ کے لیے وجۂ سکون و اطمینان ،اور کبریٰ کے لیے کیا تھا اس کا بیان تو نہایت ہی افسوس ناک ہے :
’اس کے بعد اس گھر میں کبھی انڈے نہ تلے گئے،پراٹھے نہ سکے اور سویٹر نہ بنے۔دِق نے جو ایک عرصے سے بی آپا کی تاک میں بھاگتی پیچھے پیچھے آرہی تھی ایک ہی جست میں انھیں دبوچ لیااور انھوں نے چپ چاپ اپنا نامراد وجود اس کی آغوش میں سونپ دیا۔‘
کبریٰ کو اس زندگی سے نجات مل گئی جو اس کے لیے مسلسل موت کی مانند تھی جس سے وہ روز مرتی اور روز جیتی تھی۔وہ افسانے کا ایسا کردار ہے جو ہمیشہ خامو ش رہ کر اپنے ہونے کا احسا س دلاتا ہے ۔وہ جب تک زندہ رہی اپنی زندگی کا بوجھ ڈھوتی رہی۔اسے زندگی میں کبھی کوئی خوشی نہ ملی۔ نہ اس نے کبھی زور سے قہقہہ لگایا نہ کبھی شوق سنگھار کیے وہ تو بے چاری غریب ماں باپ کی ایسی اولاد تھی جو غریبی کے باعث اس کا گھر نہ بسا سکے اوراس کی شادی نہ ہو سکی۔اس کی زندگی اسی پر بوجھ بن گئی تھی جسے وہ مسلسل ڈھوئے جا رہی تھی۔ موت نے اس بوجھ سے نجات دلا دی۔غربت کی چکّی میں پستی رہی اور ازدواجی زندگی کے خواب بنتے ہوئے وہ اس دنیاسے رخصت ہو گئی:
’’کبریٰ جوان تھی۔کون کہتا تھا کہ وہ جوان تھی۔وہ تو جیسے بسم اللہ کے دن سے ہی اپنی جوانی کی آمدکی سناؤ نی سن کرٹھٹھک کر رہ گئی تھی۔نہ جانے کیسی جوانی آئی تھی کہ نہ تو اس کی آنکھوں میں کرنیں ناچیں نہ اس کے رخساروں پر زلفیں پریشاں ہوئیں۔نہ اس کے سینے پر طوفان اٹھے۔اور نہ کبھی ساون بھادوں کی گھٹاؤں سے مچل مچل کر پریتم یا ساجن مانگے۔وہ جھکی جھکی ،سہمی سہمی جوانی جو نہ جانے کب دبے پاؤں اس پر رینگ آئی ،ویسے ہی چپ چاپ نہ جانے کدھر چل دی ۔میٹھا برس نمکین ہوا اور پھر کڑوا ہو گیا۔‘‘
یہ افسانہ بلا شبہ عصمت چغتائی کی حقیقت نگاری کی بہترین مثال ہے۔ اس افسانے میں عصمت چغتائی نے متوسط طبقے کے اس اہم مسئلہ سے جڑی کمزوریوں کو موثر انداز میں پیش کیا ہے۔افسانے کی ابتداء عصمت بہت جاذب اور دلچسپ انداز میں کرتی ہیں۔ اس کا انجام درد غم سے لبریز تعجب خیز اور فکر انگیز ہے۔اس افسانے کے کردار اور زبان و بیان میں عصمت نے بڑی مہارت کا ثبوت دیا ہے ۔جزئیات نگاری میں تو عصمت کا جواب نہیں اس کا اندازہ اس اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے:
’’کبریٰ کی ماں کے پر استقلال چہرے پر فکر کی کوئی شکل نہ تھی۔چار گرہ گزی کے ٹکڑے کو وہ نگاہوں سے بیونت رہی تھیں۔لال ٹول کا عکس ان کے نیلگوں زرد چہرے پر شفق کی طرح پھوٹ رہا تھا۔وہ اداس اداس گہری جھریاں اندھیری گھٹاؤں کی طرح ایک دم اجاگر ہو گئیں،جیسے جنگل میں آگ بھڑک اٹھی ہواور انہوں نے مسکرا کر قینچی اٹھا لی۔‘‘
افسانے کی زبان خوبصورت تشبیہ،استعارہ اور محاوروں سے آراستہ ہے۔عصمت کو لفظوں سے کھیلنے کا ہنر خوب آتا ہے۔ کب کون سا جملہ استعمال کرنا ہے انھیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لفظ کسی نگینہ کی طرح جڑے ہوئے ہیں۔لفظوں کا استعمال موقع کے لحاظ سے موزوں و مناسب ہوتا ہے ۔اس کی چند مثالیں پیش کرتی ہوں۔
۰’’ابّا کتنے دبلے پتلے جیسے محرم کا علم۔ایک بار جھک جاتے تو سیدھا کھڑا ہونا دشوار تھا۔‘‘
۰’’کس کی بکری اور کون ڈالے دانہ گھاس۔اے بی مجھ سے تمہارا یہ بیل نہ ناتھا جائے گا۔‘‘
۰’’اری او نک چڑھی !بہنوئی سے کوئی بات چیت‘‘
ان کے افسانوں کی کامیابی کا راز ہی ان کی دلکش زبان ہے۔ بقول کرشن چندر:
’’نہ صرف افسانہ دوڑتا ہوا معلوم ہوتا ہے بلکہ فقرے ،کنائے اشارے اور آوازیں کرداراور جذبات و احساسات ایک طوفان کی سی بلا خیزی کے ساتھ چلتے اور آگے بڑھتے نظر آتے ہیں‘‘۔
عصمت اپنے زبان و بیان اور طنزیاتی لب و لہجہ کے اعتبار سے بھی قابل قدر اور انفرادیت کی حامل ہیں۔ان کی زبان متوسط طبقے کی معیاری زبان ہے ۔عورتوں کے مخصوص لب ولہجے اور محاورات کا جیسا بر محل استعمال عصمت کے یہاں ملتا ہے اس کی مثال نہیں۔ان کے لفظی مصوری کا ہی کمال ہے کہ ان کی کہانی کا ہر کردار اور واقعہ قاری کی نگاہوں کے سامنے روشن ہو جاتا ہے۔
Ghazala Fatma 
Research Scholar
Deparment of Urdu 
Jamia Millia Islamia 

New delhi 110025



قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں