17/12/18

اقبال کی نثر۔ مضمون نگار:۔ شہاب الدین قاسمی





اقبال کی نثر

شہاب الدین قاسمی


علامہ اقبال کودنیا شا عرِ مشرق، فلسفی اور حکیم الامت کے نام سے جانتی ہے لیکن اس کا علم کم لوگوں کو ہے کہ اقبال کی پہلی تصنیف کا تعلق نہ شاعری سے ہے اورنہ فلسفے سے بلکہ نثر سے ہے۔ان کی پہلی کتاب 1903 میں ’علم الاقتصاد‘کے نام سے 216 صفحات پر مشتمل لاہور سے شائع ہوئی جس میں معاشیات کے دقیق اور اہم مسائل کو نہا یت واضح اور موثر ا نداز میں سلجھا نے کی کوشش کی گئی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ اردو زبان میں اپنی نو عیت کی پہلی کتاب ہے۔ اقبال نے خود اس کا دعویٰ کیا ہے۔ ’’علم اقتصادیات پر اردو میں سب سے پہلے مستند کتاب میں نے لکھی ‘‘(15اپریل 1917مکتوب بنام کشن پرشاد شاد)۔ اس کو بیسو یں صدی کی علمی نثر کا اعلی نمو نہ کہا جا سکتا ہے۔ چونکہ اس زما نے میں اس طرح کے علمی موضوعات کو اردو میں پیش کر نے کی کو ئی با قا عدہ روایت نہیں تھی،اس لیے اس قسم کے علمی موضوعات کو آ سان،سادہ اور عام فہم زبان میں پیش کر دینا کسی بڑے کار نامے سے کم نہیں ہے۔کتاب کاابتدائی نمونۂ نثر ملاحظہ ہو:
’’علم الاقتصاد، علم انسانی کے اس خاص حصے کا نام ہے جس کا موضوع دولت ہے اور جس کا مقصد یہ معلوم کرنا ہے کہ دولت کی پیدائش تقسیم، تبادلے اور استعمال کے اصول و اسباب و طریق کیا کیا ہیں ‘‘۔
’علم الا قتصاد‘ کے دیباچے میں اقبال نے لکھا ہے :
’’یہ کتاب کسی خاص انگریزی کتاب کا ترجمہ نہیں بلکہ اس کے مضامین مختلف، مشہور اور مستند کتب سے اخذ کئے گئے ہیں اور بعض جگہ میں نے اپنی ذاتی رائے کا بھی اظہار کیا ہے۔ مگر صرف اسی صورت میں جہاں مجھے اپنی رائے کی صحت پر پورا اعتقاد تھا ‘‘ 
اس سے پتہ چلتاہے کہ اقبال نے فن شعر ہی کو ذریعۂ اظہار نہیں بنا یا بلکہ تقریروں، نثری تحریروں اور خطوں کے ذریعے بھی وہ اپنے خیالات و نظریات کا اظہار کر تے رہے ہیں جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ایک اچھے نثر نگار بھی تھے۔ ڈاکٹر سید عبد اللہ لکھتے ہیں :
’’ اقبال اگر شاعری نہ کرتے اور نثر ہی لکھتے تو بھی وہ اردو نثر میں مرزا غالب کی مانند ایک خاص دبستان یادگار چھوڑ جاتے۔‘‘
مگران کے نثری افکا ر کے خصوصی مطالعے کی طرف کسی نے خاص توجہ نہیں دی۔ادھر چند سا ل ہو ئے اقبال کے مکا تیب اور کچھ نایاب تحر یر وں کے مجمو عے سا منے آئے ہیں۔ لیکن جو کام ہو ناچا ہیے تھا وہ اب بھی باقی ہے۔ علا مہ اقبال کے مضا مین کو سب سے پہلے حیدرآباد میں تصدق حسین حیدر آبادی نے ’مضا مین اقبال ‘کے نا م سے شا ئع کیا۔اسی کو بنیا د بنا کراضا فے کے ساتھ سید عبدالواحد معینی نے ’مقا لات اقبال ‘کے نام سے شائع کیا ہے۔عبد الوا حد صا حب نے اس مجمو عے میں علا مہ کے ان تما م مضامین و مقا لات کو یکجا کر دیا ہے جو انھوں نے اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں مختلف رسا ئل و اخبار میں لکھے تھے۔غرض اس مجمو عے میں علا مہ کی بیشتر ایسی بکھری ہو ئی نثری تحر یریںیکجا ہیں جو انھو ں نے مختلف موضوعات پر مضامین و مقالات کی صورت میں شائع کروائی تھیں۔ اس اعتبا ر سے دیکھا جا ئے تو یہ وا حد مجموعہ ہے جس میں علامہ کی بیشتر اہم تحر یر یں پڑھنے وا لو ں کو یکجا مل جاتی ہیں۔علامہ کا ایک مضمون’ بچوں کی تعلیم و تربیت ‘ جو ا س کتاب میں شامل ہے ایک نمونہ پیش کیا جارہا ہے :
’’بچے میں بڑوں کی مدد کرنے کا مادہ خصوصیت سے زیادہ ہوتا ہے۔ ماں ہنستی ہے تو خود بھی ہنس پڑتا ہے۔ باپ کوئی لفظ بولے تو اس کی آواز کی نقل اتارے بغیر نہیں رہتا۔ ذرا بڑا ہو جاتا ہے اور کچھ باتیں بھی سیکھ جاتا ہے تو اپنے ہمجولیوں کو کہتا ہے!
’’ آؤ بھئی !ہم مولوی بنتے ہیں تم شاگرد بنو‘‘۔ 
کبھی بازار کے دکان داروں کی طرح سوداسلف بیچتا ہے۔ کبھی پھر پھر کر اونچی آواز دیتا ہے کہ :
’’چلے آؤ !انار سستے لگادیے ‘‘۔
اس وقت میں بڑا ضروری ہے کہ استاد اپنی مثال بچے کے سامنے پیش کرے تاکہ اسے اس کے ہر فعل کی نقل کرنے کی تحریک ہو۔
قوت متخیلہ یا واہمہ بھی بچوں میں بڑی نمایاں ہوتی ہے۔ شام ہوئی اور لگا ستانے اپنی ماں کو :
’’ اماں جان ! کوئی کہانی تو کہہ دو !‘‘۔ 
ماں چڑیا یا کوے کی کہانی سناتی ہے تو خوشی کے مارے لوٹ جاتا ہے۔‘‘
مذکورہ تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی افسانے کا مطالعہ ہورہا ہے۔اسی طرح ’قومی زندگی‘ میں شرائط زندگی اور ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت پر گفتگو کر تے ہوئے لکھتے ہیں :
’’یہ بد قسمت قوم حکومت کھو بیٹھی ہے، صنعت کھوبیٹھی ہے، تجارت کھو بیٹھی ہے۔اب وقت کے تقاضوں سے غافل اور افلاس کی تیز تلوار سے مجروح ہوکر ایک بے معنی توکل کا عصا ٹیکے کھڑی ہے۔ اور باتیں تو خیر، ابھی تک ان کے مذہبی نزاعوں کا ہی فیصلہ نہیں ہوا۔ آئے دن ایک نیا فرقہ پیدا ہوتا ہے جو اپنے آپ کو جنت کا وارث سمجھ کر باقی تمام نوع انسانی کو جہنم کا ایندھن قرار دیتا ہے‘‘۔ 
آگے مولوی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ مولوی صاحبان کی یہ حالت ہے کہ اگر کسی شہر میں اتفاق سے دو جمع ہوجائیں، تو حیات مسیح یا آیات ناسخ و منسوخ پر بحث کرنے کے لیے باہمی نامہ و پیام ہوتے ہیں... ہاں مسلمان کافروں کی ایک فہرست ہے کہ اپنے دست خاص سے اس میں روز بروز اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ ہاں امرا کی عزلت پسندی کی داستان سب سے نرالی ہے۔ خیر سے چار لڑکیاں اور دو لڑکے تو پہلے سے ہیں، ابھی میاں تیسری بیوی کی تلاش میں ہیں اور پہلی دو بیویوں سے پوشیدہ کہیں کہیں پیغام بھیجتے رہتے ہیں۔ کبھی گھر جی جوتی بیزار سے فرصت ہوئی تو بازار کی کسی حسن فروش نازنین سے بھی گھڑی بھر کے لیے آنکھ لڑاآئے ‘‘۔
مضامین کے علا وہ ہما ری خوش قسمتی ہے کہ علامہ کے مکاتیب کے بیش بہا مجمو عے موجود ہیں۔ان مکا تیب میں بھی علا مہ نے زیا دہ تر ادبی یا فنی موضو عات سے بحث کی ہے۔’’اقبال نامہ ‘‘علامہ اقبال کے مکا تیب کا مجموعہ ہے جو انھوں نے اکبر الہ آبادی، محمد علی جناح، بابائے اردو مولوی عبد الحق اور بعض دوسرے ہم عصر وں کے نام لکھے ہیں۔اس مجمو عے کو شیخ عطا ء اللہ نے 1943 میں مرتب کیاہے۔ان خطوط سے علامہ کی سیرت و شخصیت پر روشنی پڑ تی ہے،مختلف موضوعات پر ان کے خیالات و نظریات کا اندازہ ہو تا ہے اور ان کے اسلوب نگا رش کی صحیح قد ر و قیمت بھی معلو م ہو تی ہے۔اس مجمو عے کے ایک خط کے اقتباس سے اس کی حقیقت کا صحیح طور پر اندازہ ہوگا:
مکرم بندہ جنا ب میر صاحب 
السلا م علیکم 
دو نو ں رسا لے پہنچے،سبحا ن اللہ نواب صاحب کی غزل کیا مزے کی ہے،افسوس ہے کہ اب تک میں نے آپ کے گلدستے کو کوئی غزل نہیں دی.... ایک تکلیف دیتا ہو ں،اگر آپ کے استا ذی حضرت مر زا داغ کی تصویر ہوتو ارسال فر ماےئے گا،بہت ممنون ہونگا۔اگر آپ کے پا س نہ ہو تو مطلع فر ما ئیے گا کہ کہا ں مل سکتی ہے۔ میں نے تما م دنیا کے بڑ ے بڑ ے شاعرو ں کے فو ٹوز جمع کر نے شروع کیے ہیں ......اگر آپ کو معلوم ہو تو از راہِ کرم جلد مطلع فر ما ئیں۔حضرت امیر مینا ئی کے فوٹو کی بھی ضرورت ہے۔ 
و السلام
خاکسار محمد اقبال 
قا رئین کو اس مختصر سے اقتباس سے اندازہ ہو گیا ہوگا کہ علامہ کا مزاج کیا تھا۔مطلب کی بات کس قدر سہل اور چھو ٹے چھوٹے جملے میں لکھتے تھے۔نیز ان کی نثر میں تکلف و تصنع کی پیچیدگیا ں با لکل نہیں ہیں۔ہر کوئی آسانی کے ساتھ ان کی بات سمجھ سکتا ہے۔
نثرِ اقبال کا ایک اہم موضوع قومی ملی زندگی ہے۔ اس مو ضوع پر انھوں نے کوئی با قاعدہ ضخیم کتاب تو نہیں لکھی ہے لیکن جو کچھ انھوں نے اپنی شاعری میں کہاہے اس کی تفسیر ان کے مضا مین نثر میں ملتی ہے۔ان کا سب سے پہلا مضمون ’بچو ں کی تعلیم و تر بیت ‘ کے عنوان سے ہے جو 1902میں مخزن میں شائع ہوا۔یہ سلسلہ چلتا رہا 1904 میں ’مخزن ‘میں قومی زندگی پر ایک مفصل مضمون ’قومی زندگی‘ کے نام سے شائع ہوا ۔پھر اس کے بعد اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں علامہ نے ’خلافت اسلامیہ‘، ’ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘ جیسے اہم قومی و ملی موضوعات پر قلم اٹھا یا۔ان مضا مین کے علا وہ دیبا چۂ مثنوی’اسرار خودی‘ اور دیبا چہ ’پیام مشرق ‘ میں بھی انھوں نے قومی و ملی مسائل پر اظہار خیال کیا ہے۔ان میں سے ہر نثری تحریر بحیثیت مو ضوع اور اسلوب خاص اہمیت کی حامل ہے۔
اقبال کے اسلوب کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ سنجیدہ اور علمی مو ضو عات کو بھی دلچسپ اور پر لطف بنا کر پیش کر تے ہیں۔ شا عری کی طرح ان کی نثر میں بھی بعض جگہ تصویر کشی کے نمو نے ملتے ہیں خاص طور پر کسی علمی نکتے کی وضا حت کے سلسلے میں جب وہ کو ئی وا قعہ بیان کرتے ہیں تو ان کا تخیل کچھ ایسی تصویریں بنا تا ہے جو جاندار اور بولتی ہو ئی معلو م ہو تی ہے۔
’’لا ہور کے کسی محلے میں جا نکلو،ایک تنگ و تا ریک کوچے پر ہما ری نظر پڑے گی جس وحشت زدہ سکوت کے طلسم کو رہ رہ کر لا غر،نیم برہنہ بچو ں کی چیخ و پکا ر یا کسی پر دہ نشیں بڑھیا کی لجا جت آ میز صدا توڑ تی ہو گی جس کی سو کھی اور مر جھا ئی ہو ئی انگلیا ں بر قع میں سے نکل کر خیرات کے لیے پھیلی ہو ئی ہو ں گی ‘‘
مسلمان قوم کی تبا ہ حالی،خصوصا غربا کی اس پامالی کا نقشہ دیکھ کر افسر دگی کا احسا س ہو تا ہے۔جزئیات یعنی لا غر و نیم بر ہنہ بچو ں کی چیخ و پکا ر اور پر دہ نشیں بڑھیا کی سوکھی مر جھا ئی اور خیرا ت طلب کر تی انگلیا ں اس عبارت کا وصف خا ص ہیں۔یہ جز ئیات دل کو متا ثر کر تی ہیں اور افلا س و غر بت کی تصو یر حواس پر چھا جا تی ہے۔
تفکرات زمانہ اور گونا گوں مصرو فیتوں نے اس کی مہلت علامہ کو نہ دی کہ وہ اردو نثر کو بھی اپنی غیر فانی نظموں کی طرح ایک گراں سرمایہ عطا کریں۔پھر بھی جس ادیب کی پہلی تصنیف نظمو ں کو چھوڑ کر اردو نثر میں ہو اور جو اپنی معر کتہ الآراء نظموں کے ساتھ اردو میں بیش بہانثر بھی لکھتا رہا ہو۔اس کی نثر نگاری کو نظر انداز کرنا صریح طور پر نا انصافی ہو گی۔یہ حقیقت ہے کہ اقبال نے اس زمانے میں جو نثر لکھی وہ مقدار میں کچھ زیا دہ نہیں ہے لیکن جو کچھ بھی انھوں نے لکھا ہے اس میں اس عہد کے رجحا نات کی جھلک صاف نظرآ تی ہے۔ان کی نظم کے ساتھ ساتھ نثرمیں بھی ان کی انفرا دیت کا احسا س ہو تا ہے۔ 

Mr. Mohd Shahabuddin Rahmani Qasmi
D-41, J J Coony, Inderapuri
New Delhi - 110012
Mob.: 8826080282
E-mail.: qasmi1@gmail.com





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں