مشتاق احمد یوسفی: بات برگ گلاب
غضنفر اقبال
مشتاق احمد یوسفی نے کارِ جہانِ بے ثبات میں معجزہ ہائے ہنر اور روشن گر تحریرات سے ایک عہد کو متاثر کیا تھا۔ ظرافت نگاری اُن کو ہر دہر اور ہر قرن میں یاد کرتی رہے گی کیونکہ وہ مستقل عنوان تھے اِس میدان کے۔ مجنوں گورکھپوری نے مرحوم کو ظرافت نگاری کا نیا دبستان کہا تھا۔ ابن انشا نے کہا کہ ہم عہد یوسفی میں جی رہے ہیں۔ یوسف ناظم نے یوسفی کے فن کو مونالیزائی تبسم قرار دیا۔ ڈاکٹر انور سدید نے علی الاعلان کہا مشتاق احمد یوسفی کا حریف کوئی پیدا ہی نہیں ہوا۔ شمس الرحمن فاروقی نے کہیں لکھا یوسفی ہمارے دور کے سب سے بڑے طنز و مزاح نگار ہیں۔ ڈاکٹر مجتبیٰ حسین نے یوسفی مرحوم کو طنز و مزاح کا جیتا جاگتا معجزہ کہہ کر خراج عقیدت پیش کیا۔
مشتاق احمد یوسفی مزاح و ظرافت کے مردِ آگاہ تھے اِن کا فن جمیل جمالیاتی نشاط آفرینی سے عبارت ہے۔ اِن کے افکارِ عالیہ، بامعنی، پراثر، پرکار ہونے کے باعث بلاد و امصار تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہیں۔ علامہ سیماب اکبرآبادی کا ایک شعر مشتاق احمد یوسفی کی حیات اور افکار کا ماحصل ہے
پھیلے تو یوں کہ چھاگئے کل کائنات پر
سمٹے تو اِس قدر کہ رگِ جاں میں رہ گئے
راقم التحریر نے مشتاق احمد یوسفی کے انٹرویوز کا ایک مطالعہ کیا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی صاحب اسلوب ظرافت نگار تھے۔ ان کے انٹرویوز انگلیوں پر شمار کیے جاسکتے ہیں۔ موقر افسانہ نگار اور انٹرویو کار ڈاکٹر آصف فرخی نے یوسفی سے ایک طویل انٹرویو کیا تھا۔ اس انٹرویو کو تاریخی اور یادگار ہونے کی حیثیت حاصل ہے کیونکہ اس میں صاحب انٹرویو نے کھل کر گفتگو کی ہے۔ ملاقات نگار نے بھی یوسفی کے ظاہر و باطن کو ٹٹولنے اور کھنگالنے کی سعی کی ہے۔ یہ انٹرویو یوسفی کے حقیقی باطن کو منکشف کرتا ہے۔ اِس ملاقات میں صاحب انٹرویو نے شعبۂ طنز و مزاح کے الگ الگ ہونے کا خلاصہ ان الفاظ میں کیا ہے
’’طنز و مزاح، ہماری اردو میں بدقسمتی سے دونوں لفظ یک جا استعمال ہوتے ہیں کہ طنز و مزاح۔ مزاح کے اپنے تقاضے ہیں کہ مزاح کوئی شخص لکھ نہیں سکتا۔ جب تک کہ اس نے اپنے موضوع سے، یا اپنے ہدف سے جی بھر کے اور رَچ کے محبت نہ کی ہو۔ محبت شرط اوّل ہے۔ طنز میں یہ قطعی ضروری نہیں۔ طنز میں ایک تنفر سے ابتدا ہوتی ہے۔ ایک بیگانگی سے ابتدا ہوتی ہے کہ میرے گرد جو کچھ ہورہا ہے میں اِس کا حصہ نہیں ہوں اور میں اپنے آپ کو اس سے کوئی رشتہ قائم کرنے کے لیے تیار نہیں پاتا۔‘‘
طنز و مزاح کے کلاسیکی فن کاروں پطرس بخاری، شوکت تھانوی اور ابن انشا کے فن پر یوسفی نے اس انٹرویو میں رائے زنی کی ہے۔ پطرس کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’پطرس آج بھی ایسا ہے کہ کبھی گاڑی اٹک جاتی ہے تو اس کا ایک صفحہ کھولتے ہیں تو ذہن کی بہت سی گرہیں کھل جاتی ہیں اور قلم رواں ہوجاتا ہے۔‘‘
شوکت تھانوی پر یوسفی مرحوم کا یہ خیال ہے:
’’شوکت تھانوی میں یہ خوبی تھی کہ تحریر سے کہیں زیادہ دل چسپ اور شگفتہ وہ صحبت میں ہوتے تھے۔ ان سے بہتر MIMIC کوئی ملنا دشوار تھا۔‘‘
ابن انشا کے فکر و فن پر یوسفی نے انشا جی کی مشہور کتاب خمار گندم پر اپنی رائے دی تھی جو کتاب میں درج ہے۔ زیربحث گفتگو میں یوسفی کہہ اٹھتے ہیں:
’’انشا جی لفظوں کے بڑے مزاج داں تھے۔ انشا جی ہمارے دور کے سب سے بڑے مزاح نگار ہیں۔ اس پر کچھ دوست آزردہ بھی ہوئے اور ایک آدھ تحریریں پریس میں بھی آئیں جس میں میری چتھاڑ کی گئی۔ حالانکہ میری چتھاڑ کرنے سے انشا جی کی عظمت میں کوئی فرق نہیں آتا۔ مجھے آپ نالائق ثابت کرکے انشا جی کی عظمت میں کوئی کمی نہیں لاسکتے۔ اس کے باوجود آپ دیکھتے کہ جس وقت انشا جی کے سامنے کوئی لفظ آتا ہے تو وہ جھجکتے نہیں ہیں۔‘‘
مشتاق احمد یوسفی، اعلیٰ درجے کے ادیب تھے۔ ان کی تحریر میں بصیرت ہے۔ انھوں نے اپنی تحاریر میں شگفتہ لہجہ اختراع اور اختیار کیا۔ اپنے اس طویل انٹرویو میں مفید مطلب اور معقول باتیں کی ہیں۔ ’لفظ‘ کی معنویت پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے یوسفی کہتے ہیں:
’’لفظ تو پورا ایک براعظم ہے۔ براعظم اس معنی میں کہ اس کی اپنی ایک Climateہے۔ اِس کا اپنا ایک درجۂ حرارت ہے۔ ایک لفظ، ایک معنی، میں صرف ایک ہی ملے گا آپ کو۔ اِس معنی کا کوئی دوسرا لفظ نہیں ہوگا۔ یہ ایک نگینہ سا ہے جو انگوٹھی میں ایک خاص سائز کا اور خاص شکل کا ہی لگے گا۔ دوسرا لفظ اس کی جگہ نہیں آئے گا اگر دوسرا لفظ آتا ہے تو اس کے کچھ اور Shades ہوں گے۔‘‘
مشتاق احمد یوسفی نے ایک طویل فن کارانہ، باوقار اطوار، کمال جرأت اور خود اعتمادی والی زندگی گزاری۔ فن میں اتنا غرقاب ہوئے کہ ’فن‘ پر اپنی یہ رائے قائم کردی:
’’ہر فن ایک ریاض چاہتا ہے اگر اس میں آورد معلوم ہوتی ہے تو وہ میری محنت کا قصور نہیں ہے۔ میرے فن کی خامی ہے تو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ میں نے زیادہ محنت کی اس لیے خراب ہوگیا بلکہ یہ ہے کہ میرے فن میں خامی ہے۔ اگر ایسا ہے تو ٹھیک ہے لیکن یہ خیال کرلینا کہ بعض لکھنے والے ایسے ہیں جو قلم زد نہیں کرتے، یہ بہ ذات خود کوئی خوبی کی بات قطعی نہیں ہے اور اس کی اچھائی یا برائی سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘
مشتاق احمد یوسفی، صاحب نظر، صاحب فن شگفتہ نگار تھے۔ ڈاکٹر آصف فرخی کے پیش نگاہ گفتگو میں یوسفی مرحوم نے منشی سجاد حسین کے مشہور زمانہ اخبار ’اودھ پنچ‘ پر دو ٹوک انداز میں کہہ دیا:
’’اودھ پنچ کے جو لکھنے والے تھے۔ لکھنؤ سے جو نکلتا تھا۔ اس کے لکھنے والوں کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہیں۔ خاص طور سے کہ ان کی ساری ظرافت اور ساری برجستگی اور ساری شگفتگی جو تھی وہ صرف الفاظ کے گرد گھومتی تھی۔ اس میں کوئی خیال یا کوئی Situation یا کوئی جذبہ آپ کو اس کے پیچھے نظر نہیں آتا۔ وہ الفاظ کا نیاگرا تھی۔ جیسے بچے Lago یا مکانو کے سیٹ سے مختلف چیزیں بناتے رہتے ہیں۔ اسی طریقے سے وہ الفاظ سے کھیلتے رہتے ہیں۔ چنانچہ ان کا مزاح جو ہے وہ ایک ہی سطحی قسم کا اور وقتی قسم کا مزاح رہا ہے۔ اس لیے ان کی پیشانی پر آپ سوچ کی کوئی لکیر نہیں دیکھیں گے۔ میرا اپنا عقیدہ ہے کہ وہ مزاح کہ جو آپ کو سوچنے پر مجبور نہ کرے وہ ناپختہ ہے۔
مشتاق احمد یوسفی سے 12 دسمبر 2017کو اے آر نیوز پاکستان کے لیے محترمہ ماریہ میمن نے ایک انٹرویو کیا تھا۔ یہ انٹرویو مذکورہ چینل کا مشہور پروگرام ’سوال یہ ہے‘ کا حصہ ہے۔ اس مصاحبے کی خاص بات یہ رہی ہے کہ دکن دیس کی تازہ کار ادیبہ ڈاکٹر بی بی رضا خاتون کی کتاب اردو طنز و مزاح کا یوسفِ لاثانی مشتاق احمد یوسفی (اشاعت: 2016) کا سرورق انٹرویو میں نمایاں طور پر دکھایا گیا ہے۔ ماریہ میمن نے یوسفی مرحوم سے مٹھی بھر سوالات، پسند ناپسند، متاثر کن شخصیت، کتابیں، کس کو پڑھ کر مایوسی وغیرہ ہوئی قائم کیے ہیں۔ اس گفتگو کی نوعیت رسمی اور سنجیدہ گفتگو کی ہے لیکن اس مصاحبے سے ایک سوال کا جواب خیال انگیز ہے۔ لکھنا کب ضروری ہے اس پر مشتاق احمد یوسفی گویا ہوئے:
’’لکھنا اس وقت چاہیے جب واقعی ہم محسوس کرتے ہیں کہ کوئی نئی بات یا کسی انوکھے زاویے سے ہم اسے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ محض لکھنے کی خاطر نہیں لکھتے رہنا چاہیے۔ جب کوئی نئی بات ہمارے خیال میں اس نئے زاویے سے نہیں کہی گئی ہے۔ تب کہنے کا مزہ ہے۔‘‘
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کراچی نے اپنے ایک مضمون ’اب ہم سحرِ یوسفی میں جئیں گے‘ (مطبوعہ ماہ نامہ شگوفہ حیدرآباد دکن جولائی 2018) میں لکھا ہے کہ ڈاکٹر موصوف نے ایک انٹرویو مشتاق احمد یوسفی سے کیا تھا۔ یہ انٹرویو روزنامہ، ڈان کے سنڈے ایڈیشن میں 27 جنوری 1995 کو شائع ہوا تھا۔ مشتاق احمد یوسفی نے دوران انٹرویو آف دی ریکارڈ حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا:
’’موجودہ حالات پر جو شخص بغیر گالی دیے اظہارِ خیال کردے وہ ولی ہے۔‘‘
مشتاق احمد یوسفی نے اپنی اولین کتاب ’چراغ تلے‘ میں بہ قلم خود پہلا پتھر کے عنوان سے ایک انٹرویو ترتیب دیا ہے۔ اس کا انٹرویو کا طرز میں سے میں کی ملاقات کا ہے۔ ’میں کا تعارف‘ کے طور پر اس انٹرویو کی معنویت غیرمعمولی ارتکاز کی حامل ہے۔ یوسفی مرحوم نے اس انٹرویو میں نام، حاندان، تاریخ پیدائش، پیشہ، پہچان، قد، وزن، جسامت، حلیہ، پسند، چڑ، مشاغل، تصانیف اور کیوں لکھتا ہوں جیسے سوالوں کے جواب بے تکلف اور لطف انگیز دیے ہیں۔ ’پیشہ‘ کے جواب میں یوسفی لکھتے ہیں:
’’گوکہ یونیورسٹی کے امتحانوں میں اوّل آیا لیکن اسکول میں حساب سے کوئی طبعی مناسبت نہ تھی اور حساب میں فیل ہونے کو ایک عرصے تک اپنے مسلمان ہونے کی آسمانی دلیل سمجھتا رہا۔ اب وہی ذریعہ معاش ہے۔ حساب کتاب میں اصولاً دو اور دوچار کا قائل ہوں مگر تاجروں کی دل سے عزت کرتا ہوں کہ وہ بڑی خوش اسلوبی سے دو اور دو کو پانچ کرلیتے ہیں۔‘‘
مشتاق احمد یوسفی نے مختصر سوالوں کے اختصار میں جواب کس طرح سے دیے ملاحظہ کیجیے:
’’قد: پانچ فٹ ساڑھے چھ انچ (جوتے پہن کر)
چڑ: جذباتی مرد، جذباتی عورتیں، مٹھاس شطرنج
تصانیف: چند تصویربتاں، چند مضامین و خطوط‘‘
مشتاق احمد یوسفی، اپنے آپ کو گوشہ نشین اور پردہ نشین ادیب سمجھتے تھے۔ وہ انٹرویو دینے سے عمر بھر اجتناب کرتے رہے۔ کئی صحیفہ نگار اور ملاقات نگار نے ان سے مصاحبے کرنے کی خواہش کی تھی مگر خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی تھی۔ مشتاق احمد یوسفی کے چند انٹرویوز ہی ان کے راست گو، پرگو اور صاف گو ہونے کے گواہ ہیں۔ ان کی گفتگوئیں عقل و بصیرت کی آئینہ دار ہیں۔ سحر بیان اور سحر طراز اسلوب کے خالق یوسفی کے انٹرویوز مدتِ مدید تک روشن یاد کی شکل میں زندہ رہیں گے۔ قدیم اردو کے منفرد سخنور سلیمان خطیب کی مشہور نظم ’ساس بہو‘ کے چند ابیات مشتاق احمد یوسفی کے انٹریوز کے عکاس ہیں
بات برگ گلاب ہوتی ہے
بات ام الکتاب ہوتی ہے
بات بوئے کلیم ہوجائے
سننے والا ندیم ہوجائے
"Saiban' Zubair Colony
Hagarga Cross, Ring Road
Gulbarga - 55855104 (Karnataka)
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں