13/12/18

سوال کی اہمیت. مضمون نگار:۔ وجیتا پرویز





سوال کی اہمیت
وجیتا پرویز

تعلیم کے تعلق سے اس وقت جو چند سوالات بہت اہم ہیں ان میں کچھ سوال یہ ہے کہ کیا ہم طلبا کو معیاری تعلیم دے پارہے ہیں؟ کیا تعلیمی ادارے میں اتنی آزادی حاصل ہے کہ طلبا مضمون سے متعلق استاد سے تبادلۂ خیال کرسکیں یا چند سوالات پوچھ سکیں؟ بطور استاد خود کو اتنا ذمے دار اور مہذب ہونے کے باوجود کیا ہم نصاب سے الگ بچوں کو اتنی آزادی فراہم کراپاتے ہیں کہ وہ سوالات پوچھ سکیں؟ طلبا اپنے اندر ان تمام خیالات اور متعلق معلومات سے جڑے سوالوں کو دل برداشتہ قبول کرتے ہیں اور وہی چیزیں اپنے ذہن میں بسا لیتے ہیں جو استاد اسے فراہم کراتا ہے لیکن پیچھے ایک تجسس چھوڑ جاتا ہے۔
ایک طرف جہاں دانشوران حضرات کا قول ہے کہ بچہ خود بخود علم حاصل کرتا ہے جس کے مختلف ذرائع ہیں۔ درجات میں بھی بچے کا یہی عمل ہوتا ہے جبکہ اسے صرف ایک راستہ دکھانا استاد کا اہم فریضہ ہے۔ استاد کا رسوخ بچوں پر اگر حاوی رہتا ہے تو بچے کی Creativity اس سے متاثر ہوتی ہے جس کے نتیجے سیکھنے کے اعتبار سے بہتر نہیں کہے جاسکتے۔ طلبا میں ا س بات کا ہمیشہ خوف بنا رہتا ہے کہ اس کے ذریعے پوچھے گئے سوال کا خمیازہ کہیں اس کی بے عزتی یا مذاق میں تبدیل نہ ہوجائے۔
مشہور ماہر تعلیم Paulo Friere اپنی کتاب Pedagogy of The Oppresed (1968) میں ا س جانب اشارہ کرتے ہیں کہ تعلیمی نظام ایک بینکنگ سسٹم کے مشابہ ہے جس کا مقصد طلبا میں علم کو اس طرح بھرا جاتا ہے جیسے بینک کو نوٹوں سے بھرے جاتے ہیں۔ طلبا بھی محض ایک حاصل جمع کردار کے مانند بنے ہوئے ہیں جو علم کے خزانے کو بغیر تحقیق و تنقید اور بغیر سوال و جواب کے حاصل کرتے جارہے ہیں۔ اس طرح کے نظام کو فروغ دینے اور باقی رکھنے کے پیچھے ایسے وجوہات کارفرما ہیں جس کی جڑیں بہت گہری اور حیرت ناک ہیں۔ دراصل جب طلبا کو تنقید یا سوال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی تو وہ سماج کو من و عن قبول کرلیں گے اور ویسے ہی ڈھل جائیں گے جیسا سماج ہوگا۔ Friere کے مطابق تعلیم یافتہ انسان مہذب ہوتا ہے وہ خود کو اس لائق بنا چکا ہوتا ہے کہ معاشرے کے مطابق ڈھل جائے اور یہی وہ نظریہ ہے جو باطل کو مستحکم بناتا ہے اور سماج کو وہ اپنے نظریے سے ڈھال لیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کا استحصال جاری رہتا ہے۔ تنقیدی رجحان سے طلبا کو واقفیت ہی نہیں کرایا جاتا جس کی وجہ سے طلبا میں Liberation یا Emancipation کا جذبہ نظر نہیں آتا۔ اس کے نظریے میں وہ آزادی نظرنہیں آتی اور نہ ہی پنپنے کی کوئی صورت ہی دکھائی دیتی ہے۔
Friere کے مطابق تعلیمی نظام کوBanking System سے مثال دی گئی ہے جہاں افکار کی صلاحیت کو معدوم کر دیا جاتا ہے تا کہ معاشرے میں موجود نظام Status Que کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہ رہے۔ اس طرح کی تعلیم طلبا کی تخلیقی کاوش میں رخنہ پیدا کرتی ہے اور پرانی گھسی پٹی اور روایتی انداز میں انھیں سماج میں شامل ہونے کے لیے مجبور کرتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ طلبا کو جو علم درس گاہوں سے حاصل ہوتا ہے وہ انھیں مستحکم اور با روزگار بنانے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے ، لیکن وہ طلبا کے خیالات کی بلندی اور تنقیدی نظریات میں کمی کا احساس بھی کراتا رہتا ہے۔ اسے تنقیدی نظریے کو ترقی نہ پانے کی مخفی کوششیں بھی کہی جا سکتی ہیں۔
قومی نصابی خاکہ 2005 کے حوالے سے ایک بات اہم ہے کہ Educational Discourse میں ایک Paradigm Shift کا ذکر قابل غور ہے جس کے تحت اب طلبا مرکوز تدریسی اصول یا Pedagogy Child Centered کو عمل پیرا کرنا ضروری ہے۔ اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے خصوصی طور پر تیار کیے گئے قومی نصابی خاکہ یا National Curriculum Framework- 2005 کے مطابق اصول تدریس اب اس بات پر مبنی ہوگی کہ اکتساب (Learning) ایک سماجی عمل ہے جس میں سماج کے مختلف افراد کو اپنی ذمے داریاں سمجھنی ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی اس جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ طلبا اپنے معاشرتی تجربے کے ذریعے علم کی خودبخود تکمیل کرتے ہیں جس میں اس کے اساتذہ کا کردار اس طرح کے تجربے مہیا کرانے کا ہوتا ہے۔ ان سفارشوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ طلبا کو مستحکم بنانے کے لیے بہت سے تدریسی انتظامات محض دستاویزوں میں کیے گئے ہیں مگر حقیقی اعتبار سے انھیں نافذ نہیں کیا جاتا۔ آج لگ بھگ تعلیمی اداروں میں جس طرح کے نصاب اور تدریسی طریقہ و عمل کو رائج کیا جارہا ہے وہ محض اس خیال پر مبنی نظر آتے ہیں کہ تمام علم صرف کتابوں میں محفوظ ہیں اور کتابی علم کے ذریعے ہی سماج میں اپنے جگہ بنائی جاسکتی ہے۔ ایسے میں جو طلبا اپنے گرد و پیش کے حالات و واقعات اور روزمرہ کے نشیب و فراز سے جو کچھ سیکھ یا سمجھ رہے ہیں وہ گویا کہ ان کے علم کا کوئی حصہ ہی نہیں ہوسکتا اور اس اعتبار سے انھیں ان واقعات پر اپنی تنقیدی نظریات پیدا کرنے کے بھی کوئی مواقع تعلیمی اداروں کے ذریعے پیدا نہیں کیے جاتے۔ اس طرح کی کوششوں کو Paulo Friere نے Transmission of Dead Knowledge قرار دیا ہے۔ (1968) جسے تعلیم فراہم کرنے کے بجائے Domestication جیسی اصطلاح کا نام دیا جاتا ہے۔ Domestication پر اپنی رائے واضح کرتے ہوئے Freire نے کہا ہے کہ یہ ایک ایسا تربیتی عمل ہے کہ جو انسان میں طلسمات اور اساطیری نظریات کو وجود میں لاکر اسے فروغ دینے کی کوشش کرتا ہے جس سے انسان اپنے حالات کو بدلنے سے روکتا ہے اور انسان ان حالات کو اپنی زندگی کا اہم حصہ مان لیتا ہے۔ Freire کہتا ہے کہ انسان صحیح معنی میں تبھی سیکھتا ہے جب وہ اپنے حالاتِ زندگی کے بارے میں بیدار ہو، ساتھ ہی ان میں تبدیلی لانے کی کوشش کرے۔ اس جانب اسکول اپنی ذمے داری ہرگز نہیں اٹھا پاتے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے گویا اسکول کوئی سماج کا حصہ ہی نہیں ہے اور اسکول کی زندگی کا طلبا کے گھر اور معاشرتی زندگی سے کوئی رابطہ یا سروکار ہی نہیں ہے۔ اسکول اور سماج کے اس دوہرے رویے سے طلبا اپنی شخصیت کو نہیں نکھار پاتے نتیجتاً اسکول اسے جیسا سماج دکھانا چاہتا ہے وہی دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسی تعلیم طلبا کو فراہم کرائی جاتی ہے جو انھیں سماج سے آسانی سے جوڑ دیتی ہے۔ بچے کے لیے چلائی جانے والی تعلیمی سرگرمیاں صرف اس لیے حرکت میں ہیں کہ بچہ کو اس طرح تیار کیا جارہا ہے کہ وہ ایک مشین کا پرزہ ہے جو مشین میں نصب (Fit) کیا جائے گا۔ بچہ جتنی جلدی اس معاشرتی مشین سے جڑ جائے اتنا ہی اچھا ہے۔ جبکہ NCF-2005 کے مطابق بچہ اسکول کے باہر کی زندگی یعنی گھر اور اس کے آس پاس کی چیزوں کو دیکھے اور محسوس کرے اور اسکول سے اس کو جوڑے وہ تمام باتیں جو معاشرے یا سماج میں چل رہی ہیں۔ یہ استاد اور بچے دونوں کے لیے جاننا ضروری ہے۔ بچے کو یہ محسوس ہو کہ جو باہر دیکھا گیا ہے یا سنا گیا ہے درجہ میں بھی اسی طرح کی بات ہو۔ یہیں سے سیکھنے کی شروعات ہوتی ہے اور بچہ یہیں علم الحساب، زبان، سائنس اور سماجی علوم سیکھتا ہے۔ ہماری جلدبازی ہی بچے کے اندر کمی کو ظاہر کردیتی ہے اور وہ سیکھنے سے گھبرانے لگتا ہے، اس کے اندر ایسا جذبہ پیدا ہونے لگتا ہے کہ وہ سیکھ نہیں پائے گا۔ا سے لگتا ہے کہ وہ کچھ غلط نہ پوچھ بیٹھے، اور وہ سوال پوچھنے سے گریز کرنے لگتا ہے۔
طلبا کا سیکھنا محض اس لیے ہرگز نہیں کہ وہ کچھ ضروری عقائد اور جانکاریاں حاصل کرلے اور سال کے اواخر میں امتحانات میں ا ن سب کے رٹے رٹائے جواب دے دے بلکہ سیکھنے کا مقصد یہاں وہی ہونا چاہیے کہ اس میں تجسس اور عمل کا جذبہ پیدا ہو۔ وہ اپنے سیکھے ہوئے علم سے معاشرتی طور پر ادراک درپیش مسائل کا ازالہ اس میں پاسکے۔ تعلیم کے کئی مقاصد درپیش ہیں، کئی محققین نے اس کے الگ الگ مفہوم تحریر کیے ہیں۔ حالانکہ ہر طالب علم جس کو مفید پاتا ہے وہی اس کے لیے نظیر بن جاتی ہے۔ حالانکہ تعلیم کا مقصد الگ الگ لوگوں کے لیے الگ الگ معنیٰ رکھتے ہیں۔ طالب علم جہاں مستفیض ہوتا ہے وہی اس کا مقصد بن جاتا ہے۔ والدین کا اپنا پیرامیٹر ہوتا ہے کہ وہ کس طرح اس کے خوابوں کی تکمیل کرے گا۔ ملک کے لیے بھی نوجوان اتنا ہی ضروری ہے۔ ہندوستان جیسے ملک میں جہاں سب سے زیادہ آبادی نوجوانوں کی ہے ایسے میں ان کی ذمے داریاں بھی زیادہ ہوجاتی ہیں۔ حالانکہ ہندوستانی آئین میں تعلیم کی ضرورتوں اور ذمے داریو ں کا جس حسن اسلوبی سے ذکر ملتا ہے وہ قابل تحسین ہے۔ ہندوستانی آئین میں ملک کی ترقی جمہوری نظام کے ساتھ مختلف طریقۂ کار سے حل ہونے کی اور ان سب کا مقصد یا نچوڑ کہہ لیں تو طلبا کو اس لائق بناتا ہے کہ وہ ایک بہتر شہری بن سکیں اور حقوق کی پامالی یا حق تلفی پر سوال اٹھا سکیں۔ وہ آزاد ہندوستان میں آئین کی تکمیل کا بنیادی پر تو کو سمجھ سکیں۔ اس کے عمومی اور خصوصی مقاصد کو سمجھ سکیں۔
تعلیم کے ایک محقق اور دانشور جناب Professor Krishna Kumar نے بھی اپنی کتاب Education and Knowledge (1999) میں اس مدعے کو زیربحث رکھا ہے کہ استاد کا رسوخ درجہ کے طلبا کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ ساتھ ہی طلبا میں مہارتی خصوصیات سے محرومی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ طلبا میں بیک وقت کئی طرح کے سوالات چلتے رہتے ہیں کبھی وہ اپنی تعلیمی سرگرمی کا محاسبہ کرتا ہے کبھی نگراں کے تفویض کردہ کام پر خود کو مصروف رکھتا ہے کبھی درسی کتابوں پر اس کی پریشانیاں حائل رہتی ہیں جہاں اس کی سمجھ میں کوئی نکتہ نہیںآتا، وہ متعلق نصاب سے اپنی جانکاری کو پختہ کرنے کے لیے استاد سے رائے لینا چاہتا ہے چند سوالات کرنا چاہتا ہے مگر وہ نہیں پوچھتا۔ اس کے پیچھے کئی وجوہات ہو سکتے ہیں۔ حالانکہ یہ استاد کی ذمے داری ہے کہ خواہ کتنا بھی بہتر درس و تدریس کاعمل رہا ہو اس کے بعد متعلق مضمون سے سوالات پوچھنا لازم ہے جس سے طلبا کی لیاقت اور صلاحیت کے علاوہ اس کی تعلیم سے ربط و جستجو بڑھے گی اور وہ زیادہ سے زیادہ سیکھنے کی کوشش کریں گے۔ طلبا کے ذریعے سوال پوچھنایہاں اس لیے بھی ضروری قرار دیا جا سکتا ہے جس کی وجہ سے طلبا کو اپنی حیثیت اور وجود کے ساتھ آگے بڑھنے کا حوصلہ ملتا رہے۔
طلبا میں حصولِ تعلیم کے دوران سوالات پوچھنے کی اہمیت اس لیے بھی ضروری ہے کہ ان میں تنقیدی نظریہ فروغ پائے۔ طلبا میں جب یہ ہنرترقی پائے گا تو اس کا نصاب کی طرف رجحان بڑھے گا اور تنقید اسے تحقیق کے لیے متحرک کرے گی۔ طلبا میں ایسے سوالات کا رجحان پیدا کرنا ضروری ہے جو سماجی پس منظر پر مبنی ہو اور ایسے سیکڑوں سوالات لے کر وہ روزانہ اپنی زندگی کو آگے لے جاتے ہیں جس کا کوئی معقول جواب انھیں نہیں ملتا اور نہ ہی کسی کو اس جانب کوئی فکر ہوتی ہے۔

Vijayata Perwez
Asst. Prof., College of Teacher Education
Maulana Azad National Urdu University
Hyderabad - 500032 (Telangana)






قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں