18/12/18

برج نرائن چکبست کے شعر کا سائنسی تجزیہ۔ مضمون نگار:۔محمد عادل






برج نرائن چکبست کے شعر کا سائنسی تجزیہ۔ 

محمد عادل


زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب

موت کیا ہے انھیں اجزا کا پریشاں ہونا

برج نرائن چکبست کا شمار اردو کے بڑے شعرا میں کیا جاتا ہے۔ چکبست جس دور میں شاعری کر رہے تھے وہ شاعری کے عروج کا دور تھا اس کے ساتھ ہی نئے نئے علوم وفنون عوام کو متاثر کر رہے تھے۔عوام میں روایت شکنی کے ساتھ ساتھ بیداری پیدا ہو رہی تھی۔قدم قدم پر سائنسی نظریات اپنا لوہا منوا رہے تھے۔ایسے ماحول میں شعرا کیسے اپنے آپ کو سماج اور معاشرے سے الگ رکھ سکتے تھے کیونکہ ادب کا کام صرف یہ نہیں کہ وہ روایتوں کی پاسداری میں حال کے تمام تقاضوں کو فراموش کردے۔ چنانچہ شعرا نے اپنے دور کے ماحول و مزاج کو سمجھتے ہوئے اپنے قلم کو جنبش دی اور شعوری اور لا شعوری طور پر ان باتوں کو بیان کیا جن کی ان کے دور میں ضرورت تھی یا اہمیت تھی۔انھوں نے عوام میں بیداری لانے کے لیے نظمیں اور غزلیں تحریر کیں۔ چکبست بھی اس راہ میں نہایت فعال نظر آئے انھوں نے جدید اور قدیم دونوں تہذیبوں کی علمبرداری کی اور اپنے ماحول کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی نئی پہچان قائم کی، جس کے لیے انھوں نے نئے نئے موضوعات اپنی غزلوں میں داخل کر کے اس کے دائرۂ کار کو وسیع کیا۔ اس مضمون میں برج نرائن چکبست کے ایک مشہور شعر کا سائنسی تجزیہ مختلف زاویوں سے پیش کیا گیا ہے۔
چکبست نے جس خوبی سے فلسفے اور منطق کی ادق باتوں کو اپنے اس ایک شعر میں سمو دیا ہے اس کی مثال ملنامحال ہے۔ان کے اس شعر کی وسعت،گہرائی اور گیرائی کو ضابطۂ تحریر میں لانا آسان نہیں۔
اپنے گردوپیش کا مشاہدہ کرنے کے بعد ہم کو بہت سی ایسی چیزیں نظر آتی ہیں جو شکل وصورت،جسامت و ساخت میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق ہماری کائنات میں موجود ہر شے مادہّ (Matter)کی وجہ سے وجود میں آئی ہے۔وہ فضا جس میں ہم سانس لیتے ہیں وہ غذا جو ہم کھاتے ہیںیا ہمارے آس پاس پائے جانے والے جمادات و نباتات یاپانی کاایک چھوٹا سا قطرہ یاریت کا باریک ذرّہ ہر چیز میں مادے (Matter) کی کارمافرمائی ہے۔یہ تمام چیزیں جگہ گھیرتی ہیں ان میں حجم اور کمیت دونوں پائے جاتے ہیں۔قدیم یونانی و ہندوستانی فلسفی ہمیشہ مادّے کی نامعلوم اور بظاہرنظر نہ آنے والی شکل کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔ اس بات کو پورے اعتماد کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستان میں بھی تقریباً 500 ق۔م مادے کی تقسیم کا موضوع قابلِ غور رہا ہے۔ہندوستانی فلسفی’مہارشی کنڈ‘ نے کہا تھا کہ مادّے(پدارتھ) کو اگر تقسیم کرتے ہیں تو ہم کو چھوٹے،چھوٹے ذرّات ملیں گے یہاں تک کہ ایک ایسا مقام آجائے گا جب ہم ان ذرّات کو اور تقسیم نہیں کر پائیں گے انھوں نے ان ذرّات کو ’پرمانو‘کانام دیا۔ اس کے علاوہ اسی زمانے کے یونانی فلسفی’ڈیماکریٹس‘ اور ’لیوسیپز‘ نے اسی نظریے کی ترجمانی کرتے ہوئے اس ناقابلِ تقسیم ذرات کو ایٹم (Atom) کہا تھا۔اسی یونانی نظریے کی ترجمانی کرتے ہوئے برطانوی کیمیاداں جان ڈالٹن(John Dalton) نے 1808میں ’اٹامک تھیوری‘ کا نظریہ پیش کیا۔ اس نظریے کے مطابق مادہ چھوٹے چھوٹے ذرّات سے مل کر وجود میں آیا ہے جس کو ایٹم کہتے ہیںیہ ناقابلِ تقسیم ہے جس کو کیمیائی تعامل میں نہ توتخلیق کر سکتے ہیں نہ اس کو فنا کیا جاسکتا ہے۔مختلف عناصر کے ایٹم کی کمیت اور کیمیائی خصوصیات منفردہوتی ہیں لیکن بعد میں ہم دیکھتے ہیں کہ سائنس دانوں نے الیکٹران، پروٹان، اورنیوٹران کی دریافت کر کے اس نظریے کو رد کردیا کہ ایٹم ناقابلِ تقسیم شے ہے اورعصر حاضر کے سائنسدانوں نے ’ بوسون‘ کی دریافت کر کے ایک نئی کامیابی حاصل کی ہے۔اس کی دریافت ’سوئٹزرلینڈ‘ میں واقع تجربہ گاہ لارج ہاڈرون کولائڈر (Large Hadron Collider) میں4جولائی 2012 بدھ کے دن ہوئی۔ سائنسدانوں کے مطابق انھوں نے ایسے ذرّے کو دیکھنے میں کامیابی حاصل کی جو صرف ہمارے کرۂ ارض پر ہی نہیں بلکہ تمام کائنات میں زندگی کی موجودگی کی بنیاد اور اس کا سبب ہے اور کائنات کی سب رنگا رنگی اس کی مرہونِ منت ہے۔ دورِحاضر کی سائنس کے مطابق یہی ذرّات ہیں جو کائنات کے مکان کی اصل اینٹیں ہیں یہ بات قابلِ غور ہے کہ مادّے کوفنا نہیں ہے وہ صرف اپنی شکل بدلتا ہے اور ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے جس میں اس کو مزید تقسیم کرنا ممکن نہیں ہوتا اس انتہا کو جدید سائنسداں بوسون (Boson) کہتے ہیں۔بوسون کو صرف بوسون نہیں کہا جاتا ہے بلکہ اس کوماہرینِ طبیعات ’ہگزبوسون‘(Higgs Boson) کہتے ہیں۔ دراصل Peter Higgsنے ایک تھیوری پیش کی تھی جس کے مطابق اگر بوسون کا پتا چل جائے اور وہ نظر آجائے تو تخلیقِ کائنات اور آدمی کے وجود میں آنے کا راز آشکار ہوسکتا ہے جو ابتدا سے لے کر اب تک پردۂ خفا میں ہے۔اس نظریے کی بنیاد وہ نظریہ ’اسٹینڈرڈ ماڈل‘کہلاتا ہے جو 1924میں سائنسدانوں نے پیش کیا۔ اس نظریے کے مطابق کائنات ایک بندھے ٹکے اور مضبوط عمل کے ذریعے وجود میں آئی ہے۔یہ جو پھول کھلتے ہیں اورُ مرجھا جاتے ہیں، انسان اور دوسرے ذی حیات پیدا ہوتے ہیں اور مرجاتے ہیں ایک ’اسٹینڈرڈ ماڈل‘ کے مطابق ہے۔یہ عمل خود بخود اسی طرح رواں دواں مسلسل ہوتا رہتا ہے۔اس میں تبدیلی اس وقت رونما ہوتی ہے جب کائنات کا کوئی کردار مثلاً انسان یاکوئی اور ذی حیات اس طے شدہ سسٹم کے برعکس کام کرتا ہے۔ بوسون وہ ذرّہ ہے جو تمام کائنات کی اساس ہے اگر اس کو کسی بھی طرح ریگولیٹ کر دیا جائے تو درہم برہم کا یہ سلسلہ روکا جاسکتا ہے۔ بوسون مادّے کی گویا اصل ماں ہے جس کے سبب سارے مادّی ذرات وجود میں آئے ہیں اگر اس کاوجود نہ ہو تو مادّے کی تمام تر اقسام روشنی کی رفتار سے گردش کرنے لگ جائیں گی کیوں کہ مادّہ نہیں ہوگا تو زندگی بھی نہیں ہوگی یعنی بوسون ہی مادّی وجود کی حیات و موت کاسبب ہے۔برج نرائن چکبست کا شعر مادہ کی بناوٹ اس کے عناصر کے ظہور میں آنے اور اس کے فنا ہونے یعنی ’اسٹینڈرڈ ماڈل‘ کی ترجمانی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
ہمارے جسم میں متفرق اکائیاں موجود ہیں ان اکائیوں کو بیان کرنے کے لیے لفظ خلیہ(Cell) کا استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے رابرٹ ہک(Robert Hook) نے 1665میں اپنی بنائی ہوئی خورد بین کے ذریعے اس کی دریافت کی۔ سیل کا مطلب لاطینی زبان میں چھوٹے کمرے کے ہوتے ہیں۔یہ ہمارے جسم کے بلڈنگ بلاکس کہلاتے ہیں جس طرح کوئی بلڈنگ اینٹوں سے مل کر بنتی ہے اسی طرح ذی حیات کے اجسام بھی خلیات کے مل کر جڑنے سے وجود میں آئے ہیں۔ نرم و نازک مہکتے ہوئے پھول ہوں یا تناور درخت یا پھر ہری ہری گھاس یا انسان، چرند ہوں یا پرند زندگی کی ہر شے کا وجود خلیے کے سبب ہی ممکن ہے۔ خلیے کی بہت سی قسمیں اورشکلیں ہوتی ہیں سب سے بڑا خلیہ شتر مرغ کا انڈا مانا گیا ہے اور سب سے چھوٹے خلیہ کا سائز اتنا ہوتا ہے کہ اگر دس لاکھ خلیات کو ایک جگہ رکھا جائے تو پن کے سر کے برابر جگہ میں سما جائیں گے۔ انسانی جسم کی ہر حرکت،جنبش،اور فعل خلیات کے سبب ہی وجود میں آتے ہیں۔ کچھ خلیات پھیپھڑوں کو بناتے ہیں تو کچھ دل کی تشکیل کرتے ہیں۔ نیورون نامی خلیات ہاتھوں، پیروں، آنکھوں وغیرہ سے آنے والے پیغاماتی سگنل کو دماغ تک پہنچانے میں مدد کرتے ہیں۔ ہمارے خون میں پائے جانے والے سرخ خلیات (RBC) آکسیجن کو لانے لے جانے کام انجام دیتے ہیں۔ ہرخلیے کا اپنا ایک مکمّل نظام ہوتا ہے جو کسی خاص کام کو انجام دیتا ہے۔اس میں مائٹو کانڈریا نام کا پاور پلانٹ موجود ہوتا ہے جس سے اس کو توانائی ملتی رہتی ہے۔یہ خون کے سرخ خلیات کو چھوڑ کر جسم کے تمام خلیات میں پایا جاتا ہے۔اس میں نیوکلیس نامی کنٹرول روم بھی موجود ہوتا ہے۔اس میں گالگی باڈیز پروٹینس کو اسٹور کر کے رکھتی ہے۔وسیکلس چیزوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتی ہے۔یہ مکمل طور سے ایک حفاظتی پیکٹ نما جھلّی میں محفوظ رہتا ہے۔ ہر شخص تقریباً ایک سو کھرب (100 Trillion) خلیات اپنے جسم میں رکھتا ہے۔ زندگی کے وقوع پزیر ہونے سے لے کرتا حیات انسانی میں جسم میں بدلاؤ رونما ہوتے رہتے ہیں۔ کسی بھی ذی حیات کا جسم کبھی بھی ایک جیسا نہیں رہتا ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق ہمارے جسم میں ہر لمحہ کچھ نہ کچھ بدلاؤ ہوتا رہتا ہے۔ہمارے جسم میں اس بدلاؤ کا عمل جسم کے خلیات کے سبب وجود میں آتا ہے۔اس عمل کے دوران پرانے خلیات کے خاتمہ ہونے پر نئے خلیات ان کی جگہ لے لیتے ہیں۔سائنس دانوں نے اس بات کو اپنی تجربات سے ثابت کیا ہے کہ جسم کی بافتیں (Tissues) مسلسل دوبارہ پیدا ہوتی رہتی ہیں۔اس عمل میں 20 کروڑ خلیات ہر منٹ وجود میں آتے ہیں اور یہ خلیات ان خلیات کی جگہ لیتے ہیں جو خلیات مردہ ہو چکے ہیں۔اس طرح ہماری زندگی کی بقا کے لیے ان خلیوں کا اہم کردار ہے۔کسی جاندار کے تمام تر جسمانی افعال کا جب خاتمہ ہوتا ہے تو اس کو طبیعی اعتبار سے موت کہا جاتا ہے۔تمام تر جانداروں کے خلیات کے اندر ایسے کیمیائی تعملات صادر ہوتے ہیں جو رفتہ رفتہ موت کا سبب بنتے ہیں۔خلیات کو فعال کرتے رہنے کے لیے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ مختلف قسم کے کیمیائی مرکبات (Compounds) سے مل کر وجود میں آتے ہیں۔ مثلاً پروٹین، کاربوہائیڈریٹ، چکنائی(چربی) وغیرہ۔یہ خلیات بہت حرکی ہوتے ہیں ان میں کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے۔یہ ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرتے رہتے ہیں اور جو حرکت پزیر نہیں ہوتے ان میں مرمت کا کام چلتا رہتا ہے۔جب کسی چوٹ کے سبب خلیہ اپنے اندرونی اور بیرونی ماحول میں توازن برقرار نہیں رکھ پاتا ہے تو اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔الغرض ان کو اپنی زندگی برقرا رکھنے کے لیے عناصر (Elements) اور مرکبات (Compounds) کے ایک توازن کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ان عناصر میں آکسیجن، نائٹروجن، کاربن، گندھک وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ خلیہ میں پلازمہ یا خون کے درمیان مختلف کیمیائی عناصر اور مرکبات کا تبادلہ اس کی ضرورت کے سبب ہوتا رہتا ہے۔ جب تک یہ توازن برقرار رہتا ہے ان کے افعال برقرار رہتے ہیں اور جب اس میں تبدیلی رونما ہونے لگتی ہے تو ان کی موت واقع ہو سکتی ہے۔
اب تک 118 عناصر کی دریافت ہو چکی ہے۔تمام عناصر میں تین چوتھائی حصّہ دھاتیں اور ایک چوتھائی ادھاتیں ہیں۔ہماری صحت کی حفاظت اورزندگی کے لیے بھی یہ بہت اہم ہیں۔انسانی جسم میں99% عناصر جو بڑی تعداد میں موجود ہوتے ہیں ان میں ’آکسیجن، کاربن، ہائیڈروجن، نائٹروجن، کیلشیم اور فاسفورس‘ قابلِ ذکر ہیں۔اس کے علاوہ ’پوٹاشیم، گندھک، سوڈیم، میگنیشیم، تانبے، زنک، سیلینیم، مولبڈینم، فلورین، کلورین، آئیوڈین،میگنز(Manganese) کوبالٹ، آئرن ‘ جیسے عناصر بھی ہمارے انسانی جسم میں موجود ہوتے ہیں جو اس کی نشوو نمامیں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان عناصر کی کمی یا زیادتی کے سبب انسانی صحت متاثر ہو سکتی ہے اور ہمارے جسم میں بہت سی بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔ مثلاً ’ہڈیوں کا کمزور ہونا، اوسموٹک توازن کا بگڑنا، دانتوں کی بیماریاں، لیور کا متاثر ہونا، ہیموگلوبین کی کمی ہونا، گھیگھوا(Goitre) کا بننا‘ وغیرہ۔ چکبست نے زندگی اور موت کے مراحل میں انھیں کیمیائی عناصرکی افادیت کو مذکورہ شعر میں بیان کیا ہے۔
ہمارا ماحول فطری طور سے تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ اس میں چاروں طرف جاندار اور غیر جاندار چیزیں شامل ہیں اس کے علاوہ اس میں طبعی عوامل مثلاً روشنی،درجہ حرارت، دباؤ، پانی، رطوبت(نمی)،ہوا،بارش اور موسم وغیرہ کی بھی کارفرمائی ہے۔ اس لیے ہمارے اطراف کی طبعی اور حیاتی دنیا ہی ہمارا ماحول کہلاتی ہے۔یعنی جو بھی جاندار اور بے جان نباتات و حیوانات سے متعلق چیزیں ہیں ان سب کا مجموعی نام ماحول (Environment) ہے۔ زمین پر مختلف قسموں کے جانداروں کی ارتقا (Evolution) اور بقا (Survival) کے لیے مناسب حالات پائے جاتے ہیں۔زمین کا درجہ حرارت نہ زیادہ گرم ہے اور نہ زیادہ سرد جتنا کہ زہرہ اور عطارد پر اور مشتری اور دوسرے سیّاروں پر ہے۔
ہمارا زمینی ماحول چار بنیادی عناصر، کرۂ باد (Atmosphere)، کرۂ جمادات (Lithoshphere)، کرۂ آب (Hydrosphere)، اور کرۂ حیات (Biosphere) پر مشتمل ہے۔
کرۂ باد(Atmosphere) زمین کے اطراف میں پائے جانے والا گیسوں کاایک غلاف ہے جس نے زمین کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے جوزمین کوسورج کی الٹراوائلٹ کرنوں سے محفوظ رکھتا ہے۔یہ ایک اہم کُرہ ہے کیونکہ موسم میں تبدیلیاں اسی کُرہ کے سبب ہوتی ہیں۔ ماحول کے چاروں عناصر میں اس کا شمار سب سے زیادہ تغیر پزیر عناصر میں ہوتا ہے۔ کرۂ باد میں طرح طرح کی گیسیں پائی جاتی ہیں جس میں سب سے زیادہ نائٹروجن کا حصّہ ہے۔یہ زمین سے 20کلومیٹر کی بلندی پر ہے۔
کرۂ جمادات(Lithoshphere) زمین کی سب سے اوپری پرت کو کہتے ہیں۔یہ سلیکن اور المونیم سے مل کربنا ہوتا ہے۔اس سے ملا ہوا نیچے کا حصہ سلیکن اور میگنیشیم سے مل کر بنا ہوا ہوتا ہے۔اس میں ہی مختلف قسم کے ایدھن کے ذخیرے پائے جاتے ہیں۔اس کی مختلف پرتوں میں مختلف چٹانیں ہیں۔جب کہ زمین کے اوپر یہ پتلی پرت کی شکل میں نظر آتاہے۔
کرۂ آب(Hydrosphere) :زمین کے گرد پانی کا ایک بہت بڑا گھیرا ہے جوسمندر،دریا،جھیل اوردوسرے آبی ذخیروں سے مل کر بنا ہے جس کوکرۂ آب (Hydrosphere) کہا جاتا ہے۔زمین کا 70فی صد حصہ پانی سے بھرا ہوا ہے۔جس کا اثر موسم کی تبدیلیوں اور جانداروں کی زندگی پر بھی ہوتا ہے۔
کرۂ حیات(Biosphere) کوسب سے بڑا ماحولیاتی نظام (Eco-System) کہا جاتا ہے۔در اصل ماحولیات کے مختلف موضوعات کا تعلق در حقیقت کرۂ حیات سے ہی ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب زندگی دینے والا کرہ ہے۔کرۂ حیات کے سبب جاندار اور بے جان عوامل کے درمیان مسلسل تعاملات کی وجہ سے غذا اور توانائی کی منتقلی ہوتی رہتی ہے۔ ہمارا زمینی کرۂ حیات کرۂ جمادات (Lithoshphere)،کرۂ آب (Hydrosphere) اور کرۂ باد(Atmosphere) پر مشتمل ہے۔ان سب کُروں میں زندگی موجود ہے اور ان کے اندر جاندار پائے جاتے ہیں۔زمین کے علاوہ دوسرے کسی سیارے پر کرۂ حیات کے امکانات نہیں ملتے ہیں۔کیوں کہ وہاں پر نہ تو پانی ہے اور نہ ہی ہوا کا وجود ہے۔اسی کے سبب وہاں کرۂ آب اور کرۂ باد کا بھی وجود نہیں ملتا۔ زمین پر موجود تمام جاندار زندہ رہنے کے لیے اپنے ارد گرد کے ماحول پر بھروسہ کرتے ہیں اس میں حیاتی (Biotic) اور غیر حیاتی (Abiotic) سب ہی چیزیں شامل ہیں۔یہ وہ فطری ماحول ہے جس میں جاندار اپنے اطراف کی چیزوں کے ساتھ ہم آہنگی اور تعلق قائم کرتے ہیں۔لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ انسان اپنے مفاد کی خاطراس قدرتی ماحول کے ساتھ کھلواڑ کر رہا ہے۔انسانی اعمال کے نتیجے میں ہزاروں سال سے مخلوقات کی پرورش کرنے والی یہ زمین آج بربادی کی راہ پر گامزن ہے۔اس زمین کی پرتیں ڈھیلی ہوتی جارہی ہیں،مٹّی کی زرخیزی ختم ہوتی جارہی ہے، ہوائیں لطیف سے کثیف ہوتی جارہی ہیں،دریا اور سمندر کاپانی آلودہ ہوتا جا رہا ہے،بہت سے پرندے، جانور اور نباتات کا وجود ختم ہوتا جارہا ہے۔ ماحولیات کے عناصر میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔کرۂ جمادات، کرۂ آب، کرۂ باداورکرۂ حیات آلودہ ہو چکے ہیں۔کرۂ باد میں شگاف ہو چکا ہے جس کے سبب سورج کی مضر کرنیں زمین تک آرہی ہیں اور زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔برج نرائن چکبست کا یہ شعرمکمل طور سے ماحولیات کے ماضی، حال اور مستقبل کی تبدیلوں کی ترجمانی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ 
رات کی تاریکی میں جب ہم آسمان کامشاہدہ کرتے ہیں تو ہم کو ستاروں سے منّور ایک حسین منظر نظر آتا ہے۔ ہم کو ستاروں کے بے شمار جھرمٹ نظر آتے ہیں جن کو ہم اعداد و شمار میں بھی نہیں لا سکتے ہیں۔ہمارا سورج خود ایک ستارہ ہے اس کا تعلق تقریباً ایک ہزار ملین ستاروں کے جھرمٹ سے ہے۔اجرامِ فلکی کا یہ جھرمٹ کہکشاں کے نام سے جانا جاتا ہے۔اسی کہکشاں میں ہماری زمین اور نظامِ شمسی میں شامل سیّارے بھی ہیں۔ماہرینِ فلکیات کے مطابق کائنات کا وجود ایک بڑے دھماکے (Big Bang)کے بعد وجود میں آیا۔دھماکے کے بعد ایک زور دار ہلچل ہوئی اور خلا میں دور دور تک ملبہ پھیل گیا جس سے کہکشائیں وجود میں آئیں اور اب بھی یہ مسلسل گردش میں ہیں اور پھیل رہی ہیں۔ ہمارا نظامِ شمسی بھی اسی طرح بنا ہے۔ماہرین کے مطابق سورج کے چکّر کاٹنے والے ہمارے نظامِ شمسی کے سیارے عطارد، زہرہ، زمین، مریخ، مشتری، زحل، یورینس، نیپچون،پلاٹو بھی سورج کے ہی ٹکڑے ہیں جو ایک طاقت ور ہلچل کے سبب ٹوٹ کر سورج سے نکلے ہیں۔ آج کے جدید دور میں ماہرینِ فلکیات نے ان آسمانی ہلچل اور اجرامِ فلکی کا مشاہدہ کرنے کے لیے بڑی بڑی دوربینوں (Telescopes) اور سیٹلائٹ ڈیزائن کیے ہیں تاکہ رات دن خلاؤں میں ہونے والی ہلچل پر ہر لمحہ نظر رکھی جاسکے۔ اس کے سبب ہم یہ دریافت کر سکے ہیں کہ ہماری زمین اپنے محور پرگھوم کرسورج کے گرد365 دن میں اور کچھ گھنٹوں میں چکّر لگاتی ہے جس سے رات اور دن اورموسموں کا سلسلہ قائم رہتا ہے۔لیکن ہمارے نظامِ شمسی میں دوسرے سیّارے مختلف فاصلوں پر ہونے کے سبب مختلف وقت میں سورج کے گرد چکّر لگاتے ہیں۔مثلاً ’یورینس کو 84سال،نیپچون کو 165سال،پلوٹو کو 248سالوں ‘کا عرصہ درکار ہے۔ کائنات کا پورے ڈھانچے اور اس کے مَبداء کا علم کونیات (Cosmology)کہلاتا ہے۔کائنات کی ابتداء اور اس کے خاتمہ کے بارے میں بہت سے نظریات پائے جاتے ہیں۔ قدیم یونانی نظریہ ’مستحکم حالت کا نظریہ‘ (Steady-State Theory) کے مطابق یہ کائنات قدیم ہے اس کا کوئی آغاز ہے اور نہ کوئی انجام ہے۔یہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔موجودہ دور میں سائنسدانوں کے مطابق اس کائنات کا وجودایک عظیم دھماکے سے وجودمیں آیا ہے اور یہ تصور کیا جاتا ہے کہ اس کی عمر لگ بھگ 14 ارب سال ہے اور یہ نظریہ عام ہوگیا ہے کہ کائنات کا آغاز ایسے عظیم واقعہ سے ہوا ہے جس کو بگ بینگ(Big Bang)کہا جاتا ہے۔
اس نظریے نے قدیم یونانی نظریہ ’مستحکم حالت کا نظریہ‘ (Steady-State Theory) کو غلط قرار دیا ہے اور یہ اس بات کی بھی ترجمانی کرتا ہے کہ جس طرح اس کائنات کا وجود ایک عظیم دھماکے سے ہوا ہے اسی طرح اس کائنات کا خاتمہ بھی ممکن ہے۔ ایک وقت ایسا بھی ہوگا جب یہ تمام تر مادّۂ کائنات آپس میں ٹکرانے کے سبب چور چور ہوجائیں گے۔اسی طرح جس طرح یہ پھیل رہی ہے اس کا خاتمہ بھی ایک ممکنہ صورت’بگ کرنچ‘(Big Crunch)کے سبب ہوگا جس میں ایک عظیم دھماکا ہوگا اور مسلسل پھیل رہی یہ کائنات سکڑنا شروع کردے گی یہ عمل بالکل ’بگ بینگ‘ کے عمل کا الٹا ہوگا جس کے نتیجہ میں کائنات کا خاتمہ ہو جائے گا۔اب چکبست کے مذکورہ شعر پر پھر غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ یہ شعر مندرجہ بالا تھیوریوں پر بھی کھرا اُترتا ہے۔
الغرض مذکورہ شعر اپنے اندر مفاہیم کا لا متناہی سمندر سمیٹے ہوئے ہے جس کو سائنس کی مختلف تھیوریوں پر پرکھا جا سکتا ہے۔اس شعر کو بخوبی سمجھنے والے اور سائنس کی معلومات رکھنے والے قارئین اس شعر سے بہت لطیف نتائج نکال سکتے ہیں اور یہ بات بلا کسی تردد کہی جا سکتی ہے کہ چکبست اپنے اس شعر کی وجہ سے ہمیشہ ادب میں منفردلب و لہجے کے مالک اور زندۂ جاوید رہیں گے۔
کتابیات
(1) ’جسم کے عجائبات‘ تحقیق ’جے ڈی ریٹ کلف‘ ترجمہ’محمد علی سید‘ کرا چی پاکستان
(2) ’خلیہ اِک کائنات‘ ہارون یحییٰ مترجم ’عبدالخالق ہمدرد ‘ لاہور پاکستان
(3) ماحولیات (محمد شمس الحق) قومی کونسل برائے فروغ اردوزبا ن نئی دہلی
4)) ماحولیاتی سائنس (ماحولیات کے بنیادی تصورات) ڈاکٹر شازلی حسن خاں(ایجوکیشنل بُک ہاؤس علی گڑھ)
(5) فہم الفلکیات(مکتبہ دارالعلوم کراچی)


E.R Mohd Adil
H No. 4/114, Jagjeevan Colony Naglah Mallah
Civil Line Aligarh - 202002 
Mob.: 9358856606
Email.: mohdadil75@yahoo.com

اردو دنیا۔ شمارہ  اگست    2018





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں