17/12/18

چکبست کی شاہکار نظم’رامائن کا ایک سین‘ مضمون نگار:۔ سنجے کمار




'چکبست کی شاہکار نظم’رامائن کا ایک سین

سنجے کمار


زمانۂ قدیم سے رامائن کی کہانی ہندی و سنسکرت زبان و ادب کے علاوہ دیگر زبان و ادب میں بھی مقبول رہی ہے۔اور اس کی مقبولیت کا ایک اہم راز اس میں موجود کرداروں کا اخلاقی اور مذہبی برتاؤ رہا ہے۔ اس کے سبھی کردار بنی نوع انساں کے لیے مثالی ( Ideal) رہے ہیں۔ یہ حسنِ اخلاق اور فرض ادائیگی میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔چاہے بھکت ہنومان کا کردار بھکتی اور خدمت شعاری کے لیے ہو یا چھوٹے بھائی لچھمن کی فرماں برداری بڑے بھائی رام کے لیے ہو۔ جب راج گدی کی بات آتی ہے تو بھرت کہتے ہیں کہ مجھے راج پاٹ نہیں چاہیے، اس پر بڑے بھیّا رام کا حق ہے، تو رام کہتے ہیں کہ نہیں ماتا کیکئی نے آپ کے لیے راج مانگا ہے، اس لیے اس پر صرف آپ کا ہی حق ہے۔ اسی طرح سیتا کا کردار ہے۔ راون کے لاکھ بہلانے دھمکانے پر بھی وہ اپنی شوہر پرستی یعنی پتی ورتا کا دھرم نہیں چھوڑتیں۔ ٹھیک اسی طرح رام ہیں۔ وہ اپنی سوتیلی ماں کے کہنے پر بلاتردد راج پاٹ چھوڑ کر چودہ برس کے لیے بن باس چلے جاتے ہیں اور باپ کی فرماں برداری اور ماں کیکئی کے باپ سے کیے گئے وعدے کو پورا کرتے ہیں۔
رامائن کا ایک سین چکبست کی شاہکار نظم ہے۔ اس کی تخلیق میں چکبست نے بالمیکی اور ادھیاتم رامائن سے استفادہ کیا ہے۔ اس نظم کے لیے چکبست نے رامائن کے اس سین کا انتخاب کیا ہے جہاں رام راج پاٹ چھوڑ کر جوگی کا بھیس اختیار کرکے چودہ برس کے لیے بن باس جانے کی تیاری کرتے ہیں۔ بالمیکی رامائن میں سین اس طرح ہے کہ رام کو راجا دسرتھ اپنے محل میں بلاتے ہیں، جہاں وہ کیکئی کے پاس بیٹھے رہتے ہیں۔ وہیں کیکئی رام کو بتاتی ہے کہ تمھیں چودہ برس کا بن باس اور بھرت کے لیے اجودھیا کی راج گدی کا بر میں نے مہاراج سے مانگا ہے جس کا وعدہ انھوں نے مجھ سے کیا تھا۔ اس لیے اب تم جلدی سے بن باس جانے کی تیاری کرو۔ رام کے بن باس جانے کی بات کیکئی کے منہ سے سنتے ہی راجا دسرتھ غش کھا کروہیں گر پڑتے ہیں۔ تب رام انھیں اٹھا کر بیٹھا دیتے ہیں اور اس کے بعد بن باس جانے کی تیاری کرنے لگتے ہیں۔ بالمیکی رامائن اجودھیا کا نڈ کے انیسویں سبق کے شلوک نمبر 34,35 کے مطابق : 
’’سری رام نے اپنے اوپر خوبصورت چتر لگانے کی مناہی کردی۔ ڈلائے جانے والے مزین چنور بھی روک دیے۔ وہ رتھ لوٹا کر کنبے کے لوگوں اورنگر باسیوں کو بھی وداع کرکے دکھ کو دل میں ہی دبا کر انفاس کو قابو میں کرکے یہ دکھ سے بھری خبر سنانے کے لیے ماں کو شلیاکے محل میں گئے۔ اس وقت انھوں نے دل کو پوری طرح قابو میں کر رکھا تھا‘‘
یہیں سے چکبست کی رامائن کا آغاز ہوتا ہے:
رخصت ہوا وہ باپ سے لے کر خدا کا نام
راہِ وفا کی منزل اول ہوئی تمام
منظور تھا جو ماں کی زیارت کا انتظام
دامن سے اشک پوچھ کے دل سے کیا کلام
اظہار بے کسی سے ستم ہوگا اور بھی
دیکھا ہمیں اداس تو غم ہوگا اور بھی
دل کو سنبھالتا ہوا آخر وہ نو نہال
خاموش ماں کے پاس گیا صورتِ خیال
دیکھا تو ایک در میں ہے بیٹھی وہ خستہ حال
سکتا سا ہو گیا ہے یہ ہے شدتِ ملال
تن میں لہو کا نام نہیں زرد رنگ ہے
گویا بشر نہیں کوئی تصویرِ سنگ ہے
اس کے بعد رام ماں سے وداع ہونے کے لیے ان کے پاس جاتے ہیں۔ تب دونوں کے درمیان غم انگیز باتیں ہوتی ہیں۔ بالمیکی رامائن کے مطابق ماں کوشلیا رام سے کہتی ہیں۔
’’بیٹا رگھونندن! اگر تمھارا جنم نہ ہوا ہوتا تو مجھے اس ایک ہی بات کا دکھ رہتا۔ آج جو مجھ پر اتنا بھاری دکھ آ پڑا ہے، اسے بانجھ ہونے پر مجھے نہیں دیکھنا پڑتا۔‘‘
’’بیٹا! بانجھ کو ایک ذہنی تکلیف ہوتی ہے۔ اس کے دل میں دکھ بنا رہتا ہے کہ مجھے کوئی اولاد نہیں ہے۔ اس کے سوا دوسرا کوئی دکھ اسے نہیں ہوتا۔‘‘
انھیں باتوں کو چکبست اس طرح بیان کرتے ہیں:

ایسے بھی نامراد بہت آئیں گے نظر
گھر جن کے بے چراغ رہے آہ عمر بھر
رہتا مرا بھی نخل تمناجو بے ثمر
یہ جائے صبر تھی کہ دعا میں نہیں اثر
لیکن یہاں تو بن کے مقدر بگڑ گیا
پھل پھول لا کے باغِ تمنا اجڑ گیا
اس کے علاوہ اور کئی بندوں میں چکبست نے بالمیکی رامائن سے فیض اٹھا یا ہے۔ جن کا حوالہ میں یہاں نہیں دے رہا ہوں۔
رامائن کے ایک سین کی تخلیق کے لیے ایسا لگتا ہے کہ چکبست نے میر انیس کے ایک مرثیہ سے بھی استفادہ کیا ہے جس کا اثر ان کی اس نظم پر صاف دکھائی دیتا ہے۔ جس طرح میر انیس کے مرثیہ میں انسانی رشتے کی پاسداری، جذبات نگاری اور رنج و غم کے اظہار کا کمال نظر آتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح چکبست کی رامائن کے ایک سین میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ میر انیس کا مرثیہ ’’جاتی ہے کس شکوہ سے رن میں خدا کی فوج ‘‘ حضرت عون و محمد پر لکھا گیا ہے۔ اس مرثیہ میں جس طرح عون ومحمد جنگ میں جانے سے پہلے اپنی ماں حضرت زینب سے وداع ہو تے ہیں،اسی طرح چکبست کی نظم میں بھی رام اور لچھمن بن باس جانے سے پہلے اپنی ماں کو شلیا سے رخصت ہو تے ہیں۔ ایک جگہ ماں سے بیٹوں کی ہمیشہ کی جدائی ہے تو دوسری جگہ چودہ برس کاطویل عرصہ ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ جدائی کی مصیبتیں موت کی مصیبتوں سے کم نہیں ہوتی ہیں۔ دونوں جگہ ماں سے ان کے بیٹے جدا ہو رہے ہیں۔ ایسی حالت میں ان ماؤں کے دل پر کیا گزرتی ہوگی، اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ لیکن میر انیس اور چکبست نے ان حالات کی تصویر کشی بہت فنکارانہ انداز میں کی ہے جس کے چند نمونے پیش کرتا ہوں۔ میر انیس کے متذکرہ بالا مرثیہ میں حضرت زینب اپنے بیٹوں عون و محمد سے کہتی ہیں:
ماں پر یہ آفتیں ہیں یہ ماموں پہ ظلم و جور
پیارو ہمارے حال پہ لازم ہے تم کو غور
نازک مزاجیوں کے کسی دن نہ تھے یہ طور
اب مشورے ہیں اور تصور ہیں اور اور
وہ دل نہیں وہ آنکھ نہیں وہ نظر نہیں
اوروں کا ذکر کیا تمھیں میری خبر نہیں
اس کا نہیں خیال کہ کیونکر جیے گی ماں
ہوتا ہے آفتوں میں محبت کا امتحاں
تم میری دس برس کی ریاضت ہو میری جاں
مجھ سے سوا ہے کون تمھارا مزاج داں
جس پر یہ برہمی ہے وہ سب جانتی ہوں میں
غصے کی آنکھ کاہے کو پہچانتی ہوں میں
ان بندوں کو نظر میں رکھتے ہوئے رامائن کا ایک سین دیکھیے:
پھر یہ کہا کہ میں نے سنی سب یہ داستان
لاکھوں برس کی عمر ہو دیتے ہو ماں کو گیان
لیکن جو میرے دل کو ہے در پیش امتحان
بچے ہو اس کا علم نہیں تم کو بے گمان
اس درد کا شریک تمھارا جگر نہیں
کچھ مامتا کی آنچ کی تم کو خبر نہیں
کن کن ریاضتوں سے گزار ے ہیں ماہ وسال
دیکھی تمھاری شکل جب اے میرے نو نہال
پورا ہوا جو بیاہ کا ارمان تھا کمال
آفت یہ آئی مجھ پہ ہوئے جب سفید بال
چھٹتی ہوں ان سے جوگ لیا جن کے واسطے
کیا سب کیا تھا میں نے اسی دن کے واسطے
دونوں نظموں سے اس طرح کی یکسانیت کی ایک اور مثال لکھتا ہوں جس میں قدم بوسی کی ہندوستانی تہذیب کو بھی دکھایا گیا ہے۔ دونوں جگہ بیٹے کی باتیں سن کر ماں انھیں سخت نصیحتیں کرتی ہیں تو بیٹوں کا دل بھر آتا ہے۔ میر انیس کا بند:
کنبے میں ایک نے بھی اگر سن لیا یہ حال
کہتی ہوں صاف میں مجھے ہوگا بہت ملال
ننھے سے ہاتھ جوڑ کے بولے وہ نونہال
ہم باوفا غلام ہیں کیا تاب کیا مجال
دیجے سزا ہمیں جو بل ابرو پہ پھر پڑیں
کہیے تو چھوٹے ماموں کے قدموں پہ گر پڑیں
چکبست کا بند: 
نشتر تھے رام کے لیے یہ حرفِ آرزو
دل ہل گیا سرکنے لگا جسم سے لہو
سمجھے جو ماں کے دین کو ایمان و آبرو
سننی پڑے اسے یہ خجالت کی گفتگو
کچھ بھی جواب بن نہ پڑا فکر و غور سے
قدموں پہ ماں کے گر پڑا آنسو کے طور سے
ان مآخذ سے قطع نظر چکبست نے رامائن کا ایک سین میں رام اور کوشلیا کے درمیان جو فلسفیانہ اور جذباتی مکالمات ادا کروائے ہیں وہ سب ان کے اپنے تخیل کے کمالات ہیں، جو نہ میر انیس کے مرثیے میں ملتے ہیں نہ بالمیکی رامائن میں، اور جیسا کہ شاعری کے لیے کہا جاتا ہے کہ یہ انسانی خیالات و جذبات کی نقل ہوتی ہے، اس نقل کا پورا حق چکبست نے اپنے تخیلات اور زندگی کے مشاہدات کی بنا پر ادا کر دیا ہے۔
رامائن کا یہ حصہ جہاں رام کو شلیا سے بن باس جانے کی اجازت لینے جاتے ہیں، بہت اہم حصہ ہے۔ چکبست نے اپنے شاعرانہ کمال کے ذریعہ اسے یادگار بنا دیا ہے۔ یہاں چکبست نے رامائن سے صرف ماں اور بیٹے کے درمیان کے مکالمات کا انتخاب کیا ہے۔ حالانکہ وہ سین بھی اس سے کم اہم نہیں ہے جہاں راجا دسرتھ کا انتقال ہو جاتا ہے۔ رام کے بن باس جانے سے ماں تو کسی طرح اپنا دکھ کاٹتی ہے لیکن راجا دسرتھ بیٹے کی جدائی برداشت نہیں کر پاتے۔ دن رات تڑپتے رہتے ہیں اور آہ و زاری کرتے رہتے ہیں۔ غش کھا کھا کر گرتے ہیں، سنبھلتے ہیں اور آخر میں بن باس کے پانچ دن بعد ہی انتقال کر جاتے ہیں۔ راجا دسرتھ کی جدائی اور انتقال کا یہ سین اسی میں شامل ہے۔ اس سین کی ایک جھلک بالمیکی رامائن کے شلوک نمبر27 سے 35 تک دکھاتا ہوں۔رام کے بن باس چلے جانے کے بعد راجا دسرتھ روتے ہوئے کہتے ہیں:۔ 
’’مجھے جلدی ہی سری رام ماتا کو شلیاکے گھر میں پہنچا دو، کیونکہ میرے دل کوکہیں سکون نہیں مل سکتا‘‘
’’ایسی بات کہتے ہوئے راجا دسرتھ کو دوارپالوں نے بڑی ہمدردی کے ساتھ رانی کوشلیاکے محل میں پہنچا یا اور پلنگ پر سلا دیا‘‘
’’وہاں کو شلیاکے محل میں داخل ہوکر پلنگ پر لیٹ جانے پر بھی راجا دسرتھ کا دل بے قرار اور دکھی ہی رہا‘‘
’’دونوں بیٹے اور بہو سیتا سے خالی وہ محل راجا کو چاند سے خالی آسمان کی طرح بے رونق دکھائی دینے لگا‘‘
’’اسے دیکھ کر مہابلی مہاراج دسرتھ نے ایک بانہہ اوپر اٹھا کر زورزور سے روتے ہوئے کہا:’’ہے رام! تم ہم دونوں ماں باپ کو چھوڑ رہے ہو۔ جو لوگ چودہ برس تک زندہ رہیں گے اور اجودھیا میں دوبارہ لوٹے سری رام کو سینے سے لگا کر دیکھیں گے وہی حقیقت میں سکھی ہوں گے‘‘
’’اس کے بعداپنی سیاہ رات کی طرح وہ رات آنے پر راجا دسرتھ نے آدھی رات ہونے پر کوشلیاسے اس طرح کہا:‘‘
’’کوشلیے! میری بینائی سری رام کے ہی ساتھ چلی گئی اور اب تک نہیں لوٹی، اس لیے میں تمھیں دیکھ نہیں پاتا ہوں۔ ایک بار اپنے ہاتھ سے میرے جسم کو چھو کر تو دیکھو‘‘
’’بستر پر پڑے ہوئے مہاراج دسرتھ کو سری رام کو ہی یاد کرتے اور گہری سانس کھینچتے دیکھ دیوی کوشلیا بہت دکھی ہو کر ان کے پاس آ بیٹھیں اور مصیبت کی ماری زور زور سے رونے لگیں۔‘‘
چکبست رامائن کے ایک سین میں چند مزید سین لکھ کر اسے مکمل کرناچاہتے تھے۔ لیکن وکالت کے پیشے اور دیگر مصروفیات کے سبب اس کام کے لیے انھیں فرصت بہت کم ملتی تھی۔ اس کے متعلق کشن پرشاد کول اپنے ایک مضمون ’چکبست لکھنؤی‘ میں لکھتے ہیں:
'’چکبست کی نظم ’رامائن کا ایک سین‘ جب شائع ہوئی، تو بہت مقبول و مشہور ہوئی، ان کے احباب کا تقاضا تھا کہ اس سلسلے کی اور کڑیوں کو جوڑ کر وہ اسے مکمل کر دیں۔ وہ ہاں ہاں تو کہتے رہے، لیکن پیشہ کی روز افزوں مصروفیتوں نے کام پورا نہ ہونے دیا۔ 11 فروری 1926 کا ذکر ہے کہ وہ کچہری سے واپسی میں میرے یہاں آئے۔چائے کا شغل ہو رہا تھا کہ مجھے کچھ دھیان آیا تو میں نے پوچھا کہ وہ رامائن کب مکمل ہوگی؟ کہنے لگے کہ چاہتا تو بہت ہوں پر وقت کم ملتا ہے کچھ تو کہہ لیا ہے کچھ باقی ہے۔ مگر جو کچھ کہا ہے وہ پرچوں اور پرزوں پر لکھا ہوا ہے، سوچ رہا ہوں کہ اگر کوئی شخص مل جائے تو اسے ترتیب دے کر صاف کرا لوں یہ کہہ کر بولے کہ اچھا سنو اس کے تین سین تمھیں سناتا ہوں اور اپنے خاص انداز میں انھوں نے وہ تینوں سین زبانی سنائے۔ پہلا سین رام چندر جی کے بن باس ہونے پر جو اجودھیا کی حالت ہوئی اس کی نسبت تھا، دوسرے سین میں راون کی Soliloquy یعنی لڑائی سے قبل جو جذبات و خیالات اس کے دل و دماغ میں موجزن ہو رہے تھے، اس کا عکس اتارا تھا۔ تیسرا سین خود لڑائی کے متعلق تھا، یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ تینوں سین رامائن کے اس سین سے جو شائع ہو چکا ہے، کسی حالت میں کمتر نہ تھے، چکبست کی شاعری کے تمام جوہر ان نظموں میں جھلکتے تھے۔ میرے یہاں سے اٹھ کر ہم ان کے گھر پہنچے 7 بجے شام تک بات چیت اور مذاق ہوتا رہا، رخصت ہونے پر کہنے لگے، کل تو رائے بریلی جانا ہے، ملنا ہوگا نہیں، اب پرسوں شام کو ملاقات ہوگی۔ موت سر پر کھڑی خندہ زن تھی کہ یہ ملاقات اب پرسوں شام کو نہیں قیامت کے دن ہوگی۔ دل کی حسرتیں دل ہی میں رہ گئیں اور رامائن کی بقیہ نظموں کے مسودے کے پرچے اور پرزے، باوجود سخت تلاش کے کہیں دستیاب نہ ہوئے‘‘
لیکن ڈاکٹر افضال احمد نے اپنی کتاب چکبست حیات اور ادبی خدمات میں غیر مطبوعہ کلام کے تحت بعد کے تین بند درج کیے ہیں جو انھیں تحقیق کے دوران دستیاب ہوئے تھے۔ اس کا پہلا بند رام کے بن باس ہونے کے بعداجودھیا نگری کی حالت کو بیان کرتا ہے، دوسرا بند رام کی زیارت کے لیے لوگوں کے شوق کو دکھاتا ہے اور تیسرا بندسیتا کی تصویر کشی کرتا ہے۔ تینوں بند پیش کرتا ہوں:
ہے آج راگ رنگ کے بدلے نیا سماں
گھڑیال کی صدا ہے نہ ہے وید کا بیاں
بازار میں نہ پھل ہے نہ پھولوں کی ڈالیاں
دریا پہ گل فروش نے کھولی نہیں دوکاں
لب پر برہمنوں کے دعائے سحر نہیں
پٹ مندروں کے بند پڑے ہیں خبر نہیں
یوں مجمعِ کثیر میں جنبش ہوئی عیاں
جیسے ہوا سے ہلتی ہیں جنگل کی پتیاں
اللہ رے انتظار کا وہ آخری سماں
کھنچ آئی تن سے کان کے پردے کے پاس جاں
سر اٹھ گئے تڑپ کے نظر سوئے در گئی
سینے میں سانس آنکھ میں پتلی ٹھہر گئی
ہلچل میں اس سفر کے ہے سیتا پہ یہ گماں
گویا کنول کا پھول ہے لہروں کے درمیاں
معصوم دل ہے رنج اٹھانے سے شادماں
تن پر ذرا لباس فقیری نہیں گراں
نیچی نگاہ آنکھ زمیں سے لڑی ہوئی
سر میں فقط سہاگ کی لالی پڑی ہوئی
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگرچکبست پوری رامائن اردو میں منظوم کر دیتے تو وہ اردو ادب کا بیش قیمتی سرمایہ ہوتا اور وہ بالمیکی رامائن اور تلسی داس کی رامائن سے کم پایہ کی نہ ہوتی لیکن موت نے انھیں اس کی مہلت نہ دی۔

Dr. Sanjay Kumar 
Asst. Prof. Dept. of Urdu
Unversity of Allahabad
Allahabad - 211002 (UP)






قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں