18/12/18

اردو میں بچوں کا تمثیلی ادب۔ مضمون نگار:۔ رضاء الرحمن عاکف







اردو میں بچوںکا تمثیلی ادب
رضاء الرحمن عاکف

انسان فطری اعتبار سے ہر اس چیز کی طرف راغب ہوتا ہے جس کا تعلق اس کی دنیا سے نہ ہو کر خیالی و تصوراتی چیزوں سے ہو۔ اسی وجہ سے زمانۂ قدیم سے ہی اس کا رجحان بعید از عقل اور مافوق الفطرت عناصر کی طرف زیادہ ہی رہا ہے۔ اردو ادب میں گلِ بکاؤلی،حاتم طائی، داستانِ امیر حمزہ، فسانۂ عجائب، باغ و بہار اور الف لیلیٰ بطور مثال پیش کی جا سکتی ہیں۔ اسی طرح امراؤ جان ادا اور انار کلی کو بھی اس ضمن میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے کردار اگرچہ انسانی ہیں۔ مگر داستان محض خیالی ہے۔ نثر کے ساتھ ہی نظم میں بھی اس کی مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ جن میں مثنوی گلزار نسیم، سحر البیان، طوطی نامہ، پھول بن، بہارِ عشق وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر انسانی کرداروں کے ذریعے کوئی بات انھیں سمجھائی جائے تو نہ تو وہ اس میں دلچسپی ہی لیتے ہیں اور نہ ہی وہ بات ان کی سمجھ میں آتی ہے۔ بر خلاف اس کے اگر وہی بات پریوں کی کہانیوں یا جانوروں کے کرداروں پر مشتمل کسی تمثیل کی شکل میں ان کے سامنے پیش کی جائے تو وہ ان کی طرف پوری توجہ و دلجمعی کے ساتھ ملتفت ہو جاتے ہیں اور اسی دلچسپی کی بناء پر وہ بات ان کی سمجھ میں بآسانی اور بہتر طریقے سے آ جاتی ہے۔ وہ اس کو نہ صرف سمجھتے ہی ہیں بلکہ اس پر عمل کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح اس کو خاطر خواہ مقبولیت حاصل ہو جاتی ہے۔ تمثیلی ادب کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ دنیا کی بیشتر زبانوں کے ادب میں تحقیق و تنقید، سوانح و تذکروں اور تاریخ و سیر سے کہیں زیادہ فکشن کو مقبولیت حاصل رہی ہے اور دیگر اصناف ادب سے کہیں زیادہ افسانوی ادب کا ذخیرہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ڈرامے، افسانے، ناول، داستانیں اور قصے کہانیاں اتنی تعداد میں لکھی گئی ہیں جن کا عشر عشیر بھی دیگر اور اصناف میں نظر نہیں آتا۔ اردو میں سنسکرت سے بے تال پچیسی، عربی سے الف لیلیٰ اور فارسی ادب سے باغ و بہار، فسانہ عجائب، کلیلہ و دمنہ اور بہت سی کتابیں آئی ہیں جن کی مقبولیت روزِ روشن کی طرح سب پر عیاں ہے۔ افسانوی ادب کے اسی قبیل میں روایتی ادب (لوک ادب) بھی آتا ہے۔ جس میں دنیائے ارضی کے کسی خاص علاقے، خطے، قوم و قبیلے یا تہذیب و تمدن کے حوالے سے مخصوص و روایتی کہانیاں اور شاعری شامل کی جا سکتی ہے۔ اس سے بھی ادب میں انسانی فطرت اور عادات و اطوار کی اہمیت کو سمجھا جا سکتا ہے۔
تمثیلی کرداروں پر مشتمل اس طرح کی کہانیوں میں جانور، پرندے، کیڑے مکوڑے، جن، دیواورپریاں انسانوں کی طرح باتیں کرتے، کام کرتے اور دیگر سبھی انسانوں کی طرح حرکتیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایسی کہانیاں پڑھتے یا سنتے ہوئے بچے ایک عجیب اور نئی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں اور خود کو بھی انہی کا ایک جز سمجھنے لگتے ہیں۔ اس وقت انھیں حیرت، تجسس اور استعجاب کے ساتھ ہی ایک طرح کا لطف بھی حاصل ہوتا ہے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہ کہانیاں سو، پچاس سال نہیں بلکہ صدیوں سے ہمارے معاشرے میں سنی اور پڑھی جاتی رہی ہیں۔ اور بچے تو بچے بڑے بھی ان سے ایک خاص طرح کا حظ و لطف حاصل کرتے رہے ہیں۔ ہر چند کہ ان کہانیوں کو سننے اور پڑھنے والے اس حقیقت سے بخوبی واقف ہوا کرتے ہیں کہ جانور و پریوں اور جنات و کیڑوں مکوڑوں پر مشتمل یہ کردار نہ تو کہانی میں بیان کردہ مکالمات کے مطابق باتیں ہی کر سکتے ہیں نہ اس طرح کی حرکات ان سے صادر ہو سکتی ہیں۔ مگر اس کے باوجود وہ ان میں زبردست دلچسپی لیا کرتے ہیں جو ان کہانیوں کی مقبولیت کی واضح دلیل ہے۔
اس طرح کی کہانیوں کو اہلِ فن نے فیبل اور پیرابل کے نام سے دو اقسام پر تقسیم کیا ہے۔ اس اصطلاح کے مطابق جانوروں کے کرداروں پر مشتمل کہانیوں کو فیبل کہا جاتا ہے۔ دراصل فیبل بنیادی اور وسیع معنوں میں ایک فرضی قصے یا واقعے کا بیان ہے۔ محدود معنوں میں یہ لفظ مقصد کے مترادف ہے۔ اور نظم و نثر کے ایک مجمل بیان پر دلالت کرتا ہے، جس کا مقصد پڑھنے یا سننے والے کو ایک اخلاقی و مفید سبق دینا ہوتا ہے۔ اس کے کردار زیادہ تر تو جانور ہی ہوا کرتے ہیں۔البتہ غیر ذی روح اشیاء اور دیو، پری بھی ہو سکتے ہیں۔ اس طرح کے قصے، کہانیوں میں حیوان یا بے جان چیزیں اخلاقی تلقین کے لیے آدمی کی طرح بولتے اور کام کرتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں۔ جبکہ پیرابل میں تقابلی دلیل سے کوئی بات ثابت کی جاتی ہے۔ ان میں عموماََ جانور کسی کی نمائندگی نہیں کرتے۔ اور وہ بطور حیوان ہی استعمال ہوتے ہیں۔ اس طرح کی کہانیوں میں انسانی کردار بھی ہو سکتے ہیں۔ مگر وہ عام طور پر بلند اخلاقی سطح پر ہوتے ہیں۔ پیرابل کو اور دوسری شکلوں مثلاََ طلسماتی کہانیوں اور عہد وسطیٰ کی روایات سے ممیز کیا گیا ہے۔ اس میں تمثیل شکل سے ہی ہوتی ہے۔ اور قصہ پن نہیں ہوتا بلکہ اخلاقی تلقین غالب رہا کرتی ہے۔ اسی لیے اس کو تمثیل نگاری کے ان معنوں میں نہیں لیا جا تا جو ہماری اس تحریر کا اصل موضوع ہے۔ لہٰذا اب ہم پیرابل کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی بحث کو صرف فیبل پر ہی مرکوز رکھیں گے اور اسی کے ضمن میں کچھ عرض کرنا چاہیں گے۔
اہلِ فن فیبل کو ہی تمثیل کے ضمن میں لاتے ہیں۔ ان میں اس طرح کی تمثیل ہو سکتی ہیں جن میں جانوروں کے کردار انسانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہاں ان میں قصے کی دو سطحیں ہو سکتی ہیں۔ ایک جن میں تمثیل نگاری کی واضح نشان دہی کی گئی ہو۔ اور دوسری جن میں تمثیل کا واضح نشان تو نہ ہو مگر آخر میں جا کر مصنف کے کہنے پر یہ معنی واضح ہوں تب بھی اس میں تمثیلیت بر قرار رہے گی اور اس طرح کی کہانیوں کو بھی فیبل کے ضمن میں رکھا جائے گا۔ فیبل کی اور بھی کچھ قسمیں ہو سکتی ہیں۔ جن میں ایسی حکایات بھی ہو سکتی ہیں جن میں جانور محض حیوان کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں تو کچھ کہانیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں جانوروں کو انسانوں کی طرح کام کرتے ہوئے دکھایا جا تا ہے۔ اس طرح کی کہانیوں کی عمدہ مثال کلیلہ و دمنہ کی کہانیاں ہیں۔ جن میں شیر، بیل اور گیدڑ وغیرہ کو انسانوں کی طرح حرکت کرتے اور کام انجام دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ان کہانیوں میں جانوروں کا باقاعدہ دربار لگتا ہے۔ قاضی کی عدالت قائم ہوتی ہے۔ مقدمے ہوتے ہیں۔ قید و زنداں کا وجود بھی ہے۔ مجلس شوریٰ منعقد ہوتی ہے۔ غرض کہ ہر وہ کام انجام دیا جاتا ہے جو انسانی دنیا کا خاصہ ہے۔ غرض یہ کہ اس طرح کی کہانیوں میں حیوانات کے پردے میں انسانوں کو حکمت و دانائی اور غور و فکر کی دعوت دی جاتی ہے۔ اس میں فوق الفطرت عناصر اس قدر غالب ہوتے ہیں کہ جانور نہ صرف انسانوں کی طرح بولتے اور حرکت کرتے ہیں، بلکہ اخلاق و دانائی اور تدبر و غور و فکر سے بھی کام لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ زیرِ نظر تحریر میں ایسی ہی کہانیوں کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ جو تمثیل نگاری کی عمدہ مثال ہیں۔
بچوں کے لیے لکھی گئی اس طرح کی کتابوں کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ ان کے کردار خواہ کتنے ہی فرضی یا تخیلاتی ہوں مگر وہ بچوں پر اثر انداز ضرور ہوا کرتے ہیں۔ کیوں وہ ان کے لیے غور و فکر کے ساتھ ہی تجربوں کے مواقع بھی فراہم کرتی ہیں۔ فطری بات ہے کہ جب بچہ کسی کتاب کو پڑھ کر لطف حاصل کرتا ہے تو وہ اس میں دلچسپی بھی لے گا اور پھر غور و خوض کی بنیاد پر اس سے کچھ حاصل کرنے کی بھی کوشش کرے گا۔ اس طرح آگے چل کر اس میں نئے احساسات سے لطف اندوز ہونے اور نئے نئے خیالات کو سمجھنے کی صلاحیت بھی پیدا ہوگی۔ بچوں کے ادب کی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے پر پتہ چلتا ہے کہ تمثیلات پر مشتمل اس طرح کی کتابیں ہر دور میں ہی مقبول رہی ہیں اور ان سے نہ صرف سطحی طرح کا لطف اور تفریح حاصل کی جاتی رہی ہے، بلکہ اخلاقی و تہذیبی فوائد بھی حاصل کیے جاتے رہے ہیں۔ اس طرح کی کتابوں میں اخلاق و تہذیب کے ساتھ ہی پند و نصائح سے بھر پور کتابیں بھی لکھی گئیں اور ان سے بچوں نے زبردست فائدے بھی حاصل کیے۔ بہرحال کردار خواہ کچھ بھی ہوں، مگر بچوں کے حوالے سے اچھا ادب وہی قرار دیا جا سکتا ہے جس کو بچے دلچسپی کے ساتھ پڑھیں اور وہ بچے کے ذہن و دل کو متاثر بھی کرے، کچھ کر گزرنے کی امنگ اور جوش ان کے اندر پیدا کر دے اور دل کے اندر ولولے بھر دے، اور اس کے مطالعے سے اس کو سچی خوشی اور جوش و ولولہ حاصل ہو۔ تمثیلات پر مشتمل ان کتابوں میں یہی خوبی ہے کہ وہ بچوں کے اندر اس طرح کی خوبیاں پیدا و بیدار کرتی ہیں۔ اور ان کی اخلاقی و ذہنی نشو و نما میں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ 
اسی طرح بچوں کے لیے بھی لکھی جانے والی وہی کتابیں مقبول ہوتی ہیں جو بچوں کی نفسیات، دلچسپی اور صلاحیت کو ملحوظ خاطر رکھ کر لکھی جاتی ہیں۔ چنانچہ یہاں بھی دقیق و عمیق مضامین سے ہٹ کر ہلکی پھلکی تحریر اور آسان زبان میں پریوں اور جادو کی کہانیاں، نظمیں اور گیت، ڈرامے کامکس، سیر و سیاحت اور مہماتی انداز میں لکھی ہوئی کتابیں زیادہ مقبول ہوئی ہیں۔ دیکھا یہ بھی گیا ہے کہ بچے اکثر وہی کتابیں پسند کرتے ہیں جن میں مافوق الفطرت واقعات و کردار ہوں جو جن، پری، دیو اور حیوانی کردار پر مشتمل ہوں۔ جن میں جنگل اور پہاڑوں کا ذکر ہو، ہولناک اور خونخوار جانوروں کو لڑتے اور باتیں کرتے ہوئے دکھایا گیا ہو۔ یعنی ہر وہ چیز جو خیالی یا تصوراتی بنیادوں پر استوار ہو، فطری طور پر بچوں کو اچھی لگا کرتی ہے اور بچے اس میں کچھ زیادہ ہی دلچسپی لیا کرتے ہیں۔
تمثیلی ادب کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس سے جانوروں کی فطرت و عادات سے انسانوں کو آگاہی ہوتی ہے۔ اور وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ طوطا ایک بے وفا جانور ہے۔ اسی وجہ سے محاورہ ’طوطا چشم‘ مشہور ہو گیا اور ہمارے ادب میں طوطے کی مثال ایسے شخص سے کی جانے لگی جو مطلبی، خود غرض اور لالچی ہو۔ لومڑی کو چالاک اور ذہین تسلیم کیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے ذہین و فطین شخص کی مثال لومڑی سے دی جاتی ہے۔ کوّے کو لالچی اور مکار مانا گیا ہے۔ چنانچہ اس صفت کے حامل انسان کی مثال کوّے سے دی جاتی ہے۔ الّو کو منحوس اور تباہی و بربادی لانے والا سمجھا گیا ہے۔ اسی وجہ سے محاورہ ’الو بول جانا‘ وضع کیا گیا ہے۔ چنانچہ جو انسان تباہی و بربادی پھیلاتا ہے، اس کو الو سے مثال دی جاتی ہے۔ اس طرح کی اور بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں، جو ہمارے دعوے کی دلیل ہیں۔ انھیں تمثیلات سے متعلق کچھ مثالیں اس طرح ہیں۔ بھیڑ چال، گیدڑ بھپکی، شیر کی بہادری، لومڑی کی ذہانت، طوطے کی بے وفائی، کوّے کی مکاری، فاختہ کا بھولا پن، گائے کی معصومیت، بھیڑیے کی درندگی اور گلہری کی معصومیت وغیرہ۔
اس مضمون کے موضوع کی رعایت سے اب یہاں ہم بچوں کے ادب پر اس حیثیت سے قدرے تفصیلی روشنی ڈالنی چاہیں گے، جس سے ہمارے قارئین کو ادب اطفال میں تمثیلی کرداروں کی اہمیت کا مزیداندازہ ہو سکے۔ بچے چونکہ معصوم ہوا کرتے ہیں، اس وجہ سے بھاری بھرکم کردار پیچیدہ اور الجھے ہوئے مضامین، تحقیقی اور زیادہ غور و خوض والی دقیق و ثقیل باتیں ان کی سمجھ میں نہیں آیا کرتیں۔ نہ تو ان کی طرف ان کا فطری رجحان ہی ہوا کرتا ہے اور نہ ہی ان کی ذہانت و استعداد اس کی اجازت دیتی ہیں۔ بلکہ وہ تو ہلکی پھلکی باتیں، مزاحیہ کردار، چھوٹے چھوٹے واقعات (جو تمثیلی انداز میں پیش کیے گئے ہوں) ان کی طرف جلد راغب ہوتے ہیں اور پورے انہماک و لگن کے ساتھ اس کو پڑھنے اور سننے میں لگ جاتے ہیں۔ان چیزوں کی مقبولیت خواندہ اور ناخواندہ دونوں ہی طرح کے بچوں میں ہوتی ہے۔ کیونکہ تعلیم سے وابستہ بچے جہاں ایسی چیزیں پڑھتے ہیں وہیں اسکول نہ جانے والے بچے ایسی کہانیاں سننے میں خوب دلچسپی لیتے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کہانیاں سننے اور سنانے کا چلن قدیم زمانے سے ہی رہا ہے اور دادی و نانی کی کہانیاں پہلے سے ہی بچوں میں خوب مقبول رہی ہیں۔
بچوں کے لیے تمثیلی ادب کو مزید واضح کرنے کے لیے یہاں کہانیوں کی شکل میں ہم کچھ اور مثالیں پیش کرنا چاہیں گے۔ ایک کہانی جو ہم نے ابتدائی درجات کی نصابی کتاب میں ’ایک کسان اور اس کے سات بیٹے‘ کے عنوان سے پڑھی تھی۔ اس کہانی میں ایک ایسے کسان کی کہانی ہے جس کے سات بیٹے تھے۔ وہ آپس میں لڑتے رہتے تھے۔ جس سے کسان کو بڑا رنج اور تکلیف تھی۔ ایک دن اس نے ایک ترکیب سوچی اور اپنے ساتوں لڑکوں کو بلا کر ایک گٹھر جس میں سات لکڑیاں ایک ساتھ بندھی ہوئی تھیں۔ باری باری سے ہر ایک لڑکے کو توڑنے کے ارادے سے دیا۔ سب نے اپنے اپنے طور سے پوری کوشش کی مگر وہ انھیں توڑ نہ سکے۔ پھر کسان نے ان کو الگ الگ کر دیا اور ایک ایک لکڑی ہر ایک لڑکے کو دی۔ اور انھیں توڑنے کو کہا۔ اس بار سب نے بآسانی اپنی اپنی لکڑی کو توڑ دیا۔ کسان تو چاہتا ہی یہی تھا۔ اس نے اپنے لڑکوں سے کہا۔ یہ ساتوں لکڑیاں سمجھ لو تم ہی ہو۔ جب تک یہ ساتھ رہیں تم انھیں توڑ نہ سکے۔ اسی طرح میرے بچو! اگر تم سب مل جل کر ساتھ رہے تو کوئی تمھیں ہرا نہیں سکتا اور تم کو کسی طرح کا نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ اگر تم الگ الگ ہو گئے تو پھر ہر کوئی تم پر حاوی ہو جائے گااور تمھیں نقصان اٹھانا پڑے گا۔
یہ کہانی ایک عمدہ تمثیل جو لکڑیوں کی شکل میں ہے کی وجہ سے اس قدر دلچسپ اور سبق آموز بن گئی ہے کہ اتحاد پر اس سے زیادہ بہتر کہانی شاید ہی کوئی اور ہو جو بچوں کی نازک طبیعت اور سادہ سے ذہن پر پوری طرح اثر انداز ہونے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ اس وجہ سے بچوں میں پوری طرح مقبول و معروف ہے۔ اور علمی و ادبی حلقوں کے ساتھ ہی عوام میں بھی اپنی اہمیت تسلیم کرا چکی ہے۔
اسی طرح کی ایک اور کہانی ’کچھوے اور خرگوش‘ کی ہے، جس کے مطابق کچھوے اور خرگوش میں دوڑ کا مقابلہ ہوتا ہے۔ خرگوش کو اپنی تیز رفتار پر زعم ہے اور اسی غلط فہمی کی وجہ سے وہ راستے میں سستانے لگتا ہے۔ جبکہ کچھوااپنی سست رفتاری کے باوجود مسلسل چلتا ہی رہتا ہے۔ راستے میں کہیں رکتا نہیں اور کسی بھی طرح سے سستی و کاہلی کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ نتیجتاً وہ کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے، اور بازی جیت لیتا ہے۔ کچھوے کی تمثیل کی شکل میں یہاں وہ لوگ مراد ہیں جو محنت، جدو جہد اور کام میں باقاعدگی اور تسلسل کے قائل ہیں اور مسلسل کوشش کرتے رہتے ہیں اور کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ جبکہ خرگوش کی تمثیل ایسے لوگوں کی ہے جو طاقتور ہونے کے ساتھ ہی باصلاحیت اور مکمل خوبیوں سے مالامال تو ہیں مگر ان کے کام میں تسلسل اور باقاعدگی نہیں، جس کی وجہ سے وہ کم ہی کام کر پاتے ہیں اور کامیاب نہیں ہو پاتے۔
بہترین تمثیل کے طور پر ایک اور کہانی ’گلہری اور کوّے‘ کی ہے۔ اس کہانی میں گلہری اور کوّا مل کر کھیتی کرتے ہیں، جس میں گلہری کھیت کے تعلق سے تمام کام کرتی ہے مگر کوّا ہر موقع پر کوئی خوبصورت بہانا بنا کر اس کام سے خود کو بچا لیتا ہے۔ اسی طرح کھیتی کا تمام کام پورا ہو جاتا ہے اور فصل تیار ہو جاتی ہے۔ اب فصل کاٹنے کا وقت آتا ہے۔ تو اپنی کاہلی کی وجہ سے اس بار بھی کوّا کھیت پر نہیں جاپاتا اور اس کا اناج برباد ہو جاتا ہے۔ مگر گلہری اپنا اناج گھر پر لے آتی ہے۔ اس کہانی کی تمثیلات میں گلہری سے وہ لوگ مراد ہیں جو اپنی ذمے داریوں کو بخوبی سمجھتے ہیں اور وقت پر سارے کام انجام دیتے ہیں۔ اور کوّے کی مثال ایسے لوگوں کی ہے جو کاہلی اور کام چوری کو اپنی عادت بنا لیتے ہیں اور جھوٹے سچے بہانے بنا کر کام سے دور ہی رہا کرتے ہیں۔ اور آخر میں زبردست نقصان اٹھاتے ہیں۔
یہاں تمثیلات کی بہترین مثال کے طور پر ایک کہانی ’دو بلیاں اور بندر‘ کی بھی ہے۔ جس میں دو بلیاں کہیں سے ایک روٹی لے آتی ہیں۔ اور آپس میں تقسیم کرنا چاہتی ہیں۔ مگر دونوں ہی تقسیم پر مطمئن نہیں ہو پاتی ہیں۔ پھر وہاں ایک بندر آ جاتا ہے۔ اور بلیوں کی نادانی سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ وہ اس روٹی کو دونوں میں تقسیم کرنے کا ڈرامہ کرتا ہے۔ روٹی کو چھوٹے بڑے دو ٹکڑے کر کے انھیں ترازو میں رکھتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے تقسیم برابر نہیں ہوتی ترازو کا ایک پلہ جھک جاتا ہے۔ پھر جھکے ہوئے پلے کی روٹی سے ایک ٹکڑا توڑتا ہے اور کھا جاتا ہے۔ اب دوسرا پلہ جھک جاتا ہے۔ اسی طرح کی ڈرامے بازی وہ کرتا ہی رہتا ہے اور بلیوں کی پوری ہی روٹی ہضم کر جاتا ہے۔ بلیاں آخر تک اس کی مکاری کو نہیں سمجھ پاتیں، آخر میں پچھتاتی ہیں۔
اس کہانی کے کرداروں میں بلیاں سماج کے سیدھے سادے لوگوں کی تمثیل ہے۔ جبکہ بندر چالاک و مکار لوگوں کی مثال ہے۔ یقیناًہمارے سماج میں ایسے لوگ ہیں جو سیدھے سادے اور بھولے بھالے لوگوں کی رقم و املاک بندر کی طرح ہڑپ کر جاتے ہیں۔اس کہانی میں جہاں بندر کی مکاری واضح ہوتی ہے وہیں بلیوں کی آپسی نا اتفاقی بھی ظاہر ہوتی ہے۔ یقیناًاگر وہ اپنی تقسیم پر راضی ہو جاتیں تو انھیں نقصان نہ اٹھانا پڑتا۔ سماج کے بھولے بھالے لوگوں کے لیے یہ تمثیل عمدہ نصیحت ہے۔
آخر میں تمثیلی سلسلے میں ’لومڑی‘ کی ایک کہانی اور پیش کرنا چاہوں گا۔ جس میں ایک لومڑی کا گذر ایسی جگہ سے ہوتا ہے، جہاں انگور کی بیل ہے اور اس پر انگور لگے ہوئے ہیں۔ انہیں دیکھ کر لومڑی کے منھ میں پانی بھر آتا ہے۔ وہ انھیں کھانے کے لیے کافی اچھل کود کرتی ہے۔ مگر بیل اونچی ہونے کی وجہ سے انگور اس کے ہاتھ نہیں آتے اور وہ تھک ہار کر بیٹھ جاتی ہے۔ مگر چالاک اتنی ہے کہ اپنی عدم صلاحیتی کو اس ناکامی کی اصل وجہ تسلیم نہیں کرتی بلکہ انگوروں کو ہی کھٹا بتانے لگتی ہے۔ یہاں پر لومڑی کی تمثیل ایسے لوگوں کی ہے جو کسی کام میں کامیابی نہ ملنے کو اپنی عدم اہلیت تسلیم نہیں کرتے بلکہ دوسروں کو مورد الزام قرار دیتے ہیں۔ یہ کہانی ایک بہترین نظم کی شکل میں ہے۔ اور بہت مقبول و معروف ہے۔ 
متذکرہ بالا تمام کہانیوں سے تمثیلی ادب خاص کر بچوں کے لیے تمثیلی ادب کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اور ان کی مقبولیت کا ثبوت یہ ہے کہ اس طرح کی کہانیاں دنیا کی ہر جیتی جاگتی زبان میں دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔ اور یہ کہانیاں کسی خاص زبان یا ادب کی میراث نہیں بلکہ ان کو کثیر لسانی اور مختلف تہذیبوں کی میراث قرار دیا جا سکتا ہے۔ ہم چونکہ اردو کے قلم کار ہیں اور اردو ادب کے حوالے سے ہی ہم نے ان کا مطالعہ کیا ہے۔ اسی مناسبت سے ہم ان کو اردو کے تناظر میں دیکھتے ہوئے ان کو اردو کے تمثیلی ادب کا حصہ قرار دیتے ہیں۔

Dr. Razaurraman Akif
Mian Sarai, Katra Bazar
Sambhal - 244302 (UP)

اردو دنیا۔ شمارہ  اگست    2018




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں