12/12/18

جھارکھنڈ میں اردو زبان کی صورتِ حال مضمون نگار:۔ محمد عمران





جھارکھنڈ میں اردو زبان کی صورتِ حال


محمد عمران

اردو زبان و ادب کے ارتقا میں دینی، تعلیمی و ادبی انجمنوں اور سماجی و فلاحی اداروں وغیرہ کا ہر دور میں کافی اہم کرداررہا ہے۔ ہم ان ا داروں کو نظر انداز کرکے اردوزبان کی ترقی کی تاریخ مرتب نہیں کرسکتے۔ ابتدائی عہد میں دینی و تعلیمی مراکز کے طور پر خانقاہوں کا نظام قائم تھا۔ انھیں خانقاہوں میں دین کی تبلیغ و اشاعت و اصلاح باطن اور تعلیم و تربیت کا نظام بھی قائم تھا۔ ظاہر ہے تبلیغ و تعلیم کے ذریعے سے زبان کی بھی ترویج ہوئی۔ جب ہم اردو زبان کے ارتقا میں صوفیائے کرام کے کردار کے حوالے سے جائزہ لیتے ہیں تو ان خانقاہوں کی طرف رجوع کرنا ضروری ہوجاتاہے۔
خانقاہوں کے علاوہ مدارس دینیہ، حکومت کی طرف سے چلائے جانے والے اسکول و کالج، زبان و ادب کے لیے مخصوص حکومتی ادارے، لائبریریاں، ذاتی ادبی ادارے و انجمن وغیرہ ایسے ہیں جو کسی زبان کے فروغ کے لیے اہم کردار نبھاتے ہیں اور ایک محرک کا کام کرتے ہیں۔
ایسے ہی علمی و ادبی اداروں کے حوالے سے جب ہم ریاست جھارکھنڈ کا جائزہ لیتے ہیں تو اس کے لیے غیر منقسم بہار کا جائزہ لینا ضروری ہوجاتاہے۔ کیوں کہ ان اداروں کا سرا بہار سے جڑا ہے۔ اور چونکہ اس ریاست کو قائم ہوئے ابھی 17-18 سال ہی ہوئے ہیں، لہٰذا بہار سے الگ ہوکر ریاست جھارکھنڈ میں جو ادارے و انجمنیں موجود ہیں ان کے پس منظر کا سرا بہار سے ہی تلاش کرنا ضروری ہوجاتاہے۔
غیر منقسم بہار میں اردو کو ریاست کی دوسری سرکاری زبان کادرجہ حاصل تھا۔ چنانچہ نو تشکیل ریاست جھارکھنڈ میں بھی اردو کووہی حیثیت حاصل رہی۔ لیکن بدقسمتی سے جھارکھنڈ میں اردو کی یہ حیثیت محض فائلوں تک ہی محدود رہی۔ 
زبان کی ترقی میں تعلیمی اداروں کا کردار کافی اہم ہوتا ہے۔کیونکہ تعلیمی اداروں کے ذریعے ہی زبان و ادب کو آنے والی نسلوں تک پہنچایا جاتا ہے، اس نقطہ نظر سے یہ ضروری ہے کہ جھارکھنڈ میں اردو زبان و ادب کے تعلق سے تعلیمی اداروں کا جائزہ لیاجائے،تاکہ ریاست جھارکھنڈ میں اردو کے مستقبل کا بھی کسی حد تک اندازہ لگایا جاسکے۔ ریاست جھارکھنڈ کا وجود 15نومبر 2000 ء کو عمل میں آیا اس کے پہلے یہ علاقہ جنوبی بہار کے نام سے جانا جاتا تھا جو معدنیات اور کوہ وبیاباں کا علاقہ تھا اور تعلیمی و معاشی سطح پر کافی پسماندگی کا شکارتھا، تعلیمی اداروں خاص کر مکاتب و مدارس جو خالص اردو ذریعہ تعلیم کے ادارے ہوتے ہیں اورجن کا ذکر کیے بغیر اردو زبان و ادب کے ارتقا کی باتیں کرنا بے معنی ہوں گی کاتقریباً فقدان تھا۔ شمالی بہار کے مقابلے میں سرکاری امداد یافتہ ادارے بھی کافی کم تعداد میں تھے، جس کی وجہ سے اردو ذریعہ تعلیم کے لیے اسکولوں کی تعداد کافی کم تھی تاہم ریاست جھارکھنڈ میں اردو زبان و ادب کے ارتقاء کے تعلق سے بھی تعلیمی اداروں کا جائزہ لینے کے لیے ان اداروں کی نوعیت اور موجودہ صورت حال کا مکمل جائزہ لینا پڑے گا۔ 
جھارکھنڈ کے ان تعلیمی اداروں کو جہاں یا تو اردو کی تعلیم ایک مضمون کی حیثیت سے دی جاتی ہے یا پھر ایسے ادارے جہاں مکمل طور پر اردو ذریعہ تعلیم کا نظم قائم ہے انہیں ہم چار خانوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔1 خالص سرکاری تعلیمی ادارے۔2 سرکاری امداد یافتہ تعلیمی ادارے۔ 3 نجی یا پرائیوٹ اسکول۔4دینی مکاتب و مدارس۔
1۔ خالص سرکاری تعلیمی ادارے:
ریاست جھارکھنڈ کایہ علاقہ جو کبھی ریاست بہا ر کا جنوبی علاقہ تھا۔ یہاں پرائمری سطح سے ہائی اسکولوں تک کے ہزاروں تعلیمی ادارے ایسے تھے جن کا ذریعہ تعلیم اردو تھا اور میڑک تک تقریباً سبھی سوالات ہندی کے ساتھ اردومیں دیے جاتے تھے۔ بڑی تعداد میں طلبا و طالبات فارسی رسم الخط کے ذریعے میٹرک کا امتحان دیا کرتے تھے، لیکن دھیرے دھیرے اردو کے علاوہ دیگر مضامین کی کتابیں اردو میں چھاپنا بند کردیا گیا، 1982 میں بڑی تعداد میں اردو اساتذہ کی تقرریاں کی گئیں لیکن 1982 کے بعد اردو اساتذہ کی بحالی بھی تقریباً رک گئی۔ اردو اسکولوں میں ایسے اساتذہ کی تقرریاں کی جانے لگیں جن کا اردو سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ متعدد ایسے اردو اسکول تھے جہاں سوفی صد اساتذہ غیر اردو داں ہونے لگے۔ اردو میں سوالات کی فراہمی روک دی گئی۔ سرکاری طور پر مفت کتابوں کی فراہمی سرکاری اسکولوں سے اردو کو باہر کرنے میں تابوت کی آخری کیل کا کام کیا، اگرچہ کتابوں کی سپلائی میں تاخیردوسرے مضامین کی کتابوں میں بھی ہوئیں لیکن اردو کتاب کی فراہمی مکمل طورپر روک دی گئی۔ جھارکھنڈ کو وجود میں آئے17 سال ہوگئے لیکن اس پوری مدت میں اردو کتابوں کی فراہمی محض دو بار کی گئی۔لیکن جھارکھنڈ میں کم ازکم سرکاری سطح پر اردو کی سرپرستی نہیں ہوسکی۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ خالص اردو مڈیم کے اسکولوں میں بھی اب اردو محض ایک مضمون کے طور پر پڑھائی جانے لگی وہ بھی کتابوں کے بغیر۔ لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ خالص سرکاری اردو اسکولوں کا ظاہری و جود تو اب تک باقی ہے لیکن اردو زبان ادب کے ارتقا کے نقطۂ نظر سے حالات انتہائی مایوس کن ہیں۔
2۔ سرکاری امداد یافتہ تعلیمی ادارے 
سرکاری امداد یافتہ تعلیمی اداروں میں سرکاری اقلیتی اسکول اور مدارس دونوں آتے ہیں۔ سرکاری اسکولوں کی تعداد بہت زیادہ نہیں۔ اقلیتی اردو اسکول رانچی، جمشیدپور، دھنباد،ہزاری باغ اور کچھ شہری علاقوں میں ہیں تاہم یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اقلیتی اسکولوں کے حالات سرکاری اسکولوں کے بہ نسبت قدرے بہتر ہیں۔ جہاں تک ریاست جھارکھنڈ کے سرکاری امداد یافتہ مدارس کی بات ہے تو ان کی بھی بڑی تعداد ریاست بہار کے شمالی علاقے میں زیادہ تھی، ریاست جھارکھنڈ میں ان کی کل تعداد 185 کے آس پاس ہے۔اگرچہ ان مدارس کے حالات بھی بہت اچھے نہیں ہیں مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کا اب تک قیام عمل میں نہیں آنے کے باوجود،انٹر کونسل سے امتحانات کی سہولت اور کالج کی ڈ گری کے مساوی، وسطانیہ، فوقانیہ، مولوی، عالم، فاضل کی ڈگریوں کی منظوری کی وجہ سے ان مدارس سے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں طلبا بورڈ کے امتحان میں شرکت کرتے ہیں جس کی وجہ سے اس بات سے ہرگز انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ریاست جھارکھنڈ میں اردو زبان و ادب کے ارتقاء میں ان اداروں کا اہم کردار ہے۔
3۔ نجی یا پرائیوٹ ادارے:
اردو زبان کی ترویج و ارتقا میں پرائیوٹ یا سوسائٹیوں کے ذریعے قائم کردہ، نجی اسکولوں کا کردار بھی کا فی اہم ہے۔ ایسے متعدد اسکول جھارکھنڈ کے تقریباً سبھی شہروں میں قائم ہیں خاص طور پر جمشیدپور کے کریمیہ ایجوکیشنل ٹرسٹ اور کبیریہ ایجوکیشنل ٹرسٹ کی خدمات کوبھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، ان دو ٹرسٹوں کے ذریعے متعدد اسکول اور کالج شہر جمشیدپور میں پوری کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں جن میں اردو زبان و ادب کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔
ریاست کی راجدھانی رانچی میں کئی سوسائٹیوں کے ذریعے پرائمری سطح سے لے کر کالج تک کے تعلیمی ادارے اس وقت چل رہے ہیں اور دن بہ دن ان میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ انجمن اسلامیہ رانچی جسے امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد نے قائم کیا تھا، اس انجمن کی سرپرستی میں پرائمری سے میٹرک تک کی تعلیم کے لیے مولانا آزاد ہائی اسکول نصف صدی سے قائم ہے، اس کے علاوہ مولانا آزاد کالج اور کئی چھوٹے بڑے اداروں کو جہاں اردوکی تعلیم خصوصی طورپر دی جاتی ہے انجمن کی سرپرستی حاصل ہے۔ادریسیہ ویلفیئر سوسائٹی، ملی تعلیمی مشن،خواجہ غریب نواز ایجوکیشنل ٹرسٹ، قریشی ویلفیئر سوسائٹی کے ذریعے پرائمری سے ہائی اسکول سطح کے اردو میڈیم اسکول اس شہر میں اردو زبان و ادب کے مستقبل کی ضمانت کے طور پراپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
یہی نہیں بلکہ ادھر 17سالوں کے اندر جھارکھنڈ کے کئی شہروں خصوصاً رانچی،جمشیدپور اور دھنباد میں نئے انداز کے ایسے انگلش میڈیم اسکولوں کے قیام کا سلسلہ چل پڑا ہے جہاں عربی کے ساتھ اردو ایک مضمون کی حیثیت سے نہ صرف داخل نصاب ہے بلکہ اس کی معیاری تعلیم کا باقاعدہ نظم ہے اور سرکاری اسکولوں میں اردو تعلیم کے انحطاط کے خلا کو پر کرنے میں ان کا کردار کافی اہم ہے ان شہروں میں ذاتی طور پر اسکول چلانے والوں کی خدمات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتاہے۔ ایسے متعدد اسکول ان دنوں شہرمیں بہت کامیابی کے ساتھ چل رہے رہیں جن میں اردو کی باقاعدہ تعلیم کا نظم ہے۔ریاست گیر پیمانے پر ایسے اسکولوں کی تعداد بھی کافی ہے۔
4۔ مدارس و مکاتب:
اگر یہ کہا جائے کہ مدارس و مکاتب اردو زبان وادب کی زندگی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا کام کر رہے ہیں تو بیجانہ ہوگا، ا س میں کوئی شک نہیں کہ ملک گیرسطح پر اردو زبان کو زندہ و تابندہ رکھنے میں مدارس کا کردار سب سے اہم ہے۔جھارکھنڈ کے تعلق سے بھی اردو زبان و ادب کے ارتقاء اور اس کی ترویج میں مدارس کا کردار کافی اہم ہے۔گوکہ مدارس و مکاتب کا نظام یہاں کافی دیر سے قائم ہوا۔ مولانا آزاد جن کی چار سالہ نظربندی اگرچہ خود ان کے لیے سزارہی ہو لیکن اس خطہ کے لیے نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں تھی۔ مولانا آزاد شہر رانچی میں چار سال تک نظر بند رہے۔ اپنی کتاب ’تذکرہ ‘ میں انھوں نے اس پورے علاقہ کی تعلیمی پس ماندگی، معاشی بدحالی، تہذیبی انحطاط کا جس انداز میں ذکر کیا ہے اس سے یہی معلوم ہوتاہے کہ یہ پورا خطہ جو اس وقت جھارکھنڈ ریاست سے موسوم اور زبان و ادب کے نقطہ نظر سے یاپھر تعلیمی اداروں،مدارس و مکاتب کے لحاظ سے بالکل بنجر اور ناقابل ذکر تھا۔ پوری آبادی قبائلی تہذیب و ثقافت کی آئینہ دار نظر آتی ہے۔ مولانا آزادنے اپنی نظر بندی کے دوران رانچی شہر کے حوالے سے اپنی کتاب’تذکرہ ‘میں اس شہر کا یوں ذکرکیا ہے :
’’اس وقت کہ یہ غم نام�ۂ حسرت لکھ رہا ہوں،رانچی میں شہر سے باہر مورابادی نامی ایک گاؤں کے قریب تنہا مقیم ہوں..........یہ تمام علاقہ ہندوستان کی وحشی اقوام کا مسکن ہے جو کول، اُراوں، منڈا وغیرہ ناموں سے مشہور ہیں۔ شاید اسی مناسبت سے اپنی وحشت نے بھی یہی مسکن منتخب کیا۔ 
اس خانما ں خراب نے ڈھونڈھا ہے گھر کہاں ؟
اس گاؤں میں بھی تمام تر وہی لوگ آباد ہیں۔ صرف چار پانچ بنگلے چند بنگالیوں نے بنا لیے ہیں۔ کبھی کبھی گرمیوں میں آکررہتے ہیں۔ انھیں میں سر رابندر ناتھ ٹیگور مشہور بنگالی شاعر کاخاندان بھی ہے اور ایک چھوٹی سی پہاڑی پر آباد ہے۔ کارساز قدرت کی بھی کچھ عجیب کرشمہ سازیاں ہیں! ایک مدت سے جس فراغ خاطر اور آزادی فکر و عمل کو طبیعت ڈھونڈتی تھی مگر اشگال و علائق کی کثرت سے نہیں ملتی تھی، حتیٰ کہ اس کی وجہ سے صحت جسمانی نے بھی جواب دے دیا تھا۔ اب ملی بھی تو کس بھیس میں! دنیانے جلا وطنی اور نظر بندی کی خبر سنی اور دل نے خلوت گزینی و گوشہ گیری کی دولت و سعادت پائی۔‘‘(مولانا ابوالکلام آزاد: تذکرہ صفحہ 333) 
اس دور میں اِکا دُکا مکاتب کا پتہ چلتاہے، شہر رانچی میں صرف ایک مکتب چراغ علوم کے نام سے قائم تھا، جمشیدپور شہر ابھی تک شہریت کی شکل بھی اختیار نہیں کرسکا تھا،بوکارو کا وجود نہیں تھا۔ دھنباد بھی ایک معمولی قصبہ کی حیثیت رکھتا تھا۔
چنانچہ مولانا آزاد نے اس صورت حال سے متاثر ہوکر 1917 میں انجمن اسلامیہ کی بنیاد رکھی اور مدرسہ اسلامیہ کے نام سے ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا۔ یہ مدرسہ ریاست جھارکھنڈ کا پہلاباقاعدہ مدرسہ تھا، اس ادارے کے قیام کے ساتھ ہی گویا ایک انقلابی تبدیلی رونما ہونے لگی۔ تعلیمی بیداری کے ساتھ ہی اردو تہذیب و ثقافت کے چرچے ہونے لگے، چنانچہ 1960 میں دو بڑے مدرسے مدرسہ حسینیہ رانچی، دارالعلوم اسلام نگر رانچی، گریڈیہہ، پاکڑ، مدرسہ فیض العلوم جمشیدپور کے علاوہ مدارس ومکاتب کا ایک نیٹ ورک پورے علاقے میں کام کرنا شروع کردیا۔ اس وقت پوری ریاست میں سیکڑوں کی تعداد میں بڑے یا میڈیم درجے کے مدارس اورہزاروں کی تعداد میں شہر،قصبات اور مسلم بستیوں میں باقاعدگی کے ساتھ چل رہے ہیں اور ریاست جھارکھنڈ میں اردو زبان کے مستقبل اوراس کی بقا کے ضامن بنے ہوئے ہیں۔ 
مکاتب و مدارس کے نظام میں مسلک و مکاتب فکر کی جماعتوں یا اداروں کا کردار کافی اہم ہے۔ اگرچہ مختلف مکاتب فکر کی جماعتوں کی ترجیحات میں اپنے نظریات وفکر کی ترویج و اشاعت ہوتی ہے لیکن اس سے تعلیم کا فروغ ہوتاہے اور بالواسطہ طور پر اس سے اردو زبان و ادب کو بھی فروغ ملتاہے۔ چنانچہ حالیہ چند برسوں سے جمیعتہ العلمائے ہند کے ذریعہ مولانا شہاب الدین قاسمی کی نگرانی میں سکیڑوں کی تعداد میں مکاتب کا قیام عمل میں آیا۔ظاہر ہے ان مکاتب کی بنیادی تعلیم دینیات اور اردو ہے۔ اس طرح سلفی مسلک کے مکاتب کا نظام مولانا عقیل اختر کی کوششوں سے سنتھال پرگنہ میں کافی تیزی سے بڑھ رہاہے۔ مکاتب و مدارس کے قیام میں امارت شرعیہ، ادارہ شرعیہ، جماعت اسلامی کی خدمات بھی کا فی اہم ہیں۔ جن کے اسکولوں اور مکتب کا ایک مضبوط نیٹ ورک تیزی سے آگے بڑ ھ رہاہے۔ 
اعلیٰ تعلیم(اردو)
اعلیٰ سطح پر تعلیمی نظام کی بات کی جائے تو ریاست جھارکھنڈ میں کل گیارہ یونیورسٹیاں ہیں جن میں سے دس ریاستی سطح کی یونیورسٹی ہے جبکہ ایک قومی سطح کی۔ ان یونیورسٹیوں میں سے پانچ یونیورسٹیوں میں آرٹ اور ہیومینٹی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ باقی یونیورسٹیاں تکنیکی تعلیم سے تعلق رکھتی ہیں۔ان پانچ یونیورسٹیوں میں سب سے پرانی رانچی یونیورسٹی رانچی ہے۔ جس کا قیام 1960 میں عمل میں آیا۔ جبکہ یونیورسٹی کے قیام کے بارہ سالوں بعد یعنی 1972 میں شعبے اردو قائم ہوا اور اردو کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا۔ شعبہ کے پہلے صدر جناب سمیع الحق تھے جو جھارکھنڈ سے تعلق رکھنے والے ایک اہم ناقد و محقق ہیں۔ ان کے بعد اردو ادب کے مشہور و معروف ناقد پروفیسر وہاب اشرفی شعبۂ اردو رانچی یونیورسٹی سے جڑے اور صدرشعبۂ اردو ہوئے۔
وہاب اشر فی کا اس شعبے سے جڑنا ایک اہم محرک ثابت ہوا اور رانچی شہر میں اردو زبان و ادب کی تعلیم کے فروغ کے لیے نہ صرف انہوں نے تحریک چلائی بلکہ ایک خاص ماحول بھی قائم کیا۔ ان کے عہد میں ڈاکٹر پروفیسر احمد سجا د، پروفیسر ابوزر عثمانی، سمیع الحق اور ش اختر جیسے مشہور و معروف ادیب ہوئے۔ اور ان کے ذرابعد صدیق مجیبی، ڈاکٹر حسن رضا، عبدالقیوم ابدالی، ڈاکٹر جمشید قمر،طحہٰ شمیم، ڈاکٹر شہناز رانا،ڈاکٹر کہکشاں پروین اورڈاکٹر سرور ساجد جیسے نام قابل ذکر ہیں۔ فی الوقت ڈاکٹرطٰحہٰ شمیم صدرشعبہ اردو ہیں۔ اردو پڑھنے والے طلبہ کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے اورتحقیق کا کام بھی تشفی بخش ہے۔ شعبہ اردو رانچی یونیورسٹی کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ 1977 میں یہاں تیسری آل انڈیا اردو یونیورسٹی ٹیچر س کا نفرنس منعقد ہوئی۔ اس کے علاوہ شعبے کی طرف سے اردو سیمینار وغیرہ ہوتے رہتے ہیں۔ ریاست جھارکھنڈ میں ریاست کی دوسری یونیورسٹیوں کے مقابلے زیادہ فعال اور متحرک شعبۂ اردو رانچی یونیورسٹی ہی ہے۔
رانچی یونیورسٹی کے بعد 10جنوری 1992 کو سید و کانہو مورمو یونیوسٹی دمکا ضلع میں قائم ہوئی۔جہاں بی اے اور ماسٹر ڈگری کی پڑھائی ہو تی ہے۔ رانچی یونیورسٹی کے علاوہ اردو کی تعلیم جس یونیورسٹی میں تشفی بخش ہے وہ وینوبابھاوے یونیورسٹی،ہزاری باغ ہے۔ اس یونیورسٹی کا قیام 17ستمبر 1992 کو ہوا۔ یہاں باضابطہ طور پر شعبہ اردو قائم ہے اور فی الوقت ڈاکٹر زین رامش صدرشعبہ اردو ہیں۔ شعبے سے جڑا ایک بے حد اہم نام معروف محقق و مرتب جناب ڈاکٹر ہمایوں اشرف ہے۔ اس یونیورسٹی سے منسلک ایک اہم کالج ’سنت کولمبس کالج‘ ہے یہ ریاست جھارکھنڈ کا ایک اہم کالج ہے اور تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ سنت کولمبس کالج غالباً ریاست جھارکھنڈ کا سب سے قدیم اور پہلا کالج ہے۔یہ کالج تقریباً 118سال پرانا ہے۔جو 1899 میں ہزاری باغ میں قائم ہوا یہ کالج کلکتہ یونیورسٹی سے منسلک تھا۔ پھر بہار یونیورسٹی اور رانچی یونیورسٹی رانچی سے منسلک ہوتے ہوئے ابھی یہ وینوباوے یونیورسٹی سے منسلک ہے۔ 
اردو زبان و ادب کے حوالے سے سنت کولمبس کالج کی اہمیت یہ ہے کہ ریاست جھارکھنڈ میں اردو تعلیم کا سب سے پہلا شعبہ اسی کالج میں قائم ہوا جبکہ اس شعبے کے پہلے استاد جھارکھنڈ کے پہلے افسانہ نگار جناب مسلم عظیم آبادی تھے۔ 
2007 میں جھارکھنڈ میں آرٹ اور ہیومینٹی کی دو اور یونیورسٹیاں قائم ہوئیں۔ نلامبر پتامبر یونیورسٹی، پلاموں اور کولہان یونیورسٹی،چائباسہ ان دونوں یونیورسٹیوں میں اردو کے شعبے قائم ہیں۔ کولہان یونیورسٹی میں صدرشعبہ اردو ڈاکٹر رقیہ بانو ہیں جبکہ نیلامبر پتامبر یونیورسٹی میں جناب ڈاکٹر اے جے خان صدر شعبہ اردو ہیں۔ 
اس کے علاوہ 2009 میں سنٹرل یونیورسٹی آف جھارکھنڈ رانچی کا قیام عمل میں آیا لیکن افسوس کہ اس یونیورسٹی کو قائم ہوئے 8سال ہوچکے ہیں چائنیز، کورین، تبیتین، انگریزی وغیرہ کے شعبے تو ہیں لیکن اب تک اردو زبان کو اس یونیورسٹی میں جگہ نہیں مل پائی ہے۔ 
انجمن و ادارے اردو کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اردوزبان و ادب کے حوالے سے مختلف قسم کے سمینار، مشاعرے، تحریکات اور زبان و ادب سے متعلق مختلف سرگرمیوں میں ان انجمنوں واداروں کا کافی اہم حصہ ہوتاہے۔ اس حوالے سے ریاست جھارکھنڈ میں اگرنظر ڈالی جائے ہیں تو ایسی ادبی سرگرمیوں کی بھی کوئی کمی نظر نہیں آتی۔
جہاں تک جھارکھنڈ میں کسی ادبی انجمن کے نقش اول کی بات کی جائے تواب تک کی تحقیق کے مطابق سب سے پہلا باقاعدہ ادبی انجمن شہر جمشیدپور میں ’بزم ادب‘ کے نام سے قائم ہوئی۔ اس کے قائم کرنے والے ریاست جھارکھنڈ کے معروف شاعر رونق دکنی سیمابی تھے جنھوں نے بزم اردو کی شروعات 1922 میں کی اور جمشیدپور میں پہلی شعری نشست کا اہتمام کیا۔اس سے پہلے ریاست جھارکھنڈ کے پہلے شاعر غنی رانچوی کی سر پرستی میں شعرو ادب کی محفلیں جم چکی تھیں۔1936 سے شہر جمشید پور میں ادبی تحریک کا آغاز ادارہ دائرۃ الادب کے قیام کے ساتھ ہوا اور اسی ادارے کے زیر اہتمام پہلے کل ہند طرحی مشاعرے کا باضابطہ آغاز ہوا۔ اس کے بعد ایک اوراہم ادارہ ریاست کے معروف شاعر سیماب اکبرآبادی کے شاگردوں نے 1939 میں ساکچی، جمشیدپور میں سیماب لٹریری سوسائٹی کے نام سے قائم کیا۔ 
1939 میں اردو کے مشہور معروف فکشن نگار سہیل عظیم آبادی رانچی تشریف لائے۔ ریاست جھارکھنڈ میں اردو تحریک کو عام کرنے میں سہیل صاحب کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ 1939 میں سہیل عظیم آبادی بابائے اردو مولوی عبدالحق کی ہدایت پر انجمن ترقی اردو ہند کی جانب سے ریاست جھارکھنڈ (جو اس وقت چھوٹاناگپور کے نام سے جانا جاتاتھا) میں اردو زبان کی ترویج و اشاعت کے لیے رانچی تشریف لائے اور 1949 تک یعنی تقریباً دس سال رانچی شہر میں ان کا قیام رہا۔
سہیل عظیم آبادی نے قیام رانچی کے دوران نہ صرف اردو زبان کو غیر اردو داں طبقے تک پہنچانے کا کام کیا بلکہ ان کی کوششوں سے اردو داں طبقے میں اردو زبان و ادب کی تحریک بھی پیدا ہوئی۔ 
سہیل صاحب نے رانچی پہنچ کر سب سے پہلے اردو مرکز قائم کیا اور مرکز کے تحت اردو زبان کی اشاعت میں پوری سرگرمی سے جڑ گئے غیر اردو داں میں اردو زبان کی ترویج و اشاعت کے ساتھ ساتھ یہاں کے اردو داں طبقہ کو بھی متحرک کرتے رہے۔ شہر رانچی میں ان کے ذریعے اردو کے حوالے سے جو بھی کام کئے گئے اس حوالے سے اس علاقے کے لیے ان کا ایک تاریخی اقتباس بہت مشہور ہے جس کی شمولیت کے بناریاست کی ادبی تاریخ لکھنا ناممکن ہے ملاحظہ کریں سہیل صاحب کا بیان خود انہی کی زبانی:
’’ بابائے اردو مولوی عبد الحق کی ہدایت کے مطابق میں نے رانچی میں اردو مرکز قائم کیا اور آدی واسیوں میں اردو زبان کو پھیلانے اور مقبول بنانے کا کام شروع کیا۔ اس وقت چھوٹا ناگپور میں اردو کا چلن کم تھا۔ صرف مسلمان ہی اردو پڑھتے تھے سرکاری دفتروں میں اس کی رسائی نہیں تھی۔ اور تعلیم بھی کم تھی۔ البتہ وہاں عیسائی مشن نے اپنی مصلحتوں کی بنا پر ذریعہ تعلیم ہندی کو بنا رکھا تھا... یہ میرے لیے بڑی پریشانی کی بات تھی لیکن چند ہی دنوں میں میری یہ مشکل آسان ہوگئی۔ میرے ایک عیسائی ملاقاتی مسٹر تھیوڈرسنجنی نے بتایا کہ دو آدیواسی خواتین ہیں جنھوں نے اردو پڑھی ہیں..... یہ خبر میرے لیے قدرتی طور پر خوش کن تھی..... میں مسٹر تھیوڈرسنجنی کے ساتھ مسز ٹوپو سے ملا..... مسز ٹوپو نے ساتھ کام کرنے پر آمادگی ظاہر کی ان کی بڑی بہن بھی کام کرنے کے لیے تیار ہوگئیں۔دونوں بہنوں نے دوتعلیمی مرکز قائم کیے..... مسز ٹوپو گھر گھر جاکر لڑکوں اور لڑکیوں کو اردو پڑھنے پر آمادہ کرتی تھیں، ان کی کوششوں سے آدی واسی لڑکے اور لڑکیوں کی کافی تعداد ان دونوں مدرسوں میں اردو پڑھنے لگی۔ اردو مرکز کو توقع سے زیادہ کامیابی ملنے لگی۔ پڑھنے والوں کی تعداد روز بروز بڑھنے لگی بابائے اردو مرحوم اتنے خوش ہوئے کہ وہ خود اسے دیکھنے کے لیے رانچی تشریف لائے۔‘‘
انجمن ترقی اردو ہند کے ساتھ ساتھ سہیل عظیم آبادی نے ترقی پسند تحریک و نظریات کے فروغ میں کافی اہم کردار نبھایاہے۔ 1944 میں رانچی میں ’ انجمن ترقی پسند مصنّفین ‘کا قیام عمل میں آیا۔رانچی کے بعد شہر جمشیدپور میں 1948 میں ’انجمن ترقی پسند مصنّفین ‘ کی بنیاد سہیل واسطی نے ڈالی۔اس کے بعد ریاست کے دوسرے شہروں میں بھی انجمن کا قیام عمل میں آیا۔اس کے علاوہ ریاست جھارکھنڈ میں اردو کے مختلف ادبی ادارے مختلف شہروں میں قائم کیے گئے۔ مثلاً انجمن ترقی اردو ہند جمشیدپور، سیماب لٹریری سوسائٹی، اردو قبیلہ،بزم ادب، انجمن خدام اردو، شائقین ادب،حلقہ شائق،محفل ادب، اردو سماج وغیرہ (جمشیدپور)۔بقائے ادب،حلقہ ادب، کاروان اردو، مجلس ادب، مرکزادب و سائنس (رانچی) ہماری انجمن رانچی۔حلقہ مہجور، (پلاموں) وغیرہ۔ اس کے علاوہ مختلف قسم کے ادبی ماہنامے، سہ ماہی رسالے تواتر سے شائع ہو رہے ہیں اس طرح ریاست جھارکھنڈ میں ملک کے دیگر علاقوں کی طرح اردو زبان ترقی کے منازل طے کرتی رہی جوآج بھی جاری ہے۔

Dr. Mohd Imran
Nezam Nagar Road No 2
Hind Piri Ranchi (Jharkhand)
Mob.: 7277717520




اردو دنیا۔ شمارہ   اگست   2018





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

4 تبصرے:

  1. جھارکھنڈ میں اردو زبان کی صورت حال،ڈاکٹر محمد عمران صاحب کا مضمون بہت ہی اچھا لگا۔شکریہ عبدالحمید

    جواب دیںحذف کریں
  2. عمران صاحب مضمون بہت عمدہ اور مرے لئے کار آمد ثابت ہوا، شکریہ

    جواب دیںحذف کریں