13/12/18

اورنگ آباد کے صوفیائے عظام: حیات اور تعلیمات. مضمون نگار:۔ قاضی نوید احمد صدیقی






اورنگ آباد کے صوفیائے عظام: حیات اور تعلیمات

قاضی نوید احمد صدیقی

اورنگ آباد جہاں ایک طرف علمی، ادبی اور تاریخی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے وہیں دوسری طرف یہ شہر خجستہ بنیاد روحانیت کے مرکز کی حیثیت سے بھی اپنی شناخت رکھتا ہے۔ اورنگ زیب عالمگیر کے دورِحکومت میں اس شہر کو ایک طرح سے مرکزیت حاصل ہوچکی تھی۔ اندرون و بیرون تاجروں کی آمد کے ساتھ ساتھ صوفیائے کرام بھی اس شہر کو گوشۂ عافیت جان کر یہیں مقیم ہوگئے۔ انھوں نے اپنی خانقاہیں اور تکیہ جات تعمیر کروائے۔ سلسلہ مشائخین چشتیہ کی بنیاد اورنگ آباد میں ڈالنے والے بزرگ تھے۔ حضرت شاہ نور حمویؒ 1666 میں اورنگ آباد آئے۔ بچپن ہی میں آپ کے والد عبداللہ بن سید ابوالعلیٰ کا انتقال ہوچکا تھا۔ آپ نے علومِ ظاہری و باطنی اپنی والدہ ماجدہ سے حاصل کیے۔ آپ حضرت شرف الدین قطب حمویؒ سے بیعت تھے۔ آپ کا وصال 1698 میں ہوا۔ ان کے خلیفہ سید شہاب الدین نے اپنے پیرومرشد کے مزار پر ایک گنبد بنوایا اور تکیہ میں مسجد اور خانقاہ بھی تعمیر کروائی اور ایک مدرسہ بھی قائم کیا تھا جس میں تقریباً دو سو طلباء کے قیام و طعام کا انتظام تھا۔ 
اورنگ زیب کے عہد حکومت کے اواخر میں مرہٹوں نے مغلیہ علاقوں پر تاخت شروع کردی تھی۔ اس لیے اورنگ زیب بذات خود مرہٹوں کا قلع قمع کرنے دکن چلے آئے۔ یہاں ایک واقعہ کا ذکر کرتا چلوں جو میں بچپن سے سنتا آیا ہوں اور ڈاکٹر مرزا محمد خضر بیگ نے بھی اپنی کتاب ’تاریخ کے جھروکے سے‘ میں رقم کیا ہے۔ ایک دن اورنگ زیب نے اپنے معتمد خاص امانت علی کو اہم دستاویزات دہلی سے لانے کا حکم دیا۔ امانت علی وقت مقررہ پر دستاویزات لے آئے لیکن اورنگ زیب نے جب دستاویزات ملاحظہ کیے تو ان میں ایک اہم فائل نہیں تھی جس کی وجہ سے اورنگ زیب کو کئی شکوک و شبہات نے مضطرب کردیا۔ امانت علی پر غصہ و سرزنش کی وہ مار پڑی کہ خدا کی پناہ۔ آخر امانت علی شاہ نور حمویؒ کی روحانی قوت سے مطلوبہ میعاد میں دہلی سے وہ فائل لانے میں کامیاب ہوئے اور امانت علی شاہی عتاب سے محفوظ رہے۔ اورنگ زیب کو جب تمام روداد معلوم ہوئی تو وہ شاہ نور حمویؒ کے معتقد ہوگئے اور ان کے آستانے پر حاضری دی۔
دولت آباد کے ہندو سنت شری مونی بابا کے اور شاہ نور حمویؒ کے دوستانہ مراسم تھے۔ شری مونی بابا نے اپنے ہاتھ سے شاہ نور حمویؒ کی تصویر بنائی تھی جو آج بھی مونی بابا کی سمادھی کے پجاری کے پاس محفوظ ہے۔ جب شاہ نور بابا کا عرس ہوتا ہے تو صندل و پھول مونی بابا کی سمادھی سے بھی بھیجے جاتے تھے اور جب مونی بابا کی سالانہ یاترا ہوتی تھی تب شاہ نور حمویؒ کی درگاہ سے پھولوں کی چادر روانہ کی جاتی تھی۔ آج تعصب بھرے دور میں یہ سماجی یکجہتی دلوں کے لیے فرحت بخش ہے۔
سید عبدالقادر خادم الاولیاء کا شمار بھی اورنگ آباد کے بزرگوں میں ہوتا ہے۔ آپ کا سلسلہ راست حضرت غوث اعظم سے ملتا ہے یہاں آکر وہ حضرت شاہ نور حموی کے مرید ہوگئے اور حضرت نور حموی نے انھیں خلافت بھی دی۔ اورنگ زیب آپ کے حلقہ بگوش تھے بالخصوص اورنگ زیب کی بیوی نواب بائی قادرالاولیاء کی مریدہ تھیں۔ آپ کا وصال 1098 میں ہوا۔ آپ کی درگاہ محلہ اسمٰعیل پورہ اندرون ظفر دروازہ واقع ہے لیکن عوام الناس میں یہ محلہ نواب پورہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ڈاکٹر فاروق محمد خان صاحب مرحوم کے ایک مضمون کے مطابق نواب بائی کے نام پر اس محلہ کا نام نواب پورہ ہوا۔ قادرالاولیا نے بھی ایک خانقاہ اور مسجد تعمیر کروائی تھی، آپ کا کتب خانہ بھی بہت بڑا تھا، اس میں بہت سارے مخطوطات اور قرآن مجید کے نسخے تھے۔ 
شہر اورنگ آباد کی مذہبی و ثقافتی زندگی میں بابا سعید پلنگ پوش اور بابا شاہ مسافر کی خدمات قابل تعریف اور ناقابل فراموش ہیں جن کے فیوض و برکات آج بھی جاری ہیں۔ تاریخ عالم میں پن چکی کو ایک امتیازی مقام حاصل ہے۔ پن چکی کا شمار ہندوستان کے مشہور تاریخی مقامات میں ہوتا ہے اور اس مقام کو دیکھنے کے لیے ہر برس ہزاروں سیاح ملک و بیرون ملک سے کھنچے چلے آتے ہیں۔ پن چکی کو اور اس کی وجہ سے شہر اورنگ آباد کو جو مقام حاصل ہوا ہے وہ ان دو صوفیائے کرام کا مرہون منت ہے۔یہ دونوں بزرگ پن چکی کی مسجد سے متصل درگاہ میں محواستراحت ہیں۔ 
حضرت سعید پلنگ پوش کا نام محمد سعید تھا۔ آپ کی پیدائش دس ہجری میں بخارا کے ایک گاؤں عجدوان میں ایک متمول گھرانے میں ہوئی۔ ایک دن آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کہیں جارہے تھے کہ راستے میں ایک نورانی بزرگ بابا قل کو دیکھا اور اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر بزرگ کے پیچھے ہولیے۔ بابا قل نے انھیں بہت سمجھایا پر وہ نہ مانے۔ ڈاکٹر ثاقب انور اپنی کتاب ’صریرخامہ‘ میں لکھتے ہیں کہ باباقل شب کو اپنے حجرہ میں استراحت فرماتے تو آپ حجرے کی دیوار سے لگے کھڑے رہتے کہ پتہ نہیں کب باریابی نصیب ہو۔ ایک مرتبہ باباقل بخارا کی مسجد کے حجرے میں آرام فرما رہے تھے اور محمد سعید حسب عادت دیوار سے لگے کھڑے تھے اتنے میں حجرے سے آواز آئی کون ہے؟ محمد سعید نے جواب دیا ’’حضرت آپ کا فقیر‘‘ اس جواب سے باباقل بے حد متاثر ہوئے۔ بڑی محبت اور شفقت سے حجرے میں بلایا، بیعت و خرقہ سے نوازا اور حضور اقدسؐ کی سنتوں کو اپنی زندگی کا شعار بنانے کی تلقین کر کے تربیت شروع کردی۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں باباقل نے حضرت محمد سعید کو مزید تربیت کے لیے اپنے پیر بھائی شیخ درویش عزیزاں کے سپرد کیا۔ کچھ عرصے بعد شیخ درویش عزیزاں نے محمد سعید کی تربیت کی تکمیل کے بعد آپ کو رخصت کیا۔ یہاں محمد سعید کی دنیا ہی بدل گئی تھی۔ عشق حقیقی میں جذب کی کیفیت طاری ہونے لگی اور آپ دنیا و مافیہا سے بے خبر صحرانوردی کرنے لگے، یہاں تک کہ آپ لباس کی قید سے بھی آزاد ہوگئے۔ کچھ عرصے یہی حال رہا۔ ایک صاحب نے آپ کو چیتے کی کھال پہنا دی، اس کے بعد آپ کو ہوش آگیا اور آخری وقت تک اسی لباس میں رہے۔ اسی سبب سے لوگ آپ کو پلنگ پوش کہنے لگے۔ آپ نے بہت مسافت کی، تاشقند گئے اور پھر آخر میں اورنگ آباد تشریف لائے اور لشکرشاہی سے وابستہ رہے۔
بابا پلنگ پوش کا وجود سراپا رحمت اور مجسم شفقت تھا۔ بلاتفریق سب پر آپ کا لطف و کرم تھا۔ بچوں، بیواؤں، یتیموں اور مسکینوں پر ہمیشہ نظرالتفات رہتی تھی۔ آپ کو امراء، رؤساء اور عمائدین شہر سے جو کچھ نذریں ملتی تھیں وہ سب آپ ضرورت مندوں اور حاجت مندوں میں تقسیم کردیتے تھے۔ آپ صرف خانقاہ نشین نہیں تھے بلکہ فوج میں رہ کر ظالموں کے خلاف لڑتے تھے اور معاشرے کو مختلف برائیوں سے پاک کرتے رہے۔ آپ کی وفات 1699 کو گلبرگہ میں ہوئی۔ آپ کا جسد خاکی اورنگ آباد لایا گیا اور یہیں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔
عالمگیری عہد کے ایک اور مشہور بزرگ حضرت بابا شاہ مسافر گزرے ہیں۔ آپ کا نام محمد عاشور تھا۔ آپ کے حقیقی ماموں حضرت شاہ محمد سعید پلنگ پوش آپ کے پیرطریقت تھے۔ ماموں نے اپنے ہونہار بھانجے کو کلاہ اور خرقہ اپنے دستِ مبارک سے پہناکر خلافت عطا کی تھی اور سیاحت کی مزے داریاں چکھاتے ہوئے مسافر کے لقب سے نوازا تھا۔ بابا شاہ مسافر ایک جید عالم بھی تھے۔ یہ آپ کے علم و فضل کا صدقہ ہی تھا کہ پن چکی کو ایک دارالعلوم یا ایک یونیورسٹی کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی، جہاں سیکڑوں طالب علم روزانہ حدیث، طب، تاریخ، فقہ اور ادب کی تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔ حضرت روزانہ عشاء کی نماز کے بعد مثنوی مولانا روم کا درس دیا کرتے تھے۔ ان کے یہاں نادر روزگار کتب خانہ تھا جس میں حضرت نے علمی دنیا کے کونے کونے سے ہزاروں قلمی نسخے جمع کیے تھے، جن سے استفادہ کے لیے شمع علم کے پروانے دنیا کے دور دراز مقامات سے چلے آتے تھے۔ اس کتب خانے سے غلام علی آزاد بلگرامی جیسے نامور اہل قلم نے بھی استفادہ کیا۔ حکومت نے ان کتابوں میں سے ہزاروں قلمی نسخوں کو حیدرآباد منتقل کردیا۔
حضرت بابا شاہ مسافر کے یہاں سیکڑوں فقراء و مساکین اور یتیموں کی مستقل سکونت تھی اس کے علاوہ مسافروں اور مہمانوں کی آمد کا سلسلہ شب و روز جاری رہتا تھا۔ ان سب کے قیام و طعام کا انتظام بابا شاہ مسافر کے یہاں ہی ہوتا تھا۔ ہر روز اتنی بڑی مقدار میں آٹا پیسنا ہوتا تھا اس لیے خانقاہ کے منتظمین نے یہاں کے آبشار سے گرتے ہوئے پانی کی توانائی کو رائیگاں جانے نہیں دیا اور ایسی چکی ایجاد کی جو پانی کی طاقت سے چلا کرتی تھی۔ یہ پن چکی اپنے وقت کی اہم ضرورت کو پورا کرتی تھی۔
اورنگ آباد کا یہ دور جہاں ہولناک جنگوں، شورشوں کا دوررہا یہ بھی عجیب و غریب بات ہے کہ اسی دور میں اس شہر میں ادب، آرٹ اور کلچر اپنے شباب پر تھا۔ جنگیں، شہر سے باہر ہوتی رہیں اور اندرون شہر امن تھا۔ آزاد نے اس دور کے اورنگ آباد کو ’دارالامن‘ کہا، جہاں اس شہر میں معاشی اور مادی ترقی ہوئی وہیں یہ شہر علما و صوفیا کا مسکن رہا۔ صرف اور صرف پن چکی کے نقشبندیہ سلسلہ کے صوفیائے کرام کی روحانی تعلیمات اور خدمات خلق کی ایسی ایسی مثالیں نظر آتی ہیں کہ شاید کہیں نظر آئیں۔ اس خدمت خلق کے جذبے سے متاثر ہو کر اُس دور کے حکمراں، روسا اور امرا خطیر نذرانے پیش کردیتے تھے۔ آصف جاہی دور میں اس درگاہ کو ایک لاکھ روپے سالانہ سے زائد آمدنی ہوتی تھی۔ رفتہ رفتہ تکیہ بابا شاہ مسافر ایک عوامی فلاحی ادارہ بن گیا۔ ایک طرح سے یہ ادارہ اپنے دور کا بلاسودی بنک تھا۔
حضرت بابا شاہ مسافر جو نقشبندیہ سلسلہ سے تھے بہت سختی سے احکام قرآن اور شریعت محمدی کے پابند تھے اور اس کی تلقین بھی کرتے تھے۔ آپ نہایت نرم دل تھے، غریبوں اور مسکینوں کی اعانت فرماتے، دکھی دلوں کا مداوا کرتے، کوئی غریب آپ کو دعوت دیتا تو قبول کرتے لیکن امرا اور روسا کی دعوت میں نہیں جاتے تھے۔ آدھی رات گئے عبادت میں مصروف رہتے، فجر سے اشراق تک مراقبہ میں رہتے، اس کے بعد حدیث، فقہ اور تصوف کی کتابوں کے مطالعہ میں غرق ہوجاتے۔ نماز عصر کے بعد حاجت مندوں پر اپنی برکتیں نچھاور کرتے اور مسئلے مسائل کے جوابات دیتے۔ یہ سلسلہ مغرب تک جاری رہتا پھر عشاء تک آپ آرام فرماتے۔ عشاء کے بعد مریدوں کی تربیت کرتے۔ 25رجب المرجب 1126ھ مطابق 1714 کو آپ اس دارِفانی سے کوچ کر گئے۔ آپ کی تدفین پیر و مرشد بابا پلنگ پوش کے پہلو میں عمل میں آئی۔
انتقال سے قبل بابا شاہ مسافر نے حضرت بابا شاہ محمود کو اپنا جانشین اور خلیفہ مقرر فرمایا اور اپنے خرقۂ خاص سے نوازا۔ بابا شاہ محمود نے تاریخ اورنگ آباد میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ آپ نے طویل عمر پائی اور اپنے پیر و مرشد کے انتقال کے بعد تقریباً پچاس سال عوام الناس کی خدمت انجام دی۔ عوام کے ساتھ ساتھ امراء و رؤساء بھی آپ کے گرویدہ تھے۔ نواب میر قمر الدین آصف جاہ، نواب ناصر جنگ اور غلام علی آزاد بلگرامی سے آپ کے دوستانہ مراسم تھے۔ مرہٹہ سرداروں سے بھی آپ کے دوستانہ تعلقات تھے جنھوں نے بابا اور خانقاہ کے لیے جاگیریں دی تھیں۔
بابا شاہ محمود میں انتظامی صلاحیت کے ساتھ ساتھ تعمیرکاری کا بھی نہایت اچھا ذوق پایا تھا۔ خانقاہ کی موجودہ عمارتیں سب کی سب آپ ہی کے عہد اور آپ ہی کی نگرانی میں بنیں۔پن چکی کا باب الداخلہ جو آپ کے نام پر محمود دروازہ کہلاتا ہے، ندی پر بنا ہوا پختہ پل، باہر کا بڑا حوض اور سب سے بڑھ کر پن چکی کی جان یعنی نہر آپ ہی نے بنوائی۔ پن چکی کا موجودہ حسن اور دلکشی تمام تر بابا شاہ محمود ہی کا فیضِ جاریہ ہے۔ تعمیری کام کے علاوہ ان کی ایک قلمی یادگار ’ملفوظات نقشبندیہ‘ ہے۔ یہ بابا پلنگ پوش اور بابا شاہ مسافر کی تعلیمات وحالات کا آئینہ ہی نہیں بلکہ اپنے عہد کی تصویر ہے۔ آپ نے جمادی الآخر 1175ھ مطابق 1761 میں وفات پائی اور بابا شاہ مسافر کے گنبد کی سیڑھیوں کے بازو آپ کا مزار ہے۔
اورنگ زیب عالمگیرؒ کے انتقال (1707) کے بعد دکن میں ہر طرف انتشار اور افراتفری کا ماحول تھا۔ اس ہوش رُبا اور پُرآشوب دور میں جبکہ دینی، علمی اور ثقافتی قدریں بکھر رہی تھیں، حضرت کلیم اللہ شاہ دہلوی نے اپنے عزیز مرید و خلیفہ حضرت شاہ نظام الدین کو رشد و ہدایت کے لیے اورنگ آباد دکن روانہ کیا۔ انھوں نے برہانپور شولاپور اورنگ آباد میں قیام فرمایا، آخر میں انھوں نے اورنگ آباد کو اپنا وطن قرار دیا اور نظامیہ سلسلے کی ایک شاندار خانقاہ قائم کی۔ احسن الشمائل کے مصنف کہتے ہیں ’’جیسا فیض حضرت شاہ صاحب مدظلہ کی ذات بابرکات سے عالم کو پہنچا اور پہنچ رہا ہے شاید بزرگان سلف میں کسی سے پہنچا ہو، اس وقت تو فیض چشمہ انہی کی ذات ہے۔‘‘
حضرت خواجہ نظام الدین اورنگ آبادی کا سلسلہ نسب حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی کے واسطے سے حضرت ابوبکر صدیقؓ تک پہنچتا ہے۔ وہ حضرت شاہ کلیم اللہ کی خدمت میں علوم ظاہری کی تکمیل کے لیے گئے تھے لیکن چوں کہ شاہ صاحب علوم ظاہری کے علاوہ علوم باطنی میں بھی یگانہ عصر تھے اور روحانی اصلاح و تربیت بھی بڑی محنت و توجہ سے کرتے تھے اس لیے حضرت نظام الدین کی طبیعت بھی علوم باطنی کی تحصیل کی طرف راغب ہوگئی۔ ’مجالسِ کلیمی‘ و ’احسن الشمائل‘ کے پیش لفظ میں معروف شاعر جے پی سعید مرحوم یوں رقمطراز ہیں کہ حضرت نظام الدین نے جو خانقاہ تعمیر کروائی تھی اس کے دس دروازے تھے۔ آپ ضرورتمندوں کو اپنے سجع کی مہر دے دیتے اور وہ شخص اس افسر یا عہدیدار کے پاس پہنچ جاتا اور ا س کی مراد پوری ہوجاتی۔ اس لیے کہ ہر امیر حضرت کے حکم کی تعمیل کو اپنے لیے سعادت دارین سمجھتا تھا۔
حضرت کی صحبت میں ایک مقناطیسی کشش تھی جو شخص ان سے ملتا وہ ان کا گرویدہ ہو جاتا اور آخر بیعت کی درخواست کرتا، ان کے تقریباً ایک لاکھ مرید تھے۔ ابتدا میں وہ کسی کو مرید بنانے میں احتیاط سے کام لیتے تھے لیکن مرشد کے حکم پر عوام کو بھی حلقہ ارادت میں شامل کرنے لگے۔ حضرت کامگار خاں نے حضرت شاہ نظام الدین کے اخلاق حسنہ کو بڑی خوبی سے بیان کیا ہے۔ ان کا بیان ہے کہ وہ ہر شخص کے لیے کھڑے ہوجاتے اور اس کی تعظیم بجا لاتے۔ انتہا یہ ہے کہ چار سال کے بچے کے ساتھ بھی ان کا وہی طریقہ تھا جو ستر سال کے بوڑھے کے ساتھ ہوتا تھا۔
ان کے خلفاء میں خواجہ نور الدین حسینی (جن کی آخری آرام گاہ اورنگ آباد کے صدر ٹپہ خانہ کے روبرو ہے) اور خواجہ کامگار حسینی (جن کی آخری آرام گاہ حضرت نظام الدین کی درگاہ کے قریب ہے) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ یہ دونوں حقیقی بھائی تھے اور اورنگ آباد میں حضرت شاہ نظام الدین کے دامن تربیت سے وابستہ ہوگئے تھے۔ علمی مرتبے کی بلندی مرشد سے گہری عقیدت اور سلسلے کی تعلیم کی گہری دلچسپی کی وجہ سے خانقاہ نظامیہ میں وہ خاص عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔
عالمگیری عہد میں ایک اور بزرگ سید حیدر حسینی چشتی نظامی گجرات سے آئے۔ یہ جس جگہ رہتے تھے اسی جگہ انھوں نے ایک خانقاہ اور مسجد بنوائی۔ ان کے داماد اور بھانجے سید شاہ علی درویش جو کہ ایک اچھے انجینئر تھے انھوں نے آٹھ میل طویل ایک نہر اورنگ آباد کے جنوب میں واقع پہاڑیوں سے جاری کی۔ سید شاہ علی درویش کو نہر لانے کی وجہ سے نہری کے نام سے جانا جاتا تھا۔ ان کا تکیہ بیرون پٹن دروازہ جانب مشرق واقع ہے اور چھوٹا تکیہ کہلاتا ہے، ان کے خسر سید حیدر حسینی کے تکیہ کو بڑا تکیہ کہا جاتا ہے۔ یہ دونوں آج بھی اچھی حالت میں ہیں اور ان کے سجادگان ان دونوں کے بزرگوں کے عرس کی تقریبات انجام دیتے ہیں۔ 
ایک اور بزرگ صوفی سید شاہ غلام حسین حسینی قادری اورنگ آبادی بہت مشہور تھے۔ آپ کے والد کا نام شہاب الدین قادری تھا۔ آپ شاہ علی رضا گجراتی کے مرید اور خلیفہ تھے۔ گجرات سے اورنگ آباد آئے اور کالا دروازہ کے قریب مسجد اور خانقاہ بنوائی۔ ایک دیوڑھی مع باغ بنوایا جو نواب منزل کے نام سے آج بھی جانی جاتی ہے۔ ان کا شمار اُس زمانے کے چند عالموں میں ہوتا تھا۔ نواب ناصر جنگ شہید آپ کے مرید اور معتقد تھے اور آپ سے ملنے اکثر آپ کی خانقاہ پر آتے۔ اس دور کے بہت سارے امراء بھی آپ کے معتقد تھے۔ اکثر علماء و فضلاء بھی آپ کی خدمت میں حاضر رہتے۔ جس میں مولوی قمرالدین نقشبندی اور شیخ الاسلام جیسی شخصیتیں بھی تھیں۔ آپ شرع کے پابند تھے۔ آپ کی مجلس میں سماع نہیں ہوتا تھا۔ درس قرآن، تفسیر و تشریح اور فن حدیث پر دسترس رکھتے تھے۔ کبھی کبھی شعر بھی کہتے تھے۔ اسی لیے مولوی عبدالجبار خان ملکاپوری نے آپ کا ذکر ’تذکرۂ شعرائے دکن‘ میں بھی کیا ہے لیکن انھوں نے ان کے والد کا نام سید اسحق لکھا ہے جو درحقیقت ان کے دادا کا نام ہے۔ دوسری فاش غلطی یہ کی کہ ان کے مزار کا محل وقوع چیلی پورہ بتایا ہے جبکہ شاہ غلام حسین اپنے تکیہ واقع دیوڑھی بازار نزد کالا دروازہ دفن ہیں۔ 
شاہ غلام حسین نے عشق الٰہی کے جذبے سے سرشار ہو کر ایک مثنوی ’بطرز رومی‘ کہی ہے۔ آپ کا وصال 1176ھ م 1762 میں ہوا، آپ اپنے ہی تکیہ میں دفن ہیں۔ عوام میں آپ کی درگاہ کو ’کوڑیاں لٹتی‘ درگاہ کہا جاتا ہے۔
حضرت سید احمد شاہ گجراتی کا ذکر اس لیے ناگزیر ہوگیا ہے کہ ولی اورنگ آبادی آپ کے معتقدین میں سے تھے۔ ڈاکٹرزور کی تحقیق کے مطابق ولی یہیں دفن ہوئے۔ حالانکہ بیشتر محقق اس بات پر متفق ہیں کہ ولی کا انتقال 1707 میں احمدآباد میں ہوا اور وہ شاہ وجیہہ الدین علوی کے قریب دفن ہیں۔ لیکن ڈاکٹرجمیل جالبی کا خیال ہے کہ شاہ وجہ الدین علوی سے نسبت رکھنے والے کوئی اور ولی تھے اور مشہور شاعر ولی کا انتقال 1722 اور 1725 کے درمیان ہوا اور وہ بہرحال احمدآباد میں دفن نہیں ہیں۔ اگر جمیل جالبی کے استدلال کو صحیح مان لیا جائے تو پھر ڈاکٹر زور کی تحقیق میں وزن پیدا ہوتا ہے اور ولی کا مدفن حضرت سید احمد گجراتی کی خانقاہ ہی ٹھہرتی ہے۔
سید احمد شاہ بھی گجرات سے اورنگ آباد آئے۔ ان کی خانقاہ ظفر دروازے کے باہر ہے۔ آپ بھی اپنے مریدوں کو روحانیت کی تعلیم دیتے تھے۔ ان کے بعد اُن کے صاحبزادے حضرت شاہ شیبان شطاری خلیفہ ہوئے اور درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ حضرت شاہ شیبان شطاری پیشے کے اعتبار سے تاجر تھے۔ 
ایک اور بزرگ حضرت شیخین احمد شاہ شطاری کی درس گاہ محلہ اسمٰعیل پورہ (موجودہ نواب پورہ) میں واقع تھی۔ آپ مثنوی مولانا روم کا درس دیتے تھے۔ متذکرہ بالا بزرگوں کے علاوہ اس دور میں اور بہت سارے صوفیائے کرام اورنگ آباد میں مقیم تھے جیسے حضرت شاہ بے ریا وغیرہ۔ آپ بھی سلسلہ چشتیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ 
سراج اورنگ آبادی کا شمار بھی صوفیا کے سلسلہ میں ہوتا ہے۔ سراج کی پیدائش 13صفرالمظفر 1124ھ مطابق 11مارچ 1712 کو اورنگ آباد کے ایک سادات گھرانے میں ہوئی۔ بچپن ہی سے سراج بہت ذہین واقع ہوئے تھے۔ اُن کے والد محترم سید درویش نے اُن کی تعلیم کا اہتمام اُن کی کم عمری ہی سے کیا اور بارہ سال کی عمر تک تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ سکے۔ اس کے بعد سات سال تک سراج آشفتگی کا شکار رہے۔ اُس حالت جذب و مستی میں سراج اکثر برہان الدین غریبؒ کے روضے کے چکر لگایا کرتے تھے۔ سات برس کے بعد بے خودی کا نشہ کم ہونے لگا تو انھیں کسی مرشدبرحق کی تلاش ہوئی اور خوش قسمتی سے انھیں حضرت شاہ عبدالرحمن چشتی جیسی برگزیدہ ہستی کا اتفاق حاصل ہوگیا جو مشائخ چشتیہ میں ممتاز مقام رکھتے تھے۔ سراج کو اپنے پیرومرشد سے بڑی عقیدت تھی جس کا اظہار انھوں نے جابہ جا اپنے اشعار میں کیا ہے۔ سراج نے سات آٹھ سال کی مختصرسی مدت میں سلوک کے تمام منازل طے کرلیے تھے۔ سراج کے تکیہ پر علما، امرا، رؤسا، بغرض ملاقات حاضر ہوا کرتے تھے۔ عبدالجبار ملکاپوری اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’محبوب الزمن‘ میں یوں رقمطراز ہیں : 
’’شہر میں کوئی محفل ایسی نہ تھی جس میں آپ نہ ہوں، ہر ایک محفل میں آپ ہی صدر ہوتے، مشائخ اور علماء آپ کی قدر کرتے۔ آپ سلسلۂ چشتیہ طریقہ کے پابند تھے۔ ہفتے میں ایک روز محفل سماع منعقد فرماتے تھے۔ اس میں شہر کے اکثر عمائدین و مشائخ جمع ہوتے تھے۔ قوال اور گویے آپ کی غزلیں سناتے۔ کبھی سامعین کو رُلاتے، کبھی لٹاتے تھے۔ کوئی وجد و حال میں تڑپتا تھا۔ کوئی وحدت کے دریا میں ڈوبتا تھا۔ صوفیائے کرام لطف اندوز ہوتے تھے۔ سب اہل محفل باادب عالم سکوت میں ہوتے تھے۔ جس پر توجہ کرتے وہ مرغ بسمل کی طرح تڑپنے لگتا تھا اور جس پر ہاتھ رکھتے لوٹ پوٹ ہوجاتا تھا۔‘‘
سراج سرتاپا تصوف میں ڈوبے ہوئے تھے۔ وہ ایک صاحب دل اور صاحب باطن شاعر تھے۔ آپ کا مزار پنچ کنواں قبرستان میں آج بھی موجود ہے۔ 
حضرت شاہ غریب اللہ، حضرت نظام الدین اولیاء کے خلفا میں سے تھے۔ آپ کا تکیہ بھی دیوڑھی بازار میں نالے سے متصل تھا۔ آپ نے ایک خانقاہ اور مسجد بھی بنوائی تھی۔ انتقال کے بعد تکیہ میں ہی دفن ہوئے۔ شاہ سراج اور شاہ غریب اللہ نہ صرف ہمعصر تھے بلکہ دونوں کے تکیے ایک دوسرے سے متصل تھے۔ شاہ غریب اللہ کی آل کا سلسلہ جاری رہنے سے یہ تکیہ ابھی اچھی حالت میں ہے لیکن شاہ سراج کے پسماندگان میں کوئی نہ ہونے کی وجہ سے ان کے مکان کا نشان باقی رہا اور نہ تکیہ کا۔ لیکن اس کے باوجود تکیہ کے اب بھی کچھ کچھ آثار باقی ہیں مثلاً عمارت کی بنیادیں مسجد کاحوض وغیرہ۔
ایک اور بزرگ مولوی نورالہدیٰ گزرے ہیں۔ ان کے والد محترم کا نام قمرالدین تھا۔ مولوی نورالہدیٰ 1153ھ م1740 میں پیدا ہوئے۔ آپ کی تعلیم و تربیت آپ کے والد نے کی۔ سولہ سال کی عمر میں کتب درسیہ عربیہ و علوم ادبیہ سے فارغ التحصیل ہوئے۔ اوائل عمر میں ہی حفظ القرآن و قرات کی تکمیل کی۔ مولانا غلام علی آزاد آپ کی نسبت سے فرماتے ہیں کہ آپ علوم و فنون کے عالم و حافظ ہیں۔ بیس (20) سال کی عمر میں فریضہ حج سے فارغ ہوئے۔ آپ اپنے وقت کے صوفی و جید عالم تھے۔ آپ نے متعدد شرح و رسائل لکھے۔ آپ کا سلوک امیروغریب کے ساتھ یکساں تھا، ا س لیے ہر طبقہ میں آپ ہر دل عزیز تھے۔ آپ نقشبندیہ سلسلے سے تھے۔ 1303ھ (1885) میں انتقال کر گئے۔ دروازہ بھڑکل کے قریب مدفون ہیں۔
اورنگ آباد کے ایک اور بزرگ قاضی صاحب قدس سرہ گذرے ہیں۔ مولف ’بہار و خزاں‘ نے لکھا ہے کہ آپ الہ آباد میں پیدا ہوئے۔ مختلف علوم کی تحصیل کے لیے آپ نے علامہ عبدالباقی صاحب کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ تحصیل علم سے فراغت کے بعد آپ تلاش معاش میں دہلی پہنچے اور شہنشاہ اورنگ زیب نے آپ کو احتساب کی خدمت پر مقرر فرمایا۔ چند سالوں بعداورنگ زیب نے آپ کو اورنگ آباد میں قضات کی خدمت پر مامور کیا۔ تقریباً چالیس سال تک آپ نے نہایت عدل و انصاف سے خدمت انجام دی۔ آخری عمر میں تصوف کی طرف مائل ہوئے اور شاہ نور حموی کے دست مبارک پر بیعت کی۔ آپ مغل بادشاہ بہادر شاہ اول کے آخری عہد میں انتقال کر گئے اور نہر ہرسول کے قریب دفن کئے گئے۔ 
ایک اور بزرگ سید شاہ ظہورالحق بن میر بھنگا نے اپنا کاروبار ترک کر کے گھر بار چھوڑ کر مرشد کی تلاش میں نکل پڑے اور بلخ، بخارا وغیرہ شہروں میں بھی گئے اور یہاں کے معروف بزرگوں کی صحبت سے مستفیض ہوئے بعدازاں ہندوستان تشریف لائے اور حضرت شاہ عبداللہ سے بیعت کی۔ پھر احمدآباد، ممبئی، پونہ، ناسک، گلبرگہ، حیدرآباد ہوتے ہوئے اورنگ آباد میں وارد ہوکر ملک عنبر کی بنائی ہوئی کالی مسجد شاہ بازار میں مقیم ہوئے۔ آپ اپنے مریدین کو رشدوہدایت سے نوازا کرتے تھے۔ آپ کی وفات 21رمضان 1284ھ میں ہوئی اور نماز جنازہ مسجد شاہ گنج کلاں میں ادا کی گئی۔ آپ کا مزار دمڑی محل درگاہ حضرت نورالہدیٰ کے احاطہ میں واقع ہے۔ 
اِن تمام بزرگوں کے علاوہ بہت سارے بزرگ اورنگ آباد میں گزرے ہیں جن کے حالاتِ زندگی گوشہ تاریکی میں ہیں۔ اِن بزرگوں میں حضرت شاہ سوختہ میاں، حضرت شاہ بندہ علی، حضرت شاہ حسین مجذوب اورنگ آبادی، حضرت خواجہ وفا قُدس سرہ، حضرت شاہ شریف چشتی نظامی اورنگ آبادی،حضرت سید نظام الدین ادریس حسینی، حضرت مولوی سید نورالمصطفیٰ بن مولانا قمرالدین اورنگ آبادی، حضرت بنے میاں، ماں باپ، حضرت معین اللہ شاہ قادری،شیخ ریاض الدین کپتان وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

Dr.Quazi Naweed 
Head Dept of Urdu 
Maulana Azad College 
Aurangabad - 431001 (MS) 






قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

4 تبصرے:

  1. السلام علیکم سر
    آپ کا مضمون بہت مفید ہے ۔آپ سے ایک معلومات لینی تھی حضرت شاہ حسین اورنگ آباد جو سلسلہ نقشبند کے بزرگ ہیں جن کو بالواسطہ فیض حضرت خواجہ محمد معصوم سے ہے۔ جن کا ذکر تاریخ و تذکرہ خانقاہ سرہند میں آیا ہے۔کیا ان کا مزار اورنگ آباد میں ہے۔؟

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. نہی حضرت خواجہ محمد معصوم کا مزار سرہند شرف پنجاب میں ہے۔

      حذف کریں